Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,363
1,823
143
دوسری طرف پولیس ٹانگ پہ ٹانگ سجائے بیٹھی تھی۔ پولیس انسپکٹر نے پہلے تو شنکتلا کو نظر انداز کیا اور پھر اسکے بیٹے کو قاتل بتا کر اسکے ہوش ہی اڑا دیے تھے۔
وہ روتی پیٹتی تھانے کے چکر لگاتی رہی لیکن نہ شنوائی ہوئی نہ رام لال کا کچھ پتہ چلا۔ البتہ اشرف کا دل کبھی کبھی پسیج جاتا تھا.
صاب یہ بڑھیا کیوں پیچھے پڑگئی ہے۔ اسکا کیا علاج کریں اب؟؟ اشرف نے سر پکڑ کر انسپکٹر سے کہا۔
تم ہی کہتے تھے سؤر انسان کہ یہ کردو وہ کردو۔ اب بھگتو اپنی اماں کو۔ انسپکٹر نے اسکو بے نقط سنا کر واپس بھیج دیا۔ آس پاس کے کانسٹیبل اسکی بے عزتی پہ دبی دبی ہنسی ہنس دیے۔
شنکتلا اب بھی تھانے میں بیٹھی دہائی دے رہی تھی۔
تنگ آکر انسپکٹر کمرے سے باہر آیا اور دہاڑا۔ دفع ہوجا طوائف کہیں کی۔ ورنہ تیرے بیٹے کے ساتھ تیرا بھی انکاؤنٹر کردونگا۔ اس نے پستول نکال کر چیمبر کھینچا اور شنکتلا کی کنپٹی پہ رکھ دیا۔ اسکی رینکتی آواز یکلخت حلق میں گم ہوگئی۔ وہ اٹھی اور جھٹ تھانے سے نکل کر گھر کو ہولی۔
انسپکٹر بھی اشرف کو مغلظات بکتا ہوا باہر نکل گیا۔
اسکی شکل پہ لعنت، پروموسن کا سوچو تب بھی ذلیل کرتا ہے حرام خور کہیں کا۔ اسنے انسپکٹر کی جی بھر کر کوسا۔
انسپکٹر نے رام لال مفرور ظاہر کرکے کسی بنا دیا تھا۔ اور اسکو گاؤں کے باہر والے مکان سے نکال کر کسی نا معلوم مقام پہ پہنچا دیا تھا۔
جب اس صورتحال کو مہینہ بھر ہوگیا تو شنکتلا نے بھی مایوس ہوکر آنا چھوڑ دیا۔ اسنے شاید اب دروازہ چوپٹ کھول دیا تھا۔ اور یہ عقدہ بھی بعد میں کھلا کہ انسپکٹر اسکے گھر پہ قبضہ کرکے اسکو اپنے گھر میں ایک رکھیل کی حیثیت دے چکا تھا. لیکن وہ اس کیس کو لیکر اتنا الجھا ہوا تھا کہ کسی قسم کے لین دین کی بجائے شنکتلا کو کمائی کرتے ہوئے چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔
وہ اب رات گزارنے شنکتلا کے پاس بے خوف ہوکر آجاتا تھا۔ اب اسکی آشیر باد سے اس گھر سے منشیات بھی فروخت ہونے لگی تھیں۔ لیکن پولیس کے ڈر سے کون بولتا۔ وہ لوگ جو چھپ کر کونوں کھدروں میں دبک کر پیتے تھے اب عیاش پھرتے تھے.

***
 
.
Moderator
2,363
1,823
143
آج سجن ماسٹرجی کی موت کے بعد پہلی بار انکے گھر آیا تھا۔ ڈیڑھ ماہ وردہ بیوگی کے کاٹ چکی تھی۔ اسنے وردہ پہ نظر ڈالی تو دیکھتا رہ گیا۔ وہ بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی۔ بال الجھ کر چیکٹ ہورہے تھے۔ لمبے گھنے بال جنکو اس نے خود ہی کاٹ کر کندھے تک کرلیا تھا۔
وہ جاکر چپ چاپ بیٹھ گیا۔ کافی دیر کی خاموشی کے بعد وردہ نے ہی چپ توڑی۔
کیا ملا رامو کو یہ کرکے؟؟؟ خود وہ بھی بھاگ گیا اور ماسٹرجی کو بھی گھسیٹ لے گیا۔
اسکو پتہ نہیں ہوگا۔ وہ جیل سے چھوٹا تھا ابھی ہی۔ نفرت ہوگی۔
لیکن اب وہ ماسٹر نہیں میرا شوہر تھا۔ شوہر مرا ہے میرا۔ وہ آہستگی سے بولی۔
پھر کچھ دیر خاموشی رہی۔ تمہارے ابو آئے تھے؟؟؟
ہاں ایک بار آئے تھے. کچھ پیسے دیے تھے مجھے۔ اور اس مہینے بھیجے ہیں۔
سجن کچھ دیر اور بیٹھ کر چلا آیا۔ اب نہ اسکول چل رہا ہے نہ کوئی یارانہ ہے۔ سب اگرچہ اپنے کام دھندے شروع کرچکے ہیں لیکن کچھ گھروں کے ستون گرگئے ہیں۔
ماسٹرجی کے بعد اسکول اب تک بند پڑا تھا۔ کوئی بھی اس جگہ نہ تو پڑھانے کو تیار تھا اور نہ ہی بچے جانے کو تیار تھے۔
ایک مہینے میں اسکول بھوت بنگلہ لگنے لگا تھا۔
کبھی سجن ادھر سے گزرتا تو نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی نظریں ٹیلے کے پیچھے چھپے دو بچوں پہ پڑ جاتیں۔ وہ بے قرار ہوکر انکی طرف بڑھتا لیکن وہ ہوا میں تحلیل ہوجاتے۔

 
.
Moderator
2,363
1,823
143
حسبِ معمول کانسٹیبل اشرف سیگریٹ لیکر بھر رہا تھا۔ اچانک اسکو جیپ کی روشنی محسوس ہوئی تو وہ اٹھ کر چھت سے جھانکنے پہ مجبور ہوگیا۔
انسپکٹر؟؟؟ اچانک اسکے منہ سے نکلا۔ یہ حرامی یہاں کیا کررہا ہے۔
اتنے میں انسپکٹر اندر داخل ہوا۔ اشرف نے اسکو سلیوٹ کیا۔
بہت خوب چل اب۔ انسپکٹر نے اس سے کہا۔ لیکن جانا کدھر ہے۔
بس تو چل گاڑی میں بیٹھ۔ وہ بادل نخواستہ پیر پٹختا گاڑی کی طرف چل دیا۔ انسپکٹر بھی جلدی سے بیٹھا اور گاڑی ہوا ہوگئی۔
ذرا دیر بعد ہی وہ لوگ ایک مکان کے پاس رکے۔ انسپکٹر نے اسکو وہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور خود مکان کی جانب بڑھ گیا۔
پانچ منٹ بعد وہ لوٹا تو اسکے ساتھ رام لال بھی تھا۔ وہ تقریباً لڑکھڑا رہا تھا۔ اس نے رام لال کو جیپ میں پیچھے بٹھایا اور واپس آگے آ بیٹھا۔
کیا بات کالی ماتا کیطرح شکل ہورہی ہے تیری۔ انسپکٹر نے اشرف کو چپ دیکھ کر کہا۔ نن نہیں تو، میرا ہی کیا دھرا ہے سب کچھ۔
انسپکٹر نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ اب بکواس کی تو دو قاتل مارے جائیں گے۔
کیا مطلب؟؟؟ میرا بھی انکاؤنٹر کردو گے آپ؟؟؟
مذاق کررہا ہوں۔ لیکن اگر تو نے ہوشیاری ماری تو مجھے ایسا کرنا پڑے گا۔
دو منٹ بعد انسپکٹر نے ایک جگہ گاڑی روک دی۔ چل اتر بھی اب۔ اتنا بوجھل ہورہا ہے جیسے پیٹ سے ہو۔ اسکا طعنہ سن کر اشرف جلدی سے اتر گیا۔
اسی نے رام لال کو جیپ سے اتار۔ وہ نجانے کس نشے میں تھا۔ اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور آنکھیں چڑھی ہوئی اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ اس نے ایک نظر گھما کر انسپکٹر کو دیکھا۔ پروموسن پروموسن!! انسپکٹر کے چہرے پہ شیطانی ہنسی جاری تھی۔
لیکن صاب ہمیں اسکو نہیں مارنا چاہئیے. اسکی بیوہ ماں.
بکواس بند کر ورنہ ٹھوک دونگا تجھے۔ انسپکٹر اسکے ماتھے پہ پستول رکھ کر چلایا. اب ہٹ سامنے سے۔
مخمور رام لال نے ایک نظر اٹھا کر انکو دیکھا اور نجانے کیوں ہنس دیا۔ اپنی بے بسی کا ماتم تھا یا اشرف پہ طنز کا وار۔
انسپکٹر نے رام لال کو گریبان سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک گڑھے میں کھڑا کردیا۔
رام لال کے چہرے پہ ایک دبی دبی ہنسی ابھری۔ وہ نشے میں دھت اس سارے عمل کو نجانے کیا سمجھ رہا تھا۔
ایک منٹ صاب!! آپ ایسے نہیں مار سکتے۔ اشرف انسپکٹر کو پستول تانتے دیکھ کر چیخا۔
بکواس بند! انسپکٹر کی آواز آئی اور ساتھ ہی گولی کی آواز فضا گونج اٹھی۔ رام لال نے ایک نظر انسپکٹر سے ملائی جو اسی کو دیکھ رہا تھا۔ اور پھر فوراً انسپکٹر دھڑام سے رام لال پہ گرپڑا۔ اسکے سر کے اگلے حصے سے پار ہوتی گولی لمبے قد کی وجہ سے رام لال کے اوپر سے نکل گئی تھی۔
چل چل بھاگ نکلتے ہیں یہاں سے۔ اشرف نے رام لال کا ہاتھ ایک بار پھر زور سے کھینچا اور جیپ میں لا بٹھایا۔ انسپکٹر کی جیب سے اسکا موبائل اور نقدی برآمد ہوئی۔
رام لال جیپ میں بیٹھا اب بھی اونگھ رہا تھا۔ اشرف نے ایک ڈبڈبائی نگاہ انسپکٹر کے بے جان وجود پہ ڈالی۔ وہ اوندھا پڑھا تھا اور خون بہ کر مٹہ کو رنگین کررہا تھا.
اشرف نے فون پہ کسی کے نمبر ڈائل کیے اور کان سے لگالیا۔
ہیلو میں اشرف کانسٹیبل۔ فوراً گاڑی لیکر بس اسٹاپ سے آگے جنگل میں جو بند کنواں ہے وہاں پہنچو۔
پانچ منٹ بعد کانسٹیبل چندو گاڑی لیکر آچکا تھا۔ انسپکٹر کی لاش دیکھ کر اسکے منہ سے چیخ نکل گئی۔
چپ کر بے کتے۔ اور اب سن۔ سارے کیسز جو رام لال پہ بنے ہیں وہ ایک ایف آئی آر سے اس پہ آجانے چاہئیں۔
اسکی ماں کی ایف آئی آر "رام لال کے پولیس اغواء کی" جو ماسٹرجی کے قتل سے دو دن پہلے کاٹی گئی۔ اور اسمیں نام ڈال انسپکٹر شمشیر بہادر مرحوم کا۔
میں باقی کیسز میں مطلوب کرکے سیلف ڈیفینس میں مارنے کا واقعہ لکھ دونگا اور پھر رام لال کو ہم۔دونوں نے بازیاب کرایا۔
ٹھیک ہے استاد کام ہوجائے گا۔ ہاں شاباش اب لاش اٹھوا میرے ساتھ۔ ان دونوں نے انسپکٹر کو اٹھا کر جیپ کے پیچھے پھینکا اور تھانے کی طرف چل دیے۔
اگلی صبح گاؤں بھر میں خبر جنگل کی آگ کیطرح پھیل گئی تھی۔ سب لوگ تھانے کے باہر جلوس کی شکل میں کھڑے تھے۔ تھانے کا عملہ اندر محصور تھا اور کھڑکیوں پہ پتھر برس رہے تھے۔
اگر اشرف ہوائی فائر کرکے لوگوں کو منتشر نہ کرتا تو آج تھانہ مکمل تہس نہس کردیا جاتا۔ لوگ ادھر ادھر بھاگے تو کچھ سکون ہوا۔
اسکے بعد گاؤں کے چند ذمے دار افراد کو تھانے بلایا گیا اور انکو ساری کہانی سنائی گئی۔ نوفل صاحب بھی انہی میں شامل تھے۔ انسپکٹر کے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر بھی دکھلائی گئی اور پرانگ کیسز جن میں ریپ کیسز اور چرس جوے کا اڈہ چلانے کا کیس بھی تھا۔
گاؤں کے عمائدین سٹپٹا کر رہ گئے۔ انکو رام لال سے ملوایا گیا جسکی حبسِ بیجا میں رہنے کی وجہ سے حالت انتہائی خراب تھی۔​
 
.
Moderator
2,363
1,823
143
دس منٹ کی اس میٹنگ کے بعد انسپکٹر کے گھر فون ملایا گیا تو اسکی بیوی اور اکلوتا بھائی تھانے پہنچ گئے۔ انکو مختصر بتا کر لاش حوالے کردی گئی۔ پہلے تو انہوں نے احتجاج کرنا چاہا لیکن پھر پولیس کے ڈنڈے سے بے بس ہوکر عدالت جانے کا فیصلہ کرکے واپس ہولیے۔ شام تک گاؤں میں انسپکٹر ہی ماسٹرجی کا قاتل مشہور ہوچکا تھا۔ شنکتلا کو بھی یرغمال شو کرکے واپس گاؤں لایا گیا۔
شام تک اعلیٰ افسران کی ٹیم گاؤں پہنچ چکی تھی جنکے لئے انسپکٹر پہ موجود لاتعداد کیسز کی فائل تیار تھی۔ تازہ کیس ماسٹرجی کے قتل کا تھا۔ اشرف ایس ایس پی کے سامنے بیٹھا تھا۔
لیکن تم نے ایک حاظر سروس انسپکٹر پہ گولی چلادی۔
صاب میں اس مرڈر کیس کو حل کررہا تھا۔ اور میں قاتل کے قریب تھا۔ اسلئے وہ مجھے ویرانے میں بہانے سے لے گیا اور قتل کرنا چاہا۔ آپس کی فائرنگ سے وہ مارا گیا۔
اگر یہی بیان تم سے عدالت میں طلب کیا گیا؟؟؟
بالکل صاب ڈر کس بات کا؟؟ پولیس کا کام یہی ہے۔ اچھا خیر ایک کام کرو تو عدالت کا چکر بھی ختم ہوجائے گا۔ ایس ایس پی نے اسکی طرف جھکتے ہوئے کہا۔
حکم سرکار۔ ایسا کرو یہ اڈے والا کیس نکال دو۔ وہ ہمارے کھاتے سے چلتا ہے۔ ایس ایس پی نے اسکو آنکھ ماری۔
اور پروموسن سرکار؟؟؟ اشرف اسکی طرف یکھ کر مسکرایا۔
بڑے کائیاں ہو۔ چلو ہوجائے گی۔ اب چلتے ہیں۔ اشرف نے اسکو زوردار سلیوٹ کیا اور وہ اپنی ٹیم کو لیکر چلتا بنا۔
رام لال کو پولیس کسٹڈی میں ہسپتال لیجایا گیا. تین بعد وہ تندرست ہوکر گاؤں لوٹا تو اسکی ماں پرانے گھر میں اسکی منتظر تھی۔
جیسے ہی پولیس کی جیپ اسکے گھر پہ رکی اسکی ماں ہجوم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس سے لپٹ گئی. ایکطرف کھڑا سجن بھی اشکبار تھا۔
اشرف نے ہسپتال میں اسکو ساری کہانی اچھی طرح سمجھائی تھی اور ہر موقعے پہ کیے جانے والے سوالات کے جوابات بھی۔
لیکن اسکی نوبت آنے سے پہلے ہی جذبات میں بہتے لمحات نے لوگوں کو سوال جواب کا موقعہ نہ دیا تھا۔
کچھ دن بعد رام لال گھر سے باہر نکلنے لگا۔ آج سجن اسکے گھر آیا بیٹھا تھا۔ رام لال نے اسکو اشرف کی رٹائی ہوئی کہانی بتائی اور اپنے قاتل نہ ہونا بھی۔ اب یہ سب چل کر وردہ کو بھی بتانا وہ تم کو ہی قاتل سمجھتی ہے۔ ہاں آج دوپہر کو چلتے ہیں۔ دوپہر ہوتے وہ دونوں وردہ کے گھر ہولیے۔
دروازے پہ دستک دیتے ہوئے اسکی آنکھوں میں ایک سال پرانا رام لال آگیا۔ تیل سے بال جماکر سرمے سے بھری آنکھیں لیے اسکول بیگ تھام کر ٹیوشن کا دروازہ کھٹکھٹاتا رام لال اب کسی اور حیثیت سے اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔
کون ہے؟؟ اندر سے مانوس آواز ابھری تو جیسے کسی نے اسکا دل مٹھی میں لیکر بھینچ دیا ہو۔ رام لال سے جواب نہ دیا گیا۔
تیسری دفعہ سوال پہ سجن نے اپنا نام بتایا۔ دروازہ کھلا تو رام لال کو سامنے دیکھ کر وردہ کی چیخ نکل گئی۔ رام لال بھی اسکو دیکھ کر سکتے میں رہ گیا تھا۔ وردہ اب کتنی کمزور لگنے لگی ہے. بڑھا ہوا پیٹ اور ڈھانچے جیسا جسم۔
کیا کرنے آئے ہو یہاں اب؟؟؟ تم پولیس سے جتنا بھی جھوٹ بلوا لو۔ لیکن تم نے مارا ہے۔ اور میں اپنی زندگی تباہ کرنے والے کو معاف نہیں کرسکتی۔ یہ کہ کر اس نے دروازہ رام لال کے منہ پہ بند کردیا۔
چند لمحے وہیں کھڑے رہ کر وہ دونوں واپس لوٹ آئے۔
چل میرے گھر چلتے ہیں۔ سجن نے اسکا دل بہلانے کیلئے کہا اور زبردستی اسکو اپنے گھر کھینچ لے گیا۔
وہاں بھی سوالات کی ایک دنیا تھی۔ جنکے جوابات دینے سے رام لال تھک چکا تھا۔ اکثر کے جوابات سجن نہ دیتا تو پاگل ہی ہوجاتا۔
وہاں سے نکل کر وہ دونوں اپنے پرانے اڈے پہ کا بیٹھے۔
سب کچھ پرانا ہے۔ بس ہم نئے ہیں۔ رام لال بڑبڑایا۔ ہاں اور اب جاسوسی کرنے کو بھی کوئی نہیں بچا۔ سجن نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
رام لال نے مسکراتے ہوئے جیب سے سیگریٹ نکال کر سلگالی۔
یہ کیا بدتمیزی ہے رامو۔ یہ کب سے شروع کردی تو نے؟؟ سجن نے غصے سے اسکو دیکھا تو وہ مسکرادیا۔
تو اگر مجھے کچھ دن پہلے دیکھتا تو نجانے کیا کہتا۔ چرس کی عادت پڑگئی ہے اب۔ یہ بدن ایسے ہی برباد نہیں ہوتا۔ اس نے اپنے سینے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
سجن گہری سوچ میں ڈوب کر رہ گیا۔

چند دن بعد سجن نے وردہ کو جاکر سمجھایا تو وہ رام لال سے بات کرنے پہ آمادہ ہوئی.
سجن اسکو لیکر دوبارہ وردہ کے گھر جا پہنچا۔
وردہ اور رام لال چارپائی پہ بیٹھ گئے۔ سجن نے چولہے کے پاس پڑی چوکی گھسیٹ لی۔ چند لمحے بات کرنے پہ رضامند وردہ نے بات شروع کی تو گھنٹوں بیت گئے۔ ہزار باتیں تھیں۔ سورج چھپنے پہ آگیا تھا جب رام لال اس سے رخصت ہوا۔
شکر ہے اسکے دماغ سے کچھ سوال تو ہٹے۔ واپسی پہ سجن نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
ہفتہ بھر ایسے ہی مزید گزر گیا۔ زندگی اپنے معمول پہ لوٹ آئی تھی۔ لیکن گاؤں کا اسکول بند پڑا تھا۔
رام لال نے سجن کو اس طرف توجہ دلائی۔
لیکن اب ماسٹرجی کون ہو؟؟؟ گاؤں کے تعلیم یافتہ لوگ شہر میں کام کر​
 
.
Moderator
2,363
1,823
143
شہر میں کام کرتے ہیں۔ جو جاہل ہیں وہ کیا کریں۔
ایسا کرتے ہیں پرائمری کی پڑھائی شروع کردیتے ہیں۔ اسکول کم از کم صاف رہے گا۔ اور اگر وردہ تیار ہو تو وہ لڑکیوں کو پڑھائے گی۔ رام لال کی بات معقول تھی۔
ان دونوں نے گاؤں کے لوگوں سے بات کی تو وہ بھی راضی ہوگئے۔
اسکول کو صاف ستھرا کیا گیا اور اگلے دن بچے قطاریں بنا کر قومی ترانہ پڑھ رہے تھے۔ وردہ نے فی الحال معذرت کرکے بعد کا وعدہ کیا تھا۔
رام لال اور سجن کو ہی پرائمری کی کلاسز کا ٹیچر بنایا گیا۔ انکے اسکول میں بچوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا تھا۔
ایک مہینہ ایسے ہی گزرا۔ وردہ کے یہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی۔
رام لال اور سجن برابر اسکے گھر جاکر خبرگیری کرتے تھے۔ شنکتلا بھی اب وردہ کو دیکھنے آنے لگی تھی۔
چند ماہ بعد وردہ بھی بچی اٹھائے اسکول آ پہنچی۔ اور لڑکیوں کی کلاس اسکو تھمادی گئی۔
اب چھوٹا سا اسکول کافی وسیع ہوگیا تھا۔ گورمنٹ کی پرانی عمارت کو ٹھوکا پیٹا گیا۔ دو کمرے جو ویران پڑے تھے انکا لباڑ نکال کر انکو بھی آباد کیا گیا اور ایک چھوٹا سا کمرہ تعمیر کرکے اسٹاف روم کا نام دیدیا گیا۔
ایک دن وہ رام لال کیساتھ بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ آج سجن نے چھٹی کی تھی۔ وردہ کے کہنے پہ پھپھا نے اسکول میں چھوٹے سے کچن کا اضافہ کردیا تھا۔
شادی کرلو اب۔ کب تک یونہی رہو گی۔ اس نے وردہ کو مخاطب کیا۔
وہ چپ چاپ خلاؤں میں گھورتی رہی۔ اب تو بیٹی بھی آگئی ہے تمہارے گھر۔
لیکن مجھے شادی نہیں کرنی۔ اسنے گود میں سوئی بیٹی کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔
لیکن بنا شادی کے عورت تباہ ہوجاتی ہے۔
اچھا تو تمہاری ماں بھی تو بیوہ تھیں۔ اسنے رام لال کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
انکے ساتھ بالکل بھی اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ وہ آہستہ سے بولا۔
لیکن اسکے قصور وار ماسٹرجی تھے۔ اور اب ماسٹرجی تم ہو۔
وہ بات مکمل کرکے ہنسی۔ ویسے ایک بات ہے رامو۔
کیا بات؟؟ اسنے چونک کر وردہ کو دیکھا۔
میری بیٹی کا واسطہ ایک اچھے ماسٹر سے پڑے گا۔ جو اگر اس سے شادی کر بھی لے تو اسکا کم از کم ریپ نہیں کرے گا۔
وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
ہاں ورنہ اوپر والے نے ہر ماسٹرجی کیلئے کوئی نہ کوئی رام لال ضرور رکھا ہے۔ وردہ نہ سمجھی میں سر ہلاتی رہ گئی۔

ختم شد۔​
 
Well-known member
1,705
4,890
145
""دربدر"" (پہلی قسط)
Kahani kaa aaghaaz bhaavak laga rahaa he...
iss pehle hisse mein aik ladki bachpan se kis tarah ke halat se gujarti he... woh lekhak ne dikhane ki koshish kihe...
Aurat ke bohat saare dukhon ye bhi aik bada dard hota he ke koi us "manhoos" kahe... yeh manhoos shabd aik jeev se jeene aashaa cheenane ke saath saath uss ke andar se aatmasammaan bhee cheen leti he...
kis khubsoorti se lekhak ne bhaav likhe hein aik aesi ladki ke jo apni hi Dadi ke marne se dukhi nahi balke khush he...
 

Top