Romance دوریاں (Completed)

Newbie
10
7
3
رفعت آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتی چھت پہ آئی اس کی صبح آج بھی معمول کے مطابق ہوئی تھی۔۔۔ جاگتے ہی وہ کاموں میں جت گئی نند کے ساتھ مل کے ناشتہ بنایا پھر صفائی شروع کردی شادی کے بعد تقریباً یہی روٹین بن گئی تھی۔
اس نے کل شام کو کچھ کپڑے دھو کے تار پہ ڈالے تھے جنہیں اتارنا بھول گئی تھی۔۔۔چھت پہ آ کے اس نے تار پہ لٹکتے کپڑوں کو چھوا اور دل مسوس کر رہ گئی رات بھر اوس برستی رہی تھی کپڑے پھر سے نم ہو گئے تھے آج دن کو ان کا یوں ہی تار پہ رہنا ضروری تھا تاکہ خشک ہو جاتے۔
وہ کپڑوں کو الٹنے پلٹنے میں مصروف تھی کہ ساتھ والی چھت سے سیٹی کی ہلکی آواز آئی رفعت چونکی پھر اس طرف دیکھا تو ریحان کھڑا تھا۔۔۔ شرٹ کے کئی بٹن کھلے ہوئے تھے اور بال الجھے ہوئے تھے شاید ابھی ابھی جاگا تھا۔
یہ درمیانے درجے کی کالونی تھی زیادہ تر گھر دو منزلہ اور ایک ہی انداز میں بنے ہوئے تھے چھتوں کے درمیان زیادہ فاصلے نہیں تھے۔
کیا چھچوری حرکتیں کرتے ہو تم ریحان۔۔۔ منہ بنا کے بولی وہ دیوار پہ کہنیاں ٹکا کے اسے دیکھنے لگا۔
کیا کیا ہے میں نے؟ وہ پوچھنے لگا۔۔۔۔ رفعت نے ایک نظر اس کے حلیے پہ ڈالی وہ اونچی قد اور مضبوط جسامت کا خوش شکل نوجوان تھا۔
یہ سیٹی جو بجائی تم نے۔۔۔ وہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔۔ تمھاری امی کہاں ہیں؟ پھر اس سے پوچھا تھا۔
ماموں کے گھر گئی ہیں۔۔۔کیوں؟۔۔۔ وہ بولا۔
مجھے کچھ کام تھا ان سے۔۔۔
بھابی نیچے آجائیں۔۔۔۔ اس کی نند ندا کی آواز آئی تو وہ چونکی پھر ایک نظر اس پہ ڈالی اور نیچے کی طرف بڑھ گئی۔
ریحان اسے نیچے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔۔ پھر لمبی سانس لی۔۔۔ صبح صبح اتنی خوبصورت لڑکی کو دیکھنے کے بعد دن بہت اچھا گزرنے والا تھا۔
جب سے وہ بیاہ کے آئی تھی محلے میں اس کے چرچے ہوئے تھے بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی سرخ و سفید شہابی رنگت میانہ قد اور تیکھا ناک نقشہ۔۔۔متناسب بدن سانچے میں ڈھلا ہوا تھا اور سینے کی اٹھان ہر ایک کا دل دہلاتی تھی بھورے بالوں کی آبشار شور مچاتی کمر پہ گرتی تھی۔
وہ چند ان لڑکیوں میں آتی تھی جنھیں دیکھ کے دیکھتے رہنے کو دل کرتا ہے نگاہ ان کے جوبن پہ ٹھہر جاتی تھی شادی کے بعد بھی اس کی حسن کی شادابی پہ فرق نہیں پڑا تھا بلکہ چہرا بھرا بھرا سا مزید ترو تازہ ہو گیا تھا پہلے بہت دبلی پتلی تھی اب ذرا سی صحتمند ہوگئی تھی جسم پہ بوٹی چڑھ گئی تھی مگر بدن کا توازن برقرار تھا۔۔۔ ریحان کو وہ ہمیشہ بہت پر کشش لگتی تھی۔
⁦++++++++++
رفعت نیچے آئی تو ندا مزید پھیلاوا پھیلانے کے موڈ میں تھی شیلف سے کئی برتن نکال کے کاؤنٹر پر ڈھیر کر رہی تھی جنھیں دھو کے واپس شیلف میں رکھنا تھا۔
کہاں گئی تھیں بھابی۔۔۔ ندا پوچھنے لگی رفعت نے منہ بنایا۔
اوپر گئی تھی تار سے کپڑے اتارنے۔۔ مگر ابھی تک گیلے ہیں۔۔۔ اماں کہاں ہیں؟ اس نے پوچھا۔۔
کمرے میں ہیں لیٹی ہوئی ہیں۔۔۔ ندا بولی رفعت نے سر ہلایا تھا۔
آج اتوار تھا ندا گھر میں ہی تھی۔۔۔ اور اماں کمرے میں۔
اس گھر میں کل یہی تین ہی تو نفوس تھے۔۔
اس کے شوہر سلیمان کو مسقط گئے سال ہونے کو تھا وہ شادی کے ایک مہینہ بعد ہی مسقط چلا گیا تھا جہاں اس کی بہت اچھی جاب تھی۔
وہ سر جھٹک کر کام کرنے لگی۔
⁦+----------------------+
سارے کام نمٹا کر وہ کمرے میں آ لیٹی اور فون نکالا واٹس ایپ دیکھا تو سلیمان آن لائن تھا مسقط میں شاید ابھی صبح ہوئی ہوگی وہ مسکرائی پھر اسے کال ملا کے کروٹ بدل گئی۔
فون کی گھنٹی بجی تھی۔۔۔ پر سلیمان نے کال اٹینڈ نہیں کی۔۔۔۔ گھنٹی بجتی رہی پھر جب رفعت مایوس ہونے لگی تب اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔
ہیلو کیا بات ہے؟ کوئی سلام دعا کئے بغیر سلیمان بولا تھا یوں جیسے اس کا فون کرنا ناگوار گزرا ہو رفعت چپ سی ہوئی۔
کیسے ہیں سلیمان موسم کیسا ہے۔۔۔؟
تم نے یہ بات پوچھنے کے لئے فون کیا ہے؟۔۔۔۔وہ اس پہ بگڑا رفعت خفیف سی ہوئی۔
ہاں میں نے سوچا بات کر لوں آپ سے۔۔۔۔ کمزور سے لہجے میں بولی وہ مزید بپھر گیا تھا۔
تمھیں اور کوئی کام نہیں ہے۔۔۔ فارغ پڑی رہتی ہو اور منہ اٹھا کے کال کر لیتی ہو۔۔۔ پتہ بھی میں یہاں کام کر رہا ہوتا ہوں فارغ نہیں بیٹھا رہتا جس تمھاری فضول باتیں سنو۔۔۔ وہ دھاڑا تھا رفعت پانی پانی ہوئی۔
میرا دل کر رہا تھا بات کرنے کو اس لئے کال کر لی۔۔۔ آنکھوں میں بے مائیگی کے احساس سے آنسو تیرنے لگے تھے وہ پہلے تو ایسا نہیں تھا۔
تم گھر کے کوئی کام کر لو یہاں کے موسموں کے بارے میں جاننا چھوڑ دو۔۔۔ وہ غرایا تھا پھر فون بند کر دیا رفعت دل مسوس کر رہ گئی۔
وہ پہلے ایسا نہیں تھا۔۔۔
شادی کے مہینہ بعد اسے باہر جانا پڑ گیا تھا تو روز کال کرتا تھا وہ گھنٹوں باتیں کرتے تھے یہاں وہاں کی الٹی سیدھی باتیں۔۔۔
لیکن پھر چیزیں بدلنے لگیں اس کی کالز کم سے کم تر ہونے لگیں وہ دوسرے تیسرے دن یا پھر ہفتے میں کال کرنے لگا وہ بات کرنے کو ترس جاتی مگر اس نے کال کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔
پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ وہ ہفتہ بھر کال نہیں کرتا تھی رفعت مس کرتی تھی تو کال کرلیتی جو پانچ منٹ سے زیادہ کی نہیں ہوتی تھی جس میں اسے وہ باتیں سنا کے ذلیل کر دیتا تھا اس کی عزت دو کوڑی کی کرکے جیسے اسے سکون ملتا تھا۔
جیسے اب ہوا تھا وہ بے چین سی لیٹی رہی آنکھوں مین امڈ آنے والے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتی رہی دل بہت بیزار تھا۔
+--------------------+
ریحان اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ میں کام کر رہا تھا یونیورسٹی کی طرف سے پراجیکٹ ملا تھا جس پہ وہ پچھلے کچھ دیر سے لگا ہوا تھا گھر میں کوئی نہیں تھا امی نانی کی طرف گئی ہوئی تھیں ابو تو دو ہفتوں سے کراچی میں تھے بہنوں کی شادی کے بعد اتنے ہی لوگ رہ گئے تھے گھر میں۔
گیٹ پہ گھنٹی کی آواز سے اس کا انہماک ٹوٹا لیپ ٹاپ یوں ہی چھوڑ کر وہ دروازہ کھول کر باہر آیا اور دروازے کی طرف بڑھا۔
دروازہ کھولنے پہ اسے حیرت آمیز خوشی کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔ سامنے رفعت کھڑی تھی سیاہ رنگ کی گوٹے والی شال اوڑھے جس میں اس کا سرخ و سفید چہرہ دمک رہا تھا ستواں ناک چہرے کی دلکشی بڑھا رہی تھی ترشے ہوئے ہونٹ بے حد خوبصورت لگ رہے تھے گورے ہاتھوں میں ایک پیکٹ دبا ہوا تھا۔
تمھاری امی آئیں کہ نہیں؟ رفعت اس کے نظریں خود پہ پاکے ذرا سی پزل ہوئی جلدی سے پوچھا۔
نہیں وہ تو نہیں آئیں۔۔۔ریحان بولا پھر اسے بغور دیکھا وہ شال سختی سے لپیٹے ہوئے تھی مگر شال کے نیچے سے اس کی جوانی اپنی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی بھرپور جوان سینہ ابھرا ہوا تھا مگر شال کی وجہ سے واضح نہ تھا ریحان کی دھڑکن ایک لمحے کے لئے تیز ہوئی۔
یہ میں کچھ کپڑے لائی ہوں ان پہ بارڈر لگانی ہے۔۔۔ رفعت بولی اس کی نظروں کو وہ محسوس کر گئی تھی۔
یہ اپنی امی کو دے دینا۔۔۔ وہ جلدی سے بولی پھر اسے دیکھا جو اونچے لمبے قد سے سامنے کھڑا تھا پھر پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا جسے ریحان نے تھاما تھا۔
پیکٹ لیتے وقت اس کی انگلیاں رفعت کے ہاتھ سے مس ہوئیں رفعت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کیا تھا۔
اندر آؤ نا۔۔۔ وہ بولا۔۔۔ شاید امی ابھی آجائیں۔۔ وہ رفعت کے تروتازہ چہرے کو نظروں میں سمونے لگا وہ گھبرا گئی ۔
نہیں۔۔۔ جب وہ آجائینگی تو آؤنگی کپڑے لینے ابھی چلتی ہوں۔۔۔ وہ کپڑے اسے پکڑا کےبولی پھر جلدی سے واپس مڑ گئی۔
اور اپنے گھر کی طرف آئی شام کو آنا تھا کپڑے لینے تب تک اس کی امی بھی آجاتی۔
ریحان اس کی چال کو عقب سے دیکھتا رہا وہ بہت متوازن چال چل رہی تھی شال کمر تک آرہی تھی اس سے نیچے کا بدن اپنی تمام تر شادابی لباس سے چھلکا رہا تھا وہ بہت پتلی نہیں تھی بے حد متوازن تھی شاید فرصت میں بنایا گیا تھا لمبا قد اور مڑی ہوئی کمر تلے صحت مند کولہے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ تھرک رہے تھے ریحان نظریں نہیں ہٹا سکا جب وہ اندر چلی گئی تو اس نے بھی گہری سانس لے کر دروازہ بند کر دیا اس حسن میں حصہ دار بننے کی تمنا دل میں پنپنے لگی تھی۔
+--------------------+
رفعت گھر واپس آکے کاموں میں مشغول ہو گئی لنچ بھی بنانا تھااور صبح کے کچھ برتن بھی تھے۔۔۔ پھر اسے تار پہ ٹنگے کپڑے یاد آئے تو وہ چونکی اور سیڑھیاں چڑھتی اوپر آگئی۔
دھوپ لگنے سے کپڑے خشک ہو گئے تھے انھیں ایک ایک کر اتار کے بازو پہ ڈالنے لگی نظریں ایک لمحے کے لئے ریحان کے گھر کی طرف گئی تھیں وہ نظر نہیں آیا مگر اس کی نگاہوں کی تپش یاد آئی۔
وہ رک سی گئی سلیمان کو بہت مس کرتی تھی مگر اس کا رویہ تحقیر آمیز تھا۔۔
اس کا دل کیا سلیمان کو پھر کال کرے مگر وہ پھر سے بے عزت کر کے رکھ دیتا اس کا دل کھٹا ہونے لگا۔
نیچے آکر وہ بے دلی سے کھانا بنانے لگی شادی کے بعد مرد کا ساتھ ہر عورت کا حق ہے جو اسے بھرپور طریقے سے ملنا چاہئیے مگر وہ ڈھنگ سے بات کرنے کا روادار بھی نا تھا رفعت کے ہاتھ سے ایک کپ گر کے ٹوٹ گیا وہ جھنجلا سی گئی۔
ریحان ایک بار پھر سوچوں میں در آیا وہ چھبیس کی تھی ریحان شاید چوبیس کا ہوگا وہ اس کے بارے میں سوچنے لگی پھر خود ہی شرمندہ ہوگئی ایسا سوچنا ہی کیوں اس نے خود کو کوسا۔۔
مگر وہ خود کو سوچنے سے روک نہیں پا رہی تھی شوہر کی بے پرواہی نے اسے نفسیاتی الجھن کا شکار کر دیا تھا بدن میں اینٹھن سی ہو رہی تھی ریحان کئی بار ان کے بھی کئی کام کر دیا کرتا تھا بازار سے کچھ منگوانا ہوتا تو وہ اسے بول دیتی تھیں۔
ندا بھی آکر اس کا ہاتھ بٹانے لگی وہ کالج میں پڑھتی تھی رفعت اس پہ کام کا زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی تھی۔۔۔ ویسے بھی اگلے ہفتے اس کی منگنی تھی اس لئے وہ اسے کام سے معاف ہی کرتی تھی۔۔وہ کام چور نہیں تھی اسے گھر کے کاموں سے جی چرانا پسند نہیں تھا مگر سلیمان کا خیال تھا کہ وہ سوئی رہتی ہے اور وقت بے وقت اسے کالیں کرتی ہے۔
+---------------------+
ریحان سہہ پہر کو سو گیا تھا۔۔۔ آنکھ کھلی تو باہر سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔۔۔ وہ کسلمندی سے اٹھا اور دروازہ کھول کر ہلکی سی جھری بنائی اور باہر جھانکا۔۔۔ رفعت اماں کی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی دونوں نا جانے کیا باتیں کر رہی تھیں وہ واپس بیڈ پہ لیٹ گیا اور موبائل میں میسجز دیکھنے لگا۔
ریحان سو رہا ہے اٹھ جائے تو میں اسے کہتی ہوں ایسی لیس لے آئیگا یا پھر تم خود اس کے ساتھ چلی جانا۔۔۔ وہ بولیں رفعت تذبذب میں پڑ گئی۔
وہ تھوڑی دیر پہلے ان کے گھر آئی تھی ریحان کی امی آ چکی تھیں رفعت کو اپنا ڈریس تیار چاہئیے تھا اگلے ہفتے ندا کی منگنی تھی باقی سارے ڈریس تیار ہو گئے تھے مگر ایک رہتا تھا جس پہ بارڈر لگوانی تھی جس کے لئے وہ یہاں آئی تھی آنٹی یہ کام اچھے سے کرتی تھیں مگر ان کے پاس بارڈر ختم ہو گئی تھی۔
ریحان کب اٹھیگا آنٹی؟ وہ پوچھنے لگی شام ہونے لگی تھی پھر دیر ہو جاتی جانے میں ابھی جانے کا وقت تھا۔
اٹھ جائیںگا بیٹا۔۔۔ آنٹی جو باہر جانے لگی تھیں رکیں۔۔ یا تم خود ہی اسے جگا دو تمھارا اپنا گھر ہے۔۔ وہ بولیں پھر باہر نکل گئیں رفعت متذبذب سی بیٹھی رہی پھر ہمت کر کے اٹھی اور اس کے کمرے کی طرف آئی۔
دروازے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالا تو وہ کھل گیا اسے لگا دروازہ بند ہوگا وہ اپنے بیڈ پہ سیدھا لیٹا ہوا جاگ رہا تھا اسے دیکھ کے بیٹھ گیا رفعت جھجکی۔
کیا بات ہے؟ رفعت کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جو دروازہ کھول کے وہیں کھڑی رہ گئی تھی جیسے قدم اٹھانا بھول گئی ہو۔۔
بولو نا کیا بات ہے؟ ریحان نے اسے گہری نظروں سے دیکھا وہ اس وقت شلوار قمیض میں تھی لائٹ بلیو کلر کی عمدہ پرنٹ والی قمیض اور کھلی سی سیاہ شلوار پہنے ہوئے تھی جس کے پائینچے قدرے تنگ تھے سادہ سی لباس میں بھی بھلی لگ رہی تھی موزوں سی دلفریب چھاتیاں سینے پہ آرام کر رہی تھیں اور پیٹ ہمیشہ کی طرح ہموار تھا ریحان نے نظریں چرا کے اس کی آنکھوں میں جھانکا اس سے زیادہ بھرپور جوانی کم ہی لڑکیوں کے نصیب میں ہوتی ہے جو چھپائے نا چھپے۔
ایسی لڑکیاں چاہے جیسا بھی لباس پہن لیں ان کا بدن لباس کے نیچے سے خاموشی سے بتا دیتا ہے کہ وہ بھر پور جوان ہیں اور بے حد خوبصورت۔۔۔۔
مارکیٹ چلیں؟ رفعت بولی معلوم نہیں کیوں دل دھڑک اٹھا تھا
مارکیٹ کیوں جانا ہے؟ ریحان اس سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا وہ نسوانی حسن کا شاہکار تھی۔
وہ آنٹی کے پاس لیس ختم ہوگئی ہے تو وہ لینے جانا ہے اور میں اپنے لئے میک اپ کی کچھ آئیٹمز بھی لے لونگی۔۔۔ وہ لجاجت سے بولی اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی ریحان نے لمبی سانس لی۔
مگر جائینگے کیسے؟ بائیک پہ چل پاؤگی تم؟ وہ استفسار کرنے لگا گاڑی ابو لے گئے تھے لے دے کے بائیک ہی بچی تھی۔
رفعت نے سر ہلایا چلی جاؤنگی۔۔ نو پرابلم۔۔ یا پھر رکشہ منگوا لینا۔
اوکے لے چلونگا۔۔۔ میں منہ دھو کے کپڑے بدل لوں تم باہر بیٹھو۔۔۔ اس نے ہامی بھری پھر اٹھ کر واش روم میں چلا گیا تو رفعت باہر آگئی وہ یہاں اکثر آتی تھی گھر اس کا دیکھا بھالا تھا ان دنوں ریحان ہاسٹل میں ہوتا تھا۔
ایک بار اس کا دل کیا گھر جا کے ندا اور امی کو بتا دے کہ وہ مارکیٹ جا رہی ہے پھر ارادہ ملتوی کر دیا اس سے فرق نہیں پڑتا تھا اسے کے آنے جانے پہ روک ٹوک نہیں تھی۔
سہہ پہر ڈھل رہی تھی دھوپ میں تپش باقی نہیں رہی تھی وہ لان میں آئی تو آنٹی وہاں پودوں کو پانی دے رہی تھیں۔
جگا دیا ریحان کو؟ انھوں نے اسے باہر آتے دیکھ کے پوچھا تھا ہاتھ میں پائپ پکڑا ہوا تھا۔
جی آنٹی وہ لے کے جا رہا ہے۔۔۔ وہ بولی پھر لان میں پڑی کرسی پہ آبیٹھی۔
ریحان اندر سے بٹن بند کرتا آیا بال سلیقے سے سلجھے ہوئے تھے وہ اونچے قد کا بے حد مضبوط جسامت کا نوجوان تھا بازو لوہے کے راڈز کی طرح تھے اور کندھے چوڑے تھے رنگت قدرے صاف تھی اور نقوش تیکھے تھے مجموعی طور پر بے حد وجیہہ انسان تھا۔
چلو۔۔۔ اسے اشارہ کرتا وہ گیٹ کھولنے لگا اور بائیک سٹارٹ کر دی۔
اپنا چھوٹا سا پرس اس کے پاس تھا وہ جھجکتی ہوئی سی آکے اس کے پیچھے بیٹھ گئی وہ لڑکیوں کے انداز میں بیٹھی تھی سمٹ کے اپنی ٹانگیں ایک ہی طرف کر کے۔
کیا تم کبھی بائیک پہ نہیں بیٹھی؟ کچھ دور آنے کے بعد ریحان بولا تھا وہ چونکی۔
کیوں؟
کیونکہ تم کنارے پہ بیٹھی ہو۔۔ کسی بھی وقت گر جاؤگی۔۔۔ اپنی تشریف تھوڑی اس طرف کرلو۔۔۔ ٹھیک سے بیٹھو اور مجھے بھی پکڑ لو۔۔۔ وہ بولا رفعت شرمندہ سی ہو گئی وہ واقعی بہت سا فاصلہ رکھ کے سیٹ کے کنارے پہ بیٹھی تھی تھوڑا کھسک کر اس کی طرف ہوئی پھر ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھ دیا۔
اسے یوں چھونا جسم میں عجیب سی لہر دوڑا گیا جیسا بھی تھا وہ مرد تھا اس کے یوں ساتھ لگ کے بیٹھنا اسے بے چین کرنے لگا رفعت کو لگا اس کے کانوں کی لوئیں تپنے لگی ہیں۔
ایک جگہ ریحان نے ٹریفک میں بریک لگائی تو رفعت اس کے ساتھ آلگی اس کی نرم چھاتیوں کا احساس ریحان کو اپنی پشت پہ ہوا تھا وہ ہونٹ بھینچ کر ڈرائیونگ پہ توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرنے لگا دل بے لگام ہو رہا تھا۔
پیچھے بیٹھی رفعت کا دل بے طرح دھڑک رہا تھا کچھ منہ زور جذبے انگڑائی لے کر بیدار ہوئے تھے۔
مارکیٹ پہنچ کر ریحان نے بائیک روکی تو وہ کسمسا کے جلدی سے اتری تھی۔
+---------------------+
جاری ہے۔۔۔​
کہانی حقیقت سے قریب تر ہے ہر لفظ نپا تلا ہے اور ایسی گرفت ہے کہ کمال کر دیا جواب نہیں زبر دست
 
Newbie
10
7
3
دوپہر ہونے لگی تھی رفعت کچن میں سلاد بنانے میں مصروف تھی ساتھ ہی پلاؤ کو دم پہ رکھا ہوا تھا۔۔
آج اس نے بلیو کلر کا سادہ سا شلوار کرتا سوٹ پہن رکھا تھا دوپٹہ کندھوں پہ تھا اور بال چٹیا میں گندھے ہوئے کمر پہ جھول رہے تھے اس حلئیے میں بھی اس کا حسن کسی کو بھی مسحور کر سکتا تھا۔
سلیمان کو آئے ہوئے آج ہفتہ ہونے کو تھا اس کا روئیہ پہلے دن کی سی سردمہری لئے ہوئے تھا ضرورت کے وقت اپنے مخصوص سرد سے تحکمانہ لہجے میں بات کر لیتا تھا ورنہ وہ ساتھ رہ کے بھی لاتعلق تھے۔
بستر پہ فاصلے ہنوز قائم تھے رفعت نے لاشعوری طور پہ کوشش کی تھی ان فاصلوں کو پاٹنے کی مگر اس کا لیا دیا انداز دیکھ کر اپنے خول میں سمٹ آئی تھی۔
کئی راتیں مسلسل وہ اسے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی تھی کئی بار اس کی طرف کروٹ لی۔۔۔ چوڑیاں کھنکائیں۔۔۔ بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ ایک تند نظر اس پہ ڈال کے سونے کی تلقین کر دیتا۔
شاید وہ اس کی کیفیت سے ناواقف نہیں تھا بس انجان تھا یا پھر یہ بھی اذیت دینے کا اک انداز تھا۔
رفعت کو اس کی آنکھیں تمسخر اڑاتی محسوس ہوتی تھیں انداز گفتگو بڑی حد تک طنزیہ ہوتا تھا وہ کچھ پوچھ بھی لیتی تو جواب طنز بھرے انداز میں ملتا کہ وہ چپ ہو کر رہ جاتی شاید باہر رہ کر وہ بڑی حد تک سنکی ہو گیا تھا اتنے عرصے بعدوہ واپس آیا تھا سب کے لئے سامان میں کچھ تحائف تھے جب کہ رفعت کے لئے فقط پرفیوم کی دو بوتلیں نکلی تھیں جن میں سے ایک آدھی استعمال شدہ تھی رفعت کو لگا شاید یہ بھی کسی اور کے لئے لی گئی ہونگی مگر مجبوری میں اسے تھما دی گئی ہیں اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا مگر اس نے اف تک نا کیا خاموشی سے سہہ گئی۔
وہ بالوں کی چند لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستی کچن سے باہر نکل کر ڈرائینگ روم میں لگے وال کلاک میں ٹائم دیکھنے آئی پھر واپس جا کر چاولوں کو دیکھنے لگی دو بجنے لگے تھے وہ آتا ہی ہوگا اس نے سر جھٹکا۔
وہ اپنے کسی جاننے والے کی طرف گیا ہوا تھا پچھلے کئی دنوں سے یہی اس کا معمول تھا صبح کا نکل کر دوپہر کو آتا یا پھر رات کو واپسی ہوتی۔
ندا کی شادی قریب تھی چند دنوں میں ہی دن رکھ لیا جاتا پھر کاموں کا بوجھ بڑھ جاتا اور بازار کے چکر الگ سے لگنے لگ جاتے اس نے ماتھے کو سہلایا اسے ہلکا سا چکر آیا تھا۔
اس لمحے ندا کچن میں آئی شاید پانی پینے آئی تھی اور اسے ڈگمگاتا ہوا دیکھ لیا وہ تیزی سے اس کی طرف آئی تھی۔
بھابی۔۔۔ کیا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ پریشان سی پوچھتی وہ اس کا بازو تھام گئی۔۔
ہاں ٹھیک ہوں۔۔۔ وہ مسکرائی مگر کمزوری سی محسوس ہوئی تھی۔
ارے آپ بالکل ٹھیک نہیں لگ رہی ہیں۔۔۔ چہرہ تو دیکھیں کتنا سرخ ہو رہا ہے۔۔۔ندا تشویش میں گھر گئی پھر اس کی کلائی پکڑی۔
رفعت کو اس لمحے کھڑا رہنا مشکل محسوس ہوا ٹانگیں بے جان سی ہوئیں۔
اففف آپ کو تو بخار ہے۔۔۔۔ ندا حیرت سے اسے دیکھنے لگی اور آپ یہاں کچن میں ہیں۔۔۔
کمرے میں جائیں میں کر لونگی چاولوں کو ہی اتارنا ہے نا؟ وہ بولی رفعت نے اثبات میں سر ہلایا
وہ نہیں جانا چاہتی تھی مگر ندا نے اسے باہر کی طرف دھکیل دیا وہ جیسے تیسے کر کے خود کو دھکیلتی بیڈ روم میں آئی۔
آنکھوں کے سامنے کئی بار اندھیرا چھایا قدم کئی بار اکھڑے یکلخت کیا ہوا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے توانائیاں یکدم صلب ہوگئی ہیں۔
اسے نہیں پتہ چلا وہ کیسے بیڈ تک پہنچی اور کیسے لیٹی ہوش سے رابطے منقطع ہو گئے تھے۔
+---------------++++
سلیمان لنچ کے وقت گھر آیا پھر اپنے روم میں داخل ہوتے وقت دروازے پہ ہی ٹھٹک کر رک گیا۔
سامنے ہی بیڈ پہ رفعت آڑھی ترچھی اوندھی لیٹی ہوئی تھی کمر کا خم نمایاں ہوگیا تھا اور سڈول ٹانگوں کی دلکشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
سلیمان کی آنکھوں میں نخوت کے سائے تیرے وہ دانت پیستا اس کی طرف آیا پھر بے دردی سے کھردرا ہاتھ اس کے بدن پہ رکھ کے اسے ہلایا جلایا۔
وہ ہنوزلیٹی رہی اس کی آنکھوں کی سرخی اور بڑھ گئی۔
رفعت کو کسی سخت تکلیف دہ لمس کا احساس ہوا تو اس کی آنکھوں میں لرزش ابھری پھر پٹ سے آنکھیں کھول دیں چند لمحے لگے اسے صورت حال سمجھنے میں۔
وہ اس کے نازک بدن کو ٹٹول رہا تھا انداز بے حد عامیانہ تھا جیسے وہ گوشت پوست کا کوئی ٹکڑا ہو جسے قصائی دیکھ بھال رہا ہو رفعت کو اس کی آنکھوں میں بہت دن بعد وہ چمک نظر آئی جو مرد کے اندرونی کشمکش کو آشکار کر دیتی ہے وہ بھی عورت تھی ان نظروں کا مطلب سمجھتی تھی۔۔۔
وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا کچھ بخار کا اثر تھا کچھ خجالت نے آن لیا تھا۔
واہ لاٹ صاحبہ کیا انداز ہیں تمھارے سونے کے۔۔۔ وہ زہر خند لہجے میں بولا رفعت کو توہین کا شدید احساس ہوا تھا سبکی کے احساس سے چہرہ سرخ تر ہوا۔
تم یہاں نیند کے مزے لوٹ رہی ہو۔۔۔ کھانا کون دیگا مجھے۔۔۔ وہ پھنکارا رفعت گڑبڑا گئی
وہ۔۔۔ کھانا بن گیا ہے آپ بیٹھیں میں دے دیتی ہوں۔۔۔ وہ دپٹا لیتی کھڑی ہوگئی تھی۔
ہاں یہ احسان کر دو مجھ پہ۔۔۔ وہ بولا تو رفعت دروازے کی طرف بڑھی
پہلے میرا ایک جوڑا استری کرو۔۔۔ تحکمانہ آواز اسے رکنے پہ مجبور کر گئی۔
وہ ایک معمول کی طرح اس کی طرف مڑی جو اپنی شرٹ نکال کر واش روم میں گھس رہا تھا۔
رفعت اس کا ایک جوڑا نکال کر استری کرنے لگی واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔
اس لمحے اسے فون کے وائبریشن کی مخصوص گھوں گھوں سنائی دی سلیمان کی شرٹ کی اوپری جیب میں پڑا موبائیل وائبریٹ کر رہا تھا۔
رفعت تذبذب کا شکار ہوگئی پھر ہمت کر کے اس کی جیب سے فون نکالا اور سکرین پہ نظر دوڑائی۔
واٹس ایپ پہ کال آرہی تھی باہر کا کوئی نمبر تھا نمبر کے ساتھ ہی لڑکی کی ایک تصویر لگی تھی۔
تصویر کچھ ایسی تھی کہ رفعت کے گال تمتما اٹھے اسے کال ریسیو کرنے کی ہمت نا ہوئی ہاتھ کانپنے لگے تھے۔
کال کٹ گئی وہ فون ہاتھ میں لئے غائب دماغ سی بیٹھی رہی۔
اس لمحے اس کے ہاتھ میں پکڑا فون پھر سے جھنجھنا اٹھا واٹس ایپ پہ کئی میسجز موصول ہوئے تھے۔
نا جانے کیوں رفعت نے وہ چاٹ کھول لی پھر آہستہ آہستہ میسجز پڑھنے لگی چہرے کی حالت متغیر ہونے لگی تھی۔
گلہ جیسے خشک ہوا آنکھیں پتھرا سی گئیں۔
چاٹ لڑکی کی تصویروں سے بھرا ہوا تھا اپنی چندھی ہوئی آنکھوں اور چپٹے ناک نقشے سے وہ لڑکی ایشیائی لگ رہی تھی کوئی بھی تصویر نارمل نہیں تھی وہ اس انداز میں لی گئی تھیں کہ اس کا انگ انگ نمایاں ہو رہا تھا کئی تصویروں میں اوپری بدن لباس کی قید سے آزاد تھا اور پردہ پوشی کے لئے ہاتھوں کا استعمال کیا گیا تھا جو کافی ہر گز نہیں تھا۔
سلیمان کے میسجز تھے جن میں وہ اس سے رقم کے بارے میں بات کر رہا تھا ان دونوں کی شاید کوئی ڈیل ہوئی تھی اور سلیمان نے اسے کوئی رقم ادا کی تھی۔
رفعت نے سنا تھا کہ خلیجی ممالک میں ایشیائی ممالک جیسے کہ فلپائن اور تھائی لینڈ وغیرہ کی بہت سی لڑکیاں ملازمت کے لئے آتی ہیں اور اگر انھیں زیادہ رقم کمانے کا کوئی ذریعہ نظر آئے تو اس کے استعمال سے بھی نہیں کتراتیں۔
وہ تلخی سے آنکھیں سکرین پہ جمائے میسجز پڑھ رہی تھی کہ باتھ روم میں گرتے پانی کی آواز تھم گئی شاید وہ باہر نکلنے کو تھا۔
اس نے فون جلدی سے رکھا پھر استری کرنے لگی صدمے کے ابتدائی اثرات سے نکل کر اس کے دل میں دبا دبا سا غصہ ابل رہا تھا ہونٹ سختی سے بھینچ گئے تھے۔
+----------+++
بیٹا آج مارکیٹ چلیں کچھ لینا ہے۔۔۔
سلیمان لنچ میں مصروف تھا کہ ماں کی آواز پہ چونک کے سر اٹھایا۔
مجھے کہیں جانا ہے پیسے دے دونگا آپ اور رفعت چلی جاؤ۔۔ بے اعتنائی سے کہہ کر دوبارہ سے پلاؤ کے پلیٹ کی طرف متوجہ ہوگیا۔
اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تم چلے جاؤ ساتھ۔۔۔ وہ ذرا ہچکچا کے بولیں سلیمان کے ماتھے پہ کئی بل پڑے تھے۔
کیوں کیا ہوا اسے؟ ناک سکوڑ کے انھیں دیکھا۔
اسے کچن میں چکر آگیا تھا بخار ہے شاید۔۔۔ ان کے لہجے میں لجاجت سمٹ آئی
تم چلے جاؤ ساتھ اسے آرام کرنے دو۔۔۔
کوئی بخار نہیں ہے سب بہانے ہیں کام سے بچنے کے۔۔۔ اس کے سیاہی مائل ہونٹوں پہ طنزیہ مسکراہٹ پھیلی۔
بولیں اسے چلی جائیگی آپ کے ساتھ نا جانا چاہے تو مجھے بتائیں۔۔۔ سرد سے بے تاثر لہجے میں کہتا وہ باہر نکل گیا۔
کمرے سے نکلتی رفعت نے اس کے آخری جملے سنے تھے اور دھمکی آمیز تاثر محسوس کر لیا تھا وہ وہیں کھڑی رہ گئی نازک جسم بخار کی شدت سے کانپ رہا تھا۔
+-------------+++
ریحان اپنے بیڈ پہ نیم دراز بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے لیٹا ہوا تھا لیپ ٹاپ اس کے گھٹنوں پہ دھرا تھا جس کے ماؤس پیڈ پہ اس کی انگلیاں چل رہی تھیں مگر وہ فوکس نہیں کر پا رہا تھا نا جانے اس کا دھیان کہاں تھا۔
تھک ہار کے اس نے لیپ ٹاپ سکرین نیچے کھینچ لی پھر بستر سے اتر آیا اور کھڑکی میں آن کھڑا ہوا۔۔
باہر ایک اور سیاہ رات پر پھیلا رہی تھیں ہنگامے مدھم پڑ رہے تھے۔
اس کی نظریں سامنے والے گھر کی درو دیوار سے لپٹ رہی تھیں کسی کو تلاش کر رہی تھیں مگر نا مراد لوٹ رہی تھیں اسے دیکھے کئی دن ہو گئے تھے۔
+-----------++++
کمرے میں نائٹ بلب کی نیلگوں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی درو دیوار جیسے دم سادھے کھڑے تھے۔
رفعت اپنے بیڈ پہ چت لیٹی ہوئی تھی کمفرٹر سینے تک اوڑھ رکھا تھا کومل بدن جیسے بخار میں پھنک رہا تھا شام سے پہلے وہ امی کے ساتھ مارکیٹ گئی تھی اور کئی بار غش کھاتے کھاتے رہ گئی تھی اب بدن ٹوٹ رہا تھا۔
دروازے پہ ہلکی سی آہٹ ہوئی تو اس نے آنکھیں کھول کے دیکھا سلیمان اندر آیا تھا پھر دروازہ لاک کر کے ایک نظر اسے دیکھا اور واشروم کی طرف بڑھ گیا وہ ساکت لیٹی رہی۔
چند لمحے بعد وہ باہر آیا تو جسم پہ شرٹ موجود نہیں تھی وہ اپنا مخصوص ٹراؤزر اور بنا آستینوں کے بنیان پہنے ہوئے تھا وہ سیدھا اس کی طرف آیا رفعت کو اس کا انداز بدلا ہوا سا لگا۔
وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا جن نظروں سے رفعت کو دیکھا وہ کسمسا کر رہ گئی ان نظروں کا مطلب وہ جانتی تھی۔
سلیمان اس کے پاس آ بیٹھا پھر اسے کندھوں سے پکڑ کر کھینچا۔۔
کپڑے اتارو۔۔۔ اس نے بھاری آواز میں تحکمانہ سرگوشی کی تھی بہکی بہکی سانسیں اس کے چہرے پہ پڑنے لگیں۔
رفعت بے حس و حرکت سی لیٹی رہی اس کے اندر کچھ ٹوٹ رہا تھا بکھر رہا تھا ہونٹ آپس میں سختی سے بھینچ گئے تھے ۔
کئی دن وہ اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے کے لئے تیار رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ ان کے درمیان حالات معمول پہ آئیں اور وہ منہ موڑے رہا تھا آج جب اسے معلوم تھا کہ رفعت کی طبیعت ٹھیک نہیں تو وہ اسے بلا رہا تھا۔۔۔آج اس کے پاس سلیمان کے لئے کچھ نہیں تھا جسم بخار سے تڑخ رہا تھا اٹھنے سے چکر آرہے تھے اس کے میسجز پڑھ کے احساسات مردہ سے ہو گئے تھے۔
اتارو۔۔۔ اس نے پھر کہا پھر خود ہی اس کے کپڑے ایک ایک کر کے الگ کرنے لگا وہ آنکھیں میچے لیٹی رہی کوئی احساس نہیں جاگا تھا ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ نہیں ہوئی تھی نرمی اور محبت کا احساس ناپید تھا۔
اپنی بنیان اتار کر وہ اس پہ جھک آیا بہکی سانسیں اس کے بدن پہ پڑنے لگیں ہاتھ اس کے نازک جسم کا بھنبھوڑنے لگے دانت اس کے جسم پہ اپنے نشان چھوڑنے لگے۔
رفعت کے ہونٹوں سے درد بھری کراہ نکلی اسے پھر سے چکر سا آیا تھا سلیمان کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی اس کی تکلیف محسوس کر کے جیسے اس کی انا کی تسکین ہوئی تھی۔
ہر احساس پہ کراہت کا احساس غالب تھا سر جیسے درد سے پھٹ رہا تھا وہ اس سے ایسا سلوک کر رہا تھا جیسے کسی گھر میں چور گھس آئیں۔۔۔ ہر نازک چیز توڑ ڈالیں۔۔۔ قیمتی چیزیں لوٹ لیں۔
سلیمان نے اس کا چہرہ ہاتھ میں جکڑ کر ایک تھپڑ مارا۔۔۔پھر دبا دبا غرایا۔
لاش کی طرح مت لیٹی رہو۔۔۔ میرا ساتھ دو۔۔ وہ آنکھیں شدت سے بند کئے لیٹی رہی گال سن ہو گیا تھا نفرت کی ایک لہر سی بدن میں اٹھی تھی وہ انگلی بھی نا ہلا سکی بدن میں سکت نہیں رہی تھی دل کیا جو انسان اس سے کمبل کی طرح لپٹا ہوا ہے اسے اتار پھینکے۔
نا جانے کب اپنی وحشت اس پہ اتار کر وہ جدا ہوا تھا رفعت ساکت سی لیٹی رہی چہرہ ہر جذبے سے عاری تھا۔
وہ دوسری طرف منہ کر کے سو گیا تھا رفعت آہستہ سے اٹھی۔۔۔ کپڑے جو کچھ بیڈ پے کچھ نیچے بکھرے ہوئے تھے انھیں سمیٹا اور جیسے تیسے پہننے لگی ہر حرکت کے ساتھ منہ سے کراہ نکل رہی تھی بدن پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔
کپڑے پہن کر وہ باتھ روم کی طرف آئی اور واش بیسن کے ساتھ کھڑے ہو کر تپتے چہرے پہ پانی کے چھپاکے مارنے لگی آنکھیں دھندلائی ہوئی تھیں۔
دل کیا کمرے سے نکل جائے کہیں دور چلی جائے مگر بے بسی کے پنجوں میں پھڑپھڑا کر رہ گئی چند لمحے آئینے میں اپنے ٹوٹے بکھرے عکس کو دیکھتی رہی پھر بے جان قدموں سے بیڈ کی طرف آئی اور لیٹ گئی۔
+---------++++
جاری ہے۔۔۔
جذبات کی بہترین عکاسی اور الفاظ بے حد سلیقہ سے استعمال کیے گے ہیں لطف آگیا
 
Newbie
10
7
3
ریحان رفعت کو مارکیٹ کے اس حصے میں لے آیا تھا جہاں خواتین کی ضرورت کی چیزیں تھیں رفعت خاموش سی چیزیں لینے لگی وہ دو ہی چیزوں کے لئے آئی تھی مگر اب کافی کچھ لے رہی تھی۔
ایک جگہ وہ میک اپ کی دکان پہ رک گئی۔۔۔ اپنے لئے کوئی لوشن اور لپ اسٹک لینے لگی ریحان اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
اسے میک اپ کی کیا ضرورت اسے بغور دیکھتا وہ سوچ رہا تھا۔۔۔ اس کی جلد مکھن کی طرح صاف اور ملائم تھی گردن کے پاس بالوں کی کئی چھوٹی سی لٹیں موجود تھیں۔۔۔
نگاہیں اس کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔۔۔ جس کے ہونٹ کان اور جلد اتنی خوبصورت تھی اس کا باقی جسم کتنا حسین ہوگا۔۔۔ جسم کے وہ حصے جنھیں وہ لباس میں چھپا کے رکھتی تھی کس قدر خوبصورت ہونگے اس کی گداز چھاتیاں ناف کا گڑھا اور بقیہ کا جوان جسم۔۔۔ اسکی دل کی دھڑکنیں اس خیال سے بے ترتیب ہوگئی تھیں دل کیا اسے بے لباس کر کے دیکھے اس کے جسم کی خوشبو اپنے اندر اتارے۔
وہ دکاندار سے کسی بات پہ بحث کر رہی تھی۔
باجی یہ لپ اسٹک لے لیں نئی کمپنی کی ہے بہت اچھی ہے ساتھ میں قیمت بھی کم ہے۔۔۔ دکاندار اس کی خوبیاں گنوا رہی تھی رفعت کسی اور برانڈ کی لپ اسٹک لینے پہ مصر تھی۔
اور دوسری لپ اسٹک لے لی۔۔۔۔
اگر آپ یہ لپ اسٹک لے لیتیں نا باجی تو آپ کے شوہر کو بہت پسند آتی۔۔۔ دکاندار نے مایوسی سے کہا پھر ریحان کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ رفعت جھینپ سی گئی اس نے کہنا چاہا کہ یہ میرا شوہر نہیں ہے مگر دکاندار دوسری طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
ریحان بھی ایک لمحے کے لئے گڑبڑا گیا پھر اس کے قریب منہ لے جا کر سرگوشی کی۔۔
کاش اس دکاندار کی بات سچ ہوتی تمھارا شوہر ہونا میری خوش قسمتی ہوتی۔۔۔ وہ اس کے کان کے پاس بول گیا وہ اس کی طرف سرخ چہرہ لئے پلٹی مگر وہ بائیک کی طرف جا رہا تھا وہ اپنی چیزیں اٹھا کے اس کے پیچھے آئی۔
فضول باتیں نا کیا کرو اچھا۔۔۔ اسے دیکھتی ذرا خفگی سے بولی تھی دل کے چور کو چھپانے کے لئے ایسا روئیہ ضروری تھا۔
وہ ان سنا کر کے بائیک پہ بیٹھ گیا۔۔۔ رفعت پیچھے آبیٹھی۔
ہممم۔۔۔ تمھارا شوہر آئیگا منگنی پہ؟۔۔۔ وہ اپنے وجود کے ساتھ اس کے جسم کی گرمی محسوس کرنے لگا۔
رفعت کے جسم سے حرارت کی لہریں سی نکل کر اس کے جسم میں داخل ہو رہی تھیں۔
نہیں شاید نہ آئیں۔۔۔ رفعت نے جواب دیا
+-------------------+
رات کی سیاہ چادر پھیل گئی تھی سب سو گئے تھے رفعت بہت دیر سے بستر پر لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی نیند نہیں آرہی تھی جیسے روٹھ گئی ہو کبھی ایک کروٹ لیتی کبھی دوسری کبھی چت لیٹ جاتی کبھی اوندھی ہو کر ٹانگیں جھلانے لگتی۔۔۔
طبیعت میں عجیب سی بے چینی تھی جسم جیسے اکڑ گیا تھا ایسے لمحوں میں وہ سلیمان کے بارے میں سوچتی تھی مگر آج خیالوں میں ریحان در آیا تھا رفعت کو خود پہ غصہ آیا ریحان کے خیال کو ذہن سے جھٹکنا چاہا۔
وہ سلیمان کو کال کرنا چاہتی تھی بارہ بج گئے تھے مسقط میں شاید شام ہوگی اس نے فون اٹھا کر کال ملائی۔
ہیلو۔۔۔ کال ملنے پہ وہ آہستہ آواز میں بولی تھی۔
تم نے پھر کال کردی۔۔۔ دوسری طرف سے وہ غرایا تھا ایک دن بھی تم سے گزارا نہیں جاتا کال کر کے ضرور تم نے بکواس کرنی ہوتی ہے۔۔۔ وہ تنفر سے بول رہا تھا رفعت جیسے زمیں میں گڑھ گئی ذلت کا شدید احساس ہوا تھا۔
سلیمان آپ ندا کی منگنی پہ آئینگے؟ اس نے بمشکل پوچھا تھا۔
نہیں میں پیسے بھیج رہا ہوں نا یہی کافی ہیں تم لوگوں کے پیٹ بھرنے کے لئے۔۔۔ وہ زہر خند لہجے میں بولا۔
پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا سلیمان میاں بیوی کے رشتے کے کچھ اور بھی اصول ہوتے ہیں۔۔۔ اس نے بولنا چاہا مگر اس لمحے اسے فون میں سے ہلکی سی نسوانی آواز سنائی دی تھی۔
لڑکیوں کے کان ایسی آواز کے لئے بہت حساس ہوتے ہیں سلیمان کے قریب کوئی موجود تھی اس کا دل ڈوب کے ابھرا۔
سلیمان نے ڈپٹ کر کسی کو چپ رہنے کا کہا تھا پھر کال کاٹ دی۔
رفعت فون ہاتھ میں لئے لیٹی رہ گئی اس کے ساتھ کون تھی وہاں؟ دل و دماغ میں واہموں کے جھکڑ سے چل رہے تھے وہ بے کل سی ہوئی نیند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
اس کا دم گھٹنے لگا روم کے اندر۔۔۔
چپل پیروں میں اڑس کر وہ باہر آگئی اور ریلنگ کی طرف بڑھی پھر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئی سلیمان سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔
چھت پہ آکر ہلکی ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا تھا وہ دیوار کے پاس آ کے کھڑی ہو گئی دل بجھا ہوا تھا اس لمحے وہ چونک گئی دوسرے گھر کی چھت جو کہ پاس ہی تھی اسے ایک جگنو سا چمکتا ہوا نظر آیا تھا کسی نے شاید سگریٹ جلایا تھا۔
یہ ریحان تھا جو دوسرے گھر کی چھت پہ تھا۔
وہ دونوں کچھ ہی فاصلے سے اپنی اپنی چھتوں پہ آمنے سامنے تھے۔
رفعت۔۔۔ ریحان بولا پھر سگریٹ بجھادی اسے اس وقت چھت پہ دیکھ کے حیرت سی ہوئی تھی
اس نے آہستہ سے اپنی دیوار کے اوپر پاؤں رکھا دوسرا پاؤں رفعت کی گھر کی دیوار پہ رکھا پھر آہستگی سے ان کی چھت پہ اتر گیا۔
اسے اپنے سامنے دیکھنے لگا چاند کی مدھم روشنی اس پہ پڑ رہی تھی اس کا نیم روشن خوبصورت ہیولہ نظر آرہا تھا۔
اس وقت وہ دوپٹے سے بے نیاز تھی سینے کی جگہ کا خوبصورت ابھار نظر آرہا تھا تنگ سی قمیض میں اس کی چھاتیاں قید تھیں نازک لچکدار کمر کو قمیض نے تھام رکھا تھا لمبے ریشمی بال کمر پہ لڑھک کر کولہوں کو چھو رہے تھے۔
ریحان بے خود ہوا سانس اتھل پتھل ہوئی تھی اس لمحے اسے بے لباس دیکھنے کی خواہش پھر سے سر اٹھانے لگی۔
بے اختیار اس نے رفعت کا ہاتھ تھاما تھا۔
اس وقت کیا کر رہی ہو چھت پہ۔۔۔۔ اس نے پوچھا وہ ہاتھ نا چھڑا سکی جسم پہ چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں۔
نیند نہیں آرہی تھی تو اوپر آگئی۔۔۔وہ بولی
نیند کیوں نہیں آرہی تھی؟ وہ اس کی مخروطی انگلیوں سے کھیلنے لگا۔
نیند تو مجھے بھی نہیں آرہی تھی۔۔۔میں تمھیں یاد کر رہا تھا۔۔۔وہ سرگوشی میں بولا پھر اس کے قریب ہوا رفعت کی پشت دیوار سے جا لگی۔
ریحان ۔۔۔ رفعت کے جسم پہ بے شمار چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں وہ جھجک کر اس سے الگ ہوئی مگر اس نے بازو نہیں چھوڑا تھا۔
ڈر گئی ہو؟۔ وہ مدھم آواز میں بولا پریشان نا ہو پھر اس کی انگلیاں رفعت کے بازو پہ سرکتی کہنی تک آگئیں اور بازو پہ آگے کا سفر کرنے لگیں۔
ایک بات بتاؤ اگر نیند نا آئے تو کیا کرنا چاہئیے۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔ وہ بولی بازو اس کے ہاتھ میں تھا۔
اب میں نیچے چلتی ہوں۔۔۔وہ گھبرا گئی تھی اپنے اندر اٹھتے طوفان سے۔۔۔ کچھ تھا جو اسے ریحان سے لپٹ جانے پر اکسا رہا تھا وہ جانتی تھی بدن کے اینٹھن کا علاج شاید اس کی بانہوں میں مل جائے مگر جھجک آڑے آ رہی تھی مضطرب ہو کر وہ نیچے کی طرف بڑھی۔
وہ وارفتگی سے اسے جاتا دیکھتا رہ گیا اس کی تشنگی بڑھ گئی تھی وہ اسے تسخیر کرنا چاہتا تھا۔
+---------------------+
آج موسم خوشگوار تھا صبح سے ہلکی ہلکی بارش ہوتی رہی تھی ہلکی پھوار نے موسم کو خوشگواریت بخش دی تھی نیلگوں آسمان کو بدلیوں نے ڈھک رکھا تھا۔
ریحان یونیورسٹی سے گھر آیا تھا بیگ کندھے پہ جھول رہا تھا بائیک سٹینڈ پہ کھڑی کرکے وہ اندر کی طرف آیا ڈرائینگ روم میں سے کسی کی آواز آرہی تھی وہ اندر آیا پھر ٹھٹکا۔
رفعت امی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اسے دیکھ کے پلکیں اٹھائیں پھر جھکا دیں۔
ریحان نے سلام کیا تھا۔
اچھا ہوا تم جلدی آگئے ریحان۔۔۔ رفعت کا کچھ کام ہے یہ تمھیں ہی بلانے آئی تھی ان کے گھر چلے جانا۔۔۔۔ امی بولیں ریحان نے سر ہلایا پھر رفعت کو دیکھا جو صوفے پہ تھی آنکھیں اک لمحے کے لئے چار ہوئیں رات کا منظر آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا ان کے گھر جانا امتحان ثابت ہو سکتا تھا اس کا دل کیا امی کو منع کر دے کل رات جو ہوا جذبات کی موجوں میں بہہ کے ہوا وہ اس حالت کا شکار پھر سے نہیں ہونا چاہتا تھا جب وہ بے خود ہو جاتا لیکن اسے جانا ہی پڑا۔
اس کی نند ندا کی منگنی کچھ دن میں ہی تھی گھر کے بہت سارے کام نپٹانے تھے فرنیچر کی جگہ تبدیل کرنی تھی شاپنگ پہ بھی جانا تھا رفعت کی ساس کی پریشانی تو اور بھی سوا تھی۔
گھر میں کسی مرد کی غیر موجودگی ان کے لئے مشکلیں کھڑی کر گئی تھی ان کی جان پر بن آئی تھی وہ ان کے ساتھ مل کے چھوٹے موٹے کام کرتا رہا۔
پھر ان کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ کے مارکیٹ آیا تھا وہ اگلی سیٹ پہ تھا رفعت بڑا سا سفید دپٹہ اوڑھے پچھلی سیٹ پہ تھی ساتھ ہی اس کی ساس بیٹھی تھی دونوں مختلف چیزوں کی خریداری کے بارے میں بات کر رہی تھی۔۔
یہ خواتین کی گفتگو تھی ریحان کو اس میں دلچسپ نہیں تھی مگر اس کی نگاہیں کئی بار رفعت کی طرف اٹھی تھیں شال اوڑھے وہ تروتازہ لگ رہی تھی عنابی ہونٹ ادھ کھلی کلیوں کو مات دے رہے تھے زلفوں کی کئی لٹیں چہرے کی دربان بنی ہوئی تھیں خوبصورت چھاتیاں لباس میں دفن تھیں وہ سر جھٹک کر رہ گیا اس سے نگاہ ہٹانا کتنا مشکل کام تھا۔
+-------------------+
ریحان ان کے گھر کی ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا وہ سہہ پہر سے یہیں تھا گھر کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا رہا تھا ابھی شام ہو رہی تھی۔۔
اٹھنے کو تھا کہ رفعت سیڑھیاں اترتی نیچے آئی وہ بے اختیار ٹھٹکا تھا۔
کیا کر رہے ہو ریحان؟ رفعت نے پوچھا
چلنے لگا تھا۔۔ ابھی تو کوئی کام بھی نہیں ہے وہ بولا۔۔۔ اگر کوئی کام ہوا تو کل مجھے پھر بلا لینا۔۔اس نے کہا رفعت نے سر ہلایا ۔
چائے پی کے جانا ریحان میں بناتی ہوںوہ بولی تو ریحان مسکرا دیا۔۔
نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔ وہ بولا
رفعت متوازن چال چلتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
وہ یوں ہی بیٹھا رہا آنکھیں کچن کی طرف اٹھ رہی تھیں وہ مصروف تھی۔
اس لڑکی میں اتنی کشش کیوں ہے وہ سوچنے لگا وہ کو ایجوکیشن میں پڑھ رہا تھا لڑکیوں سے ہر قدم پہ واسطہ پڑتا تھا لیکن ایسی حیوانی کشش کسی میں نہیں تھی جو اپنی طرف کھینچے رفعت نے بہت خوبصورت جوانی پائی تھی۔
وہ چائے بنا کے اسے دینے لگی دھیمے قدموں سے آتی اس کے پاس ہلکی سی جھکی تو گریبان ذرا سا کھل گیا تھا ریحان کے نظریں غیر ارادی طور پر ڈھلکے گریبان سے اندر ہو آئیں۔
وہ بے انتہا خوبصورت تھی شفاف دودھ جیسی چھاتیوں کا اوپری حصہ نظر آیا تھا جو زیر جامے میں جکڑا ہوا دہائیاں دے رہا تھا ریحان کا گلہ خشک ہونے لگا۔
وہ لاتعلق سی سامنے بیٹھ گئی اس بات سے بے خبر کہ انجانے میں اس پہ کیا ستم توڑ گئی ہے۔
شکریہ ریحان۔۔۔ اتنے سارے کاموں میں مدد کے لئے وہ سامنے صوفے پہ بیٹھ کے بولی۔
اس کی ساس اور نند دوسرے کمرے میں تھیں جہاں سے باتوں کی ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی۔
شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ اس نے چائے سے خشک ہوتا حلق تر کیا۔
ہے تو سہی۔۔۔ جانتے ہو سلیمان کے باہر جانے کے بعد امی باہر کے سارے کام کر لیتی ہیں آج تم ہو اور بہت ہاتھ بٹایا ہے وہ مشکور سی ہو رہی تھی۔
میں روز آنے کے لئے تیار ہوں۔۔۔ وہ ہلکا سا بولا ضرورت ہو تو مجھے بلا لیا کرو۔۔۔
ہاں بلاؤنگی۔۔اس ہفتے تو بہت سارے کام ہونگے۔۔۔ وہ بولی ریحان نے سر ہلایا تھا۔
پھر اسے نگاہوں میں بھرا۔
کپ ٹیبل پہ رکھ کر وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
اگر نیند نہ آئے تو چھت پہ آجایا کرو۔۔ وہ بولا پھر باہر نکل گیا وہ ہونٹ چباتی کھڑی رہ گئی۔
+--------------------+
رفعت سلیمان کو کال پہ کال کر رہی تھی مگر وہ اٹینڈ نہیں کر رہا تھا آگے سے نمبر بزی ہو جاتا تھا۔۔۔ پرسوں ندا کی منگنی تھی وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر وہ اگنور کر رہا تھا۔
شاید بزی ہو اس نے بجھے دل سے خود کو دلاسہ دیا یہ بندھن اس کے لئے عذاب جان بن گیا تھا وہ کوفت زدہ سی لیٹی رہی۔
بستر جیسے اسے کاٹ رہا تھا۔
ایک آخری بار اس نے کال کی دوسری طرف سے اٹینڈ کی گئی تھی وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگایا تھا۔
کون سا کیڑا کاٹ رہا ہے تمھیں اس وقت جو تم پھر کال کرنے لگ گئی ہو۔۔۔ سلیمان کی آواز آئی تھی۔
تمھیں چین نہیں ہے کیا؟ اس کی آواز زہر میں بجھی ہوئی تھی۔
سلیمان پرسوں ندا کی منگنی ہے۔۔
تو؟وہ پھنکارا
تو اگر آپ آجاتے تو بہت اچھا ہوتا۔۔۔ وہ بولی
میں کتنی دفعہ یہ بکواس کر چکا ہوں کہ میں نہیں آسکتا جھک نہیں مار رہا ادھر۔۔۔
رفعت بجھ سی گئی
تم یہاں آکے کام کر لو میری جگہ تو میں آجاتا ہوں۔۔۔ کتے کی ٹیڑھی دم ہو تم جو سیدھی نہیں ہوتی کبھی۔۔۔۔ ایک ہی بات کی رٹ لگائے رہتی ہو۔۔۔بکواس عورت۔۔۔۔
اس نے کال کاٹ دی تھی۔
رفعت نے فون سائیڈ ٹیبل پہ ڈال دیا دل مردہ سا ہوا تھا۔
چند لمحے بے سکونی سے لیٹی رہی کمرہ زندان لگنے لگا تھا۔
پھر اٹھی چپل پیروں میں اڑس کر باہر آنے لگی جب دل تنگ ہوتا تھا تو چھت پہ جاتی تھی۔
پھر باہر آتے آتے یکدم رک سی گئی ریحان کی بات یاد آئی تھی اگر وہ چھت پہ ہوا تو۔۔۔وہ سوچ میں پڑ گئی پھر بے دم سی ہوئی۔
چپل واپس اتار کر بیڈ پہ لیٹ گئی اوپر نہیں جانا چاہتی تھی کل جو ہوا تھا وہ انجانے میں ہوا پھر اسے نہیں دہرانا چاہتی تھی۔
جیسے بھی تھی شادی شدہ تھی اسے اپنی ضرورتوں کے لئے اپنے شوہر کا انظار کرنا تھا اچھی بیوی بن کے۔۔۔وہ کبھی تو آتا پھر اس پہ مہربان ہو جاتا۔
وہ ہونٹ کاٹتی خود پہ ضبط کرتی بستر پہ لیٹ گئی ایک تکیہ سینے سے لگا لیا تھا ہونٹوں کو دانتوں سے چباتی وہ ریحان کے خیال کو جھٹکنے کی کوشش کرنے لگی۔
کمرے میں نائٹ بلب کی دھیمی نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی بیڈ پہ لیٹی رفعت کا ہیولہ نظر آرہا تھا باہر رات لمحہ لمحہ کر کے سرک رہی تھی۔
+----------------------+
جاری ہے۔۔
مشرقی عورت کے جزبات کی صحیح عکاسی مجبوری کا بہترین ملاپ کہانی کے لطف کو دوبالا کر دیتا ہے
 
Newbie
10
7
3
قسط:7 سیکنڈ لاسٹ
نیلگوں آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا سورج کی کرنیں تپش سے عاری تھیں موسم قدرے خوشگوار ہو رہا تھا۔
وال کلاک دس بجا رہی تھی رفعت ڈائینگ روم کی ڈسٹنگ کرنے اور باقی کاموں سے فارغ ہونے کے بعد صوفے پہ آبیٹھی۔
چھوٹا سا خوبصورت کشن گود میں رکھ کر اس نے ٹی وی لگا لیا اور بے دلی سے ٹی وی دیکھنے لگی۔
اس کا بخار اتر گیا تھا طبیعت قدرے بحال ہوگئی تھی۔۔
ندا کی شادی کے دن قریب آرہے تھے آج یا کل میں شادی کی تاریخ رکھ دی جاتی پھر مہمانوں کو تانتا بندھ جاتا اور سر کھجانے کی بھی فرصت نا ملتی۔
اب بھی کام بہت بڑھ گئے تھے روزانہ مارکیٹ کے چکر لگ رہے تھے کچھ نا کچھ لایا جا رہا تھا۔
آج بھی انھیں ندا کی جیولری دیکھنے جانا تھا۔۔
رفعت خالی خولی نظروں سے سکرین کو دیکھتی بیٹھی رہی ندا اندر کمرے میں تھی سلیمان ابھی بھی سو رہا تھا اس کا خیال آتے ہی رفعت کی آنکھیں منجمد سی ہوئیں۔
سلیمان کے ساتھ گزرے یہ چند دن اس کے لئے کسی امتحان سے کم نا تھے اس کے شب و روز ایک ان چاہی قربت میں گزرے تھے۔
اس کی بہکی سانسیں چہرے پہ سوئیوں کی مانند چبھتے بال اور کھردرا اذیت ناک لمس۔۔۔ کچھ بھی اس کے اندر چاہے جانے کا احساس پیدا نہیں کر پایا تھا۔۔
طبیعت کی خرابی کے باوجود سلیمان اسے روندتا رہا تھا اس کی اذیت سے حظ اٹھاتا رہا تھا اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے پھر سے دوریاں اختیار کرلی تھیں۔
راتوں کو کئی بار رفعت کی آنکھ کھلی تو اسے کمرے میں موجود نہیں پایا تھا باہر ٹیرس پر سے اس کی گفتگو کی دھیمی آہٹیں اس کے کانوں تک پہنچتی تھیں وہ فون پہ لگا ہوتا تھا رفعت کانوں میں انگلیاں دے لیتی تھی۔
ایسا لگتا تھا وہ جلد ازجلد ندا کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہو کر واپس جانا چاہتا ہے۔۔۔ رفعت نے بیٹھے بیٹھے صوفے پہ پہلو بدلا اس کا دل جیسے بے حس ہو رہا تھا اگر کوئی احساس باقی تھا تو وہ نفرت اور غصے کا تھا۔
اس لمحے اس کے کمرے کا دروازہ کھلا سلیمان باہر آیا وہ بھاری بھرکم چثے پہ نیا کھڑکھڑاتا ہوا سوٹ پہنے ہوئے تھا۔
ڈرائینگ روم میں آکے ایک چبھتی ہوئی تیز نگاہ رفعت پہ ڈالی جو ہڑبڑا کے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
ناشتہ لاؤ۔۔۔ دو الفاظ بول کر وہ کچن ٹیبل کی طرف چلا گیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا رفعت ہونٹ بھینچے کچن میں آئی تھی پھر ناشتہ نکالنے لگی۔
اسے دیکھ کے کسی روبوٹ کا گمان ہو رہا تھا جو حکم کی تعمیل کر رہی ہو چہرے پہ کسی جذبے کا گزر نہیں تھا ہاں آنکھوں میں ہلکی سی بیزاری تھی سلیمان کے روئیوں نے اس کا دل چھلنی کر دیا تھا اب وہ اس کے لئے کچھ محسوس نہیں کرتی تھی۔
ناشتے کے برتن اس کے سامنے رکھ کر وہ واپس مڑی اور ڈرائینگ روم کی طرف آئی سلیمان نے اسے پکارا تھا۔
کچھ دیر بعد ہم لوگ جیولر کے پاس جائینگے۔۔۔ وہ بولا رفعت اس کی طرف پلٹی ذرا سی الجھی۔
"ہم" سے اس کی کیا مراد تھی کون کون جارہے تھے؟ وہ بھی جانا چاہتی تھی ندا کے لئے جیولری سیٹ اسی نے سلیکٹ کیا تھا اب دیکھنے جانا تو بنتا تھا کہ کیسے بنا ہے اگر کوئی کمی بیشی ہوتی تو وہ دور کی جا سکتی تھی۔
تم گھر پہ رہنا گھر سنبھالنا۔۔۔ اس نے سرد انداز میں اگلا جملہ بول کر رفعت کی خوش فہمی دور کر دی یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہ ندا اور امی ہی جا رہے تھے رفعت نہیں۔
میں بھی چلی جاؤنگی آپ کے ساتھ۔۔۔ وہ ہمت کر کے بولی سلیمان کے چہرے پہ شدید ناگواری پھیلی۔
تو گھر میں کون رہیگا تمھارا باپ؟۔۔۔ وہ پھنکارا تم گھر پہ رہو اور ہمارے آنے تک لنچ بنادو۔۔ رعونت سے کہہ کر وہ ناشتے میں مصروف ہوگیا۔
الفاظ رفعت کے گلے میں ہی خشک ہوگئے۔۔۔ گھر کو لاک کر کے بھی تو جایا جا سکتا تھا لنچ آکے بھی تو بنایا جا سکتا تھا۔۔
وہ ہونٹ سیتی بوجھل قدموں سے بیڈروم میں آگئی اور بیڈ کے کنارے ٹک گئی اس کے سامنے بیٹھنا مشکل لگ رہا تھا ورنہ وہ اس کے یا اس کے والدین پہ کوئی اور جملہ چست کر دیتا اور اس کا صبر بھی تمام ہو جاتا۔
دل غبار آلود ہو رہا تھا وہ کتنی ہی دیر ایک ہی پوز میں بیٹھی رہی آنکھوں میں یاسیت اتر آئی تھی۔
دل میں بغاوت بھرے خیالات سر اٹھانے لگے اگر وہ اس سے یوں نا انصافی کر سکتا تھا تو وہ بھی کر سکتی تھی ریحان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا۔
+----------------++++
ریحان ٹیرس پہ کھڑا تھا ہاتھ سنگ مرمر کی ریلنگ پہ جمے ہوئے تھے آنکھیں گلی میں اچھلتے کودتے بچوں پہ تھیں جو ہر فکر سے آزاد کھیل رہے تھے۔۔۔
یکلخت سامنے والے گھر کا دروازہ کھلا ریحان کی نگاہوں نےاس طرف پرواز کی تھی۔
سلیمان ندا اور ماں کے ساتھ باہر آرہا تھا یہ لوگ کہیں جا رہے تھے ریحان کی آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیں سی ابھری۔
رفعت باہر نہیں آئی تھی ریحان نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی وہ دروازہ بند کر کے واپس اندر کی طرف مڑ گئی تھی ریلنگ پہ اس کے ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوگئی۔
دل بلیوں اچھلنے لگا تھا رفعت سے ملے دو ہفتے ہونے کو تھے پھر وہ اسکے قریب نہیں جا سکا تھا دور ہی دور سے اس کے خوبصورت چہرے کو نگاہوں کی آغوش میں بھرتا رہا تھا۔
آج وہ اکیلی تھی گھر والے کہیں جا رہے تھے اس کے دل میں کسک سی جاگی اسے دیکھنے کی اس خوشبو کو محسوس کرنے کی جو اس کے بدن سے پھوٹتی تھی۔
اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے بے اختیار خود کو کوسا دل میں امڈتے طوفان پہ بند باندھنے کی کوشش کی اور کمرے میں آکر بستر پر دراز ہو گیا۔
بے چینی سی طاری ہورہی تھی دل تھا کہ اسے اکسا رہا تھا اس سمت جانے پہ آمادہ کر رہا تھا جہاں وہ ماہ جبین رہتی تھی۔
کچھ دیر وہ یوں ہی بستر پہ دراز آنکھوں پہ کلائی رکھے لیٹا رہا اپنے آپ سے لڑتا رہا پھر اٹھ بیٹھا اور چھت پہ آگیا۔
دونوں گھروں کے درمیان بمشکل چار فٹ کا فاصلہ حائل تھا جسے عبور کرنا کچھ مشکل نا تھا وہ ہونٹ بھینچے کھڑا رہا پھر طائرانہ نظروں سے ارد گرد دیکھا اطراف میں موجود گھروں کی چھتیں نظر آئیں وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا سب لوگ گھروں کے اندر تھے اس نے احتیاط سے ایک پیر اپنی طرف کی منڈیر پہ رکھا دوسرا سامنے کی دیوار پہ رکھا اور بے آواز چھت پہ اتر گیا۔
پھر دھیمے قدموں سے چلتا سیڑھیوں کی طرف آیا اور اترنے لگا معلوم نہیں کہاں ہوگی وہ۔۔۔ اس نے سوچا سانس ہلکی سی بے ترتیب ہوئی تھی۔
آرام آرام سے سیڑھیاں اترتا وہ نیچے آیا آخری سیڑھی پہ قدم رکھتے ہی کچن کی طرف سے مدھم آواز آئی تھی جیسے برتن رکھے گئے ہوں یا اٹھائے گئے ہوں اس گھر کا نقشہ اسے ازبر تھا۔
آواز کا تعاقب کرتے ہوئے وہ کچن کی طرف آیا اور دروازے میں ہی رک گیا قدم جیسے تھم گئے تھے۔
آنکھیں اس پہ جم گئیں وہ دوسری طرف منہ کئے کچن کاؤنٹر کے پاس کھڑی تھی اس کے ہاتھ چل رہے تھے شاید کچھ بنا رہی تھی۔۔
وہ گرے کلر کی شارٹ شرٹ اور گھیرے دار شلوار پہنے ہوئے تھی دپٹا موجود نہیں تھا لمبے ریشمی بال پونی کی قید کاٹ رہے تھے۔
اس نے ایپرن باندھ رکھا تھا جس کی گستاخ ڈوریاں اس کی موزوں کمر کو سختی سے جکڑے ہوئے تھیں اس کے سڈول کولہوں کے جان لیوا ابھار لباس کے اندر سے اپنی موجودگی کا پتہ دے رہے تھے ریحان کی آنکھیں گستاخیوں پہ اتر آئیں بے خود ہو کر وہ اس کی طرف آیا تھا۔
اس کے عین پیچھے کھڑے ہو کر آہستہ سے اس کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار قائم کر دیا۔
رفعت جو اس کی موجودگی سے بے خبر تھی اس اچانک افتاد پہ حواس باختہ ہوئی تھی منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی پھر تڑپ کر دور ہونا چاہا۔
میں ہوں۔۔۔ ریحان نے اس کے کان کے پاس خمار آلود سرگوشی کی تھی۔
ریحان۔۔۔ تت تم۔۔۔ رفعت کے ہونٹوں سے اتنا ہی نکل سکا اس کا وجود سن سا ہو گیا تھا اسے یہاں موجود پا کر۔
ہاں۔۔۔وہ اس کی پشت کو سینے سے لگائے کھڑا تھا کمر پہ گرفت اب بھی قائم تھی ہونٹ اس کی گردن پہ رینگنے لگے۔
چھوڑو مجھے پلیز۔۔۔ اس نے خود کو چھڑانے کی سعی کی دل جیسے سینے سے باہر آنے کو تھا۔
ریحان میرا شوہر آجائیگا۔۔۔ اس نے جیسے التجا کی تھی وہ سلیمان سے نالاں تھی مگر خوفزدہ بھی۔۔
کوئی نہیں آئیگا۔۔ میں نے انھیں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ آہستہ سے بولتا وہ اس کی گردن کا پور پور لبوں سے چھو رہا تھا ہاتھ اس کے ہموار پیٹ پہ جمے ہوئے تھے۔
پھر اس کی قمیض اوپر کر دی اور دہکتے ہوئے ہونٹ عقب سے اس کی موزوں کمر پہ سفر کرنے لگے۔
وہ یونہی اس کے نرم و نازک وجود کو بازوؤں میں اٹھا کے ڈرائینگ روم کے صوفے تک لایا تھا۔
ڈرائینگ روم کا بڑا صوفہ ان دونوں کا بستر بن گیا سارے خیال رفعت کے ذہن سے اوجھل ہو گئے تھے شوہر نے جو خلا چھوڑا تھا اسے کوئی اور پر کر رہا تھا۔
ریحان نے اسے صوفے پہ لا گرایا پھر اسے اپنے وجود سے ڈھانپ لیا وہ اس کے ہونٹوں کو باری باری اپنے ہونٹوں میں لے رہا تھا دونوں ہاتھ قمیض تلے اس کے جوان بدن سے گستاخیوں میں مصروف تھے رفعت کی حالت غیر ہونے لگی۔
گھر میں ہر طرف سناٹا تھا بس ان دونوں کی بہکی بہکی سانسیں ماحول میں دھیما سا ارتعاش پیدا کر رہی تھیں ریحان اس کے سیمیں بدن کو نئے سرے سے دریافت کر رہا تھا۔
ہاتھ اس کی گھیرے دار شلوار کی سلوٹوں میں الجھ گئے ہونٹ اس کے برہنہ پیٹ کے ذائقے چکھ رہے تھے اس کے بدن سے اٹھتی مہک اس کے حواس پہ چھا رہی تھی۔
ریحان۔۔۔ رفعت سسکی۔
آج نہیں۔۔۔ وہ ہاتھ اس کے سینے پہ رکھ کے دھکیلنے لگی یکایک عجیب سا خوف دل میں آ بیٹھا تھا دیکھ لئے جانے کا خوف۔۔۔ سلیمان کے آجانے کا ڈر وہ مضطرب ہوئی۔
اسے خود سے دور کرنا چاہا ڈر تھا کہ اگر ابھی دور نا کیا تو طوفان سب بہا لے جائیگا۔
ریحان نے سرخ خمار آلود نظروں سے اسے دیکھا۔
آج نہیں پلیز۔۔۔ وہ ملتجی لہجے میں بولی۔
ریحان نے گہری سانس لی پھر جھک کر اس کے لبوں کا طویل بوسہ لیا اور الگ ہونے لگا۔
+-----------+++
جاری ہے۔۔۔
 
Newbie
10
7
3
قسط:8 (لاسٹ)
ریحان آہستہ سے اس کے اوپر سے اٹھا اور تیز ہوتی سانسیں بحال کرنے لگا جلتی ہوئی نگاہیں رفعت پہ تھیں جو ہنوز صوفے پہ چت لیٹی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی۔
کیوں دور کر دیتی ہو مجھے خود سے۔۔۔۔ آہستہ سے شکوہ کیا اس کی آنکھوں میں بہتا خمار وہ دیکھ چکا تھا جانتا تھا وہ خود پہ جبر کر کے دور ہو رہی ہے۔
یہ مناسب نہیں ہے۔۔۔ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے بولی پھر کپڑے درست کرنے لگی جنھیں اس نے درہم برہم کر دیا تھا دل اب بھی سینے میں لرز رہا تھا۔
اس کا جوان سینہ ڈوب ابھر رہا تھا ریحان کی نگاہیں اس کے دلفریب بدن کے نشیب و فراز میں الجھیں دل کیا پھر اس کے وجود پہ چھا جائے مگر ضبط کے حدیں چھو کر رہ گیا۔
تم جاؤ پلیز اس سے پہلے کہ وہ آجائیں۔۔۔ رفعت منت بھرے انداز میں بولی پھر اٹھ بیٹھی۔
ریحان نے اس کے سراپے کو آنکھوں میں سمیٹا پھر الوداعی نظر ڈال کر باہر آگیا۔
+---------++++
سہہ پہر ڈھلنے لگی تھی گھر میں گہما گہمی اپنے عروج پر تھی نقرئی قہقہے گونج رہے تھے رنگین آنچل لہرا رہے تھے۔
ندا کی شادی کی سر گرمیاں جاری تھیں کل بارات آنی تھی گھر میں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جن میں زیادہ تر خواتین ہی تھیں۔۔
رفعت ہلکے سرخ رنگ کا خوبصورت کامدار جوڑا پہنے خواتین کے ساتھ ڈرائینگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی بالوں کا خوبصورت جوڑا کندھے پہ آگے کی طرف لہرا رہا تھا ہلکے میک اپ نے اس کے سراپے کو بے حد خوبصورت بخش رکھی تھی وہ بہت ساری لڑکیوں کے جھرمٹ میں بھی نمایاں لگ رہی تھی۔۔
اب جا کے تھوڑی سی فراغت ملی تھی تو وہ یہاں آبیٹھی ورنہ صبح سے ہی کاموں میں مصروف تھی شادی کے گھر میں سو طرح کے جھنجٹ تھے۔۔
وہ یوں ہی بیٹھی تھی کہ دروازے کے باہر سلیمان کی جھلک نظر آئی وہ چبھتی ہوئی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا پھر اشارے سے بلایا رفعت کی مسکراہٹ ذرا سی ماند پڑی پھر وہ ساتھ بیٹھی خواتین سے معذرت کرتی دپٹا سنبھالتی باہر کی طرف آئی۔
جی۔۔۔ جھجکتے ہوئے سلیمان کی طرف دیکھا تھا جس کے ماتھے پہ بل پڑے ہوئے تھے چہرہ غصے سے مزید گندمی ہو رہا تھا۔
تم تیار ہو کے یہاں بیٹھی ہوئی ہو میری کوئی پرواہ ہے تمھیں یا نہیں۔۔۔ وہ دبی آواز میں پھنکارا۔
کک۔۔ کیوں کیا ہوا۔۔۔ رفعت کا حلق سوکھنے لگا تھا اس کے تیور دیکھ کر۔۔۔
میرے کپڑے اور جوتے کہاں رکھے ہیں تم نے۔۔۔ وہ غصے سے پوچھ رہا تھا۔۔
رفعت نے حیرت سے اسے دیکھا وہ اس کے کپڑے وارڈروب میں لگا کے آئی تھی جوتے بھی بیڈروم میں سامنے ہی رکھے تھے باقی چیزیں بھی۔۔۔
وہ اسے چبھتی نظروں سے دیکھ رہا تھا رفعت کے ہونٹ بھینچ گئے وہ سمجھ گئی تھی کہ سلیمان کو اس کا یوں تیار ہو کر فارغ بیٹھنا پسند نہیں آیا تب ہی بھڑاس نکال رہا ہے وہ کئی دنوں سے اسے کچھ کہنے کا موقع بھی تو نہیں دے رہی تھی۔۔
وہ پلٹ کر بیڈ روم کی طرف آئی سب چیزیں وہاں موجود تھیں لیکن رفعت نے اسے جتایا نہیں بس خاموشی سے ہر چیز اسے تھمائی پھر باہر نکل گئی۔۔
سنو۔۔۔ وہ باہر نکلنے لگی تھی کہ اس نے آواز دی۔
ڈرائینگ روم میں لاٹ صاحبہ کی طرح بیٹھی نا رہو سب انتظامات کا جائزہ بھی لو۔۔۔ اگر کوئی کمی کوتاہی ہوئی تو تمھاری خیر نہیں۔۔۔ اس کی آواز نے کانوں میں کڑواہٹ گھولی رفعت ہونٹ باہر نکل آئی کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
وہ صبح سے مسلسل چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف تھی لیکن اسے وہ نظر نہیں آیا تھا لیکن دو پل فارغ بیٹھنا فوراً نظر آگیا تھا اور اب اسی بات پہ طنز کر رہا تھا۔
+-----------+++
ریحان برش ہاتھ میں لئے شیشے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا وہ ابھی ابھی شاور لے کے نکلا تھا گھنگریالے بال ہلکی سی نمی لئے ہوئے تھے نگاہیں شیشے میں ابھرتے اپنے عکس پر تھیں۔۔
آج پڑوس میں مہندی کی تقریب تھی لوگوں کا مدھم شور اور ڈھولکی کی گونج وقفے وقفے سے ابھر رہی تھی وہ بھی وہاں جا رہا تھا۔۔
مانگ نکال کر اس نے اپنا تنقیدی جائزہ لیا پھر مطمئن سا ہو کر سر ہلادیا بیضوی آئینے نے بھی اس کے وجیہہ سراپے کو سراہا وہ کافی محنت سے تیار ہوا تھا۔
باہر گلی میں اکا دکا لوگ آ جا رہے تھے گھر کے سامنے کئی گاڑیاں کھڑی تھیں وہ دروازے کی طرف آیا پھر کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔۔
چھوٹے سے لان میں سلیمان سمیت کئی لوگ موجود تھے وہ ان کے قریب کرسی پہ آبیٹھا خواتین شاید ڈرائینگ روم میں تھیں۔۔
وہ اس طرح سے بیٹھا تھا کہ گیٹ کی طرف اس کی پشت تھی جبکہ سامنے ہی گھر کا اندرونی حصہ نظر آرہا تھا اس نے کن اکھیوں سے اندر جھانکا کئی لڑکیاں نظر آئی تھیں لیکن اس کی نگاہیں کسی اور کی دید کی آس لئے ہوئے تھیں رفعت کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
وہ لوگ لان میں بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے شام ڈھل گئی تھی بیرونی روشنیاں جلا دی گئی تھیں دیواروں پہ لگے قمقمے روشن ہو کر جگمگا رہے تھے ریحان مایوس سا پہلو بدلتا رہا وہ نظر نہیں آئی تھی۔
مہندی کی رسمیں شاید ادا ہو گئی تھیں بہت سی خواتین گھر سے نکل گئیں کچھ اب بھی اندر موجود تھیں سلیمان بھی اٹھ کے کہیں جا چکا تھا ریحان وہیں بیٹھا رہا۔۔
دفعتاً وہ اسے نظر آئی سرخ کامدار لباس پہنے۔۔۔ شیفون کا ہم رنگ دوپٹا اوڑھے۔۔۔ بالکونی کی لائیٹ کی روشنی میں اس کی موہنی صورت دمک رہی تھی۔۔۔ سہج سہج کر چلتی باہر آئی پھر سیڑھیاں چڑھتی دوسری منزل پہ چلی گئی ریحان کی نگاہوں نے قدم قدم پہ اس کا تعاقب کیا تھا اس نے ریحان کو نہیں دیکھا تھا شاید جلدی میں تھی۔۔
ریحان بیٹھے بیٹھے بے چین ہوا ادھر ادھر دیکھا کوئی آس پاس موجود نہیں تھا چند لمحے یوں ہی بیٹھا دل میں اٹھتی کشمکش سے لڑتا رہا پھر اٹھا اور سیڑھیوں کی طرف آیا۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اوپر آیا اوپر بس ایک ہی کمرہ تھا یہ کمرہ اکثر بند رہتا تھس ریحان نے کبھی اسے کھلا نہیں دیکھا تھا شاید آج اسے مہمانوں کے لئے کھولا گیا تھا وہ شاید اندر تھی دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔
وہ اس طرف آیا اور دہلیز پہ رک سا گیا قدم تھم سے گئے تھے وہ سامنے ہی دوسری طرف منہ کئے کھڑی تھی۔
یہ بیڈروم کے طرز پہ سجایا گیا کمرہ تھا ایک طرف مسہری پڑی ہوئی تھی سامنے ہی چند صوفے دھرے تھے جن کے آگے شیشے کی تپائی تھی کمرے میں لائٹ کی روشنی پھیلی ہوئی تھی رفعت وارڈروب کے سامنے کھڑی اس کے پٹ کھولے کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔
ریحان کی نگاہیں اس پہ ٹھہر گئیں وہ سرخ شرٹ اور سفید پاجامے میں تھی۔۔۔
ریشمی بالوں کی چوٹی کمر پہ کنڈلی مارے ہوئے تھی فٹنگ کی دیدہ زیب شرٹ نے اس کی موزوں کمر کو تھام رکھا تھا اور صحتمند کولہے پاجامے کی سختیوں سے کسمسارہے تھے جیسے احتجاج کر رہے ہوں ریحان کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں۔۔
دروازے کو آہستہ سے بند کرتا وہ اس کی طرف آیا اور عقب میں آن کھڑا ہوا آہٹ پہ رفعت ہلکی سی چونکی پلٹ کر اسے دیکھا آنکھیں پھیل گئی تھیں اسے یوں روبرو دیکھ کر۔۔۔
کیا کر رہی ہو یہاں؟ ریحان نے خمار آلود نگاہوں سے اسے دیکھا
کک کچھ نہیں۔۔۔ رفعت ہکلا کر رہ گئی۔۔۔ تم کیوں آئے ہو یہاں؟ اس سے پوچھا
ویسے ہی۔۔۔۔وہ اس کے قریب ہوا۔۔ تمھیں اوپر آتے دیکھا تو میں بھی آگیا۔۔۔ اس کی آواز بھاری ہو رہی تھی۔
میں تو یہ شال لینے آئی تھی اب نیچے جاتی ہوں۔۔۔ رفعت نے کانپتے ہاتھوں سے ایک شال نکالی نا جانے کیوں ریحان کی موجودگی اس پہ اثر انداز ہو رہی تھی گلہ سوکھنے لگا تھا۔
نہیں۔۔۔ ریحان نے شال اس کے ہاتھ سے لے لی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد چلی جانا۔۔۔ اس نے جیسے سرگوشی کی تھی پھر بازو رفعت کی کمر کے گرد لپیٹ کر اسے قریب کر لیا۔۔
ریحان۔۔۔ رفعت نے لرزتی آواز میں اسے پکارا مگر ریحان نے سنا نہیں اسے پیچھے سے پکڑ کر مسہری پہ لٹا دیا اور خود اس کے اوپر آگیا۔
وہ اوندھے منہ نرم مسہری میں دھنسی ہوئی کسمسا رہی تھی ریحان کی گرم سانسیں اس کی برہنہ گردن کو چھو رہی تھیں۔
ریحان نے تپتے ہوئے ہونٹ عقب سے اس کی دودھیا گردن پہ رکھے پھر قمیض اوپر کردی۔۔۔ اس کی دودھ کی طرح گوری کمر نمودار ہوئی تھی۔
ریحان کے ہونٹ بیتابی سے اس کے عقبی بدن پہ رینگنے لگے۔۔۔ اس کے ذائقوں سے آشنا ہونے لگے رفعت آنکھیں شدت سے بند کر گئی سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی تھی۔
ریحان نہیں پلیزززز۔۔۔۔وہ کراہی اس کی وحشت کے سامنے بے بس ہونے لگی۔
ریحان نے اپنے ہونٹ اس کی کمر کے خم پہ رکھے پھر پاجامے کے بند کھولنے لگا۔۔
نہیں۔۔۔ رفعت اس کے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ کے بولی مگر اس نے رفعت کے ہاتھ ہٹا دئیے دوسرے ہی لمحے وہ اس کا پاجامہ گھٹنوں تک سرکا چکا تھا۔
دل تھم سا گیا رفعت کا خوبصورت بدن اس کے سامنے عیاں ہوا تھا صحت مند کولہے لباس کی قید سے آزاد ہوئے تھے۔
ریحان کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی سی محسوس ہوئیں وہ سرخ رنگ کا انڈر وئیر پہنے ہوئے تھی جس نے اس کے خوبصورت بدن کو سختی سے سمیٹ رکھا تھا۔
اس نے رفعت کو نرمی سے چھوا وہ کسمسائی تھی ہونٹوں سے مدھم سسکی نکلی۔
ریحان نے آہستہ سے اس کا رخ اپنی طرف کیا پھر انڈر وئیر بھی اتار دیا۔
ریحان کا دل شدتوں سے دھڑکا نگاہیں اس کے جوان بدن کے درمیانی حصے پہ جارکی تھیں اس کے خوبصورت جسم پہ ہلکے بال تھے اور اس کےنچلے بدن کے گداز ہونٹ نظر آرہے تھے۔
ریحان نے اس کی نچلے بدن کو چھوا وہ کراہی ضبط کے بندھ ٹوٹنے لگے تھے اس نے اپنے اور اس کے کپڑے الگ کئے اور نرمی سے اس پہ سوار ہو گیا۔
آہ۔۔۔۔۔ رفعت کے ہونٹوں سے طویل کراہ نکلی ریحان نے اس کے ہونٹوں کو اپنے لبوں میں جکڑ لیا وہ لرز رہی تھی مچل رہی تھی لبوں سے رہ رہ کر کراہیں نکل رہی تھیں۔۔
نچلی منزل سے آتی مدھم آوازیں ان کی سماعتوں تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہی تھیں وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوچکے تھے۔
رفعت نے بازو سختی سے اس کی گردن میں حمائل کرکے بے اختیار اس کی گردن پہ دانت گاڑ دئیے وہ بہک رہی تھی۔
وہ اسے اک انجانی آگ میں جلا رہا تھا اس کے پور پور کو اپنی وحشت سے جھلسا رہا تھا۔کمرے کے درو دیوار دم سادھے انھیں دیکھ رہے تھے وہ بڑی دیر ایک دوسرے کی بانہوں میں سلگتے رہے۔۔کمرے میں بہکی بہکی سانسوں کی آہٹ رچی ہوئی تھی۔
+-------++++
رات کے دو بج رہے تھے شب نیلے آسمان تلے بھیگ رہی تھی ہر شے پہ اندھیرے کا غلاف چھایا ہوا تھا۔
سلیمان گھر کی چھت پہ ٹہل رہا تھا فون وہ فون کان سے لگائے دھیمی آواز میں کال پہ بات کر رہا تھا ہونٹوں پہ مسکراہٹ دوڑ تھی۔
ریچل نے کال کی تھی اور وہ اسی سے بات کرنے کے لئے بستر چھوڑ کر اوپر آیا تھا۔۔ ریچل اس کی محبوبہ تھی جس کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا وہ قریب چھ مہینے پہلے ملے تھے اور وہ اس کی زلفوں کے جال میں گرفتار ہوا تھا سبک اندام اور چنچل سی ریچل اسے بھا گئی تھی۔
ہفتے کی ہر رات اس کے ساتھ سیاہ ہو کر صبح میں بدلتی تھی تنخواہ کا بڑا حصہ بھی اس کے ناز اٹھانے میں صرف ہو جاتا تھا بدلے میں وہ اس کا "دل بہلا" دیتی تھی۔
الوداعی جملوں کے تبادلے کے بعد وہ نیچے اترنے لگا اور بیڈ روم میں آگیا رفعت کروٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی اس نے اک نخوت بھری نگاہ اس پہ ڈالی اور اس کی طرف پشت کرکے لیٹ گیا۔
رفعت میں اس کی دلچسپی نا ہونے کے برابر رہ گئی تھی وہ خوبصورت تھی مگر جو بات ریچل میں تھی وہ رفعت میں کہاں تھی ریچل کو دل لبھانے کے سارے گر آتے تھے اس نے سوچا اور مسکرایا آج مہندی کی تقریب تھی ندا کی شادی کرواکے وہ جلد ازجلد مسقط روانہ ہونا چاہتا تھا۔
ان لمحوں میں وہ بھول گیا تھا کہ ہر رشتے کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنھیں اگر پورا نا کیا جائے تو رشتوں میں دراڑیں آجاتی ہیں چور راستے نمودار ہوجاتے ہیں۔۔۔۔
رشتوں کے شجر کو اگر محبت کے پانی سے سینچا جائے تب ہی وہ پھلتا پھولتا ہے رشتوں میں بگاڑ کا بڑا سبب نا مناسب روئیے ہی ہوتے ہیں۔
کیسا لگا یہ ناول آپ کو سب کمنٹس میں بتائیں
+---------+++
ختم شد
وصل یار مکمل ہوتے ہی کہانی مکمل کردی
کچھ تشنگی باقی رہ گی لیکن اگر اسے طول دیتے تو کہانی کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی بہترین کہانی بے بے انتہاء داد کی مستحق
 

Top