- 2,363
- 1,823
- 143
دوسری طرف پولیس ٹانگ پہ ٹانگ سجائے بیٹھی تھی۔ پولیس انسپکٹر نے پہلے تو شنکتلا کو نظر انداز کیا اور پھر اسکے بیٹے کو قاتل بتا کر اسکے ہوش ہی اڑا دیے تھے۔
وہ روتی پیٹتی تھانے کے چکر لگاتی رہی لیکن نہ شنوائی ہوئی نہ رام لال کا کچھ پتہ چلا۔ البتہ اشرف کا دل کبھی کبھی پسیج جاتا تھا.
صاب یہ بڑھیا کیوں پیچھے پڑگئی ہے۔ اسکا کیا علاج کریں اب؟؟ اشرف نے سر پکڑ کر انسپکٹر سے کہا۔
تم ہی کہتے تھے سؤر انسان کہ یہ کردو وہ کردو۔ اب بھگتو اپنی اماں کو۔ انسپکٹر نے اسکو بے نقط سنا کر واپس بھیج دیا۔ آس پاس کے کانسٹیبل اسکی بے عزتی پہ دبی دبی ہنسی ہنس دیے۔
شنکتلا اب بھی تھانے میں بیٹھی دہائی دے رہی تھی۔
تنگ آکر انسپکٹر کمرے سے باہر آیا اور دہاڑا۔ دفع ہوجا طوائف کہیں کی۔ ورنہ تیرے بیٹے کے ساتھ تیرا بھی انکاؤنٹر کردونگا۔ اس نے پستول نکال کر چیمبر کھینچا اور شنکتلا کی کنپٹی پہ رکھ دیا۔ اسکی رینکتی آواز یکلخت حلق میں گم ہوگئی۔ وہ اٹھی اور جھٹ تھانے سے نکل کر گھر کو ہولی۔
انسپکٹر بھی اشرف کو مغلظات بکتا ہوا باہر نکل گیا۔
اسکی شکل پہ لعنت، پروموسن کا سوچو تب بھی ذلیل کرتا ہے حرام خور کہیں کا۔ اسنے انسپکٹر کی جی بھر کر کوسا۔
انسپکٹر نے رام لال مفرور ظاہر کرکے کسی بنا دیا تھا۔ اور اسکو گاؤں کے باہر والے مکان سے نکال کر کسی نا معلوم مقام پہ پہنچا دیا تھا۔
جب اس صورتحال کو مہینہ بھر ہوگیا تو شنکتلا نے بھی مایوس ہوکر آنا چھوڑ دیا۔ اسنے شاید اب دروازہ چوپٹ کھول دیا تھا۔ اور یہ عقدہ بھی بعد میں کھلا کہ انسپکٹر اسکے گھر پہ قبضہ کرکے اسکو اپنے گھر میں ایک رکھیل کی حیثیت دے چکا تھا. لیکن وہ اس کیس کو لیکر اتنا الجھا ہوا تھا کہ کسی قسم کے لین دین کی بجائے شنکتلا کو کمائی کرتے ہوئے چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔
وہ اب رات گزارنے شنکتلا کے پاس بے خوف ہوکر آجاتا تھا۔ اب اسکی آشیر باد سے اس گھر سے منشیات بھی فروخت ہونے لگی تھیں۔ لیکن پولیس کے ڈر سے کون بولتا۔ وہ لوگ جو چھپ کر کونوں کھدروں میں دبک کر پیتے تھے اب عیاش پھرتے تھے.
***
وہ روتی پیٹتی تھانے کے چکر لگاتی رہی لیکن نہ شنوائی ہوئی نہ رام لال کا کچھ پتہ چلا۔ البتہ اشرف کا دل کبھی کبھی پسیج جاتا تھا.
صاب یہ بڑھیا کیوں پیچھے پڑگئی ہے۔ اسکا کیا علاج کریں اب؟؟ اشرف نے سر پکڑ کر انسپکٹر سے کہا۔
تم ہی کہتے تھے سؤر انسان کہ یہ کردو وہ کردو۔ اب بھگتو اپنی اماں کو۔ انسپکٹر نے اسکو بے نقط سنا کر واپس بھیج دیا۔ آس پاس کے کانسٹیبل اسکی بے عزتی پہ دبی دبی ہنسی ہنس دیے۔
شنکتلا اب بھی تھانے میں بیٹھی دہائی دے رہی تھی۔
تنگ آکر انسپکٹر کمرے سے باہر آیا اور دہاڑا۔ دفع ہوجا طوائف کہیں کی۔ ورنہ تیرے بیٹے کے ساتھ تیرا بھی انکاؤنٹر کردونگا۔ اس نے پستول نکال کر چیمبر کھینچا اور شنکتلا کی کنپٹی پہ رکھ دیا۔ اسکی رینکتی آواز یکلخت حلق میں گم ہوگئی۔ وہ اٹھی اور جھٹ تھانے سے نکل کر گھر کو ہولی۔
انسپکٹر بھی اشرف کو مغلظات بکتا ہوا باہر نکل گیا۔
اسکی شکل پہ لعنت، پروموسن کا سوچو تب بھی ذلیل کرتا ہے حرام خور کہیں کا۔ اسنے انسپکٹر کی جی بھر کر کوسا۔
انسپکٹر نے رام لال مفرور ظاہر کرکے کسی بنا دیا تھا۔ اور اسکو گاؤں کے باہر والے مکان سے نکال کر کسی نا معلوم مقام پہ پہنچا دیا تھا۔
جب اس صورتحال کو مہینہ بھر ہوگیا تو شنکتلا نے بھی مایوس ہوکر آنا چھوڑ دیا۔ اسنے شاید اب دروازہ چوپٹ کھول دیا تھا۔ اور یہ عقدہ بھی بعد میں کھلا کہ انسپکٹر اسکے گھر پہ قبضہ کرکے اسکو اپنے گھر میں ایک رکھیل کی حیثیت دے چکا تھا. لیکن وہ اس کیس کو لیکر اتنا الجھا ہوا تھا کہ کسی قسم کے لین دین کی بجائے شنکتلا کو کمائی کرتے ہوئے چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔
وہ اب رات گزارنے شنکتلا کے پاس بے خوف ہوکر آجاتا تھا۔ اب اسکی آشیر باد سے اس گھر سے منشیات بھی فروخت ہونے لگی تھیں۔ لیکن پولیس کے ڈر سے کون بولتا۔ وہ لوگ جو چھپ کر کونوں کھدروں میں دبک کر پیتے تھے اب عیاش پھرتے تھے.
***