Adultery ڈرپوک (completed)

.
Moderator
2,363
1,827
143
"ڈرپوک"

(افسانہ)
============================================

خبر اتنی اہم نہ تھی... ناصر بھائی سنا کر چپ چاپ استری سامنے بچھی چادر پہ پھیرنے لگے۔
جبکہ میں سناٹے میں رہ گیا۔ کانوں پہ یقین نہ آیا۔ نظریں زمیں میں گڑ گئیں. جیسے منوں وزن پلکوں پہ لاد دیا گیا ہو... میں نے آنکھیں پھاڑ کر ناصر بھائی کو دیکھنا چاہا لیکن سامنے منڈلاتی صورت کو دیکھ کر میری جان ہی نکل گئی۔
کک کون؟؟؟ کون؟؟؟ میرے منہ سے بوکھلاہٹ میں نکلا۔
ارے شبینہ بیگم !! حمید چرسی کی گھر والی۔ اس نے زہر پی لیا کل رات۔
بھلا بتاؤ کل ہی تو یہ چادریں دھلنے ڈال کر گئی تھی اور آج اوپر ہی پہنچ گئی۔
میں نے پہلے تو ہونقوں کی طرح گردن گھما کر ناصر بھائی کو دیکھا۔ پھر اچانک مجھے جھونٹا سا آیا۔

ہاتھ میں پکڑا کپڑوں کا شاپر دھم سے گرا اور میں اکڑوں بیٹھتا چلا گیا۔
ارے، ارے کیا ہوا سرجی؟؟ ارے کلو پانی لا۔ ارے اٹھئیے،،
کلو دوڑ کر پانی لایا اور مجھے تھما دیا۔ دو تین سیکنڈ بعد میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے بغیر کچھ کہے گھر کی راہ لی۔
اپنی گلی کی مغربی جانب نہ چاہتے ہوئے بھی نگاہ اٹھ ہی گئی۔ قنات لگی ہوئی تھی اور اکا دکا لوگ کھڑے تھے..
دبے پاؤں میں بھی قنات کیطرف چل دیا۔
ایکطرف ایک نوجوان کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ لوگ اسکو دلاسے دے رہے تھے اور وہ کھوئے کھوئے لہجے میں آہستہ آہستہ سر ہلارہا تھا۔
ذرا دیر بعد جنازہ اٹھا اور شبینہ بیگم کے ذاتی مکان کیطرف چل دیا۔ وہ مکان جہاں اسکو سکون بھری ابدی نیند لینی تھی۔

---***---

شبو یعنی شبینہ دو گلی چھوڑ کر رہتی تھی۔ باپ مسلمان، ماں ہندو۔ یہ خاندان کراچی شہر کے مختلف کرائے کی کھولیوں سے دھکے کھاتا یہاں اس محلے آ پہنچا تھا اور کورنگی کے اس سستے علاقے میں کسی نیک وقت کی دعا کا ثمرہ پاکر دو کمرے کا مکان کرائے پہ لے لیا تھا۔
شبو کا شوہر ایسا تھا کہ اس سے نہ ہونا اچھا۔ جوے میں مال و اسباب اور نشے میں صحت ہار کر وہ بھی اس خاندان کیساتھ ہی چلا آیا تھا۔
شبو اچھی خاصی کوئی تیس سال کی عورت رہی ہوگی۔ اسکا ایک چھوٹا سا بیٹا شکیل بھی تھا جبکہ میری عمر بائیس سال تھی۔ شفقت کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی تھا۔ پیشے کا نائی تھا۔ فٹ پاتھ پہ ایک ٹوٹی گھومنے والی کرسی اور آئینہ رکھ کر کام شروع کردیا تھا۔ شبو سے مڈبھیڑ تک میں اسے جانتا تک نہ تھا، محلے کے لوگ بھی بس شیو بنوانے کی حد تک جانتے ہونگے۔
ایک دن میں لائبریری سے کچھ کتابیں لیکر سائیکل پہ اس گلی سے گزر رہا تھا۔
میں کتابوں میں مگن تھا یا پھر شبو نجانے کس دھن میں گنگناتی گزر رہی تھی، اچانک اسکا دھیان بھٹکا اور سائیکل کے سامنے آگئی۔ بچتے بچاتے بھی اسکو ہلکا سا دھکا لگا اور اسکے ہاتھ سے دودھ کا شاپر نکل کر سڑک پہ سفیدہ مل گیا۔ جے رام جی کی!! گرتے ہوئے اسکے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی۔ میں بے حد بوکھلا گیا تھا۔ جلدی سے اترا اور اس کو اٹھا کر اسکے گھٹنے سہلانے لگا۔
اس نے تلملا کر میرا ہاتھ جھٹکا تو مجھے اندازہ ہوا کہ کیا کررہا ہوں۔ فوراً شرمندہ ہوکر پیچھے ہٹا۔ جب تک وہ دو چار مغلظات کی باڑ مار چکی تھی۔ تاہم قصہ تمام ہوا اور میں سائیکل سنبھال کر گھر چلا آیا۔ اگلے روز میں شفقت نائی کے گھر چلا گیا۔ سوچا تھا کہ اس سے گزشتہ واقعے پہ معذرت کرلونگا۔

دروازہ شبو نے کھولا اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی۔ پھر واپس مڑی اور دو لمحے بعد واپس پلٹی تو اسکے ہاتھ میں ایک افسانوں کا مجموعہ تھا۔
کل گرا گئے تھے تم، میں نے پڑھ لیا۔ کیا،،، اور مل سکتی ہے ایسی کتاب؟؟؟
آں ہاااں، میرے پاس ایک دو اور ہیں۔ شام کو لادونگا۔
اور اسطرح شام تک دو مزید کتابیں دیکر شناسائی کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ یہ الگ بات کہ ان کتابوں کی واپسی کی کوئی سبیل نہ بنی اور مجھے دوگنا ہرجانہ ادا کرنا پڑا۔
میرا کالج کا زمانہ تھا، شاعری کا چسکا تو تھا ہی، کسی برے مانس نے افسانہ گردانی کا شوق لگادیا تھا۔ بس صاحب اس سے ایسے چمٹے کہ بارھویں کی انگریزی فیل کر بیٹھے۔
شبو سے کتابوں کا لین دین شروع ہوا تو اسکا ہمارے گھر ایک آدھ دفعہ آنا بھی ہوگیا۔
پہلی ہی بار میں اماں نے مجھے اس زور سے جھاڑ پلائی کہ مجھے لگا جیسے مجھے زندہ درگور کردی ہو۔
کن گرے پڑے لوگوں کے چکر میں منہ کالا کرتا ہے منحوس، تو بھی انہی کیساتھ سڑک پہ گھسٹ جائے گا کل کو۔ اگر اب کسی کتاب کی ترسیل ہوئی تو گلا گھونٹ دونگی تیرا۔

اور میں چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ لیکن دل میں بجھی یا چھپی چنگاری کو ہوا لگ چکی تھی۔ تاہم اماں کا ڈر اب پہاڑ بن کر راہ میں حائل تھا۔ میں نے شبو کو گھر آنے سے منع کردیا اور پہلی بار اسکو چوری چھپے افسانہ بھیجا۔ واپسی میں افسانے کیساتھ اس نے ایک پرچی پہ شکریہ لکھ بھیجا اور مجھ کتابی کیڑے اور عورتوں سے کوسوں دور رہنے والے انسان میں کچھ ہلچل سی مچ گئی۔
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
پھر یونہی ہونے لگا۔ پھر شبو کی فرمائش پہ میں نے اسکو ایس ڈی کارڈ میں کچھ گانے بھروا کر دیے اور ہماری چپ چاپ گاڑھی چھننے لگی۔
اسکی ماں بھی مجھے پہچاننے لگی تھی۔ اسکی ماں مجھے کاکا بلاتی تھی۔ چھوٹا سمجھ کر کبھی کبھار سبزی بھی منگوا لیتی اور کچھ بات چیت بھی کرلیتی۔
اب شبو کو جب بھی کوئی نیا ناول یا افسانہ چاہئیے ہوتا وہ کال کرکے کہ دیتی۔
اسی کے بعد مجھے نائٹ پیکجز کا بھی پتہ چلا اور میسج پہ ٹک ٹک کا فن بھی سیکھ لیا۔ شبو کو شاید پتہ بھی نہ چلا ہو کہ اسکے فون میں نہ ڈلوانے کے باوجود بیلنس کیسے موجود رہتا ہے۔ وہ بس اتنا جانتی تھی کہ یہ نمبر ملاؤ تو کال فری ہوجائے گی۔

میرا شبو کے گھر آنا جانا بڑھا لیکن اسکا احساس میرے ماں باپ کو نہ ہونے پایا۔ بڑا بھائی کچھ جانتا تھا لیکن اسکو میں نے چپ کروا دیا تھا۔

ایک دن میں انکے گھر بیٹھا تھا، شبو کی اماں بازار گئی تھی۔ شبو نے میرے لئے چائے بنائی اور شکیل کو لیکر پاس ہی بیٹھ گئی۔

میں نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے خوب غور سے اسکو دیکھا۔ اسکی بھوری آنکھوں کے اندر سرخ ڈورے شب کی بے خوابی کی چغلی کھاتے تھے اور آنکھوں کے گرد حلقے سے پڑ رہے تھے۔
اس نے بچے کو پکڑ کر گود میں لیا اور قمیص اٹھا کر اسکا منہ چھاتی سے چمٹا لیا۔

کیا دیکھ رہا ہے چوزے؟؟ اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
میں شرما کر جلدی جلدی چائے پینے لگا۔

دیکھ لے۔ سالوں یہ سب دیکھنے کو ترسے گا تو۔ وہ ہنسی تو مجھے بھی جبراً مسکرانا پڑا۔
چند منٹ بعد اس نے منے کا سر باہر کھینچا اور اسکو ہلکے ہلکے ہلا جلا کر ایک طرف سلادیا۔

پیاری ہوں نا میں؟؟ شبو نے مسکرا کر مجھے دیکھا۔ میں کنواری نازنین کیطرح پلکیں میچ کر رہ گیا۔

شبو نے ادا سے سینے سے اوڑھنی ہٹائی اور مجھے دیکھ کر معنی خیز انداز میں ہنسی۔

میں کن اکھیوں سے اسکو تاڑتے ہوئے چائے کے گھونٹ بھر رہا تھا۔

وہ ہنس کر آگے بڑھی اور کپ میرے لرزتے ہاتھ سے لیکر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر میرا دائیں ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔
مجھے اپنی پیشانی پسینے سے تر بتر اور دونوں کانوں کی لوئیں دہکتی محسوس ہوئیں۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
ارے،، اررے کوئی دیکھ لے گا۔ ارے، میں لاکھ احتجاج کرتا لیکن وہ کہاں سنتی تھی۔ مجھے دبوچ کر اسنے میری آنکھوں پہ ہتھیلی رکھی اور میرے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ مجھے ایسا لگا جیسے پرلوک کے کسی گلاب کا ورق میرے لبوں پہ مٹھاس بکھیر رہا ہو۔ اسکے لمس کی حدت میری بانہوں میں آج تک محسوس ہوتی ہے۔ چند لمحے یوں گزار کر اس نے اپنا ہاتھ میری نم آنکھوں سے ہٹایا اور کان کے قریب لاکر بولی: بالکل برفی لگتا ہے تو۔ کسی دن کھا جاؤنگی..

میں نے اس سے اپنے آپکو چھڑایا اور کالر سیدھا کرکے بمشکل تھوک نگلتا اٹھ کھڑا ہوا۔
گھر آکر میں سیدھا اپنے پلنگ پہ اوندھا گرگیا۔ بدن ہلکے ہلکے کپکپا رہا تھا۔ اماں نے کھانے کا پوچھا لیکن میں سونے کا بہانہ کرکے لیٹا رہا۔
شبو کے ہونٹ اب بھی مجھے اپنے دہانے کے اردگرد محسوس ہورہے تھے۔ میں انگشتِ شہادت ہونٹوں پہ پھیر کر گواہی پختہ کرنے لگا۔
شام کو اٹھا اور نہا دھو کر باہر نکلا۔ آج کئی دنوں بعد دوستوں کے پاس تھڑے پہ جا بیٹھا۔ نورا ایکطرف بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھ کر خود ہی میری طرف کھسک گیا۔
کہو میاں تمہارے پاس سے شبو کی خوشبو آرہی ہے۔
کک کیا مطلب؟؟؟ میں گڑبڑا گیا۔
اس نے ایک قہقہہ بلند کیا۔ افسانے پارسل کررہے ہو بڑے۔ اسکے گھر بھی جاتے آتے رہتے ہو۔
ارے وہ تو یونہی، شفقت کو کچھ سامان دینے اور ایک بار حجامت بنوانے چلا گیا تھا۔
خیر، تم بڑے قمست کے آدمی ہو جو اس کو پسند آئے ورنہ کون ہے جس کو اس نے راندہ درگاہ نہ کردیا ہو۔

ہئیں؟؟ تمہیں کیسے پتہ؟؟؟ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔
پچھلے دو ماہ میں کئی آدمی بشمول میرے شبو پہ ڈورے ڈال چکے ہیں۔ لیکن وہ چکنا گھڑا ثابت ہوئی۔
اپنے چرسی شوہر کے سوا کسی بدن کی گرمی قبول نہ کی اس نے۔
ارے جانے دو۔ ان چکروں کا آدمی نہیں ہوں میں۔ میں نے دامن چھڑا کر نکلنا چاہا لیکن وہ نورا ہی کیا جو جان چھوڑ دیتا۔
سچ کہو اسکا بدن گداز ہے نا؟؟؟ اسنے بے شرمی سے آنکھ دبائی تو میرے کان انگارہ ہونے لگے۔
ارے چپ کر، دفع ہو یہاں سے۔ مجھے لائبریری جانا ہے۔
میں اٹھنے لگا تو اس نے منت سماجت کرکے بٹھا لیا۔ چائے سیگریٹ کا دور چلا تو اسکی چکنی چپڑی باتوں میں پھسل کر میں مطلوبہ معلومات اسکے گوش گزار کر بیٹھا۔
مرتی ہے وہ تجھ پہ، کاش وہ مجھے ایسے دعوت دیتی.. میں تو اسکی پوجا کرتا۔ وہ حسرت بھرے لہجے میں بولا تو مجھے جھٹکا سا لگا۔
کیا مطلب؟؟؟ تم بھی اسکے دعویدار رہ چکے ہو؟؟؟
ارے نہیں،، نن نہیں وہ تو،،، نورا گڑبڑا گیا۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
سچ سچ بتاؤ نورے، اب میری باری تھی
ہاں یار، لیکن اس نے مجھے یکسر جھڑک دیا تھا۔ ایک دفعہ راہ چلتے اس کو راستہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ "کسی شام ملو کچھ بات کرنی ہے". غصہ کرگئی تھی۔ اور پھر بعد میں بھی انکار کردیا تھا۔
نورے نے بقیہ ماندہ سیگریٹ ٹھوکر مار کر بجھائی اور ہاتھ ملتا ہوا اٹھ کر چل دیا...
میں کافی دیر تک بیٹھا ہوا اپنے آپکو غور غور سے دیکھتا رہا۔
میرے اندر ایسا کیا تھا آخر۔ ابھی ٹھیک سے جوانی میں قدم بھی نہ رکھا تھا۔ اور فطرتاً شرمیلا بھی تھا۔ دو بہنوں کے بیچ رہتا اور انہی کیساتھ اکثر کھیلتا تھا۔
اسی وجہ سے تکلماً زنانہ پن کا اثر بھی تھا۔ آخر میں ہی کیوں؟؟؟ میں نے الجھے انداز میں سوچا۔
خدا جانے، ارے،، مجھے لائبریری بھی جانا ہے!!! میں نے خیال کو جھٹکا اور سائیکل کی طرف بڑھ گیا۔

دن یونہی گزر کر ہفتوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ شبو کے مذاق اب بدن تک تجاوز کرنے لگے تھے لیکن بوس و کنار سے آگے جانے کی اپنی ہمت ہی نہ ہوئی تھی۔ اس نے چاہا بھی تو انکار کردیا۔
وہ ہنس کر میرے سینے پہ ہاتھ مارتی اور بس ایک جملہ کہتی: "ڈرپوک بزدل کہیں کا".

ایک دن اتوار کو میں صبح دیر سے جاگا۔ شبو کی تین مس کالز آئی ہوئی تھیں۔ کال ملائی اور جلدی سے منہ دھو کر اسکے گھر پہنچ گیا۔ وہ چائے چڑھائے پٹرے پہ بیٹھی الائچی چبا رہی تھی۔
اسکی ماں کام کاج دیکھنے گئی ہوئی تھی اور ننھا شکیل چڈی پہنے ایکطرف بیٹھا ناک کے چوہے شکار کررہا تھا۔
شبو نے مڑ کر مجھے دیکھا اور مسکرائی۔ دل اسکے گالوں کے بھنور میں غرق ہوا جاتا تھا۔ اسکی ساڑھی کے بلاؤز میں سے جھانکتا گندمی پہلو اور اس پہ پڑنے والی سلوٹ،،، اس گدازی کے احساس سے میں مسحور ہونے لگا۔
ذرا دیر بعد شبو بھی چائے روٹی لئے چلی آئی۔
چائے کیا تھی کپوں کا دھوون لگتا تھا۔ بس الائچی کی تیز مہک اٹھ رہی تھی باقی سیاہی مائل اس سوپ جیسے مادے کو بہرحال چائے کی تہمت دینا میرے لئے مشکل تھا۔
یہاں آؤ کاکا یہ افسانہ دکھاؤں تمکو۔ شبو نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے اپنے کمرے میں لے آئی۔ کمرہ اندھیرا پڑا تھا، اس نے لائٹ جلائی اور دروازہ بند کرکے چٹخنی گرادی۔
کہاں ہے افسانہ؟؟؟ میں نے ماحول کی گرماہٹ کو محسوس کیا۔
یہ رہا افسانہ... اس نے ساڑھی کھول کر ایک طرف رکھ دی۔
ارےےے، ارے پگلا گئی ہو کیا؟؟؟؟ میں دروازے کیطرف بڑھا ہی تھا کہ اس نے میری کمر پکڑ کر مجھے پیچھے کھینچ لیا۔
میرا تھر تھر کانپتا وجود اب ٹھنڈا بھی پڑ رہا تھا۔
وہ زیرِ لب ہنستے ہوئے بقیہ لباس سے بری الذمہ ہوگئی۔ دو لمحے تو میرا خوف باقی رہا لیکن پھر جیسے کہیں سے میرے اندر روح پھونک دی گئی ہو۔
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
پینٹ کی زپ کھولتے ہوئے میں اسکی طرف لپکا اور دیوانہ وار اس کا بدن چومنے لگا۔
میری ناتجربہ کاری کا اسکو احساس ہوچلا تھا اسلئے اس نے قدم بقدم مجھ سے سارے مراحل طے کروائے۔
یوں لگتا تھا جیسے آج میری بکارت زائل ہوئی ہو۔
کپڑے پہن کر بھی وہ مجھے خود سے چمٹائے پڑی رہی۔
نورا سہی کہ رہا تھا... اسکے جسم کا گداز پن میری جان لے رہا تھا۔ بدن میں بار بار خوف کی لہر دوڑ جاتی تھی لیکن اس خوف و ڈر کیساتھ اک گرم و گداز لمس تھا جس سے لپٹ کر مرجانے کا دل چاہ رہا تھا۔
اتوار خوشگوار کرکے میں اٹھا اور گھر آکر بستر پہ گرپڑا۔
لیکن آج بدن پہ بہت سی جگہ شبو کا لمس جلن پیدا کررہا تھا۔
آج بھی شام ڈھلتے میں بخار میں تپ رہا تھا۔ لیکن اسکی لذت نہ جاتی تھی۔
دل میں ارمان مزید مچل رہے تھے۔ جیسے شراب کا ٹوٹتا نشہ ہو۔
ڈاکٹر سے جاکر دوا لایا اور چائے سے کھا کر واپس بستر پہ ڈھیر ہوگیا۔
دو دن مزید بخار اور بے خوابی کا شکار رہنے کے بعد میری فطری بزدلی مجھ پہ غالب آہی گئی۔
میں نے پہلی بار شبو کی کال اٹھانے کی بجائے کاٹ دی۔ وہ سمجھی نہیں اور بار بار کال کرتی رہی۔ میں نے فون بند کیا اور دراز میں ڈال دیا اور تہیہ کرلیا کہ اب یہ سلسلہ ختم کرکے دم لونگا۔

ایک ہفتے بعد میں بازار میں سبزی کے ٹھیلے پہ کھڑا تھا کہ کسی نے میری کلائی پکڑ لی۔ میں گھبرا کر مڑا تو مارے خوف کے میرا رنگ زرد پڑ گیا۔ شبو کھڑی شاکی نظروں سے مجھے گھو رہی تھی۔
سبزی فروش نے عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
شام کو ملونگا۔ میں نے مختصراً جواب دیا۔ مکاری مت کرجانا. وہ بھی اسی تیزی سے کہتی ہوئی میری کلائی چھوڑ کر آگے بڑھ گئی۔
میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔
جلدی سے پیسے ادا کیے اور سبزی اٹھا کر واپس پلٹ آیا۔
شام کو اسکے گھر پہ دو کتابیں لئے پہنچ گیا۔ شفقت نائی سے بھی ملاقات ہوگئی۔ وہ مرد کم اور رن مرید زیادہ لگتا تھا۔ نیچی نظریں کیے سیگریٹ پھونکتا ہوا گھر سے نکل کر بازار کی سمت چلا گیا۔ جیسے میں گھر کا مرد ہوں اور وہ نوکر۔
اندر گیا تو شبو نئی ضد لیکر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسکو ساحل پہ جانا تھا۔ بہتیرا سمجھانے پہ بھی جب وہ نہ مانی تو میں نے جاکر رکشہ پکڑا اور دونوں ملگجے اندھیرے میں کلفٹن کی سیاہ ریت پہ بیٹھے قسمت کے ستارے گننے لگے۔
"کہاں مر گئے تھے" سے شروع ہونے والی داستاں جب ختم ہوئی تو میں شبو کی گود میں سر چھپائے لیٹا تھا۔
اس نے اس دن اپنے شوہر کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا۔
اسکے نشے میں ڈوب کر تشدد کرنے اور بہت سے لوگوں کو گھر لانے کے بارے میں، سسرال والوں کے ان دونوں کو بے گھر کرنے کے بارے میں۔
میں اسکو سہارا نہیں ملا تھا لیکن اسکے لئے فی الحال کسی سڑک کے پول کیطرح یا سرائے کے شیڈ جیسا تھا۔ جسکے نیچے وہ کچھ آرام کرنا چاہتی تھی۔
میں نے اسکو اپنی مجبوریاں بتانا چاہیں تو وہ ہلکے ہلکے رونے لگی۔
اچھا بابا، کہیں نہیں جارہا۔ میں نے سر ہلا کر اسکے پیٹ میں منہ گڑایا تو وہ ہنس دی۔ پھر پیار سے میرا کان مسلنے لگی۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
اونٹ گھوڑے کی سواری کا اسکو شوق نہ تھا اور مجھے بھی شہسواری سے خوف ہی آتا تھا۔ چاٹ دونوں کے نزدیک جائز تھی، ایک ایک پیالہ چاٹ اور لیموں کا شربت پیا۔ مصالحے دار پاپڑ سے بھی شام کو رنگین کیا۔ اور اس نے میری سیگرٹ سے اور میں نے اس سے کچھ بوسے ادھار لئے۔
عشاء کی اذانوں سے پہلے ہم دونوں چپلیں اور کپڑے جھاڑتے محلے کی پچھلی سڑک پہ دھاگہ فیکٹری کے پاس اترے اور جب تک وہ تیز قدموں سے چلتی ہوئی اوجھل نہ ہوگئی، میں اسکا محافظ بنا کھڑا ہی رہا۔ اسکے بعد میں بھی گھر کو ہولیا۔

***

اگلے دن شبو کی کال نہ آئی تو بادل نخواستہ میں اسکے گھر چلا گیا۔ شبو اکیلی گھر پہ تھی، اس نے بتایا کہ رات اسکا شوہر حمید خون بھری قے کررہا تھا۔ ہسپتال لیکر گئے ہوئے ہیں اسکو۔
میں نے اسکو دلاسہ دیا اور اپنا الو سیدھا کرکے لوٹ آیا۔
شام تک شفقت اور اسکی بیوی شبو کے شوہر کی لاش لیکر لوٹ آئے۔ شبو نے روتے ہوئے مجھے فون کیا تو میں بھاگا بھاگ پہنچ گیا۔
تدفین کے بعد میں جب شبو کے گھر گیا تو اسکے اترے چہرے اور سوجی آنکھوں میں مجھے دور کہیں سکون کی جھلک بھی دکھائی دی۔
نہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ میں اپنے خیال کو جھٹک کر اسکو دلاسہ دینے لگا۔
دو ہفتے بیوگی کے کاٹ کر شبو آہستہ آہستہ روٹین پہ آئی۔

میں شبو کو صاف لفظوں میں اس کھیل کو بند کرنے کا نہیں کہنا چاہتا تھا۔ کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی اب وہ میرے دل پہ راج کرنے لگی تھی۔ ایک اتفاقی حادثہ میری زندگی بالکل تبدیل کرگیا تھا۔ اب نہ کالج جانے کا دل کرتا تھا نہ کسی سے ملنے کا۔
ماں باپ اور بہن بھائیوں تک سے کترانے لگا تھا۔ میرے کرتوتوں کی بھنک مان باپ کو پڑ گئی تھی لیکن ابا کا کہنا تھا کہ میں ٹھوکر کھا کر ہی سدھرونگا اور اس دن وہ مجھے گھر سے دربدر کردیں گے۔
اماں دل ہی دل میں ہولتی رہتی تھیں۔

شبو کے پاس جانے کا ناغہ پھر طول پکڑ گیا تھا۔ اسکے آئے دن فون آتے لیکن میں کاٹ کر فون کبھی رکھ دیتا اور کبھی بند کرکے دراز میں ڈال دیتا۔
شبو نے اب فون کرنا کم کردیا تھا۔ اب بس وہ رات کو فون کرتی تھی۔ پانچویں دن میں نے اسکا فون اٹھایا۔ اب اس سے مجھے اکتاہٹ سی ہونے لگی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک گھنٹہ بات کرنا پڑی۔ جسمیں سے نصف گھنٹہ اسکے دل کے پھپھولے پھوٹے۔ وہ اب طعنوں اور شکوؤں سے منتوں اور التجاؤں پہ اتر آئی تھی۔
ایسا لگتا تھا جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو۔ نجانے وہ مجھ سے کیا امید باندھ رہی تھی جسکا اظہار کرنے کیلئے اس نے مجھ سے گھر آنے کا وعدہ لیا تھا۔
بڑی مشکل سے اس سے اگلے دن آنے کا وعدہ کرکے میں نے فون کاٹا اور ایک لمبا سانس لیکر چارپائی پہ کروٹ بدل لی۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
وقت کے بجلی کی سی تیزی سے بہتے دھارے نے مجھے شبو کی جسمانی ضرورت اور ذہنی خدا بنادیا تھا۔ وہ مجھ سے چھٹے ساتویں دن بھی تعلق قائم کرنے پہ رضامند تھی۔ لیکن مجھ سے اب یہ بلاوجہ کی شوہر گیری سنبھالی نہیں جارہی تھی۔
اگلے دن اسکے گھر گیا۔ مایوسی جیسے درو دیوار سے چمٹ کر بین کررہی تھی۔
اس نے چائے نکالی اور کپوں میں سجاکر میرے ساتھ اندرونی کمرے کیطرف بڑھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد اس نے میرے بازو پہ سر جمائے میری تھوڑی چومتے ہوئے اپنے دل کی آرزو بتائی تو میرے بدن میں کرنٹ دوڑ گیا۔
جانتی ہو تم کیا کہ رہی ہو؟؟
ہاں تو اسمیں کوئی برائی نہیں، میں مسلمان نہیں ہوں کیا؟؟
نہیں وہ بات نہیں لیکن ہم برادری سے باہر شادی نہیں کرتے۔ میں نے اکھڑے لہجے میں کہا۔
اور پیار؟؟؟ وہ تو کرتے ہو نا۔ وہی کرلو۔ نام پیار رکھ لینا۔اس نے طنزیہ تیر چلایا۔
میں اس چیز میں شاید کچھ بھی نہیں کرسکتا شبو۔ میں اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔
اور پھر میرے گھر والے تمہارے بچے کو...
اسکو اماں اور ابا رکھ لیں گے۔ اس نے میری بات کاٹی۔
لیکن ابھی میرے بڑے بھائی کی شادی نہیں ہوئی ہے۔
وہ بعد میں ہوجائے گی نا۔
میں جو دلیل دیتا تھا وہ فوراً توڑ دیتی تھی۔
میں چپ چاپ چلا آیا۔
لیکن میرے سر پہ ایک کوہ گراں ٹوٹ گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے شبو بدروح یا کالا جادو بن کر مجھ سے چمٹ گئی ہو۔ اب وہ دن رات کال کرکے ٹسوے بہاتی اور مجھے قائل کرنے کی کوششیں کرتی تھی۔
تنگ آکر ایک دن میں نورے کے پاس جا پہنچا۔ وہ اپنے گھر کی چھت پہ بیٹھا چرس پھونک رہا تھا۔ اس نے سیگریٹ میری طرف بڑھائی تو میں نے بھی جھٹ قبول کرلی۔
چند لمحوں بعد میں بھی ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔
اس نے شبو کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسکو اپنی مصیبت بتادی۔
نورا اچھا بندہ ثابت ہوا۔ اسنے مجھے یہ آفر قبول کرنے کا مشورہ دینا چاہا لیکن میں نے اسکو بھی جھڑک دیا۔
تو نے اسکا خاندان دیکھا ہے۔ ہندو کوکھ سے پیدا شدہ۔ نائی ہے اسکا باپ۔ میں دانت پیستے ہوئے بولا۔
ہاں اور تو امروہے کے معزز خاندان کا لڑکا۔ اس نے طنز کیا۔
دیکھ حیدر تو اپنے ماں باپ سے بات کرکے ہاں کردے، اسمیں مجھے کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ وہ بہت اچھی ثابت ہوگی تیرے حق میں۔ نورا نشے میں ایک عمدہ دانشور بنا ہوا تھا۔
خاندانی رسم ورواج اٹل ہوتے ہیں۔ رسی جل بھی جائے تب بھی بل نہیں جاتا۔
تو تو بزدل نکلا حیدر۔ پیار کرنا تھا تو نبھانا بھی چاہئیے تھا نا۔
دیکھنا شبو تجھ سے چھٹکارا پاکر مجھے قبول کرلے گی۔
میں نے جواب میں چپ چاپ ڈبی سے سیگرٹ نکالی اور اسکا مصالحہ ہتھیلی پہ انڈیلنے لگا۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
ایک دن شبو میرے گھر جانے اور ماں باپ سے بات کرنے پہ بضد ہوگئی۔ میں نے اسکو بہت سمجھایا لیکن وہ مجھ پہ برسنے لگی۔ میں نے مشتعل ہوکر اسکو دو کی دو چار سنادیں اور صاف جواب دیکر چلا آیا۔
وہ چپ چاپ بستر پہ چادر سے اپنا جسم چھپائے بیٹھی رہ گئی۔
میرا موڈ انتہائی بگڑا ہوا تھا اور منہ تک کا ذائقہ خراب تھا۔ گھر آکر نہایا اور بستر پہ جا سویا۔

میرا گمان تھا کہ رات تک اسکی کال آجائے گی اور میں اسکو منالونگا۔ لیکن شاید قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ شبو کی کال نہ آئی۔ دو دن گزر گئے لیکن میرا فون نہ بجا۔ میں نے کال کی تو نمبر بند تھا۔
میں جھٹ گھر سے نکلا اور اسکے گھر جا پہنچا۔ شبو نے مجھ سے ملنے سے انکار کرتے ہوئے دروازہ بند کرلیا۔
میں دو لمحے کھڑا ہوکر واپس چلا آیا۔ چند ہفتوں بعد شفقت نائی چپکے سے واصل بحق ہوگیا لیکن شبو نے میری طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھا۔ میں اب خود کی بھڑکائی آگ میں جھلستا تھا لیکن کسی سے کچھ کہ بھی نہیں سکتا تھا۔
چند ہفتوں بعد پتہ چلا کہ شبو نے چور دروازہ کھول لیا ہے۔ اسکے گھر مرد رات چوری چھپے آتے جاتے تھے۔ محلے کے بزرگ حضرات جمع ہوئے اور سرجوڑ کر یہی فیصلہ کیا کہ شبو کو جاکر سمجھانا چاہئیے۔
لوگ شبو کے مکان پہ گئے۔ اس نے سب پہ ایک نگاہ ڈالی اور پھر ان سے ایک معاہدہ کرکے ایک رقم کے عوض جسم فروشی سے توبہ کرلی۔
دوسرے مہینے ہی رقم بند ہوئی اور شبو کا چور دروازہ پھر سے کھل گیا۔

اب نورا شبو کی توجہ حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرنے لگا تھا۔ لیکن اب شبو بھی کھلاڑی بن چکی تھی، نورا اسکا ہرکارہ بن کر رہ گیا۔ شکیل اب اسکول میں پڑھ رہا تھا۔ شبو کی ماں کچھ دن نمونیے کا شکار رہی اور پھر چپ چاپ خاک اوڑھ کر سوگئی۔
بی ایڈ کرکے میں سرکاری ٹیچر لگ گیا تھا۔ بھائی گھر بسا کر دبئی شفٹ ہوگیا تھا اور بہنیں اپنے اپنے گھروں کی ہوگئی تھیں۔

نورا آکر حالات سنا جاتا تھا۔
شبو کے بالوں میں چاندی اتنی تیزی سے آئی تھی کہ چند سالوں میں اپنے بیٹے کی دادی لگنے لگی تھی۔ مانس لٹک گیا تھا اور دھندا بند ہوگیا تھا۔ میں چپ چاپ نورے کے ہاتھ رقم بھجوادیتا جو دیکر نورا اپنی ہمدردیاں کیش کرالیتا تھا۔ اسکا کام بھی چل رہا تھا۔
کچھ دن پہلے نورے نے بتایا تھا کہ وہ شراب پی کر اس سے لڑنے لگتی ہے۔ شکیل بھی اپنی ماں سے متنفر رہتا تھا اور اب کبھی کبھار ٹھکائی بھی کردیتا تھا۔
شاید ایسی ہی کسی لڑائی کے بعد شبو نے کوئی زہریلی دوا پی لی تھی۔ یا پھر شکیل نے بے حیا ماں کو موت کے گھاٹ اترنے میں معاونت کردی ہوگی۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
لوگ شبینہ بیگم کو منوں مٹی تلے داب کر چل دیے لیکن شکیل وہیں کھڑا رہا۔ سورج چھپنے کے بعد وہ بھی چلا گیا۔
فضا ہلکی خنک ہورہی تھی۔ مجھے قدموں کی چبھن سے احساس ہوا کہ میں کافی دیر سے کھڑا رخسار بھگو رہا ہوں۔ دو قدم ہٹ کر میں قبر کے دائیں طرف آگیا۔ اسکے سرہانے ایک بوڑھا نیم کھڑا تھا۔ اسکے پتوں کی سرسراہٹ سے ایک ماتمی نغمہ بکھر رہا تھا۔
نغمہء موت...
ببول اور بیری کی سوگوار جھاڑیوں پہ صدیوں کی دھول جمی تھی۔
یکا یک مجھے ایسا لگا کہ گلاب کی پتیاں اڑ کر ادھر ادھر بکھری ہوں،، سلیب ہلی ہو اور ایک ہیولا سا قبر سے اٹھا ہو۔
قبرستان کے آنگن میں موت رقصاں تھی۔ اسکے پایل میں جھنکار نہیں تھی۔
یکایک موت مجسم ہوکر اس ہیولے میں مدغم ہوگئی۔

تم کون ہو؟؟؟

میں نے زرد چہرے اور لڑکھڑاتی زبان میں پوچھا۔

میں شبو...

میں کانپ کر پیچھے ہٹا۔

ابھی ابھی تم سوچ رہے تھے مجھے کس نے قتل کیا...
جاننا چاہتے ہو؟؟؟

نن نہیں... لاحول،، استغفار... بے ربط جملے بولتا میں پیچھے ہٹتا رہا۔
ٹھہرو تو سہی!! وہ قاتل تم ہو۔ ڈرپوک بزدل کہیں کے
ہیولا ایک طنزیہ قہقہہ لگا کر ہوا میں تحلیل ہوگیا۔

نہیں!! میں نے گلے میں اٹکی چیخ کو بزور روکا۔
ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میرا دل کسی ننھے سے چوزے کا بن گیا ہو...

ڈر کے مارے میرا پیشاب خطا ہوا جاتا تھا...میں نے جلدی سے خود کو تسلی دی اور تیز قدموں سے استغفار کرتا باہر نکل آیا۔


(ختم شد)

 
Last edited:

Top