- 42
- 66
- 18
گیلی پینٹ
مکمل انسیسٹ کہانی
جو محبت عزت دے کر سجائی جاتی ہے۔۔
یقین مانو وہ ہمیشہ نبھائی جاتی ہے۔۔
میں کل شام بڑی بہن ثانیہ کے ساتھ شاپنگ کرنے گیا تھا۔ بازاروں میں عید کا بہت رش لگا ہوا ہے۔ گُزرنے کی جگہ بلکل نہیں ہوتی اور اکثر موٹرسائیکلوں کی وجہ سے مشکل پیش آتی ہے۔ کل جب ہم بازار پہنچے تو میں اپنی بہن کے ساتھ چل رہا تھا۔ رش کافی تھا تو رفتار سُست تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ جیسے کوئی لڑکا ہمارا پیچھا کررہا ہو۔ میں نے بہن کی طرف دیکھا تو ایک لڑکا رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میری بہن کی گانڈ پر اپنا ہاتھ پھیررہا تھا۔ اُس نے گانڈ اور کمر ہر ہاتب سہلارہا تھا اور میری بہن بلکل نےخبر تھی۔ میں نے ثانی کو آگے کیا تو اس نے میرا ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا کہ آرام سے چلو رش کافی ہے اور وہ دوبارہ میرے پیچھے آگئی۔ وہ لڑکا قریب پانچ منٹ تک ہمارے ساتھ رہا اور اُس نے اپنا ہاتھ میری بہن کی کمر اور گانڈ پر ہی رکھا تھا مجھے شک پڑ گیا کہ میری ثانیہ اب کچھ میٹھا کھانا چاہ رہی ھے
ایسی خوبصورت بہن چاہے جتنی بار بھی بھائی کے ساتھ ہم بستری کر لے پھر بھی ہر بار جب وہ ننگی ہوتی ہے بھائی کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ نیا دیکھ رہا ہے۔
جس محبوب سے نہ ہو چمیوں کی توقع
ایسے محبوب کی گانڈ پر تھپڑوں کی برسات کر دو
میرانام حمزہ خان ھے اور ھم روالپنڈی میں رھتے ھیں میری عمر 18 برس ھے اور میری بہن جسکا نام ثانیہ خان جسکی عمر انیس برس ھے اور یہ واقعہ جو میرے ساتھ پیش آیا ابھی لاک ڈاؤن میں پیش آیا جب میں اور میرا دوست شاھد فری تھے اور اپنے ساتھ والے پلاٹ میں کرکٹ کھیلتے تھے شاھد کا ھمارے گھر آنا جانا تھا ایک دن میں نے فیس بک پر ایک گروپ میں بیوی سے زیادہ بہن وفا دار کہانی پڑھی یہ میری پہلی انسیسٹ کہانی تھی
لسٹی ویب میں پڑھی تو میرا اپنی بہن اور اپنے دوست شاھد کے بارے میں نظریہ بدل گیا یہ سب کیسے ھوا چلو پڑھتے ھیں صرف انٹرٹینمنٹ کے طور پر
ثانیہ میری اکلوتی بہن ہے جو عمر میں مجھ سے صرف ایک سال بڑی ہے میرے ابو روزگار کے سلسلے میں عرب امارات ہیں اور سال بھر میں صرف دو ماہ کے لیے آتے ہیں جن دنوں ابو گھر آئے ہوں وہ کہیں نہ کہیں ملنے ملانے کے سلسلے میں یا کسی دعوت پر گھر سے نکلے ہی رہتے ہیں امی بھی ان کے ساتھ ہی ہوتی ہیں ہم اسی صورت ساتھ جاتے اگر ہمیں ٹیوشن اور سکول سے چھٹی ہو ورنہ دونوں گھر پر ہی رہتے ہیں میری عمر 18 برس اور ثانیہ کی 19 برس ہے
ویسے تو روٹین لائف میں سکول ٹیوشن اور گھر بس یہی کچھ صبح شام ہوتا ہے میرا ایک ہی دوست ہے جس کے ساتھ زیادہ تر میں اس کے ساتھ اپنے گھر یا کبھی ان کے گھر کھیل لیتا ہوں وہ بھی اگر وقت مل جائے تو میرے دوست کا نام
شاھد ہے اور ہماری دوستی کی پورے سکول میں مثال دی جاتی ہے لیکن پچھلے چند دنوں سےشاھد کچھ الجھا الجھا سا رہنے لگا تھا اسکا دن کچھ یوں ہوا کھیلتے ہوئے شاھد گر پڑا اور اسکے بازو سے خون بہنے لگا میں بہت پریشان ہو گیا اسے جلدی سے اپنے گھر لایا بیٹھک کا دروازہ کھولا اور اسے اندر بلا لیا اسکا کچھ خون میرے کپڑوں پر بھی لگ گیا میں گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگ رہا تھا تاکہ اسے پٹی وغیرہ کرسکوں جب ثانیہ کی نظر مجھ پر پڑی اس نے سمجھا شاید چوٹ مجھے لگی ہے وہ جلدی سے پائیوڈین اٹھا لائی اور اپنا دوپٹہ ہاتھ میں پکڑ کر مجھے پوچھنے لگی خون کہاں سے نکل رہا ہے۔ وہ بہت جزباتی ہو رہی تھی میں نے بتایا نہیں چوٹ میرے دوست شاھدکو لگی ہے
کہاں ہے وہ ثانیہ چلائی
بھیٹک میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے دبک کر کہا
وہ دوڑتی ہوئی بیٹھک کی طرف بھاگی اسے جلدی سے پاہیوڈین لگائی اور اپنا ایک پرانہ دوپٹہ پھاڑ کر پٹی کردی اس دوران وہ اس پر چلاتی رہی
تمہارے امی ابو کو تو تمہارا زرا سا بھی احساس نہیں ہے تمہیں پتہ ہے اگر یہی چوٹ حمزہ کو لگتی تو میری کیا حالت ہوتی امی نے تو آسمان سر پر اٹھا لینا تھا تم الو کے پٹھے ہو ایسی جگہ کھیلتے کیوں ہو جہاں گر کر چوٹ لگ جائے
تمہیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن
حمزہ کو کچھ ہو جائے تو امی کی حالت بگڑ جاتی ہے
وہ چپ چاپ ثانیہ کی باتیں سنتا رہا جب اس نے پٹی مکمل کر دی تو مجھ سے نظریں ملائے بغیر باہر نکل گیا بس اسی دن سے مجھ سے اکھڑا اکھڑا بھی رہنے لگا اور اکثر اس بات پر میری ثانیہ سے تکرار بھی ہوجاتی وہ آگے سے کہہ دیتی
اچھا ہے ۔
علاج ہے اسکا ۔۔
کمینہ۔۔
تمہیں کچھ ہو جاتا تو۔۔
اور میں مٹھیاں بھینچ کر رہ جاتا
ثانیہ کا بیماری کی وجہ سے ایک سال ضائع ہو گیا تھا جس وجہ سے ہم ایک ساتھ ہی میٹرک میں پڑھ رہے ہیں ہمارے پیپر سر پر تھے ابو بھی گھر آئے ہوئے تھے اور اکثر امی کے ساتھ کہیں نہ کہیں دعوت پر گئے ہوتے چونکہ ہمارے پیپر نزدیک تھے اس لیے ہم دونوں کا کہیں جانا تو ناممکن تھا لہذا امی ابو ہمیں ساتھ نہیں لیکر جا رہے تھے ایک دن جب وہ دعوت پر گئے ہوئے تھے امی نے ثانیہ کو فون کر کے بتایا کہ ہم آج نہیں آہیں گے آپ لوگ کھانا وغیرہ کھا کر سو جانا صبح وقت پر ٹیوشن چلے جانا کھیل کود میں وقت برباد مت کرنا مزید کچھ گھر کے کاموں کے بارے میں تاکید کر کے فون بند کردیا میں بھی پاس بیٹھا سن رہا تھا۔
امی کا فون سنتے ہی میں نے کتاب بند کی اور باہر کی طرف بھاگا ثانیہ مجھے روکنے کی غرض سے میرے پیچھے بھاگی لیکن میں دروازہ پھلانگ چکا تھا اس نے جوتی نہیں پہنی تھی لہذا دروازے سے ہی مجھے آوازیں دینے لگی۔
حمزہ واپس آ جا نہیں تو امی سے شکایت کردوں گی۔ لیکن میں کب پیچھے دیکھنے والا تھا اسی دوران گلی کی نکڑ سے
شاھد بھی برامد ہوا ثانیہ نے
شاھد کو دیکھا تو اسے آواز دی
اوئے الاکہ رازا زرقہ وا۔۔۔۔ حمزہ کو لیکر ادھر آ۔
وہ رک کر ہماری طرف دیکھنے لگ گیا ثانیہ نے ایک دوبار مزید اسے کہا تو وہ بجائے ہماری طرف بڑھنے کے واپس مڑنے لگا تب ثانیہ نے اسے پھر پکارا
شاھد۔۔۔! میری بات سن کر جاؤ پلیززز
اب کی بار وہ رک گیا اور واپس ہماری طرف دیکھنے لگا
شاھد آجاؤ ایک کام ہے پلیز کچھ نہیں کہوں گی اب کی بار وہ چپ چاپ ہماری طرف بڑھنے لگا جب میرے پاس پہنچا تو بغیر سلام لیے میرا ہاتھ پکڑا ثانیہ ابھی تک دروازے میں کھڑی تھی اور وہ مجھے لیکر اسی طرف بڑھنے لگا جب ہم قریب پہنچے تو ثانیہ جلدی سے اندر گئی بھیٹک کا دروازہ کھول کر وہاں کھڑی ہوگئی ہم قریب پہنچے تو
شاھدنے میرا ہاتھ ثانیہ کی طرف اچھالتے ہوئے کہا ۔۔ جی بتاو کیا کام ہے
تیری زلفوں کو سنوارو میں رات چاندنی میں
اور اس پہ تیرے کندھے کا وہ تل نمایاں کروں °
شاھد میں نے جو تمہیں ڈانٹا تھا.! اسی وجہ سے ناراض ہو ناں تم مجھ سے
نہیں مجھے کیا پڑی ہے ناراض ہوں تم کام بتاو اس نے سردمہری سے کہا
اندر آو دونوں ۔۔ ثانیہ نے بھی زرا کرخت لہجے میں کہا
شاھد کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف کھینچا اور کہا یار اب تو آجاو بس بھی کر دو اتنی بھی کیا ناراضگی اب نہیں ڈانٹے گی۔
ہاں قسم سے وعدہ اب نہیں کہوں گی کچھ بھی ثانیہ نے میرا ساتھ دیا
وہ اندر تو آ گیا لیکن جیسے کسی بات سے گھبرایا ہوا ہو وہ چور نظروں سے کبھی میری طرف دیکھتا کبھی ثانیہ کی طرف دیکھتا اور پھر نظریں جھکا لیتا ثانیہ کچھ دیر تک ہمیں دیکھتی رہی پھر کہنے لگی تم دونوں بیٹھو میں کچھ بنا کر لاتی ہوں
اور ہاں
شاھد۔۔۔! اب یہ منہ لٹکانا چھوڑ دو اس دن پریشان ہو گئی تھی اس وجہ سے میں اول فول بول گئی وہ مڑتے ہوئے پھر بولی میں بس آئی۔
میں نے شاھد کو کھینچ کر صوفے پر بٹھایا کچھ ہی دیر میں ثانیہ بھی ملک شیک بنا کر لے آئی ہمیں ایسے چپ چاپ بیٹھا دیکھ کر بولی یہاں فوتگی پر نہیں آئے ہوئے جو ایسے چپ چاپ بیٹھے ہو پتہ ہے حمزہ روز مجھ سے لڑتا ہے کہ تمہاری وجہ سے شاھد مجھ سے ناراض ہو گیا ہے تو میں نے سوچا تمہیں راضی کروا دوں اسکی نظریں شاید کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں
نہیں میں نہیں ناراض شاھدنے جواب دیا
بات تو تم کرتے نہیں اب اکھٹے کھیلتے بھی نہیں یہ ناراضگی نہیں تو اور کیا ہے
ثانیہ قسم سے میں نہیں ناراض شاھد نے زور دے کر کہا ساتھ ہی ثانیہ کھل کھلا کر مسکرا دی
اوئے ہوئے اوئے ہوئے۔۔۔۔
ایک بار پھر کہو ثانیہ نے اسکے بالوں میں ہاتھ مارتے ہو اسکی مانگ خراب کر دی شاھد نے سر کو پیچھے جھٹکا دیا اور پھر ہاتھوں سے اپنی مانگ بنانے لگا شاھد نے جلدی سے جوس ختم کیا اور اٹھتے ہوئے کہا مجھے گھر جانا ہے ابھی بہت تیاری بھی کرنی ہے امتحان سر پر ہیں اور پہلا پیپر ہی مطالعہ پاکستان کا ہے جو مجھے سب سے مشکل لگتا ہے تاریخیں ہی یاد نہیں رہتیں
میرا دل چاہ رہا تھا وہ ہمارے پاس ہی رکے میں نے اسے کہا آج امی ابو بھی گھر نہیں ہیں تم کتابیں اٹھا لاو یہیں پر ہی پڑھتے ہیں ۔
ہاں یہ صحیح ہے حمزہ تم ساتھ جاو شاھد کی بکس اٹھانے اور ساتھ اسکی امی کو بھی بتا آنا ہم تینوں پڑھیں گے یہ سنتے ہی شاھد کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور جلدی سے دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
ہاں یہ بہت زبردست آئیڈیا ہے وہ چہک کر بولا
میں اسکے ساتھ گیا ہم کتابیں اٹھا لائے شاھد کی امی سے اجازت بھی لے لی انہیں بھی یہ تو پتہ نہیں تھا کہ ہمارے امی ابو گھر نہیں ہیں اسلیے انہوں نے آسانی سے اجازت دے دی
ھم واپس پہنچے تو ثانیہ چائے لیکر بھیٹک میں ہمارا انتظار کر رہی تھی ہم اندر داخل ہوئے ثانیہ نے ہمیں چائے کے کپ پکڑائے اور خود بچی ھوئی چائے کی چسکی لیتے ہوئے شاھد کی طرف دیکھا اور بولی
اوئے ہوئے پھر سے بال شال بنا کر لے آئے ہو
لیکن میں تو سیدھے بالوں کی دشمن ہوں شاھد مسکرا دیا اور ثانیہ نے جلدی سے دوبارہ اسکے بال خراب کر دیے چائے پینے کے بعد ہم گپوں میں ایسے مصروف ہوئے ہمیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ ہم تو سبق پڑھنے کے لیے اکھٹے ہوئے تھے
ثانیہ چہک رہی تھی اور میں محسوس کر سکتا تھا وہ میرے دوست شاھد میں بہت دلچسپی لے رہی ہے وہ جب بھی شاھد کے ساتھ کوئی شرارت کرتی مجھے ایک دلچسپ خوشی کا احساس ہوتا لیکن ساتھ میں یہ بھی محسوس کر سکتا تھا کہ وہ دونوں میری وجہ سے کافی جھجھک رہے تھے میری اتھری گھوڑی شاید گھوڑا مانگتی تھی
میں چاہتا تھا کسی طریقے سے ان کی جھجھک دور کردوں پھر اچانک مجھے لڈو کا خیال آیا میں وہ نکال لایا اور اسطرح ہم لڈو کھیلنے لگے میں نے اصول بتاتے ہوئے اپنے دل کی بات بھی کہہ دی
کہ اس دوران جب ہم یہاں ہیں کوئی کسی کا لحاظ نہیں رکھے گا نہ میں ثانیہ کی گوٹی اس وجہ سے نظر انداز کروں گا کہ یہ میری بہن ہے نہ شاھد کسی قسم کا لحاظ کرے گا بس یوں سمجھو آج ہم تینوں خود کے لیے آزاد ہیں جس کا جو جی حاصل کرے یا گنوا دے اسکی اپنی ہمت ہم نے لڈو شروع کی اور ہر بار ثانیہ ہار جاتی وہ شور مچاتی روہانسی ہو جاتی ایک دو بار تو غصے میں اس نے لڈو ہی پلٹ دی البتہ ایک بات بہت اچھی ہوئی کہ شاھد اور ثانیہ میری موجودگی کی جھجھک سے آزاد ہو گئے کتنی بار ثانیہ نے شاھد کے گال پہ چٹکی کاٹی اور اسے نخریلا اور نوابزادہ کہہ کر پکارا اور کبھی ایسا ہوا کہ شاھد نے اسے ہلکی سی گال پر چپت لگاتے ہوئے کتی کہہ کر پکارا
اب کی بار شاھد نے ایک اور کھیل متعارف کرایا
ہم لڈو کا دانہ اچھالیں گے اور ایک سے چھ کے درمیان ایک نمبر چنیں گے جس کا آ گیا وہ جیت گیا
اور جیتنے والا ہارنے والوں سے کوئی بھی فرمائش کر سکتا ہے اور اسکو بھی پھر پورا کرنا پڑیگا
ہاں یہ ٹھیک ہے ثانیہ بھی خوشی سے بولی کیونکہ اس میں میرے بھی جیتنے کے چانسز بن جائیں گے
اور بچو پھر میں خوب بدلے لوں گی آپ دونوں سے اس نے شاھد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
او پہلے ہی یہ دیکھ میری شرٹ کا بٹن توڑ دیا ہے اور کیا بدلہ لینا ہے شاھد نے ہنس کر اپنے ٹوٹے بٹن کی جگہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
وہ تو تم دیکھنا بچو تمہاری شرٹ جاتی کہاں وہ چہک کر بولی
چلو اپنا اپنا نمبر بولو میں نے دانہ اوپر اچھالتے ہوئے کہا
شاھد: تین
ثانیہ : پانچ
میں نے ایک بولا اور دانہ اوپر اچھال دیا وہاں چھ آیا ہم تینوں ایک ساتھ ہنس دیے دوبارہ اچھالا تو تین آ گیا شاھد زور سے ہنسا
ثانیہ میرے بال سیدھے کرے حمزہ کنگھی لے کر آئے میں جلدی سے کنگھی اٹھا لایا ثانیہ نے اسکے بالوں میں پھیرتے ہوئے کہا
کوئی بات نہیں بچو دیکھنا ہوتا کیا تمہارے ساتھ
پھر اچھالا اس بار ثانیہ جیت گئی
حمزہ تم شاھد کی شرٹ اتارو اور شاھد تم اپنے بال خود خراب کرو وہ زور زور سے ہنس رہی تھی
نہیں نہیں نہیں ۔۔۔ میں نے نیچے بنیان بھی نہیں پہنی ہوئی یہ نہیں کچھ اور بتاو شاھد نے ہنستے ہنستے کہا
ناں جی جو بس جو کہا ہے کرنا ہے میں کروں پہن کر آتے ناں۔ چلو شاباش جلدو کرو دونوں
میں شاھد کی شرٹ اتارنے لگا اور شاھد نے خود کے بال خراب کرتے ہوئے کہا کوئی بات نہیں الله پوچھے گا۔ جب اسکی شرٹ اتر گئی تو ثانیہ نے دیکھا شاھد کے کالے انڈرویر کا اوپری حصہ تھوڑا سا پینٹ سے باہر نظر آ رہا تھا وہ قہقہ لگاتے ہوئے کہنے لگی شکر کرو انڈرویر پہنا ہوا ہے۔
میں بھی قہقہ لگا کر ہنس دیا اگلی بار شاھد جیتا تو جیسے اسکی لاٹری لگ گئی ہو اس نے بہت شرارت آمیز نظروں سے ثانیہ کی طرف دیکھا پھر تھوڑا مسکرا کر مجھے مخاطب کیا اور بولا تم بھی اپنی شرٹ اتار ہی دو حمزہ۔ میں نے فوراً اپنی شرٹ اتار دی
اب میں کیا کروں ثانیہ نے اس سے پوچھا ثانیہ کی آنکھوں میں شرارت بھری ہوئی تھی اور وہ مسکرا رہی تھی
تم۔۔۔۔ تم حمزہ کی بنیان اتار دو کم از کم میرے برابر کا تو رہے ثانیہ نے لپک کر میری بنیان اتارتے ہوئے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
اب میں نے ایک بھرپور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ ثانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں
اب کیا آئے گا۔۔۔
اس نے میری گال پر ہتھیلی سے دباو ڈالا
میری آنکھوں کا رخ اپنے چہرے سے ہٹا دیا
اچھا اچھالو جو بھی ہو گا سامنے آ جائے گا ثانیہ نے کہا۔
ہاں جی۔۔۔۔۔ بہت کچھ سامنے آنے والا ہے ہاہاہاہا میں زور سے ہنسا میں نے لڈو کا دانہ اچھالا چھ آیا یہ ثانیہ نے چنا ہوا تھا وہ آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی ایک دم اچھلی زور زور اور اچھل کر قہقہے لگانے لگی جبکہ وہ مجھے ٹھینگہ بھی ساتھ ہی دکھا رہی تھی
کوئی مسئلہ نہیں بازی پلٹتے دیر نہیں لگتی میں چھینپ سا گیا
شاھد تم اٹھو میرے لیے پانی لیکر آو اور حمزہ تم اپنی شرٹ سے میرے جوتے صاف کرو شاھد جیسے ہی باہر نکلا ثانیہ نے میری طرف بہت پیاس بھری نگاہوں سے دیکھا جیسے کوئی التجا کر رہی ہو میں اسکی التجا کو سمجھ سکتا تھا وہ کتنی ہی بار پیاسی نظروں سے شاھد کی چھاتی کی طرف دیکھ چکی تھی اب کی بار جیت میری ہوئی اور اب وقت آ گیا تھا میں ثانیہ کی پیاسی نظروں کا جواب دوں
گردنیں کون جھکاتا ہے محبت میں
یار سینے سے لگانے کیلئے ہوتے ہیں
میں نے قریب پڑی ثانیہ کی لپ اسٹک شاھد کو تھمائی اور کہا ثانیہ کو لپ اسٹک لگاو
اس نے لگا دی تو لیکن اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے اب میں نے ثانیہ سے کہا شاھد کی چھاتی پر کس کر کے اپنے ہونٹوں کے نشان بناؤ ثانیہ چند لمحے تذبذب میں مجھے دیکھتی رہی میں نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ دے دیا کہ وہ جیسے چاہے میرے جذبات سے کھیلے وہ گھٹنوں کے بل اٹھی اور اپنے ہونٹ شاھد کی چھاتی پر چسپاں کردیے واؤ کیا بات ھے دو پریمیوں کی میں نے ثانیہ کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور نیچے ہپس تک لے آیا وہ چل سی گئی اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی شاھد اور ثانیہ کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں
اب کی بار شاھد جیتا تو اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کیا کرے وہ خاموش رہا ہم نے اسے کہا بھی کہ کوئی فرمائش کرے نہیں تو ہم دونوں ایک ساتھ تم سے فرمائش کریں گے وہ پھر بھی خاموش ہی رہا۔
پھر دھیرے سے بولا حمزہ یار اس دفعہ میری طرف سے تم بولو۔ کوئی بھی بول دو مجھے سب منظور ھے تو میں سمجھ گیا کہ دونوں سیکس کرنا چاہ رھے ھیں پر ڈر رھے ھیں کیونکہ اس دن ثانیہ باجی کی گیلی پینٹ دیکھ کر میرا کھڑا لن ثانیۂ آپی شرما گئ تھی شہوت اس پر بھی حاوی تھی کچھ دنوں سے
کچھ سو چ کر میں بولا اچھا۔ ثانیہ تم اپنی شرٹ اتارو میں نے کہا وہ بھی جلدی
ثانیہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر آہ بھری یہ کیا بدتمیزی ہے۔یارا مہ کوا دا ناستے
کیوں جب ہماری شرٹس اتروائی تھیں تب کوئی بدتمیزی نہیں تھی؟ تم دو مردوں کے ساتھ کھیل رہی ہو۔
چل اوئے بڑا مرد کمینے بھائی ہو تم میرے
نہیں یہ پہلے طے ہوا تھا کوئی لحاظ نہیں
شاھد میں بھی اتار دوں؟ اب ثانیہ نے شاھد کی طرف دیکھ کر پوچھا
مجھے کیا پتہ شاھد نے جواب دیا
نہیں نہیں بتاو تم شاھد ثانیہ نے ضد کی
تو شاھد بولا برا پہنی ہے تو ثانی بولی ہاں وہ پہنی ہی ھے شاھد تو اتار دو
اب کی بار ثانیہ نے اپنی قمیض اتار دی اس نے کالے رنگ کا بریزیر پہنا تھے جس کے اندر دودھیا ابھار غضب ڈھا رہے تھے ثانی کی چھلے جیسی گوری ناف اسکے پیٹ کو چار چاند لگارہی تھی جسے دیکھ کر شاھد کی پینٹ کے اندر حرکت ہوئی اسکی پینٹ مزید گیلی ھو گئ تو ثانیہ دیکھ کر ہنسنے لگی
یہ کیا ہے اس نے ہلکی سی تھپکی لگائی
باہر نکالو اسے مجھے دیکھنا ہے ثانیہ نے پینٹ کے اوپر سے ہاتھ پھیرا شاھد جھجھک رہا تھا میں نے بڑھ کر اسکی بیلٹ کھول دی اسی لمحے ثانیہ نے میری بیلٹ کھولتے ہو کہا کمینے اسے ننگا کرتا ہے خود بھی ہو ناں میں گھٹنوں کے بل کھڑا ہوا تو میری پینٹ سرک گئی شاھد ایسے میری طرح کھڑے ہو میں نے اسے کہا تو وہ بھی ویسے ہی گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا ثانیہ ہمارے سامنے بیٹھی تھی اس نے شاھد کی پینٹ بھی نیچے کی اور ایک ایک ہاتھ ہم دونوں کے انڈرویر پر پھیرنا شروع کردیے
میں نے اپنا ایک ہاتھ شاھد کی کمر پر رکھا اور وہیں سے اسکا انڈرویر نیچے کھسکا دیا
تانیہ ابھی تک شرارت کے موڈ میں تھی اور ہنستے ہوئے کہنے لگی بت بن کر میرے سامنے کیوں کھڑے ہو حمزہ تم شاھد کو گلے لگاو تمہاری ناراضگی ختم کروں گی آج
میں نے بانہیں پھیلا کر شاھد کو گلے لگا لیا اسکا سینہ میرے سینے کے ساتھ جڑا ہوا تھا ثانیہ نے ہم دونوں کی کمر پر اپنا ہاتھ پھیرا
پھر شاھد کے سر سے پیچھے بالوں میں ہاتھ ڈال کر اسکا چہرہ اپنی طرف موڑتے ہی اسکی آنکھوں پر پیار دیا تمہاری یہ بلی آنکھیں مجھے بہت زیادہ پسند ہیں حالانکہ تم بلی آنکھوں والے مرد بیوفا ہوتے ہو شاھد
میں ابھی مرد کہاں ثانیہ۔
کیا کیا کیا کیا
کیا کہا زرا دوبارہ کہو
میں ابھی مرد کہاں شاھد دوبرگویا ہوا
نہیں آخر میں جو تم نے میرا نام لیا دوبارہ لو
اس نے صرف ثانیہ کہا۔
ثانیہ نے جھٹ سے اسے اپنے ساتھ چپکا لیا اور پھر ایک جھٹکے سے چھوڑ دیا
جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو دراصل اس نے قمیض نہیں پہن رکھی تھی اب کی بار شاھد نے ثانیہ کے ابھاروں کو غور سے دیکھا وہاں ایک کالا تل تھا شاھد نے اس کی طرف انگلی بڑھائی ثانیہ نے بھی فوراً نیچے دیکھا اور ساتھ شاھد کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن پھر بھی شاھد نے اپنا ہاتھ ثانیہ کے ابھار پر بنے تل تک لے گیا اور اپنی انگلی وہاں گھمانی شروع کر دی
میں دیکھ سکتا تھا ثانیہ کے سرکنڈے کھڑے ہو گئے اس نے ایک شدید جھرجھری لی اور شاھد نذیر کو نیچے گراتے ہوئے اس کے اوپر گر گئی اسکا سر شاھد کے پیٹ پر تھا
مجھے ایک دم ایسے محسوس ہوا جیسے ثانیہ بے ہوش ہو گئی ہو میں نے جلدی سے ثانیہ کا منہ پکڑ کر ہلایا اور پریشانی میں اسے پکارنے لگا
کچھ دیر اس نے برداشت کی پھر آنکھیں کھول کر میرا ہاتھ جھٹک دیا
پاگل۔۔۔ ساتھ وہ زور سے چلائی بھی پھر دوبارہ اپنا سر شاھد کے پیٹ پر رکھتے ہوئے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
اب کی بار اس نے ناک سے ایک لمبی سانس اندر کھینچی جیسے وہ شاھد کے جسم سے اٹھتی گرمی کو اپنے اندر اتار رہی ہو
میں اٹھ کر ثانیہ کی ٹانگوں کی طرف آ گیا اسکی شلوار ہلکی سی نیچے کی جس سے اسکے آدھے ہپس ننگے ہو گئے اب میں ان پر زبان پھیرتا ہوا ثانیہ کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور ساتھ ہی ثانیہ کی برا کی ہک بھی کھول دی
اس نے خود کو ہلکا سا سہارا دیا برا ایک طرف کالین پر پھینکی اور دوبارہ شاھد کے پیٹ پر سر رکھ دیا جبکہ شاھد ثانیہ کے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا شاھد نے ثانیہ کے دونوں بازووں میں ہاتھ ڈال کر اسے اوپر کھینچ لیا ثانیہ کے بال بکھر چکے تھے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالیں اپنی زبانیں لڑا رہے تھے اور شاھد نے ثانیہ کے ممے مسلنا شرو ع کر دیئے تھے اور ثانیہ بھی اب مست ھو گئ تھی وہ شرماتے ھوئے بولی تم دونوں میں سے کس کا بڑا ھے تو میں بولا شاھد کا بڑا ھے میرا تھوڑاچھوٹا ھے لیں
مکمل انسیسٹ کہانی
جو محبت عزت دے کر سجائی جاتی ہے۔۔
یقین مانو وہ ہمیشہ نبھائی جاتی ہے۔۔
میں کل شام بڑی بہن ثانیہ کے ساتھ شاپنگ کرنے گیا تھا۔ بازاروں میں عید کا بہت رش لگا ہوا ہے۔ گُزرنے کی جگہ بلکل نہیں ہوتی اور اکثر موٹرسائیکلوں کی وجہ سے مشکل پیش آتی ہے۔ کل جب ہم بازار پہنچے تو میں اپنی بہن کے ساتھ چل رہا تھا۔ رش کافی تھا تو رفتار سُست تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ جیسے کوئی لڑکا ہمارا پیچھا کررہا ہو۔ میں نے بہن کی طرف دیکھا تو ایک لڑکا رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میری بہن کی گانڈ پر اپنا ہاتھ پھیررہا تھا۔ اُس نے گانڈ اور کمر ہر ہاتب سہلارہا تھا اور میری بہن بلکل نےخبر تھی۔ میں نے ثانی کو آگے کیا تو اس نے میرا ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا کہ آرام سے چلو رش کافی ہے اور وہ دوبارہ میرے پیچھے آگئی۔ وہ لڑکا قریب پانچ منٹ تک ہمارے ساتھ رہا اور اُس نے اپنا ہاتھ میری بہن کی کمر اور گانڈ پر ہی رکھا تھا مجھے شک پڑ گیا کہ میری ثانیہ اب کچھ میٹھا کھانا چاہ رہی ھے
ایسی خوبصورت بہن چاہے جتنی بار بھی بھائی کے ساتھ ہم بستری کر لے پھر بھی ہر بار جب وہ ننگی ہوتی ہے بھائی کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ نیا دیکھ رہا ہے۔
جس محبوب سے نہ ہو چمیوں کی توقع
ایسے محبوب کی گانڈ پر تھپڑوں کی برسات کر دو
میرانام حمزہ خان ھے اور ھم روالپنڈی میں رھتے ھیں میری عمر 18 برس ھے اور میری بہن جسکا نام ثانیہ خان جسکی عمر انیس برس ھے اور یہ واقعہ جو میرے ساتھ پیش آیا ابھی لاک ڈاؤن میں پیش آیا جب میں اور میرا دوست شاھد فری تھے اور اپنے ساتھ والے پلاٹ میں کرکٹ کھیلتے تھے شاھد کا ھمارے گھر آنا جانا تھا ایک دن میں نے فیس بک پر ایک گروپ میں بیوی سے زیادہ بہن وفا دار کہانی پڑھی یہ میری پہلی انسیسٹ کہانی تھی
لسٹی ویب میں پڑھی تو میرا اپنی بہن اور اپنے دوست شاھد کے بارے میں نظریہ بدل گیا یہ سب کیسے ھوا چلو پڑھتے ھیں صرف انٹرٹینمنٹ کے طور پر
ثانیہ میری اکلوتی بہن ہے جو عمر میں مجھ سے صرف ایک سال بڑی ہے میرے ابو روزگار کے سلسلے میں عرب امارات ہیں اور سال بھر میں صرف دو ماہ کے لیے آتے ہیں جن دنوں ابو گھر آئے ہوں وہ کہیں نہ کہیں ملنے ملانے کے سلسلے میں یا کسی دعوت پر گھر سے نکلے ہی رہتے ہیں امی بھی ان کے ساتھ ہی ہوتی ہیں ہم اسی صورت ساتھ جاتے اگر ہمیں ٹیوشن اور سکول سے چھٹی ہو ورنہ دونوں گھر پر ہی رہتے ہیں میری عمر 18 برس اور ثانیہ کی 19 برس ہے
ویسے تو روٹین لائف میں سکول ٹیوشن اور گھر بس یہی کچھ صبح شام ہوتا ہے میرا ایک ہی دوست ہے جس کے ساتھ زیادہ تر میں اس کے ساتھ اپنے گھر یا کبھی ان کے گھر کھیل لیتا ہوں وہ بھی اگر وقت مل جائے تو میرے دوست کا نام
شاھد ہے اور ہماری دوستی کی پورے سکول میں مثال دی جاتی ہے لیکن پچھلے چند دنوں سےشاھد کچھ الجھا الجھا سا رہنے لگا تھا اسکا دن کچھ یوں ہوا کھیلتے ہوئے شاھد گر پڑا اور اسکے بازو سے خون بہنے لگا میں بہت پریشان ہو گیا اسے جلدی سے اپنے گھر لایا بیٹھک کا دروازہ کھولا اور اسے اندر بلا لیا اسکا کچھ خون میرے کپڑوں پر بھی لگ گیا میں گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگ رہا تھا تاکہ اسے پٹی وغیرہ کرسکوں جب ثانیہ کی نظر مجھ پر پڑی اس نے سمجھا شاید چوٹ مجھے لگی ہے وہ جلدی سے پائیوڈین اٹھا لائی اور اپنا دوپٹہ ہاتھ میں پکڑ کر مجھے پوچھنے لگی خون کہاں سے نکل رہا ہے۔ وہ بہت جزباتی ہو رہی تھی میں نے بتایا نہیں چوٹ میرے دوست شاھدکو لگی ہے
کہاں ہے وہ ثانیہ چلائی
بھیٹک میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے دبک کر کہا
وہ دوڑتی ہوئی بیٹھک کی طرف بھاگی اسے جلدی سے پاہیوڈین لگائی اور اپنا ایک پرانہ دوپٹہ پھاڑ کر پٹی کردی اس دوران وہ اس پر چلاتی رہی
تمہارے امی ابو کو تو تمہارا زرا سا بھی احساس نہیں ہے تمہیں پتہ ہے اگر یہی چوٹ حمزہ کو لگتی تو میری کیا حالت ہوتی امی نے تو آسمان سر پر اٹھا لینا تھا تم الو کے پٹھے ہو ایسی جگہ کھیلتے کیوں ہو جہاں گر کر چوٹ لگ جائے
تمہیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن
حمزہ کو کچھ ہو جائے تو امی کی حالت بگڑ جاتی ہے
وہ چپ چاپ ثانیہ کی باتیں سنتا رہا جب اس نے پٹی مکمل کر دی تو مجھ سے نظریں ملائے بغیر باہر نکل گیا بس اسی دن سے مجھ سے اکھڑا اکھڑا بھی رہنے لگا اور اکثر اس بات پر میری ثانیہ سے تکرار بھی ہوجاتی وہ آگے سے کہہ دیتی
اچھا ہے ۔
علاج ہے اسکا ۔۔
کمینہ۔۔
تمہیں کچھ ہو جاتا تو۔۔
اور میں مٹھیاں بھینچ کر رہ جاتا
ثانیہ کا بیماری کی وجہ سے ایک سال ضائع ہو گیا تھا جس وجہ سے ہم ایک ساتھ ہی میٹرک میں پڑھ رہے ہیں ہمارے پیپر سر پر تھے ابو بھی گھر آئے ہوئے تھے اور اکثر امی کے ساتھ کہیں نہ کہیں دعوت پر گئے ہوتے چونکہ ہمارے پیپر نزدیک تھے اس لیے ہم دونوں کا کہیں جانا تو ناممکن تھا لہذا امی ابو ہمیں ساتھ نہیں لیکر جا رہے تھے ایک دن جب وہ دعوت پر گئے ہوئے تھے امی نے ثانیہ کو فون کر کے بتایا کہ ہم آج نہیں آہیں گے آپ لوگ کھانا وغیرہ کھا کر سو جانا صبح وقت پر ٹیوشن چلے جانا کھیل کود میں وقت برباد مت کرنا مزید کچھ گھر کے کاموں کے بارے میں تاکید کر کے فون بند کردیا میں بھی پاس بیٹھا سن رہا تھا۔
امی کا فون سنتے ہی میں نے کتاب بند کی اور باہر کی طرف بھاگا ثانیہ مجھے روکنے کی غرض سے میرے پیچھے بھاگی لیکن میں دروازہ پھلانگ چکا تھا اس نے جوتی نہیں پہنی تھی لہذا دروازے سے ہی مجھے آوازیں دینے لگی۔
حمزہ واپس آ جا نہیں تو امی سے شکایت کردوں گی۔ لیکن میں کب پیچھے دیکھنے والا تھا اسی دوران گلی کی نکڑ سے
شاھد بھی برامد ہوا ثانیہ نے
شاھد کو دیکھا تو اسے آواز دی
اوئے الاکہ رازا زرقہ وا۔۔۔۔ حمزہ کو لیکر ادھر آ۔
وہ رک کر ہماری طرف دیکھنے لگ گیا ثانیہ نے ایک دوبار مزید اسے کہا تو وہ بجائے ہماری طرف بڑھنے کے واپس مڑنے لگا تب ثانیہ نے اسے پھر پکارا
شاھد۔۔۔! میری بات سن کر جاؤ پلیززز
اب کی بار وہ رک گیا اور واپس ہماری طرف دیکھنے لگا
شاھد آجاؤ ایک کام ہے پلیز کچھ نہیں کہوں گی اب کی بار وہ چپ چاپ ہماری طرف بڑھنے لگا جب میرے پاس پہنچا تو بغیر سلام لیے میرا ہاتھ پکڑا ثانیہ ابھی تک دروازے میں کھڑی تھی اور وہ مجھے لیکر اسی طرف بڑھنے لگا جب ہم قریب پہنچے تو ثانیہ جلدی سے اندر گئی بھیٹک کا دروازہ کھول کر وہاں کھڑی ہوگئی ہم قریب پہنچے تو
شاھدنے میرا ہاتھ ثانیہ کی طرف اچھالتے ہوئے کہا ۔۔ جی بتاو کیا کام ہے
تیری زلفوں کو سنوارو میں رات چاندنی میں
اور اس پہ تیرے کندھے کا وہ تل نمایاں کروں °
شاھد میں نے جو تمہیں ڈانٹا تھا.! اسی وجہ سے ناراض ہو ناں تم مجھ سے
نہیں مجھے کیا پڑی ہے ناراض ہوں تم کام بتاو اس نے سردمہری سے کہا
اندر آو دونوں ۔۔ ثانیہ نے بھی زرا کرخت لہجے میں کہا
شاھد کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف کھینچا اور کہا یار اب تو آجاو بس بھی کر دو اتنی بھی کیا ناراضگی اب نہیں ڈانٹے گی۔
ہاں قسم سے وعدہ اب نہیں کہوں گی کچھ بھی ثانیہ نے میرا ساتھ دیا
وہ اندر تو آ گیا لیکن جیسے کسی بات سے گھبرایا ہوا ہو وہ چور نظروں سے کبھی میری طرف دیکھتا کبھی ثانیہ کی طرف دیکھتا اور پھر نظریں جھکا لیتا ثانیہ کچھ دیر تک ہمیں دیکھتی رہی پھر کہنے لگی تم دونوں بیٹھو میں کچھ بنا کر لاتی ہوں
اور ہاں
شاھد۔۔۔! اب یہ منہ لٹکانا چھوڑ دو اس دن پریشان ہو گئی تھی اس وجہ سے میں اول فول بول گئی وہ مڑتے ہوئے پھر بولی میں بس آئی۔
میں نے شاھد کو کھینچ کر صوفے پر بٹھایا کچھ ہی دیر میں ثانیہ بھی ملک شیک بنا کر لے آئی ہمیں ایسے چپ چاپ بیٹھا دیکھ کر بولی یہاں فوتگی پر نہیں آئے ہوئے جو ایسے چپ چاپ بیٹھے ہو پتہ ہے حمزہ روز مجھ سے لڑتا ہے کہ تمہاری وجہ سے شاھد مجھ سے ناراض ہو گیا ہے تو میں نے سوچا تمہیں راضی کروا دوں اسکی نظریں شاید کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں
نہیں میں نہیں ناراض شاھدنے جواب دیا
بات تو تم کرتے نہیں اب اکھٹے کھیلتے بھی نہیں یہ ناراضگی نہیں تو اور کیا ہے
ثانیہ قسم سے میں نہیں ناراض شاھد نے زور دے کر کہا ساتھ ہی ثانیہ کھل کھلا کر مسکرا دی
اوئے ہوئے اوئے ہوئے۔۔۔۔
ایک بار پھر کہو ثانیہ نے اسکے بالوں میں ہاتھ مارتے ہو اسکی مانگ خراب کر دی شاھد نے سر کو پیچھے جھٹکا دیا اور پھر ہاتھوں سے اپنی مانگ بنانے لگا شاھد نے جلدی سے جوس ختم کیا اور اٹھتے ہوئے کہا مجھے گھر جانا ہے ابھی بہت تیاری بھی کرنی ہے امتحان سر پر ہیں اور پہلا پیپر ہی مطالعہ پاکستان کا ہے جو مجھے سب سے مشکل لگتا ہے تاریخیں ہی یاد نہیں رہتیں
میرا دل چاہ رہا تھا وہ ہمارے پاس ہی رکے میں نے اسے کہا آج امی ابو بھی گھر نہیں ہیں تم کتابیں اٹھا لاو یہیں پر ہی پڑھتے ہیں ۔
ہاں یہ صحیح ہے حمزہ تم ساتھ جاو شاھد کی بکس اٹھانے اور ساتھ اسکی امی کو بھی بتا آنا ہم تینوں پڑھیں گے یہ سنتے ہی شاھد کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور جلدی سے دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
ہاں یہ بہت زبردست آئیڈیا ہے وہ چہک کر بولا
میں اسکے ساتھ گیا ہم کتابیں اٹھا لائے شاھد کی امی سے اجازت بھی لے لی انہیں بھی یہ تو پتہ نہیں تھا کہ ہمارے امی ابو گھر نہیں ہیں اسلیے انہوں نے آسانی سے اجازت دے دی
ھم واپس پہنچے تو ثانیہ چائے لیکر بھیٹک میں ہمارا انتظار کر رہی تھی ہم اندر داخل ہوئے ثانیہ نے ہمیں چائے کے کپ پکڑائے اور خود بچی ھوئی چائے کی چسکی لیتے ہوئے شاھد کی طرف دیکھا اور بولی
اوئے ہوئے پھر سے بال شال بنا کر لے آئے ہو
لیکن میں تو سیدھے بالوں کی دشمن ہوں شاھد مسکرا دیا اور ثانیہ نے جلدی سے دوبارہ اسکے بال خراب کر دیے چائے پینے کے بعد ہم گپوں میں ایسے مصروف ہوئے ہمیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ ہم تو سبق پڑھنے کے لیے اکھٹے ہوئے تھے
ثانیہ چہک رہی تھی اور میں محسوس کر سکتا تھا وہ میرے دوست شاھد میں بہت دلچسپی لے رہی ہے وہ جب بھی شاھد کے ساتھ کوئی شرارت کرتی مجھے ایک دلچسپ خوشی کا احساس ہوتا لیکن ساتھ میں یہ بھی محسوس کر سکتا تھا کہ وہ دونوں میری وجہ سے کافی جھجھک رہے تھے میری اتھری گھوڑی شاید گھوڑا مانگتی تھی
میں چاہتا تھا کسی طریقے سے ان کی جھجھک دور کردوں پھر اچانک مجھے لڈو کا خیال آیا میں وہ نکال لایا اور اسطرح ہم لڈو کھیلنے لگے میں نے اصول بتاتے ہوئے اپنے دل کی بات بھی کہہ دی
کہ اس دوران جب ہم یہاں ہیں کوئی کسی کا لحاظ نہیں رکھے گا نہ میں ثانیہ کی گوٹی اس وجہ سے نظر انداز کروں گا کہ یہ میری بہن ہے نہ شاھد کسی قسم کا لحاظ کرے گا بس یوں سمجھو آج ہم تینوں خود کے لیے آزاد ہیں جس کا جو جی حاصل کرے یا گنوا دے اسکی اپنی ہمت ہم نے لڈو شروع کی اور ہر بار ثانیہ ہار جاتی وہ شور مچاتی روہانسی ہو جاتی ایک دو بار تو غصے میں اس نے لڈو ہی پلٹ دی البتہ ایک بات بہت اچھی ہوئی کہ شاھد اور ثانیہ میری موجودگی کی جھجھک سے آزاد ہو گئے کتنی بار ثانیہ نے شاھد کے گال پہ چٹکی کاٹی اور اسے نخریلا اور نوابزادہ کہہ کر پکارا اور کبھی ایسا ہوا کہ شاھد نے اسے ہلکی سی گال پر چپت لگاتے ہوئے کتی کہہ کر پکارا
اب کی بار شاھد نے ایک اور کھیل متعارف کرایا
ہم لڈو کا دانہ اچھالیں گے اور ایک سے چھ کے درمیان ایک نمبر چنیں گے جس کا آ گیا وہ جیت گیا
اور جیتنے والا ہارنے والوں سے کوئی بھی فرمائش کر سکتا ہے اور اسکو بھی پھر پورا کرنا پڑیگا
ہاں یہ ٹھیک ہے ثانیہ بھی خوشی سے بولی کیونکہ اس میں میرے بھی جیتنے کے چانسز بن جائیں گے
اور بچو پھر میں خوب بدلے لوں گی آپ دونوں سے اس نے شاھد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
او پہلے ہی یہ دیکھ میری شرٹ کا بٹن توڑ دیا ہے اور کیا بدلہ لینا ہے شاھد نے ہنس کر اپنے ٹوٹے بٹن کی جگہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
وہ تو تم دیکھنا بچو تمہاری شرٹ جاتی کہاں وہ چہک کر بولی
چلو اپنا اپنا نمبر بولو میں نے دانہ اوپر اچھالتے ہوئے کہا
شاھد: تین
ثانیہ : پانچ
میں نے ایک بولا اور دانہ اوپر اچھال دیا وہاں چھ آیا ہم تینوں ایک ساتھ ہنس دیے دوبارہ اچھالا تو تین آ گیا شاھد زور سے ہنسا
ثانیہ میرے بال سیدھے کرے حمزہ کنگھی لے کر آئے میں جلدی سے کنگھی اٹھا لایا ثانیہ نے اسکے بالوں میں پھیرتے ہوئے کہا
کوئی بات نہیں بچو دیکھنا ہوتا کیا تمہارے ساتھ
پھر اچھالا اس بار ثانیہ جیت گئی
حمزہ تم شاھد کی شرٹ اتارو اور شاھد تم اپنے بال خود خراب کرو وہ زور زور سے ہنس رہی تھی
نہیں نہیں نہیں ۔۔۔ میں نے نیچے بنیان بھی نہیں پہنی ہوئی یہ نہیں کچھ اور بتاو شاھد نے ہنستے ہنستے کہا
ناں جی جو بس جو کہا ہے کرنا ہے میں کروں پہن کر آتے ناں۔ چلو شاباش جلدو کرو دونوں
میں شاھد کی شرٹ اتارنے لگا اور شاھد نے خود کے بال خراب کرتے ہوئے کہا کوئی بات نہیں الله پوچھے گا۔ جب اسکی شرٹ اتر گئی تو ثانیہ نے دیکھا شاھد کے کالے انڈرویر کا اوپری حصہ تھوڑا سا پینٹ سے باہر نظر آ رہا تھا وہ قہقہ لگاتے ہوئے کہنے لگی شکر کرو انڈرویر پہنا ہوا ہے۔
میں بھی قہقہ لگا کر ہنس دیا اگلی بار شاھد جیتا تو جیسے اسکی لاٹری لگ گئی ہو اس نے بہت شرارت آمیز نظروں سے ثانیہ کی طرف دیکھا پھر تھوڑا مسکرا کر مجھے مخاطب کیا اور بولا تم بھی اپنی شرٹ اتار ہی دو حمزہ۔ میں نے فوراً اپنی شرٹ اتار دی
اب میں کیا کروں ثانیہ نے اس سے پوچھا ثانیہ کی آنکھوں میں شرارت بھری ہوئی تھی اور وہ مسکرا رہی تھی
تم۔۔۔۔ تم حمزہ کی بنیان اتار دو کم از کم میرے برابر کا تو رہے ثانیہ نے لپک کر میری بنیان اتارتے ہوئے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
اب میں نے ایک بھرپور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ ثانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں
اب کیا آئے گا۔۔۔
اس نے میری گال پر ہتھیلی سے دباو ڈالا
میری آنکھوں کا رخ اپنے چہرے سے ہٹا دیا
اچھا اچھالو جو بھی ہو گا سامنے آ جائے گا ثانیہ نے کہا۔
ہاں جی۔۔۔۔۔ بہت کچھ سامنے آنے والا ہے ہاہاہاہا میں زور سے ہنسا میں نے لڈو کا دانہ اچھالا چھ آیا یہ ثانیہ نے چنا ہوا تھا وہ آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی ایک دم اچھلی زور زور اور اچھل کر قہقہے لگانے لگی جبکہ وہ مجھے ٹھینگہ بھی ساتھ ہی دکھا رہی تھی
کوئی مسئلہ نہیں بازی پلٹتے دیر نہیں لگتی میں چھینپ سا گیا
شاھد تم اٹھو میرے لیے پانی لیکر آو اور حمزہ تم اپنی شرٹ سے میرے جوتے صاف کرو شاھد جیسے ہی باہر نکلا ثانیہ نے میری طرف بہت پیاس بھری نگاہوں سے دیکھا جیسے کوئی التجا کر رہی ہو میں اسکی التجا کو سمجھ سکتا تھا وہ کتنی ہی بار پیاسی نظروں سے شاھد کی چھاتی کی طرف دیکھ چکی تھی اب کی بار جیت میری ہوئی اور اب وقت آ گیا تھا میں ثانیہ کی پیاسی نظروں کا جواب دوں
گردنیں کون جھکاتا ہے محبت میں
یار سینے سے لگانے کیلئے ہوتے ہیں
میں نے قریب پڑی ثانیہ کی لپ اسٹک شاھد کو تھمائی اور کہا ثانیہ کو لپ اسٹک لگاو
اس نے لگا دی تو لیکن اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے اب میں نے ثانیہ سے کہا شاھد کی چھاتی پر کس کر کے اپنے ہونٹوں کے نشان بناؤ ثانیہ چند لمحے تذبذب میں مجھے دیکھتی رہی میں نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ دے دیا کہ وہ جیسے چاہے میرے جذبات سے کھیلے وہ گھٹنوں کے بل اٹھی اور اپنے ہونٹ شاھد کی چھاتی پر چسپاں کردیے واؤ کیا بات ھے دو پریمیوں کی میں نے ثانیہ کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور نیچے ہپس تک لے آیا وہ چل سی گئی اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی شاھد اور ثانیہ کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں
اب کی بار شاھد جیتا تو اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کیا کرے وہ خاموش رہا ہم نے اسے کہا بھی کہ کوئی فرمائش کرے نہیں تو ہم دونوں ایک ساتھ تم سے فرمائش کریں گے وہ پھر بھی خاموش ہی رہا۔
پھر دھیرے سے بولا حمزہ یار اس دفعہ میری طرف سے تم بولو۔ کوئی بھی بول دو مجھے سب منظور ھے تو میں سمجھ گیا کہ دونوں سیکس کرنا چاہ رھے ھیں پر ڈر رھے ھیں کیونکہ اس دن ثانیہ باجی کی گیلی پینٹ دیکھ کر میرا کھڑا لن ثانیۂ آپی شرما گئ تھی شہوت اس پر بھی حاوی تھی کچھ دنوں سے
کچھ سو چ کر میں بولا اچھا۔ ثانیہ تم اپنی شرٹ اتارو میں نے کہا وہ بھی جلدی
ثانیہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر آہ بھری یہ کیا بدتمیزی ہے۔یارا مہ کوا دا ناستے
کیوں جب ہماری شرٹس اتروائی تھیں تب کوئی بدتمیزی نہیں تھی؟ تم دو مردوں کے ساتھ کھیل رہی ہو۔
چل اوئے بڑا مرد کمینے بھائی ہو تم میرے
نہیں یہ پہلے طے ہوا تھا کوئی لحاظ نہیں
شاھد میں بھی اتار دوں؟ اب ثانیہ نے شاھد کی طرف دیکھ کر پوچھا
مجھے کیا پتہ شاھد نے جواب دیا
نہیں نہیں بتاو تم شاھد ثانیہ نے ضد کی
تو شاھد بولا برا پہنی ہے تو ثانی بولی ہاں وہ پہنی ہی ھے شاھد تو اتار دو
اب کی بار ثانیہ نے اپنی قمیض اتار دی اس نے کالے رنگ کا بریزیر پہنا تھے جس کے اندر دودھیا ابھار غضب ڈھا رہے تھے ثانی کی چھلے جیسی گوری ناف اسکے پیٹ کو چار چاند لگارہی تھی جسے دیکھ کر شاھد کی پینٹ کے اندر حرکت ہوئی اسکی پینٹ مزید گیلی ھو گئ تو ثانیہ دیکھ کر ہنسنے لگی
یہ کیا ہے اس نے ہلکی سی تھپکی لگائی
باہر نکالو اسے مجھے دیکھنا ہے ثانیہ نے پینٹ کے اوپر سے ہاتھ پھیرا شاھد جھجھک رہا تھا میں نے بڑھ کر اسکی بیلٹ کھول دی اسی لمحے ثانیہ نے میری بیلٹ کھولتے ہو کہا کمینے اسے ننگا کرتا ہے خود بھی ہو ناں میں گھٹنوں کے بل کھڑا ہوا تو میری پینٹ سرک گئی شاھد ایسے میری طرح کھڑے ہو میں نے اسے کہا تو وہ بھی ویسے ہی گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا ثانیہ ہمارے سامنے بیٹھی تھی اس نے شاھد کی پینٹ بھی نیچے کی اور ایک ایک ہاتھ ہم دونوں کے انڈرویر پر پھیرنا شروع کردیے
میں نے اپنا ایک ہاتھ شاھد کی کمر پر رکھا اور وہیں سے اسکا انڈرویر نیچے کھسکا دیا
تانیہ ابھی تک شرارت کے موڈ میں تھی اور ہنستے ہوئے کہنے لگی بت بن کر میرے سامنے کیوں کھڑے ہو حمزہ تم شاھد کو گلے لگاو تمہاری ناراضگی ختم کروں گی آج
میں نے بانہیں پھیلا کر شاھد کو گلے لگا لیا اسکا سینہ میرے سینے کے ساتھ جڑا ہوا تھا ثانیہ نے ہم دونوں کی کمر پر اپنا ہاتھ پھیرا
پھر شاھد کے سر سے پیچھے بالوں میں ہاتھ ڈال کر اسکا چہرہ اپنی طرف موڑتے ہی اسکی آنکھوں پر پیار دیا تمہاری یہ بلی آنکھیں مجھے بہت زیادہ پسند ہیں حالانکہ تم بلی آنکھوں والے مرد بیوفا ہوتے ہو شاھد
میں ابھی مرد کہاں ثانیہ۔
کیا کیا کیا کیا
کیا کہا زرا دوبارہ کہو
میں ابھی مرد کہاں شاھد دوبرگویا ہوا
نہیں آخر میں جو تم نے میرا نام لیا دوبارہ لو
اس نے صرف ثانیہ کہا۔
ثانیہ نے جھٹ سے اسے اپنے ساتھ چپکا لیا اور پھر ایک جھٹکے سے چھوڑ دیا
جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو دراصل اس نے قمیض نہیں پہن رکھی تھی اب کی بار شاھد نے ثانیہ کے ابھاروں کو غور سے دیکھا وہاں ایک کالا تل تھا شاھد نے اس کی طرف انگلی بڑھائی ثانیہ نے بھی فوراً نیچے دیکھا اور ساتھ شاھد کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن پھر بھی شاھد نے اپنا ہاتھ ثانیہ کے ابھار پر بنے تل تک لے گیا اور اپنی انگلی وہاں گھمانی شروع کر دی
میں دیکھ سکتا تھا ثانیہ کے سرکنڈے کھڑے ہو گئے اس نے ایک شدید جھرجھری لی اور شاھد نذیر کو نیچے گراتے ہوئے اس کے اوپر گر گئی اسکا سر شاھد کے پیٹ پر تھا
مجھے ایک دم ایسے محسوس ہوا جیسے ثانیہ بے ہوش ہو گئی ہو میں نے جلدی سے ثانیہ کا منہ پکڑ کر ہلایا اور پریشانی میں اسے پکارنے لگا
کچھ دیر اس نے برداشت کی پھر آنکھیں کھول کر میرا ہاتھ جھٹک دیا
پاگل۔۔۔ ساتھ وہ زور سے چلائی بھی پھر دوبارہ اپنا سر شاھد کے پیٹ پر رکھتے ہوئے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
اب کی بار اس نے ناک سے ایک لمبی سانس اندر کھینچی جیسے وہ شاھد کے جسم سے اٹھتی گرمی کو اپنے اندر اتار رہی ہو
میں اٹھ کر ثانیہ کی ٹانگوں کی طرف آ گیا اسکی شلوار ہلکی سی نیچے کی جس سے اسکے آدھے ہپس ننگے ہو گئے اب میں ان پر زبان پھیرتا ہوا ثانیہ کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور ساتھ ہی ثانیہ کی برا کی ہک بھی کھول دی
اس نے خود کو ہلکا سا سہارا دیا برا ایک طرف کالین پر پھینکی اور دوبارہ شاھد کے پیٹ پر سر رکھ دیا جبکہ شاھد ثانیہ کے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا شاھد نے ثانیہ کے دونوں بازووں میں ہاتھ ڈال کر اسے اوپر کھینچ لیا ثانیہ کے بال بکھر چکے تھے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالیں اپنی زبانیں لڑا رہے تھے اور شاھد نے ثانیہ کے ممے مسلنا شرو ع کر دیئے تھے اور ثانیہ بھی اب مست ھو گئ تھی وہ شرماتے ھوئے بولی تم دونوں میں سے کس کا بڑا ھے تو میں بولا شاھد کا بڑا ھے میرا تھوڑاچھوٹا ھے لیں
Last edited by a moderator: