Horror بسیرا

.
Moderator
2,363
1,823
143
رات کا پچھلا پہر چل رہا تھا۔ہر طرف مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا ۔سناٹا بھی ایسا کہ پرسکون ہوا بھی شور مچاتی محسوس ہورہی تھی۔وقت کی گرہیں کسی حسینہ کے ریشمی بالوں کی طرح کھلتی جا رہی تھیں۔
وہ اچانک اڑان بھرتااندھیرے کی چادر کو چیرتانمودار ہوا۔۔اور بہت آہستگی سے چھت کی دیوار پر اتر گیا اِدھر چھت کے نیچے گہری نیند سوتی سارہ خوفزدہ ہو کرجاگ اٹھی۔کمرے میں تاریکی کا راج تھا۔ہاتھ کو ہاتھ سجاٸ نہ دیتا تھا۔سارہ نے گھبرا کر اپنے داٸیں جانب ہاتھ بڑھایا اس کے ہاتھ نے کسی وجود کو محسوس کیا۔وہ بے اختیار اس وجود سے لپٹ گٸ اور گہرے گہرے سانس لینے لگی
کیا ہوا"؟ اس وجود میں حرکت ہوٸ۔
"لاٸٹ جلاو"۔سارہ نے سرگوشی میں کہا
لاٸٹ کس نے بند کی ۔اس نے پوچھا
سارہ نےآہستہ سے لرزتے ہوۓ کہا
بجلی تو نہیں چلی گٸ۔اس نے خیال ظاہر کیا
صارم نے اٹھ کر لاٸٹ ان کی۔۔۔بلب جلتے ہی سارہ اٹھ کر بیٹھ گٸ اور عجیب نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔سارہ کی نظروں میں جانے ایسی کیا بات تھی کہ ایک لمحے کو اس کا دل لرز اٹھا
اس نے جلدی سے ساٸیڈ ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھا کر گلاس میں پانی ڈال کر سارہ کو دیا۔۔
تم نے کوٸ خواب دیکھاہے کیا؟
نہیں سارہ نے گلاس ہاتھ میں لیتے ہوۓ جواب دیا
اس نے جلدی سے پانی پی کرگلاس صارم کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا وہ آگیا ہے؟
کہاں ہے اس نے پوچھا۔ اوپر چھت پر۔۔سارہ نے سر اوپر اٹھا کر جواب دیا
تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ آگیا
مجھے سینے میں چبھن محسوس ہوٸ سینے پر ہاتھ رکھتے معنی طلب نظروں سے اس کو دیکھا
ٹھنڈی ہوا بھی لگی؟ صارم نے پوچھا
ہاں "مجھے لگا وہ میرے سینے پر آکر بیٹھا ہو۔سارہ نے کہا۔
سارہ بالکل ٹھیک نظر آرہی تھی ۔صارم نے باغور اس دیکھا کہیں جسم پر خراش یازخم کا نشان نہ تھا۔
میں اوپر جاکردیکھتا ہوں۔
نہیں ہرگز نہیں وہ تم پرجھپٹ پڑے گا۔۔سارہ خوفزدہ ہوتےہوۓ بولی
آخرہم کب تک ڈرتے رہیں گے اس سے
صارم ہمیں ڈرنا چاہیے ۔احتیاط کرنی چاہیےاللہ جانے کیا بلا ہے یہ۔سارہ نے حیرت سے کہا۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ بلب کس نے بند کیا۔حالانکہ ہم نے تو رات کو کھلا چھوڑا تھا صارم نے کہا
پتہ نہیں میری جب آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا تھا بٹن کھلا ہو تھا ۔
کیا ؟ بٹن کھلا تھا صارم نے حیرت سے پوچھا۔
ہاں بٹن تو ان تھا ۔سارہ نے کہا ۔
شاید بٹن خراب ہو گیا ہو سارہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
صارم نے بٹن کو دو تین بار آن آف کیا ۔ارے بٹن تو ٹھیک ہے ۔صارم نے کہا
سارہ جواب میں کچھ نہ بولی
اچھا چلو لیٹ جاو صارم نے کہا اور ٹیوب لاٸٹ جلنے دوں کیا؟
نہیں بند کردیں سارہ نے کہا ۔زیرو بلب آن کر دیں
ڈرو گی تو نہیں
نہیں سارہ نے یقین سے کہا ۔جانتے نہیں آخر بیوی کس کی ہوں
سارہ نے تحسین آمیز نگاہوں سے اسے دیکھا
کس کی بیوی ہو؟ صارم نے پوچھا
شیر کی۔۔۔سارہ نے اس کے سر کے بال مٹھی میں لیے
نہیں ؟ تم صارم کی بیوی ہو۔ اس نے سارہ کی ناک پکڑ کر شوخی سے کہا
اور صارم کے کیا معنی ہیں؟۔سارہ ہنس کر بولی ۔ذرا بتایں
صارم کے معنی ہیں شیر ۔چلو میری شیرنی اب سو جاو صبح مجھے آفس بھی جانا ہے
اس میں کوٸ شبہ نہ تھا کہ دونوں ہی نڈر تھے۔اتنےبڑے گھر میں دونوں اکیلے ہی رہتے تھے صارم دفتر چلا جاتا تووہ تنہاگھر میں رہ جاتی صارم کے جانے کے بعد خالہ سجوآجاتی۔وہ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں گھر کی صفاٸ وغیرہ کرکے دوسرے گھروں میں چلی جاتی۔سارہ چاہتی تھی کہ خالہ سجو اس کی تنہاٸ دور کرنے کے لیے زیادہ وقت اسکے ساتھ بیتاۓ۔کام کے بعد وہ خالہ کو باتوں میں لگانے کی کوشش کرتی۔
خالہ سجو کے پاس کچھ وقت ہوتا تو وہ اس کے پاس رک جاتی اور ادھر ادھر کی سنانیں لگتی اس کی باتیں اس کے مرحوم شوہر اور بیٹی کے متعلق ہی ہوتیں
وہ اس علاقے کی سب سے پرانی ماسی تھی جب وہ پہلے دن ان کے گھر کام کے لیے آٸ تو حیرت سے اس نے سارہ کو دیکھا تھا۔۔۔
خالہ سجو کو بیگم یعقوب نے بھیجا تھا اور کہا تھا ۔پڑوس میں جو نیۓ لوگ آۓ ہیں انہیں ایک کام والی چاہییے
نیم والے گھر میں کوٸ آیا ہے ؟ خالہ سجو نے تصدیق چاہی
ہاں اچھے لوگ معلوم ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔دو میاں بیوی ہیں بس
أۓ خاۓ ۔کتنے دن رہیں گےبھلا وہ یہاں"۔۔خالہ سجو نے پریشان ہو کر کہا
وہ کراۓدارنہیں جوچلےجایٸں گے۔۔۔انہوں نے یہ گھر خرید لیا ہے۔
اور آج جاتے ہوۓ ان سے ملتی جانا۔
خالہ سجو نے جب نیم والے گھر کا دروازہ بجایا کچھ دیر بعد سارہ نے دروازہ کھولا۔خالہ سجو اس کو دیکھتے ہی رہ گٸ۔اسے امید نہ تھی کہ اس گھر میں آنےوالی لڑکی اتنی کم عمرہوگی۔
مجھے پڑوس والےگھر کی بیگم صاحبہ نے بھیجا ہے" ۔خالہ سجو نے برابر والے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓکہا""آپ کو کام والی کی ضرورت ہے
تم خالہ سجو ہو" سارہ نے خالہ سجو کو دلچسپی سے دیکھتے ہوۓکہا
خالہ سجو 50 کے قریب عمر کی دبلی پتلی سانولی سی عورت تھی۔سارہ کو اس کے چہرے پر دکھ کی لکیر سی نظر آرہی تھی ہاں میں خالہ سجو ہوں ۔خالہ سجو نے مسکرانے کی کوشش کی
آجاو اندر آجاٶسارہ نے گیٹ چھوڑتے ہوۓ اسے رستہ دیتےہوۓ کہا۔۔۔۔خالہ سجو اندر آگٸ تو اس نے دروازہ اندر سے بند کیا ۔اور گھر کی طرف بڑھی
اندر داخل ہوکر ہال میں کرسی کھینچتے ہوۓ خالہ سجوسے مخاطب ہوٸ ۔بیٹھو خالہ۔۔
خود بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گٸ ۔
خالہ سجو کے چہرے سے حیرانگی ابھی تک نہیں گٸ تھی جو سارہ کو دیکھتے وقت اس کے چہرےپر تھی۔سارہ نے خالہ سجو کی حیرت کو محسوس کرلیا ۔لیکن کچھ نہ بولی
بی بی تم نے یہ گھر خرید لیا ہے
"ہاں سارہ نے اقرار میں سر ہلایا
اتنے بڑے گھر میں تم اکیلی رہو گی ۔۔خالہ سجو نے پوچھا
میرےشوہر ہیں میرے ساتھ سارہ ہنس کر بولی۔میں اکیلی کہاںہوں
کہاں ہیں صاحب "خالہ سجو نے کہا
وہ دفتر گۓ ہیں
پھر اکیلی ہی ہوٸ ناں۔۔بی بی کیا تمہیں اتنے بڑے گھر میں اکیلے ڈر نہیں لگتا۔
خالہ میں بالکل نہیں ڈرتی سارہ نے ہنس کر کہا۔ڈر کس بات کا
بی بی کیا تم اس گھر کے بارے میں کچھ جانتی ہو؟خالہ نے آہستہ سے کہا۔
کیا ہے اس گھر میں۔سارہ نے خالہ سجو کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوۓ پوچھا
اس گھر میں ۔۔۔۔خالہ کچھ کہتے کہتے اچانک رک گٸ۔اس کے چہرے کا رنگ بدلا آنکھوں میں ایکدم خوف سمٹ آیا۔۔۔۔۔
پتہ نہیں بی بی "
سارہ نے کریدنا مباسب نہ سمجھا۔اس کے چہرے پہ چھاۓ خوف کو دیکھتے ہوۓ سارہ نے اندازہ لگایا جیسے وہ بہت کچھ جانتے ہوۓ۔کچھ بتانا نہیں چاہ رہی اور بتاتے ہوۓ ڈرتی ہو۔
سارہ نے فوراً سے بات بدل دی اسےگھر کے کام کی تفصیل بتاٸ اور پیسے طہ کیے۔خالہ کیا آج سے کام شروع کرو گی"
ہاں بی بی یہ کہہ کرخالہ سجو اٹھ کھڑی ہوٸ اور جھاڑو سنبھال لی۔۔۔۔
جاری ہے۔​
 

Top