Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,363
1,824
143
سہ پہر کو شنکتلا پولیس اسٹیشن میں بیٹھی انسپکٹر کو اطلاع دے رہی تھی۔
لیکن صاب میرے بیٹے کو کچھ نہیں ہوگا نا۔ آپ نے وعدہ کیا ہے۔
ہاں کچھ نہیں ہوگا اسکو۔ تو جا گھر پہ بیٹھ۔ میں ان دونوں کو لائے گا۔ اور تیرے بیٹے کو کچھ دن اپنے پاس رکھ کر ادھر سمجھائے گا۔ پھر بھیج دے گا تیرے گھر تو جا فکر مت کر۔
یہ پی لینا اور چلی جانا۔ انسپکٹر نے چائے کا کپ اسکی طرف کھسکایا اور فون اٹھا کر نمبر ملانے لگا۔
جی ہیلو نوفل میاں!! جی مجھے پتہ چل گیا ہے۔ آپ ذرا لڑکی کے باپ کو بتا دو۔
پھپھا نے فون عمران صاحب کو پکڑا دیا۔

ٹھیک ہے ہم بھی آپکے ساتھ چلتے ہیں تاکہ کسی دھونس دھمکی کا شائبہ نہ ہو کسی کو بھی۔
ٹھیک ہے بھائی صاحب ویسے آپکا جانا ضروری بھی نہیں تھا۔ انسپکٹر بولا۔
ہاں لیکن بس ان لوگوں سے عزت کیساتھ بات کرکے خاندانی طریقے سے اسکو لے آئیں گے ہم تاکہ نفرت کو ہوا نہ لگے۔
بس ٹھیک ہے بادشاہو آپ فوراً تھانے آجاؤ۔ ہم نکل رہے ہیں۔
عمران صاحب نے پھپھا کو اشارہ کیا اور دو منٹ میں تیار ہوکر دونوں تھانے کیلئے نکل پڑے۔
جلد ہی وہ سب بستی فیض نگر کی جانب اڑے جارہے تھے۔

کھانا کھا کر وہ دونوں کمرے میں جاکر لیٹ گئے۔ اگر گاؤں جانا پڑا تب بڑے مسئلے ہوجائیں گے۔ میری شادی ماسٹر سے نہ کردی جائے۔
کر بھی دی جائے تب بھی کونسا تو نے اسکے ساتھ رہنا ہے۔ تو میرے ہی ساتھ رہے گی۔
ہممم۔ لیکن اب کیا کریں، کوئی ٹھکانہ ہے نا کوئی ہمدرد۔ کہاں جائیں۔
ابھی تو سونے دے۔ شام تک کچھ سوچتے ہیں۔ اس نے کروٹ بدل کر آنکھیں موند لیں۔

دروازہ زور زور سے پیٹا جارہا تھا۔ لگتا ہے جیسے توڑ ہی ڈالے گا کوئی۔
وہ دونوں ہڑبڑا کر اٹھے۔ موسی کمرے کے دروازے پہ کھڑی تھی۔ جاؤ دیکھو کون آیا ہے رامو۔ کون پاگل ہے دروازے پہ۔
اچھا جاتا ہوں۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا اور دروازہ کھولتے ہی تین آدمی گھر میں اسکو دھکا دیتے ہوئے گھس آئے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا انہوں نے اسکو دبوچتے ہوئے قابو کرلیا۔
موسی بھی ہکا بکا رہ گئی. پولیس نے کسی کو سنبھلنے کا موقعہ دیے بغیر ہی ان دونوں کو گاڑی میں بٹھایا اور لے اڑی۔
دو گھنٹے بعد وہ پولیس اسٹیشن میں بیٹھے تھے۔ رام لال کو ایک آدھ تھپڑ لگا کر لاک اپ میں بند کیا اور وردہ کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔
ماسٹرجی بھی اطلاع ملتے ہی تھانے آئے تھے۔ انکو دیکھتے ہی رام لال نے نفرت سے منہ پھیر لیا۔ وہ فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پہ سجائے کرسی پہ بیٹھ کر چائے پینے لگے۔​
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
شام تک رام لال کی ماں بھی آپہنچی تھی۔ اس نے بھی لا تعداد اور لازوال گالیوں سے اسکا استقبال کیا۔ وہ تو انسپکڑ نے اسکو سمجھا بجھا کر روکا ورنہ وہ اندر جاکر رام لال کی گت بنانے پہ بضد تھی۔
وہ بھی کرسی پہ جابیٹھی اور چائے کی سڑکیاں لگانے لگی۔
رام لال کو بھی اسکی ماں کا لایا ہوا کھانا دیدیا گیا۔
وہ بھی چپ چاپ بیٹھ کر کھانے لگا۔
چھوٹی سی میٹنگ کرکے وہ لوگ واپس ہولیے۔ ماسٹرجی رام لال کی اماں کو لیکر چلے گئے۔ اور رام لال من ہی من میں ان سب کو مغلظات بکتا رہ گیا۔
شام تک گاؤں بھر میں خبر عام ہوچکی تھی۔ سجن بھی تھانے پہنچ گیا تھا۔
اس نے بڑی ضد کرکے انسپکٹر سے رام لال کو ملنے کی اجازت لی۔
کیا ضرورت تھی یہ پاگل پن کرنے کی؟؟؟ اب سیکھ لیا نا سبق؟؟؟ اس نے رام لال کو ڈانٹا۔
ہاں تو کیا کرتا؟؟؟ تیری طرح بیغیرتی سے وردہ کو ماسٹرجی کی بھوک مٹاتا ہوا دیکھتا؟؟؟
تو بھی تو ہیجڑا بنا ہوا بیٹھا رہتا ہے ادھر گاؤں میں۔ ایسی زندگی سے بہتر ہے پولیس کی گولی سے مروں میں۔
اور ماں کی ھھی پرواہ نہیں ہے تجھے اپنی؟؟؟ جانتا ہے تو اسکو کتنی پریشانی ہوئی تھی تیرے بعد؟؟؟
کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہوگی۔ ماسٹرجی ہیں نا۔ انکے ساتھ رہی ہونگی وہ۔ رام لال نے اسکو طنز سے دیکھا۔
بہرحال اب تو کب بھی چھوٹے تو انسان بن کر باہر آنا۔ تیرے بنا سب سونا سونا لگا مجھے۔ جہاں جاتا تھا لوگ طعنے کستے تھے تیرا دوست تیرا دوست کہ کہ کر۔ سجن نے اسکو ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھا۔
شادی تو میں وردہ سے ہی کرونگا. چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ اب جا تو۔ انسپکٹر آکر ڈانٹے گا۔ اچھا چلتا ہوں. یہ رکھ لے حلوہ ہے۔ اس نے ایک گول ٹکیہ رام لال کو تھمائی اور واپس ہولیا۔
اگلے دن ماسٹرجی وردہ کی طبیعت پوچھنے کے بہانےپھر حاضر تھے۔
اسکو نیند کی دوا دیکر سلا دیا گیا تھا تاکہ دماغ پرسکون ہوکر غبار اترے کچھ پھر ہی کچھ بات کی جاسکے۔
وہاں سے آنے کے بعد تو وہ کچھ کہنے سننے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔
پھپھا نے انکو بیٹھک میں بٹھایا۔ اور چائے لیکر انکے پاس بیٹھ گئے۔
دیکھیں نوفل صاحب۔ ویسے بھی آپکی بھتیجی کی بہت بدنامی ہوچکی ہے۔ اسکی شادی کردیں تو ہی کچھ عزت بنی رہ سکتی ہے۔ ماسٹرجی منمنائے۔

آپ کی کیا رائے ہے کیا کرنا چاہئیے؟؟ پھپھا نے انکی بات کا اقرار کرتے ہوئے سوال کیا۔
میں بھی اس سے پندرہ سولہ سال ہی بڑا ہوں۔ ماسٹرجی نے آہستگی سے کہا۔
لیکن ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے ماسٹرجی۔ آپکے ویسے بھی کارنامے ہمیں پتہ ہیں۔ پھپھا نے کرخت لہجے میں کہا۔
وہ تو شکر منائیے کہ میں نے کوئی چارہ جوئی کرنے یا عمران کو بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ورنہ رام لال نے ایک طرح سے وردہ کی مدد ہی کی ہے. اسکی بجائے آپکو بے عزتی کیساتھ اندر ہونا چاہئیے تھا۔
کیسی بات کررہے ہیں؟؟؟ میں نے کیا کردیا ایسا؟؟؟ ماسٹرجی گڑبڑا کر بولے۔
اچھا جیسے ہسپتال والی کہانی مجھے پتہ ہی نہیں ہے. اتنے بھولے بھی نہ بنا کیجئے ماسٹرجی۔

اچھا۔ لیکن سوچیے نوفل بھیا یہ کہانی اگر پورے گاؤں کو پتہ چل گئی تو؟؟؟ ماسٹرجی کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ ابھری۔
تو آپکی بھی بدنامی ہوگی نا۔ اور اگر اسمیں تھوڑا سا ردو بدل کرکے سارا ملبہ وردہ پہ ہی گرادیا گیا نا تو نوفل میاں آپ گاؤں بدر کردیے جائیں گے۔
اتنی تو اس ماسٹر کی گاؤں کے لوگ عزت کرتے ہی ہیں۔
ماسٹرجی نے ہتھیلیاں جھاڑ کر کالر سیدھا کیا۔
اچھا اب کام کی بات کرلیں۔ دیکھیں آپ وردہ کے باپ کو یہ بات بول کر کہ دیں کہ شادی کی تیاری کرلے. ورنہ دو دن میں آپ گاؤں سے نکال دیے جائیں گے۔ سوچیں کی عزت رہ جائے گی آپکی اگر کسی نے سنا کہ اپنی بھتیجی سے دھندا کرواتے تھے. اور جب کچھ گڑبڑ ہوئی تو اسکو ماسٹر کیساتھ ہسپتال بھیجا اور پھر وہ بھاگ بھی گئی۔ چچ چچ۔ ماسٹرجی مصنوعی گھن دکھاتے ہوئے مکاری سے بولے۔
اب ایسا ہے کہ راضی ہوجاؤ تو شام تک مجھے کال کرلینا۔ دو دن بعد نکاح اور رخصتی ہوجائے گی۔ ورنہ آپکی ذلت پلس رخصتی ہوجائے گی۔ اب چلتا ہوں۔ خدا حافظ۔ ماسٹرجی نے پھپھا کے ہاتھوں مین اپنا ہاتھ دیا اور دروازے سے باہر نکل گئے۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
"انیسویں قسط"

رام لال کو آج حوالات میں دوسرا دن ہونے کو آیا تھا۔ شنکتلا دو چکر اب تک لگا چکی تھی۔ ایک مرتبہ جب اسکو پولیس کسٹڈی میں یہاں لایا گیا تھا۔ اور ایک مرتبہ لال ساڑھی میں ماسٹرجی کیساتھ ملنے آئی تھی۔
رام لال کے سینے پہ اسکو دیکھتے ہی سانپ لوٹنے لگے تھے۔ جانے کس دل سے اس نے کھانا قبول کیا تھا۔ ماسٹرجی کے چہرے کی طنزیہ مسکراہٹ اسکے گلے پہ پھرنے والی کھنڈی چھری بن کر رہ گئی تھی۔ وہ بار بار اٹھ کر گول گول چکر لگاتا جیسے اسکو تھانے کی حوالات نہیں بلکہ کسی کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا ہو۔
اچانک ہونے والی شکست کا احساس جان لیوا تھا۔ جسمیں اب ماں کی شمولیت اور ملوث ہونے کا اندیشہ بھی دماغ میں کلبلانے لگا تھا۔ ایکطرف ماسٹرجی اسکے غیرقانونی سوتیلے باپ کے فرائض فقط بستر کی حد تک انجام دے رہے تھے تو دوسری طرف وردہ کے گھر میں بم پھینک آئے تھے۔ وردہ کی خود سے شادی کا بم!!
وردہ کی حالت ایسی ہرگز نہ تھی کہ اس سے کوئی بات کی جاتی۔ خصوصاً شادی جیسا حساس معاملہ، اول تو وہ رام لال کیساتھ اپنے اس طرح پکڑے جانے اور واپس گھر آنے والی بات پہ ازحد رنجیدہ، شرمندہ اور مایوس تھی بلکہ مایوسی سے آگے کے کسی دشت میں آبلہ پا موت و حیات کی جنگ لڑ رہی تھی۔ دوم یہ بات کہ وہ اس حادثے کے بعد ماسٹرجی جیسے گھٹیا آپشن کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ایسے میں اگر اس پہ دباؤ ڈالا جاتا تو کچھ بھی لرزہ خیز نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا۔
پھپھا ماسٹرجی کے اٹھنے کے بعد پتھر بنے بیٹھے رہ گئے تھے۔ انکی سوچیں مفلوج ہونے لگی تھیں۔ ماسٹرجی نے انکو باتوں کے ایسے جالے میں جکڑا تھا کہ وہ مکھی کیطرح خود کو اس شکنجے کے حوالے کربیٹھے تھے۔
دیر تک وہ چپ بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر عمران صاحب کے کمرے میں چلے گئے۔ وہ اندر کچھ کاغذات دیکھ رہے تھے۔
سنو عمران! مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ پھپھا کی بات سن کر انہوں نے سر اٹھایا۔ جی کہئیے، عمران صاحب نے کاغذات ایکطرف سمیٹے اور انکی طرف متوجہ ہوگئے۔ پھپھا نے پاس پڑی کرسی پہ تشریف دھر دی۔
مجھے تم سے وردہ کی شادی کے سلسلے میں بات کرنا تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس فرض سے جلدی سبکدوش ہوجاؤ۔
وہ تو ٹھیک ہے بھائی لیکن اسکی حالیہ حرکت کے باعث کون اسکو اپنائے گا؟؟ منحوس نے نہ تو اس قابل چھوڑا ہے کہ شہر میں بیاہی جائے نہ اس قابل کہ گاؤں میں کسی کے متھے ماروں۔ کوئی چوڑا چمار تک نہ لے ایسی بے حیاء کو۔ وہ بھی لے لے تو ہاں کردوں۔ عمران صاحب کسی دکھیاری بیوہ کیطرح پھٹ پڑے۔
ہے تو سہی ایک رشتہ۔ انہوں نے آگے بڑھ کر خود پہل بھی کی ہے۔ پھپھا نے ذرا جھجکتے ہوئے منہ کھولا۔
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
کون ہے وہ بدنصیب؟؟ ہمیں بھی تو پتہ چلے۔ عمران صاحب نے طنز سے انکو دیکھا۔

اب ایسا بھی مقدر نہیں پھوٹا لڑکی کا۔ ماسٹرجی ہیں گاؤں کے۔ وردہ سے پندرہ سال بڑے ہیں۔ اور کھاتے کماتے بھی ہیں اسکول سے۔

کیا ہوگیا بھائی صاحب؟؟؟ یہ رشتہ نہیں ہوسکتا۔ ناک کٹ جائے گی میری تو۔ کچھ بھی بول دیتے ہیں آپ۔ عمران صاحب بھنا کر بولے۔

ابھی تم نے پوری بات نہیں سنی شہزادے، یہ رشتہ شاید کرنا ہی کرنا پڑے۔ ہمیں اس سے انکار کی طاقت نہ ہوگی۔
پھپھا نے بجھے بجھے لہجے میں کہا۔

ایسی کیا بندوق تان دی ماسٹرجی نے؟؟

بندوق ہی تان دی ہے سمجھو۔ اور ایسی بندوق جس سے اگر فائر نکل گیا تو انکو گاؤں بدلنا پڑے گا ہی، مجھے بھی گاؤں سے بے دخل کردیا جائے گا۔ اور مفت کی بے عزتی الگ۔

ارے ایسا کیا ہوگیا بھائی صاحب؟؟؟ آپکی طبیعت کیسی ہے؟؟ عمران صاحب نے اٹھ کر انکی نبض چیک کرڈالی۔ پھر مطمئن ہوکر اپنی جگہ بیٹھے۔

ایسا ہی سمجھو بھائی۔ ماسٹرجی کو ہسپتال والی کہانی پتہ ہے اصل میں۔

کیا؟؟؟ عمران صاحب زور سے اچھلے۔ یہ کیسے ہوا؟؟ اس شخص نے بتائی انکو یہ کہانی جو وردہ کیساتھ تھا؟؟ انہوں نے لرزتی آواز میں پوچھا۔

وردہ کیساتھ کوئی اور نہیں وہ خود تھے۔ پھپھا نے انکے سر پہ دوسرا بم پھوڑ دیا تھا۔
عمران صاحب کی رنگت بتدریج زرد پڑنے لگی۔ لیکن یہ سب آپکے ہوتے ہوئے کیسے؟؟؟ بمشکل جملہ پورا ہوا ہی تھا کہ انکو ایسا لگا کہ انہوں نے غلطی کردی ہو۔ پھپھا جیسے تیار بیٹھے تھے۔
ہاں تو تمہیں اپنی جوان اولاد کی بڑی پرواہ تھی جیسے، یہاں لاکر جہنم میں چھوڑ دیا اسکو۔ کیوں چھوڑا؟؟ خود تو دوسری شادی کرلی لیکن اس کا اتنا بھی احساس نہیں کیا کہ گھر میں رکھ ہی لیتے۔ چاہے نوکرانی بناکر ہی ہوتا۔
ہم نے تو مروت میں بیٹی بنا کر رکھا لیکن ظاہر ہے وہ اپنا دکھ درد ہم سے کہتے ہوئے شرماتی تھی۔ جسوقت ماں کے بعد اسکو ہمدرد کی ضرورت تھی اسوقت تم نے اس سے گھر کا سایہ تک چھین لیا۔ اور اگر کڑی دھوپ میں سایہ لینے کو اس نے ایسے درخت کا رخ کیا جسکا سایہ تو تھا لیکن پھل زہریلا تھا تو تم اسکو برا کہتے ہو۔ تمہیں اس بات کا نہ تو کوئی حق حاصل ہے نہ میں ایسا ہونے دونگا۔

عمران صاحب کو اپنا جھکا ہوا سر منوں وزنی محسوس ہوا۔ پہلی بار پھپھا نے انکو اتنی باتیں سنائی تھیں۔
کافی دیر بعد پھپھا نے ہی خاموشی توڑی: اسکا اب کوئی حل نہیں کہ وردہ کیلئے ماسٹر رحیم الدین کو ہاں کردی جائے۔ یا تو ہاں کردی جائے یا پھر مجھے اور میری بیوی کو یہ گھر خالی کردینا ہوگا دو دن کے اندر اندر۔ اور اسکو خریدو گے تم اور منہ مانگی قیمت پہ۔ پھپھا نے فیصلہ کن انداز میں ایک اور نشتر انکے سینے میں جھونک دیا۔

وہ بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گئے۔ ایک طرف دل میں یہ درد اٹھ رہا تھا کہ برادری میں ناک کٹ جائے گی۔ دوسری طرف پھپھا کی شرط کافی مہنگی پڑجاتی... وردہ سے بھی مہنگی۔

اچھا اسکو بات چیت کیلئے بلائیں ڈھابے پہ۔ شام کو بلالیں۔ پھپھا ہاں میں سر ہلاتے کمرے سے نکل گئے۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
وہ سو کر اٹھی تو پھپھو اسکے سرہانے بیٹھی تھیں۔ اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے انکو دیکھا۔ انکی آنکھوں میں تارے جھلملا رہے تھے۔ امی بھی جب اسکول کیلئے جگاتی تھیں تو ایسے ہی بیٹھتی تھیں سرہانے پہ۔ وہ چپ چاپ انکو تکنے لگی۔
پھپھو چپ چاپ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں۔
کیسی طبیعت ہے۔ اٹھو دن نکل آیا ہے کچھ کھانا کھاؤ۔ کل سے پڑی سو رہی ہو۔
چلو باہر نکلو اس کمرے سے۔ پھپھو نے اسکو اٹھانا چاہا تو وہ باہر جانے پہ رضا مند نہ ہوئی۔
مجھے ادھر ہی کھانا لادیں۔
اچھا جاؤ منہ دھوؤ۔ وہ چپ چاپ اٹھی اور غسلخانے کی جانب چل دی۔
کیا ضرروت تھی یہ سب کرنے کی؟؟؟ ہم نہیں تھے کیا تمہارے ساتھ؟؟؟ پھر بھی ایسی حرکت کردی تم نے۔
کھانے کے بعد پھپھو پھر اسکے پاس آ بیٹھی تھیں۔
وہ بیٹھی بستر کو گھورتی رہی۔ بازی پلٹ گئی یا پلٹ دی گئی تھی بہرحال وہ ہار چکی تھی۔
اور ہارنے والے کا کام دنیا کے طعنے سننا ہی رہ جاتا ہے۔
بولو بھی اب۔ کیا ضرورت تھی تمکو یہ سب کرنے کی؟؟
ماسٹرجی سے اچھا آپشن رام لال تھا میری نظر میں۔ ماسٹرجی کے سامنے نہیں رہنا چاہتی تھی میں۔ ان سے بہت دور جانا چاہتی تھی۔ اور وہ آپ لوگوں کیساتھ رہ کر ممکن نہیں تھا۔

اب بھی تو یہیں رہنا ہوگا نا۔ اب کہاں جا سکتی ہو تم۔ انہوں نے پریشان لہجے میں کہا۔
اب کہیں نہیں جانا۔ آخری کوشش تھی یہ میری۔
تمہارے پھپھا بھی حد سےزیادہ پریشان ہوگئے تھے اس طرح جانے سے۔
خیر اب کسی سے بھی مت ملنا تم۔ تم جو چاہو وہی ہوگا۔ لیکن کہیں جانا مت۔
کاش وہ ہوجاتا جو میں نے چاہا تھا۔ نہ گاؤں ہوتا نہ ہی میں بھاگتی۔
اب جو بھی ہے لیکن تم نے ہمیں کبھی اپنا نہیں سمجھا. تمکو اس گھر میں رہ کر بھی کیا مل جاتا۔ باپ کا پیار... ماں کا پیار تو پھر بھی نہیں مل پاتا نا۔
اور تمہاری سوتیلی ماں جو اتنی دور سے بھی سازش سے باز نہیں آئی۔
اس نے خاندان میں بات پھیلادی شہر جانے کی تمہارے۔ شکر ہے یہ نئی والی بات اسکو پتہ نہیں چلی۔
وہ چپ چاپ بات سنتی رہی۔
تم خود سوچو ایسی لڑکی کو کون عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے؟؟ یا کون ایسی لڑکی کو رشتہ بھیجتا ہے جو گھر چھوڑ کر جاچکی ہو۔

ہاں اب تو آخری آس بھی ٹوٹ گئی، اب خدا جو بھی سزا دے اس طرح منہ کالا کرنے کی مجھے قبول ہے۔
پھپھو اسکو حیرت سے تکنے لگیں جیسے وہ بہت بڑی بات بول گئی ہو۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
ماسٹرجی کے فون کی گھنٹی بجی۔ نمبر دیکھتے ہی وہ زیر لب مسکرادیے۔
ہیلو، ٹھیک ہے پہنچ جاؤنگا۔ انہوں نے خدا حافظ کہ کر فون رکھا اور کرتہ پہن کر باہر کو ہولیے۔
ارے کدھر جارہا ہے؟؟؟؟
ماں آتا ہوں مغرب تک کسی سے ملنا ہے۔ ماسٹرجی جلدی جلدی آستین میں ہاتھ گھسیڑتے گریبان سنبھالتے ڈھابے کو ہولیے۔ جلد ہی وہ عمران صاحب اور پھپھا کیساتھ بیٹھے تھے۔
میاں ہو تو تم ایک ٹیچر ہی۔ اور اس سے بڑے بھی بہت ہو۔
ہمارے خاندان میں باہر شادی کرنے کا رواج نہیں ہے۔
اتنا اعلیٰ خاندان بھی نہیں ہے اب آپکا جناب۔
دیکھ چکے ہیں ہم۔ ماسٹرجی نے طنز کا نشتر لگایا۔

اعلیٰ نہ ہوتا تو ابھی آپ اپنے پیروں پہ سلامت نہ ہوتے۔ عمران صاحب نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
اور اسکے بعد یہ آپکے بھائی اور آپ گاؤں سے سر پہ پاؤں رکھ کر بھاگتے۔ سنا ہے شہر میں بھی اچھی خاصی بے عزتی ہوگئی ہے آپکی۔ یہاں بھی آپکی بیٹی طوائف مشہ
ور ہوجاتی۔ ماسٹرجی نے قہقہہ لگایا۔
ابے تیری ماں کی، عمران صاحب نے کھڑے ہوکر ماسٹرجی کا گریبان تھام لیا۔ جواباً انہوں نے بھی احترام سے ہاتھ دھوتے ہوئے برابر کا جواب دیا۔ اس سے پہلے کہ ہاتھاپائی ہوتی پھپھا نے دونوں کو چھڑا لیا۔
لڑائی مسئلے کا حل نہیں ہے. دونوں آرام سے بیٹھ جاؤ۔ پھپھا نے دونوں کا ہاتھ پکڑا اور نیچے بٹھالیا۔

عمران تمکو وردہ کی شادی کرنی ہے نا بالآخر؟؟؟ پھپھا نے عمران صاحب کی آنکھوں میں جھانکا۔ ہاں کرنی تو ہے۔ اور ماسٹرجی آپ خواہشمند ہیں شادی کے وردہ سے۔ انہوں نے اب ماسٹرجی کی طرف دیکھا۔ وہ ہمم کرکے رہ گئے۔
اب مسئلہ یہ ہیکہ یہ شادی ہوسکتی ہے یا نہیں۔ اس بارے میں آرام سے بات کرنی ہے لڑائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ لوگ یہ شادی کر ہی دیں تو اچھا ہے۔ آپکو کیا اعتراض ہے۔ وہ میرے ساتھ رہی ہے۔ مجھ سے پڑھا ہے. اور اب گاؤں میں چہ مگوئیاں بھی ہورہی ہیں۔ ماسٹرجی کا لہجہ اب نرم ہوچکا تھا۔
لیکن میں چاہونگا کہ تم میری بیٹی سے شادی کرنے کے بعد ہم سے یا نوفل بھائی صاحب سے کسی قسم کا نہ تو تعلق رکھو اور نہ کسی مدد کے امیدوار رہو۔
اور نہ ہی ہم جہیز دے سکیں گے۔ ہم جلدی نمٹادینا چاہتے ہیں۔ عمران صاحب نے چائے کی چسکی بھرتے ہوئے کہا۔
اسکے بدلے آپکو کچھ پیسے دینے ہونگے سامان کیلئے۔ اور نئے کپڑے بھی بنوانے ہونگے۔ ماسٹرجی نے پہلو جھکا کر دوسری طرف سے وار کیا۔
ٹھیک ہے وہ سب مل جائے گا۔ عمران صاحب پھر سے جھگڑا نہیں چاہتے تھے اسلئے بادل نخواستہ راضہ ہوگئے۔ ویسے بھی اتنی جلدی داماد ملنا ناممکن ہی نظر آرہا تھا۔ ا کا بس چلتا تو ابھی ہی وردہ کو لاکر ماسٹرجی کے حوالے کردیتے۔
تو کیا میں ہاں سمجھوں لڑکی کی طرف سے؟؟؟ ماسٹرجی خوشی سے پھول گئے۔
ہاں بس ہم نے ہاں کردی تو ہاں ہی ہے۔ اور یہ مجلس وردہ کے سودے پہ اختتام پذیر ہوئی۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
گھر جاکر عمران صاحب نے وردہ کو طلب کرکے پہلے تو اسکے خطرناک مستقبل سے ڈرایا دھمکایا۔ وہ بھی چپ چاپ بیٹھی وعیدیں سنتی رہی۔
پھپھو اور پھپھا بھی سامنے ہی بیٹھے تھے۔

عمران صاحب نے اسکے سارے گناہ گنوا کر اس پہ فردِ جرم عائد کی اور تمت کے طور پہ جیسے ہی شادی کی عمر قید سنانے کا ارادہ کیا تو وہ بول پڑی۔
کیا ہی اچھا ہوتا ابو اگر آپ مجھے گاؤں نہ لاتے۔ اسی جملے کے سننے کا عمران صاحب کو ڈر تھا اور وہی ہوگیا۔
انہوں نے بڑی مشکل سے پیشانی پہ بہتا پسینہ صاف کیا۔
اچھا یعنی اگر فساد سے بچنے کیلئے تمکو ادھر چھوڑ دیا جائے تو تم اپنی مری ہوئی ماں کے نام کو بٹہ لگا دو گی۔
انہوں نے اسکی روح پہ ضرب لگائی۔
مری ہوئی ماں نہیں زندہ باپ کہئیے۔ چیخیں آپکی نکل رہی ہیں اسوقت۔ وہ مسکرائی۔
بہرحال تمہارا ایک رشتہ آیا ہے اور میں نے نوفل بھائی سے مشورہ کرکے ہاں کردی ہے۔ لڑکا مناسب اور اچھا ہے۔ دو دن میں نکاح اور رخصتی ہے۔
وردہ چپ چاپ ساکت ہوگئی۔ البتہ پھپھو کی آنکھیں حیرت اور خوف کے ملے جلے تاثرات سے پھیل گئیں۔ انکے چہرے پہ کئی رنگ آکر گزر گئے۔ انہوں نے پھپھا کو دیکھا اور پھر آنکھوں کا اشارہ پاکر اس درگور ہوتی لڑکی کا تماشا دیکھنے والوں میں شامل ہوگئیں۔
ایسا کوئی شوق اول تو کسی کو تھا نہیں اور ماسٹرجی بھی ہتھیلی پہ سرسوں ہی جما رہے تھے۔
انہوں نے اسکول کے بچوں کیساتھ مل کر گھر پہ رنگ کیا۔ پلنگ کو دوبارہ بنا اور کچھ سامان عمران صاحب کیساتھ شہر جاکر خرید لائے۔ اسمیں برتنوں اور کپڑوں کے علاوہ قابل ذکر چیز جنریٹر تھی جسکی خوشی شاید ماسٹرجی کو شادی جتنی ہی رہی ہوگی۔
دو دن اسی ہڑبونگ میں گزر گئے تھے۔ جلدی جلدی کپڑے سلوائے گئے اور رسمیں پوری کیے بغیر ہی یہ چہلم جیسا نکاح بے رنگی کیساتھ پڑھا دیا گیا۔ اڑوس پڑوس کی عورتیں اور بچے مٹھائی کے شوق میں اکھٹے ہوگئے تھے۔
ماسٹرجی کی اماں درمیان میں بیٹھی مبارکبادیں وصول کررہی تھیں۔
کتنی سی ہے۔ چھوٹی سی لگ رہی ہے۔ ارے ہاں بالکل ننھی سی ہے۔ سب عورتیں وردہ کو دیکھ کر اس قسم کے خیالات کا اظہار کررہی تھیں۔ قاضی نے آکر جلدی سے عربی میں کچھ پڑھا اور نکاح فارم نکال کر کچھ خانے پر کیے اور کچھ کاٹ دیے۔
مہر معجل مبلغ دس ہزار روپیہ رائج الوقت پہ وردہ بنت عمران کا نکاح رحیم الدین ولد شریف الدین سے کردیا گیا جسمیں لڑکی کی طرف سے اسکے والد نے رضامندی ظاہر کی اور اسکی رسی رحیم الدین کے ہاتھ میں دیدی گئی۔
رات گئے پھپھا کے گھر بارات کے نام پہ ہلا گلا ہوا۔ کھانے میں نمکین اور میٹھے چاول تھے۔ دلہن کو بھی پھپھو نے بہانے بنا بنا کر چاول ٹھسا دیے ورنہ بعید نہ تھا کہ صبح کی بھوکی دلہن غش کھا کر گر ہی جاتی۔ وہ یہ آخری خدمت بھی سمیٹ کر خشک آنکھوں سے اپنے پیلے ہاتھوں کو دیکھتی رہی۔ سونے کے زیور دینے کا ابو نے وعدہ کرلیا تھا لیکن بعد میں پھپھو نے ہی اسکو اپنا ہار بندے کا سیٹ نذر کردیا۔ جیسے بھی تھا سب کچھ ہی جلدبازی میں انجام پایا تھا۔ چاول کھا کر سب مہمان پیدل ہی گھروں کو لوٹ گئے۔ اور وردہ ماسٹرجی کیساتھ انکے گھر پدھار گئی۔
ماسٹرجی اور انکی اماں کیساتھ چلتی ہوئی وہ گلی پہ پہنچی تو محلے کے بچے پھولوں کی پتیاں لیے کھڑے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مسکرا دی۔ ماسٹرجی اسکا ہاتھ تھامے پھولوں کی برسات میں دروازے کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ اس نے ایک نظر اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا۔
چاند کی روشنی آج کچھ زیادہ ہوگئی تھی۔ وہ چپ چاپ صحن سے گزرتی ہوئی اندر کمرے میں داخل ہوگئی۔
کمرہ بھی موتیے کے پھولوں سے مہک رہا تھا۔ ماسٹرجی نے کسی کو مقرر کرکے جنریٹر چلوایا تھا۔ وہ بھی بچوں کو مٹھائی دیکر رخصت کرکے گھر میں واپس آگئے۔
تھوڑی دیر میں کپڑے تبدیل کرکے وہ پلنگ پہ اس کیساتھ لیٹے ہوئے تھے۔
کیا ضرورت تھی بھاگنے کی؟؟؟ یہیں آکر رکی نا۔ انہوں نے اسکے کان پہ لب رکھ کر سرگوشی کی۔
ہاں تو مجھے اب بھی تم سے نفرت ہے۔ زبردستی کی شادی ہوئی ہے یہ۔ اس نے انکا منہ ایک طرف کرتے ہوئے کہا۔
لیکن اب بھاگنے کی بھی ہمت نہ کرنا۔ ورنہ ٹانگ توڑ کر گھر میں باندھ دونگا۔ اب تم ہماری موت تک ہمارے نام لکھ دی گئی ہو۔
انہوں نے اسکا منہ اپنی طرف کرتے ہوئے انگلی اور انگوٹھے کے شکنجے میں بھینچا تو وہ سسک اٹھی۔

صبح ماسٹرجی نے کمرے سے نکل کر جنریٹر بند کیا اور کمرے کا پردہ کھول کر صبح کی تازہ ہوا کو خوش آمدید کہا۔ وردہ بھی اونگھ رہی تھی۔ انہوں نے اسکو چادر اوڑھا دی اور صحن میں آکر چولہا پھونکنے لگے۔
جلد ہی وہ ناشتہ تیار کرکے اسکو جگا رہے تھے۔ وہ آنکھیں ملتی اٹھ بیٹھی۔ ایک نظر ناشتے پہ ڈالی اور پھر نفرت بھری نظر ماسٹرجی پہ ڈال کر منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔
وہ ناشتہ اٹھا کر دوسری طرف آکر بیٹھ گئے۔ اس نے دیوار کی طرف رخ کیا تو ماسٹرجی نے اسکو پشت سے پکڑ کر اپنی سمت موڑ لیا۔
اب تو تم دلہنیا ہو ہماری۔ کاہے اتنے نخرے کررہی ہو۔​
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
اب تو تم دلہنیا ہو ہماری۔ کاہے اتنے نخرے کررہی ہو۔ سیدھی طرح کھا لو۔ پہلے تو فوراً ہاتھ کی چہز چھین کر کھالیتی تھیں۔ انہوں نے اسکو گدگدی بھی کرڈالی۔ بالآخر دس منٹ کی لولو چوپو کرنے کے بعد وہ نوالہ لینے پہ رضامند ہو ہی گئی۔ اگرچہ چائے ٹھنڈی ہوکر شربت بن چکی تھی لیکن ماسٹرجی اسکی الفت کے بخار میں اس پہ بھی رضامند ہوگئے تھے۔
اگلی شام کو ماسٹرجی نے اسکول کے میدان میں ہی دریاں بچھا کر لوگوں کو چاول کھلانے کا انتظام کیا تھا۔ چاندنی میں مفت کے چاول کھا کر لوگ دعائیں دیتے گھروں کو ہولیے۔
سبھی کے چہروں پہ اس شادی کے متعلق لطیفے مچل رہے تھے لیکن لوگ فی الوقت تیل کی دھار دیکھتے ہوئے چپ رہ گئے تھے۔
انسپکٹر نے رام لال کی حوالات میں رہائش قدرے لمبی کردی تھی۔ تاکہ وردہ کے ہاتھ کی مہندی اترجائے۔
وہ اسکا بے حد خیال بھی رکھنے لگا تھا اور اسکے پرجوش مزاج سے متاثر بھی ہوا تھا۔ شنکتلا روزانہ کھانا لیکر آتی اور کھانا اور چائے دیکر، دو چار باتیں انسپکٹر سے کرکے اور اسکا دل لبھا کر واپس چلی جاتی۔
آج سجن اس سے ملنے تھانے آیا تھا۔ کانسٹیبل سے اسکو سن گن تو لگ ہی چکی تھی لیکن ماسٹرجی کے دولہا بننے کی خبر اس پہ بجلی بن کر گری تھی۔ وہ بیتابی سے پہلے چپ رہا پھر سجن کے دونوں ہاتھ تھام کر رو دیا ۔
سجن بھی گنگ بنا ہوا اسکو دیکھنے لگا۔ حوالدار نے بھی اسکو سمجھانے کی بہتیری کوشش کی لیکن وہ ہچکیاں لیکر روتا ہی رہا۔ رہائی کے بعد انجام پانے والے سارے منصوبے خاکستر ہوچکے تھے۔
اور انکی راکھ سے اسکو اپنی محبت کی چتا کی مہک آرہی تھی۔
اب میں کبھی وردہ سے شادی نہیں کرپاؤنگا. اس خیال سے زیادہ منحوس خیال یہ تھا کہ وردہ کا شوہر ماسٹر رحیم الدین بن چکا ہے۔
سجن نے اسکے ساتھ کھانا کھایا اور سمجھا بجھا کر واپس روانہ ہوگیا۔
اسکے جاتے ہی رام لال پہلے تو آنسو بہاتا رہا پھر سرخ آنکھیں لیے چپ چاپ گھٹری بن کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ وہ اپنے اندر دشمنی کا لاوہ پکارہا تھا۔
انسپکٹر نے معمول کے مطابق رات کو ایک نگاہ اس پہ ڈالی اور باہر نکل گیا۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
"آخری قسط (حصہ اول)"

عمران صاحب نے اس فساد عظیم کو نمٹا کر واپس شہر کی جانب رخت سفر باندھا تھا جہاں انکی زوجہ انکے فراق میں تڑپ رہی تھیں۔
وردہ کو پہلی بار گاؤں چھوڑ کر گھر جانے پر احساسِ جرم کا جو بھوت ان پہ سوار ہوا تھا اس دفعہ وہ بھی شرما گیا تھا۔
وہ اطمینان سے ٹرین پہ سوار ہوئے اور سفر کرکے گھر پہنچ گئے۔
شازیہ کو چیدہ چیدہ پوائنٹس سنا کر انہوں نے وردہ کی آناً فاناً شادی کا وقوعہ سنایا تو وہ بھی ایک لمحے کو کانپ کر رہ گئی۔
سگی بیٹی ہی ہے نا وہ آپکی؟؟؟ اس نے بے یقینی سے شوہر کی آنکھوں میں جھانکا۔
ہاں ، ہے تو سگی ہی۔ وہ منمنائے۔ اچھا خیر آرام کریں اب۔ اپنی انجانی دشمن کا انجام سن کر شازیہ کے فل میں اگرچہ لڈو پھوٹنے لگے تھے لیکن خود پہ کنٹرول کرتی ہوئی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
پولیس انسپکٹر کو بھی اب رام لال سے انسیت محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے اگرچہ اسکے تھانے سے باہر نکلنے پہ پابندی لگا رکھی تھی لیکن وہ تھانے میں گھر کیطرح رہ رہا تھا۔
تھانے کے عملے میں سے دو سپاہیوں سے بھی اچھا یارانہ ہوگیا تھا۔ جب انسپکٹر آتا تو اسکو وہ قیدی بنا کر رکھتے اور اسکے جاتے ہی ہنسی مذاق کرنے لگتے۔
دل تو انسپکٹر کا بھی یہی چاہتا تھا کہ رام لال اپنے گھر جائے لیکن اول تو پیسے کی چمک دمک نے رام لال کی رہائی فی الحال ناممکن کردی تھی اور دوسری بات اگر اسکو رہا کردیا جاتا تو ماسٹرجی یا وردہ کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا تھا۔
لیکن یہ بات رام لال کو ڈیڑھ مہینہ اندر رکھنے کیلئے کافی نہیں تھی۔ پھر بھی وہ اتنے دنوں سے اندر تھا۔
اور یہ بھی ایک راز کی بات تھی کہ جب سے ماسٹرجی نے بیاہ رچایا تھا انسپکٹر کو شنکتلا میں دلچسپیاں سوجھ گئی تھیں۔ اس چور دروازے کا اب وہ چوکیدار بن گیا تھا۔ اس وجہ سے بھی وہ رام لال کو گھر سے دور رکھنے پہ مجبور تھا۔ اسکا گھر ریلوے اسٹیشن کے نزدیک بابو لوگوں کی کوٹھیوں میں تھا۔ وہ اپنی جیپ پہ رات کو جب مرضی ہوتی گھر جاتا تھا۔ اور آجکل کبھی بستی میں رام لال کے گھر بھی شب بسری کرکے آجاتا تھا۔
رام لال کی ماں صبح بارہ بجے کھانا تین آدمیوں کا لیکر آتی تھی۔ رام لال کو اپنے ہاتھ سے کھلا کر شام کو آنے کا کہ کر چلی جاتی تھی۔ پھر شام کو سورج چھپنے کے وقت کھانا لاتی تھی۔ رام لال رات کو تھانے کی چھت پہ کانسٹیبلوں کیساتھ بیٹھا باتیں کرتا تھا۔ دو کانسٹیبل ایک ہندو اور ایک مسلم تھا۔ وہ دونوں کو ہی چاچا بلانے لگا تھا۔ شام اور صبح دو وقت باڑے سے دودھ آتا تھا۔ رات کو رام لال چائے بنا کر شغل کرتا اور وہ دونوں چرس پیتے۔ کبھی کچھ کھانا شنکتلا کا لایا ہوا بچا رکھا ہوتا تو وہ بھی اٹھا لاتا تھا۔ آخری پہر سبھی نفوس نیچے آکر اوندھے پڑجاتے اور پھر دن چڑھے ہی آنکھ کھلتی تھی۔ اگرچہ دن سکون سے کٹ رہے تھے لیکن رام لال کی چھاتی میں ایک الاؤ بھڑک رہا تھا۔ ان دونوں کو جان سے مار کر بھاگ جاؤں، وہ اکثر سوچا کرتا۔ لیکن اس سے پولیس پیچھے پڑجائے گی اور ماسٹرجی کا کچھ علاج نہیں کرپاؤنگا۔
وہ چپ چاپ چائے کا پیالہ ہاتھ میں لیکر چپ چاپ بیٹھا سلگتا رہتا۔
کاہے چپ چاپ مرا جارہا ہے؟؟؟ اسکا بیاہ ہوچکا تیرے باپ سے۔ جانے دے اب۔ کانسٹیبل اشرف اسکے کندھے پہ ہاتھ مار کر ہنسا۔
اس نے اشرف کی آنکھوں میں دیکھا۔ چرس کے اثر سے اسکی آنکھیں لال انگارہ ہورہی تھیں۔
اتنے دنوں میں پہلی بار رام لال کو اس طرف کشش ہوئی۔ کیا دیکھ رہا ہے ایسے؟؟؟ لگائے گا کیا؟؟؟ اشرف نے ایک اور فلک شگاف قہقہہ مارا۔
چاچا۔ اگر تم دو تو لگا لوں گا۔ اس نے ہمت کرکے من کی بات بول دی۔
نہیں رے، تو چائے پی۔ کانسٹیبل چندو نے اشرف کا سیگریٹ دوسری طرف گھمادیا۔ رام لال کو اپنے دل مسوس کر جانے پہ خود ہی حیرانگی ہوئی۔
وہ چائے کی چسکی لینے لگا۔ نجانے کیسا سرور آگا ہوگا ان دونوں کو اس سے۔ سبھی دکھ بھول جاتے ہونگے۔ اس نے بونگی بونگی باتیں کرتے سپاہیوں کو دیکھ کر سوچا۔
ہاں صاحب کی بھی ترقی رکی ہوئی ہے۔ انکی ہو تو اپنا بھی کچھ کام بن جائے گا۔ اشرف بڑبڑا رہا تھا۔ سہی کہتا ہے یار، صاحب بھی کافی دوڑ بھاگ کررہے ہیں۔ کہتے ہیں کوئی کارنامہ کرنا پڑے گا تب جاکر سرکار متوجہ ہوگی۔ چل سوتے ہیں نیچے چل کر۔ چندو نے اپنی سیگریٹ ایک طرف پھینکی اور اینٹ پر سے اٹھ کر لڑکھڑاتا ہوا زینے کیطرف بڑھ گیا۔ اشرف نے بھی وہی عمل دہرا کر اسکا ساتھ دیا۔ وہ دونوں نیچے اترگئے تو رام لال کا شوق پھر جاگ گیا۔ اس نے ان دونوں کی سیگریٹ اٹھا لیں۔ ذرا ذرا سی سیگریٹ باقی بچی تھیں۔ اچھا ہوا کہ دونوں نے ہی نہیں بجھائی تھیں۔ وہ اینٹ پہ بیٹھ کر ان دونوں کیطرح زور لگا کر دھواں اندر لینے لگا۔
دوسرے کش پہ ہی اسکو زور کی کھانسی آئی۔ وہ مسکرادیا۔ سوچوں میں وہ خود کو بھی لڑکھڑاتا ہوا محسوس کرنے لگا۔ جسے اسکے بھی غم ہلکے ہورہے ہوں۔ دونوں سیگریٹوں کے ملا کر چار پانچ کش بنے تھے۔ وہ بھی خود ساختہ لڑکھڑاہٹ خود پہ طاری کیے اٹھا اور زینے کی طرف بڑھ گیا۔

***
 

Top