Erotica داغ

Newbie
12
13
3
یہ کیا ہے ماہم؟
یہ ٹیسٹ دیا ہے تم نے؟
کیا مارکس دوں اس کارکردگی پر تمہیں؟
شکیل سر کا پارہ ہائی دیکھ کر ماہم کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ وہ اسوقت اسٹاف روم میں شکیل سر کے سامنے نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ جو سامنے ٹیبل پر اسکے فزکس کا ٹیسٹ چیک کررہے تھے۔
سوری سر، اس بار معاف کردیں۔
وہ منمنائی۔
اس بار ؟ اس بار معاف کردوں؟
ماہم پورا سال تم نے کچھ نہیں کیا۔ فائنل ایگزام سر پر ہیں، اور تم کہہ رہی ہو اس بار معاف کردیں۔ شکیل سر بدستور اس پر برس رہے تھے، اور وہ کھڑی لرز رہی تھی۔
بس بہت ہوگیا، اب کل تم اپنے پیرینٹس کو ساتھ لیکر آنا میں اب ان سے ہی بات کرونگا۔ آخر ہمارے اسکول کی بھی کوئی ریپوٹیشن ہے۔ سر شکیل نے غصے میں اسکا ٹیسٹ پیپر ٹیبل پر پٹخ دیا۔
وہ سہم گئی۔
سر پلیز ، اس بار معاف کردیں پلیز۔ پیرینٹس کو نہ بلائیں۔ میں آئندہ آپکو شکایت کو موقع نہیں دونگی سر۔ پلیز سر پلیز ۔آئی پرومس سر۔
وہ گھگھیاتے ہوئے بولی۔
یہ پرومس اب آپ اپنے پیرینٹس سے کرنا۔ آپ اسٹوڈینٹس کی بیڈ پرفارمنس کا ہمیں بھی پرنسپل سر کو جواب دینا پڑتا ہے۔
سر شکیل آج کسی رعایت کے موڈ میں نہیں تھے۔
سر پلیز ۔ بس ایک موقع اور دے دیں۔ میں اگی بار آپ کو شکایت کا موقع نہیں دونگی۔ اس نے آخری التجا کی۔
شکیل سر نے اس کی بھیگی آنکھوں میں چند لمحے تک دیکھا اور کھڑے ہوگئے۔ اسٹاف روم کے دروازے پر پہنچ کر باہر سر نکال کر دائیں بائیں نظریں گھمائیں اور اسٹاف روم کا دروازہ بھیڑ دیا۔
ٹھیک ہے میں تمہیں آخری موقع دے رہا ہوں۔ لیکن اگر تم نے کسی سے ذکر کیا تو رزلٹ کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔ سمجھیں۔
یہ کہہ کر سر شکیل نے اسکے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور بولے۔ نیچے بیٹھ جاو۔
وہ کچھ نہ سمجھی اور الجھی نگاہوں سے سر کو دیکھتے ہوئے کارپٹ پر اکڑوں بیٹھ گئی۔
سر شکیل نے اسکے چہرے کے بالکل سامنے آکر پتلون کی زپ کھول دی۔۔۔۔۔۔
اگلے چند منٹوں بعد وہ اسٹاف روم کے واش بیسن پر جھکی بار بار کلی کررہی تھی۔ اسے شدید ابکائی محسوس ہورہی تھی۔ اچھی طرح رگڑ رگڑ کر منہ صاف کرنے کے بعد جب وہ ٹیبل پر آئی تو اسکی ٹیسٹ کاپی پر سو میں سے ستر کا ہندسہ درج ہوچکا تھا۔
یہ لو اپنا ٹیسٹ پیپر۔ اور یاد رکھنا آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ اوکے
اس نے خاموشی سے کاپی لی اورجانے کیلئے دروازے کیطرف پلٹنے لگی۔
رکو ماہم۔
اس نے پلٹ کر سر کو دیکھا، جن کی نظریں اسکی شرٹ پر لگے اک گیلے گاڑھے سے دھبہ کیطرف تھی۔
سر نے دو تین ٹشو اسکی طرف بڑھائے اور کہا،
یہ صاف کرلو پہلے۔
ماہم نے ٹشو پکڑے اور اس گیلے دھبے کو ہلکے ہلکے رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
----------------------------------------
گڈ مارننگ پاپا۔۔
سفید اسکول یونیفارم میں ملبوس ردا نے لاڈ سے سر شکیل کی گردن میں بانہیں ڈال دیں۔ سر شکیل اسوقت ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے اسی کا ہی انتظار کررہے تھے۔
گڈ مارننگ بیٹا۔ چلو اب جلدی سے ناشتہ کرلو۔ مجھے لیٹ ہورہا ہے۔ ابھی تمہیں بھی اسکول ڈراپ کرنا ہے۔
یہ کہہ کر سر شکیل نے جلدی سے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگالیا۔
اوکے پاپا مگر اس سے پہلے میرے کیمسٹری کے ٹیسٹ پیپر پر سائن تو کردیں۔
ردا نے ٹیسٹ پیپر سر شکیل کے سامنے رکھ دیا۔
سر شکیل نے جلدی سے قلم نکالا اور پیپر پر سائن کرنے لگے۔
پورے 87 مارکس لئے ہیں میں نے۔ ردا نے چہکتے ہوئے کہا۔
واووو۔ دیٹس گریٹ۔ سر شکیل نے ٹیسٹ پیپر سائن کرکے اسے لوٹاتے ہوئے اسکی طرف دیکھا اور پھر انکی نگاہیں وہیں اٹک سی گئیں۔
پتہ ہے پاپا، سر کہہ رہے تھے کہ اب میری پرفارمنس بہت اچھی ہوگئی ہے۔ اگر میں نے اسی طرح محنت کی تو مجھے فائنل میں پوزیشن بھی مل سکتی ہے۔ وہ اپنی رو میں بولتی جارہی تھی مگر شکیل سر کہاں سن رہے تھے، ان کی نظریں تو اسکی یونیفارم کی سفید شرٹ پر اٹکی ہوئی تھی، جہاں ایک خشک مگر گہرا دھبہ انکی بیٹی کی اچھی کارکردگی کا قصہ سنارہا تھا۔​
 
Dunya badi Benchot Hans k Khaye meine Zakham
3,125
5,995
143
Agar possible hai to apne stories Hindi section mein Roman Font mein likho. Ye forum naya hai to yaha urdu readers boht kam hain.
 
Newbie
10
7
3
یہ کیا ہے ماہم؟
یہ ٹیسٹ دیا ہے تم نے؟
کیا مارکس دوں اس کارکردگی پر تمہیں؟
شکیل سر کا پارہ ہائی دیکھ کر ماہم کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ وہ اسوقت اسٹاف روم میں شکیل سر کے سامنے نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ جو سامنے ٹیبل پر اسکے فزکس کا ٹیسٹ چیک کررہے تھے۔
سوری سر، اس بار معاف کردیں۔
وہ منمنائی۔
اس بار ؟ اس بار معاف کردوں؟
ماہم پورا سال تم نے کچھ نہیں کیا۔ فائنل ایگزام سر پر ہیں، اور تم کہہ رہی ہو اس بار معاف کردیں۔ شکیل سر بدستور اس پر برس رہے تھے، اور وہ کھڑی لرز رہی تھی۔
بس بہت ہوگیا، اب کل تم اپنے پیرینٹس کو ساتھ لیکر آنا میں اب ان سے ہی بات کرونگا۔ آخر ہمارے اسکول کی بھی کوئی ریپوٹیشن ہے۔ سر شکیل نے غصے میں اسکا ٹیسٹ پیپر ٹیبل پر پٹخ دیا۔
وہ سہم گئی۔
سر پلیز ، اس بار معاف کردیں پلیز۔ پیرینٹس کو نہ بلائیں۔ میں آئندہ آپکو شکایت کو موقع نہیں دونگی سر۔ پلیز سر پلیز ۔آئی پرومس سر۔
وہ گھگھیاتے ہوئے بولی۔
یہ پرومس اب آپ اپنے پیرینٹس سے کرنا۔ آپ اسٹوڈینٹس کی بیڈ پرفارمنس کا ہمیں بھی پرنسپل سر کو جواب دینا پڑتا ہے۔
سر شکیل آج کسی رعایت کے موڈ میں نہیں تھے۔
سر پلیز ۔ بس ایک موقع اور دے دیں۔ میں اگی بار آپ کو شکایت کا موقع نہیں دونگی۔ اس نے آخری التجا کی۔
شکیل سر نے اس کی بھیگی آنکھوں میں چند لمحے تک دیکھا اور کھڑے ہوگئے۔ اسٹاف روم کے دروازے پر پہنچ کر باہر سر نکال کر دائیں بائیں نظریں گھمائیں اور اسٹاف روم کا دروازہ بھیڑ دیا۔
ٹھیک ہے میں تمہیں آخری موقع دے رہا ہوں۔ لیکن اگر تم نے کسی سے ذکر کیا تو رزلٹ کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔ سمجھیں۔
یہ کہہ کر سر شکیل نے اسکے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور بولے۔ نیچے بیٹھ جاو۔
وہ کچھ نہ سمجھی اور الجھی نگاہوں سے سر کو دیکھتے ہوئے کارپٹ پر اکڑوں بیٹھ گئی۔
سر شکیل نے اسکے چہرے کے بالکل سامنے آکر پتلون کی زپ کھول دی۔۔۔۔۔۔
اگلے چند منٹوں بعد وہ اسٹاف روم کے واش بیسن پر جھکی بار بار کلی کررہی تھی۔ اسے شدید ابکائی محسوس ہورہی تھی۔ اچھی طرح رگڑ رگڑ کر منہ صاف کرنے کے بعد جب وہ ٹیبل پر آئی تو اسکی ٹیسٹ کاپی پر سو میں سے ستر کا ہندسہ درج ہوچکا تھا۔
یہ لو اپنا ٹیسٹ پیپر۔ اور یاد رکھنا آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ اوکے
اس نے خاموشی سے کاپی لی اورجانے کیلئے دروازے کیطرف پلٹنے لگی۔
رکو ماہم۔
اس نے پلٹ کر سر کو دیکھا، جن کی نظریں اسکی شرٹ پر لگے اک گیلے گاڑھے سے دھبہ کیطرف تھی۔
سر نے دو تین ٹشو اسکی طرف بڑھائے اور کہا،
یہ صاف کرلو پہلے۔
ماہم نے ٹشو پکڑے اور اس گیلے دھبے کو ہلکے ہلکے رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
----------------------------------------
گڈ مارننگ پاپا۔۔
سفید اسکول یونیفارم میں ملبوس ردا نے لاڈ سے سر شکیل کی گردن میں بانہیں ڈال دیں۔ سر شکیل اسوقت ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے اسی کا ہی انتظار کررہے تھے۔
گڈ مارننگ بیٹا۔ چلو اب جلدی سے ناشتہ کرلو۔ مجھے لیٹ ہورہا ہے۔ ابھی تمہیں بھی اسکول ڈراپ کرنا ہے۔
یہ کہہ کر سر شکیل نے جلدی سے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگالیا۔
اوکے پاپا مگر اس سے پہلے میرے کیمسٹری کے ٹیسٹ پیپر پر سائن تو کردیں۔
ردا نے ٹیسٹ پیپر سر شکیل کے سامنے رکھ دیا۔
سر شکیل نے جلدی سے قلم نکالا اور پیپر پر سائن کرنے لگے۔
پورے 87 مارکس لئے ہیں میں نے۔ ردا نے چہکتے ہوئے کہا۔
واووو۔ دیٹس گریٹ۔ سر شکیل نے ٹیسٹ پیپر سائن کرکے اسے لوٹاتے ہوئے اسکی طرف دیکھا اور پھر انکی نگاہیں وہیں اٹک سی گئیں۔
پتہ ہے پاپا، سر کہہ رہے تھے کہ اب میری پرفارمنس بہت اچھی ہوگئی ہے۔ اگر میں نے اسی طرح محنت کی تو مجھے فائنل میں پوزیشن بھی مل سکتی ہے۔ وہ اپنی رو میں بولتی جارہی تھی مگر شکیل سر کہاں سن رہے تھے، ان کی نظریں تو اسکی یونیفارم کی سفید شرٹ پر اٹکی ہوئی تھی، جہاں ایک خشک مگر گہرا دھبہ انکی بیٹی کی اچھی کارکردگی کا قصہ سنارہا تھا۔​
اسے مکافات عمل کہتےہیں کہانی کو اچھے اسلوب میں لفظوں کے پیرہن میں ڈھال کر ایک تلخ حقیقت کو عیاں کرنے کی کوشش کی ہے لکھنے والا بجا طور پر داد کا مستحق ہے
 
Some things are better forgotten.
Moderator
439
853
93
یہ کیا ہے ماہم؟
یہ ٹیسٹ دیا ہے تم نے؟
کیا مارکس دوں اس کارکردگی پر تمہیں؟
شکیل سر کا پارہ ہائی دیکھ کر ماہم کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ وہ اسوقت اسٹاف روم میں شکیل سر کے سامنے نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ جو سامنے ٹیبل پر اسکے فزکس کا ٹیسٹ چیک کررہے تھے۔
سوری سر، اس بار معاف کردیں۔
وہ منمنائی۔
اس بار ؟ اس بار معاف کردوں؟
ماہم پورا سال تم نے کچھ نہیں کیا۔ فائنل ایگزام سر پر ہیں، اور تم کہہ رہی ہو اس بار معاف کردیں۔ شکیل سر بدستور اس پر برس رہے تھے، اور وہ کھڑی لرز رہی تھی۔
بس بہت ہوگیا، اب کل تم اپنے پیرینٹس کو ساتھ لیکر آنا میں اب ان سے ہی بات کرونگا۔ آخر ہمارے اسکول کی بھی کوئی ریپوٹیشن ہے۔ سر شکیل نے غصے میں اسکا ٹیسٹ پیپر ٹیبل پر پٹخ دیا۔
وہ سہم گئی۔
سر پلیز ، اس بار معاف کردیں پلیز۔ پیرینٹس کو نہ بلائیں۔ میں آئندہ آپکو شکایت کو موقع نہیں دونگی سر۔ پلیز سر پلیز ۔آئی پرومس سر۔
وہ گھگھیاتے ہوئے بولی۔
یہ پرومس اب آپ اپنے پیرینٹس سے کرنا۔ آپ اسٹوڈینٹس کی بیڈ پرفارمنس کا ہمیں بھی پرنسپل سر کو جواب دینا پڑتا ہے۔
سر شکیل آج کسی رعایت کے موڈ میں نہیں تھے۔
سر پلیز ۔ بس ایک موقع اور دے دیں۔ میں اگی بار آپ کو شکایت کا موقع نہیں دونگی۔ اس نے آخری التجا کی۔
شکیل سر نے اس کی بھیگی آنکھوں میں چند لمحے تک دیکھا اور کھڑے ہوگئے۔ اسٹاف روم کے دروازے پر پہنچ کر باہر سر نکال کر دائیں بائیں نظریں گھمائیں اور اسٹاف روم کا دروازہ بھیڑ دیا۔
ٹھیک ہے میں تمہیں آخری موقع دے رہا ہوں۔ لیکن اگر تم نے کسی سے ذکر کیا تو رزلٹ کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔ سمجھیں۔
یہ کہہ کر سر شکیل نے اسکے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور بولے۔ نیچے بیٹھ جاو۔
وہ کچھ نہ سمجھی اور الجھی نگاہوں سے سر کو دیکھتے ہوئے کارپٹ پر اکڑوں بیٹھ گئی۔
سر شکیل نے اسکے چہرے کے بالکل سامنے آکر پتلون کی زپ کھول دی۔۔۔۔۔۔
اگلے چند منٹوں بعد وہ اسٹاف روم کے واش بیسن پر جھکی بار بار کلی کررہی تھی۔ اسے شدید ابکائی محسوس ہورہی تھی۔ اچھی طرح رگڑ رگڑ کر منہ صاف کرنے کے بعد جب وہ ٹیبل پر آئی تو اسکی ٹیسٹ کاپی پر سو میں سے ستر کا ہندسہ درج ہوچکا تھا۔
یہ لو اپنا ٹیسٹ پیپر۔ اور یاد رکھنا آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ اوکے
اس نے خاموشی سے کاپی لی اورجانے کیلئے دروازے کیطرف پلٹنے لگی۔
رکو ماہم۔
اس نے پلٹ کر سر کو دیکھا، جن کی نظریں اسکی شرٹ پر لگے اک گیلے گاڑھے سے دھبہ کیطرف تھی۔
سر نے دو تین ٹشو اسکی طرف بڑھائے اور کہا،
یہ صاف کرلو پہلے۔
ماہم نے ٹشو پکڑے اور اس گیلے دھبے کو ہلکے ہلکے رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
----------------------------------------
گڈ مارننگ پاپا۔۔
سفید اسکول یونیفارم میں ملبوس ردا نے لاڈ سے سر شکیل کی گردن میں بانہیں ڈال دیں۔ سر شکیل اسوقت ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے اسی کا ہی انتظار کررہے تھے۔
گڈ مارننگ بیٹا۔ چلو اب جلدی سے ناشتہ کرلو۔ مجھے لیٹ ہورہا ہے۔ ابھی تمہیں بھی اسکول ڈراپ کرنا ہے۔
یہ کہہ کر سر شکیل نے جلدی سے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگالیا۔
اوکے پاپا مگر اس سے پہلے میرے کیمسٹری کے ٹیسٹ پیپر پر سائن تو کردیں۔
ردا نے ٹیسٹ پیپر سر شکیل کے سامنے رکھ دیا۔
سر شکیل نے جلدی سے قلم نکالا اور پیپر پر سائن کرنے لگے۔
پورے 87 مارکس لئے ہیں میں نے۔ ردا نے چہکتے ہوئے کہا۔
واووو۔ دیٹس گریٹ۔ سر شکیل نے ٹیسٹ پیپر سائن کرکے اسے لوٹاتے ہوئے اسکی طرف دیکھا اور پھر انکی نگاہیں وہیں اٹک سی گئیں۔
پتہ ہے پاپا، سر کہہ رہے تھے کہ اب میری پرفارمنس بہت اچھی ہوگئی ہے۔ اگر میں نے اسی طرح محنت کی تو مجھے فائنل میں پوزیشن بھی مل سکتی ہے۔ وہ اپنی رو میں بولتی جارہی تھی مگر شکیل سر کہاں سن رہے تھے، ان کی نظریں تو اسکی یونیفارم کی سفید شرٹ پر اٹکی ہوئی تھی، جہاں ایک خشک مگر گہرا دھبہ انکی بیٹی کی اچھی کارکردگی کا قصہ سنارہا تھا۔​
مکافاتِ عمل سے آج تک کوئی نہیں بچ سکا

سبق آموز کہانی ہے

بہت خوب
 

Top