Romance داغ دار محبّت

.
Moderator
2,363
1,827
143
ارسلان خان جس کا پنجاب یونیورسٹی میں آج پہلا دن تھا جو پانچ فٹ نو انچ لمبا کھولا ہوا سینا فل فٹ جسامت کا مالک تھا گندمی رنگ صاف چہرہ بلیو جینز بلیک شرٹ پہنے یونیورسٹی میں انٹر ہوا ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے کوئی لڑکی لڑکوں کا گروپ گھاس میں بیٹھا پڑھ رہا تھا تو کوئی دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا۔۔۔۔
وہ اپنی ہی دُنیا میں جينے والا انسان وہ ان سب کا عادی نہیں تھا لڑکیوں کے ساتھ رہنا اُن سے باتیں کرنا وہ تو ایک سیدھا سدھا گاؤں کا لڑکا جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے ساتھ گاؤں میں اُن کا ہاتھ بٹاتا ہر کام میں صائمہ خان فیصل آباد کے ایک گاؤں کا رہائشی ہے جو ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں ابھی ابھی داخلہ ملا تھا۔۔۔۔
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇

علیزے بٹ جو ماڈل ٹاؤن کی رہائشی ہے جو ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے فل ریڈ رنگ کی فینسی فراخ پہنی ہوئی تھی اُس کا چہرہ کسی ہور جیسا نور ٹھہرا ہوا تھا اُس کا چہرہ ایسے چمک رہا تھا جیسے نور ٹھہرا ہو اُس پر براؤن آنکھیں تھی اُن میں کاجل بالوں کو اپنے رائٹ سائیڈ پر ڈالے ہونٹوں پر لپسٹک گلابی گال کانوں میں جھمکے ناک میں نوز رنگ ہیل والی سینڈل پہنے سب لڑکیوں سے الگ لگ رہی تھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھی اُن کا چار دوستو کا گروپ تھا جس میں اُسکا مامو کا بیٹا بھی شامل تھا اُس کا نام ریحان تھا جس سے ماریہ ایک سائیڈ محبت کرتی تھی علیزے کی سب سے اچھی دوست ماریہ تھی۔۔۔
جو پتلی سی معصوم چہرہ ہونٹوں کے پاس ایک چھوٹا سا تیل تھا جو اُس کی خوبصورتی کو اور بھرا رہا تھا۔۔۔۔
ماریہ جو ہر پل علیزے کے ساتھ ساتھ گھومتی تھی ماریہ بھی لاہور کی رہائشی تھی جو غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی مگر وہ علیزے کی سب سے اچھی دوست تھی۔۔۔
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇

ارسلان اپنے موبائل کو یوز کرتا کلاس لینے کے لیے جا تھا کہ وہاں بیٹھے کچھ ٹوپوری لڑکوں نے اُسے آواز دی اوۓ بات سن یہاں....
ارسلان نے ایک بار تو اُن کی بات پر توجہ نہ دی اور اپنے راستے چلتا رہا۔۔۔
تو اُن ٹپوری لڑکوں میں اذلان شاہ بھی تھا جس کا باپ ڈی پی او لاہور تھا اذلان شاہ جس کو اپنے باپ کی پوسٹ کا گماند تھا قد اور جسامت میں وہ بہت چھوٹا تھا مگر یونیورسٹی میں وہ سب کا باپ بنا ہوا تھا۔۔۔۔ اذلان شاہ نے دوبارہ ارسلان کو آواز دی۔۔۔
ارے بہرا ہے کیا تو؟
یہ کہنے پر ارسلان خان روک گیا وہ پلٹا اُن کی طرف دیکھا اور اُن کی طرف کو آگے ہوا ۔۔
وسے تو ارسلان نرم مزاج برداشت کرنے والا انسان تھا مگر آج اُس کا یونی میں پہلا دن تھا اگر وہ آج ڈار گیا تو آگئے وہ ڈرتا ہے رھے گا یہ وہ بھی جانتا تھا۔۔۔۔ اس لیے وہ اپنے چہرے پر غصّہ لائے اُن کی طرف کو ہوا۔۔۔
تو اذلان شاہ بھی کھڑا ہوا اُس کے پیچھے ہی اُس کے چمچے بھی کھڑے ہو گئے۔۔۔
ارسلان خان ایک ہی پل میں اذلان شاہ کے مو کے اوپر جا کھڑا ہوا اُس کے فل نزدیک جا کر اُس نے اذلان شاہ کے چمچوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا کس نے آواز دی مجھے وہ سخت لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
چمچے تو خاموش تماشائی بنائے ہوئے تھے۔۔۔
تو اذلان شاہ غصّے میں بولا تھوڑا پیچھے ہٹ کر بات کر اذلان شاہ نے اپنا ہاتھ ارسلان خان کے کندھے کو دھکیل کر یہ کہا تھا۔۔۔
ارسلان خان اپنی جگہ سے ذرا آگئے پیچھے نہیں ہوا تھا۔۔۔ دوسری طرف علیزے بھی چُپ چاپ یہ منظر دور کھڑی دیکھ رہی تھی کبھی وہ ایک نظر ان کو دیکھتی تو دوسرے ہی پل وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتی بات چیٹ میں مصروف ہو جاتی۔۔
ابھی اُن کی بات شروع ہوئی ہی تھی کہ اذلان شاہ کے ایک دوست نے اذلان شاہ کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا چل یار بچا ہے جانے دے یہ کہہ کر اُس نے اذلان کو اشارہ کیا دوسری طرف سے آ رہے وہاں پر پرفیسر محمود قریشی کو دیکھ کر اذلان شاہ نے کہا جا بیٹا اج تیرا دن ہے یہ کہہ کر وُہ پیچھے کو مڑے گیا ۔۔۔
ارسلان کو سمجھ آ گئی تھی یہ مجھ سے نہیں بلکہ پرفیسر کے انے پر پیچھے ہٹے ہیں ارسلان نے ایک بار پرفیسر کو اتے دیکھا تو وہ بھی وہاں سے پلٹ کر اپنے راستے چل دیا جب وہ وہاں سے نکلنے لگا تھا اُس نے اپنے اِرد گِرد نظر دوڑائی تو ایک نظر علیزے پر جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی چہرے پر مسکراہٹ لیے وہ اُس نظر کا کمال تھا کہ ارسلان کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا تو وہ نیچے کو جُھکا وہ گرتا گرتا بچا تھا۔۔۔۔۔​
 
Newbie
1
0
1
ارسلان خان جس کا پنجاب یونیورسٹی میں آج پہلا دن تھا جو پانچ فٹ نو انچ لمبا کھولا ہوا سینا فل فٹ جسامت کا مالک تھا گندمی رنگ صاف چہرہ بلیو جینز بلیک شرٹ پہنے یونیورسٹی میں انٹر ہوا ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے کوئی لڑکی لڑکوں کا گروپ گھاس میں بیٹھا پڑھ رہا تھا تو کوئی دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا۔۔۔۔
وہ اپنی ہی دُنیا میں جينے والا انسان وہ ان سب کا عادی نہیں تھا لڑکیوں کے ساتھ رہنا اُن سے باتیں کرنا وہ تو ایک سیدھا سدھا گاؤں کا لڑکا جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے ساتھ گاؤں میں اُن کا ہاتھ بٹاتا ہر کام میں صائمہ خان فیصل آباد کے ایک گاؤں کا رہائشی ہے جو ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں ابھی ابھی داخلہ ملا تھا۔۔۔۔
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇

علیزے بٹ جو ماڈل ٹاؤن کی رہائشی ہے جو ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے فل ریڈ رنگ کی فینسی فراخ پہنی ہوئی تھی اُس کا چہرہ کسی ہور جیسا نور ٹھہرا ہوا تھا اُس کا چہرہ ایسے چمک رہا تھا جیسے نور ٹھہرا ہو اُس پر براؤن آنکھیں تھی اُن میں کاجل بالوں کو اپنے رائٹ سائیڈ پر ڈالے ہونٹوں پر لپسٹک گلابی گال کانوں میں جھمکے ناک میں نوز رنگ ہیل والی سینڈل پہنے سب لڑکیوں سے الگ لگ رہی تھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھی اُن کا چار دوستو کا گروپ تھا جس میں اُسکا مامو کا بیٹا بھی شامل تھا اُس کا نام ریحان تھا جس سے ماریہ ایک سائیڈ محبت کرتی تھی علیزے کی سب سے اچھی دوست ماریہ تھی۔۔۔
جو پتلی سی معصوم چہرہ ہونٹوں کے پاس ایک چھوٹا سا تیل تھا جو اُس کی خوبصورتی کو اور بھرا رہا تھا۔۔۔۔
ماریہ جو ہر پل علیزے کے ساتھ ساتھ گھومتی تھی ماریہ بھی لاہور کی رہائشی تھی جو غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی مگر وہ علیزے کی سب سے اچھی دوست تھی۔۔۔
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇
🎇

ارسلان اپنے موبائل کو یوز کرتا کلاس لینے کے لیے جا تھا کہ وہاں بیٹھے کچھ ٹوپوری لڑکوں نے اُسے آواز دی اوۓ بات سن یہاں....
ارسلان نے ایک بار تو اُن کی بات پر توجہ نہ دی اور اپنے راستے چلتا رہا۔۔۔
تو اُن ٹپوری لڑکوں میں اذلان شاہ بھی تھا جس کا باپ ڈی پی او لاہور تھا اذلان شاہ جس کو اپنے باپ کی پوسٹ کا گماند تھا قد اور جسامت میں وہ بہت چھوٹا تھا مگر یونیورسٹی میں وہ سب کا باپ بنا ہوا تھا۔۔۔۔ اذلان شاہ نے دوبارہ ارسلان کو آواز دی۔۔۔
ارے بہرا ہے کیا تو؟
یہ کہنے پر ارسلان خان روک گیا وہ پلٹا اُن کی طرف دیکھا اور اُن کی طرف کو آگے ہوا ۔۔
وسے تو ارسلان نرم مزاج برداشت کرنے والا انسان تھا مگر آج اُس کا یونی میں پہلا دن تھا اگر وہ آج ڈار گیا تو آگئے وہ ڈرتا ہے رھے گا یہ وہ بھی جانتا تھا۔۔۔۔ اس لیے وہ اپنے چہرے پر غصّہ لائے اُن کی طرف کو ہوا۔۔۔
تو اذلان شاہ بھی کھڑا ہوا اُس کے پیچھے ہی اُس کے چمچے بھی کھڑے ہو گئے۔۔۔
ارسلان خان ایک ہی پل میں اذلان شاہ کے مو کے اوپر جا کھڑا ہوا اُس کے فل نزدیک جا کر اُس نے اذلان شاہ کے چمچوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا کس نے آواز دی مجھے وہ سخت لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
چمچے تو خاموش تماشائی بنائے ہوئے تھے۔۔۔
تو اذلان شاہ غصّے میں بولا تھوڑا پیچھے ہٹ کر بات کر اذلان شاہ نے اپنا ہاتھ ارسلان خان کے کندھے کو دھکیل کر یہ کہا تھا۔۔۔
ارسلان خان اپنی جگہ سے ذرا آگئے پیچھے نہیں ہوا تھا۔۔۔ دوسری طرف علیزے بھی چُپ چاپ یہ منظر دور کھڑی دیکھ رہی تھی کبھی وہ ایک نظر ان کو دیکھتی تو دوسرے ہی پل وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتی بات چیٹ میں مصروف ہو جاتی۔۔
ابھی اُن کی بات شروع ہوئی ہی تھی کہ اذلان شاہ کے ایک دوست نے اذلان شاہ کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا چل یار بچا ہے جانے دے یہ کہہ کر اُس نے اذلان کو اشارہ کیا دوسری طرف سے آ رہے وہاں پر پرفیسر محمود قریشی کو دیکھ کر اذلان شاہ نے کہا جا بیٹا اج تیرا دن ہے یہ کہہ کر وُہ پیچھے کو مڑے گیا ۔۔۔
ارسلان کو سمجھ آ گئی تھی یہ مجھ سے نہیں بلکہ پرفیسر کے انے پر پیچھے ہٹے ہیں ارسلان نے ایک بار پرفیسر کو اتے دیکھا تو وہ بھی وہاں سے پلٹ کر اپنے راستے چل دیا جب وہ وہاں سے نکلنے لگا تھا اُس نے اپنے اِرد گِرد نظر دوڑائی تو ایک نظر علیزے پر جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی چہرے پر مسکراہٹ لیے وہ اُس نظر کا کمال تھا کہ ارسلان کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا تو وہ نیچے کو جُھکا وہ گرتا گرتا بچا تھا۔۔۔۔۔​
complete story kaise read karon
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
ارسلان کو گرتا دیکھ علیزے مسکرائی تو ارسلان اپنا سر جھکائے وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔ ۔
علیزے نے بھی اُس ہی وقت ماریہ کا ہاتھ پکڑا اور اُسے وہاں سے لے کر ارسلان کے پیچھے جانے لگی تو ریحان نے پیچھے سے آواز دی لڑکیوں کہاں چل دی تم دونوں تو علیزے نے کہا ادھر ہی ہیں کنٹین جا رہے ہیں یہ کہہ کر وہ وہاں سے نکل گئیں۔۔۔ علیزے تیزقدم ماریا کا ہاتھ پکڑے وہاں سے نکل رہی تھی ماریہ علیزے کو عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی اِس لڑکی کو اچانک کیا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔

علیزے نے ماریہ کا ہاتھ بہت مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا تو ماریہ نے کہا ارے یار ہاتھ تو چور دے میرا ہاتھ توڑو گی کیا۔۔۔ اور کہاں لے کر جا رہی ہو مجھے بتاؤ تو سہی۔۔۔

تو علیزے نے اُسے اپنی شہادت کی انگلی اپنے ھونٹوں پر رکھ کر اُسے اشارہ کروایا چُپ اور کنٹین جا کر بات کرنے کے لیے کہا وہ دونوں تیز تیز قدم چل رہی تھی۔۔۔۔علیزے ماریہ کو لوگو کے ہجوم میں سے کھینچتی گھسیٹتے تیز تیز قدم اِدھر اُدھر سے نکال کر لوگوں کے ہجوم سے نکلتی جا رہی تھی ماریہ حیران اور پریشان تھی کہ علیزے اِس کو کس کے پیچھے لیے چل رہی ہے خیر اچانک ماریہ نے علیزے کو دونوں کندھوں سے پکر کر روکا اور علیزے کے سمنے کھڑی ہو پوچھنے لگی یار کنٹین اُس طرف ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں کیا تم آج گھوم تو نہیں گئی طبیعت شبیت تو ٹھیک ہے آخر یہ کیا ہو رہا ہے مجھے بتاؤ گی تم ذرا؟
اتنی دیر میں ارسلان اچانک سے علیزے کی نظروں سے اوجھل ہو گیا علیزے نے کافی دیر تک ادھر اُدھر دیکھا مگر ارسلان وہاں سے غائب ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔
علیزے نے ماریہ کو ایک تھپڑ مارا اور کہا مجھے پتہ تھا یہ ہی ہو گا اور مرسان لڑکی مجھے پتہ ہے کنٹین کہاں ہے چل تُجھے کنٹین میں جا کر بتاتی ہوں اور وہ کنٹین میں جا پہنچی۔۔۔
ٹیبل پر بیٹھی علیزے نے آواز دی تو ایک چھوٹا لڑکا آیا۔۔ جی آپی؟ علیزے نے ماریہ کی طرف دیکھا اور پوچھا بتاؤ کیا لو گی ماریہ نے کہا مجھے کچھ بھی نہیں کھانا تم اپنے لیے آرڈر کر لو یار۔۔۔۔
علیزے نے اپنا آرڈر لکھوایا تو بچا وہاں سے چلا گیا۔۔۔
اب ماریہ علیزے کو دیکھ رہی تھی کہ اب بتاؤں کیا بات تھی کیا بات کرنی ہے تو علیزے زور سے ہنسی اور کہا کچھ بھی نہیں یار میرا دل کر رہا تھا گھوم پھر کر کنٹین انے کو تو تمہیں ساتھ لئے ائی یہاں پر اور یہ کہ کر وہ ایک بار پھر سے زور سے ہنسی ماریہ غصّے میں آگ بگولا ہوئی علیزے کے کندھے پر زور سے پنچ میرا علیزے آیٰیٰیٰیٰ اُووچ مر گئی میں یہ کہتی بولی۔۔۔ علیزے ایک ہاتھ سے اپنا کندھا مل رہی تھی اور اور ہی دوبارہ بولی اور ماریہ کو کہا یار ایک بات تو ہے بٹ میں خود نہیں جانتی وہ بات کیا ہے اور ایک بار پھر سے زور سے ہنسی ہاہاہا۔۔۔۔۔۔
اِس بار ماریہ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر مرا کنٹین کی چاروں طرف دیکھا اور کہا یار تم سچ میں پاگل ہو ساتھ میں مجھے بھی پاگل کر دو گی۔۔۔
وہ کافی دیر وہاں بیٹھی باتیں کرتی رہی۔۔۔
کچھ دیر بعد ماریہ نے علیزے کو کہا اچھا میں اب جاؤں مجھے ریحان سے ایک کام ہے۔۔۔۔
تو علیزے نے کہا کبھی تو ریحان کو اکیلا چھوڑ دیا کرو ہر وقت چپکا چپکی ضروری ہے ہم بھی آپ کے دوست ہیں ہمیں بھی تھوڑا اپنا قیمتی وقت دے دیا کریں اس بات پر ماریہ بھی زور سے ہنسی اُن دونوں کا ہنسی مذاق کافی دیر تک پھر سے چلتا رہا مگر علیزے بار بار اپنے موبائل پر ٹائم دیکھ رہی تھی شاید وہ کسی کے انتظار میں تھی جس کی وجہ سے وہ بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔

🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇

دوسری طرف ارسلان اپنی کلاس لے کر واپس آ چکا تھا وہ بیٹھنے کے لیے پر سکون جگہ ڈھونڈ رہا تھا جہاں و اکیلا شور شرابے سے دور آرام سے اپنا کام کر سکے تنہائی والی جگہ دھونے لگا آخر کار اُس نے یونی ورسٹی کے بیک سائیڈ پر جھاڑیوں کو کراس کر کے آگئے چلا گیا جہاں ایک بہت بڑا سائے دار درخت تھا اُس نے اپنا بیگ نیچے رکھا اور درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اپنی کتاب نکل کر کر وہ اپنا کام میں مصروف رہا۔۔۔۔۔۔
علیزے جو اب تک ماریہ کے ساتھ پوری یونی کے چکر لگا چکی تھی جس کو وہ ڈھونڈ رہی تھی وہ ایک سُن سان جگہ درخت کے ساتھ ٹیک لگائے اپنے کام میں مصروف تھا۔۔۔
🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇

علیزے اور ماریہ کنٹین سے واپس آچکی تھی اور یونی کے حال میں ارسلان کو ڈھونڈ رہی تھی مگر ماریہ کو ابھی تک ارسلان کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔۔۔۔
علیزے ارسلان کو دیکھ کر کیا اُس کی دیوانی ہو چکی تھی؟ یہ اس کے پیچھے بھی کوئی راز تھا؟ خیر ابھی وہ اس بات کو ماریہ کو نہیں بتانا چاھتی تھی ۔۔۔۔
علیزے ماریہ کو لے کر وہاں تک پُہنچ چکی تھی جہاں ارسلان بیٹھ کر پڑھائی کر رہا تھا۔۔۔۔
ماریہ نے علیزے کو روکا اور اُس کے سامنے کھڑی ہو کر پوچھنے لگی باجی مجھے پہلے یہ بتا دیں ہم کس خوشی میں یونی کے پا
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
کے پاگلوں کی طرح چکر لگا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ جانتی ہوں آپ کی نظریں کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں مگر وہ خوش قسمت انسان نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔۔
وہ کوں ہے کیسا ہے کہاں کا ہے پہلے مجھے یہ سب بتاؤ پھر میری قدم اب آگے کو جائیں گے ورنہ میں تو چلی اب ریحان کے پاس۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ماریہ یہ کہہ کر پیچھے کو مڑی تو علیزے نے اُس کا جلدی سے ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔۔
علیزے بوکھلاہٹ میں بولی کیا مطلب کیا کہہ رہی ہو تم پاگل ہو ایسا ویسا کچھ نہیں ہے یار۔۔۔۔۔ کیا بكواس ہے یہ۔۔۔۔۔ میں بھلا کس کو ڈھونڈوں گی مجھے کیا ضروت کسی کے پیچھے جانے کی لوگ میری پیچھے اتے ہیں علیزے کسی کے پیچھے نہیں جاتی تم جانتی تو ہو سب کچھ بھول گئی۔۔۔۔۔۔
ماریہ طنزیہ انداز میں بولی کیا بات ہے بھئی تو ہم یونی میں مسکینوں کی طرح کیوں گھوم رہی ہیں پہلے تو ایسا نہیں تھا مجھے صرف اتنا بتاؤ گی آپ علیزے مادام؟

علیزے نے اُسے غصّے سے دیکھا اور اپنی نظر اُس سے ہٹا کر گھومی تو اسے دور سے ارسلان خان خود کے کپڑے جھاڑتا ہوا جھاڑیوں سے نکلتا نظر آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علیزے کے چہرے کی تبدیلی دیکھ کر ماریہ نے بھی اُس ہی طرف دیکھا تو اُسے ساری بات سمجھ آگئی۔۔۔۔۔
ماریہ نے اپنا کندھا علیزے کو مارا اور کہا یہ ہیں وہ جناب جن کی خاطر ہماری علیزے دیوانوں کی طرح مجھے ساتھ لیے یونی کے گول گول گھوما رہی تھی ماریہ اپنی آنکھوں کو گھومتی ہنستی مسکراتی یہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
مگر علیزے تو کہیں اور ہی گم تھی اُس کی نظریں صرف ارسلان خان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ علیزے ماریہ کی باتوں سے انجان ارسلان کو آتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
علیزے نے ماریہ کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کھینچتی ہوئی وہاں سے لے کر ارسلان کی طرف کو تیز تیز قدم چلنے لگی۔۔۔۔۔۔
ارسلان خان بھی اُن کی طرف کو تیز قدم آرہا تھا مگر اُس کا دھیان اپنی موبائل کی طرف تھا اُس کی نظریں اپنے موبائل پر ٹیکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے وہ ایک دوسرے کے پاس اتے جا رہے تھے علیزے کی بےچینی بھڑتی جا رہی تھی۔۔۔ اس کے خون کی رفتار تیز تھی اس ہی وجہ سے علیزے کے گال لال سرخ ہو چکے تھے۔۔۔۔۔۔ اگر ارسلان کے علاوہ اور کوئی لڑکا ہوتا تو بے شک اُس کی نظریں علیزے کی چہرے سے نہ ہٹتی وہ اُس وقت بےحد خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
خیر جب ارسلان فل نزدیک آ پُہنچا تو تو علیزے وہی روک گی اور ماریہ کو اپنے آگئے کھڑا کر دیا اور خود ارسلان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسلان اپنے دھیان آرہا تھا جب وہ دونوں ایک دوسرے کے پاس آپُھنچے تو ارسلان نے علیزے کی طرف جب دیکھا نہیں تو علیزے اُس کو دیکھتی ہی رہی وہ پاس سے گزر گیا۔۔۔
علیزے کو ارسلان کی اس حرکت پر بہت غصہ آرہا تھا اُس کا چہرہ اُتار سا گیا تھا اور اور وہ بہت زیادہ حیران تھی کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے ہے کہ کوئی لڑکا مجھے دیکھے بنا میرے سامنے سے گزر جائے ۔۔۔۔۔۔۔علیزے کو اپنی خوبصورتی پر بہت زائدہ مان تھا مگر یہاں پر تو کچھ الٹا ہی ہو گیا۔۔۔۔۔
اور ماریہ یہ سب دیکھ کر ہنس پڑی اور اُس کے گلے لگ کر کہنے لگی یار اُس نے تو دیکھا ہی نہیں اپنی محبوبہ کو یہ کیسا عشق ہے عاشق سامنے دیکھ رہا ہے اور اور عشق مو چھپا کر بھاگ رہا تھا وہ زور سے ہنستے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔ علیزے نے ماریہ کو دھکا دے کر خود سے دور کیا۔۔۔۔
اور ساتھ ہی علیزے بھی ہنس پری اور کہنے لگی کیا ہوا اگر نہیں دیکھا تو نخرے دیکھا رہا مجھے میں بھی علیزے ہوں بیٹا اس کو اپنے پیچھے نا گھماؤ تو مجھے کہنا ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ایٹیٹیوڈ میں اپنی ناک کو چھیڑتے ہوئے ایسا کہا تھا۔۔۔۔۔۔
اچھا یار اب تمھارا ہو گیا ہو تو میں جاؤں مجھے ریحان سے ایک کام ہے ماریہ نے علیزے کو کہا علیزے ہاں بیٹا جاؤ تمھارا کام بھی ریحان بھائی ہی کر سکتے ہیں ہم سے تو وہ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔
ماریہ ہنسی اچھا ٹھک ہے میں جا رہی ہوں صبح ملتے ہیں اب یہ کہہ کر ماریہ وہاں سے چلے گی۔۔۔۔
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
ابھی ماریہ وہاں سے جا رہی تھی کہ ماریہ کو ریحان کا ایک بار پھر سے میسیج آیا وہ اُسے پڑھ کر مسکرائی اور تیز تیز قدم پارکنگ کی طرف چلنے لگی۔۔۔ ریحان ماریہ کا گاڑی میں کب سے انتظار کر رہا تھا ماریہ کے اتے ہی وہ اُس پر بھڑک پڑا ماریہ سوری سوری کرتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔

کہاں تھی تم کب کی غائب ہوئی ہو تم۔۔۔ ؟؟

یار علیزے کے ساتھ تھی کنٹین میں بیٹھے ہوئے تھے جب تمھارا مسیج آیا تو میں فوراً وہاں سے نکل ائی اُسے وہیں چھوڑ کر۔۔۔
ہاں ہر وقت علیزے علیزے کرتی رہا کرو جاؤ ابھی بھی وہ تمہیں یاد کر رہی ہو گی تمھاری علیزے۔۔۔۔
میں تو کسی کو یاد ہی نہیں ہوں ریحان نے مو بنا کر یہ کہا۔۔۔۔۔
ماریہ ہاےے میری جان تمہیں پتا تمھاری انہی اداؤں پہ تو میں فیدھا ہوں۔۔۔
مادام ماریہ میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔۔
اہاں تو پھر جانب کس موڈ میں ہیں ہم بھی ویسا موڈ احتیار کر لیتے ہیں ماریہ نے ابھی یہ کہا ہی تھا کہ ریحان نے ماریہ کی گردن سے پاکر کر خود کے قریب کیا اور اُس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ماریہ سنسنی سے اُسے اپنے دونوں ہاتھوں سے دور کر رہی تھی ریحان نے اُس کے ہونٹوں پر اور اُس کی گردن میں اپنے نشان چھوڑ کر اُس کی گردن سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔۔۔
ماریہ نے دو تھپڑ ریحان کے بازو پر مارے اور ٹیشو نکال کر اپنے ہونٹ اور گردن صاف کرنے لگی ریحان مسکرا رہا تھا اُسے دیکھ کر ۔۔۔
ماریہ کہیں بھی شروع ہو جاتے ہو ذرا شرم نہیں ہی آپکو ریحان۔۔۔
نہیں مجھے ذرا شرم نہیں ہے میں تم سے شرم کیوں کروں بھلا بتاؤں مجھے میری خوبصورت حسینہ۔۔۔
ریحان ماریہ تو تنگ کر تھا اور ماریہ اور زیادہ چھیڑ رہی تھی اُس کی باتوں سے ریحان نے گاڑی کو سلف میرا اور وہاں سے نکل گئے راستے میں ریحان ماریہ تو تنگ کرتا آرہ تھا۔۔
ریحان اچھا یار بتاؤ کہاں چلیں کیا کھاؤ گی آج ؟
نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا بس یار گھر چھوڑ دو وسے بھی بھائی کے ٹیکسٹ آرہے ہیں اب ۔۔۔
ایک تو تمھارا بھائی کسی دن میری ہاتھوں مارے گا دیکھ لینا۔۔۔
ماریہ ہاہاہاہا شرم کرو ریحان کہیں تم نہ میرے ہاتھوں مر جانا ۔۔۔۔
ریحان ہائے ہم تو پہلے ہی مر چُکے ہیں جناب آپ کے اس تل پر اور کتنی بار ماریں گی ہمیں۔۔۔۔
ماریہ نے ریحان کی یہ بات سن کر اپنی ایک انگلی سے اپنے نیچے والے ہونٹوں کو ٹٹولا تھا اور اپنی سیٹ سے تھوڑا اٹھاکر ریحان کی گال پر زور دار کیس کی۔۔۔۔۔ تو ریحان نے ماریہ سے کہا اس کیس کا بدلہ میں بھی لے کر رہوں گا۔۔۔۔۔
ماریہ نہیں نہیں نہیں باس اتنا ہی کافی ہے میں نے خود دی ہے اب جلدی سے مجھے گھر پہنچا دو پلز ۔۔۔۔۔
ریحان نے یہ سنتے ہی اپنا سر جھکائے کہا لو ماڈام ہم دس منٹ میں آپ کے گھر ہوں گے۔۔۔۔۔۔
ریحان نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی اور دس مِنٹ میں ماریہ کو اُس کے گھر کے باہر جا گاڑی روک دی۔۔۔۔
ماریہ گاڑی سے باہر نکلنے لگی تھی۔۔۔۔۔
ریحان نے ماریہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔۔ اور کہنے لگا ایسے کیسے میڈم کچھ بھول رہی ہو آپ لڑکی۔۔۔۔۔
ماریہ نے ریحان کو کہا نہیں نہیں یار کوئی دیکھ لے گا پلز جانے دو ریحان نے اپنی سر ہلا کر اُس سے جواب دیا نہیں مجھے کچھ نہیں سنا۔۔۔۔۔۔
تو ماریہ ہار مانتی ہوئی نے اپنا چہرہ اُس کے آگئے کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔۔۔ ریحان نے پہلے اپنی انگلیوں سے اُس کی زلفوں کو سیٹ کیا پھر اُس کے تل کو اپنی اُنگلی سے چھو رہا تھا اپنی شہادت والی اُنگلی سے اُس کے اوپر والے ہونٹ کو ٹٹول رہا تھا۔۔۔۔ ریحان تھوڑا ماریہ کی طرف آگے ہوا اُس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں کو چومتے ہوئے اُس کے تل کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا۔۔۔۔۔۔۔
ماریہ اپنی آنکھیں بند کئے تیز دھڑکنوں کو کنٹرول کرتی ہوئی اُس کے سینے پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
ریحان نے آخری وار اُس کے ہونٹوں پر کر دیا تھا ماریہ کے ھونٹوں سے کچھ ہی پل میں ساری لپسٹک اُتار دی اپنے ھونٹوں سے۔۔۔۔۔۔
ماریہ آنکھیں بند کیا مچل رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ریحان کا ہاتھ جب ماریہ سینے کی طرف بھرا تو ماریہ نے ریحان کے ہونٹوں پر اپنے دانتوں سے ہلکا سا کٹ کیا۔۔۔۔۔۔ ریحان کی آاحححححح کی آواز نکلی تو ریحان نے اپنا ہاتھ خود ہی پیچھے کر لیا۔۔۔۔۔ ریحان نے ماریہ کے پیچھے سے بالوں سے پکر کر تھوڑا سا کھینچا اور ماریہ کے اوپر ہو کر اُس کے گردن پر اپنے دانتوں سے کاٹ کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماریہ سسس۔۔۔۔سو۔۔۔۔۔رر۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔ سوری سوری کرتی ہوئی جب مچلی۔۔۔۔ تو ریحان نے اس کی گردن سے منہ نکال کر اس کے گلابی چہرہ کا طواف کیا تو اُس کی نظر ٹھہر سی گئی تھی۔۔۔۔۔

جاری ہے
 

Top