Adultery محبت (Completed)

.
Moderator
2,363
1,818
143
agar aap afsane parhne ke shoqeen hain to yahan bhi nazar mar lein, prefix adultery hone ka matlab ye nahi ke sex se bhara hai, bas afsana hai hi aisa,
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
"محبت"
(افسانہ)
============================================
آج میں نے اسے دوسری بار پیار سے چھوا۔
پہلی بار کب چھوا اور دوسری بار کب، اسکے درمیان بہت سے جسمانی کھیل اور بستر کی شکن سنوارتے بگاڑتے مرحلے تھے، لیکن خالص محبت کا تاثر مجھے دو ہی دفعہ دکھائی دیا۔
میں تیسری بار چرس پیتا ہوا پکڑا گیا تو ابّا نے بڑے ماموں کے پاس لاہور بھیج دیا۔
مکینک کا اچھا کام جانتا تھا، دو مہینے کام کرکے ایک کھوکا الاٹ کرلیا اور استاد بن گیا۔
پیسہ آنا شروع ہوا تو طلبی ہونے لگی۔ نشیئوں کو ہر موڑ پہ محفل مل جاتی ہے، سو ہمیں بھی ندیمِ خلوت میسر آگئے۔
ہر تیسری شام ہزار روپے کی بچت اڑا دی جاتی تھی۔ ماموں تھوڑے جز بز ہوئے تو انکا گھر چھوڑا اور کھوکے کے سامنے ایک فلیٹ بھاڑے پہ لے لیا۔
دو کارندے رکھ لئے تھے، اسلئے سارا دن ایک میلے سے صوفے پہ پڑا سیگرٹ پھونکتا رہتا۔ کسی نے شوق دلایا تو بڑا فون خرید لیا۔
الٹے سیدھے ہاتھ پاؤں مار کر فیسبک چلانا بھی سیکھ لی۔
ہر لڑکی کو ریکویسٹ بھیج کر میسج کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا تھا۔
فیسبک کی روشنی بھری دنیا سے میں اسوقت واقف ہوا جبکہ بے خودی کے دریا بے شور تیز رواں تھے۔ لوگ ٹھٹھ لگا کر ایک دوسرے سے بظاہر چمٹے ہوئے تھے۔
ایسے میں جب کہ ہر نفس مقرر و خطیب ہو، اکیلا سامع کتنی سنے گا۔
ہزارہا انسان اور سبھی پیار کے ڈسے ہوئے۔ ایک مکالمہ بازی و بازیگری کا چلتا پھرتا سرکس جو اپنی ایک خیالی دنیا رکھتا تھا۔ یہاں مجرم بھی حوالدار ہی تھا اور شہنشاہ ہی قذاق۔
آتے ہوئے ابا کی الماری سے دو ناول چرا لایا تھا، انکے ٹوٹے پوسٹ کرتا رہتا تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے پتہ چلا کہ میرے لکھے کی مانگ بڑھنے لگی ہے۔
پہلی لڑکی جس نے میرے میسج کا جواب دیا، میری ہی طرح کی نکلی۔ دنیا بھر سے بیزار اور خستہ حال...
دو دن بعد اس نے بتایا کہ ان دنوں وہ پیٹ سے تھی اور درد سے کراہ رہی تھی۔
ہم ساری رات میسج پہ باتیں کرتے رہے۔ بیزاری کروٹ بدلے تو اشتہا جاگنے لگتی ہے۔
اس کو دلاسہ دیتے اور نت نئے لطیفے ایجاد کرتے رات بیتی۔ صبح مجھے اپنا آپ کسی بوجھل عورت جیسا محسوس ہورہا تھا۔ سرخ آنکھیں لیے جمائیاں لیتا دوکان چل دیا۔ لیکن دل میں کھجلی سی ہورہی تھی۔
رفتہ رفتہ کھجلی بڑھی اور ارم کو پیزا کھانے بلالیا۔
بمشکل پچاس کلو کی عورت۔ عمر تیس کے آس پاس ہوگی، غذائی قلت کا شکار لگتی تھی۔ پیٹ بھی ہلکا سا نکلا ہوا تھا لیکن اتنا کہ صرف مجھے ہی احساس ہوا۔
میلا سا برقعہ پہنے وہ ہاتھ جھلاتی پہنچ گئی۔ پیزا کھانے بیٹھے تو میں نے چپکے سے اسکی ہتھیلی کی پشت پہ ہاتھ رکھ دیا۔ وہ ایک لمحے کو چونکی، پھر چپ چاپ پیزا کھانے لگی۔
ایک آدھ ملاقات اور ہوئی ہوگی۔ اچانک اسکا نمبر بند جانے لگا۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن کچھ اتا پتا نہیں تھا۔
اور مجھ سے بھول یہ سرزد ہوئی کہ کبھی اسکے گھر کا پتہ نہیں پوچھا تھا۔
تھک ہار کر خود کو کوسا اور کام میں دل لگانے لگا۔
چھ سات ماہ بعد فون نے سسکی بھری۔ ارم کا میسج آیا تھا۔
فلیٹ پہ ملنے کو کہ رہی تھی...
میں جلدی سے دکان بند کرکے گھر گیا اور صفائی کرکے کمرے کو بیٹھنے کے قابل بنایا۔ چادر بدلی، نہایا دھویا اور انتظار کرنے لگا۔ شام کے وقت وہ پہنچ گئی۔
وہی جھلنگا برقعہ اور زرد پڑتا چہرہ۔ اندر آکر سیدھی میرے گلے لگ گئی اور دھاڑیں مار کر رونے لگی۔
میں چپ سادھے خاک کا مادھو بنا کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد طوفان تھما تو اس نے ناک سڑکتے ہوئے بس اتنا کہا کہ بچی مری ہوئی آئی تھی۔
اس سے زیادہ نہ مجھے سننا تھا نہ اس نے بتایا۔ لیکن اس دن لطیفوں سے اسکا دل بہل نہ سکا۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد بھی اسنے گھر کا رخ نہ کیا۔ میں نے چپ چاپ کپڑے اتارے اور اسکے درد میں سانجھا ہوگیا۔
صبح تارے چھپنے کے فوراً بعد وہ چلی گئی اور میں سارا دن گھر پہ پڑا کراہتا رہا۔
کچھ دن بعد وہ آئی تو مزید باتیں ہوئیں۔ اسکی بیزاری کا نہیں پتہ لیکن میری بیزاری ضرور اتر رہی تھی۔
لیکن عجیب بات یہ تھی کہ نہ وہ اپنا گھر بتاتی تھی نہ اپنے شوہر کے بارے میں کچھ کہتی تھی۔ اسکے تذکرے پہ نفرت سے ہونٹ سکیڑ کر مسکرا دیتی۔
میں نے ایک لاکھ جتن پورے ہوتے ہی گھر اور شوہر والا سوال چھوڑ دیا۔
کل شام کو ایک پڑوسی مکینک کچھ قرض مانگنے آیا۔ میں نے منع کردیا۔ کھلے منہ کا آدمی تھا، ڈھکے چھپے الفاظ میں بیوی کی آفر کرنے لگا۔
دو ہزار میں سودا اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے دوکان کے بعد ملنے کا کہا۔ اس نے پتہ لکھوایا اور چلا گیا۔
شام کو دوکان سے دو نیلے نوٹ لیکر میں سیدھا اسکے گھر پہونچا۔
وہی باہر آیا اور اشارہ کرکے اندر لے گیا۔ اگر میں اندر جاکر کنڈی نہ لگاتا تو شاید میرے منہ سے نکلنے والی چیخ فراز بھی سن لیتا۔
میں دس منٹ ارم کے پاس بیٹھا اور جیب میں جتنے پیسے تھے، اسکو تھمائے، گلے لگا کر چوما اور باہر نکل آیا۔
یہ دوسری دفعہ تھی۔
ختم شد
 

Top