Adultery 02کچی کلی (Completed)

42
76
18
کچی کلی
قسط (8)

مجھے ایسے لگا جیسے میری سگی ماں مر گئی ہو میں بہت عرصے بعد روئی تھی خود دکھوں سے چور اس خاتون نے مجھے پل پل عزت دی احترام دیا پیار دیا بابا جی بھی بہت اچھے تھے لیکن اس خاتون نے مجھے مرا ہوا اٹھایا تھا اور دیسی ٹوٹکوں سے مجھ میں جان بھر دی تھی میں صحت مند ہو چکی تھی مجھے اماں نے جینا سکھا دیا تھا اور خود مر گئی تھی میں کئی دن تک روتی رہی تھی ان کے گھر محلے داروں کے علاوہ کچھ دور دراز کے مہمان بھی آئے تھے جن میں کچھ خواتین کو باباجی نے روک لیا تھا انہی خواتین میں میری ہم عمر ایک لڑکی آئی تھی جسے کسی حد تک اردو بولنا آتا تھا میں لمبے عرصے سے بولنا بھول چکی تھی اور اب اماں اور بابا کے ساتھ گونگوں والی زندگی گزار رہی تھی جہاں تقریباً ہر بات اشارے اور مسکراہٹ سے ہوتی تھی کچھ روز بعد ہی بابا جی کے گھر کچھ مرد مہمان آئے تو میری دوست اس لڑکی نے جو اردو بول سکتی نے بتایا کہ بابا جی میری شادی کر رہے ہیں وہ چاہتے تھے کہ۔مہمانوں کے جانے سے قبل میں اپنے گھر چلی جاؤں کیونکہ اماں کی وفات کے بعد وہ مجھے اکیلا نہیں رکھنا چاہتے تھے میں ایک بار پھر وسوسوں کا شکار ہو گئی میں نے سوچ رکھا تھا کہ میں یہی اسی گھر میں مر جاؤں گی اور یہاں سے کبھی نہیں نکلوں گی لیکن ایک دم سے حالات نے ایک بار پھر کروٹ لے لی تھی میں بابا جی کو انکار نہیں کر سکتی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے زندگی دی تھی بہرحال لفظ شادی اب سے پہلے کی زندگی سے بہت حوصلہ افزا تھا اور میں خاموش رہی ان کی رسم و روایات کے مطابق مجھے دو لاکھ کے عوض میرا ایک مولوی ٹائپ بندے سے نکاح کر لیا تھا مجھے اسی لڑکی نے بتایا تھا کہ میں اب تک وزیرستان کے آخری حصے یعنی افغان بارڈر کے قریب تھی اور اب بیاہ کر بنوں جا رہی تھی بنوں ایسا شہر تھا جس کو نام میں جانتی تھی کراچی میں ہمارے محلے میں ایک کرایہ دار فیملی کا تعلق بنوں سے تھا اور اس گھر کی خاتون میری امی کی دوست رہ چکی تھی اگلی صبح مجھے دو سوٹ کپڑوں کے ساتھ اس گھر سے روانہ کر دیا گیا تھا میں بابا جی سے اور بابا جی مجھ سے حقیقی بیٹی کی طرح تڑپ کر ملے تھے اور ہم بہت دیر روتے رہے تھے میرے میاں کا نام نظام تھا اور میرے ساتھ اس کی دوسری شادی تھی پہلی بیوی سے اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا اس کی بڑی بیٹی میری ہم عمر تھی اس کی پہلی بیوی بیمار رہتی تھی اس کا بیٹا میرے سے دوسال بڑا تھا ایک خاتون کے ساتھ میں اپنے میاں نظام کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے کسی فرد نے مجھے برداشت نہیں کیا نظام کی عمر اس وقت 45 سال تھی اور میں شاید 16 برس کی ہو چکی تھی میں نے پچھلے تقریباً تین سال ایک ڈرونے خواب جیسے گزارے تھے ۔۔۔ مجھ سے ملنے کوئی نہیں آیا اور نظام کے بچوں نے اس سے بھی منہ موڑ لیا وہ اپنی ماں کے ساتھ اس کے کمرے میں ہوتے تھے نظام نے مجھے سمجھایا کے وقت کے ساتھ یہ ٹھیک ہو جائیں گے وزیرستان سے ہمارے ساتھ آنے والی خاتون جو نظام کی بہن تھی شام سے قبل اپنے گھر چلی گئی تھی شام کے بعد نظام بازار سے کھانا لینے گیا تو اس کی پہلی بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ میری کمرے میں آ گئی اور اپنے بیٹے سے پشتو میں بات کرتی اور اس کا بیٹا اردو ٹرانسلیشن کے ساتھ مجھے کہتا خہ اےے لڑکی میری امی کہتی ہے یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ میں تیرا قیمہ بنا کے نظام کو ہی پکا کے کھلا دونگی ۔۔ وہ کچھ دیر کھڑے اپنے بازو ہوا میں لہرا کر مجھے دھمکیاں دے رہے تھے نظام کی تینوں بیٹیاں بھی اپنی امی اور بھائی کے ساتھ کھڑی تھی میں سر جھکائے اپنی قسمت پر آنسو بہاتی رہی یہ لوگ میرے اس کمرے سے چلے گئے تھے جس کے تھوڑی دیر بعد نظام آ گیا تھا اس نے مجھے روتا دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا کسی نے کوئی بات بولی ؟؟ میں نے اس کے بار بار کے اصرار پر بس روتے ہوئے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے اور اس گھر کا۔ماحول جنگ زدہ ہو گیا نظام کے بلند آواز سے باتیں کرنے سے شاید پورا محلہ دھل گیا تھا وہ کچھ دیر بعد غصے سے کانپتا کمرے میں آ گیا تھا میں نے اس کے ساتھ ہلکا سا کھانا کھایا اور اس سے باتیں کرتی رہی نظام کو بابا جی نے بتایا تھا کہ میں ان کو کیسے ملی تھی نظام نے پوچھا تو میں نے اسے بتایا کہ میں کراچی سے اغواء ہوئی تھی اور اغواء کاروں نے مجھے جہاں رکھا تھا میں اسی رات وھاں سے بھاگ نکلی تھی میں زخمی ہو گئی تھی پتھروں سے ٹکراتے ہوئے اور سردی سے بےہوش ہوکر کہیں گری پڑی تھی کہ اس بزرگ جوڑے نے مجھے اٹھایا اور گھر لے گئے نظام بہت بڑی جسامت کے مالک تھے رات کو باتوں کے دوران اس نے مجھے اپنی گود میں بھر لیا تھا میں اس وقت کافی صحت مند ہو چکی تھی میری جلد شفاف ہو گئی تھی پیٹ کم ہو گیا تھا اور جسم میں طاقت بھی محسوس ہوتی تھی اس بزرگ جوڑے نے مجھے بہت پیار سے رکھا تھا میرا علاج بس وہی کڑوا قہوہ تھا جسے امں کاڑھا بولتی تھی جو ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک چلتا رہا اور اماں کی موت تک مجھے ہر رات کو سونے سے قبل اس کاڑھے کا ایک کپ پینا ہوتا تھا ۔۔۔نظام نے مجھے کسنگ شروع کر دی تھی اور وہ کسی منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح آگے بڑھ رہا تھا میرے بوبز پر اس کے چلتے ہاتھوں نے مجھے بہت عرصے بعد مزے کی وادیوں میں دھکیلنا شروع کر دیا تھا وہ میرا سارا لباس اتار کر مجھے بیڈ پر لٹا گیا اور اپنے کپڑے اتار کر تیل کی بوتل کے ساتھ بیڈ پر آ گیا اس کا ببلو تقریباً سات انچ تھا لیکن موٹا کافی تھا مجھے کوئی ٹینشن نہیں تھی کیونکہ اس جیسے بہت سے ببلو میں پہلے گزار چکی تھی اب ایک ہی تھا اور شادی سکون اور فخر کا نام تھا میں نے اب سے کچھ دیر پیدا ہونے والے حالات خو ذہن سے نکال دیا اور اس ماحول کو انجوائے کرنے لگی نظام میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اور میری ببلی کے ہونٹوں کو اپنے ہاتھ کے انگوٹھوں سے کھول کر دیکھنے لگا میں گھبرا چکی تھی کیونکہ میری ببلی بہت گھٹن حالات کا سامنا کر چکی تھی نظام نے اپنا جھکا سر اوپر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے اپنے ببلو پر تیل لگا کر ببلی خے ہونٹوں میں پھیرتا ہوا اندر اتارنے لگا۔۔ مجھے بالکل ویسے درد ہونے لگا جیسے شروع کے دنوں میں اسد کے ساتھ کرتے ہوئے ہوا کرتا تھا ایسا کیوں ہے کیا لمبے عرصے تک سیکس نہ کرنے کے سبب ایسا ہو رہا تھا یا اس دیسی کاڑھے کے سبب ایسا ہوا تھا یس قدرت مجھے شرمندگی سے بچا رہی تھی بالکل میرا کنوارہ پن اتر آیا تھا نظام جیسے ببلو سے بڑے ببلو آسانی سے میری وادی کا سفر کیا کرتے تھے لیکن آج بہت تکلیف کے ساتھ کچھ ایسا مزہ آنے لگا تھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا اسد کے ساتھ کچھ عرصہ میں نے انجوائے کیا تھا کیونکہ اس وقت تک حوس کا بھوت مجھ پر ابھی سوار تھا لیکن اس کے جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ دھرانے کے قابل بھی نہیں نظام بغیر رکے اپنا ببلو لبالب مجھ میں بھر گیا میری مستی بھری آوازوں میں وہ میرے اوپر لیٹ کر جھٹکے لگانے لگا مزے کی لہروں میں میں نظام کو اپنی باہوں میں بھر رہی تھی وہ نارمل ٹائم میں اپنا پانی مجھ میں بھر گیا اور کچھ دیر میں مجھ سے الگ ہو کر پھر سے باتیں کرنے لگا نظام مجھ سے مطمئن ہو چکا تھا اور میرے لئے لگایا دو لاکھ روپیہ کارآمد تصور کر رہا تھا رات ایک بجے اس نے دوسرا شاٹ لگایا اور پھر ہم نہا کر سو گئے صبح سے پھر ٹینشن نے گھر میں ڈیرے ڈال لئے نظام اور اس کی بیوی بچوں سے جھڑپیں چلتی رہی محلے کی ایک دو خواتین مجھے دیکھنے آئیں تھی اور یہاں کے رواج کے مطابق کچھ پیسے دے کر گئیں تھیں اگلے روز خواتین کا ہجوم ہمارے گھر امڈ آیا تھا سب مجھے دیکھ کر نظام کی قسمت پر رشک کر رہے تھے میں واقعی بہت حسین ہو گئی تھی بس گزرے دنوں کی جب یاد آتی تو میرا دل تڑپ جاتا اور ٹرک عملے کے ساتھ اسد اور شفیق کےلیے میرے لبوں سے بدعائیں نکل جاتی تھیں بلال کا کچھ معلوم نہ ہو سکا تھا اور وہ ایک بھولی۔داستان بن گیا تھا ٹینشن زدہ ماحول میں میں نے چھ ماہ گزار دئیے تھے محلے کی ایک خاتون مجھے کہہ گئی تھی کھ آپ محتاط رہا کرو کسی دن یہ لوگ تجھے قتل کر دیں گے گھر میں موجود نظام کے بیوی بچے ہمہ وقت مجھ پر۔نظر رکھتے تھے اور ایک روز میں نے تنگ آ کر نظام سے الگ گھر کی فرمائش کر دی وہ مان گیا تھا لیکن کچھ عرصے تک انتظار کا۔بولا ۔۔۔ میں نے گھر والوں کے دل میں اپنی محبت پیدا کرنے کے سو جتن کئے تھے لیکن ناکام رہی اب مجھے ان کی نظروں سے وحشت ہونے لگی تھی مجھے واقعی لگتا تھا کہ یہ مجھے نظام کی غیر موجودگی میں قتل کر دیں گے انہی دنوں نظام کا بیٹا اقبال گھر سے بھاگ گیا تھا اور کسی محلے والی خاتون کو میرے لئے پیغام دے گیا تھا کہ اب میرا انتظار کرنا تمھارے ٹکڑے واپس کراچی پہنچاؤں گا اور اگر میرا باپ بھی رستے میں آیا تو اسے بھی قتل کر دونگا یہ دن بہت اذیت کے تھے کئی دن تک گھر میں فساد برپا رہا نظام اپنی پہلی بیوی کو قصور وار ٹھہرا رہا تھا کہ دوسری شادی میرا حق ہے اور بیٹے کو میرے خلاف بھڑکانے میں اس کا کردار ہے جبکہ اس کی بیوی اس کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی میں اب پشتو سمجھ لیتی تھی اور کسی حد بول بھی لیتی تھی نظام بہت دن سے میرے پاس تھا اور کام پر نہیں جا رہا تھا ایک روز نظام کے کچھ رشتے دار گھر آئے اور کئی بار اس کے اور اس کی بیوی کے پاس جاکر اسے سمجھاتے رہے لیکن وہ نہیں مانی اور اس روز رات گئے ان رشتے کے جانے سے قبل نظام کی بیٹیوں نے بھی دھمکی دے دی کہ اگر ہمارے ابو نے اسے نہ چھوڑا تو وہ بھی گھر سے بھاگ جائیں گی بیٹیوں کی اس دھمکی کے بعد نظام بہت پریشان ہو گیا تھا اور ان رشتے داروں کے ہاتھ بیوی بیٹیوں اور بیٹے کو پیغام دیا کہ مجھے ایک ہفتے کا ٹائم دے دو ۔۔۔ اس سے قبل نظام کے یہ رشتے دار اسے الگ لے جا کر کسی بات پر راضی کر چکے تھے نظام کی آنکھوں میں کچھ الجھن میرے لئے خطرے کی گھنٹی تھی میرے ذہن میں ایک ہی سوال تھا اگر نظام نے مجھے طلاق دے دی تو میں کہاں جاؤں گی رات کو لیٹتے ہوئے میرے لبوں سے بےاختیار اونچی آواز میں امی جی نکلا۔۔۔ صبح نظام کہیں چلا گیا تھا اور میں سارا دن لیٹی روتی رہی نظام نے ابھی تک مجھ سے اس پر کوئی بات نہیں کی تھی لیکن بیٹیوں کی دھمکی کے بعد مجھے یقین تھا کہ وہ بےبس ہو چکا ہے اور مجھے چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے ۔۔۔شام سے کچھ دیر قبل نظام واپس آ گیا تھا اور اسی رات نظام نے مجھے اپنے سامنے بٹھا کر بتا دیا کہ وہ مجھے طلاق دینے جا رہا ہے کیونکہ اگر اس کی بیٹیوں میں سے کوئی ایک بھی گھر سے چلی گئی تو وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور اس کا گھر مکمل طور پر برباد ہو جائے گا میں پہلے ہی سب کچھ جان چکی تھی اور سارا دن اس پر رو چکی تھی سو میں کوئی رسپانس دئیے بغیر اپنی قسمت کو کوستے ساکت بیٹھی رہی ۔۔۔ بہت دیر بعد میں نے نظام سے پوچھا کہ مجھے بابا کے پاس پہنچاؤ گے ؟؟؟ بولا نہیں میں تمھاری کہیں شادی کر رہا ۔۔۔۔ ویسے بھی میں کیا کر سکتی تھی میں دکھوں کی عادی ہو چکی تھی میں نے اپنے دوپٹے سے سر کو پٹی کی طرح باندھا جیسے بوڑھی خواتین باندھتی ہیں اور میں نظام سے پہلے سو گئی صبح پھر نظام ایک رشتے دار کے ساتھ کہیں چلا گیا اور شام کو واپس آنے پر کچھ مطمئن تھا ۔لیکن مجھ سے کوئی خاص بات نہیں کی دو روز بعد نظام نے مجھے جی بھر کے سیکس کیا لیکن میرا دل اس سے بھی اکتا چکا تھا اور مجھے اس کا یہ سں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔ دوسرے دن اس کے کوئی مہمان آنے تھے اور ان کے گھر میں کھانا تیار ہو رہا تھا اس کی۔بیٹیاں بھاگ بھاگ کے کام کر رہی تھی اور نظام بھی ان کے روم میں بار بار جا رہا تھا اسکی پہلی بیوی نے نیا سوٹ پہنا اور بیٹیوں سے چارپائی میرے کمرے کے سامنے رکھوا کر اس پر بیٹھ گئی اور بار بار مسکرا کر میرے کلیجے پر تیر برسانے لگی مہمان مین گیٹ کے ساتھ والی بیٹھک میں آ چکے تھے کھانے کھلاکے بعد نظام میرے پاس آیا اور مجھے اچھا سوٹ پہن کر آنے کو کہا میں خاموشی سے اپنے کپڑے بدل کر اس کے ساتھ ایسے چل رہی تھی جیسے قربانی کا بیل منڈی جاتے ہوئے اپنے مالک کے پیچھے چلتا ہے بیٹھک میں نظام کے ایک رشتے دار کے ایک رشتے دار کے علاوہ دو اور افراد موجود تھے بڑی مونچھوں والے خوفناک شکل والے اس مرد نے حوس بھری نظروں سے میرا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا اور بولا ۔۔۔ھھھھممممممم نام کیا ہے تمھارا ۔۔میں نے کانپتے لبوں سے کہا نازیہ ۔۔۔۔ ساتھ بیٹھے اس کے ساتھی نے اس کو ہلکی سی کہنی ماری تو یہ دوبارہ بولا مجھے پانی پلا دو میں نے ادھر ادھر دیکھا اور ٹیبل پر پڑے جگ گلاس کی طرف بڑھ گئی میں نے اسے پانی سے بھرا گلاس تھمایا اور اس نے گلاس لے کر میری طرف سلام کے انداز میں ہاتھ بڑھایا اور میرے نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دباتے ہوئے بولا ساڑھے تےن لاکھ ٹھیک ہے نظام صاحب ۔۔۔۔ بس آپ تیاری کریں ۔۔۔۔ نظام بولا بس ٹھیک ہے میں طلاق دے دیتا آپ وہیں اپنے علاقے میں وقت پر نکاح پڑھ لینا۔۔۔۔ میں شام کے فوراً بعد میانوالی کے ایک سوداگر کو بیچ دی گئی تھی اور ایک جیپ میں ان دونوں کے ساتھ بیٹھ کر پانچ سوٹ کپڑوں کے ساتھ روانہ ہو چکی تھی۔۔۔
 
42
76
18
کچی کلی
قسط (9)

چلنے کی ہدایات دیکر وہ میرے ساتھ باتیں کرنے لگا اس کا نام عزیز تھا جس نے مجھے ساڑھے تین لاکھ میں خریدا تھا اب مجھے اپنی اہمیت ایک بکری سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی عزیز نے مجھے اپنی گود میں لٹاتے ہوئے کہا تھوڑا آرام کر لو تھکی ہوئی لگتی ہو اسے کیا معلوم تھا کہ تھکے ہوئے اور ٹوٹے ہوئے انسان میں کیا فرق ہوتا ہے مجھے یہ شخص بالکل اچھا نہیں لگا تھا یہ دونوں اکھڑے لہجے میں بات کرتے تھے شاید ان کی روایات میں شامل تھا یس کچھ اور بولا اس مولوی کے ساتھ کیسے پھنس گئی تھی ۔۔۔ میں خاموش رہی تھی لوگ کتنی آسانی سے مر جاتے ہیں میں کیوں نہیں مرتی تھی نظام نے خود میرے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا لیکن ایک وقت میں وہ اپنے گھر والوں سے ہار گیا تھا سب سے اچھا سودا نظام کو پڑا تھا جس نے جائز طریقے سے مجھے چھ ماہ استعمال بھی کیا تھا اور منافع بھی کما لیا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ یہ دنیا گوشت کے بھوکے اور بیوپاریوں سے بھری ہوئی ہے عزیز میرے ساتھ کیوں سلوک کرتا ہے کیا وہ شادی کرے گا ؟؟ کیا اس کے گھر والے مجھے برداشت کر کرلیں گے کیا وہ مجھے نظام کی طرح استعمال کرکے منافع پر بیچ دے گا ۔۔ کیا وہ ان پٹھانوں کی طرح مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کھائے گا میں برائلر مرغی کی طرح ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے تک برائے فروخت بن گئی تھی عزیز میری گالوں کو تھپتھپا رہا تھا لیکن مجھے اس کے ہاتھ زہر لگ رہے تھے جیپ تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی مجھے معلوم نہیں تھا مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے یہ دونوں آپس میں پنجابی کی طرح جیسی کسی زبان میں بات کر رہے تھے جس کے الفاظ اور ان کے لہجے کچھ کھدرے سے محسوس ہو رہے تھے مجھے میرے نئے شہر کا نام میانوالی بتایا گیا تھا یہ کیسا شہر ہو گا مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی میں اس سے غرض تھی کہ وہاں میرے ساتھ کیا ہو گا میں تقریباً چھ ماہ نظام کے پاس رہی تھی لیکن میں پریگنٹ نہیں ہوئی تھی لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا تھا میں ان باتوں کو سمجھنے سے پہلے میں سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی اور کیوں آئی تھی مجھے کیا ہو گیا تھا کاش ۔۔۔ کاش ۔۔۔ میں اپنے گھر میں ہوتی امی کے پاس ہوتی اپنے ابو سے ویڈیو کال پر بات کرتی لیکن افسوس کے وقت بہت پہلے گزر چکے تھے میرے امی ابو زندہ بھی تھے یا مر گئے تھے مجھے کون بتاتا مجھے اپنے محلے کی گلیاں بہت یاد آتی تھی جہاں میں کھیلتی تھی مجھے کھیلنے کے علاوہ خواتین کی باتوں کا علم نہیں تھا کیونکہ میں عورت بننے سے پہلے کسی آگ کے دریا میں خود ہی کود پڑی تھی ۔۔۔ کسی شہر کے مختلف روڈز سے ہوتے ہوئے جیپ ایک گلی میں داخل ہو گئی تھی مجھے علم ہو چکا تھا کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں جیپ ڈرائیور سے باتیں کرتے ہوئے عزیز نے شاید اسے یہی روکنے کا بولا تھا جیپ رک چکی تھی عزیز میرا شاپر اٹھاتے ہوئے جیپ سے اترتے ہوئے مجھے بھی اترنے کا اشارہ کیا میں اتر چکی تھی جیپ اگے چلی گئی تھی اور میں عزیز کے پیچھے چلتی ایک کوچے میں داخل ہو گئی تھی شاےد یہ اس کوچے کا سب سے آخری مکان تھا جسکی بلند دیواریں سفیدی سے ڈھکی ہوئی تھیں گلی کے شروع کے ایک مکان کے آگے لائٹ جل رہی تھی جبکہ باقی کوچے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا مکان کا تالہ کھول کر عزیز اندر داخل ھو گیا تھا اور میں خود ہی اس کے پیچھے اس اندھیرے مکان میں داخل ھو گئی تھی یہ ایک چھوٹا مکان تھا جو آس پاس کی بلند عمارتوں کے بیچ جیسے چھپا ہوا تھا موبائل ٹارچ کی روشنی میں عزیز نے مین گیٹ کو لاک کر دیا اور ایک روم کا دروازہ کھولنے لگا موبائل ٹارچ کی روشنی میں مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ اس روم کے ساتھ ایک چھوٹی کچن تھی شاید یعنی میں ایک بار پھر اسد یا ان پٹھانوں کے درمیان گزری زندگی کی طرف لوٹ آئی تھی مجھے یقین ہو چکا تھا کہ عزیز اس انداز میں مجھے چھپتے چھپاتے اس اکیلے مکان میں لانے کا مطلب یہی تھا کہ وہ مجھے بطور کھلونا استعمال کرنا چاہتا تھا اور یہاں بھی عزت کی زندگی گزارنا میرے نصیب میں نہیں تھا عزیز نے کمرے کا دروازہ کھول کر لائٹس آن کر دی تھیں برآمدے کے اس کونے میں ایک چھوٹا فریج موجود تھا کمرے کے اندر سے سگریٹ اور چرس جیسی بدبو نے میرا استقبال کیا روم میں ایک ڈبل بیڈ موجود تھا ایک ٹیبل اور چند کرسیاں فرش پر بوسیدہ سا کارپٹ بچھا تھا جسبپر تاش کے پتے بکھرے پڑے تھے درمیان میں ایک بڑا ٹین کا ڈبہ اور سگریٹ کے خالی پیکٹ اس باٹ کا اشارہ دے رہے تھے کہ یہاں بھی پٹھانوں کے اس بدبخت مکان جیسا ماحول تھا میری طرح شاید آپ نے بھی کسی ڈرامے کا وہ سین دیکھا ہو جس میں دہشتگرد کچھ آدمیوں کو ذبح کرتے ہیں اور آدمی اپنی باری پر سرجھکائے آگے آ جاتے بس میں بھی انہی بےبسوں کی طرح اب حالات کے ساتھ ساتھ چلنے لگی تھی عزیز نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود باہر چلا گیا داخلی گیٹ کے ساتھ باتھ روم تھا وہ وہاں سے ہوتا ہوا شاید کچن میں چلا گیا تھا اور کچھ دیر بعد آ کر بولا منہ دھو لو میں کھانا لانے لگا ہوں میں اٹھ کر باتھ روم چلی گئی تھی اور واپس آئی تو ایک پلیٹ میں چاول گرم کئے بیٹھا تھا شاید پہلے سے فریج میں رکھے ہوئے تھے میں اس کے کہنے سے پہلے چاول کھانے لگی تھی وہ باتیں کرتے ہوئے پوچھنے لگا تھے کہ کھانا پکا لیتی ہو میں نے اسے دیکھے بنا اثبات میں سر ہلا دیا میں نے بلا جھجک اس سے پوچھا آپ میری شادی کس سے کریں گے ؟؟۔ وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میری تھوڑی کو انگلی سے اٹھاتے ہوئے مسکرا کر بولا شادی آپ کی میرے ساتھ ہو چکی ہے ۔۔۔ میں خاموش رہی اور کچھ دیر بعد پھر سے بولی آپکی پہلی شادی سے بچے ہیں ۔۔۔ بولا ہاں چار بچے ہیں ۔۔ میں نے پھر پوچھا بیٹیاں کتنی ہیں وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا دو ہیں لیکن تم نے صرف اپنے کام سے کام رکھنا ہے ۔۔۔ میں نے ہاتھ صاف کئے اور کسی زخمی چیل کی طرح اس کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ گئی ۔۔۔۔ عزیز نے چاول کی پلیٹ ٹیبل پر رکھی اور باتیں کرنے لگا تھا کہ میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی کوئی کام ہے یا میں سو جاؤں ۔۔۔ وہ کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا دیکھو لڑکی میں نے پیسہ لگایا ہے تم پر اور جس مقصد کے لئے لگایا وہ پورا کرونگا تم یہاں سے ہل بھی نہیں سکتی میری مرضی کے بغیر میرا نام سن کر پولیس بھی بھاگ جاتی بہتر ہو گا کہ پیار اور محبت سے رہو۔۔۔۔ میں نے کہا مقصد آپ کا شادی ہے یا۔کچھ اور بولا ۔ بہت سے مقاصد ہیں میں نے کہا آپ اپنے مقاصد پورے کر لینا مقاصد پر استعمال کرنے سے میرا دل میں آپ کی محبت نہیں آ سکتی چاہے مجھے مار ڈالو۔۔ ہاں شادی سے محبت کی توقع رکھی جا سکتی ہے عزت دو گے عزت کا جواب بھی عزت سے دونگی ورنہ معذرت کہ آپ میرے جسم کو کسی اور کے آگے پیش کرو گے تو میں عزت نہیں دے سکوں گی ویسے بھی مجھے اب کسی کی دھمکی پر خوف نہیں آتا کیونکہ میں خود مرنا چاہتی ہوں اور جو موت سے خوف نہ کھائے وہ کسی کی دھمکیوں پر کیا خوف کھائے گی ۔۔۔۔ میں سر اٹھا کر بہت سا بول گئی تھی عزیز کی آنکھوں میں جیسے آگ بھر آئی ہو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا مرنے کون دے گا تمھیں پورے ساڑھے تین لاکھ لگائے ہیں اس سے ڈبل نکال کر پھر سوچوں گا تمھیں مار دینے کا۔۔۔ اس نے ایک زوردار تھپڑ میرے گال پر رسید کیا اور سگریٹ میں چرس بھرنے لگا ۔۔۔ میں گال پر ہات رکھے نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی میں نے اپنا رویہ بدل لیا تھا اور دل میں فیصلہ کر چکی تھی کہ میں لفظوں سے اذیت دیتی رہوں گی اسے اور سکون سے رہنے نہیں دونگی ۔۔ وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا اور سگریٹ سلگا کر لمبے کش لینے لگا میرا ہاتھ گال سے نیچے ہوا تو تو اس نے ایک اور تھپڑ میرے اسی گال پر رسید کر دیا وہ کچھ بول نہیں رہا تھا عزیز نے میری ٹانگ کھینچی اور مجھے لٹا گیا میں درد کی تصویر بنی اسے دیکھ رہی تھی اس نے ایک ہی جھٹکے میں میری شلوار کھینچی اور گھٹنوں تک لے آیا وہ کچھ بول نہیں رہا تھا پھر اس نے میری شلوار کو اتار کر دور پھینک دیا اور اچانک میں نے جھٹکا لیا اس نے سلگتا سگریٹ میرے ہپس پر۔لگا دیا تھا میری سینے میں دبتی آئی کی آواز کے ساتھ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی میں جل چکے تھی عزیز نے میرے بالوں سے پکڑ کر مجھے اٹھایا اور میری قمیض اتارنے لگا وہ مجھے ننگا کر کے دیکھ کر سگریٹ پیتا رہا میرا ہاتھ جلے ہوئے اس ہپس کی طرف اٹھ رہا تھا لیکن یہاں انگلی لگانے سے مجھے مذید تکلیف ہوتی تھی ۔۔ اس نے سگریٹ ختم کی اور اپنی انگلی میری ببلی میں ڈالنے لگا پھر فوراً اٹھ کر اپنے کپڑے اتار گیا کہ میرے سے اڑھائی فٹ بڑا تھا اور سخت ہڈیوں سے بھرا جسم اور لمبا سخت ببلو یہ اسد سے زیادہ بڑا اور سخت لگ رہا تھا اور میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اور اپنے ببلو کو ڈنڈے کی طرح ببلی سے آگے میرے پیٹ پر مارنے لگا مجھے بہت غصہ آ رہا تھا لیکن میں بے بس تھی پھر اس نے میری ٹانگوں کو اٹھایا اور ببلو کو سختی بھرے انداز میں تین جھٹکوں میں ہی پورا اتار دیا مجھے بہت درد ہؤا ایک تو اس کا بہت بڑا اور سخت تھا دوسرا اس نے خشک ببلو ہی ظالمانہ انداز میں میرے اندر اتارا تھا وہ میرے ہپس پر زوردار تھپڑ مار کر جھٹکے مارنے لگا تھا میری وائی وائی کی آواز پر اپنی مونچھیں پھیلا کر بولا لوڑا تو تیرے اندر جائے گا میں جب چاہوں گا اور جس کا چاہوں گا ڈالوا دونگا لیکن پیار سے لو گی تو تکلیف نہیں ہو گی تم کو ۔۔۔۔ میں بےبسی کی تصویر بنی خاموش پڑی تھی وہ جھٹکے لگاتا رہا پھر اس نے مجھے گھوڑی بنا کر ببلی میں اتارتے ہوئے ایک بار پھر زور کا تھپڑ میرے ہلس پر مارا اور میرے ہپس کو پکڑ کر جھٹکوں کے ساتھ مجھے بھی ہلانے لگا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اس کے جھٹکوں میں شدت آنے لگی اور انہی تیز جھٹکوں میں میری ببلی بھی پانی چھوڑ گئی ۔۔ عزیز نے اکڑتے جسم کے ساتھ اپنا ببلو میری ببلی سے نکالا اور اپنا گرم لاوا میری کمر پر ڈالنے لگا۔۔۔ مجھے بہت خار آئی لیکن بےبس تھی سو خاموش رہی کچھ دیر بعد عزیز نے خود کپڑے سے میری کمر کو صاف کیا اور میں اپنے کپڑے پہن کر سو گئی عزیز بھی ساتھ سو گیا صبح وہ مجھ سے پہلے جاگ چکا تھا پہلی بار روشنی میں اس مکان کا نظارہ کرتی میں باتھ روم چلے گئی تھی واپس آتے ہوئے میں اپنے گیلے بالوں کو نچوڑ کر کمرے کی طرف آ رہی تھی تو عزیز نے مجھے کچن کی طرف بلا لیا ملک پیک تھماتے ہوئے بولا چائے بناؤ اور بسکٹ لے جا کر بیڈ پر بیٹھ جانا میں نہا کر آ رہا ۔۔ میں چائے بنانے لگ گئی چکن میں استعمال کے برتنوں کے علاوہ دیگر سامان بھی موجود تھا میں نے ابھی چائے نہیں بنائی تھی کہ وہ باتھ روم سے نکل کر کمرے میں چلا گیا میں نی گیس کی سپیڈ بڑھا دی اور جلدی سے چائے بسکٹ لیکر کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ ناشتے کے بعد عزیز اٹھ گیا میں کام سے جا رہا ہوں اگر گھر میں کھڑی ھو کر چیخیں بھی مارو گی تو کوئی تمھاری مدد کو نہیں آئے گا یہاں میرا سکہ چلتا ہے پولیس یہاں نہیں آئے گی کیونکہ میں نے تمھیں پیسوں سے ۔خریدا ہے اور اس کاغذ پر گواہوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں میں دن کا کھانا لے آؤں گا اور شام کو کچھ بنا لیں گے ۔۔۔ وہ چلا گیا تھا دور کہیں سے ٹریفک چلنے اور ہارنوں کی آواز آ رہی تھی اس مکان کے آس پاس سارے مکان بہت بلند تھے گیٹ کے علاوہ باقی کوئی رستہ موجود نہیں تھا جہاں سے میں نکل کر بھاگ جاؤں دوسری طرف یہ کہ میں بھاگ کر کہاں جاؤں گی کہیں پہلے کیطرح کسی آدھے درجن پٹھانوں کے ہاتھوں پھر کھلونا نہ بن جاؤں ۔۔۔۔ میں صحن میں ٹہل کر کچھ سوچ رہی تھی لیکن میں اب رو نہیں رہی تھی کیونکہ انہی حالات کا مقابلہ کرتےشاید تین برس سے بھی زیادہ کا وقت گزر چکا تھا ۔۔۔ دوپہر کے بعد عزیز لوٹ آیا تھا میں نے کھانا کھایا اور اس کے سامنے ست جھکائے خاموش بیٹھی تھی عزیز بولا شام کے لئے سودا لایا ہوں اور آج ذرا بہتر طریقے سے تیار رہنا شام کو آپ کے ایک مہمان نے آنا ہی ادھر ۔۔ میں خاموش بیٹھی رہی میں نے شام سے پہلے کھانا تیار کر لیا تھا اور عزیز کے کہنے پر میں نہا کر ایک قدرے بہتر سوٹ زیبِ تن کر گئی ۔۔۔ شام کا۔کھانا کھانے کے بعد عزیز ایک بار پھر مجھ سے باتیں کرنے لگا میں ضروری حد تک اس کی باتوں کا جواب دے رہی تھی رات دس بجے عزیز کسی کی کال سنتا گھر سے باہر چلا گیا تھا اور کچھ دیر بعد پینٹ سوٹ میں ملبوس ایک صحتمند شخص اس کے ساتھ آ گیا تھا۔۔۔
 
42
76
18
کچی کلی
قسط (10)

کر رہا تھا عزیز نے اس کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ ہمارے تھانے کے ایس ایچ او ہیں ایس ایچ او نے میری طرف ہاتھ بڑھایا میں نے اس کی طرف دیکھا اور لب کھولتے ہوئے رک کر اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا ایس ایچ او نے میرے ہاتھ کو دباتے ہوئے عزیز سے کہا چیز تو مست ڈھونڈ لائے ھو عزیز اس کی جسم کی نرمی بندے کو پاگل کرنے کے لئے کافی ہے عزیز بولا سر بہت مست چیز ہے نرمی کیوں نہ ھو ابھی سترہ سال کی ہے ۔۔۔ ایس ایچ او میرے ساتھ بیٹھ گیا اور عزیز سے بولا ہاں اچھی لڑکی ہے ویسے بھی پٹھان لڑکیاں سیکس میں دوسری سے زیادہ مزہ دیتی ہیں ۔۔۔۔ عزیز بس آپ کے سارے کام سمجھو ہو گئے میں آپ کو علاقے کا وڈیرہ بنا کے جاؤں گا ۔۔۔آپ کھل کے کھیلا کرو۔۔۔ عزیز مسکراتے ہوئے بولا شکریہ سر آپ کو ہردم خوش کروں گا ۔۔۔۔۔ ایس ایچ او میرے ساتھ باتیں کرنے لگ گیا اور آگے بڑھتا گیا عزیز ایک کرسی اٹھا کر باہر چلا گیا تو اس نے مجھے کپڑے اتارنے کا بولا میں اس کے احکامات پر عمل کرنے لگی وہ میرے ساتھ کھڑا ہو کر مجھے باہوں میں بھرتا اور میرے جسم کو کسنگ کرتا جا رہا تھا پھر اس نے اپنا لباس اتار دیا اس کا ببلو نارمل سا تھا چھ ساڑھے چھ اچ کا میرے لبوں پر رکھتے ہوئے مجھے چوسنے کا بولا میں اپنی مٹھی میں لے کر اس کی ٹوپی کو جوسنے لگی وہ جلدی تیار ہو گیا اور مجھے بیڈ پر لیٹنے کا بولا میں بیڈ پر آ گئی اور صاحب نے آہستگی سے ببلو میرے اندر داخل کرکے مجھ پر لیٹ گیا اور نارمل سے جھٹکے لگانے لگا وہ پانچ سات منٹ میں اپنا پانی میرے اندر چھوڑ کر میرے ساتھ لیٹ کر باتیں کرنے لگا آدھے گھنٹے بعد اس نے ایک بار پھر مجھے ببلو چوسنے کا بولا میں نے اس کی بات پر عمل کیا گو کہ یہ بھی گوشت کا بڑا خریدار تھا لیکن سارے کام پیار سے کر رہا تھا گزشتہ رات عزیز کی ظلم سے بہت بہتر تھا صاحب نے دوسری باری لی اور پھر کچھ دیر میں لباس پہن کر عزیز کو بلانے لگا میں نے بھی اپنے کپڑے پہن لئے عزیز آ گیا تھا ۔۔۔ صاحب نے اپنے پرس سے پانچ ہزار والے کچھ نوٹ نکال کر عزیز کو دئیے اور بولا گڈ عزیز مست چیز لائے ہو یہ اس کا خرچہ ہے آپ اس کے لئے پینٹ شرٹ لے لیں اور ماڈرن بنا کے رکھیں میں آتی رہوں گا اور آپ کے باقی جو بھی کام ہوں مجھے بتائیے گا عزیز نے پیسے لے کر مسکراتے ہوئے کہاں تھینک یو سر بس آپ کو ہر وقت یہ دستیاب ہو گی آپ جب چاہیں آ جایا کریں ۔۔۔ صاحب سے باتیں کرتا عزیز باہر چلا گیا تھا اور واپسی گیٹ بند کرتا ہوا کمرے میں آتے ہوئے اپنے کپڑے اتارنے لگا اس کا ببلو بہت سخت ہو چکا تھا اور کھڑی کے سامنے برآمدے میں رک کر مجھے صاحب سے کاروائی کرتے دیکھتا رہا تھا بولا جلدی اتارو کپڑے میں نے اس ظالم کی بات پر فوراً عمل کیا اور اس نے میرے اوپر لیٹتے ہوئے ببلو کو ایک دم سے میری ببلی میں بھرا اور جھٹکوں سے میرے جسم پر تالی بجانے لگا اور جلد ہی میرے نکلتے پانی میں اپنا پانی مکس کر دیا اور چادر لپیٹ کر میرے بوبز پیتا میرے ساتھ سو گیا ۔۔۔۔ اگلے روز عزیز میری کمر کی ناپ کرکے گیا تھا اور واپسی پر تین عدد پینٹس اور شرٹس کے ساتھ تیز پرفیوم اور کچھ دیگر سامان بھی لایا تھا کوٹھے کی رنڈی کیا ہوتی ہے شکیلہ کیسے جانتی تھی وہ مجھے بہت پہلے بتا چکی تھی کہ وہاں ہر روز نیا بندہ آتا ہے اور لڑکی کو ہر روز نئے ببلو کا مزہ ملتا ہے کیا میں آج بھی کسی کی خوراک بنوں گے ؟؟۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ عزیز کو کوئی کال آ گئی ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے خوشامدی انداز میں بولنے لگا ڈی ایس پی صاحب بہت پیارا گفت لایا ہوں آپ کے لئے بنوں سے ۔۔۔ کمال چیز ہے سر آپ کو پچھلا سب کچھ بھلا دے گی ۔۔۔ اوکے سر میں کیسے انکار کر سکتا ہوں ۔۔۔ ویلکم ویلکم ۔۔۔ اور کال منقطع کر دی ۔۔۔ شام کے فوراً بعد عزیز نے کھانے لگوایا اور اس کے بعد مجھے پینٹ شرٹ پہنا کر تیار کر لیا ۔۔۔۔ رات گیارہ بجے اسے کال آئی اور یہ باہر چلا گیا کچھ دیر بعد وہ بہت موٹے کالے۔شخص کے ساتھ اس کی خوشامد کرتا گھر میں داخل ہوا۔۔ ۔ کمرے میں آنے کے بعد اس بھدے شخص نے مجھے دروازے کے پاس کھڑا دیکھ کر کہا او عزیز یہ تو چھوٹی ہے میرا للا نہیں لے سکے گی ۔۔۔۔ عزیز نے ہنستے ہوئے کہا او نہیں ڈی ایس پی صاحب اس لئیے تو آپ کو بولا تھا کہ کمال چیز ہے ۔۔۔ڈی ایس پی مجھے اپنے بازؤ میں بھرتے ہوئے بیڈ کی طرف جاتے ہوئے بولا اوکے ٹری کرتے ہیں مر گئی تو تیری اور بچ گئی تو بس پکی میری ۔۔۔۔عزیز بولا یہ پکی تیری ہو جائے گی جی بھر کے کھیلو سر۔۔۔۔ اس موٹے نے مجھے اپنی گود میں بٹھایا اور انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے جسم کو نوچنے کے ساتھ بےشرمی کی باتیں کرنے لگا۔۔۔اس نے مجھے لباس اتارنے کا کہا اور پھر مجھے اپنی گود میں الٹا لٹا کر میرے ہپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا بنوں کی لڑکیاں تو پیچھے بھی لیتی ہیں ۔۔۔ آپ نے لیا کبھی ؟؟؟ میں خاموش رہی .,., وہ اٹھ گیا اور اپنے کپڑے اتارنے لگا قمیض کے بعد جیسے اس نے اپنی شلوار اتاری میں ٹھٹک گئی واقعی وہ جس کو للا کہہ رہا تھا بہت بڑا تھا اس کا ببلو اس وحشی سے بھی لمبا اور بہت موٹا تھا میں نے ایک نظر اس کو دیکھا اور اپریل چہرہ دوسری طرف پھیر لیا وہ بولنے لگے ہاں چھوکری لے سکو گی میرا لوڑا ؟؟۔ میں خاموش رہی وہ بیڈ پر اپنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اور مجھے لٹاتے ہوئے میری ٹانگوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا اس نے برآمدے میں موجود عزیز کو آواز دی اووے کوئی تیل شیل رکھیا اے ۔۔۔۔ عزیز کمرے میں آ گیا اور کالے ڈھکن والی پلاسٹک کی بوتل اٹھا لایا اس بھدے سے کالے موٹے شخص نے عزیز کے ہاتھ سے بوتل لی اور بولا باہر کدھر چلے گئے تھے ؟؟ ادھر بیٹھ خر شغل دیکھو۔۔۔ اس نے اپنے لوڑے پر تیل انڈیلا اور اس پر ہاتھ سے پھلا کر میرے ہپس کو نیچے سے پکڑ کر میری پوزیشن درست کی میرا جسم تھوڑا لرزا ضرور لیکن میں نارمل سی ہو گئی پتا نہیں کن حالات میں میں کیسے کیسے لوگوں کا نشانہ بن چکی تھی اس ڈی ایس پی نے تیل سے چکنی انگلی میری ببلی کے ہونٹوں میں پھیرتا ہوا اپنے لوڑے کا ٹوپا ببلی پر رکھ کر اپنی کمر کو جھٹکا دیا اور درد کی لہر کے ساتھ اس کے موٹے بڑے ببلو کا کافی سارا حصہ میرے اندر بھر گیا تھا مجھے درد ہو رہا تھا لیکن میں اب آوازیں نہیں نکال رہی تھی ۔۔۔۔ وہ صاحب ادھر ہی رک کر عزیز سے بولے اوے ویکھو اس کی دھرکنیں چل رہی ۔۔۔ عزیز بولا صاحب کچھ نہیں ہوتا آپ تسلی سے ڈال دو اور بغیر ٹیشن اپنا دل خوش کرو۔۔۔۔ وہ بولا پھر 1122 کا نمبر بھی نکال کر رکھو۔۔۔ اس نے اپنے بھاری پیٹ میرے اوپر رکھا اور لیٹ گیا جیسے میری ہڈیاں ٹوٹنے لگی ہوں میری لمبی اونہہ کی آواز نکلی اور یہ جھٹکے مارتا آہاہا کرتے میرے اندر پورا بھر رہا تھا اس میں میں بغیر کوئی لذت محسوس کئے بغیر پانی چھوڑ گئی مجھے مزے سے زیادہ الجھن ہو رہی تھی میری ببلی میں پورا ہتھیار بھرنے کے بعد وہ جھٹکے لگاتا بولا ۔۔ واقعی عزیز تو کمال کی چیز ڈھونڈ لایا ہے وہ رگڑ رگڑ کر مجھے جھٹکے مارتے رونڈ رہا تھا بہت دیر تک وہ ایسا کرتا اٹھ گیا اور بولا عزیز چھوکری کو گھوڑی بناؤ ذرا ۔۔۔ عزیز نے جلدی سے اٹھ کر مجھے بیڈ پر گھوڑی بنا دیا اور سائیڈ پر ہٹ گیا وہ آگے آ گیا اور پھر عجلت میں میری ببلی کو بھر کر جھٹکے مارتا ہوا میرے اندر بہت آگے اپنا لاوا گرانے لگا ۔۔۔۔ اس وقت اس نے اونچی آواز میں وشششش وششششش کیا اور زور سے دو بار زور سے میرے ہپس پر تھپڑ مارے اور پھر میری کمر کو پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا کچھ دیر رکا رہا اور پھر بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گیا اور بولا اوو عزیز خوش کر دیا تم نے اس چھوکری کا سارا خرچہ مجھ سے لے لیا کرو اور علاقے میں اپنی فل بدمعاشی کرتے رہو کوئی تمھارا بال بھیگا نہیں کرے گا میں نے بیڈ کر لیٹ کر چادر تان لی اور بغیر کسی سوچ کے ساکت ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ عزیز بولا صاحب آپ کو دیکھ کر میں فارغ ہو گیا ہوں وہ ہنس رہا تھا ڈی ایس پی بولا اووے تم سارے فارغ لوگ ہو بس یہ میرے لئے سنبھال کر رکھو میں آتا رہوں گا ۔۔۔۔ وہ عزیز سے باتیں کرتا کرتا چلا گیا تھا عزیز میرے پاس سو گیا تھا یہ روٹین آگے چلتی رہی اب عزیز دن کو کچھ وقت میرے پاس آتا اور شام کے بعد بھی کچھ دیر آ جاتا وہ خود ہفتے میں دو تین بار سیکس کرتا اور ہفتے کی پانچ یا چار راتوں میں نئے نئے لوگ آتے ان میں زیادہ تر لوگ پولیس کے ہوتے اور مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ عزیز کا کاروبار بھی دو نمبر ہے جس کے لئے وہ مجھے پولیس افسران کو پیش کرکے نہ صرف بہت سے پیسے ہتھیا لیتا بلکہ اپنے دو نمبر کاموں کو بھی تحفظ دیتا تھا اس حال میں تقریباً پانچ ماہ گزر چکے تھے بس اب بجھا رہنا میری عادت بن گیا تھا۔۔۔۔ اپنی زندگی کے اچھے وقتوں کو میں بھول چکی تھی اس سے پہلے کیا ہوتا رہا یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا اور بس صرف گزری رات کو کبھی یاد کر لیتی ان پانچ ماہ میں میں تین بار عزیز کے ساتھ باہر گئی تھی جب میں بیمار ہوئی تو وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا اب میں آنے والے ان گندے لوگوں کی ان کی فرمائش پر انکی تیل سے مالش کرنا بھی سیکھ گئی تھی میرا جسم ایک بار پھر پھولنے لگا تھا جلد خراب ہو گئی تھی کبھی خود سے الٹیاں کرنے لگ جاتی اس روز جانے کن سوچوں میں میں اس مکان کے چھوٹے صحن میں اونچی عمارتوں کے درمیان جانے کن سوچوں میں بار بار نیلے آسمان کو دیکھ رہی تھی ہر طرف خاموشی تھی سامنے والی دیوار کچھ بوسیدہ تھی اور یہ دیوار زیادہ اونچی بھی نہیں تھی اور کبھی کبھی ہفتے دو بعد اس گھر سے کسی خاتون کی۔مدھم سے آواز آتی تھی لیکن بات کو میں سمجھ نہیں سکتی تھی اس دیوار کے دیکھ کر کبھی کبھی میں سوچتی پتا نہیں جہاں کون رہتا ہے کیا جہاں بھی کوئی مجبور پھنسی کوئی خاتون یا لڑکی ہے۔یا یہ کوئی خوشیوں بھرا گھر آباد تھا ۔۔۔ اس روز اس دیوار کو دیکھتے ہوئے مجھے اس کے ایک سوراخ سے ایک کاغذ باہر آتا دیکھائی دیا کاغذ خود سے نہیں چلتا ہے ۔۔ میرے ذہن میں آنے والے اس خیال نے مجھے اس طرف متوجہ کر دیا کاغذ نیچے گر گیا تھا اور ایک تیلی نما لکڑی سوراخ سے باہر آ کر اندر چلی گئی تھی میں نے گیٹ کی طرف دیکھا اور فوراً اس کاغذ کی طرف لپکی موم بتی کی طرح لپٹے اس کاغذ کو کانپتے ہاتھوں سے آہستگی سے کھولا اور اس کو پڑھنے لگی ۔۔۔۔ اس بوسیدہ دیوار کے اس پار کوئی ارم نامی لڑکی رہتی تھی جو مجھے جہاں بہت عرصے سے دیکھ رہی تھی ارم کے علاوہ علاقے کے سب لوگ عزیز کو بدمعاش کے روپ جانتے تھے اور سب اس سے ڈرتے تھے ارم نے مجھے کہا تھا کہ اگر میں کچھ بتانا پسند نہ کروں تو پلیز اس پرچی کو کہیں نالے میں بہا دینا پھاڑ کر اور عزیز سے ذکر نہ کرنا میں آپ کی مدد کرنا چاہتی اور مجھے مروا نہ دینا ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ارم نے اپنے گھر میں کسی سے اونچی آواز میں بول کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا ۔۔ مجھے ان سالوں کے گھٹن حالات میں پہلی لڑکی ملی تھی اور میں اسبپر اعتمادغکر سکتی تھی اس سے قبل اس بزرگ خاتون نے مجھے زندگی دی تھی جسے میں اماں بولتی تھی گو کہ میں ان دنوں اس ملنے والی نئی زندگی پر پچتا رہی تھی لیکن اماں مجھے اب بھی بہت یاد آ گئی تھی میں نے ارم کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر کیسے میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اس سوراخ سے ایک بار پھر کاغذ باہر آنے لگا میں اس کی طرف بڑھ گئی اور کاغذ کو کھولا تو یہ سادہ تھا اور اس میں بال پین کی نلی تھی میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس کاغذ پر صرف جہاں کی مختصر داستان لکھی اور اس کو دوبارہ لپیٹ کر اس سوراخ کے طرف بڑھ گئی ۔۔ سوراخ اس طرف سے میری قد سے بہت اوپر تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا فریج کے نیچے رکھی جانے والی لکڑی کی ٹوٹی چوکی پڑی تھی میں نے اس کو اٹھا کر اس سوراخ کے نیچے دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور کاغذ کو جھاڑو کی تیلی سے آگے کرنے لگے کاغذ تھوڑا آگے جانے کے بعد غائب ہو گیا جیسے ادھر سے اس نے کھینچ لیا ہو تقریباً ایک ماہ تک روزانہ کی بنیاد پر تین چار پرچیوں کے تبادلے کے بعد میں تقریباً ان بھیانک حالات کی پوری داستان سنا چکی تھی میں نے عزیز کو بالکل محسوس نہیں ہونے دیا ایک دن ارم نے مجھے بتایا کہ ایک بہت اچھی فیملی میری ہلپ کرنا چاہتی ہے میں کچھ گھبرا گئی ارم نے بتایا کہ وہ سارے انتظامات خود کر رہے اور تمھیں یہاں اچانک نکال کر لے جائیں گے اس آدمی کی دو بیویاں ہیں اور وہ اس کے ساتھ آئیں گی اور تمھیں واپس کراچی پہچانے کے انتظامات کریں گے ۔۔۔ میں نے پرچی پر سوچنے کا وقت مانگا ارم نے بتایا تھا کہ وہ لوگ اپنی جانوں کو تمھارے لئے خطرے میں ڈال رہے آپ صرف ایک بار اس جہنم سے نکلنے کی کوشش کر لو۔۔۔۔ میں نے اگلے دن اسے اوکے کہہ دیا اور ترتیب پوچھی ارم نے اگلے کچھ روز میں پلان بتانے کا کہہ دیا۔۔۔
 
42
76
18
کچی کلی
قسط (11)

میں نے ابھی تک ارم کو نہیں دیکھا تھا جبکہ ارم مجھے اس سوراخ سے دیکھتی رہتی تھی ارم کی تحریروں نے میرے اندر حوصلہ بھر دیا تھا اور کبھی کبھی ارم کی بتائی اس فیملی کے بارے میں سوچنے لگتی کہ اسے کیا غرض پڑی ہے اس خطرناک شخص سے ٹکرانے کی جو پولیس کے افسران کو اپنا بنا چکا ہے اور شہر میں سرعام بدمعاشی کرتا ہے لیکن میں صرف ارم کے کہنے پر ایک بار قسمت کو آزمانہ چاہتی تھی ارم نے مجھے اس فیملی کی طرف سے دیا گیا شیڈول بتایا کہ وہ صبح سویرے ہی آپ کے مکان کا تالا توڑ کر آپ کو خاموشی سے لے جائیں گے نماز سے پہلے جب اندھیرا ہو گا یہ ایسا ٹائم تھا کہ اس وقت عزیز نہیں ہوتا تھا وہ صبح نو بجے کے بعد یہاں آتا تھا اور رات کو ایک بجے یہاں سے چلا جاتا تھا کئی بار ہمارے گھر میں کوئی چیز دستیاب نہ ہوتی تو وہ ارم کے گھر کا گےٹ بجا کے وہاں سے لے آتا تھا مجھے اس بات کا پہلے علم نہیں تھا بس یہی معلوم تھا کہ وہ شاپ پر جانے کے بجائے کہیں نزدیک سے لیکر آتا تھا کئی بار نمک چائے کی پتی یا اس طرح کی کوئی چیز وہ فوراً لیکر آ جاتا ارم نے بتایا تھا کہ ہمارے رشتے داروں کی شادی ہے اور جب ہم چار روز کے لئے وہاں جائیں گے تو تیسرے دن وہ لوگ آپ کو یہاں سے لیکر جائیں گے آپ بلاخوف ان کے ساتھ خاموشی سے چلی جانا پہلے دو دن آپ کسی بھی چیز کی کمی کا بول کر عزیز کو بھیجیں گی تاکہ عزیز ہمارے گھر کا تالہ دیکھ لے اور آپ کے جانے کے بعد اس کا شک ہمارے گھر پر نہ آئے میں نے اوکے کر دیا ۔۔ میرے ذہن میں مسلسل اس فیملی کا خیال آتا تھا پھر میں نے اپنے ارادے کو پختہ کر لیا کہ کم سے کم اس سے برا نہیں ہو گا جو اب تک میں گزار چکی ہوں ارم مسلسل اس فیملی سے رابطے میں تھی اور ڈیلی کی بنیپر مجھے بھی انفارم کرتی تھی ارم نے بتایا کہ وہ بدھ کے روز شادی پر چلے جائیں گے اور سوموار کو واپس آئیں گے ہفتے کی صبح منہ اندھیرے اذان کے وقت آپ کے گیٹ کا تالاب توڑ دیا جائے گا میں نے اوکے کر دیا ارم نے آج بھی مجھے بتایا کہ وہ صبح نو بجے کے بعد چلے جائیں گے ارم نے اپنی امی کو اعتماد میں لے رکھا تھا ارم نے بتایا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ گھر سے اس وقت نکلیں جب عزیز ان کو گلی میں دیکھ سکے وہ صبح نو بجے کے قریب یہاں آتا تھا ۔۔۔ صبح میں دیر سے اٹھی تھی رات کو عزیز دو بندے لیکر آیا تھا اور دوبجے ان دونوں کے ساتھ اس گھر سے نکلا تھا اور میں اس کے بعد سوئی تھی میری آنکھ کھلی تو عزیز روم میں آ چکا تھا اور موبائل پر اپنا انگوٹھا سویپ کر رہا تھا میں بڑی عمر کی کسی خاتون کی طرح اپنی کمر کو پکڑ کر اٹھی اور باتھ روم چلی گئی میں اس عمر میں اندر سے خالی ہو چکی تھی میں باتھ روم سے واپس آئی تو عزیز نے چائے کی فرمائش کر دی میں خاموشی سے چکن چلی گئی اور چائے بنانے لگ گئی میں نے پتی کے پیکٹ کو چھپا دیا اور دودھ میں چینی ڈال کر کمرے میں آئی اور عزیز سے بولی کہ چائے کی پتی نہیں مل رہی جلدی سے لا دوگے ۔۔ وہ فوراً اٹھ گیا باہر جانے کے ایک منٹ بعد عزیز نے گیٹ کو لاک کیا اور چلا گیا میں سمجھ چکی تھی کہ وہ پہلے ارم کے گیٹ کی طرف گیا اور تالہ دیکھ کر دوبارہ گیٹ کی طرف آیا اور اس لاک کرکے پھر کہیں گیا ہے عزیز دس منٹ بعد پتی لیکر آیا تھا میں نے اس سے تاخیر کی کوئی وجہ نہیں پوچھی اور چائے بنا کر لے آئی ۔۔۔۔ دوسرے دن بھی میں نے شام کے وقت عزیز کو نمک لانے کا بولا تو وہ پھر دس منٹ بعد آیا اور جمعہ کے روز بھی میں نے چائے کی پتی کے پیکٹ کو جان بوجھ کر گرا دیا اور عین موقع پر اسے پتی لانے کا بولا رات کو عزیز کچھ تاخیر سے آیا اور اس کے ساتھ وہی بھدا ڈی ایس پی ساتھ تھا میرے کپڑوں کا شاپر بیڈ کے نیچے پڑا تھا اس گینڈے جیسے موٹے ڈی ایس پی نے اس رات مجھے بہت بےحال کیا تھا وہ بہکی بہکی باتیں کرتا رہا اور اس کے منہ سے کچھ عجیب سی بدبو آ رہی تھی جیسے وہ شراب پی کر آیا ہو ۔۔۔ رات کو تقریباً تین بجے اس نے اپنا لباس پہنا اور کسی کو کال کر کے کہا کہ مجھے لے جاؤ۔۔ عزیز نے اسے کہا صاحب آج ادھر ہی سوتے ہیں میں بھی اپنے گھر جانے سے لیٹ ہو چکا ہوں ۔۔۔۔ میرا دل دھڑام سے ٹخنوں میں جا گرا ۔۔۔۔۔ اس سرد موسم میں بھی میرے جسم پر پسینہ سا آ گیا تھا ۔۔۔ مجھے لینے کے لئے آنے والے لوگ چند گھنٹوں میں یہاں آنے والے ہیں تو کیا وہ بھی میری وجہ سے کسی مصیبت میں پھنسنے والے ہیں کیا راز آؤٹ ہونے کے بعد اس درندہ ارم لوگوں کو جینے دے گا ؟؟۔۔ ایک ہی لمحے میں کئی خیالات میرے ذہن میں گردش کر گئے ۔۔۔ ڈی ایس پی نے ایک لمحے بعد بولا نہیں میں اپنے فام ہاؤس جا کر سونا چاہتا آپ ادھر ہی سو جائیں ۔۔۔ عزیز نے اوکے بول دیا ۔۔ میں کتنی بدقسمت تھی کہ خود تو عذاب بھگت رہی تھی اور آج میرے ساتھ ہمدردی کرنے والی فیملی بھی کسی عذاب میں پھنسنے لگی تھی ۔۔ بیس منٹ بعد ڈی ایس پی کا فون بج اٹھا اس نے فون پر صرف اوکے بولا اور اٹھنے لگا تھا ۔۔۔ عزیز بھی شاید اسے گیٹ تک چھوڑنے کے لئے اٹھ گیا ۔۔۔ ڈی ایس پی نے اپنے قدم روکے اور بولا عزیز میرے ساتھ چلو تم بھی آج آپ کو سپیشل چیز پلاتا ہوں ۔۔۔ عزیز نے سوالیہ انداز میں پوچھا برانڈڈ ؟؟؟ بھدا گینڈا بولا ہممممم آ جاؤ عزیز نے ٹیبل پر رکھا اپنا سامان اٹھا کر جیب میں ڈالا اور جاتے ہوئے مجھ سے بولا تم سو جاؤ میں صبح جلدی آؤں گا کام ہے کچھ ۔۔۔۔۔ شاید عزیز نے میری دن کی بکنگ بھی کر رکھی تھی میں نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور کمبل میں لیٹنے لگی ٹائم شاید کم تھا اور میں ان کے جانے کے بعد اٹھ بیٹھی تھی کہ کہیں مجھے نیند نہ آ جائے کیا میں آزاد ہونے جا رہی کیا میں کراچی پہنچ پاؤں گی کیا میرے ابو امی زندہ ہونگے کیا وہ مجھے قبول کریں ؟؟؟ چلو اللّٰہ کرے وہ زندہ ہوں مجھے قبول نہ کریں اور اگر میں ان کو صرف اپک بار دیکھ بھی لوں تو بھی میری خوش قسمتی ہو گی پہلی آذان کی آواز کے ساتھ گیٹ پر ہلکی سے ٹک کی آواز آئی اور گیٹ کی کھڑکی کھل گئی میں برآمدے تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاکرہ نے بولا زاہد اتنا بڑا خطرہ مول لینے سے بہتر ہو گا آپ اقرار الحسن کو کال کر لیں اس کا نمبر تھا ناں آپ کے پاس۔۔۔۔۔۔ میں نے گہری سانس لی اور قہوے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا میرے خیال میں ہمیں کسی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ہم آسانی سے نازیہ کو لینے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔۔۔ اگر خطرہ بھی ہوا تو خیر ہے موت نے ویسے بھی آنا ہے اور ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ ہم ایک بیٹی کو آزاد کرنے کی کوشش میں مارے جائیں ۔۔۔ اقرار کو بتانا اور نازیہ کی ٹی وی پر تہشیر کرنا درست نہیں ہو گا جو کام ہم آسانی سے کر سکیں تو اس کے لئے کسی اور کو تکلیف دینا ٹھیک نہیں ۔۔۔ ویسے بھی اقرار الحسن کا ٹھیکہ نہیں ہے ہر ٹینشن میں پڑنا ۔۔ ہر ایک کا فرض ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کرے ارم نے مجھے ایک ایک پل اور ایک ایک خطرے سے آگاہ کر دیا تھا اقبال اور دانش میری زمینوں پر کام کرنے والے بہت دلیر لڑکے ہیں ہردم چوکس اور مجھے جب بھی جس کام کے لئے ان کی ضرورت پڑی تھی انہوں نے ایک ہیرو کا کردار ادا کیا تھا سمجھو یہ حلال کمانے اور کھانے کے ساتھ پیدائشی طور پر خطروں کے کھلاڑی تھے وہ آج صبح دس بجے میانوالی پہنچ چکے تھے دن دو بجے میں نے دانش اور ارم کو کانفرنس کال پر لے لیا ارم دانش کو راستوں سے آگاہ کرتی جا رہی تھی میں صرف پر ہی ان سے بات کر رہا تھا اقبال بھی دانش کے ساتھ تھا بیس منٹ بعد وہ ارم لوگوں کے کوچے میں پہنچ چکے تھے دانش ارم کو کوچے کے بارے میں بتا رہا تھا ارم کے گھر کے سبز گیٹ کو تالہ لگا ہوا تھا اس سے اگلہ بلیو کلر کا گیٹ تھا اس کو بھی باہر سے تالا لگا تھا اقبال اپنے موبائل پر غیر محسوس انداز میں تصاویر بنا رہا تھا نازیہ کے گیٹ کے آگے لگا تالہ کافی بھاری اور مضبوط تھا اتنے تک جانے کے بعد ارم نے انہیں فوری طور پر وہاں سے نکلنے کا بولا وہ عجلت میں اس کوچے سے نکل آئے تھے ۔۔۔ اور لاری اڈے کی طرف چلے گئے تھے اقبال اور دانش نے مجھے تصاویر سنڈ کر دیں اور میں نے ارم کو واٹس ایپ کر دیں انہوں نےصحیح مقام دیکھ۔لیا تھا اب وہ اس تالے کو کھولنے کی ترکیب سوچ رہے تھے اور ضروری سامان وہاں بازار سے لے لیا تھا میں دانش اقبال اور ارم مسلسل رابطے میں تھے شام کے بعد بھی اقبال اور دانش ایک چنگ چی پر بیٹھ کر اس کوچے تک گئے تھے تاکہ اندھیرے میں ان کے لئے کوئی مسئلہ باقی نہ رہے۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے ان دونوں کو کسی ہوٹل میں آرام کرنے کا بولا اور میں سائقہ اور شاکرہ اس وقت بیٹھے صرف اس موضوع پر بات کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ شاکرہ سائقہ اور میں وقفے وقفے سے ارم اور اسکی امی سے بات کر رہے تھے رات بارہ بجے ہم نے ضروری سامان گاڑی میں رکھ دیا تھا شاکرہ نے پسٹل اپنے پرس میں رکھا تھا رات سوا ایک بجے ہم گھر سے نکل پڑے تھے ہمیں میانوالی پہنچنے کے لئے تین گھنٹے کا وقت درکار تھا یعنی ہم چار بجے وہا پہنچ سکتے تھے ارم ساری رات جاگتی رہی تھی اور ہمارے ساتھ رابطے میں تھی میانوالی بپس کلومیٹر ہم سے دور تھا ساڑھے تین بج چکے تھے میں نے اقبال کا نمبر ملایا اس نے فوراً کال ریسیو کر لی وہ دونوں جاگ چکے تھے انہوں نے گائیڈ کرنا شروع کر دیا ہم شہر کی حدود میں داخل ہو چکے تھے ایک پولیس ناکے پر ہم نے ضروری دستاویزات دیکھائی اور آگے چل پڑے اقبال اور دانش نے ہمیں ایک چوراہے پر رکنے کا بولا ہم روڈ کنارے ٹھہر گئے سائقہ دانتوں سے بادام توڑ کر مجھے اور شاکرہ کو دینے لگی دس منٹ بعد اقبال اور دانش ہمارے پاس آ گئے تھے کچھ ضروری معلومات کے بعد میں نے انہیں فوری پلان پر عمل کرنے کا کہا اور ایک کاغذ انہیں تھما دیا جس پر میں نے گھر سے نکلنے سے پہلے لکھ لیا تھا کاغذ پر میں نے اتنا لکھا تھا ۔۔۔۔ ہم نے نظام سے بچی کی شادی کی تھی اسے بیچنے کا اختیار نہیں دیا تھا ۔۔ نظام اپنے انجام تک پہنچ گیا ہے ہم بچی کو لے کر جا رہے اب تم اپنے انجام کے لئے تیار رہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے دانش کو یہ پرچہ تھمایا اور اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیا شاکرہ آگے بیٹھی تھی سائقہ گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی جبکہ یہ دونوں میرے آس پاس بیٹھ گئے میں نے دانش کو بولا کہ یہ پرچہ بیڈ پر رکھ دینا اور جلد سے جلد نازیہ کو گاڑی تک پہنچانے کی کوشش کرنا کوچے کے قریب جانے پر میں نے سیٹ کے ڈرائیونگ سیٹ۔کے ساتھ چھپا پسٹل اقبال کے حوالے کر دیا اور اسے بتایا کہ خطرے کے وقت استعمال کر دینا جب دیکھو کہ تمہاری یا نازیہ کی جان کو خطرہ ہے ۔۔۔ 4:50 بجے یہ دونوں گاڑی سے اتر گئے اور گلی میں چلتے تقریباً دو سو فٹ جانے کے بعد لفٹ سائیڈ پر مڑ گئے میں نے سقی کو گاڑی ٹرن لے کر کھڑی کرنے کا بولا اور شاکرہ سے پسٹل لے کر بیک سیٹ پر پیچھے کو منہ کرکے چوکس بیٹھا رہا سائقہ نے گاڑی کا سوئچ بند کر دیا اور یہ دونوں بھی محتاط انداز میں آس پاس کا جائزہ لینے لگی سائقہ پر اب بھی کسی خوف کا قبضہ نہیں تھا جبکہ شاکرہ اس معاملے پر روز اول سے ہی میرا پلان سن کر خوفزدہ تھی ۔۔۔ کوئی بیس منٹ بعد اسی کوچے سے چادر لپیٹے اقبال تیزی سے نکلا جس کے پیچھے شاید نازیہ تھی جو ڈگمگا کر تیز چلنے کی کوشش کر رہی تھی میں سائقہ سے گاڑی اسٹارٹ کرنے کا بولا اور ساتھ اسے کہا لائٹس آف رکھو شاکرہ کانپتی ہو،پیچھے دیکھنے لگی اقبال اور نازیہ کے گاڑی تک پہنچنے سے پہلے دانش بھی کوچے سے نکل کر گلی میں آگے پیچھے دیکھتا ہوا محتاط انداز میں آگے آ رہا تھا میں نے لفٹ سائیڈ والی کھڑکی کھول دی نازیہ کانپتی دھڑام سے سیٹ پر گر گئی وہ بری طرح ہانپ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کا بدن لرز رہا تھا شاکرہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی ہماری بیٹی ہو تم ۔۔۔ اب تم آزاد ہو ۔۔۔ بےفکر ہو جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے مجھے پسٹل تھمایا اور بولا صاحب آپ جلدی نکل جاؤ۔۔۔ میں نے دانش اور اقبال سے ہاتھ ملایا اور انہیں یہاں سے فوری نکلنے کا کہہ کر سائقہ سے چلنے کا بولا اس نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھا دی وہ گلی بھول چکی تھی بہرحال میں نے اسے ایک جگہ پر اندازے سے رائٹ سائیڈ پر گاڑی موڑنے کا بولا ہم دس منٹ میں مین روڈ پر آ گئے ہم میں نے ارم کا نمبر ملانا چاہا موبائل کی سکرین پر دیکھا تو اس کی بیس کالز آ چکی تھی مین روڈ پرہم کس طرف جا رہے تھے ہمیں معلوم نہیں تھا لیکن سائقہ بہت تیزی سے گاڑی آگے بڑھا رہی ۔۔۔ ارم نے فوراً کال پک کر لی تھی میں نے آس پاس دیکھتے ہوئے اپنی لوکیشن بتائی اس سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں آگے چوک پر جہاز دیکھ کر میں نے اسے بتایا تو اس نے اس سے ایک روڈ مڑنے کا بتا دیا ہم دوبارہ اسی روڈ پر آ گئے تھے اور اب سائقہ نے گاڑی کی سپیڈ مذید بڑھا دی تھی ہم آدھے گھنٹے میں ارم کے ماموں کے گھر کے آگے رک چکے تھے اقبال اور دانش لاری اڈہ پہنچ کر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ ہم ارم سے گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہی ملے اور نازیہ نے نیچے اتر کر ارم کو گلے لگا لیا تھا اور آواز سے رونا شروع کر دیا تھا شاکرہ نے بہت مشکل سے ان کو جدا کیا اور نازیہ کو گاڑی میں بٹھایا ۔۔۔ ہم نے ارم سے پھر ملنے کا وعدہ کیا اور ارم کی بتائی ایک گلی سے مین روڈ کی طرف نکلنے لگے ۔۔۔ میں نے نازیہ سے پہلی بار بولا ۔۔۔ نازیہ ہماری بیٹی ہو تم یہ رونے کا وقت نہیں ہے نازیہ دعا کرو تمھارے ساتھ ہم بھی خیریت سے پہنچ جائیں ۔۔۔۔۔ اس وقت سورج ابھی نہیں نکلا تھا شاید یا بادل تھے بہرحال روشنی اچھی خاصی ہو گئی تھی ہم جیسے ہی مین روڈ پر آئے پولیس کی تین گاڑیاں سائرن بجاتی اسی طرف گامزن تھیں جدھر سے ہم آئے تھے۔۔۔
 
42
76
18
کچی کلی
قسط (12)

پولیس وینوں کو دیکھ کر شاید سائقہ بھی ڈر گئی تھی وہ ایک دم سے سپیڈ بڑھا گئی تھی میں نے اسے گاڑی سائیڈ پر روکنے کا بول دیا وہ اپنے سر کے اوپر لگے اس آئینے میں مجھے دیکھ اور گاڑی روڈ کنارے روک دی میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بج گئی تھی اور میں نیا پلان ترتیب دینا چاہتا تھا پہلے حالات نارمل تھے اور ارم لوگوں کی گلیوں سے نکل کر ہم الٹی سائیڈ پر چلے گئے تھے اور ہمارا بہت سا وقت ضائع ہو گیا تھا اگر ہم صحیح راستے پر آتے تو ارم سے مل کر کب کے شہر سے نکل چکے ہوتے ۔۔۔ میں نے نازیہ سے نارمل ہونے کا بولا اور اس سے پوچھا کہ کیا عزیز اس ٹائم مکان پر آ سکتا ہے ؟؟ بولی کبھی آیا تو نہیں ۔۔۔ لیکن ایک بات میرے ذہن میں آنے لگی ہے کبھی عزیز رات کو میرے ساتھ ہوتا تو نماز کے کے بعد جب تھوڑی روشنی ہوتی تو اسے اکثر ایک کال آتی تھی اور عزیز اسے کہتا کہ میں خود مکان میں موجود ہوں ۔۔۔۔ میں نے لمبی سے ھھھممم کی اور گاڑی سے اترے ہوئے شاکرہ کو پیچھے آنے کا بولا میں نے اپنے پاؤں کے نیچے سے سٹک نکالی اور اس کا سہارا لیتے ہوئے باہر آ گیا میں اس وقت بھی ایک اسٹک کے سہارے چلتا تھا ۔۔۔ میں آس پاس کا جائزہ لیتے اور دکانوں کے سائن بورڈ اور شٹر بکس پڑھتا دوسری طرف سے گھوم کر فرنٹ سیٹ پر آنے لگا تھا اب ہم تقریباً 95 فیصد خطرات میں تھے پولیس افسران کے لئے نازیہ کو پکڑنا نہیں مارنا لازمی تھا اور کیونکہ وہ ان کے سیاہ کرتوتوں کی گواہ تھی ۔۔۔۔ میں نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے ایک دکانیں کا شٹر بکس پڑھا عباس ڈیکوریشن سنٹر ۔۔ (سیج کار سجاوٹ ۔۔وغیرہ ) میرے ذہن میں کوئی خیال آیا اور میں نے اس کا نمبر ڈائل کر دیا آخری لمحات میں کال ریسیو کر لی گئی تھی میں نے دکان کا پوچھا تو بولے 9 بجے کھولیں گے میں نے التجا کی کہ اگر جلدی آ جائیں تو ہم نے کار سجانی ہے اور بہت دور جانا ہے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اور میری التجا پر صاحب بولے دکان کے ساتھ رستہ ہے اس میں جاکر دکان کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دیں میں بیس منٹ میں آتا ہوں میں نے شکریہ ادا کیا اور سائقہ کو گاڑی ادھر لے جانے کا بولا دکان کے پیچھے دو دکانوں جتنا پلانٹ پڑا تھا اور اس پر ہماری گاڑی محفوظ ہو گئی تھی اور روڈ سے نظر نہیں آ رہی تھی میں نے ارم کو کال ملا دی اور اسے صورتحال سے آگاہ کیا بولی واپس ادھر آ جاؤ ۔۔۔ ہم ابھی اس شادی والے گھر سے دو گلیوں کے فاصلے پر ہی تھی میں نے اس سے کہا کہ کوئی دلہن ٹائپ کا لباس بھیج سکتی ؟؟؟ ارم نے پانچ منٹ میں دوبارہ کال کرنے کا بولا میں اس سے پوچھا کہ آپ کے کوچے میں کسی کے سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ؟؟؟ بولی کوچے کے بالکل سامنے والے مکان کے لگے ہوئے ہیں مین گلی میں ۔۔۔ میں نے ارم کی کال بند کر دی اور فوراً دانش کا نمبر ڈائل کر دیا ۔۔۔ دانش نے بتایا کہ۔انھوں نے ٹکٹ خرید لی ہے اور گاڑی کے انتظار میں مسافر خانے میں بیٹھے ہیں میں نے انہیں آہستہ سے نکلنے کا بولا وہاں سے اور کہا کہ اپنی چادریں یہیں چھوڑ دو اور الگ الگ ہو کر جہاں سے نکل جاؤ اور کوئی اور ترتیب سوچو ۔۔۔ دانش نے اوکے کہہ دیا اور کال بند کر دی گاڑی میں سکوت تھا اور سب کے چہرے اترے ہوئے تھے سائرن کی آوازیں ایک بار پھر سے گونجنے لگیں اور گاڑیاں روڈ پر آگے چلی گئیں دکان والا بیس منٹ سے پہلے آ گیا تھا میں اتر کر اس کی طرف چلا گیا اس سے ہاتھ ملایا اور اسے جلدی سے گاڑی سجانے کی اپیل کر دی اس نے پوچھا کہ فل سجانی یا میں نے کہا ہاں فل سجا دو بھر دو گاڑی کو ایک ہی بھائی ہے میرا اور آج تو خرچے کا دن ہے وہ خوش ہوتے ہوئے بولا سر میں نے پہلے اس جیسی صرف ایک کار سجائی سے اگر کہیں تو ۔؟؟؟ خرچہ تھوڑا زیادہ ہے ۔۔۔ میں نے اس کی بات کاٹ دی کہ خرچے کی فکر چھوڑو بس آپ جلدی کر دو سائقہ اور شاکرہ کو دیکھ کر وہ کچھ زیادہ اکڑ دکھاتے ہوئے ہیرو بننے کی کوشش میں جلدی سے ہاتھ چلا رہا تھا ارم اپنے کسی عزیز کے ساتھ موٹرسائیکل پر ادھر آ گئی تھی اور روڈ پر کھڑی ہو کر کال کر کے پوچھنے لگی میں نے اسے دکان کا پتا دیا کہ ہم اس کے پیچھے ٹھہرے ہیں وہ دو منٹ میں ہی آ گئی اور شاپر اٹھائے گاڑی کے اندر چلی گئی ۔۔ ارم کے ساتھ آنے والا شخص میرے ساتھ باتیں کرنے لگا اور میں اسے گاڑی سے تھوڑا فاصلے پر لے گیا کوئی بھی بات کار سجانے میں مصروف اس شخص کو مشکوک بنا سکتی تھی ۔۔۔ اقبال نے کال کر کے بتایا کہ وہ ٹرکوں والے اڈے میں ہیں اور اپنے ایک جاننے والے ٹرک ڈرائیور کے ساتھ کچھ دیر میں نکلنے والے ہیں ۔۔۔ میں نے اوکے کر دیا اور مسلسل رابطے میں رہنے کا بولا ۔۔۔۔ گاڑی سج چکی تھی اپنے ساتھ ٹھہرے اس بندے کے آگے میں فرضی کہانی گھڑ چکا تھا جو ارم کے ساتھ آیا ۔۔۔ گاڑی کو اس بندے نے پھولوں میں ایسا بھر دیا تھا کہ اس کا اوریجنل رنگ بھی کہیں نہیں دکھ رہا تھا میں نے شاکرہ کو کال کرکے کہا کہ ہم دکان میں بیٹھ رہے نازیہ کا لباس بدل دیں۔۔ شاکرہ نے بتایا کہ وہ اپنا کام شروع کر چکے ہیں ۔۔۔ شاکرہ ہمیشہ سے ہی میرے بتانے سے پہلے کام کر دیا کرتی تھی میں نے عباس نامی اس شخص کو چائے کی فرمائش کر دی حالانکہ کہ میں چائے نہیں پیتا لیکن کچھ وقت گزارنے کا یہ اچھا بہانہ تھا ہم ابھی چائے پی رہے تھے کہ شاکرہ نے اوکے کا مسیج کیا روڈ پر پولیس کی گاڑیوں کی نقل وحمل ضرورت سے زیادہ تھی شاید ضلع بھر کی پولیس جاگ چکی تھی ۔۔۔ میں نے کار سجاوٹ کا بل پوچھا تو عباس نے اتنا بتایا کہ اگر کوئی عام آدمی ہوتا تو اب تک دکان میں لڑائی شروع ہو چکی ہوتی ۔۔ بہرحال میں نے اس کی بتائی رقم اسے تھما دی اور اٹھ گیا ۔۔۔ میں گاڑی سے تھوڑے فاصلے پر تھا کہ ارم گاڑی سے نکل کر میری طرف آ گئی اور مجھے سائیڈ پر لے جا کر کہنے لگی کہ زاہد میں آپ سے گلے ملنا چاہتی ۔۔۔ میں نے مسکرا کر اسے کہا کہ آپ پاگل ہو چکی حالانکہ یہ مجھے ہونا تھا ۔۔۔ بولی سچ میں پاگل ہو گئی ہوں۔۔۔ آپ کی کہانی پڑھنے اور اب آپ سے رائل ملنے کے بعد مجھے ایسا لگ رہا جیسے میں بہت بڑے لوگوں سے مل رہی ہوں اور اتنے ۔۔۔۔ میں نے ارم کی بات کاٹ دی اور اس سے وعدہ کیا کہ میں شاکرہ اور سائقہ کے ساتھ آپ سے ملنے ضرور آؤں گا ۔کیونکہ تم بہت عظیم لڑکی ہو اور تمھارے احساس اور نیک دلی نے وہ کام کر دیا جو شاید آج تک کسی لڑکی نے اتنا بڑا رسک لینے کا سوچا بھی نہ ہو جیسے ہم آج خطرہ لینے آ گئے ہیں ویسے آپ کی محبت لینے بھی آ جائیں گے ۔۔۔ وہ راضی ہو گئی اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے دو قدم پیچھے ہٹ کر گہری سانس لے گئی میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا مجھے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی تھی اور میں بیک سیٹ پر ٹانگیں پھیلا کے بیٹھتا تھا بہرحال میں نے اس پر گزارا کرنے کا فیصلہ کیا اور ان سب کو کچھ پڑھنے کا بول کر سائقہ سے گاڑی نکالنے کا بولا ۔۔۔ مین روڈ پر ہماری سجی گاڑی سب کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی میں نے سائقہ سے نارمل سپیڈ میں گاڑی بڑھانے کا کہا ۔۔ نازیہ دلہن بن چکی تھی ہماری گاڑی نے لفٹ سائیڈ پر موڑ۔کاٹا سامنے پولیس ناکہ لگا ہوا تھا سائقہ کانپ گئی میں نے سب کو ریلکیس کا آپشن دیا اور سائقہ سے گاڑی نارمل انداز میں بڑھانے کا بولا ۔۔۔۔ ہم سے آگے ٹھہری گاڑی کی مکمل تلاشی لی جا رہی تھی شاکرہ اور سائقہ کچھ پڑھ رہی تھی میں نے اپنا بٹوہ نکال لیا اور اس سے ایک ہزار کا نوٹ نکال لیا ۔۔ جیسے ہی سائقہ نے گاڑی چند قدم آگے بڑھا کر اگلی گاڑی والی جگہ پر روکی میں نے گاڑی کی کھڑکی کھول کر اس بزرگ حوالدار کو مسکراتے ہوئے سلام کیا اور ہزار کا نوٹ آگے چھپانے والے انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے کہا بارات اور دولہے والی گاڑیاں پیچھے ہیں ان سے مٹھائی نہیں لینی اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولا صاحب پانچ نوٹ نکالیں خوشی کے دن کنجوسی اچھی نہیں ہوتی ۔۔۔ میں نے بھی مسکرا کر کہا لالے بہت سے پیچھے بھی دے کے آ رہے اور آپ کے دوست آگے بھی ہوں گے ۔چلو دوہزار لے لو۔۔۔۔ ایک اور اہلکار بھی آ گیا تھا حوالدار بولا نہیں صاحب پورے پانچ نوٹ۔۔ میں نے کہا او بزرگوں آگے بھی آپ کے دوست ہونگے انکا بھی منہ میٹھا کرنا ہے بولا ہاں آگے بھی ناکہ لگا ہے چلو تین کر دو ہم بندے زیادہ ہیں ۔۔۔ میں نے تین نوٹ اسے تھمائے حوالدار نے مسکرا کر سیلوٹ جیسا مجھے سلام کیا اور میں نے سائقہ کو گاڑی آگے بڑھانے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ ایک کلومیٹر سے پہلے ایک اور ناکہ لگا تھا ۔۔۔ پولیس کے دو اہلکار مسکراتے ہوئے ہماری طرف لپکے ۔۔۔ میں نے پہلے سے ہاتھ میں پکڑا نوٹ اس کی طرف بڑھایا اور اس کے بولنے سے پہلے ہی خیر مبارک بھائی خیر مبارک ۔۔۔ ایک بولا پیچھے تین نوٹ اور ہمیں ایک ۔۔۔ میں نے لمبی سی اوووو کی اور بولا بھائی اب تو جیب بھی خالی ہو گئی ۔۔ بولے خوشی والے دن سوٹ کیس کھولے جاتے صاحب جیبیں کام نہیں آتی میں نے مسکرا کر تین نوٹ ان کو تھما دئیے ۔۔۔ ہم نے دوسرا ناکہ بھی کراس کر لیا تھا ۔۔۔۔ ہم نارمل رفتار سے چلتے محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے تھے پیچھے سے ایک پولیس موبائل سائرن بجاتی آن دھمکی ۔۔۔۔ ہم بوکھلا گئے ۔۔۔۔ ہمارے آگے رکتی پولیس وین میں موجود اہلکاروں کے مسکراتے چہرے دیکھ کر میں نے ہلکی آواز کہا ۔۔ پیسے لینے آئے ہیں ۔۔۔ سائقہ نے گاڑی روک دی ۔۔۔ بھاگ کر آنے والا پولیس اہلکار بولا صاحب کی مٹھائی ۔۔۔ میں نے پیچھے بیٹھی شاکرہ سے اپنی اسٹک لی اور اس پولیس اہلکار سے باتیں کرتا میں پولیس وین کی طرف جانے لگا ۔۔۔۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے صاحب کو میں نے مسکرا کر سلام کیا بولے ہماری مٹھائی بغیر جا رہے میں نے کہا صاحب آپ کے سب چہیتوں کو دے۔کر آئے ہیں آپ ہمارے ساتھ چلیں بکرا بھی دیں گے اور مٹھائی کے ٹوکرے بھی ۔۔۔۔ بولے بس ادھر دے دو ۔۔۔ آج ایمرجنسی لگی ہے ۔۔ میں نے بٹوے سے پانچ ہزار کا آخری نوٹ نکالتے ہوئے پوچھا خیریت سر کیسی ایمرجنسی ؟؟؟ بولے ہاں ایک لڑکی اغواء ہوئی ہے ۔۔۔ میں نے اوہو کہا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا سر پلیز آپ دوہزار مجھے دے دیں میری جیب خالی ہو گئی ۔۔۔اس نے اکھڑے لہجے میں کہا دس ہزار نکالو دس۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا سر آپ مجھے دوہزار دے دین بارات اور دولہا پیچھے آ رہے آپ ان سے پورا دس ہزار لے لینا میرا پرس خالی ہو گیا اس نے میرے ہاتھ سے پانچ ہزار کا نوٹ کھینچا اور اپنے ڈرائیور سے بولا چلو یار ۔۔۔ یہ کوئی سب انسپکٹر تھا ۔۔۔ وین تھوڑا آگے جاکر پیچھے کو ٹرن لے رہی تھی میں نے سائقہ کو گاڑی لانے کا اشارہ کیا ۔۔۔ شاکرہ نے میرے ہاتھ سے اسٹک لیتے ہوئے پوچھا ۔کیا کہہ رہے تھے ۔۔۔ میں مسکرایا اور بولا پتا نہیں کوئی لڑکی اغواء ہو گئی ہے ۔۔۔ سائقہ اپنے مخصوص انداز میں ہنسی اور بولی اللّٰہ اس لڑکی کے حال پر رحم کرے دن کے بارہ بج چکے تھے اور ہم اس ضلع کی حدود کراس کر آئے تھے اب میں نے سائقہ سے گاڑی روکنے کا کہا اور نازیہ کو فرنٹ سیٹ پر آنے کا بولا اور میں بیک سیٹ پر شاکرہ کی گود میں اپنا سر شاکرہ کی گود میں رکھ کر قدرے لمبا ہو گیا سائقہ گاڑی کی سپیڈ بہت بڑھا چکی تھی اس دوران گاڑی تھوڑی لہرائی لیکن سائقہ نے اسے کنٹرول کر لیا اور سپیڈ ایک دم کم کردی ۔۔ شاید سائقہ کو نیند کا جھٹکا لگا تھا ہم گزشتہ تقریباً 36 گھنٹوں سے جاگ رہے تھے میں نے آواز دی میں آ جاؤں سائقہ ؟؟۔ آپ پیچھے سو جاؤ ۔۔۔۔ سائقہ بولی حکومت نے آپ کی ڈرائیونگ پر پابندی لگائی ہے سائقہ نے شاکرہ سے پانی کی بوتل مانگی اور گاڑی روک کر اپنا ماسک اتارا اور چہرے کو گاڑی سے باہر نکال کر دھونے لگی آس پاس ویرانی تھی میں نے شاکرہ سے کہا گاڑی پر سے پھول کلیاں اتار پھینکو۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ نے دو منٹ میں ان پھولوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا ۔۔۔ سائقہ نے فل والیم میں میوزک لگایا اور اس پر اپنے مخصوص انداز میں سر ہلاتی ڈرائیونگ کرنے لگی ہمیں بھوک لگ رہی تھی کیونکہ رات سے اب تک ہم نے پانی پر گزارا کیا تھا اور کچھ دانے بادام کھائے تھے .,. لیکن رستہ کوئی بھی اچھا ہوٹل نہیں مل رہا تھا سو ہم نےشہر جا کر وہیں کھانے کا فیصلہ کیا سائقہ اور شاکرہ وقفے وقفے سے نازیہ سے گفتگو کرتے اس کو زندگی کی طرف لٹانے کی کوشش کر رہے تھے میں نے نازیہ کو بولا کہ وہ بڑی چادر اتار دے سائقہ سے بولا کہ نازیہ کو ماسک دے دو۔۔۔ نازیہ حیرت سے ہمیں اور آس پاس دیکھ رہی تھی ہم شہر میں پہنچے تو سائقہ نے گاڑی بریانی ہاؤس کی طرف موڑ دی۔۔۔
 
42
76
18
کچی کلی
آخری قسط
بقلم ایڈمن

کے بعد شاکرہ اور سائقہ نے جلدی میں مارکیٹ سے نازیہ کے لئے کچھ کپڑے خریدے اس ہم تین بجے گھر آ گئے ہم سب کا نیند کے مارے برا حال تھا۔۔۔۔ لیکن سائقہ کے مشورے پر ہم شام تک کا وقت گزارنے لگے بریانی ہاؤس میں بیٹھ کر ہم نے ارم کو اپنے خیریت سے پہنچنے سے آگاہ کر دیا تھا اقبال اور دانش ایک ٹرک پر آ رہے تھے اور ابھی رستے میں تھے اقبال میری زمینوں پر کام کرنے سے پہلے کسی ٹرک سٹینڈ پر کام کرتا تھا اور اس کی پہ واقفیت آج اس کے کام آ گئی تھی نازیہ ہر چیز کو حیرت سے دیکھ رہی تھی خصوصاً وہ سائقہ کی مجھ سے بےتکلفی پر بہت حیران تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ سائقہ سے میرا کیا رشتہ ہے شاکرہ نے نازیہ کی حیرت کو محسوس کرتے ہوئے خود ہی بتایا کہ میرے میاں کی مجھ سے اولاد نہیں ہو رہی تھی سو میں نے سائقہ سے اس کی شادی کر لی نازیہ یہ سن کر اور زیادہ حیرت کا شکار ہو گئی سائقہ می بتایا کہ وہ میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے اور ایم بی بی ایس کا دوسرا سال ہے اس کا تعلیم کا سن کر نازیہ رونے لگی تھی شاکرہ اور سائقہ نے اسے اپنی باہوں میں لے لیا اور پیار کرتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھانے لگی کہ ہم جلد اسے کراچی پہنچا دیں گے ۔۔ افسوس کی بات یہ بھی تھی کہ نازیہ جس جبر کا شکار رہی اس میں اسے اپنی امی کا۔موبائل نمبر بھی ٹھیک سے یاد نہیں تھا میں نے نازیہ سے شکیلہ بلال اور اس کی دیگر سکول فیلوز کی فیسبک آئی ڈیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی اس وقت ہم سب نیند سے بےحال تھے اور باتوں سے ہم کو الجھن ہو رہی تھی سائقہ کا۔کہنا تھا کہ اس کی امی کہا کرتی تھی کہ دن کے آخری اوقات میں سونا ٹھیک نہیں ہوتا اور ہم اس بات کے احترام میں شام کا انتظار کر رہے تھے اور اپنی نیند پر جبر کئے بیٹھے تھے شاکرہ نی نازیہ کو کہہ دیا تھا تم ہماری بیٹی ہو اور مر کر بھی اس عہد کو۔ نبھائیں گے نازیہ کے مطابق اسے آخری لمحات تک بھی بالکل یقین نہیں تھا کہ وہ عزیز کی اس قید سے نجات حاصل کر لے گی وہ ابھی بھی خوفزدہ تھی اور ہمارے رویے پر یقین کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ جن حالات کا جبر برداشت کرکے اچانک سے یہاں پہنچی تھی اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اچانک سے اس قدر محترم ہو جائے گی ہم نے اس کو حد سے زیادہ اہمیت دینے اور اس کا اعتماد بحال کرنے کا عہد کر لیا تھا اقبال اور دانش شہر پہنچ چکے تھے اور شام سے قبل اپنی بستی کی طرف روانہ ہو گئے تھے میں نے ان کو کل بلایا تھا کہ صبح ملاقات کریں گے ۔۔۔ شام کے فوراً بعد ہم ہلکا سے کھانا کھا کر سو گئے ۔۔۔۔۔ صبح میری آنکھ کھلی تو سائقہ اپنی عادت کے مطابق شاکرہ پر الٹی لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔ دونوں ابھی تک گہری نیند میں تھے میں ن، تقریباً دو دن بعد ڈیٹا آن کیا اور دیہاتی لڑکی کی اگلی قسط ٹائپ کرنے لگا کمنٹس میں دوست next کے کمنٹس کرکے شاید تھک گئے تھے اور پچھلے تقریباً پندرہ گھنٹوں سے دیہاتی لڑکی کی اس آخری پوسٹ پر کوئی کمنٹ نہیں آیا تھا میں نے ٹائپنگ شروع کر دی اور کچھ دیر بعد شاکرہ بھی جاگ گئی تھی وہ اٹھنے لگی تو سائقہ جھٹ سے میرے سینے پر آ کر پھر سو گئی شاکرہ اسے دیکھتی باہر چلی گئی تھی اور کچھ دیر بعد نازیہ سے باتیں کرتی واپس آ گئی تھی ۔۔۔ نازیہ کو حیرت کا جھٹکا لگا جب اس نے سائقہ۔کو اس طرح میرے اوپر لیٹے دیکھا شاکرہ نے مسکراتے ہوئے کہا ماشاءاللہ پڑھ لیا کرو اس پاگل بچی کو دیکھ کر نازیہ سرجھکائے صوفے پر بیٹھ گئی میں نی اس سے رسمی سی گفتگو شروع کر دی اس وقت ہمارے ساتھ وہ بھی فریش ہو چکی تھی وہ کمرے میں موجود ہر چیز کو حیرت سے دیکھ رہی تھی نازیہ کی معمولی سے غلطی اسے اس قدر رلا گئی تھی وہ بچی تھی اور بس بھٹک گئی تھی اور پھر اسے واپس لوٹنے کا وقت ہی نہیں ملا ۔ناشتے کے بعد میں نے اپنا موبائل اٹھایا اور ناشیہ کو ساتھ بٹھا لیا ہم نے شکیلہ کی فیسبک آئی ڈی جلد ہی تلاش کر لی اس پر بہت عرصے سے کوئی پوسٹ نہیں کی گئی تھی ۔۔ شاید وہ بند کر دی گئی تھی نازیہ کی آئی ڈی بھی مسلسل سرچ کرنے کے بعد ہمیں مل گئی اس پر بس وہی دو پکچر موجود تھی جو نازیہ نے اپلوڈ کی تھی ۔۔ میں اس آئی ڈی کے۔above میں گیا تو نازیہ کا موبائل نمبر شو ہونے لگا ۔۔۔ جو خوش آئند بات تھی اگر نمبرات بند بھی ہوا تو اس کا ڈیٹا نکال کر ہمیں بہت سی رہنمائی مل سکتی تھی میں نے نمبر لکھا تو نازیہ بولی ہاں یہی نمبر تھا امی کا ۔۔۔ میں نے فوراً کال کرنے سے گریز کیا بلال کی آئی ڈی پر بیس دن پہلے ایک پکچر اپ لوڈ ہوئی تھی جو فیسبک پر چلنے والی عام کی تصویر تھی جس میں ایک لڑکی پھول کو اپنے لپس سے لگا رہی تھی میں نے اپنی اس فیک آئی ڈی سے اس کو فرینڈ ریکوسٹ سنڈ کر دی مطلب بلال ٹھیک تھا اور یہ بات سب سے اہم تھی ۔۔۔ ہم نازیہ سے رفتہ رفتہ معلومات لے رہے تھے اور اس پر کوئی دباؤ نہیں بڑھا رہے تھے نازیہ کو لانے کے چار روز بعد میں نے دن گیارہ بجے جب میں چھت پر اکیلا بیٹھا تھا نازیہ کی امی کا نمبر ڈائل کر لیا کال جلد ہی پک کر لی گئی تھی اور کانپتی آواز میں کسی نسوانی آواز نے ہیلو کہا تھا میں نے نارمل انداز میں اسے سلام کیا اور پوچھا آپ زینب باجی ہیں ؟؟؟؟ مدھم سے آواز آئی جی آپ کون ؟؟؟ میری آواز اس کے لئے انجان تھی شاید اس لئے اس نے بوکھلاہٹ میں مدھم آواز میں پوچھا تھا ۔۔ میں نے بلا تعطل کہا باجی میں آپ کا بھائی ہوں میں آپ کو بہت اچھی طرح جانتا لیکن آپ مجھے نہیں جانتی ۔۔۔۔ جی بھائی نام کیا ہے آپ کا۔۔۔ آنے والی آواز نے بات کوئی بھی کی ہو یہ ضرور بتا دیا تھا کہ وہ اپنا سب کچھ کھو چکی ہے ۔۔۔ میں نے بتایا کہ باجی میرا نام زاہد ہے اور میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا اگر آپ فری ہیں تو ۔۔۔ بولی کہیں ۔۔بھائی ی ی۔۔ میں نے کہا باجی میں ۔۔۔ وہ ۔۔۔ میں آپ سے نازیہ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ۔۔۔ دوسری طرف سے خاموشی ہو گئی گہرے سکوت کے بعد ایک ہچکی نے مجھے مذید بولنے پر مجبور کردیا ۔۔ باجی پلیز ریلیکس ۔۔۔ آپ ٹینشن نہ لیں نازیہ آپ کے بھائی یعنی اپنے ماموں زاہد کے پاس پہنچ چکی ہے ۔۔۔۔ آپ ایزی ہو کر پھر میرے سے بات کر لینا ۔۔۔۔ باجی اللہ آپ کو سلامت رکھے ۔۔۔۔ میں نے کال منقطع کر دی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میں نے دل میں شکر ادا کیا کہ نازیہ کی امی زندہ تھی ۔۔۔ میں نے نازیہ سے اس کال کا ذکر نہیں کیا البتہ شاکرہ اور سائقہ کو بتا دیا تھا ۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ نے نازیہ سے بہت سی معلومات لے لیں تھی اور اس سے بیتے وقت کی ایک ایک لمحے کی معلومات لے رہی تھی اب نازیہ آہستہ آہستہ ان دونوں سے کھل کر بات کرنے لگی تھی ستر فیصد معلومات مجھے ارم پہلے ہی دے چکی تھی دو دن بعد زینب باجی کے نمبر سے مس کال آ گئی ۔۔ اور میں اسی وقت کے انتظار میں تھا۔۔۔ میں اٹھ کر آہستہ سے چلتا دوسرے کمرے میں چلا گیا اور باجی کا نمبر ڈائل۔کر۔لیا باجی نے کال ریسیو کی اور گھبرائی ہوئی آواز میں بولی جی بھائی آپ کیا کہنا چاہ رہے تھے اس دن ؟۔۔۔ میں نے گہری سانس لی اور بتایا باجی پچھلے چھ روز سے نازیہ ہمارے پاس ہے وہ کراچی میں آپ کے گھر کے پاس سے اغواء ہو گئی تھی ناں ۔؟؟؟ نہیں بھائی یہ گھر سے بھاگ گئی تھی ۔۔ اس لڑکے نے واپس آ کر پولیس کو سب کچھ بتا دیا تھا ۔۔۔ آپ صحیح سے بات کریں گے تو میں سن لوں گی ۔۔۔۔ میں نے ایک لمحے کے وقفے کے بعد کہا ۔۔۔ ہاں باجی بس بچی تھی ناں اور اس کی ایک ذرا سے غفلت اس کی زندگی تباہ کر چکی ہے اور شاید آپ کی بھی ۔۔؟؟؟؟ جی بھائی اس کے ابو نے خودکشی کر لی تھی اور ۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ بہت افسوس ہوا باجی ۔۔۔۔ میں نے باجی کو مختصر سے الفاظ میں نازیہ کے بیتے پل کا احوال اور اپنی انٹری کا احوال بتا دیا اور کہا باجی ہم لوگ چاہتے ہیں کہ اب آپ نازیہ کے سر پر اپنی ممتا وار دیں اور اس کی غلطی کو معاف کر دیں ۔۔۔ نہیں بھائی یہ ایک بھولی داستان بن چکی ہے اور میں دوبارہ سے اس قصے کو اپنے لئے عذاب نہیں بنانا چاہتی ۔۔۔ میرا گزر بسر مشکل ہو گے تھا اور میں نے اس کے ابو کے بعد دوسری شادی کر لی ہے اور میں خود ایک تنگ زندگی گزار رہی ۔۔۔ میری لئے ممکن نہیں کہ میں اسے اپنے ساتھ رکھ پاؤں ۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ۔۔ میں نے اسے حوصلہ دیا اور بولا باجی پلیز اس پر دوبارہ سے سوچ لینا میں آپ سے بات کرتا رہوں گا آپ ہب بھی فری ہوں مجھے مس کال کر لینا میں آپ سے بات کر لوں گا ۔۔۔۔۔۔ شام کو میں نے سب کی موجودگی میں کال ریکارڈنگ سنا دی نازیہ ٹوٹ کے روئی تھی اور میں بھی اسے ہلکا کرنا چاہتا تھا ۔۔ وہ پہلے سمجھ چکی تھی کہ اس کے امی ابو دونوں مر گئے ہوں گے لیکن اب اپنی امی کی آواز سن کر کسی قدر مطمئن ہو گئی تھی ۔۔ اگلے روز ہم اسلام آباد چلے گئے تھے اور اپنے ساتھ نازیہ کا مکمل چیک اپ کرا لیا تھا میں ڈاکٹر ارم کو پہلے ہی اس کی کہانی شئیر کر چکا تھا اور وہ اس کی مکمل ہیلپ کر رہی تھی ڈاکٹر ارم نے اس کے علاج کی ذمہ داری اپنے ذمّہ لے لی تھی ۔۔۔دو روز بعد میں نے نازیہ کی امی کو پھر کال کر لی اس وقت اس نے کال ریسیو نہیں کی اور دو گھنٹے بعد اس نے خود ہی کال کر لی میری اس سے بہت دیر تک بات ہوتی رہی اور اس نے اپنا وہی فیصلہ برقرار رکھا اور مجھے بولا کہ آپ نے رب کی رضا کی خاطر اگر اتنا کر دیا تو پلیز اگر کوئی شادی کرنا چاہیے اس سے تو آپ کر دیجئے میں بہت مجبور ہوں کچھ بھی نہیں خر سکتی اور زندگی نے مہلت دی اور کبھی ممکن ہوا تو اس سے ضرور ملوں گی ۔۔۔ میں نے اس رات پھر کال ریکارڈنگ سب کی موجودگی میں چلا دی امی کی آواز نازیہ کو بہت بھلی لگتی تھی وہ اب ہمارے ساتھ بھی گ مل گئی تھی اور اگر بہتے آنسوؤں کے بیچ ہمیں دعائیں دینے لگتی تھی مجھے بولتی ابو اللّٰہ آپ کو اولاد جیسی نعمت ضرور دے گا اس دنیا میں کوئی اتنے اچھے لوگ بھی رہتے ہیں میں نے کبھی نہیں سنا تھا ۔۔۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا آپ ہمیں بیٹی مل گئی ہو ناں بس ہم خوش ہیں وہ زور سے روتے ہوئے کہنے لگی نہیں ابو مجھے بہت تکلیف ہوتی اپنے اعمال سے اپنے جسم سے اپنی سوچ سے میں بہت گندی ہوں ۔۔ میں آپ لوگوں کے قابل نہیں بس آپ کے لئے دعا کرتی پتا نہیں اللّٰہ میری دعا قبول کرتا ہے یا نہیں میں بہت گندی ہوں ۔۔۔۔ سائقہ اور شاکرہ اسے سمجھاتی کہ آپ شادی کے لئے نکلی تھی لیکن آپ غلط لوگوں کے۔ہاتھ آتی رہیں اس میں آپ کا قصور نہیں ہے تم بیٹی ہو ہماری۔۔۔۔۔۔۔

میں نے اگلے روز جاوید کو کال کرکے گھر بلایا اور اس سے شادی کی بات کی جاوید ہمارے محلے کا ایک غریب شخص تھا جو پیاز کی ریڑھی لگاتا تھا جاوید کی بیوی بہت پہلے مر گئی تھی اور جاوید کی دوبارہ شادی نہیں ہو سکی تھی نازیہ اپنی باقی زندگی کے اختیارات ہمیں سونپ چکی تھی خاص کر امی کا فیصلہ سننے کہ بعد ۔۔ جاوید کو۔میں نے بتایا کہ نازیہ کا شوہر کچھ عرصہ پہلے مر گیا ہے ۔۔ جاوید سوچنے کی مہلت مانگ کر چلا گیا اور دو روز بعد خود ہی آ گیا بولا صاحب مجھے آپ کا فیصلہ قبول ہے بس میں تھوڑا سنبھل جاؤں تو سادہ سا نکاح کر لیتا میں نے مکان کی کچھ سیٹنگ کرنی ہے ۔۔۔ میں نے اسے اوکے کر دیا اور خود بھی کچھ تیاری میں مصروف ہو گیا ۔۔۔۔ میں نے اس کہانی کی پی ڈی ایف بنا لی اور اپنے جاننے اور اپنے چاہنے والے خاص لوگوں کو شئیر کر دی مجھے توقع سے کہیں زیادہ ریسپانس ملا اور نازیہ کے لئے بہت کچھ جمع ہو گیا میانوالی سے آنے کے تقریباً ایک ماہ بعدہم نے نازیہ کی جاوید سے شادی کردی جاوید کی عمر 42 برس ہے اور وہ احساس سے بھرپور سچا انسان ہے ۔۔۔ شادی والے دن میں نے نازیہ کی بات اپنی امی سے کرا دی اور بات سے زیادہ بس آہوں سسکیوں آنسو ہچکیوں کا تبادلہ ہوتا رہا ۔۔۔ نازیہ کی اپنی امی سے فون پر بات ہوتی رہتی اور ہم انشاءاللہ بہت جلد نازیہ اور جاوید کو کراچی لے جا کر اس کی امی سے ملا لیں گے۔۔۔

( ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
 

Top