Romance دوریاں (Completed)

.
Moderator
2,363
1,818
143
رفعت آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتی چھت پہ آئی اس کی صبح آج بھی معمول کے مطابق ہوئی تھی۔۔۔ جاگتے ہی وہ کاموں میں جت گئی نند کے ساتھ مل کے ناشتہ بنایا پھر صفائی شروع کردی شادی کے بعد تقریباً یہی روٹین بن گئی تھی۔
اس نے کل شام کو کچھ کپڑے دھو کے تار پہ ڈالے تھے جنہیں اتارنا بھول گئی تھی۔۔۔چھت پہ آ کے اس نے تار پہ لٹکتے کپڑوں کو چھوا اور دل مسوس کر رہ گئی رات بھر اوس برستی رہی تھی کپڑے پھر سے نم ہو گئے تھے آج دن کو ان کا یوں ہی تار پہ رہنا ضروری تھا تاکہ خشک ہو جاتے۔
وہ کپڑوں کو الٹنے پلٹنے میں مصروف تھی کہ ساتھ والی چھت سے سیٹی کی ہلکی آواز آئی رفعت چونکی پھر اس طرف دیکھا تو ریحان کھڑا تھا۔۔۔ شرٹ کے کئی بٹن کھلے ہوئے تھے اور بال الجھے ہوئے تھے شاید ابھی ابھی جاگا تھا۔
یہ درمیانے درجے کی کالونی تھی زیادہ تر گھر دو منزلہ اور ایک ہی انداز میں بنے ہوئے تھے چھتوں کے درمیان زیادہ فاصلے نہیں تھے۔
کیا چھچوری حرکتیں کرتے ہو تم ریحان۔۔۔ منہ بنا کے بولی وہ دیوار پہ کہنیاں ٹکا کے اسے دیکھنے لگا۔
کیا کیا ہے میں نے؟ وہ پوچھنے لگا۔۔۔۔ رفعت نے ایک نظر اس کے حلیے پہ ڈالی وہ اونچی قد اور مضبوط جسامت کا خوش شکل نوجوان تھا۔
یہ سیٹی جو بجائی تم نے۔۔۔ وہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔۔ تمھاری امی کہاں ہیں؟ پھر اس سے پوچھا تھا۔
ماموں کے گھر گئی ہیں۔۔۔کیوں؟۔۔۔ وہ بولا۔
مجھے کچھ کام تھا ان سے۔۔۔
بھابی نیچے آجائیں۔۔۔۔ اس کی نند ندا کی آواز آئی تو وہ چونکی پھر ایک نظر اس پہ ڈالی اور نیچے کی طرف بڑھ گئی۔
ریحان اسے نیچے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔۔ پھر لمبی سانس لی۔۔۔ صبح صبح اتنی خوبصورت لڑکی کو دیکھنے کے بعد دن بہت اچھا گزرنے والا تھا۔
جب سے وہ بیاہ کے آئی تھی محلے میں اس کے چرچے ہوئے تھے بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی سرخ و سفید شہابی رنگت میانہ قد اور تیکھا ناک نقشہ۔۔۔متناسب بدن سانچے میں ڈھلا ہوا تھا اور سینے کی اٹھان ہر ایک کا دل دہلاتی تھی بھورے بالوں کی آبشار شور مچاتی کمر پہ گرتی تھی۔
وہ چند ان لڑکیوں میں آتی تھی جنھیں دیکھ کے دیکھتے رہنے کو دل کرتا ہے نگاہ ان کے جوبن پہ ٹھہر جاتی تھی شادی کے بعد بھی اس کی حسن کی شادابی پہ فرق نہیں پڑا تھا بلکہ چہرا بھرا بھرا سا مزید ترو تازہ ہو گیا تھا پہلے بہت دبلی پتلی تھی اب ذرا سی صحتمند ہوگئی تھی جسم پہ بوٹی چڑھ گئی تھی مگر بدن کا توازن برقرار تھا۔۔۔ ریحان کو وہ ہمیشہ بہت پر کشش لگتی تھی۔
⁦++++++++++
رفعت نیچے آئی تو ندا مزید پھیلاوا پھیلانے کے موڈ میں تھی شیلف سے کئی برتن نکال کے کاؤنٹر پر ڈھیر کر رہی تھی جنھیں دھو کے واپس شیلف میں رکھنا تھا۔
کہاں گئی تھیں بھابی۔۔۔ ندا پوچھنے لگی رفعت نے منہ بنایا۔
اوپر گئی تھی تار سے کپڑے اتارنے۔۔ مگر ابھی تک گیلے ہیں۔۔۔ اماں کہاں ہیں؟ اس نے پوچھا۔۔
کمرے میں ہیں لیٹی ہوئی ہیں۔۔۔ ندا بولی رفعت نے سر ہلایا تھا۔
آج اتوار تھا ندا گھر میں ہی تھی۔۔۔ اور اماں کمرے میں۔
اس گھر میں کل یہی تین ہی تو نفوس تھے۔۔
اس کے شوہر سلیمان کو مسقط گئے سال ہونے کو تھا وہ شادی کے ایک مہینہ بعد ہی مسقط چلا گیا تھا جہاں اس کی بہت اچھی جاب تھی۔
وہ سر جھٹک کر کام کرنے لگی۔
⁦+----------------------+
سارے کام نمٹا کر وہ کمرے میں آ لیٹی اور فون نکالا واٹس ایپ دیکھا تو سلیمان آن لائن تھا مسقط میں شاید ابھی صبح ہوئی ہوگی وہ مسکرائی پھر اسے کال ملا کے کروٹ بدل گئی۔
فون کی گھنٹی بجی تھی۔۔۔ پر سلیمان نے کال اٹینڈ نہیں کی۔۔۔۔ گھنٹی بجتی رہی پھر جب رفعت مایوس ہونے لگی تب اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔
ہیلو کیا بات ہے؟ کوئی سلام دعا کئے بغیر سلیمان بولا تھا یوں جیسے اس کا فون کرنا ناگوار گزرا ہو رفعت چپ سی ہوئی۔
کیسے ہیں سلیمان موسم کیسا ہے۔۔۔؟
تم نے یہ بات پوچھنے کے لئے فون کیا ہے؟۔۔۔۔وہ اس پہ بگڑا رفعت خفیف سی ہوئی۔
ہاں میں نے سوچا بات کر لوں آپ سے۔۔۔۔ کمزور سے لہجے میں بولی وہ مزید بپھر گیا تھا۔
تمھیں اور کوئی کام نہیں ہے۔۔۔ فارغ پڑی رہتی ہو اور منہ اٹھا کے کال کر لیتی ہو۔۔۔ پتہ بھی میں یہاں کام کر رہا ہوتا ہوں فارغ نہیں بیٹھا رہتا جس تمھاری فضول باتیں سنو۔۔۔ وہ دھاڑا تھا رفعت پانی پانی ہوئی۔
میرا دل کر رہا تھا بات کرنے کو اس لئے کال کر لی۔۔۔ آنکھوں میں بے مائیگی کے احساس سے آنسو تیرنے لگے تھے وہ پہلے تو ایسا نہیں تھا۔
تم گھر کے کوئی کام کر لو یہاں کے موسموں کے بارے میں جاننا چھوڑ دو۔۔۔ وہ غرایا تھا پھر فون بند کر دیا رفعت دل مسوس کر رہ گئی۔
وہ پہلے ایسا نہیں تھا۔۔۔
شادی کے مہینہ بعد اسے باہر جانا پڑ گیا تھا تو روز کال کرتا تھا وہ گھنٹوں باتیں کرتے تھے یہاں وہاں کی الٹی سیدھی باتیں۔۔۔
لیکن پھر چیزیں بدلنے لگیں اس کی کالز کم سے کم تر ہونے لگیں وہ دوسرے تیسرے دن یا پھر ہفتے میں کال کرنے لگا وہ بات کرنے کو ترس جاتی مگر اس نے کال کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔
پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ وہ ہفتہ بھر کال نہیں کرتا تھی رفعت مس کرتی تھی تو کال کرلیتی جو پانچ منٹ سے زیادہ کی نہیں ہوتی تھی جس میں اسے وہ باتیں سنا کے ذلیل کر دیتا تھا اس کی عزت دو کوڑی کی کرکے جیسے اسے سکون ملتا تھا۔
جیسے اب ہوا تھا وہ بے چین سی لیٹی رہی آنکھوں مین امڈ آنے والے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتی رہی دل بہت بیزار تھا۔
+--------------------+
ریحان اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ میں کام کر رہا تھا یونیورسٹی کی طرف سے پراجیکٹ ملا تھا جس پہ وہ پچھلے کچھ دیر سے لگا ہوا تھا گھر میں کوئی نہیں تھا امی نانی کی طرف گئی ہوئی تھیں ابو تو دو ہفتوں سے کراچی میں تھے بہنوں کی شادی کے بعد اتنے ہی لوگ رہ گئے تھے گھر میں۔
گیٹ پہ گھنٹی کی آواز سے اس کا انہماک ٹوٹا لیپ ٹاپ یوں ہی چھوڑ کر وہ دروازہ کھول کر باہر آیا اور دروازے کی طرف بڑھا۔
دروازہ کھولنے پہ اسے حیرت آمیز خوشی کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔ سامنے رفعت کھڑی تھی سیاہ رنگ کی گوٹے والی شال اوڑھے جس میں اس کا سرخ و سفید چہرہ دمک رہا تھا ستواں ناک چہرے کی دلکشی بڑھا رہی تھی ترشے ہوئے ہونٹ بے حد خوبصورت لگ رہے تھے گورے ہاتھوں میں ایک پیکٹ دبا ہوا تھا۔
تمھاری امی آئیں کہ نہیں؟ رفعت اس کے نظریں خود پہ پاکے ذرا سی پزل ہوئی جلدی سے پوچھا۔
نہیں وہ تو نہیں آئیں۔۔۔ریحان بولا پھر اسے بغور دیکھا وہ شال سختی سے لپیٹے ہوئے تھی مگر شال کے نیچے سے اس کی جوانی اپنی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی بھرپور جوان سینہ ابھرا ہوا تھا مگر شال کی وجہ سے واضح نہ تھا ریحان کی دھڑکن ایک لمحے کے لئے تیز ہوئی۔
یہ میں کچھ کپڑے لائی ہوں ان پہ بارڈر لگانی ہے۔۔۔ رفعت بولی اس کی نظروں کو وہ محسوس کر گئی تھی۔
یہ اپنی امی کو دے دینا۔۔۔ وہ جلدی سے بولی پھر اسے دیکھا جو اونچے لمبے قد سے سامنے کھڑا تھا پھر پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا جسے ریحان نے تھاما تھا۔
پیکٹ لیتے وقت اس کی انگلیاں رفعت کے ہاتھ سے مس ہوئیں رفعت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کیا تھا۔
اندر آؤ نا۔۔۔ وہ بولا۔۔۔ شاید امی ابھی آجائیں۔۔ وہ رفعت کے تروتازہ چہرے کو نظروں میں سمونے لگا وہ گھبرا گئی ۔
نہیں۔۔۔ جب وہ آجائینگی تو آؤنگی کپڑے لینے ابھی چلتی ہوں۔۔۔ وہ کپڑے اسے پکڑا کےبولی پھر جلدی سے واپس مڑ گئی۔
اور اپنے گھر کی طرف آئی شام کو آنا تھا کپڑے لینے تب تک اس کی امی بھی آجاتی۔
ریحان اس کی چال کو عقب سے دیکھتا رہا وہ بہت متوازن چال چل رہی تھی شال کمر تک آرہی تھی اس سے نیچے کا بدن اپنی تمام تر شادابی لباس سے چھلکا رہا تھا وہ بہت پتلی نہیں تھی بے حد متوازن تھی شاید فرصت میں بنایا گیا تھا لمبا قد اور مڑی ہوئی کمر تلے صحت مند کولہے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ تھرک رہے تھے ریحان نظریں نہیں ہٹا سکا جب وہ اندر چلی گئی تو اس نے بھی گہری سانس لے کر دروازہ بند کر دیا اس حسن میں حصہ دار بننے کی تمنا دل میں پنپنے لگی تھی۔
+--------------------+
رفعت گھر واپس آکے کاموں میں مشغول ہو گئی لنچ بھی بنانا تھااور صبح کے کچھ برتن بھی تھے۔۔۔ پھر اسے تار پہ ٹنگے کپڑے یاد آئے تو وہ چونکی اور سیڑھیاں چڑھتی اوپر آگئی۔
دھوپ لگنے سے کپڑے خشک ہو گئے تھے انھیں ایک ایک کر اتار کے بازو پہ ڈالنے لگی نظریں ایک لمحے کے لئے ریحان کے گھر کی طرف گئی تھیں وہ نظر نہیں آیا مگر اس کی نگاہوں کی تپش یاد آئی۔
وہ رک سی گئی سلیمان کو بہت مس کرتی تھی مگر اس کا رویہ تحقیر آمیز تھا۔۔
اس کا دل کیا سلیمان کو پھر کال کرے مگر وہ پھر سے بے عزت کر کے رکھ دیتا اس کا دل کھٹا ہونے لگا۔
نیچے آکر وہ بے دلی سے کھانا بنانے لگی شادی کے بعد مرد کا ساتھ ہر عورت کا حق ہے جو اسے بھرپور طریقے سے ملنا چاہئیے مگر وہ ڈھنگ سے بات کرنے کا روادار بھی نا تھا رفعت کے ہاتھ سے ایک کپ گر کے ٹوٹ گیا وہ جھنجلا سی گئی۔
ریحان ایک بار پھر سوچوں میں در آیا وہ چھبیس کی تھی ریحان شاید چوبیس کا ہوگا وہ اس کے بارے میں سوچنے لگی پھر خود ہی شرمندہ ہوگئی ایسا سوچنا ہی کیوں اس نے خود کو کوسا۔۔
مگر وہ خود کو سوچنے سے روک نہیں پا رہی تھی شوہر کی بے پرواہی نے اسے نفسیاتی الجھن کا شکار کر دیا تھا بدن میں اینٹھن سی ہو رہی تھی ریحان کئی بار ان کے بھی کئی کام کر دیا کرتا تھا بازار سے کچھ منگوانا ہوتا تو وہ اسے بول دیتی تھیں۔
ندا بھی آکر اس کا ہاتھ بٹانے لگی وہ کالج میں پڑھتی تھی رفعت اس پہ کام کا زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی تھی۔۔۔ ویسے بھی اگلے ہفتے اس کی منگنی تھی اس لئے وہ اسے کام سے معاف ہی کرتی تھی۔۔وہ کام چور نہیں تھی اسے گھر کے کاموں سے جی چرانا پسند نہیں تھا مگر سلیمان کا خیال تھا کہ وہ سوئی رہتی ہے اور وقت بے وقت اسے کالیں کرتی ہے۔
+---------------------+
ریحان سہہ پہر کو سو گیا تھا۔۔۔ آنکھ کھلی تو باہر سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔۔۔ وہ کسلمندی سے اٹھا اور دروازہ کھول کر ہلکی سی جھری بنائی اور باہر جھانکا۔۔۔ رفعت اماں کی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی دونوں نا جانے کیا باتیں کر رہی تھیں وہ واپس بیڈ پہ لیٹ گیا اور موبائل میں میسجز دیکھنے لگا۔
ریحان سو رہا ہے اٹھ جائے تو میں اسے کہتی ہوں ایسی لیس لے آئیگا یا پھر تم خود اس کے ساتھ چلی جانا۔۔۔ وہ بولیں رفعت تذبذب میں پڑ گئی۔
وہ تھوڑی دیر پہلے ان کے گھر آئی تھی ریحان کی امی آ چکی تھیں رفعت کو اپنا ڈریس تیار چاہئیے تھا اگلے ہفتے ندا کی منگنی تھی باقی سارے ڈریس تیار ہو گئے تھے مگر ایک رہتا تھا جس پہ بارڈر لگوانی تھی جس کے لئے وہ یہاں آئی تھی آنٹی یہ کام اچھے سے کرتی تھیں مگر ان کے پاس بارڈر ختم ہو گئی تھی۔
ریحان کب اٹھیگا آنٹی؟ وہ پوچھنے لگی شام ہونے لگی تھی پھر دیر ہو جاتی جانے میں ابھی جانے کا وقت تھا۔
اٹھ جائیںگا بیٹا۔۔۔ آنٹی جو باہر جانے لگی تھیں رکیں۔۔ یا تم خود ہی اسے جگا دو تمھارا اپنا گھر ہے۔۔ وہ بولیں پھر باہر نکل گئیں رفعت متذبذب سی بیٹھی رہی پھر ہمت کر کے اٹھی اور اس کے کمرے کی طرف آئی۔
دروازے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالا تو وہ کھل گیا اسے لگا دروازہ بند ہوگا وہ اپنے بیڈ پہ سیدھا لیٹا ہوا جاگ رہا تھا اسے دیکھ کے بیٹھ گیا رفعت جھجکی۔
کیا بات ہے؟ رفعت کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جو دروازہ کھول کے وہیں کھڑی رہ گئی تھی جیسے قدم اٹھانا بھول گئی ہو۔۔
بولو نا کیا بات ہے؟ ریحان نے اسے گہری نظروں سے دیکھا وہ اس وقت شلوار قمیض میں تھی لائٹ بلیو کلر کی عمدہ پرنٹ والی قمیض اور کھلی سی سیاہ شلوار پہنے ہوئے تھی جس کے پائینچے قدرے تنگ تھے سادہ سی لباس میں بھی بھلی لگ رہی تھی موزوں سی دلفریب چھاتیاں سینے پہ آرام کر رہی تھیں اور پیٹ ہمیشہ کی طرح ہموار تھا ریحان نے نظریں چرا کے اس کی آنکھوں میں جھانکا اس سے زیادہ بھرپور جوانی کم ہی لڑکیوں کے نصیب میں ہوتی ہے جو چھپائے نا چھپے۔
ایسی لڑکیاں چاہے جیسا بھی لباس پہن لیں ان کا بدن لباس کے نیچے سے خاموشی سے بتا دیتا ہے کہ وہ بھر پور جوان ہیں اور بے حد خوبصورت۔۔۔۔
مارکیٹ چلیں؟ رفعت بولی معلوم نہیں کیوں دل دھڑک اٹھا تھا
مارکیٹ کیوں جانا ہے؟ ریحان اس سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا وہ نسوانی حسن کا شاہکار تھی۔
وہ آنٹی کے پاس لیس ختم ہوگئی ہے تو وہ لینے جانا ہے اور میں اپنے لئے میک اپ کی کچھ آئیٹمز بھی لے لونگی۔۔۔ وہ لجاجت سے بولی اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی ریحان نے لمبی سانس لی۔
مگر جائینگے کیسے؟ بائیک پہ چل پاؤگی تم؟ وہ استفسار کرنے لگا گاڑی ابو لے گئے تھے لے دے کے بائیک ہی بچی تھی۔
رفعت نے سر ہلایا چلی جاؤنگی۔۔ نو پرابلم۔۔ یا پھر رکشہ منگوا لینا۔
اوکے لے چلونگا۔۔۔ میں منہ دھو کے کپڑے بدل لوں تم باہر بیٹھو۔۔۔ اس نے ہامی بھری پھر اٹھ کر واش روم میں چلا گیا تو رفعت باہر آگئی وہ یہاں اکثر آتی تھی گھر اس کا دیکھا بھالا تھا ان دنوں ریحان ہاسٹل میں ہوتا تھا۔
ایک بار اس کا دل کیا گھر جا کے ندا اور امی کو بتا دے کہ وہ مارکیٹ جا رہی ہے پھر ارادہ ملتوی کر دیا اس سے فرق نہیں پڑتا تھا اسے کے آنے جانے پہ روک ٹوک نہیں تھی۔
سہہ پہر ڈھل رہی تھی دھوپ میں تپش باقی نہیں رہی تھی وہ لان میں آئی تو آنٹی وہاں پودوں کو پانی دے رہی تھیں۔
جگا دیا ریحان کو؟ انھوں نے اسے باہر آتے دیکھ کے پوچھا تھا ہاتھ میں پائپ پکڑا ہوا تھا۔
جی آنٹی وہ لے کے جا رہا ہے۔۔۔ وہ بولی پھر لان میں پڑی کرسی پہ آبیٹھی۔
ریحان اندر سے بٹن بند کرتا آیا بال سلیقے سے سلجھے ہوئے تھے وہ اونچے قد کا بے حد مضبوط جسامت کا نوجوان تھا بازو لوہے کے راڈز کی طرح تھے اور کندھے چوڑے تھے رنگت قدرے صاف تھی اور نقوش تیکھے تھے مجموعی طور پر بے حد وجیہہ انسان تھا۔
چلو۔۔۔ اسے اشارہ کرتا وہ گیٹ کھولنے لگا اور بائیک سٹارٹ کر دی۔
اپنا چھوٹا سا پرس اس کے پاس تھا وہ جھجکتی ہوئی سی آکے اس کے پیچھے بیٹھ گئی وہ لڑکیوں کے انداز میں بیٹھی تھی سمٹ کے اپنی ٹانگیں ایک ہی طرف کر کے۔
کیا تم کبھی بائیک پہ نہیں بیٹھی؟ کچھ دور آنے کے بعد ریحان بولا تھا وہ چونکی۔
کیوں؟
کیونکہ تم کنارے پہ بیٹھی ہو۔۔ کسی بھی وقت گر جاؤگی۔۔۔ اپنی تشریف تھوڑی اس طرف کرلو۔۔۔ ٹھیک سے بیٹھو اور مجھے بھی پکڑ لو۔۔۔ وہ بولا رفعت شرمندہ سی ہو گئی وہ واقعی بہت سا فاصلہ رکھ کے سیٹ کے کنارے پہ بیٹھی تھی تھوڑا کھسک کر اس کی طرف ہوئی پھر ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھ دیا۔
اسے یوں چھونا جسم میں عجیب سی لہر دوڑا گیا جیسا بھی تھا وہ مرد تھا اس کے یوں ساتھ لگ کے بیٹھنا اسے بے چین کرنے لگا رفعت کو لگا اس کے کانوں کی لوئیں تپنے لگی ہیں۔
ایک جگہ ریحان نے ٹریفک میں بریک لگائی تو رفعت اس کے ساتھ آلگی اس کی نرم چھاتیوں کا احساس ریحان کو اپنی پشت پہ ہوا تھا وہ ہونٹ بھینچ کر ڈرائیونگ پہ توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرنے لگا دل بے لگام ہو رہا تھا۔
پیچھے بیٹھی رفعت کا دل بے طرح دھڑک رہا تھا کچھ منہ زور جذبے انگڑائی لے کر بیدار ہوئے تھے۔
مارکیٹ پہنچ کر ریحان نے بائیک روکی تو وہ کسمسا کے جلدی سے اتری تھی۔
+---------------------+
جاری ہے۔۔۔​
 
Newbie
4
2
3
رفعت آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتی چھت پہ آئی اس کی صبح آج بھی معمول کے مطابق ہوئی تھی۔۔۔ جاگتے ہی وہ کاموں میں جت گئی نند کے ساتھ مل کے ناشتہ بنایا پھر صفائی شروع کردی شادی کے بعد تقریباً یہی روٹین بن گئی تھی۔
اس نے کل شام کو کچھ کپڑے دھو کے تار پہ ڈالے تھے جنہیں اتارنا بھول گئی تھی۔۔۔چھت پہ آ کے اس نے تار پہ لٹکتے کپڑوں کو چھوا اور دل مسوس کر رہ گئی رات بھر اوس برستی رہی تھی کپڑے پھر سے نم ہو گئے تھے آج دن کو ان کا یوں ہی تار پہ رہنا ضروری تھا تاکہ خشک ہو جاتے۔
وہ کپڑوں کو الٹنے پلٹنے میں مصروف تھی کہ ساتھ والی چھت سے سیٹی کی ہلکی آواز آئی رفعت چونکی پھر اس طرف دیکھا تو ریحان کھڑا تھا۔۔۔ شرٹ کے کئی بٹن کھلے ہوئے تھے اور بال الجھے ہوئے تھے شاید ابھی ابھی جاگا تھا۔
یہ درمیانے درجے کی کالونی تھی زیادہ تر گھر دو منزلہ اور ایک ہی انداز میں بنے ہوئے تھے چھتوں کے درمیان زیادہ فاصلے نہیں تھے۔
کیا چھچوری حرکتیں کرتے ہو تم ریحان۔۔۔ منہ بنا کے بولی وہ دیوار پہ کہنیاں ٹکا کے اسے دیکھنے لگا۔
کیا کیا ہے میں نے؟ وہ پوچھنے لگا۔۔۔۔ رفعت نے ایک نظر اس کے حلیے پہ ڈالی وہ اونچی قد اور مضبوط جسامت کا خوش شکل نوجوان تھا۔
یہ سیٹی جو بجائی تم نے۔۔۔ وہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔۔ تمھاری امی کہاں ہیں؟ پھر اس سے پوچھا تھا۔
ماموں کے گھر گئی ہیں۔۔۔کیوں؟۔۔۔ وہ بولا۔
مجھے کچھ کام تھا ان سے۔۔۔
بھابی نیچے آجائیں۔۔۔۔ اس کی نند ندا کی آواز آئی تو وہ چونکی پھر ایک نظر اس پہ ڈالی اور نیچے کی طرف بڑھ گئی۔
ریحان اسے نیچے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔۔ پھر لمبی سانس لی۔۔۔ صبح صبح اتنی خوبصورت لڑکی کو دیکھنے کے بعد دن بہت اچھا گزرنے والا تھا۔
جب سے وہ بیاہ کے آئی تھی محلے میں اس کے چرچے ہوئے تھے بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی سرخ و سفید شہابی رنگت میانہ قد اور تیکھا ناک نقشہ۔۔۔متناسب بدن سانچے میں ڈھلا ہوا تھا اور سینے کی اٹھان ہر ایک کا دل دہلاتی تھی بھورے بالوں کی آبشار شور مچاتی کمر پہ گرتی تھی۔
وہ چند ان لڑکیوں میں آتی تھی جنھیں دیکھ کے دیکھتے رہنے کو دل کرتا ہے نگاہ ان کے جوبن پہ ٹھہر جاتی تھی شادی کے بعد بھی اس کی حسن کی شادابی پہ فرق نہیں پڑا تھا بلکہ چہرا بھرا بھرا سا مزید ترو تازہ ہو گیا تھا پہلے بہت دبلی پتلی تھی اب ذرا سی صحتمند ہوگئی تھی جسم پہ بوٹی چڑھ گئی تھی مگر بدن کا توازن برقرار تھا۔۔۔ ریحان کو وہ ہمیشہ بہت پر کشش لگتی تھی۔
⁦++++++++++
رفعت نیچے آئی تو ندا مزید پھیلاوا پھیلانے کے موڈ میں تھی شیلف سے کئی برتن نکال کے کاؤنٹر پر ڈھیر کر رہی تھی جنھیں دھو کے واپس شیلف میں رکھنا تھا۔
کہاں گئی تھیں بھابی۔۔۔ ندا پوچھنے لگی رفعت نے منہ بنایا۔
اوپر گئی تھی تار سے کپڑے اتارنے۔۔ مگر ابھی تک گیلے ہیں۔۔۔ اماں کہاں ہیں؟ اس نے پوچھا۔۔
کمرے میں ہیں لیٹی ہوئی ہیں۔۔۔ ندا بولی رفعت نے سر ہلایا تھا۔
آج اتوار تھا ندا گھر میں ہی تھی۔۔۔ اور اماں کمرے میں۔
اس گھر میں کل یہی تین ہی تو نفوس تھے۔۔
اس کے شوہر سلیمان کو مسقط گئے سال ہونے کو تھا وہ شادی کے ایک مہینہ بعد ہی مسقط چلا گیا تھا جہاں اس کی بہت اچھی جاب تھی۔
وہ سر جھٹک کر کام کرنے لگی۔
⁦+----------------------+
سارے کام نمٹا کر وہ کمرے میں آ لیٹی اور فون نکالا واٹس ایپ دیکھا تو سلیمان آن لائن تھا مسقط میں شاید ابھی صبح ہوئی ہوگی وہ مسکرائی پھر اسے کال ملا کے کروٹ بدل گئی۔
فون کی گھنٹی بجی تھی۔۔۔ پر سلیمان نے کال اٹینڈ نہیں کی۔۔۔۔ گھنٹی بجتی رہی پھر جب رفعت مایوس ہونے لگی تب اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔
ہیلو کیا بات ہے؟ کوئی سلام دعا کئے بغیر سلیمان بولا تھا یوں جیسے اس کا فون کرنا ناگوار گزرا ہو رفعت چپ سی ہوئی۔
کیسے ہیں سلیمان موسم کیسا ہے۔۔۔؟
تم نے یہ بات پوچھنے کے لئے فون کیا ہے؟۔۔۔۔وہ اس پہ بگڑا رفعت خفیف سی ہوئی۔
ہاں میں نے سوچا بات کر لوں آپ سے۔۔۔۔ کمزور سے لہجے میں بولی وہ مزید بپھر گیا تھا۔
تمھیں اور کوئی کام نہیں ہے۔۔۔ فارغ پڑی رہتی ہو اور منہ اٹھا کے کال کر لیتی ہو۔۔۔ پتہ بھی میں یہاں کام کر رہا ہوتا ہوں فارغ نہیں بیٹھا رہتا جس تمھاری فضول باتیں سنو۔۔۔ وہ دھاڑا تھا رفعت پانی پانی ہوئی۔
میرا دل کر رہا تھا بات کرنے کو اس لئے کال کر لی۔۔۔ آنکھوں میں بے مائیگی کے احساس سے آنسو تیرنے لگے تھے وہ پہلے تو ایسا نہیں تھا۔
تم گھر کے کوئی کام کر لو یہاں کے موسموں کے بارے میں جاننا چھوڑ دو۔۔۔ وہ غرایا تھا پھر فون بند کر دیا رفعت دل مسوس کر رہ گئی۔
وہ پہلے ایسا نہیں تھا۔۔۔
شادی کے مہینہ بعد اسے باہر جانا پڑ گیا تھا تو روز کال کرتا تھا وہ گھنٹوں باتیں کرتے تھے یہاں وہاں کی الٹی سیدھی باتیں۔۔۔
لیکن پھر چیزیں بدلنے لگیں اس کی کالز کم سے کم تر ہونے لگیں وہ دوسرے تیسرے دن یا پھر ہفتے میں کال کرنے لگا وہ بات کرنے کو ترس جاتی مگر اس نے کال کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔
پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ وہ ہفتہ بھر کال نہیں کرتا تھی رفعت مس کرتی تھی تو کال کرلیتی جو پانچ منٹ سے زیادہ کی نہیں ہوتی تھی جس میں اسے وہ باتیں سنا کے ذلیل کر دیتا تھا اس کی عزت دو کوڑی کی کرکے جیسے اسے سکون ملتا تھا۔
جیسے اب ہوا تھا وہ بے چین سی لیٹی رہی آنکھوں مین امڈ آنے والے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتی رہی دل بہت بیزار تھا۔
+--------------------+
ریحان اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ میں کام کر رہا تھا یونیورسٹی کی طرف سے پراجیکٹ ملا تھا جس پہ وہ پچھلے کچھ دیر سے لگا ہوا تھا گھر میں کوئی نہیں تھا امی نانی کی طرف گئی ہوئی تھیں ابو تو دو ہفتوں سے کراچی میں تھے بہنوں کی شادی کے بعد اتنے ہی لوگ رہ گئے تھے گھر میں۔
گیٹ پہ گھنٹی کی آواز سے اس کا انہماک ٹوٹا لیپ ٹاپ یوں ہی چھوڑ کر وہ دروازہ کھول کر باہر آیا اور دروازے کی طرف بڑھا۔
دروازہ کھولنے پہ اسے حیرت آمیز خوشی کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔ سامنے رفعت کھڑی تھی سیاہ رنگ کی گوٹے والی شال اوڑھے جس میں اس کا سرخ و سفید چہرہ دمک رہا تھا ستواں ناک چہرے کی دلکشی بڑھا رہی تھی ترشے ہوئے ہونٹ بے حد خوبصورت لگ رہے تھے گورے ہاتھوں میں ایک پیکٹ دبا ہوا تھا۔
تمھاری امی آئیں کہ نہیں؟ رفعت اس کے نظریں خود پہ پاکے ذرا سی پزل ہوئی جلدی سے پوچھا۔
نہیں وہ تو نہیں آئیں۔۔۔ریحان بولا پھر اسے بغور دیکھا وہ شال سختی سے لپیٹے ہوئے تھی مگر شال کے نیچے سے اس کی جوانی اپنی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی بھرپور جوان سینہ ابھرا ہوا تھا مگر شال کی وجہ سے واضح نہ تھا ریحان کی دھڑکن ایک لمحے کے لئے تیز ہوئی۔
یہ میں کچھ کپڑے لائی ہوں ان پہ بارڈر لگانی ہے۔۔۔ رفعت بولی اس کی نظروں کو وہ محسوس کر گئی تھی۔
یہ اپنی امی کو دے دینا۔۔۔ وہ جلدی سے بولی پھر اسے دیکھا جو اونچے لمبے قد سے سامنے کھڑا تھا پھر پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا جسے ریحان نے تھاما تھا۔
پیکٹ لیتے وقت اس کی انگلیاں رفعت کے ہاتھ سے مس ہوئیں رفعت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کیا تھا۔
اندر آؤ نا۔۔۔ وہ بولا۔۔۔ شاید امی ابھی آجائیں۔۔ وہ رفعت کے تروتازہ چہرے کو نظروں میں سمونے لگا وہ گھبرا گئی ۔
نہیں۔۔۔ جب وہ آجائینگی تو آؤنگی کپڑے لینے ابھی چلتی ہوں۔۔۔ وہ کپڑے اسے پکڑا کےبولی پھر جلدی سے واپس مڑ گئی۔
اور اپنے گھر کی طرف آئی شام کو آنا تھا کپڑے لینے تب تک اس کی امی بھی آجاتی۔
ریحان اس کی چال کو عقب سے دیکھتا رہا وہ بہت متوازن چال چل رہی تھی شال کمر تک آرہی تھی اس سے نیچے کا بدن اپنی تمام تر شادابی لباس سے چھلکا رہا تھا وہ بہت پتلی نہیں تھی بے حد متوازن تھی شاید فرصت میں بنایا گیا تھا لمبا قد اور مڑی ہوئی کمر تلے صحت مند کولہے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ تھرک رہے تھے ریحان نظریں نہیں ہٹا سکا جب وہ اندر چلی گئی تو اس نے بھی گہری سانس لے کر دروازہ بند کر دیا اس حسن میں حصہ دار بننے کی تمنا دل میں پنپنے لگی تھی۔
+--------------------+
رفعت گھر واپس آکے کاموں میں مشغول ہو گئی لنچ بھی بنانا تھااور صبح کے کچھ برتن بھی تھے۔۔۔ پھر اسے تار پہ ٹنگے کپڑے یاد آئے تو وہ چونکی اور سیڑھیاں چڑھتی اوپر آگئی۔
دھوپ لگنے سے کپڑے خشک ہو گئے تھے انھیں ایک ایک کر اتار کے بازو پہ ڈالنے لگی نظریں ایک لمحے کے لئے ریحان کے گھر کی طرف گئی تھیں وہ نظر نہیں آیا مگر اس کی نگاہوں کی تپش یاد آئی۔
وہ رک سی گئی سلیمان کو بہت مس کرتی تھی مگر اس کا رویہ تحقیر آمیز تھا۔۔
اس کا دل کیا سلیمان کو پھر کال کرے مگر وہ پھر سے بے عزت کر کے رکھ دیتا اس کا دل کھٹا ہونے لگا۔
نیچے آکر وہ بے دلی سے کھانا بنانے لگی شادی کے بعد مرد کا ساتھ ہر عورت کا حق ہے جو اسے بھرپور طریقے سے ملنا چاہئیے مگر وہ ڈھنگ سے بات کرنے کا روادار بھی نا تھا رفعت کے ہاتھ سے ایک کپ گر کے ٹوٹ گیا وہ جھنجلا سی گئی۔
ریحان ایک بار پھر سوچوں میں در آیا وہ چھبیس کی تھی ریحان شاید چوبیس کا ہوگا وہ اس کے بارے میں سوچنے لگی پھر خود ہی شرمندہ ہوگئی ایسا سوچنا ہی کیوں اس نے خود کو کوسا۔۔
مگر وہ خود کو سوچنے سے روک نہیں پا رہی تھی شوہر کی بے پرواہی نے اسے نفسیاتی الجھن کا شکار کر دیا تھا بدن میں اینٹھن سی ہو رہی تھی ریحان کئی بار ان کے بھی کئی کام کر دیا کرتا تھا بازار سے کچھ منگوانا ہوتا تو وہ اسے بول دیتی تھیں۔
ندا بھی آکر اس کا ہاتھ بٹانے لگی وہ کالج میں پڑھتی تھی رفعت اس پہ کام کا زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی تھی۔۔۔ ویسے بھی اگلے ہفتے اس کی منگنی تھی اس لئے وہ اسے کام سے معاف ہی کرتی تھی۔۔وہ کام چور نہیں تھی اسے گھر کے کاموں سے جی چرانا پسند نہیں تھا مگر سلیمان کا خیال تھا کہ وہ سوئی رہتی ہے اور وقت بے وقت اسے کالیں کرتی ہے۔
+---------------------+
ریحان سہہ پہر کو سو گیا تھا۔۔۔ آنکھ کھلی تو باہر سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔۔۔ وہ کسلمندی سے اٹھا اور دروازہ کھول کر ہلکی سی جھری بنائی اور باہر جھانکا۔۔۔ رفعت اماں کی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی دونوں نا جانے کیا باتیں کر رہی تھیں وہ واپس بیڈ پہ لیٹ گیا اور موبائل میں میسجز دیکھنے لگا۔
ریحان سو رہا ہے اٹھ جائے تو میں اسے کہتی ہوں ایسی لیس لے آئیگا یا پھر تم خود اس کے ساتھ چلی جانا۔۔۔ وہ بولیں رفعت تذبذب میں پڑ گئی۔
وہ تھوڑی دیر پہلے ان کے گھر آئی تھی ریحان کی امی آ چکی تھیں رفعت کو اپنا ڈریس تیار چاہئیے تھا اگلے ہفتے ندا کی منگنی تھی باقی سارے ڈریس تیار ہو گئے تھے مگر ایک رہتا تھا جس پہ بارڈر لگوانی تھی جس کے لئے وہ یہاں آئی تھی آنٹی یہ کام اچھے سے کرتی تھیں مگر ان کے پاس بارڈر ختم ہو گئی تھی۔
ریحان کب اٹھیگا آنٹی؟ وہ پوچھنے لگی شام ہونے لگی تھی پھر دیر ہو جاتی جانے میں ابھی جانے کا وقت تھا۔
اٹھ جائیںگا بیٹا۔۔۔ آنٹی جو باہر جانے لگی تھیں رکیں۔۔ یا تم خود ہی اسے جگا دو تمھارا اپنا گھر ہے۔۔ وہ بولیں پھر باہر نکل گئیں رفعت متذبذب سی بیٹھی رہی پھر ہمت کر کے اٹھی اور اس کے کمرے کی طرف آئی۔
دروازے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالا تو وہ کھل گیا اسے لگا دروازہ بند ہوگا وہ اپنے بیڈ پہ سیدھا لیٹا ہوا جاگ رہا تھا اسے دیکھ کے بیٹھ گیا رفعت جھجکی۔
کیا بات ہے؟ رفعت کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جو دروازہ کھول کے وہیں کھڑی رہ گئی تھی جیسے قدم اٹھانا بھول گئی ہو۔۔
بولو نا کیا بات ہے؟ ریحان نے اسے گہری نظروں سے دیکھا وہ اس وقت شلوار قمیض میں تھی لائٹ بلیو کلر کی عمدہ پرنٹ والی قمیض اور کھلی سی سیاہ شلوار پہنے ہوئے تھی جس کے پائینچے قدرے تنگ تھے سادہ سی لباس میں بھی بھلی لگ رہی تھی موزوں سی دلفریب چھاتیاں سینے پہ آرام کر رہی تھیں اور پیٹ ہمیشہ کی طرح ہموار تھا ریحان نے نظریں چرا کے اس کی آنکھوں میں جھانکا اس سے زیادہ بھرپور جوانی کم ہی لڑکیوں کے نصیب میں ہوتی ہے جو چھپائے نا چھپے۔
ایسی لڑکیاں چاہے جیسا بھی لباس پہن لیں ان کا بدن لباس کے نیچے سے خاموشی سے بتا دیتا ہے کہ وہ بھر پور جوان ہیں اور بے حد خوبصورت۔۔۔۔
مارکیٹ چلیں؟ رفعت بولی معلوم نہیں کیوں دل دھڑک اٹھا تھا
مارکیٹ کیوں جانا ہے؟ ریحان اس سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا وہ نسوانی حسن کا شاہکار تھی۔
وہ آنٹی کے پاس لیس ختم ہوگئی ہے تو وہ لینے جانا ہے اور میں اپنے لئے میک اپ کی کچھ آئیٹمز بھی لے لونگی۔۔۔ وہ لجاجت سے بولی اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی ریحان نے لمبی سانس لی۔
مگر جائینگے کیسے؟ بائیک پہ چل پاؤگی تم؟ وہ استفسار کرنے لگا گاڑی ابو لے گئے تھے لے دے کے بائیک ہی بچی تھی۔
رفعت نے سر ہلایا چلی جاؤنگی۔۔ نو پرابلم۔۔ یا پھر رکشہ منگوا لینا۔
اوکے لے چلونگا۔۔۔ میں منہ دھو کے کپڑے بدل لوں تم باہر بیٹھو۔۔۔ اس نے ہامی بھری پھر اٹھ کر واش روم میں چلا گیا تو رفعت باہر آگئی وہ یہاں اکثر آتی تھی گھر اس کا دیکھا بھالا تھا ان دنوں ریحان ہاسٹل میں ہوتا تھا۔
ایک بار اس کا دل کیا گھر جا کے ندا اور امی کو بتا دے کہ وہ مارکیٹ جا رہی ہے پھر ارادہ ملتوی کر دیا اس سے فرق نہیں پڑتا تھا اسے کے آنے جانے پہ روک ٹوک نہیں تھی۔
سہہ پہر ڈھل رہی تھی دھوپ میں تپش باقی نہیں رہی تھی وہ لان میں آئی تو آنٹی وہاں پودوں کو پانی دے رہی تھیں۔
جگا دیا ریحان کو؟ انھوں نے اسے باہر آتے دیکھ کے پوچھا تھا ہاتھ میں پائپ پکڑا ہوا تھا۔
جی آنٹی وہ لے کے جا رہا ہے۔۔۔ وہ بولی پھر لان میں پڑی کرسی پہ آبیٹھی۔
ریحان اندر سے بٹن بند کرتا آیا بال سلیقے سے سلجھے ہوئے تھے وہ اونچے قد کا بے حد مضبوط جسامت کا نوجوان تھا بازو لوہے کے راڈز کی طرح تھے اور کندھے چوڑے تھے رنگت قدرے صاف تھی اور نقوش تیکھے تھے مجموعی طور پر بے حد وجیہہ انسان تھا۔
چلو۔۔۔ اسے اشارہ کرتا وہ گیٹ کھولنے لگا اور بائیک سٹارٹ کر دی۔
اپنا چھوٹا سا پرس اس کے پاس تھا وہ جھجکتی ہوئی سی آکے اس کے پیچھے بیٹھ گئی وہ لڑکیوں کے انداز میں بیٹھی تھی سمٹ کے اپنی ٹانگیں ایک ہی طرف کر کے۔
کیا تم کبھی بائیک پہ نہیں بیٹھی؟ کچھ دور آنے کے بعد ریحان بولا تھا وہ چونکی۔
کیوں؟
کیونکہ تم کنارے پہ بیٹھی ہو۔۔ کسی بھی وقت گر جاؤگی۔۔۔ اپنی تشریف تھوڑی اس طرف کرلو۔۔۔ ٹھیک سے بیٹھو اور مجھے بھی پکڑ لو۔۔۔ وہ بولا رفعت شرمندہ سی ہو گئی وہ واقعی بہت سا فاصلہ رکھ کے سیٹ کے کنارے پہ بیٹھی تھی تھوڑا کھسک کر اس کی طرف ہوئی پھر ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھ دیا۔
اسے یوں چھونا جسم میں عجیب سی لہر دوڑا گیا جیسا بھی تھا وہ مرد تھا اس کے یوں ساتھ لگ کے بیٹھنا اسے بے چین کرنے لگا رفعت کو لگا اس کے کانوں کی لوئیں تپنے لگی ہیں۔
ایک جگہ ریحان نے ٹریفک میں بریک لگائی تو رفعت اس کے ساتھ آلگی اس کی نرم چھاتیوں کا احساس ریحان کو اپنی پشت پہ ہوا تھا وہ ہونٹ بھینچ کر ڈرائیونگ پہ توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرنے لگا دل بے لگام ہو رہا تھا۔
پیچھے بیٹھی رفعت کا دل بے طرح دھڑک رہا تھا کچھ منہ زور جذبے انگڑائی لے کر بیدار ہوئے تھے۔
مارکیٹ پہنچ کر ریحان نے بائیک روکی تو وہ کسمسا کے جلدی سے اتری تھی۔
+---------------------+
جاری ہے۔۔۔​
Bhai story achi h plz ab isse aage ki bhi update de do
 
Newbie
12
13
3
کہانی کا پلاٹ بہت زبردست اور حقیقی ہے ، شادی کے فوراً بعد پردیس سدھارنے والے مرد حضرات شاید نہیں جانتے کہ وہ اپنے پیچھے ایک جیتی جاگتی ہستی کو کس اذیت میں ڈال کر جارہے ہیں، ایک کنواری لڑکی کو زندگی کے سب سے پُر لطف لمحات سے آشنا کرکے اسے اچانک چھوڑ کر پردیس چلے جانا اس بچی پر اک ظلم کی مانند ہے
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
ریحان رفعت کو مارکیٹ کے اس حصے میں لے آیا تھا جہاں خواتین کی ضرورت کی چیزیں تھیں رفعت خاموش سی چیزیں لینے لگی وہ دو ہی چیزوں کے لئے آئی تھی مگر اب کافی کچھ لے رہی تھی۔
ایک جگہ وہ میک اپ کی دکان پہ رک گئی۔۔۔ اپنے لئے کوئی لوشن اور لپ اسٹک لینے لگی ریحان اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
اسے میک اپ کی کیا ضرورت اسے بغور دیکھتا وہ سوچ رہا تھا۔۔۔ اس کی جلد مکھن کی طرح صاف اور ملائم تھی گردن کے پاس بالوں کی کئی چھوٹی سی لٹیں موجود تھیں۔۔۔
نگاہیں اس کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔۔۔ جس کے ہونٹ کان اور جلد اتنی خوبصورت تھی اس کا باقی جسم کتنا حسین ہوگا۔۔۔ جسم کے وہ حصے جنھیں وہ لباس میں چھپا کے رکھتی تھی کس قدر خوبصورت ہونگے اس کی گداز چھاتیاں ناف کا گڑھا اور بقیہ کا جوان جسم۔۔۔ اسکی دل کی دھڑکنیں اس خیال سے بے ترتیب ہوگئی تھیں دل کیا اسے بے لباس کر کے دیکھے اس کے جسم کی خوشبو اپنے اندر اتارے۔
وہ دکاندار سے کسی بات پہ بحث کر رہی تھی۔
باجی یہ لپ اسٹک لے لیں نئی کمپنی کی ہے بہت اچھی ہے ساتھ میں قیمت بھی کم ہے۔۔۔ دکاندار اس کی خوبیاں گنوا رہی تھی رفعت کسی اور برانڈ کی لپ اسٹک لینے پہ مصر تھی۔
اور دوسری لپ اسٹک لے لی۔۔۔۔
اگر آپ یہ لپ اسٹک لے لیتیں نا باجی تو آپ کے شوہر کو بہت پسند آتی۔۔۔ دکاندار نے مایوسی سے کہا پھر ریحان کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ رفعت جھینپ سی گئی اس نے کہنا چاہا کہ یہ میرا شوہر نہیں ہے مگر دکاندار دوسری طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
ریحان بھی ایک لمحے کے لئے گڑبڑا گیا پھر اس کے قریب منہ لے جا کر سرگوشی کی۔۔
کاش اس دکاندار کی بات سچ ہوتی تمھارا شوہر ہونا میری خوش قسمتی ہوتی۔۔۔ وہ اس کے کان کے پاس بول گیا وہ اس کی طرف سرخ چہرہ لئے پلٹی مگر وہ بائیک کی طرف جا رہا تھا وہ اپنی چیزیں اٹھا کے اس کے پیچھے آئی۔
فضول باتیں نا کیا کرو اچھا۔۔۔ اسے دیکھتی ذرا خفگی سے بولی تھی دل کے چور کو چھپانے کے لئے ایسا روئیہ ضروری تھا۔
وہ ان سنا کر کے بائیک پہ بیٹھ گیا۔۔۔ رفعت پیچھے آبیٹھی۔
ہممم۔۔۔ تمھارا شوہر آئیگا منگنی پہ؟۔۔۔ وہ اپنے وجود کے ساتھ اس کے جسم کی گرمی محسوس کرنے لگا۔
رفعت کے جسم سے حرارت کی لہریں سی نکل کر اس کے جسم میں داخل ہو رہی تھیں۔
نہیں شاید نہ آئیں۔۔۔ رفعت نے جواب دیا
+-------------------+
رات کی سیاہ چادر پھیل گئی تھی سب سو گئے تھے رفعت بہت دیر سے بستر پر لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی نیند نہیں آرہی تھی جیسے روٹھ گئی ہو کبھی ایک کروٹ لیتی کبھی دوسری کبھی چت لیٹ جاتی کبھی اوندھی ہو کر ٹانگیں جھلانے لگتی۔۔۔
طبیعت میں عجیب سی بے چینی تھی جسم جیسے اکڑ گیا تھا ایسے لمحوں میں وہ سلیمان کے بارے میں سوچتی تھی مگر آج خیالوں میں ریحان در آیا تھا رفعت کو خود پہ غصہ آیا ریحان کے خیال کو ذہن سے جھٹکنا چاہا۔
وہ سلیمان کو کال کرنا چاہتی تھی بارہ بج گئے تھے مسقط میں شاید شام ہوگی اس نے فون اٹھا کر کال ملائی۔
ہیلو۔۔۔ کال ملنے پہ وہ آہستہ آواز میں بولی تھی۔
تم نے پھر کال کردی۔۔۔ دوسری طرف سے وہ غرایا تھا ایک دن بھی تم سے گزارا نہیں جاتا کال کر کے ضرور تم نے بکواس کرنی ہوتی ہے۔۔۔ وہ تنفر سے بول رہا تھا رفعت جیسے زمیں میں گڑھ گئی ذلت کا شدید احساس ہوا تھا۔
سلیمان آپ ندا کی منگنی پہ آئینگے؟ اس نے بمشکل پوچھا تھا۔
نہیں میں پیسے بھیج رہا ہوں نا یہی کافی ہیں تم لوگوں کے پیٹ بھرنے کے لئے۔۔۔ وہ زہر خند لہجے میں بولا۔
پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا سلیمان میاں بیوی کے رشتے کے کچھ اور بھی اصول ہوتے ہیں۔۔۔ اس نے بولنا چاہا مگر اس لمحے اسے فون میں سے ہلکی سی نسوانی آواز سنائی دی تھی۔
لڑکیوں کے کان ایسی آواز کے لئے بہت حساس ہوتے ہیں سلیمان کے قریب کوئی موجود تھی اس کا دل ڈوب کے ابھرا۔
سلیمان نے ڈپٹ کر کسی کو چپ رہنے کا کہا تھا پھر کال کاٹ دی۔
رفعت فون ہاتھ میں لئے لیٹی رہ گئی اس کے ساتھ کون تھی وہاں؟ دل و دماغ میں واہموں کے جھکڑ سے چل رہے تھے وہ بے کل سی ہوئی نیند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
اس کا دم گھٹنے لگا روم کے اندر۔۔۔
چپل پیروں میں اڑس کر وہ باہر آگئی اور ریلنگ کی طرف بڑھی پھر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئی سلیمان سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔
چھت پہ آکر ہلکی ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا تھا وہ دیوار کے پاس آ کے کھڑی ہو گئی دل بجھا ہوا تھا اس لمحے وہ چونک گئی دوسرے گھر کی چھت جو کہ پاس ہی تھی اسے ایک جگنو سا چمکتا ہوا نظر آیا تھا کسی نے شاید سگریٹ جلایا تھا۔
یہ ریحان تھا جو دوسرے گھر کی چھت پہ تھا۔
وہ دونوں کچھ ہی فاصلے سے اپنی اپنی چھتوں پہ آمنے سامنے تھے۔
رفعت۔۔۔ ریحان بولا پھر سگریٹ بجھادی اسے اس وقت چھت پہ دیکھ کے حیرت سی ہوئی تھی
اس نے آہستہ سے اپنی دیوار کے اوپر پاؤں رکھا دوسرا پاؤں رفعت کی گھر کی دیوار پہ رکھا پھر آہستگی سے ان کی چھت پہ اتر گیا۔
اسے اپنے سامنے دیکھنے لگا چاند کی مدھم روشنی اس پہ پڑ رہی تھی اس کا نیم روشن خوبصورت ہیولہ نظر آرہا تھا۔
اس وقت وہ دوپٹے سے بے نیاز تھی سینے کی جگہ کا خوبصورت ابھار نظر آرہا تھا تنگ سی قمیض میں اس کی چھاتیاں قید تھیں نازک لچکدار کمر کو قمیض نے تھام رکھا تھا لمبے ریشمی بال کمر پہ لڑھک کر کولہوں کو چھو رہے تھے۔
ریحان بے خود ہوا سانس اتھل پتھل ہوئی تھی اس لمحے اسے بے لباس دیکھنے کی خواہش پھر سے سر اٹھانے لگی۔
بے اختیار اس نے رفعت کا ہاتھ تھاما تھا۔
اس وقت کیا کر رہی ہو چھت پہ۔۔۔۔ اس نے پوچھا وہ ہاتھ نا چھڑا سکی جسم پہ چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں۔
نیند نہیں آرہی تھی تو اوپر آگئی۔۔۔وہ بولی
نیند کیوں نہیں آرہی تھی؟ وہ اس کی مخروطی انگلیوں سے کھیلنے لگا۔
نیند تو مجھے بھی نہیں آرہی تھی۔۔۔میں تمھیں یاد کر رہا تھا۔۔۔وہ سرگوشی میں بولا پھر اس کے قریب ہوا رفعت کی پشت دیوار سے جا لگی۔
ریحان ۔۔۔ رفعت کے جسم پہ بے شمار چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں وہ جھجک کر اس سے الگ ہوئی مگر اس نے بازو نہیں چھوڑا تھا۔
ڈر گئی ہو؟۔ وہ مدھم آواز میں بولا پریشان نا ہو پھر اس کی انگلیاں رفعت کے بازو پہ سرکتی کہنی تک آگئیں اور بازو پہ آگے کا سفر کرنے لگیں۔
ایک بات بتاؤ اگر نیند نا آئے تو کیا کرنا چاہئیے۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔ وہ بولی بازو اس کے ہاتھ میں تھا۔
اب میں نیچے چلتی ہوں۔۔۔وہ گھبرا گئی تھی اپنے اندر اٹھتے طوفان سے۔۔۔ کچھ تھا جو اسے ریحان سے لپٹ جانے پر اکسا رہا تھا وہ جانتی تھی بدن کے اینٹھن کا علاج شاید اس کی بانہوں میں مل جائے مگر جھجک آڑے آ رہی تھی مضطرب ہو کر وہ نیچے کی طرف بڑھی۔
وہ وارفتگی سے اسے جاتا دیکھتا رہ گیا اس کی تشنگی بڑھ گئی تھی وہ اسے تسخیر کرنا چاہتا تھا۔
+---------------------+
آج موسم خوشگوار تھا صبح سے ہلکی ہلکی بارش ہوتی رہی تھی ہلکی پھوار نے موسم کو خوشگواریت بخش دی تھی نیلگوں آسمان کو بدلیوں نے ڈھک رکھا تھا۔
ریحان یونیورسٹی سے گھر آیا تھا بیگ کندھے پہ جھول رہا تھا بائیک سٹینڈ پہ کھڑی کرکے وہ اندر کی طرف آیا ڈرائینگ روم میں سے کسی کی آواز آرہی تھی وہ اندر آیا پھر ٹھٹکا۔
رفعت امی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اسے دیکھ کے پلکیں اٹھائیں پھر جھکا دیں۔
ریحان نے سلام کیا تھا۔
اچھا ہوا تم جلدی آگئے ریحان۔۔۔ رفعت کا کچھ کام ہے یہ تمھیں ہی بلانے آئی تھی ان کے گھر چلے جانا۔۔۔۔ امی بولیں ریحان نے سر ہلایا پھر رفعت کو دیکھا جو صوفے پہ تھی آنکھیں اک لمحے کے لئے چار ہوئیں رات کا منظر آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا ان کے گھر جانا امتحان ثابت ہو سکتا تھا اس کا دل کیا امی کو منع کر دے کل رات جو ہوا جذبات کی موجوں میں بہہ کے ہوا وہ اس حالت کا شکار پھر سے نہیں ہونا چاہتا تھا جب وہ بے خود ہو جاتا لیکن اسے جانا ہی پڑا۔
اس کی نند ندا کی منگنی کچھ دن میں ہی تھی گھر کے بہت سارے کام نپٹانے تھے فرنیچر کی جگہ تبدیل کرنی تھی شاپنگ پہ بھی جانا تھا رفعت کی ساس کی پریشانی تو اور بھی سوا تھی۔
گھر میں کسی مرد کی غیر موجودگی ان کے لئے مشکلیں کھڑی کر گئی تھی ان کی جان پر بن آئی تھی وہ ان کے ساتھ مل کے چھوٹے موٹے کام کرتا رہا۔
پھر ان کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ کے مارکیٹ آیا تھا وہ اگلی سیٹ پہ تھا رفعت بڑا سا سفید دپٹہ اوڑھے پچھلی سیٹ پہ تھی ساتھ ہی اس کی ساس بیٹھی تھی دونوں مختلف چیزوں کی خریداری کے بارے میں بات کر رہی تھی۔۔
یہ خواتین کی گفتگو تھی ریحان کو اس میں دلچسپ نہیں تھی مگر اس کی نگاہیں کئی بار رفعت کی طرف اٹھی تھیں شال اوڑھے وہ تروتازہ لگ رہی تھی عنابی ہونٹ ادھ کھلی کلیوں کو مات دے رہے تھے زلفوں کی کئی لٹیں چہرے کی دربان بنی ہوئی تھیں خوبصورت چھاتیاں لباس میں دفن تھیں وہ سر جھٹک کر رہ گیا اس سے نگاہ ہٹانا کتنا مشکل کام تھا۔
+-------------------+
ریحان ان کے گھر کی ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا وہ سہہ پہر سے یہیں تھا گھر کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا رہا تھا ابھی شام ہو رہی تھی۔۔
اٹھنے کو تھا کہ رفعت سیڑھیاں اترتی نیچے آئی وہ بے اختیار ٹھٹکا تھا۔
کیا کر رہے ہو ریحان؟ رفعت نے پوچھا
چلنے لگا تھا۔۔ ابھی تو کوئی کام بھی نہیں ہے وہ بولا۔۔۔ اگر کوئی کام ہوا تو کل مجھے پھر بلا لینا۔۔اس نے کہا رفعت نے سر ہلایا ۔
چائے پی کے جانا ریحان میں بناتی ہوںوہ بولی تو ریحان مسکرا دیا۔۔
نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔ وہ بولا
رفعت متوازن چال چلتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
وہ یوں ہی بیٹھا رہا آنکھیں کچن کی طرف اٹھ رہی تھیں وہ مصروف تھی۔
اس لڑکی میں اتنی کشش کیوں ہے وہ سوچنے لگا وہ کو ایجوکیشن میں پڑھ رہا تھا لڑکیوں سے ہر قدم پہ واسطہ پڑتا تھا لیکن ایسی حیوانی کشش کسی میں نہیں تھی جو اپنی طرف کھینچے رفعت نے بہت خوبصورت جوانی پائی تھی۔
وہ چائے بنا کے اسے دینے لگی دھیمے قدموں سے آتی اس کے پاس ہلکی سی جھکی تو گریبان ذرا سا کھل گیا تھا ریحان کے نظریں غیر ارادی طور پر ڈھلکے گریبان سے اندر ہو آئیں۔
وہ بے انتہا خوبصورت تھی شفاف دودھ جیسی چھاتیوں کا اوپری حصہ نظر آیا تھا جو زیر جامے میں جکڑا ہوا دہائیاں دے رہا تھا ریحان کا گلہ خشک ہونے لگا۔
وہ لاتعلق سی سامنے بیٹھ گئی اس بات سے بے خبر کہ انجانے میں اس پہ کیا ستم توڑ گئی ہے۔
شکریہ ریحان۔۔۔ اتنے سارے کاموں میں مدد کے لئے وہ سامنے صوفے پہ بیٹھ کے بولی۔
اس کی ساس اور نند دوسرے کمرے میں تھیں جہاں سے باتوں کی ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی۔
شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ اس نے چائے سے خشک ہوتا حلق تر کیا۔
ہے تو سہی۔۔۔ جانتے ہو سلیمان کے باہر جانے کے بعد امی باہر کے سارے کام کر لیتی ہیں آج تم ہو اور بہت ہاتھ بٹایا ہے وہ مشکور سی ہو رہی تھی۔
میں روز آنے کے لئے تیار ہوں۔۔۔ وہ ہلکا سا بولا ضرورت ہو تو مجھے بلا لیا کرو۔۔۔
ہاں بلاؤنگی۔۔اس ہفتے تو بہت سارے کام ہونگے۔۔۔ وہ بولی ریحان نے سر ہلایا تھا۔
پھر اسے نگاہوں میں بھرا۔
کپ ٹیبل پہ رکھ کر وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
اگر نیند نہ آئے تو چھت پہ آجایا کرو۔۔ وہ بولا پھر باہر نکل گیا وہ ہونٹ چباتی کھڑی رہ گئی۔
+--------------------+
رفعت سلیمان کو کال پہ کال کر رہی تھی مگر وہ اٹینڈ نہیں کر رہا تھا آگے سے نمبر بزی ہو جاتا تھا۔۔۔ پرسوں ندا کی منگنی تھی وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر وہ اگنور کر رہا تھا۔
شاید بزی ہو اس نے بجھے دل سے خود کو دلاسہ دیا یہ بندھن اس کے لئے عذاب جان بن گیا تھا وہ کوفت زدہ سی لیٹی رہی۔
بستر جیسے اسے کاٹ رہا تھا۔
ایک آخری بار اس نے کال کی دوسری طرف سے اٹینڈ کی گئی تھی وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگایا تھا۔
کون سا کیڑا کاٹ رہا ہے تمھیں اس وقت جو تم پھر کال کرنے لگ گئی ہو۔۔۔ سلیمان کی آواز آئی تھی۔
تمھیں چین نہیں ہے کیا؟ اس کی آواز زہر میں بجھی ہوئی تھی۔
سلیمان پرسوں ندا کی منگنی ہے۔۔
تو؟وہ پھنکارا
تو اگر آپ آجاتے تو بہت اچھا ہوتا۔۔۔ وہ بولی
میں کتنی دفعہ یہ بکواس کر چکا ہوں کہ میں نہیں آسکتا جھک نہیں مار رہا ادھر۔۔۔
رفعت بجھ سی گئی
تم یہاں آکے کام کر لو میری جگہ تو میں آجاتا ہوں۔۔۔ کتے کی ٹیڑھی دم ہو تم جو سیدھی نہیں ہوتی کبھی۔۔۔۔ ایک ہی بات کی رٹ لگائے رہتی ہو۔۔۔بکواس عورت۔۔۔۔
اس نے کال کاٹ دی تھی۔
رفعت نے فون سائیڈ ٹیبل پہ ڈال دیا دل مردہ سا ہوا تھا۔
چند لمحے بے سکونی سے لیٹی رہی کمرہ زندان لگنے لگا تھا۔
پھر اٹھی چپل پیروں میں اڑس کر باہر آنے لگی جب دل تنگ ہوتا تھا تو چھت پہ جاتی تھی۔
پھر باہر آتے آتے یکدم رک سی گئی ریحان کی بات یاد آئی تھی اگر وہ چھت پہ ہوا تو۔۔۔وہ سوچ میں پڑ گئی پھر بے دم سی ہوئی۔
چپل واپس اتار کر بیڈ پہ لیٹ گئی اوپر نہیں جانا چاہتی تھی کل جو ہوا تھا وہ انجانے میں ہوا پھر اسے نہیں دہرانا چاہتی تھی۔
جیسے بھی تھی شادی شدہ تھی اسے اپنی ضرورتوں کے لئے اپنے شوہر کا انظار کرنا تھا اچھی بیوی بن کے۔۔۔وہ کبھی تو آتا پھر اس پہ مہربان ہو جاتا۔
وہ ہونٹ کاٹتی خود پہ ضبط کرتی بستر پہ لیٹ گئی ایک تکیہ سینے سے لگا لیا تھا ہونٹوں کو دانتوں سے چباتی وہ ریحان کے خیال کو جھٹکنے کی کوشش کرنے لگی۔
کمرے میں نائٹ بلب کی دھیمی نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی بیڈ پہ لیٹی رفعت کا ہیولہ نظر آرہا تھا باہر رات لمحہ لمحہ کر کے سرک رہی تھی۔
+----------------------+
جاری ہے۔۔
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
گھر میں منگنی کی گہما گہمی جاری تھی کئی سارے لوگ آچکے تھے ریحان بھی گھر کے ایک فرد کی طرح سب انتظامات میں مشغول تھا۔
نگاہ گاہے بگاہے رفعت کی طرف بھی چلی جاتی تھی جو سفید اور گولڈن کلر کے کامدار شلوار قمیض میں تھی۔۔۔ اس کا متناسب سراپا نکھر آیا تھا بال کمر پہ گرے ہوئے وہ کافی مصروف تھی کئی بار کاموں کے لئے اسے بھی بول چکی تھی۔۔۔
ریحان کی نگاہیں اس کے جسمانی خدوخال میں الجھ جاتیں اس کا جسم جیسے بھول بھلیاں تھیں جنھیں وہ کھوجنا چاہتا تھا ایک آگ سی جل اٹھی تھی جو اس کی قربت میں ہی بجھ سکتی تھی۔
رسم شروع ہوئی تو وہ بالکل رفعت کے پیچھے آکے کھڑا ہوگیا۔
سب لوگ لڑکے لڑکی کے قریب سمٹ آئے تھے وہ ان کی کرسی کے قریب کھڑی تھی ساتھ ہی وہ بھی تھا اس کے عین پیچھے۔۔ شاید ایک انچ کے فاصلے سے۔
وہ چھوٹی قد کی نہیں تھی مگر وہ چھ فٹ سے زیادہ کا تھا اگر وہ سیدھا کھڑا ہوجاتا تو اپنی ٹھوڑی اس کے سر پہ رکھ سکتا تھا۔
رفعت نے کوئی پرفیوم لگائی تھی وہ مسحور سا ہوا پھر اس کے مزید قریب ہو کر اس کے ساتھ لگ گیا سینا اس کی پشت سے مس ہوا تھا۔
معلوم نہیں یہ پرفیوم کی خوشبو تھی یا رفعت کے بھرپور جوان جسم کی مہک جو اس نے اپنے اندر اتاری تھی وہ ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کر گیا شاید رفعت کی جوانی کا خمار تھا۔
وہ ذرا سی اس کی طرف پلٹی۔۔۔ ریحان بدتمیزی نہیں کرو؟آنکھوں میں ہلکی سی تنبیہہ لئے بولی
کسی نے نہیں سنا تھا سب ان کی طرف متوجہ نہیں تھے بلکہ لڑکے لڑکی کو دیکھ رہے تھے جہاں انگوٹھیاں پہنائی جا رہی تھیں۔
مجھے بدتمیزی کرنے کی اجازت دو۔۔۔ریحان نے گمبھیر سی آواز میں سرگوشی کی تھی۔
+--------------------+
آج منگنی کا تیسرا دن تھا رفعت سارا پھیلاوا سمیٹ چکی تھی مہمان بھی جاچکے تھے۔
اس نے صبح کے کچھ برتن دھوئے پھر فارغ ہو گئی اماں کمرے میں تھی ندا کالج گئی ہوئی تھی اپنا دپٹا اوڑھ کے وہ باہر نکل آئی اور ساتھ والےگھر کے دروازے پہ دستک دی تھی۔۔
دروازہ ریحان نے کھولا۔۔۔ وہ حیران ہوئی وہ خالہ سے ملنے آئی تھی اسے لگا ریحان یونیورسٹی میں ہوگا۔
تم یونیورسٹی نہیں گئے۔؟ وہ پوچھنے لگی ریحان اسے ہی دیکھ رہا تھا اسے یوں دروازے پہ پاکے دل مچل گیا کئی دن بعد اسے دیکھ رہا تھا منگنی کے بعد ان کے گھر جانا ہی نہیں ہوا تھا۔
نہیں آج آف ہے۔۔۔ اس نے بتایا
اچھا خالہ گھر پہ ہیں؟
ہاں آجاؤ۔ وہ ایک طرف ہوا رفعت اندر آگئی اس نے دروازہ بند کیا پھر اس کے پیچھے آیا عقب سے اسے دیکھنے لگا۔
وہ چست سا پاجامہ اور شارٹ شرٹ میں تھی اور بہت دلکش چال چلتی ہوئی اندر جا رہی تھی تنگ شرٹ میں کمر درخت کی اکڑی ہوئی شاخ کی طرح بل کھا رہی تھی سکن کلر کے تنگ پاجامے میں صحت مند بھرے بھرے کولہے جیسے لرز رہے تھے اس کی نظریں ان میں الجھ کر رہ گئیں عورت کو فرصت سے بنایا گیا ہے ہر ہر عضو کی موزوں رکھا گیا ہے سر سے پاؤں تک حسن کی دولت ان پہ لٹائی گئی ہے.
اگر حسن ایک دولت تھی تو رفعت بے حد امیر تھی ریحان اس کو دیکھتا رہا بدن میں مدھم سی آگ جلنے لگی۔
وہ اندر آکے ڈرائینگ روم میں آبیٹھی ادھر ادھر دیکھا۔
کہاں ہیں خالہ؟ اس سے پوچھا تھا جو صوفے کے پیچھے کھڑا ہو گیا تھا
وہ نہیں ہیں گھر پہ۔۔۔ ریحان نے خمار آلود نظروں سے اسے دیکھ کے کہا
تم کہہ رہے تھے کہ وہ گھر پہ ہیں۔۔۔ رفعت نے اسے خفگی سے دیکھا پھر ہونٹ کاٹے ریحان آکے صوفے پہ قریب بیٹھ گیا۔
وہ نانی کے گھر گئی ہیں۔۔۔ اس کی نگاہیں رفعت کی منہ زور جوانی پہ بھٹک رہی تھیں جنھیں وہ ہٹانے سے ناکام ہو رہا تھا۔
ٹھیک ہے میں ان کے آنے کے بعد آؤنگی وہ بولی پھر واپسی کے لئے کھڑی ہونا چاہا عجیب سی بے چینی ہونے لگی تھی۔
رفعت بیٹھ جاؤ تھوڑی دیر میں وہ آجائینگی۔۔۔ ریحان نے ہاتھ رفعت کے کندھے پہ رکھ کے اسے روکا اور اس کی اٹھنے کی کوشش ناکام بنائی پھر اس کے ساتھ جڑ کے بیٹھ گیا۔
جب وہ آجائینگی تب میں پھر آجاؤنگی۔۔۔ وہ بولی دل یکدم شدت سے دھڑکنے لگا تھا ریحان نے اپنا ہاتھ اس کے گرد رکھا تھا اور قریب ہوا تھا۔
بار بار کیوں آؤگی یہیں بیٹھ کے انتظار کر لو۔۔ریحان نے اسے ذرا سا اور قریب کیا۔
اس لمحے وہ پوری نہیں تو کچھ حد تک اس کی آغوش میں آگئی تھی سانس الجھنے لگی یوں لگ رہا تھا کہ دل کسی بھی لمحے اچھل کر حلق میں آجائیگا۔
وہ اسے ہلکا سا بھینچ رہا تھا جیسے پوری طرح اس کے بھرپور جوان جسم کو سمیٹنا چاہتا ہو ہاتھ اس کے گرد لپٹ گئے تھے۔
اس کے بدن کی دھیمی دھیمی خوشبو ریحان کو بے خود کر رہی تھی۔
ریحان۔۔ رفعت نے بے قرار ہو کے اس کا نام لیا تھا۔
ہاں۔۔ وہ بولا پھر آہستہ سے اسے اپنی ٹانگوں پہ بٹھالیا۔
تت۔۔تم کیا کرتے ہو آج کل۔۔ رفعت پوچھنے لگی آنکھیں بند ہونے لگی تھیں۔
ریحااان۔۔۔ وہ بہکی ہوئی سی کراہی ریحان کے ہاتھ بے لگام ہوگئے تھے۔۔
یونی کے کام کرتا ہوں۔۔۔ آج آف ہے۔۔۔ کام دیکھوگی میرا۔۔ وہ بولا
ہاں دکھا دو مجھے۔۔ رفعت نے بند آنکھوں سے جواب دیا۔
پھر اندر بیڈ روم میں چلو وہاں دکھاتا ہوں۔۔ وہ بولا
وہ اس کے ساتھ اندر کی طرف آئی ریحان کا کمرہ اوپر جانے والی سیڑھیوں کے ساتھ تھا۔
وہ رفعت کا کانپتا ہوا بازو پکڑے دروازہ کھول کے اندر آیا۔
پھر دروازہ بند کر کے رفعت کی پشت دروازے سے لگادی اس کی تپتی ہوئی سانسیں رفعت کی گردن سے ٹکرانے لگیں۔
وہ شدت سے اس کے چہرے اور گردن پہ جھک گیا اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر سر سے اوپر کر دئیے دوپٹا اس نے اتار دیا تھا رفعت کی نرم چھاتیاں اسے اپنے سینے پہ بخوبی محسوس ہو رہی تھی اور اس کے جوان بدن کی سوندھی خوشبو اندر اتر کر طوفان مچا رہی تھی اس کے نرم ہونٹ ریحان کے ہونٹوں سے ملے وہ انھیں نرمی سے منہ میں لے رہا تھا ہاتھ اس کی پتلی کمر کی سیر کر رہے پھراس نے قمیض ہلکی سی اوپر کر دی۔
دن کے دس بج رہے تھے گلی میں بچوں کے کھیلنے کی آواز آ رہی تھی اور چند خوانچے والے بھی صدائیں دے رہے تھے۔
ریحان۔۔ میں شادی شدہ ہوں۔۔ وہ بمشکل بولی سانس سینے میں نہیں سما رہی تھی
تم بہت خوبصورت ہو تمھارے جیسی لڑکی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔۔ وہ شاید اس کی بات سن نہیں پا رہا تھا اس کو ساتھ بھینچتا بیڈ کی طرف آیا۔
اب تم تب ہی جاؤگی جب امی گھر پہ آجائینگی۔۔ وہ اسے کمر سے پکڑ کے بیڈ پہ چت لٹانے لگا۔
نہیں مجھے ابھی جانا ہے ریحان وہ مچلی مگر ریحان نے اس کے پاؤں اوپر کر کے بیڈ پہ سیدھا لٹا دیا۔
کہا نا تھوڑی دیر بعد چلی جانا۔۔۔ وہ اسے مخمور نظروں سے دیکھتا بولا تھا نظریں اس کے بدن کے خوبصورت نشیب و فراز پر تھیں اس کا صحتمند سینہ چت لیٹنے کی وجہ سے فلیٹ ہو گیا تھا مگر پھر بھی مدھم ابھار موجود تھے ریحان کی کنپٹیاں سلگ اٹھیں سینہ تیز ہوتے سانسوں سے لرزنےلگا ضبط کے بندھ ٹوٹے تو وہ آہستہ سے اس کے اوپر آیا تھا۔
اس کے ہونٹ رفعت کے چہرے اور گردن سے لگ گئے تھے ہاتھ اس کی قمیض کو اوپر کر رہے تھے پیٹ کو برہنہ کرکے اس نے رفعت کو دونوں ہونٹوں کو منہ میں لے کے چھوڑا پھر اس کے بدن پہ نیچے کی طرف آیا۔
رفعت کے ہموار پیٹ پر ناف کا پیالہ اس کا دل دھڑکا رہا تھا ناف سے ذرا اوپر اس کی چھاتیاں ہر سانس کے ساتھ ڈوب ڈوب کر ابھر رہی تھی۔۔
ریحان کو ہر چیز بھولنے لگی یاد رہا تو بس یہ کہ وہ جوانی کی مورت اس کی دسترس میں ہے وہ اسے اپنے تپتے ہونٹوں سے چھونے لگا۔۔
رفعت اس کی گرم سانسیں اپنے بدن پہ محسوس کر رہی تھی اس نیم تاریک کمرے میں جیسے دو بدن دھیمی سی آنچ پہ سلگ رہے تھے جس کو قربت کے چھینٹے ہی بجھا سکتے تھے۔
ریحان کے ہاتھ بہکنے لگے اس کے قمیص کو اوپر کی طرف کھینچا وہ اس کی چھاتیوں کو قمیض کی قید سے رہا کر کے ہاتھوں کے کٹوروں میں سینچنا چاہتا تھا۔
نہیں پلیز۔۔۔ وہ کراہی پھر اس کے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔
اعتراض مت کرو۔۔۔ ریحان نے اس کے سرخ چہرے کو دیکھا اس سے مزید صبر نہیں ہو رہا تھا ہونٹ کانپ رہے تھے آنکھوں میں خمار اتر آیا تھا۔
نہیں پلیز یہ مت کرو۔۔۔ میں کسی اور کی ہوں۔۔ وہ بولی ریحان اسے دیکھ کر رہ گیا شاید اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں اس کی حالت بری تھی مگر وہ سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی۔
پلیز تمھاری امی آجائینگی۔۔ وہ بولی ریحان نے اس کے انداز میں بے نام سی جھجک محسوس کرلی وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی وہ اوپر سے ہٹ گیا۔
رفعت بیڈ سے اتری تھی پھر ہونٹ کاٹتے ہوئے قمیض درست کی اور الجھے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرا وہ اس سے نظریں چرا رہی تھی۔
وہ بیڈ پہ نیم دراز اسے دیکھتا رہا آنکھیں ضبط سے سرخ ہوگئی تھیں دل اس کے قرب کے لئے مچل رہا تھا اور اس کے خوبصورت ہونٹوں کا ذائقہ اب تک منہ میں گھلا ہوا تھا اگر ممکن ہوتا تو اسے یہیں روک لیتا اور دن صبح ہونے تک پیار کرتا مگر وہ واقعی کسی اور کی بیوی تھے اسے پیار کرنے کا حق کسی اور کے پاس تھا۔
تم چاہو تو باہر ڈرائیںگ روم میں انتظار کر لو رفعت۔۔ وہ اس سے بولا جو اپنا دپٹہ اوڑھ رہی تھی۔
نن۔۔۔ نہیں میں بعد میں آجاؤنگی۔۔ وہ بولی تو ریحان نے گہری سانس لی۔
رفعت ایک جھجکتی ہوئی نگاہ اس پہ ڈال کے سمٹی ہوئی سی باہر نکل آئی وہ یونہی لیٹا رہا پھر اٹھ کر کچن کی طرف آیا فریج کا دروازہ کھول کر ایک یخ پانی کی بوتل ہونٹوں سے لگائی اور غٹاغٹ پینے لگا۔
چہرہ اب بھی تپ رہا تھا مگر اندر دہکتے الاؤ کی شدت میں ذرا کمی آئی تھی آنکھوں کی سرخی قدرے کم ہوئی تو دماغ نے کام شروع کیا۔
اس لڑکی میں ایسا کیا تھا جو وہ اتنا بے بس ہوجاتا تھا دماغ سن ہوجاتا اور منہ زور خواہش پیدا ہوتی تھی اسے حاصل کرنے کی۔۔ اب اس کا لمس پانے اور لبوں سے آشنا ہونے کے بعد بدن اور بھی چٹخ رہا تھا۔۔
⁦+-------------------------+
رات کا تاریک غلاف ہر سو پھیل رہا تھا اندھیرا چھایا تو گھروں میں برقی روشنیاں جل اٹھیں۔۔
رفعت کچن میں رات کے برتن صاف کر رہی تھی سب برتنوں کو صاف کر کے وہ شیلف میں ترتیب سے رکھ رہی تھی دپٹا گلے میں الجھا کمر پہ جھول رہا تھا اور چھوٹی سے خوبصورت ناک پہ پسینے کی چند بوندیں ابھر آئی تھیں۔
امی دوا کھا کے لیٹ گئی تھیں اور ندا اپنے کمرے میں کالج کا ہوم ورک کر رہی تھی وہ بھی کام نمٹا کر اپنے کمرے میں آگئی۔
کپڑے بدل کر اس نے ڈھیلا ڈھالا سا نائٹ سوٹ پہنا اور دروازہ بند کر کے بستر پر دراز ہو گئی۔
کئی دن ہوگئے تھے سلیمان نے کال نہیں کی تھی وہ جیسے بیگانہ سا ہوگیا تھا رفعت نے فون نکال کر ہاتھ میں لیا دل کیا اسے کال کرلے مگر دوسری ہی لمحے ارادہ ملتوی کردیا۔
رات کے اس وقت وہ اس کی جلی کٹی نہیں سننا چاہتی تھی وہ بنا لحاظ کئے کچھ بھی بولتا تھا اور پھر وہ پہروں مضمحل رہتی تھی فون سائیڈ پہ رکھ کے اس نے کروٹ بدلی۔۔
معاً ریحان خیالوں میں در آیا رفعت کو اپنے بدن پہ چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
وہ آج گئی تھی ان کے گھر اور آنٹی نہیں تھیں وہ اکیلا تھا پھر جو ہوا اسے سوچ کے اس کی سانس چڑھ گئی۔
وہ اسے روم میں لے جا کے اوپر لیٹا تھا وہ بے قرار ہوئی تکیہ سینے سے لگایا۔
نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔
+--------------------+
جاری ہے...
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
سہہ پہر ہونے لگی تھی آج مطلع ابر آلود تھا نیلگوں آسمان پہ بادل روئی کے سفید گالوں کی طرح تیر رہے تھے اور روشنی کی راہ میں حائل تھے ماحول میں عجیب سی خوشگواریت رچی ہوئی تھی۔
ریحان اپنے بستر پہ لیٹا ہوا کچھ سوچ رہا تھا آنکھوں میں نیند بھری ہوئی تھی یونیورسٹی سے آنے کے بعد سو گیا تھا تو اب آنکھ کھلی تھی۔
چند لمحے وہ یوں ہی لیٹا چھت کو تکتا رہا پھر اٹھ بیٹھا اور واشروم کی طرف بڑھا جسم پہ کسلمندی سی چھائی تھی نیند کا خمار تھا شاید۔۔
واشروم میں آ کر اس نے کپڑے جسم سے الگ کئے اور شاور کھول کر کھڑا ہوگیا۔
پانی کی پھوار اس کے سر سے ہوتے ہوئے پیروں تک رسائی حاصل کرنے لگی بدن میں خوشگوار سا احساس جاگا سستی کے بادل چھٹنے لگے۔
اس نے آنکھیں کھول کے سامنے لگے قد آدم شیشے میں خود کو دیکھا اس کا مضبوط جسم نظر آرہا تھا وہ پچیس چھبیس سال کی مضبوط قد کاٹھ کا نوجوان تھا سینہ چوڑا اور ہلکے بال لئے ہوئے تھے باقی جسم سانچے میں ڈھلا ہوا اور بازوؤں کے پٹھے بے حد سخت تھے وہ ایک بھرپور نوجوان تھا جس کے سراپے سے بانکپن اور مردانہ وجاہت جھلکتی تھی۔
شاور لے کر اس نے ہینگر میں ٹنگے کپڑے زیب تن کئے اور باہر آگیا۔
شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر بال بناتے ہوئے اس کے دل میں عجیب بے چینی سی تھی اسے رفعت کو دیکھے کئی دن ہو گئے تھے وہ تواتر سے چھت پہ جاتا رہتا تھا مگر وہ نظر نہیں آئی تھی اس کے سامنے آنے سے کترا رہی تھی یا کیا وجہ تھی ریحان نے سوچا آج وہ اس کے گھر جانا چاہتا تھا جسم میں لگی دھیمی سی سلگتی ہوئی آگ اسے رفعت کی طرف دھکیل رہی تھی اس کے ساتھ گزارا ہوا وقت ذہن سے محو نہیں ہو رہا تھا وہ جوانی کا چھلکتا ہوا جام تھی وہ اس جام کو گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اتارنا چایتا تھا۔
+---------------------+
رفعت چند جوڑے کپڑے دھونے کے بعد ابھی فارغ ہوئی تھی اور ڈرائینگ روم میں صوفے پہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کوئی ڈانسنگ کا شو آرہا تھا۔
ندا کالج گئی ہوئی تھی اور امی اندر اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں کہ ڈور بیل کی آواز آئی۔
رفعت نے ریموٹ صوفے پہ رکھا پھر چپل پیروں میں پہنتی دوپٹہ سنبھالتی باہر کی طرف آئی۔
اس نے بلیک شرٹ اور چست سا وائٹ پاجامہ پہن رکھا تھا اس لباس نے اس کے ترشے ہوئے متناسب جسم کو بہت خوبی سے سمیٹ رکھا تھا سہج سہج کر چلتی ہوئی بے حد دلفریب لگ رہی تھی۔
دروازے کے قریب آ کے وہ رکی پھر دروازہ کھول کر ہلکی سے جھری سے باہر جھانکا ریحان باہر کھڑا تھا دل کی دھڑکنیں نا جانے کیوں بے ترتیب ہوگئیں۔
ہیلو رفعت۔۔۔ کیسی ہو؟ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا
ٹھیک ہوں تم کیسے ہو؟ وہ اس کی گہری نظروں کو خود پہ محسوس کرتے ہوئے بولی اس دن جو ہوا تھا اس کے قریب ایک ہفتہ بعد وہ اسے دیکھ رہی تھی ان چند دنوں میں وہ ان کے گھر نہیں گئی تھی اپنی خواہش پہ ضبط کا سل رکھ آئی تھی مگر وہ آج پھر دروازے پہ تھا اس کا دل بے طرح دھڑکنے لگا۔
ٹھیک ہوں۔۔۔ سوچا تم لوگوں کا پتہ کر آؤں اگر کوئی کام ہو تو کردوں۔۔۔ آنٹی کہاں ہیں؟ اس نے آنٹی کا پوچھا تھا مگر نگاہیں اب بھی رفعت پہ تھی۔
اندر ہیں آجاؤ۔۔۔ وہ بولی پھر راستہ چھوڑدیا وہ اس کے قریب سے ہوتا ہوا اندر آیا تھا رفعت نے دروازہ بند کیا پھر مڑ کر اس کے پیچھے اندر کی طرف آئی۔
امی ڈرائینگ روم میں کھڑی تھیں شاید ڈوربیل کی آواز سن کر کمرے سے باہر آئی تھیں ریحان کو دیکھ کر خوشدلی سے مسکرا دیں۔۔
آجاؤ بیٹا۔۔۔ بڑے دنوں بعد آئے ہو بھول گئے تھے کیا یہاں آنا۔۔۔ وہ بولیں۔
نہیں آنٹی بس موقع نہیں ملا آج دل کیا کہ دیکھ آؤں آپ لوگوں کو اور اگر کوئی چھوٹا موٹا کام ہو تو کر آؤں۔۔۔ وہ بول رہا تھا رفعت اس کے عقب میں کھڑی انگلیاں مروڑ رہی تھی جانتی تھی وہ اسے دیکھنے آیا ہے چند لمحے وہ یوں ہی کھڑی رہی پھر اپنے کمرے کی طرف آئی امی اور ریحان وہیں بیٹھ کے باتیں کرنے لگے تھے۔
اندر آکے وہ بستر پہ چت لیٹ گئی جسم میں اک بھونچال سا برپا تھا دل تھا کہ سر کشی پہ آمادہ تھا ہونٹ جیسے آگ پہ تپ رہے تھے وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کیفیت کیوں ہے۔
رفعت۔۔۔ بیٹا کہاں چلی گئی باہر سے امی نے اسے آواز دی تھی۔
وہ بیڈ سے اتر کر باہر آئی وہ دونوں ڈرائینگ روم میں ساتھ بیٹھے تھے ریحان نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا تھا۔
بیٹا وہ جو برتن ہم نے اس دن نکالے تھے وہ اوپر شیلف میں رکھ دو ریحان تمھاری مدد کر دیگا اور چند صوفے ہیں انھیں بھی ترتیب سے کردو اس کے ساتھ مل کے آج بچہ آیا ہے تو یہ کام کردو۔۔۔ امی بولی تھیں رفعت سر ہلا کر رہ گئی۔
ندا کی منگنی میں انھوں نے بڑے ڈنر سیٹ کے برتن استعمال کئے تھے جو کچن کی اوپری شیلف میں پڑا رہتا تھا اور ایک آدھ بار ہی استعمال ہوا تھا اسے نکالا بھی ریحان نے تھا۔
اب وہ کئی دن سے نیچے پڑا تھا رفعت کرسی کے اوپر کھڑی ہو کر بھی اسے نہیں رکھ پائی تھی امی اسی کو اوپر رکھنے کا کہہ رہی تھیں۔
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کچن میں آئی ریحان ساتھ تھا امی بھی پیچھے چلی آئی تھیں اور انھیں ہدایات دے رہی تھیں۔
وہ ایک کرسی ٹکا کر اس پہ کھڑا ہو گیا اور شیشے کے سلائیڈنگ دروازے والا شیلف کھول دیا رفعت احتیاط سے اسے برتن پکڑانے لگی جنھیں وہ شیلف میں رکھنے لگا۔۔۔ کئی طرح کے ڈونگے پلیٹیں اور کراکری تھی جو وہ دونوں اوپر رکھ رہے تھے امی چند لمحے وہاں رہیں پھر اندر اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔
رفعت کچن کاؤنٹر کے قریب کھڑی کئی پلیٹیں اوپر تلے رکھ کر اسے پکڑانے لگی جنھیں تھامتے وقت ریحان کے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے مس ہوئے تھے رفعت کی ریڑھ کی ہڈی میں پھریری سی دوڑ گئی شاید وہ جان بوجھ کے اپنا لمس اسے منتقل کر رہا تھا جیسے اسے چند دن پہلے کی یاد دلا رہا ہو۔
وہ خاموشی سے اسے برتن پکڑائے گئی ہر بار اس کا ہاتھ رفعت کے ہاتھ پہ پڑجاتا اور اس کی دھڑکن بے ربط ہونے لگتی رنگت سرخ پڑنے لگی تھی اندر سلگتے الاؤ کی تمازت سے خوبصورت چہرہ آنچ دینے لگا۔
برتن ختم ہوئے تو وہ نیچے اتر آیا۔۔۔ اور کوئی کام ہے؟ گمبھیر آواز میں اس سے پوچھا تھا رفعت نے اثبات میں سر ہلایا پھر کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔
وہ نیوی بلیو جینز اور بلیک ٹی شرٹ میں تھا اس کے مضبوط بازو شرٹ سے عیاں ہو رہے تھے وہ باقی دنوں سے زیادہ سمارٹ لگ رہا تھا رفعت ہونٹ چبا کر رہ گئی نا جانے کیا ہو رہا تھا عجیب سا احساس تھا جو اس کے دل کو بھینچ رہا تھا۔
کیا کام ہے؟ وہ بغور اسے دیکھ کے بولا امی کمرے میں چلی گئی تھیں دونوں کچن میں تنہا رہ گئے تھے۔
ڈرائینگ روم سے چند صوفے لے جانے ہیں بیڈروم۔۔۔ آہستہ سے بولی
چلو۔۔۔ اس نے رفعت کو کندھے پہ ٹہوکا دیا آنکھوں میں خمار اتر آیا تھا وہ اس کے آگے آگے چل دی۔
ڈرائینگ روم میں کئی چھوٹے چھوٹے صوفے تھے جو عام طور پہ بیڈروم میں پڑے رہتے تھے مگر منگنی کی تقریب کے لئے وہ لوگ انھیں ڈرائینگ روم لے آئے تھے دونوں انھیں اندر لے جانے لگے۔
آخری صوفہ بیڈروم میں رکھ کے ریحان نے کمرے کا جائزہ لیا۔۔۔ یہ تمھارا بیڈروم ہے؟ اس نے پوچھا رفعت سر ہلا گئی۔
وہ آہستہ سے اس کے بیڈ پہ بیٹھ گیا رفعت سامنے ہی کچھ دور کھڑی تھی۔
یہاں آؤ۔۔۔ وہ بولا
کک۔۔ کیوں؟ اس کا دل بے طرح دھڑکنے لگا تھا۔
کچھ بات کرنی ہے یہاں آؤ۔۔۔ وہ اسے بیڈ پہ بلا رہا تھا رفعت رفعت ساکت کھڑی رہی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگنے لگی تھیں یوں لگ رہا تھا اگر وہ پاس آیا تو سانس رک جائیگی۔
وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اٹھا اور اس کے قریب ہوگیا کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا امی شاید دوسرے کمرے میں سو گئی تھیں ان کی آواز نہیں آرہی تھی۔
اس نے آہستہ سے رفعت کے لرزتے ہاتھوں کو پکڑا وہ طوفان کی زد میں آئی شاخ کی طرح کانپ رہے تھی پھر اس کے ہاتھ نرمی سے اس کے بازوؤں پر سے ہوتے ہوئے کندھوں تک سفر کرنے لگے رفعت کا حلق خشک ہونے لگا۔
بہت دن ہوئے تمھیں دیکھے ہوئے۔۔ ریحان کی آواز بھاری ہونے لگی تھی وہ بہت پاس تھی صحت مند چھاتیاں لباس سے ابل رہی تھیں ہر سانس کے ساتھ دہل رہی تھیں ریحان نے اپنا ہاتھ اس کے دھڑکتے دل پہ رکھا اس کا نرم و گداز دل دھڑک رہا تھا وہ پورے جان سے لرز رہی تھی۔
وہ جھکا پھر دونوں ہاتھ اس کے نرم کولہوں تلے رکھ کر اسے گود میں اٹھا لیا اس کا کانپتا وجود بانہوں میں سمٹ آیا تھا ریحان کا چہرہ اس کے جوان سینے میں دھنس گیا اس کے بدن کی مہک اس کے سینے میں اترنے لگی حواس صلب ہونے لگے۔
ریحان نہیں۔۔۔ وہ ہکلائی سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی تھی جسم اکڑ رہا تھا تڑخ رہا تھا۔
وہ سن نہیں رہا تھا اس کی تنی ہوئی گداز چھاتیوں میں منہ چھپائے اس کی ٹانگوں کے گرد بازو لپیٹے اسے خود میں بھینچے چلا جا رہا تھا جیسے آج اس کے جوان جسم کو اپنے اندر تحلیل کرنا چاہتا ہو۔۔
اس کے ہاتھوں کی من مانیوں سے رفعت کو سانس لینا محال ہونے لگا آنکھیں بند ہوئیں جسم کا رواں رواں جیسے آگ میں دہکنے لگا وہ اس کی طلبگار ہو گئی۔
آہ۔۔۔ ہونٹوں سے دھیمی سسکیاں نکلنے لگیں۔
ریحان نے اسے اسی کے بیڈ پہ گرایا پھر کمر کو جکڑ کر گداز ہونٹوں پہ اپنے لب رکھ کر اس کی بہکتی سانسوں کو اپنے اندر اتارنے لگا۔
اس کا موم سے ڈھلا جسم اس کی گرفت میں مچل رہا تھا۔
اسے قدرت نے فرصت سے تخلیق کیا تھا سینے پہ جوانی کے آثار بڑے موزوں تھے اور کمر کی لچک کی قسم کھائی جاسکتی تھی رسیلے ہونٹوں سے جیسے شہد ٹپکتا تھا۔
ریحان کے ہاتھ فرصت سے اس کے بدن کو دریافت کر رہے تھے جیسے کوئی خوبصورت وادی ہو جہاں سیاح نکل آیا ہو اور ہر منظر کو دل میں اتار کے امر کر رہا ہو۔
وہ اس کے لرزتے ہونٹوں کو جکڑے ہوئے تھا رفعت کی دھیمی کراہیں اس کے جسم میں دوڑتے خون کی گردش بڑھا رہی تھیں وہ اس کی قمیض کو اوپر کرنے لگا۔
اس لمحے دوسرے کمرے میں امی کھنکاریں رفعت کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا۔
ریحان نہیں۔۔۔ وہ مچل گئی اس کے ہاتھ جہاں الجھے تھے وہاں سے ہٹانے چاہے مگر وہ مدہوش ہو رہا تھا آہستہ سے اپنا ہاتھ رفعت کی قمیض تلے سرکا دیا رفعت کی جان پر بن آئی دروازہ کھلا تھا اور دوسرے کمرے میں اس کی ساس شاید جاگ رہی تھی۔
اس کا ہاتھ قمیض تلے رفعت کے مرمریں آنچ دیتے بدن پہ رینگ رہا تھا وہاں ایک نئی دنیا آباد تھی جس سے وہ شناسا ہو رہا تھا اس کی خوبصورتی لباس میں ڈھکی ہوئی تھی اس نے لباس تلے رسائی حاصل کر لی تھی اس کے ہاتھ اس حسن کی مورت کے نشیب و فراز میں الجھ رہے تھے ہونٹ اس کے دہکتے لبوں سے جدا نہیں ہونا چاہتے تھے۔
رفعت۔۔۔رفعت بیٹا۔۔ امی کی آواز آئی تھی کسی کی کال آ رہی ہے۔۔۔ وہ بولیں رفعت تڑپ کر ریحان سے جدا ہوئی تھی وہ بھی جیسے ہوش میں آیا۔
پھر بیڈ سے اتر کر کھڑی ہوئی اور قمیص ٹھیک کرنے لگی سانس سینے میں نہیں سما رہی تھی پھر اسے دیکھا جو اسی کے بیڈ پہ کہنی ٹکائے لیٹا سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
تم جاؤ پلیز امی بلا رہی ہیں مجھے۔۔۔ وہ بمشکل بولی ابھی تک سنبھل نا پائی تھی ریحان اسے تشنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا دل چاہ رہا تھا پھر سے اسے گرا کے گتھم گتھا ہوجائے بدن جیسے سلگ رہا تھا۔
وہ لباس ٹھیک کرکے چند گہری سانسیں لے کر باہر نکلی تو ریحان بھی اٹھ کر باہر آگیا اس کے گدرائے بدن کی خوشبو اب تک اس سے لپٹی ہوئی تھی وہ اب بھی چند لمحے پہلے کی سی کیفیت میں تھا۔
رفعت نے کال اٹینڈ کر کے فون امی کو تھما دیا تھا سلیمان کی کال تھی وہ دونوں بات کر رہے تھے۔
ندا کے سسرال والے اگلے مہینے شادی کے لئے ہاتھ مانگ رہے تھے۔
سلیمان بہن کی شادی کے لئے واپس پاکستان آرہا تھا۔
رفعت نے کمرے کے باہر سے دونوں کی بات سن لی وہ عجیب سی کیفیت میں گھر گئی سلیمان واپس آرہا تھا
⁦+---------------------+
جاری ہے۔۔۔
 

Top