Adultery بھوک

Newbie
12
13
3
اسکا کیا قصور تھا؟
کیا اسکی بھوک اسکا قصور تھا؟
یا وہ انسانی بے حسی اسکا قصور ٹہری جسے آسمانی آفت کا نام دے دیا گیا تھا؟
یہ تو شاید اس بیچاری کو خود بھی معلوم نہیں ہوگا۔
بارشیں تو ہر سال ہی آتیں تھیں، مگر اس بار بارشیں اس زور سے برسیں تھیں کہ جیسے اب کے بعد کبھی نہ برسیں گی، مسلسل بارشوں کے نتیجے میں دریاوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی، دریا کے دونوں اطراف آس پاس جتنے بھی گاوں آباد تھے ان سب کو انتظامیہ نے سیلاب کا الرٹ جاری کردیا تھا۔ جس کے بعد کچھ لوگوں نے نقل مکانی کی تیاری شروع کردیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سیلابی ریلا بغیر کوئی تباہی پھیلائے دریا سے گذر جائیگا اور نقل مکانی کی ضرورت پیش نہیں آئیگی، اسکا بابا بھی انھیں لوگوں میں شامل تھا جسکا خیال تھا کہ انھیں نقل مکانی نہیں کرنی پڑیگی، مگر اسکا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور گاوں سیلاب میں ڈوب گیا،
ہر آفت آسمانی نہیں ہوتی کچھ آفات کا سبب انسان بھی ہوتا ہے، اس گاوں پر آنے والی یہ سیلابی آفت بھی ایک انسانی بے حسی کا نتیجہ تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ آگے کے گاوں کے ایک چوہدری نے جو سیاسی اثر رسوخ کا حامل بھی تھا اپنی زرعی زمینوں کو سیلاب سے بچانے کیلئے دریا میں عین اس جگہ کٹ لگوادیا تھا جہاں اسکا گاوں آباد تھا۔ جس سے اس با اثر شخص کی اپنی زمینیں تو بچ گئیں تھیں مگر آس پاس کے گاوں کے ہزاروں غریب بے گھر ہوگئے تھے، لوگوں کو راتوں رات گاوُں چھوڑنا پڑا، وہ بھی اپنے بابا کا ہاتھ تھامے اپنی ماں اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کے ہمراہ گاوُں سے نکل پڑی۔ ان غریبوں کے پاس کچی چار دیواری اور دوچار بھیڑ بکریوں کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے وہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا، جس کے ہاتھ جو لگا وہ لیکر نکل گیا۔ آرمی کیجانب سے لوگوں کو گاوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچانے کیلئے بھرپور مدد فراہم کی جارہی تھی۔ سلیوٹ ہے قوم کے ان فوجی جوانوں کو جو ہر مصیبت کے موقع پر قوم کی مدد کیلئے سینہ سپر رہتے ہیں۔ رحیماں بھی اپنے خاندان کی ساتھ قریبی شہر میں قائم ایک فلڈ ریلیف کیمپ میں پہنچا دی گئی۔
اس ریلیف کیمپ کا حال بھی ویسا ہی تھا جیسے کہ عام طور پر ہوتا ہے۔ کبھی انھیں کھانا ملتا اور کبھی کئی کئی وقت بھوکا رہنا پڑتا، ایسے میں کبھی کسی این جی او کی گاڑی آجاتی توکھانا پانی اور راشن مل جاتا تھا یا پھر کبھی سرکاری افسران کیمپ کا دورہ کرنے آتے تو کیمپ اور اسکے اطراف کی صفائی بھی ہوجاتی اور انھیں اچھا کھانا، اور کپڑے بھی فراہم کئے جاتے، دورے پر آئے عہدیداران و افسران انکے ساتھ فوٹو سیشن کراتے، اور پھر انکے جانے کے بعد واپس سب پہلے جیسا ہوجاتا۔۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ختم ہونے لگا، بھوک کا دورانیہ بڑھنے لگا تو لوگ اپنے طور پر کیمپ چھوڑ کر قریبی شہروں کا رُخ کرنے لگے۔ چودہ سال کی رحیماں بھی اپنے خاندان کیساتھ شہر آگئی، یہ سوچ کر کہ شہر تو غریب پرور ہوتے ہیں شاید انھیں بھی یہاں بھوکا سونا نہیں پڑے گا، شہر میں ایک بڑے پارک کے عقب میں انھوں نے اپنا پڑاو ڈال لیا۔ یہاں انکی طرح سینکڑوں لوگ تھے جنھوں نے اس پارک کی پچھلی طرف کو اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔ کیمپ کے مقابلے میں یہاں تھوڑی سہولت تھی ، اکثر کوئی نا کوئی گاڑی آتی اور ان متاثرین میں کبھی کوئی چاولوں کی دیگ تقسیم کرتا کبھی کوئی پرانے کپڑے لے آتا اور کبھی کوئی روپے پیسے تقسیم کرجاتا۔ جب بھی ایسی کوئی گاڑی آتی یہ لوگ اس گاڑی کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ وہ تقسیم کی جانے والی چیز زیادہ سے زیادہ حاصل کرلے۔ ایک ہلڑ بازی سی مچ جاتی تھی، اس دن بھی یہی ہوا تھا۔ دو دن سے وہاں کسی بھی این جی او کی طرف سے کوئی امداد یا کھانا تقسیم نہیں کیا گیا تھا جس کیوجہ سے وہ اور اسکے بہن بھائی کل صبح سے بھوکے تھے، اور اب بابا کھانے کی تلاش میں کہیں نکلے ہوئے تھے، ایسے میں ایک بڑی سی گاڑی وہاں آکر رکی، گاڑی کا دروازہ کھلا، گاڑی میں راشن بیگز بھرے ہوئے تھے جن پر نظر پڑتے ہی گاڑی کے گرد فوراً لوگوں بھیڑ اکھٹی ہوگئی، بھوک سے مجبور وہ بھی اس بھیڑ کا حصہ بن گئی، وہ ایک کمزور سی بچی تھی، اوپر سے ایک دن کی بھوکی، اسکے ہاتھ کیا آنا تھا؟ وہ جب بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتی بھیڑ میں سے کوئی نہ کوئی مظبوط ہاتھ اسے پھر سے پیچھے دھکیل دیتا، دیکھتے ہی دیکھتے راشن بیگز ختم ہوگئے اور وہ اس دھکم پیل میں خالی ہاتھ رہ گئی۔ اسکی معصوم آنکھوں میں آنسو آگئے۔ گاڑی واپس جا چکی تھی وہ اداس قدموں سے چلتی ہوئی پارک سے متصل مارکیٹ کی پارکنگ کی طرف آنکلی کہ شاید وہاں کوئی نیک بندہ اسے کھانے کیلئے کچھ دیدے جس سے وہ اپنا اور اپنے چھوٹے بہن بھائی کا پیٹ بھر سکے۔ پارکنگ میں کئی گاڑیاں کھڑی تھیں، کاش ان میں سے کوئی کھانا یا راشن بانٹنے والی گاڑی بھی ہوتی۔ وہ بھوک کے احساس تلے ایک گاڑی کے پاس جا کر اسے تکنے لگی۔ گاڑی کا شیشہ نیچے اترا، گاڑی میں دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک دس کا نوٹ نکال کر اسکی طرف بڑھا دیا۔ اس نے نوٹ ہاتھ میں لیا اور نوٹ کو خالی نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے نوٹ واپس اس آدمی کو لوٹادیا۔
یہ نہیں چاہئے۔۔وہ کمزور سی آواز میں بولی۔
پھر کیا چاہئے؟ دوسرے آدمی نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
کھک کھانا۔۔کھاناچاہئے۔۔
کیا؟ کھانا چاہئے؟ پہلے آدمی تعجب سے بولا
دوسرا شخص جو بڑی گہری نظروں سے اسکے جسم کا جائزہ لے رہا تھا، بولا
کھانا تو ہمارے پاس نہیں ہے لیکن ہمارے ساتھ چلو ہم تمھیں کھانا دلادیتے ہیں، پہلے شخص نے ایک نظر اپنے ساتھی کی طرف دیکھا، آنکھوں میں اشارے ہوئے اور وہ دونوں مسکرا دئے۔
چلو آجاو تمہیں کھانا بھی دلاتے ہیں اور کپڑے بھی۔
اور وہ بے چاری کل صبح کی خالی پیٹ، بھوک کا احساس لئے اس بڑی سی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
خالی سیٹ پر بیٹھا شخص آگے سے اتر کر پیچھے اسکے ساتھ آ بیٹھا، گاڑی روانہ ہوتے ہی دروازوں کے کالے شیشے اوپر چڑھ گئے۔
گاڑی پارکنگ سے نکل کر جیسے ہی سنسان روڈ پر آئی تو ساتھ بیٹھے شخص نے اچانک نیچے ہاتھ ڈال اسکو پاوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچ لیا۔ وہ دھڑام سے سیٹ پر لیٹنے کے سے انداز میں گر گئی اور پھر چلتی گاڑی میں ہی ظلم و بربریت کا ایک سفاکانہ سلوک اس کمزور سی بچی کیساتھ شروع ہوگیا جو کئی پہروں سے بھوکی تھی، مگر ان درندوں کی جنسی بھوک کے آگے اسکی بھوک کی کوئی اہمیت نہیں تھی، وہ چیختی رہی چلاتی رہی، مگر اسکی کربناک چیخیں گاڑی کے کالے بند شیشوں سے ٹکرا کر تیز میوزک کے شور میں گم ہورہیں تھیں۔
گاڑی اب سنسان سڑک سے اتر کر کچے میں کافی اندر جاکر کھڑی ہوگئی تھی، پچھلے حصے سے پہلا شخص اتر کر اب ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا اور دوسرا شخص گاڑی کے پچھلے حصے میں سوار ہوگیا جہاں سیٹ پر بھوکی رحیماں نیم برہنہ حالت میں گڈ مڈ پڑی تھی۔ خون کی ایک باریک سی لکیر اسکی رانوں سے بہتی ہوئی گاڑی کی نشست میں جذب ہورہی تھی۔ دوسرے شخص کے سوار ہوتے ہی اس کا جسم ایک بار پھر اسی اذیت میں آگیا جس اذیت کا وہ کچھ منٹوں قبل شکار تھی۔ بربریت کے ایک اور شرمناک مظاہرے کے بعد جب وہ شخص بھی اس سے الگ ہوا تو ناقابل برداشت درد کے باعث وہ بے ہوش ہوچکی تھی۔
رات کے اندھیرے میں وہ گاڑی اسے نیم مردہ حالت میں ہی اسی پارکنگ کے کسی کونے میں پھینک کر فرار ہوچکی تھی۔
اگلے روز اخبارات میں ایک چھوٹی سی دو سطری خبر لگی ہوئی تھی۔

بھوک نے سیلاب سے متاثرہ اٹھارہ سالہ معصوم کی جان لے لی۔ بچی دو روز سے بھوکی تھی۔
 
Last edited by a moderator:
Newbie
10
7
3
اسکا کیا قصور تھا؟
کیا اسکی بھوک اسکا قصور تھا؟
یا وہ انسانی بے حسی اسکا قصور ٹہری جسے آسمانی آفت کا نام دے دیا گیا تھا؟
یہ تو شاید اس بیچاری کو خود بھی معلوم نہیں ہوگا۔
بارشیں تو ہر سال ہی آتیں تھیں، مگر اس بار بارشیں اس زور سے برسیں تھیں کہ جیسے اب کے بعد کبھی نہ برسیں گی، مسلسل بارشوں کے نتیجے میں دریاوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی، دریا کے دونوں اطراف آس پاس جتنے بھی گاوں آباد تھے ان سب کو انتظامیہ نے سیلاب کا الرٹ جاری کردیا تھا۔ جس کے بعد کچھ لوگوں نے نقل مکانی کی تیاری شروع کردیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سیلابی ریلا بغیر کوئی تباہی پھیلائے دریا سے گذر جائیگا اور نقل مکانی کی ضرورت پیش نہیں آئیگی، اسکا بابا بھی انھیں لوگوں میں شامل تھا جسکا خیال تھا کہ انھیں نقل مکانی نہیں کرنی پڑیگی، مگر اسکا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور گاوں سیلاب میں ڈوب گیا،
ہر آفت آسمانی نہیں ہوتی کچھ آفات کا سبب انسان بھی ہوتا ہے، اس گاوں پر آنے والی یہ سیلابی آفت بھی ایک انسانی بے حسی کا نتیجہ تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ آگے کے گاوں کے ایک چوہدری نے جو سیاسی اثر رسوخ کا حامل بھی تھا اپنی زرعی زمینوں کو سیلاب سے بچانے کیلئے دریا میں عین اس جگہ کٹ لگوادیا تھا جہاں اسکا گاوں آباد تھا۔ جس سے اس با اثر شخص کی اپنی زمینیں تو بچ گئیں تھیں مگر آس پاس کے گاوں کے ہزاروں غریب بے گھر ہوگئے تھے، لوگوں کو راتوں رات گاوُں چھوڑنا پڑا، وہ بھی اپنے بابا کا ہاتھ تھامے اپنی ماں اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کے ہمراہ گاوُں سے نکل پڑی۔ ان غریبوں کے پاس کچی چار دیواری اور دوچار بھیڑ بکریوں کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے وہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا، جس کے ہاتھ جو لگا وہ لیکر نکل گیا۔ آرمی کیجانب سے لوگوں کو گاوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچانے کیلئے بھرپور مدد فراہم کی جارہی تھی۔ سلیوٹ ہے قوم کے ان فوجی جوانوں کو جو ہر مصیبت کے موقع پر قوم کی مدد کیلئے سینہ سپر رہتے ہیں۔ رحیماں بھی اپنے خاندان کی ساتھ قریبی شہر میں قائم ایک فلڈ ریلیف کیمپ میں پہنچا دی گئی۔
اس ریلیف کیمپ کا حال بھی ویسا ہی تھا جیسے کہ عام طور پر ہوتا ہے۔ کبھی انھیں کھانا ملتا اور کبھی کئی کئی وقت بھوکا رہنا پڑتا، ایسے میں کبھی کسی این جی او کی گاڑی آجاتی توکھانا پانی اور راشن مل جاتا تھا یا پھر کبھی سرکاری افسران کیمپ کا دورہ کرنے آتے تو کیمپ اور اسکے اطراف کی صفائی بھی ہوجاتی اور انھیں اچھا کھانا، اور کپڑے بھی فراہم کئے جاتے، دورے پر آئے عہدیداران و افسران انکے ساتھ فوٹو سیشن کراتے، اور پھر انکے جانے کے بعد واپس سب پہلے جیسا ہوجاتا۔۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ختم ہونے لگا، بھوک کا دورانیہ بڑھنے لگا تو لوگ اپنے طور پر کیمپ چھوڑ کر قریبی شہروں کا رُخ کرنے لگے۔ چودہ سال کی رحیماں بھی اپنے خاندان کیساتھ شہر آگئی، یہ سوچ کر کہ شہر تو غریب پرور ہوتے ہیں شاید انھیں بھی یہاں بھوکا سونا نہیں پڑے گا، شہر میں ایک بڑے پارک کے عقب میں انھوں نے اپنا پڑاو ڈال لیا۔ یہاں انکی طرح سینکڑوں لوگ تھے جنھوں نے اس پارک کی پچھلی طرف کو اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔ کیمپ کے مقابلے میں یہاں تھوڑی سہولت تھی ، اکثر کوئی نا کوئی گاڑی آتی اور ان متاثرین میں کبھی کوئی چاولوں کی دیگ تقسیم کرتا کبھی کوئی پرانے کپڑے لے آتا اور کبھی کوئی روپے پیسے تقسیم کرجاتا۔ جب بھی ایسی کوئی گاڑی آتی یہ لوگ اس گاڑی کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ وہ تقسیم کی جانے والی چیز زیادہ سے زیادہ حاصل کرلے۔ ایک ہلڑ بازی سی مچ جاتی تھی، اس دن بھی یہی ہوا تھا۔ دو دن سے وہاں کسی بھی این جی او کی طرف سے کوئی امداد یا کھانا تقسیم نہیں کیا گیا تھا جس کیوجہ سے وہ اور اسکے بہن بھائی کل صبح سے بھوکے تھے، اور اب بابا کھانے کی تلاش میں کہیں نکلے ہوئے تھے، ایسے میں ایک بڑی سی گاڑی وہاں آکر رکی، گاڑی کا دروازہ کھلا، گاڑی میں راشن بیگز بھرے ہوئے تھے جن پر نظر پڑتے ہی گاڑی کے گرد فوراً لوگوں بھیڑ اکھٹی ہوگئی، بھوک سے مجبور وہ بھی اس بھیڑ کا حصہ بن گئی، وہ ایک کمزور سی بچی تھی، اوپر سے ایک دن کی بھوکی، اسکے ہاتھ کیا آنا تھا؟ وہ جب بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتی بھیڑ میں سے کوئی نہ کوئی مظبوط ہاتھ اسے پھر سے پیچھے دھکیل دیتا، دیکھتے ہی دیکھتے راشن بیگز ختم ہوگئے اور وہ اس دھکم پیل میں خالی ہاتھ رہ گئی۔ اسکی معصوم آنکھوں میں آنسو آگئے۔ گاڑی واپس جا چکی تھی وہ اداس قدموں سے چلتی ہوئی پارک سے متصل مارکیٹ کی پارکنگ کی طرف آنکلی کہ شاید وہاں کوئی نیک بندہ اسے کھانے کیلئے کچھ دیدے جس سے وہ اپنا اور اپنے چھوٹے بہن بھائی کا پیٹ بھر سکے۔ پارکنگ میں کئی گاڑیاں کھڑی تھیں، کاش ان میں سے کوئی کھانا یا راشن بانٹنے والی گاڑی بھی ہوتی۔ وہ بھوک کے احساس تلے ایک گاڑی کے پاس جا کر اسے تکنے لگی۔ گاڑی کا شیشہ نیچے اترا، گاڑی میں دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک دس کا نوٹ نکال کر اسکی طرف بڑھا دیا۔ اس نے نوٹ ہاتھ میں لیا اور نوٹ کو خالی نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے نوٹ واپس اس آدمی کو لوٹادیا۔
یہ نہیں چاہئے۔۔وہ کمزور سی آواز میں بولی۔
پھر کیا چاہئے؟ دوسرے آدمی نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
کھک کھانا۔۔کھاناچاہئے۔۔
کیا؟ کھانا چاہئے؟ پہلے آدمی تعجب سے بولا
دوسرا شخص جو بڑی گہری نظروں سے اسکے جسم کا جائزہ لے رہا تھا، بولا
کھانا تو ہمارے پاس نہیں ہے لیکن ہمارے ساتھ چلو ہم تمھیں کھانا دلادیتے ہیں، پہلے شخص نے ایک نظر اپنے ساتھی کی طرف دیکھا، آنکھوں میں اشارے ہوئے اور وہ دونوں مسکرا دئے۔
چلو آجاو تمہیں کھانا بھی دلاتے ہیں اور کپڑے بھی۔
اور وہ بے چاری کل صبح کی خالی پیٹ، بھوک کا احساس لئے اس بڑی سی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
خالی سیٹ پر بیٹھا شخص آگے سے اتر کر پیچھے اسکے ساتھ آ بیٹھا، گاڑی روانہ ہوتے ہی دروازوں کے کالے شیشے اوپر چڑھ گئے۔
گاڑی پارکنگ سے نکل کر جیسے ہی سنسان روڈ پر آئی تو ساتھ بیٹھے شخص نے اچانک نیچے ہاتھ ڈال اسکو پاوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچ لیا۔ وہ دھڑام سے سیٹ پر لیٹنے کے سے انداز میں گر گئی اور پھر چلتی گاڑی میں ہی ظلم و بربریت کا ایک سفاکانہ سلوک اس کمزور سی بچی کیساتھ شروع ہوگیا جو کئی پہروں سے بھوکی تھی، مگر ان درندوں کی جنسی بھوک کے آگے اسکی بھوک کی کوئی اہمیت نہیں تھی، وہ چیختی رہی چلاتی رہی، مگر اسکی کربناک چیخیں گاڑی کے کالے بند شیشوں سے ٹکرا کر تیز میوزک کے شور میں گم ہورہیں تھیں۔
گاڑی اب سنسان سڑک سے اتر کر کچے میں کافی اندر جاکر کھڑی ہوگئی تھی، پچھلے حصے سے پہلا شخص اتر کر اب ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا اور دوسرا شخص گاڑی کے پچھلے حصے میں سوار ہوگیا جہاں سیٹ پر بھوکی رحیماں نیم برہنہ حالت میں گڈ مڈ پڑی تھی۔ خون کی ایک باریک سی لکیر اسکی رانوں سے بہتی ہوئی گاڑی کی نشست میں جذب ہورہی تھی۔ دوسرے شخص کے سوار ہوتے ہی اس کا جسم ایک بار پھر اسی اذیت میں آگیا جس اذیت کا وہ کچھ منٹوں قبل شکار تھی۔ بربریت کے ایک اور شرمناک مظاہرے کے بعد جب وہ شخص بھی اس سے الگ ہوا تو ناقابل برداشت درد کے باعث وہ بے ہوش ہوچکی تھی۔
رات کے اندھیرے میں وہ گاڑی اسے نیم مردہ حالت میں ہی اسی پارکنگ کے کسی کونے میں پھینک کر فرار ہوچکی تھی۔
اگلے روز اخبارات میں ایک چھوٹی سی دو سطری خبر لگی ہوئی تھی۔

بھوک نے سیلاب سے متاثرہ چودہ سالہ معصوم کی جان لے لی۔ بچی دو روز سے بھوکی تھی۔
اس کہانی میں معاشرے کی بے حسی اور بھیانک سچائی کو کامیابی کے ساتھ الفاظ کے پیرہنِ میں سمو کر پیش کرنے کی بہترین کوشش ہے جس کیلیے اس تخلیق کی روح رواں بجا طور پر تعریف کی سزاوار ہیں
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
اسکا کیا قصور تھا؟
کیا اسکی بھوک اسکا قصور تھا؟
یا وہ انسانی بے حسی اسکا قصور ٹہری جسے آسمانی آفت کا نام دے دیا گیا تھا؟
یہ تو شاید اس بیچاری کو خود بھی معلوم نہیں ہوگا۔
بارشیں تو ہر سال ہی آتیں تھیں، مگر اس بار بارشیں اس زور سے برسیں تھیں کہ جیسے اب کے بعد کبھی نہ برسیں گی، مسلسل بارشوں کے نتیجے میں دریاوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی، دریا کے دونوں اطراف آس پاس جتنے بھی گاوں آباد تھے ان سب کو انتظامیہ نے سیلاب کا الرٹ جاری کردیا تھا۔ جس کے بعد کچھ لوگوں نے نقل مکانی کی تیاری شروع کردیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سیلابی ریلا بغیر کوئی تباہی پھیلائے دریا سے گذر جائیگا اور نقل مکانی کی ضرورت پیش نہیں آئیگی، اسکا بابا بھی انھیں لوگوں میں شامل تھا جسکا خیال تھا کہ انھیں نقل مکانی نہیں کرنی پڑیگی، مگر اسکا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور گاوں سیلاب میں ڈوب گیا،
ہر آفت آسمانی نہیں ہوتی کچھ آفات کا سبب انسان بھی ہوتا ہے، اس گاوں پر آنے والی یہ سیلابی آفت بھی ایک انسانی بے حسی کا نتیجہ تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ آگے کے گاوں کے ایک چوہدری نے جو سیاسی اثر رسوخ کا حامل بھی تھا اپنی زرعی زمینوں کو سیلاب سے بچانے کیلئے دریا میں عین اس جگہ کٹ لگوادیا تھا جہاں اسکا گاوں آباد تھا۔ جس سے اس با اثر شخص کی اپنی زمینیں تو بچ گئیں تھیں مگر آس پاس کے گاوں کے ہزاروں غریب بے گھر ہوگئے تھے، لوگوں کو راتوں رات گاوُں چھوڑنا پڑا، وہ بھی اپنے بابا کا ہاتھ تھامے اپنی ماں اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کے ہمراہ گاوُں سے نکل پڑی۔ ان غریبوں کے پاس کچی چار دیواری اور دوچار بھیڑ بکریوں کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے وہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا، جس کے ہاتھ جو لگا وہ لیکر نکل گیا۔ آرمی کیجانب سے لوگوں کو گاوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچانے کیلئے بھرپور مدد فراہم کی جارہی تھی۔ سلیوٹ ہے قوم کے ان فوجی جوانوں کو جو ہر مصیبت کے موقع پر قوم کی مدد کیلئے سینہ سپر رہتے ہیں۔ رحیماں بھی اپنے خاندان کی ساتھ قریبی شہر میں قائم ایک فلڈ ریلیف کیمپ میں پہنچا دی گئی۔
اس ریلیف کیمپ کا حال بھی ویسا ہی تھا جیسے کہ عام طور پر ہوتا ہے۔ کبھی انھیں کھانا ملتا اور کبھی کئی کئی وقت بھوکا رہنا پڑتا، ایسے میں کبھی کسی این جی او کی گاڑی آجاتی توکھانا پانی اور راشن مل جاتا تھا یا پھر کبھی سرکاری افسران کیمپ کا دورہ کرنے آتے تو کیمپ اور اسکے اطراف کی صفائی بھی ہوجاتی اور انھیں اچھا کھانا، اور کپڑے بھی فراہم کئے جاتے، دورے پر آئے عہدیداران و افسران انکے ساتھ فوٹو سیشن کراتے، اور پھر انکے جانے کے بعد واپس سب پہلے جیسا ہوجاتا۔۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ختم ہونے لگا، بھوک کا دورانیہ بڑھنے لگا تو لوگ اپنے طور پر کیمپ چھوڑ کر قریبی شہروں کا رُخ کرنے لگے۔ چودہ سال کی رحیماں بھی اپنے خاندان کیساتھ شہر آگئی، یہ سوچ کر کہ شہر تو غریب پرور ہوتے ہیں شاید انھیں بھی یہاں بھوکا سونا نہیں پڑے گا، شہر میں ایک بڑے پارک کے عقب میں انھوں نے اپنا پڑاو ڈال لیا۔ یہاں انکی طرح سینکڑوں لوگ تھے جنھوں نے اس پارک کی پچھلی طرف کو اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔ کیمپ کے مقابلے میں یہاں تھوڑی سہولت تھی ، اکثر کوئی نا کوئی گاڑی آتی اور ان متاثرین میں کبھی کوئی چاولوں کی دیگ تقسیم کرتا کبھی کوئی پرانے کپڑے لے آتا اور کبھی کوئی روپے پیسے تقسیم کرجاتا۔ جب بھی ایسی کوئی گاڑی آتی یہ لوگ اس گاڑی کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ وہ تقسیم کی جانے والی چیز زیادہ سے زیادہ حاصل کرلے۔ ایک ہلڑ بازی سی مچ جاتی تھی، اس دن بھی یہی ہوا تھا۔ دو دن سے وہاں کسی بھی این جی او کی طرف سے کوئی امداد یا کھانا تقسیم نہیں کیا گیا تھا جس کیوجہ سے وہ اور اسکے بہن بھائی کل صبح سے بھوکے تھے، اور اب بابا کھانے کی تلاش میں کہیں نکلے ہوئے تھے، ایسے میں ایک بڑی سی گاڑی وہاں آکر رکی، گاڑی کا دروازہ کھلا، گاڑی میں راشن بیگز بھرے ہوئے تھے جن پر نظر پڑتے ہی گاڑی کے گرد فوراً لوگوں بھیڑ اکھٹی ہوگئی، بھوک سے مجبور وہ بھی اس بھیڑ کا حصہ بن گئی، وہ ایک کمزور سی بچی تھی، اوپر سے ایک دن کی بھوکی، اسکے ہاتھ کیا آنا تھا؟ وہ جب بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتی بھیڑ میں سے کوئی نہ کوئی مظبوط ہاتھ اسے پھر سے پیچھے دھکیل دیتا، دیکھتے ہی دیکھتے راشن بیگز ختم ہوگئے اور وہ اس دھکم پیل میں خالی ہاتھ رہ گئی۔ اسکی معصوم آنکھوں میں آنسو آگئے۔ گاڑی واپس جا چکی تھی وہ اداس قدموں سے چلتی ہوئی پارک سے متصل مارکیٹ کی پارکنگ کی طرف آنکلی کہ شاید وہاں کوئی نیک بندہ اسے کھانے کیلئے کچھ دیدے جس سے وہ اپنا اور اپنے چھوٹے بہن بھائی کا پیٹ بھر سکے۔ پارکنگ میں کئی گاڑیاں کھڑی تھیں، کاش ان میں سے کوئی کھانا یا راشن بانٹنے والی گاڑی بھی ہوتی۔ وہ بھوک کے احساس تلے ایک گاڑی کے پاس جا کر اسے تکنے لگی۔ گاڑی کا شیشہ نیچے اترا، گاڑی میں دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک دس کا نوٹ نکال کر اسکی طرف بڑھا دیا۔ اس نے نوٹ ہاتھ میں لیا اور نوٹ کو خالی نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے نوٹ واپس اس آدمی کو لوٹادیا۔
یہ نہیں چاہئے۔۔وہ کمزور سی آواز میں بولی۔
پھر کیا چاہئے؟ دوسرے آدمی نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
کھک کھانا۔۔کھاناچاہئے۔۔
کیا؟ کھانا چاہئے؟ پہلے آدمی تعجب سے بولا
دوسرا شخص جو بڑی گہری نظروں سے اسکے جسم کا جائزہ لے رہا تھا، بولا
کھانا تو ہمارے پاس نہیں ہے لیکن ہمارے ساتھ چلو ہم تمھیں کھانا دلادیتے ہیں، پہلے شخص نے ایک نظر اپنے ساتھی کی طرف دیکھا، آنکھوں میں اشارے ہوئے اور وہ دونوں مسکرا دئے۔
چلو آجاو تمہیں کھانا بھی دلاتے ہیں اور کپڑے بھی۔
اور وہ بے چاری کل صبح کی خالی پیٹ، بھوک کا احساس لئے اس بڑی سی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
خالی سیٹ پر بیٹھا شخص آگے سے اتر کر پیچھے اسکے ساتھ آ بیٹھا، گاڑی روانہ ہوتے ہی دروازوں کے کالے شیشے اوپر چڑھ گئے۔
گاڑی پارکنگ سے نکل کر جیسے ہی سنسان روڈ پر آئی تو ساتھ بیٹھے شخص نے اچانک نیچے ہاتھ ڈال اسکو پاوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچ لیا۔ وہ دھڑام سے سیٹ پر لیٹنے کے سے انداز میں گر گئی اور پھر چلتی گاڑی میں ہی ظلم و بربریت کا ایک سفاکانہ سلوک اس کمزور سی بچی کیساتھ شروع ہوگیا جو کئی پہروں سے بھوکی تھی، مگر ان درندوں کی جنسی بھوک کے آگے اسکی بھوک کی کوئی اہمیت نہیں تھی، وہ چیختی رہی چلاتی رہی، مگر اسکی کربناک چیخیں گاڑی کے کالے بند شیشوں سے ٹکرا کر تیز میوزک کے شور میں گم ہورہیں تھیں۔
گاڑی اب سنسان سڑک سے اتر کر کچے میں کافی اندر جاکر کھڑی ہوگئی تھی، پچھلے حصے سے پہلا شخص اتر کر اب ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا اور دوسرا شخص گاڑی کے پچھلے حصے میں سوار ہوگیا جہاں سیٹ پر بھوکی رحیماں نیم برہنہ حالت میں گڈ مڈ پڑی تھی۔ خون کی ایک باریک سی لکیر اسکی رانوں سے بہتی ہوئی گاڑی کی نشست میں جذب ہورہی تھی۔ دوسرے شخص کے سوار ہوتے ہی اس کا جسم ایک بار پھر اسی اذیت میں آگیا جس اذیت کا وہ کچھ منٹوں قبل شکار تھی۔ بربریت کے ایک اور شرمناک مظاہرے کے بعد جب وہ شخص بھی اس سے الگ ہوا تو ناقابل برداشت درد کے باعث وہ بے ہوش ہوچکی تھی۔
رات کے اندھیرے میں وہ گاڑی اسے نیم مردہ حالت میں ہی اسی پارکنگ کے کسی کونے میں پھینک کر فرار ہوچکی تھی۔
اگلے روز اخبارات میں ایک چھوٹی سی دو سطری خبر لگی ہوئی تھی۔

بھوک نے سیلاب سے متاثرہ چودہ سالہ معصوم کی جان لے لی۔ بچی دو روز سے بھوکی تھی۔
بہت بہترین انداز، لیکن اس فورم ہی بچوں کی کوئ کہانی۔ جس میں ان کے ساتھ جنسی حرا سانی کی جائے وہ یہاں الاؤڈ نہیں، شکریہ،
 

Top