Romance عشق تیرا لگتا ہے ضروری (Completed)

Newbie
33
12
8
قسط نمبر 1
سلام بڑی بی بی جی ۔۔۔۔۔
کرمو نے سفیہ خاتون کو سلام کیا سفیہ خاتون نے اسکی طرف دیکھا
وہ ایک لڑکی کو اپنے ساتھ لیے کھڑا تھا
کون لڑکی ہے یہ کرمو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
بڑی بی بی جی یہ میرے تایا زاد کی بیٹی ہے اسکا نام '''دیا '''ہے
اسکے ماں باپ کچھ دن پہلے ایک گاڑی کے نیچے آ گئے تھے اور موقع پر ہی اللہ
کو پیارے ہو گئے تھے
یہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے جی
اسکا اس دنیا میں اپنے ماں باپ کے علاوہ کوئی نہیں تھا سوائے میرے
اس لیے میں اسے اپنے ساتھ لیے آیا
آپ اللہ کے واسطے میری بھتیجی کو اپنی حیویلی میں جگہ دے دیں
یہ بچاری گونگی ہے آپ کو کسی بھی شکایت کا موقع نہیں دے گی
آپ کا ہر کام کرے گی
بس آپ اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیں جی
کرمو نے ان سے التجا کی اور انہیں ساری بات بتائی
صفیہ خاتون نے اس لڑکی کی طرف دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی
اس لڑکی کا رنگ رات کی سیاہی جیسا کالا تھا ، اوپر والے دانت آگے کو بڑھے ہوئے
اسکے دانت اتنے زیادہ بڑھے ہوئے تھے کہ جب وہ منہ بند کرتی تھی تب بھی دانت نظر آتے تھے
اور اوپر سے وہ گونگی بھی تھی اور اللہ نے اس سے اسکے ماں باپ کا سایہ بھی چھین لیا تھا
ٹھیک ہے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے اس بچی کو اس حیویلی میں رکھنے پر
صفیہ خاتون بہت رحم دل تھیں اس لیے وہ کرمو کی زبانی دیا کی
ساری کہانی سننے کے بعد جلد ہی مان گئی تھیں
اور ویسے بھی کرمو انکا وفا دار ملازم تھا بیس سال سے وہ ان کے ہاں ملازمت
کر رہا تھا کرمو اپنی بیوی اور بیٹے اور بیٹی کے ساتھ حیویلی
کی پچھلی سائیڈ پر بنائے گئے سرونٹ کوارٹر میں رہتا تھا
پر ہم کیسے اس سے بات کیا کریں گے یہ ہمارے اشارے سمجھ جایا کرے گی
اور یہ کون کون سا کام کر لیتی ہے گھر کا ۔۔۔۔۔؟
صفیہ خاتون نے کرمو سے پوچھا
بڑی بی بی جی یہ گھر کے سارے کام کر لیتی ہے اور جی یہ ہماری باتیں سن سکتی
ہے پر بول نہیں سکتی جی
دیا پیدائشی گونگی نہیں ہے بچپن میں یہ ایک دفعہ یہ چھت سے گر گئی تھی
اور اسے بہت زیادہ چوٹ لگی تھی اسی چوٹ کا اثر اس کے گلے پر بھی ہو
گیا تھا
اور یہ اس حادثے کے بعد پھر کبھی بھی نا بول پائی اور ہمیشہ کے لیے گونگی
ہو گئی
کرمو نے ان کی بات کا جواب دیا
بہت برا ہوا بچی کے ساتھ ۔۔۔۔ سفیہ بیگم نے افسوس کا اظہار کیا
بس بڑی بی بی جی جیسے اللہ سائیں کی مرضی ہم بھلا کیا کر سکتے ہیں
کرمو بولا
اگر دیا نے ہمیں اپنی بات اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کی اور ہمیں سمجھ
نا آئی تو پھر ہم اسکی بات کو کیسے سمجھیں گے ۔۔۔
بڑی بی بی جی دیا نے میڑک تک کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے یہ لکھنا پڑھنا
جانتی ہے اگر آپ کو اسکے
اشاروں کی سمجھ نا آئے تو اسے لکھ کر اپنی بات آپ تک پہچانے کا بول دیجئے گا
بڑی بی بی جی ۔۔۔۔۔۔
صفیہ خاتون کے پوچھنے پر کرمو نے جواب دیا ان کی بات کا
چلو ٹھیک ہے کرمو تم اپنی بھتیجی کو اپنے ساتھ والا کوارٹر دے دو یہ ویہیں رہے گی
اور کل سے اسے اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ کام کے لیے
بھیج دیا کرنا
صفیہ خاتون کے حکم پر وہ اپنی بھتیجی دیا کو ساتھ لیے اپنے کوارٹر کی طرف چلا
گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی اپنے دوستوں کے ساتھ ڈنر کر کے واپس آیا ہی تھا کہ
اسکا فون بج اٹھا
اس نے جیسے ہی موبائیل کی سکرین پر جگمگاتے نمبر کو دیکھا تو اسکے عنابی لبوں
پر مسکراہٹ رینگ گئی
اس نے مسکراتے ہوئے کال اٹینڈ کی
اسلام علیکم دار جی ۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔۔۔
کیسا ہے میرا پوتا میری جان کا ٹکڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔
دار جی نے پوچھا
میں بلکل ٹھیک ٹھاک ہوں دار جی آپ بتائیں کیسے ہیں آپ ۔۔۔۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں بس الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہوں
تم کل ہی واپس آ جاو اور میرے ساتھ جلسوں اور پارٹیز میں جایا کرو کیونکہ تم نے
ہی اب میری جگہ ہمارے حلقے میں کھڑا ہونا ہے
ٹھیک ہے دار جی جیسے آپ کی مرضی میں کل ہی حاضر ہو جاوں گا
وہ مسکراتے ہوئے بولا
پھر کافی دیر وہ دار جی سے باتیں کرتا رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاپا ۔۔۔۔۔۔
آپ ابھی تک نہیں آئے وجہ جان سکتی ہوں ۔۔۔۔۔
وہ منہ پھلائے اپنے پاپا سے فون پر بات کر رہی تھی
میری پیاری سی پرنسز میں آ رہا ہوں بس ایک میٹنگ کی وجہ سے دیر ہو گئی
ہے
مجھے پہنچنے میں ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے صافی پیش کی
ٹھیک ہے جلدی آئیں میں آپ کا ویٹ کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔
اوکے میری جان میں پانچ منٹ میں حاضر ہوا ۔۔۔۔۔۔۔
حیدر صاحب نے مسکراتے ہوئے فون بند کر دیا
پاپا سے بات کرنے کے بعد اس نے ایک بار پھر ٹیبل پر موجود سب چیزوں کا
جائزہ لیا اور انہیں پھر سے ٹھیک کیا
وہ کوئی دس بار ہر ڈیش اور کیک کی جگہ ٹیبل پر بدل چکی تھی لیکن پھر بھی
مطمن نہیں ہو رہی تھی
آج اسکے پاپا کا برتھ ڈے تھا اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے پاپا کی پسند کی ہر
ڈیش بنائی تھی
اور اپنے ہاتھوں سے ہی خود ان کے لیے کیک بیک کیا تھا
وہ بہت خوش تھی کیونکہ اس کے پاپا کا برتھ ڈے جو تھا
وہ اپنے پاپا سے بہت پیار کرتی تھی ان کے بغیر وہ ایک پل بھی نہیں رہتی تھی
حیدر صاحب کی بھی اس میں جان تھی
ایک وہ ہی تو تھی ان کے جینے کی وجہ
ان کی زندگی کا محور ۔۔۔۔ ان کی جان ۔۔۔ ان کی پرنسز
انکی چاند سی بیٹی ۔۔۔۔
اگر وہ نا ہوتی تو وہ اپنی محبوب بیوی مدیحہ بیگم کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد
شاید وہ زندہ نا رہ پاتے
لیکن انہوں نے اپنی پیاری سی بیٹی اور اپنے اور مدیحہ بیگم کے پیار کی اکلوتی
نشانی کے لیے خود کو سنھبالا تھا اور پھر سے
جینا سیکھا تھا
حیدر صاحب اور انکی بیٹی ہی اس بھری دنیا میں ایک دوسرے کا واحد سہارا
اور رشتہ تھے
حیدر صاحب پریس کے ایک مشہور اور بہت بڑے بزنس مین تھے
ان کا شمار پریس کے امیر کبیر لوگوں میں ہوتا تھا
ہیپی برتھ ڈے پاپا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ان کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ دوڑتے ہوئے
ان کے پاس آئی
اور انکے گلے لگ گئی
تھینکیو مائی ڈیر پرنسز ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے
اسکی پیشانی چومی
چلیں پاپا کیک کاٹیں میں نےاپنے ہاتھوں سے آپ کے لیے بنایا ہے
وہ ان کا ہاتھ پکڑے انہیں ڈائننگ ٹیبل تک لے آئی
انہوں نے مسکراتے ہوئے کیک کاٹا اور ایک ٹکڑا اٹھا کر اپنی پرنسز کو کھلایا
اس نے بھی کیک کا وہی ٹکڑا حیدر صاحب کو کھلایا
ویئر از مائی گفٹ پرنسز ۔۔۔۔۔۔۔
حیدر صاحب نے مسکراتے ہوئے اس سے استفسار کیا
اٹس فا ر مائی ڈیر پاپا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی پرنسز نے مسکراتے ہوئے چار گفٹ پیک انکو دیے
کھولیں پاپا ۔۔۔۔۔۔
اس کے کہنے پر حیدر صاحب نے سارےگفٹ کھولے
سب کچھ بہت اچھا ہے مائی پرنسز
حیدر صاحب نے اسکو اپنے ساتھ لگایا انکو اسکی دی ہوئی سب چیزیں بہت
پسند آئی تھیں
انہوں نے دل سے اس کے گفٹس کی تعریف کی تھی
اس نے حیدر صاحب کو انکا فیورٹ پرفیوم ، تھری پیس سوٹ ، شوز اور ایک قیمتی
سے واچ گفٹ کی تھی
پاپا کھانا کھائیں اور بتائیں کیسا بنا ہے ۔۔۔۔۔
بہت اچھا بنا ہو گا ہمیشہ کی طرح کیونکہ میری پرنسز بہت اچھا کھانا بناتی ہے
اور کیک بھی بہت مزے کا تھا
وہ مسکراتے ہوئے بولے
تھینکیو پاپا ۔۔۔۔۔۔ اس نے حیدر صاحب کے گال پر کِس کیا
ان کے گھر میں کھانا بنانے کے لیے کوک موجود تھا لیکن جب بھی کوئی خاص
موقع ہوتا تو کھانا وہ خود اپنے ہاتھ سے ہی بنایا کرتی تھی
وہ بہت اچھا کھانا بناتی تھی جب بھی وہ کھانا بناتی تھی تو حیدر صاحب اپنی
انگلیاں ہی چاٹتے رہ جاتے تھے
وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش اور مطمن زندگی گزار رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری حیویلی میں چہل پہل تھی
سفیہ خاتون تمام مازمین سے ساری حیویلی کی صافی کروا رہی تھیں
اپنے پوتے اور بیٹے اور بہو کی پسند کا کھانا بنوا رہی تھیں
انکا بیٹا اپنی بیوی اور اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ کئی ماہ بعد حیویلی آنے والا تھا
سارے انتظامات پورے ہوگئے ہیں نا نوراں ۔۔۔۔
سفیہ بیگم نے کرمو کی بیوی نوراں سے پوچھا
جی بڑی بی بی ساری انتظامات مکمل ہو گئے ہیں جیسا آپ نے بولا تھا ہم سب نے ویسا
ہی کیا ہے
نوراں نے ان کی بات کا جواب دیا
ٹھیک ہے تم جاو ان جب ضرورت ہو گی بلا لوں گی
ان کے کہنے پر نوراں سر ہلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
اتنے میں ہارن کے بجنے کی آواز سنائی دی
وہ خوشی سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور درا جی بھی اپنے کمرے سے باہر
ڈرائنگ روم میں آ گئے تھے ہارن کی آواز سن کر
اسلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔ آنے والوں نے ان دونوں کو مشترکہ سلام کیا
وعلیکم اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دونوں نے پر جوشی سے ان کے سلام کا جواب دیا
کیسے ہیں دار جی آپ ۔۔۔۔۔ دار جی کے بیٹے سکندر صاحب نے ان سے انکا حال چال دریافت کیا
میں ٹھیک ہوں بیٹا تم اپنی سناو ۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو گلے سے
لگایا
میں بھی ٹھیک ہو دار جی ۔۔۔۔۔
دار جی سے ملنے کے بعد وہ اپنی ماں سے ملے انہوں نے سکندر صاحب کو
گلے سے لگایا اور انکی پیشانی چومی
سکندر صاحب کی بیوی زینب بیگم نے بھی دار جی اور سفیہ بیگم کو سلام کیا
اور اپنا سر ان کے آگے جھکا کر ان سے پیار لیا
کیسے ہیں دار جی آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ان کے گلے لگا ان سے انکا حال چال جان رہا تھا
بلکل ٹھیک ہوں میں اپنے پوتے کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔ دار جی مسکراتے ہوئے بولے
دادی جان آپ کیسی ہیں ۔۔۔۔۔ اب وہ سفیہ بیگم سے گلے مل رہا تھا
سفیہ بیگم نے اسکی پیشانی چومی اور اسکے سر پر پیار دیا
میں ٹھیک ہوں بیٹا ۔۔۔۔۔۔
اور تم سب کو دیکھ کر اور ٹھیک ہو گئی ہوں ۔۔۔
وہ بہت خوش تھیں ان سب کو اس حیویلی میں دیکھ کر
مراد شاہ جب کو سب دار جی بلاتے تھے ایک بہت بڑے سیاست دان تھے
انکا تعلق سند ھ کے ایک بڑے سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک امیر کبیر زمیدار
میں بھی ہوتا تھا
انکی حیدرآباد میں کافی زمینں تھیں اور ایک بہت بڑی حیویلی بھی تھی
انکا بیٹا سکندر شاہ کراچی میں اپنا بزنس کرتا تھا انہوں نے سکندر کو سیاست میں شامل ہونے کا بولا تھا
پر سکندر صاحب کو بزنس کرنے کا شوق تھا اس لیے انہوں نے سیاست میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا
دار جی نے انہیں ان کی مرضی کرنے سے نہیں روکا تھا اور انکو کراچی میں ایک
بہت بڑا بزنس کھڑا کر کے دیا تھا
پھر سکندر صاحب کی شادی اپنی مرضی سے اپنے ایک دوست کی بیٹی زینب
سے کروا دی سکندر صاحب کو بھی زینب بیگم سے
شادی پر کوئی اعتراض نہیں تھا
اس طرح ان کی شادی ہو گئی اور وہ کراچی میں اپبا بزنس سنھبلانے لگے
ان کا بزنس دن بدن ترقی کر رہا تھا
اور دار جی بھی سیاست میں اپنا مقام اونچا سے اونچا کر رہے تھے
پھر اللہ نے سکندر صاحب اور زینب بیگم کو اولاد سے نوازہ تھا
اللہ نے انکو ایک چاند سا بیٹا دیا تھا
دار جی اور سفیہ بیگم کو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے انکو انکے خاندان کا
وارث جو مل گیا تھا
اپنے پوتے شاہ کی پیدائش کی خوشی میں دار جی نے پورے گاوں میں مٹائی بانٹی تھی
اور ایک ماہ تک سارے گاوں والوں کو کھانا کھلایا تھا
سب کی شاہ میں جان تھی کیونکہ وہ ان کے گھر کا اکلوتا بچہ تھا
خاص طور پر دار جی تو اسکے دیوانے تھے ان کی جان اپنے پوتے میں تھی
وہ بہت محبت کرتے تھے شاہ سے ۔۔۔۔۔۔
پھر دن گزرتے گئے اور انکا پوتا جوان ہو گیا
وہ چھبیس سال کا ایک خوبرو مرد تھا
کھلتا ہوا گورا رنگ ، چھ فٹ سے نکلتا قد ، بوڈی بلڈنگ سے بنائے گئے مسلز ،
چوڑا سینہ اسکو سب میں نمایاں کیا کرتا تھا
وہ اپنے اندر ایک کشش رکھتا تھا اسے دیکھنے والے اور اس سے
ملنے والے اسکی چھا جانے والی پرسینلٹی سے امپریس ہو جاتے تھے
وہ پہلی ہی ملاقات میں دوسرے کو اپنا گرویداہ بنا لیا کرتا تھا
انہوں نے اپنے پوتے کو سیاست میں آنے کو کہا تو وہ جلد ہی مان گیا
اور اب اس بار الیکشن میں وہ دار جی کی جگہ کھڑا ہونے والا تھا
سکندر صاحب کو اسکے الیکشن میں کھڑا ہونے پر کوئی اعتراض نہیں تھا
وہ تو خوش تھے چلو میں نا صحیح میرا بیٹا تو
میرے باپ کے خواب پورے کرے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 2
اوکے پاپا ۔۔۔ گوڈ بائے
آئی ہیو ٹو گو ناؤ ۔۔۔۔۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ حیدر صاحب سے گویا ہوئی
اوکے مائی پرنسز گوڈ بائے ۔۔۔۔۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے گوڈ بائے بولا
وہ یونی جا رہی تھی وہ ایم بی اے کی سٹوڈینٹ تھی
وہ اپنی گاڑی میں جب یونی پہنچی تو راحم اور حیا کو اپنا انتظار کرتے ہوئے
پایا
ہیلو گائز ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے راحم اور حیا کو ہیلو بولا
راحم اور حیا اسکے دوست تھے
حیا اور راحم ایک دوسرے کے منگیتر بھی تھے
حیا اور اسکا ایم بی اے کا فرسٹ ائیر اور
راحم کا ایم بی اے کا لاسٹ ائیر چل رہا تھا
ہیلو ۔۔۔۔۔ ہائیو آر یو پرنسز
حیا اس کے گلے لگ گئی اور اسکے گال سے اپنا گال مس کیا
آئم ایم فائن ۔۔۔۔۔ ا س نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
ہیلو ۔۔۔۔۔۔ راحم نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا
ہائے ۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے راحم سے ہاتھ ملایا
چلو اب کلاس میں چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
حیا کے کہنے پر وہ دونوں اپنے کلاس روم کی طرف چل دیں اور
راحم اپنے کلاس روم کی طرف چل دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں باہر لنچ کریں آج ۔۔۔۔۔۔ یونی سے آف کے بعد
راحم نے ان کے سامنے آئیڈیا پیش کیا
راحم اس وقت اپنے دوست اذلان کے ساتھ ان دونوں کے پاس موجود تھا
گوڈ آئیڈیا آئم ایم ریڈی ۔۔۔۔۔۔ حیا مسکراتے ہوئے بولی
تم کیا کہتی ہو پرنسز ۔۔۔۔۔۔ راحم نے اس سے پوچھا
اذلان نے اسکی طرف دیکھا جو بلیک ٹائٹس ، بلیک گھٹنوں تک آتا کُرتا ، بلیک ڈوپٹا گلے میں بلیک ڈوپٹا مفلر کی طرح لپیٹے
بلیک سینڈل اور بیلک ہی گلاسز لگائے خوبصورت
لگ رہی تھی
اذلان نے ہمیشہ اسے ایسی ہی ڈریسنگ میں دیکھا تھا وہ پریس میں رہتے ہوئے
بھی اپنی مشرقی روایات کو نہیں بھولی تھی
وہ ہمیشہ ایسے کپڑے پہنتی تھی جو اس ماحول کے مطابق بھی ہوتے تھے
اور اسے اچھے سے کور بھی کرتے تھے
اسے اپنے جسم کی نمائش کرنا بلکل بھی پسند نہیں تھا
ٹھیک ہے چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مان گئی تھی راحم اور حیا کی خاطر
ورنہ اسے اذلان کی موجودگی میں اسے کہیں بھی جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا
وہ اپنے حیا اور راحم کے درمیان کسی کو برداشت نہیں کرتی تھی
اذلان راحم کا بہت اچھا دوست تھا
اذلان اور راحم کی دوستی یونی کے پہلے دن ہی ہوئی تھی تب سے وہ بہت اچھے
دوست بن گئے تھے
وہ راحم کی وجہ سے کئی بار اذلان سے مل چکی تھی وہ ایک اچھا لڑکا تھا
لیکن پھر بھی اسے اپنے تینوں کے درمیان کوئی چوتھا قبول نہیں تھا
وہ اپنے رشتوں کے بارے میں بہت پوزیسو تھی
اسکی زندگی میں اس کے پاپا ، راحم اور حیا کے سواہ اور کوئی نہیں تھا
وہ دوسروں کے ساتھ فارمل ہی رہتی تھی سوائے راحم ، حیا اور اپنے پاپا کے
راحم اور حیا ہی اس کے دوست تھے
ان کے علاوہ اس نے کبھی کسی کی دوستی کی آفر قبول نہیں کی تھی
بہت سے لڑکے اور لڑکیاں اس دوستی کی آفر کر چکے تھے
لیکن اسے کسی سے بھی دوستی میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا
وہ بہت خوبصورت تھی اسکی خوبصورتی جنت کی حور کی خوبصورتی کو بھی مات دیتی تھی
لائٹ بروان کمر سے نیچے آتے بال جن کو ہمیشہ وہ کھلا ہی رکھتی تھی ، دودھ سے بھی زیادہ سفید گوری رنگت ، سرخ وسفید گال اور سرخ ہی گلاب کی
پنکھڑیوں جیسے ہونٹ ، چھوٹا سا باریک ناک ،
دھان پان سا سراپا
اسکی خوبصورتی کا باعث تھا
جو بھی دیکھتا تو دیکھتا ہی رہ جاتا اس پر پہلی نظر ڈالنے والا اپنی نظریں اس سے ہٹا
ہی نہیں پاتا تھا
کچھ ایسی کشش تھی اس میں ۔۔۔۔۔۔
آج تک کسی نے اسکی
آنکھیں نہیں دیکھی تھیں کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسکی آنکھوں کا رنگ کیا ہے اور
اسکی آنکھیں کیسی ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ اپنی
آنکھوں کو بلیک گلاسسز سے چھپائے رکھتی تھی
راحم اور حیا جو کہ اسکے دوست تھے انہیں بھی نہیں پتا تھا کہ اسکی آنکھوں
کا رنگ کیسا ہے کیونکہ انہوں نے بھی اسکی
آنکھیں کبھی نہیں دیکھی تھیں
پوری یونی میں وہ پرنسز کے نام سے مشہور تھی بہت کم لوگ اسکے اصلی نام سے واقف تھے
وہ تھی بھی پرنسز جیسی
نازک سی اور خوبصورت ۔۔۔۔۔
حیا سے اسکی دوستی یونی کے فرسٹ ڈے پر ہی ہو گئی تھی
حیا کے تھرو ہی اسکی راحم سے دوستی ہوئی تھی
راحم بہت اچھا لڑکا تھا اسے اپنی پیاری سی دوست حیا کے لیے راحم بہت پسند تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوراں ۔۔۔۔۔۔
نوراں ۔۔۔۔ صفیہ خاتون اسے آوازیں دے رہی تھیں
صفیہ خاتون ، زینب بیگم کے ساتھ ڈرائنگ روم میں موجود تھیں
دار جی اور شاہ الیکشن کے کاموں میں مصروف تھے
اور سکندر صاحب زمینوں پر گئے ہوئے تھے
اس وقت وہ دونوں ہی گھر پر تھیں
جی بڑی بی بی آپ نے بلایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوراں بولی
ہاں دیا کو بھیجو ذرا ۔۔۔۔۔
نوراں سر ہلاتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی جہاں دیا موجود تھی
کوئی نئی لڑکی رکھی ہے کیا ماں جی آپ نے ۔۔۔۔ ؟
زینب بیگم نے ان سے پوچھا
ہاں کرمو کے تایا زاد کی بیٹی ہے اسکے ماں باپ کا انتقال ہو گیا ہے
اس لیے کرمو اسے اپنے ساتھ لے آیا اور مجھ سے اسے حیویلی میں ملازمت کی درخواست کی
اور میں نے اسے رکھ لیا
لڑکی بہت محنتی ہے جو بھی کام کہو بہت اچھے سے کرتی ہے
پر بیچاری گونگی ہے ۔۔۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے انہیں بتایا
اتنے میں دیا وہاں آ گئی تھی
دیا تمھیں چائینز کھانا بنانا آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
صفیہ خاتون نے اس سے پوچھا
دیا نے ہاں میں سر ہلایا
اچھا پھر آج چائینز رائس بنا لینا میرے پوتے کو بہت پسند ہیں ۔۔۔۔۔۔
صفیہ بیگم کے اگلے حکم پر بھی اس نے ہاں میں سر ہلایا
ایک بات تو بتاو تم نے چائینز کھانے بنانے کہاں سے سیکھے ۔۔۔۔۔ زنیب بیگم
نے حیرانی سے اس سے پوچھا
وہ اس بات پر حیران تھیں کہ ایک ان پڑھ اور غریب گھرانے کی لڑکی کیسے
چائینز کھانے بنا سکتی ہے
انکی بات سن کر دیا نے انکے سامنے ٹیبل پر موجود کاغذ اور پینسل اٹھائے
اور اس پر کچھ لکھ کر زینب بیگم کی طرف بڑھایا
زینب بیگم نے حیرانی سے اسکے ہاتھ سے کاغذ لے لیا
جس پر لکھا تھا کہ
میرے بابا اور اماں نے اپنی محنت کی کمائی سے اسکے میڑک پاس کرنے پر اسے
ایک سمارٹ موبائیل لے کر دیا تھا
جس پر اس نے چائینز کھانے بنانے سیکھے تھے
اور گھر میں ٹرائی کیا کرتی تھی ان ساری ریسپیز کو اس طرح وہ آہستہ آہستہ چائینز
بنانا سیکھ گئی
یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔۔۔۔ زینب بیگم مسکراتے ہوئے بولیں
اچھا اب تم جاو دیا ۔۔۔۔۔
صفیہ بیگم کے کہنے پر وہ سر ہلاتے ہوئے کچن میں چلی گئی
واہ ۔۔۔۔۔۔ ماں جی لڑکی تو بہت ہنر مند لگتی ہے اب اسکے ہاتھ کا کھانا بنا
کھانا کھا کر ہی پتا چلے گا کہ میرا اندازہ سچ ہے کہ نہیں
وہ کھانا بہت اچھا بناتی ہے ۔۔۔۔ تمھارے دار جی بھی اسکے ہاتھ کے بنے کھانے کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ہیں
صفیہ بیگم مسکراتے ہوئے بولیں
دار جی نے اسکی تعریف کی ہے تو واقعی میں وہ اچھا کھانا بناتی ہو گی
کیونکہ دار جی بہت کم ہی کسی کی تعریف کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
زینب خاتون بولیں
ہممم ۔۔۔۔۔ یہ تو ہے ۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے سر ہلایا
تم لوگ کب واپس جا رہے ہو ۔۔۔
ماں جی میں اور سکندر تو کل ہی چلے جائیں گے البتہ شاہ آپ کے ساتھ ہی رہے
گا
زینب بیگم نے انکی بات کا جواب دیا
ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کا کھانا بہت اچھا ہے نا ۔۔۔۔۔۔
راحم نے ان سب سے پوچھا
وہ چاروں اس وقت ایک ریسٹورانٹ میں موجود تھے
ہاں بہت اچھا ہے ۔۔۔۔۔ اذلان نے اس کی بات سے اتفاق کیا
مجھے بھی جہاں کا کھانا بہت پسند آیا ہے ۔۔۔ حیا مسکراتے ہوئے بولی
تمھیں کیسا لگا کھانا پرنسز ۔۔۔۔۔
راحم نے اس سے پوچھا جو کھانا کھانے میں مصروف تھی
اچھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مختصر سا جواب دیا اور پھر سے کھانے کی طرف متوجہ ہو گئی
مجھے پتا تھا کہ تم سب کو پسند آئے گا میں کچھ دن پہلے جہاں آیا تھا
اور مجھے جہاں کاکھانا بہت مزے کا لگا تھا
اسی لیے میں تم سب کو بھی جہاں لے آیا
راحم مسکرا رہا تھا بات کرتے ہوئے
تم دونوں شادی کب کر رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔ پرنسز نے راحم اور حیا سے پوچھا
اس نے اب تک اذلان کو مخاطب نہیں کیا تھا سوائے ہیلو ہائے کے
جب حیا کا ایم بی اے کمپلیٹ ہو جائے گا تب ہم شادی کریں گے
اور تب تک میں بھی پاپا کا بزنس جوائن کر لوں گا
جواب راحم کی طرف سے آیا تھا
اوکے ۔۔۔۔۔ پرنسز مسکراتے ہوئے بولی
مسکرانے کی وجہ سے اس کے دونوں گالوں میں گہرے ڈمپل نمودار ہوئے
جو اس کے حسن کو چار چاند لگاتے تھے
راحم ، حیا اور اذلان اسے ہی دیکھ رہے تھے جو مسکراتے ہوئے اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی
اس کی مسکراہٹ اتنی غصب کی ہے اگر یہ کھل کے ہنسے تو دیکھنے والے کی جان ہی لے لے گی ۔۔۔۔۔۔۔
اذلان نے اسے مسکراتا دیکھ دل میں اندازہ لگایا
لنچ کرنے کے بعد وہ سب اپنے اپنے راستے ہو لیے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو پاپا ۔۔۔۔۔۔
وہ حیدر صاحب کو آتا دیکھ اٹھ کھڑی ہوئی اور ان کے گلے کا ہار بن گئی
کیسی ہے میری پرنسز ۔۔۔۔۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگائے لاونج میں موجود صوفے تک لے
آئے اور اسے لیے صوفے پر بیٹھ گئے
آئم فائن پاپا ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنا سر ان کے کندھے پر ٹکا دیا
کیسا گزرا میری پیاری سی پرنسز کا آج کا دن ۔۔۔۔۔
اچھا گزرا آج کا دن پاپا ۔۔۔
یونی کے بعد میں راحم ، حیا اور راحم کا دوست اذلان نے ایک ساتھ لنچ کیا
لنچ کے بعد میں مارکیٹ آ گئی وہاں سے کچھ چیزیں لیں
مارکیٹ میں دو لڑکوں نے مجھے تنگ کیا
اور پھر میں نے ان کی اچھی دھلائی کی معافی مانگتے گئے تھے مجھ سے
وہ دونوں لڑکے ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے انہیں اپنے پورے دن کی
تفصیلات سے آگاہ کیا
ویری گوڈ بیٹا تم نے بہت اچھا کیا ان کی پٹائی کر کے ۔۔۔۔۔۔۔
حیدر صاحب نے اسے شاباشی دی
چلیں پاپا اب آپ چینج کر لیں اور فریش ہو جائیں میں اتنی دیر میں کھانا
لگواتی ہوں پھر مل کر ڈنر کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اوکے مائی پرنسز ۔۔۔۔۔۔ حیدر صاحب اسکی پیشانی چومتے ہوئے اپنے روم میں چلے گئے
اس نے کراٹے سیکھے ہوئے تھے وہ کراٹوں میں بلیک بیلٹ تھی
اسکے پاپا کا ایک بہت بڑا پینٹ ہاوس تھا جس میں وہ اپنے پاپا کے ساتھ رہتی تھی
اسکے پاپا نے اپنا سارا بزنس ، بینک بیلنس اور پینٹ ہاوس اس کے
نام کیا ہوا تھا
وہ اپنے پاپا کی ساری جائیداد کی اکلوتی وارث تھی
پورا پینٹ ہاوس اندر سے وائٹ کلر کا تھا اور پورے پینٹ ہاوس کو اس نے اپنی
مرضی سے ڈیکوریٹ کیا ہوا تھا
دیواروں پر خوبصورت سی پینٹنگز لگی ہوئی تھیں
سارا فرنیچر وائٹ کلر کا تھا وائٹ کلر کا کارپٹ پورے پینٹ ہاوس میں موجود تھا
بہت قیمتی اور مہنگے شو پیس سے اس نے پورے پینٹ ہاوس کو سجایا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ ۔۔۔۔ زبردست ۔۔۔۔
چائنیز رائس تو بہت مزے کے ہیں کس نے بنائے ہیں
خالہ نوراں نے بنائے ہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
شاہ نے صفیہ خاتون سے پوچھا
نہیں نوراں کی بھتیجی ہے اس نے بنائے ہیں ۔۔۔۔۔ انہوں نے اسکی بات کا جواب دیا
ان کی کون سی بھتیجی آ گئی کرمو چاچا کا تو کوئی بھی بھائی نہیں ہے ۔۔۔۔
شاہ نے حیرانی کا اظہار کیا
وہ کرمو کے تایا زاد کی بیٹی ہے اسکے تایا زاد کا انتقال ہو گیا ہے جس کی وجہ سے کرمو اسے اپنے ساتھ لے آیا
صفیہ خاتون نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا
اوکے ۔۔۔۔۔ شاہ نے سر ہلاتے ہوئے اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرنسز ۔۔۔۔۔ میری جان کیا ہوا تمھیں
حیدر صاحب اسکے کمرے میں موجود تھے کیونکہ وہ ابھی تک اپنے روم
سے باہر نہیں آئی تھی
حیدر صاحب کافی دیر اسکے باہر آنے کا انتظار کرتے رہے
لیکن اسکے نا آنے پر وہ خود اسے دیکھنے اسکے روم میں آ گئے
پرنسز ۔۔۔۔۔۔
اسکے طرف سے کوئی جواب نا پا کر حیدر صاحب نے اسکے چہرے سے
کمفرٹر ہٹایا
تو اس کا لال ہوتا چہرہ پایا وہ بری طرح کانپ رہی تھی
پرنسز ۔۔۔۔۔۔ حیدر صاحب نے اسکی پیشانی کو چھوا تو وہ بخار سے تپ رہی تھی
پرنسز ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جان آنکھیں کھولو
حیدر صاحب نے اسکا چہرہ تھپتھپایا تو اس نے تھوڑی سی اپنی آنکھیں کھولیں
اور ان کی طرف دیکھا
پاپا ۔۔۔۔۔۔ وہ اتنا ہی کہتے پھر سے اپنی آنکھیں موند گئی
پرنسز ۔۔۔۔۔ حیدر صاحب نے پھر سے اسے جگانا چاہا پر وہ بے ہوش ہو چکی تھی
حیدر صاحب کی تو اسکی یہ حالت دیکھ کر جان پر بن آئی تھی
انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے ڈاکڑ کو فون کر کے اسے بلایا
اور خود اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر بیٹھ گئے اور اسکے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگے
ڈاکڑ نے اسکا چیک اپ کیا
ڈونٹ وری مسڑ حیدر شی ول بی فائن ۔۔۔۔۔۔
بس سردی کی وجہ سے انہیں بخار ہو گیا ہے
میں نے انکو انجکشن دیا ہے کچھ دیر میں یہ ہوش میں آ جائے گی اور میں نے میڈیسن لکھ دیں ہیں ان کو یہ میڈیسن دیں یہ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گی
ڈاکڑ ان کو تسلی دیتا ہوا وہاں سے چلا گیا
کچھ دیر کے بعد اسے ہوش آیا
پاپا ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے حیدر صاحب کو پکارا جو ابھی بھی اسکا سر اپنی گود میں رکھے
بیٹھے تھے اور اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رہے تھے
جی پاپا کی جان ۔۔۔۔۔۔ کیسی ہے اب میری پرنسز
پاپا پورے جسم میں درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے بولی
میں ابھی تمھارے لیے سوپ لے کر آتا ہوں سوپ کے بعد تم میڈیسن لینا
دیکھنا میڈیسن لینے کے بعد تم بلکل ٹھیک ہو جاو گی
انہوں نے اسے تسلی دی اور اسکے پیشانی چومی
نہیں آپ نا جائیں میڈ کو کہیں وہ دے جائے سوپ ۔۔۔۔۔۔
ان کو اٹھتا دیکھ وہ فورا بولی اور ان کا ہاتھ پکڑ لیا
ٹھیک ہے میری پرنسز ۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے انٹر کام پر میڈ کو سوپ لانے کو کہا
تھوڑی دیر میں میڈ سوپ لے آئی
اٹھو میری جان سوپ پی لو ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اسے سہارا دے کر بیٹھا یا
اور خود اپنے ہاتھوں سے سوپ پلانے لگے
سوپ پلانے کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہی اسے میڈیسن
کھلائی
اب تم لیٹ جاو اور آرام کرو میری جان ۔۔۔۔
وہ انکی گود میں سر رکھ کے لیٹ گئی ۔۔۔۔۔
پاپا مجھے چھوڑ کر نا جائیے گا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے نہیں جاوں گا میں اپنی پرنسز کو چھوڑ کر
وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگے
تھوڑی ہی دیر میں وہ سو گئی تھی
حیدر صاحب ویسے ہی اس کے پاس بیٹھے رہے
وہ ایسی ہی تھی بیماری میں بلکل بچی بن جاتی تھی حیدر صاحب کو اپنے پاس سے
اٹھنے نہیں دیتی تھی
اور حیدر صاحب بھی کہاں اسے بیماری کی حالت میں چھوڑ کر جاتے تھے
اسکو تکلیف میں دیکھ کر حیدر صاحب تڑپ اٹھتے تھے
وہ اس وقت تک اسکے ساتھ رہتے تھے
جب تک وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو
جاتی تھی
اس میں ان کی جان تھی
انہوں آج تک اس سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی
انہوں نے اپنی پرنسز کو بلکل ایک پرنسز کی طرح ہی رکھا تھا
انہوں نے اسکی ہر خواہش پوری کی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 3
کیسی جا رہی ہے الیکشن کی کمپین شاہ ۔۔۔۔۔
سکندر صاحب نے اس سے استفسار کیا
بہت اچھی چل رہی ہے پاپا ۔۔۔۔پر مخالف پارٹی کا امیدوار بلال جو میرے مقابل
کھڑا ہے کل مجھ سے ملا تھا
بہت اکڑ دیکھا رہا تھا میرے سامنے اور مجھے دھمکیاں بھی دے رہا تھا کہ میں
الیکشن نا لڑوں ورنہ وہ میرے ساتھ بہت برا
کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔
میں اسکا منہ تھوڑ دیتا اگر دار جی درمیان میں نا آتے ۔۔۔۔
شاہ اس کا ذکر کرتے ہوئے غصے کا اظہار کیا
تم اس سے دور ہی رہو بیٹا وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے تا کہ تم غصے میں آ کر کچھ الٹا سیدھا کرو اور پھس جاو
سکندر صاحب نے اسے سمجھایا
تو آپ کا کیا مطلب ہے وہ جو چاہے بکواس کرے میں اسے آگے سے کوئی جواب
بھی نادوں پاپا
میں یہ نہیں کہہ رہا بیٹا بس یہ کہہ رہا ہوں ہوش سے کام لو جوش سے نہیں ۔۔۔
ٹھیک ہے پاپا کوشش کروں گا ۔۔۔۔۔۔ اس نے خود کو نارمل کیا
اللہ خیر سے الیکشن ہو جائیں ورنہ شاہ کا کوئی اعتبار نہیں کہ یہ بلال کا قتل ہی کر دے
انہوں نے دل میں سوچا
شاہ غصے کے معاملے میں اپنے دار جی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا تھا
دار جی بہت غصے والے تھے ان کے اپنے اصول تھے جو ان اصولوں کو ماننے سے
انکار کرتا تھا تو وہ ان کے غضب کا شکار ہو جاتا تھا
یہ نہیں تھا کہ دار جی اپنے ملازموں اور گاوں والوں پر بے جا غصہ کرتے تھے
بس جو غلط کام کرتا تھا اور ان کے اصولوں کو نہیں مانتا تھا
وہ اس پر ہی غصہ کرتے تھے
دار جی اپنے پورے گاؤں کے مائی باپ تھے سب گاؤں والے ان کی عزت کرتے تھے اور برے لوگ ان سے ڈرتے تھے کیونکہ کہ وہ برے لوگوں کے معاملے
میں بہت برے تھے
اور شاہ تو غصے کرنے کے معاملے میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہی تھا
پھر سکندر صاحب اپنی بیگم زینب کے ساتھ کراچی چلے گئے واپس اپنے گھر
اور شاہ گاؤں میں ہی رہا اور اپنی الیکشن کی کمپین میں مصروف ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندھی ہو تم نظر نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ اس پر غصے سے دھاڑا
دیا جو صفیہ خاتون کے لیے جوس لے کر جا رہی تھی سامنے سے آتے شاہ کو نا دیکھ
پائی اور اس سے ٹکرا گئی
جس کی وجہ سے اسکے ہاتھ میں پکڑا جوس کا گلاس شاہ کے کپڑوں پر گر گیا
جس سے شاہ کے سارے کپڑے خراب ہو گئے
شاہ کے دھاڑنے کی وجہ سے وہ تھر تھر کانپ رہی تھی اور اسکے سامنے سر جھکائے
کھڑی تھی
میرے سارے کپڑے خراب کر دیئے ایڈیٹ سٹوپٹ نا تو ۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی بھی غصے سے اسے گھور رہا تھا شاہ کو وہ کالی اور بڑھے ہوئے دانتوں والی لڑکی بلکل بھی اچھی نہیں لگی تھی
شاہ کی آواز سن کر صفیہ بیگم وہاں آ گئیں
کیا ہوا بیٹا کیوں اسے ڈانٹ رہے ہو ۔۔۔۔۔
یہ دیکھیں دادو ۔۔۔ اس نے میرے سارے کپڑے خراب کر دیئے
وہ ابھی بھی غصے میں تھا
معاف کر دو بے بچاری کو غلطی ہو گئی ہے اس سے ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے دیا کی سفارش کی جو ابھی بھی سر جھکائے کھڑی تھی
یہ ہے کون پہلے تو اسے کبھی نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔ شاہ نے ان سے پوچھا
یہ کرمو کی بھتیجی دیا ہے جس کے ہاتھ کے بنائے ہوئے رائس تمھیں بہت پسند آئے تھے
انہوں نے اسے بتایا
اوکے معاف کر دوں گا پہلے یہ مجھ سے معافی مانگے ۔۔۔۔۔
یہ کیسے معافی مانگ سکتی ہے تم سے یہ تو بول بھی نہیں سکتی ہے یہ گونگی ہے ۔۔۔۔
صفیہ خاتون بولیں
تو میں بے وقوف تب سے ویسے ہی بولے جا رہا ہوں اور اس نے میری ایک بھی بات نہیں سنی ۔۔۔۔ شاہ کو اور غصہ آیا اس بات پر
نہیں یہ سن سکتی ہے پر بول نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اسے بتایا
ٹھیک ہے پھر ہاتھ جوڑ کر مجھ سے معافی مانگو ۔۔۔۔۔۔ شاہ اب دیا سے مخاطب تھا
دیا نے فورا اس کی طرف بنا دیکھے اسکے آگے اپنے ہاتھ جوڑ دیئے
ٹھیک ہے جاو اب تم دیا ۔۔۔۔۔ صفیہ خاتون کے کہنے پر وہ کلاس اٹھاتی
ہوئی کچن میں چلی گئی
بیٹا اب تم غصہ چھوڑو اور جا کر چینج کر لو ۔۔۔۔۔۔
صفیہ خاتون کے کہنے پر وہ سر ہلاتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا
اللہ اسکا غصہ کم کر دیں ۔۔۔۔ وہ شاہ کو جاتا دیکھ دل میں اللہ سے مخاطب ہوئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کیسی ہے میری پرنسز ۔۔۔۔۔
حیدر صاحب نے اسکے آنکھیں کھولنے پر اس سے پوچھا
ٹھیک ہوں پاپا آپ تھک گئے ہوں گے نا اس طرح بیٹھے بیٹھے ۔۔۔۔۔۔ وہ پریشانی
سے بولتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی
میں بلکل ٹھیک ہوں تم فکر نا کرو میری جان ۔۔۔۔ انہوں نے مسکراتے
ہوئے اپنی پرنسز کی پیشانی چومی
حیدر صاحب تب سے اسی کے پاس بیٹھے تھے وہ ایک پل کے لیے بھی اسے چھوڑ
کر اپنی جگہ سے نہیں ہلے تھے
ٹھیک ہے پاپا میں چینج کر لوں پھر مل کر کھانا کھاتے ہیں آپ نے بھی کھانا نہیں کھایا صبح سے
اور اب رات ہونے والی ہے ۔۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا میں میڈ سے کھانا لگانے کا بولتا ہوں تم تب تک چینج کر کے آ جاو
وہ اسکو اپنے گلے سے لگانے اور اسکی پیشانی چومتے ہوئے اس کے روم سے چلے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو برخودار کیسا چل رہا ہے تمھارا کام ۔۔۔۔۔
دار جی نے شاہ سے پوچھا
وہ دار جی اور اسکی دادو اس وقت رات کا کھانا کھا رہے تھے
بہت اچھا جا رہا ہے دار جی دیکھے گا میں ہی جیتوں گا انشااللہ ۔۔۔۔۔ وہ پر عزم لہجے میں گویا ہوا
بہت اچھی بات ہے بیٹا ۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے
کھانے کھانے کے بعد دار جی اور صفیہ خاتون اپنے روم میں چلے گئے اور شاہ لان میں ٹہلنے لگا
وہ لان سے اپنے روم کی طرف جا ہی رہا تھا کہ اسے دیا کچن سے نکلتی دیکھائی دی
سنو ۔۔۔۔۔۔
شاہ کی آواز پر وہ رک گئی
وہ سر جھکائے کھڑی تھی
کافی بنا کر مجھے میرے روم میں دے جانا ۔۔۔۔۔۔ شاہ اسے حکم دیتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا
کچھ دیر کے بعد دروازے پر ناک ہوا
آ جاو ۔۔۔۔۔ شاہ کے اجازت دینے پر دیا کافی لیے روم میں آ ئی
شاہ بیڈ کراون سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اسے آتا دیکھ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
دیا نے ٹرے شاہ کے آگے کی شاہ نے کافی کا کپ تھام لیا
جاو اب تم ۔۔۔۔۔ شاہ کے کہنے پر وہ وہاں سے جانے ہی لگی تھی کہ شاہ کی آواز پر
اسے رکنا پڑا
سنو ۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسکی طرف رُخ موڑے سر جھکا کر کھڑی ہو گئی
کافی بہت اچھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تم اتنا اچھا کھانا کہاں سے بنانا سیکھا
شاہ نے اس سے پوچھا
اف میں بھی پاگل ہوں تم سے پوچھ رہا ہوں تم تو بول بھی نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔
شاہ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا
دیا نے پہلی بار اپنی آنکھیں اٹھا کر شاہ کی طرف دیکھا
اس نے شاہ کو اشارہ کیا کہ وہ اسے لکھنے کے لیے کاغذ اور پینسل دے
پر شاہ کہاں ہوش میں تھا وہ تو ٹکٹکی باندھے اسکی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا دیا کی آنکھیں بلکل ویسی ہی تھیں جیسی آنکھیں روز شاہ
خواب میں دیکھتا تھا
اسے روز خواب میں بلورین آنکھیں دکھائی دیتی تھیں وہ ان آنکھوں کا دیوانا تھا
وہ اس بلورین آنکھوں والی لڑکی کی تلاش کرتا تھا
لیکن آج تک اسے وہ لڑکی نہیں ملی تھی جس کی بلورین آنکھیں
ہوں
آج اس نے حقیقت میں بلورین آنکھیں دیکھیں تھیں جو اسے
خواب میں تنگ کرتی تھیں
آں۔۔۔آں ۔ دیا نے اپنی آواز نکال کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی جو
یک ٹک اسے ہی دیکھ رہا تھا
وہ پھر بھی ہوش میں نا آیا ویسے ہی دیا کی آنکھوں کو تکتا رہا
دیا جیسے ہی وہاں سے جانے کے لیے مڑی شاہ فورا ہوش میں آیا
اور لپک کر دیا کا ہاتھ پکڑ کر اسکو روکا
دیا آنکھوں میں خوف لیے اسے دیکھ رہی تھی اور تھر تھر کانپ رہی تھی
شاہ نے اسکی آنکھوں میں خوف دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا
تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا
شاہ اس سے مخاطب تھا
دیا نے کمرے میں موجود صوفے پر موجود رجسڑ اور پینسل اٹھا کر شاہ کی بات کا
جواب اس پر لکھ دیا
تو اس کا مطلب ہے یہ تھوڑا بہت پڑھی لکھی بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ کاغذ پر اسکے
لکھے موتی جیسے لفظوں کو پڑھنے کے بعد شاہ نے دل میں سوچا
تمھاری رائٹنگ بہت اچھی ہے اور ایک بات تو بتاو تمھاری آنکھوں کا یہ اصلی
رنگ ایسا ہے یا تم نے لینز ڈالے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ شاہ نے ایک اور
سوال داغا
دیا نے پھر سے اسکی بات کا جواب لکھ دیا
ٹھیک ہے تم جاو ۔۔۔۔۔ شاہ کے اجازت دیتے ہی وہ وہاں سے چلی گئی
اسکے جاتے ہی شاہ بیٹھ پر گر گیا اور اپنی آنکھیں موند لیں
واہ اللہ میاں ۔۔۔۔پہلے دو آنکھیں روز خواب میں دیکھا دیکھا کر مجھے ان دو آنکھوں کا دیوانا کر دیا
پھر جس کی وہ آنکھیں ہیں وہ لڑکی کون نکلی جس کو میرے گھر والے کبھی بھی میری بیوی کے طور پر قبول نہیں کریں گے
وہ بن ماں باپ کے ہے ہمارے ملازم کی بھتیجی ہے غریب ہے اسکا رنگ کالا ہے
دانت بڑھے ہوئے ہیں اور گونگی بھی ہے
وہ کسی بھی لحاظ سے خوبصورت نہیں ہے پر میں اپنے دل کا کیا کروں اسے تو
اسکی ان بلورین آنکھوں سے عشق ہے ۔۔۔۔۔
کس مقام پر آپ نے مجھے لا کھڑا کیا ہے اللہ میاں ۔۔۔
ان بلورین آنکھوں کو اور دیا کو سوچتا ہوا وہ نیند کی وادیوں میں گم ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ووٹینگ کا دن بھی آ پہنچا تھا آج فیصلہ ہونا تھا
کہ شاہ جیتے گا یا پھر بلال ۔۔۔۔۔
شاہ اپنے فارم ہاوس کی طرف جا رہا تھا جب اسی گاڑی کے سامنے بلال کی گاڑی
آ رکی
شاہ کو بھی مجبورا رکنا پڑا کیونکہ بلال کی گاڑی نے اسکی گاڑی کا راستہ روکے کھڑی
تھی
بلال اور شاہ اس وقت اکیلے ہی تھے اپنی اپنی گاڑی میں
ورنہ ہمیشہ ان کے ساتھ گارڈز ہوتے تھے
بلال اپنی گاری سے نکلتا شاہ کی گاڑی کے پاس آ گیا
شاہ بھی اپنی گاڑی سے باہر نکل آیا
میرا راستہ کیوں روکا ہے ۔۔۔۔۔۔ شاہ نے اسے غصے سے گھورا
میری مرضی ۔۔۔۔ بلال تمسخرانہ انداز میں مسکراتا ہوا گویا ہوا
راستہ چھوڑو میرا ۔۔۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا
شاہ بولا
نہیں چھوڑوں گا جو کرنا ہے کر لو ۔۔۔ بلال تن کے اسکے سامنے کھڑا ہو گیا
شاہ نے ایک مُکا اس کے منہ پر مارا جس سے بلال دور جا گرا
تمھاری تو ۔۔۔۔۔ بلال غصہ سے شاہ کی طرف بڑھا
اور اسے تھپڑ مارنے کے لیے اس پر ہاتھ اٹھایا
شاہ نے اسکا ہاتھ راستے میں ہی روک لیا
مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی نا کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا
شاہ نے اسے دھمکی دی اور اسکا ہاتھ مروڑ کر ایک جھٹکے سے چھوڑ دیا
آج میں نے الیکشن جیت جانا ہے پھر میں تمھیں بتاوں گا بلال کون ہے اور تمھارے ساتھ کیا کر سکتا ہے ۔۔۔۔
تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھا کر اچھا نہیں کیا میں اسے مکے کا
بدلہ تم سے لے کر روں گا ۔۔۔۔۔۔ بلال اسے غصے سے گھور رہا تھا
تمھاری خوش فہمی ہے کہ تم الیکشن جیت جاو گے اور میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو ۔۔۔۔
شاہ نے اسے جلانے کے لیے مسکراتے ہوئے کہا
دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ بلال اسے کہتا ہوا اپنی گاڑی لے کر وہاں سے چلا گیا
شاہ بھی حیویلی آ گیا
شام کو غیر متفقہ نتائج کے مطابق شاہ اپنے حلقے سے بھاری اکثریت کے ساتھ
جیت گیا تھا
بہت بہت مبارک ہو بیٹا تم جیت گئے ۔۔۔۔۔ دار جی نے اسے
گلے لگاتے ہوئے مبارک باد دی
آپ کو بھی بہت بہت مبارک ہو دار جی ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ بھی بہت خوش تھا
اپنی جیت سے
بہت بہت مبارک ہو شاہ بیٹا ۔۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے بھی اسے مبارک باد دی
آپ کو بھی مبارک ہو دادو ۔۔۔۔۔۔
تم لوگ بیٹھو میں پورے گاؤں میں میٹھائی بانٹ کے آتا ہوں ۔۔۔۔۔
دار جی ان سے کہتے ہوئے کرمو کو اپنے ساتھ لیے وہاں سے چلے گئے
دادو آج کچھ مزے کا میٹھا ہی کھلا دیں میرے جیتنے کی خوشی میں ۔۔۔۔۔۔
شاہ نے فرمائش کی
مجھے پتا تھا میرا بیٹا ضرور جیتے گا اسی لیے میں نے پہلے ہی دیا کو تمھاری پسند کا سٹابری
فلیور کا کرسٹ بنانے کا بول دیا تھا
وہ مسکراتے ہوئے بولیں
تھیکنیو ۔۔۔۔ دادو ۔۔۔۔ وہ ان کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا
دیا کے ذکر پر اسے دیا کی آنکھیں یاد آ گئیں
شاہ نے اس دن کے بعد دیا کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ اپنے الیکشن کے کاموں میں بہت مصروف تھا
اپنے ماما پاپا کو فون ملاو ان کو بھی خوش خبری دیتے ہیں ۔۔۔۔
صفیہ خاتون کے کہنے پر اس نے اپنے پاپا سکندر صاحب کو کال ملائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار آج تو یہ گلاسز اتار دو ۔۔۔ حیا نے اس سے کہا
نہیں میں نے نہیں اتارنی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اٹل لہجے میں گویا ہوئی
اوکے ایز یو وش ۔۔۔۔۔۔ حیا نے اسے اور فورس نا کیا
کیونکہ وہ جانتی تھی وہ جو بات ایک بار کہہ دے وہ پتھر پر لکیر ہوتی تھی
آج راحم کی فیئر ول پارٹی تھی جو حیا اور اسکی کلاس کی طرف سے راحم کی کلاس
کو دی گئی تھی
پرنسز اس فنگشن کو ہوسٹ کر رہی تھی
ہیلو ایوری ون ۔۔۔۔ وہ اپنی خوبصورت آواز میں سٹیج پر آتے ہال میں موجود سب سٹوڈینٹ سے مخاطب
تھی
سب کی ستائشی نظریں اس پر ہی تھیں وہ ریڈ کلر کا باربی فراک پہنے لائٹ سا میک اپ کیے اپنے خوبصورت سلکی بال اپنی پشت پر پھیلائے
اور آنکھوں پر گلاسز لگائے سچ مچ کی باربی لگ رہی تھی
ویلکم ٹو آل آف یو ان دی فیئر ول پارٹی آف ایم بی اے ڈپارٹمنٹ ۔۔۔۔۔
ناؤ ویوی سٹارٹ دِس پارٹی وِد سَم میمریبل سینز آف آر ڈیپارٹمنٹ اینڈ اٹس سٹوڈینٹ ۔۔۔۔۔۔۔
لِٹس واچ آن دِی سکرین ۔۔۔۔۔
اس کے کہنے کے بعد سکرین پر ایک وڈیو چلنے لگی
واوووو۔۔۔۔۔ پرنسز تم نے تو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میدان مار لیا ہے کیا
ہوسٹ کیا ہے سارے فنگشن کو ۔۔۔
راحم نے اسکی تعریف کی
تھینکیو راحم ۔۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
راحم اپنے ساتھ اذلان کو لیے فنگشن ختم ہونے کے بعد حیا اور اس کے پاس
آ گیا تھا
اوکے اب ہم چلتے ہیں اپنے دوستوں کے پاس ۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر ان سے باتیں کرنے کے بعد راحم ان سے بولا
اوکے جاو ۔۔۔ حیا بولی
مسڑ اذلان بہت اچھا وقت گزرا آپ کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ حیا نے مسکراتے ہوئے
اپنا ہاتھ اذلان کی طرف بڑھایا
میرا بھی بہت اچھا وقت گزرا آپ سب کے ساتھ ۔۔۔ اذلان نے مسکراتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا
ہیو آ گوڈ ٹائم وِد یو مسڑ اذلان ۔۔۔۔ پرنسز نے مسکراتے ہوئے اذلان سے ہاتھ
ملایا
سیم ہیر ۔۔۔۔۔۔ اذلان مسکراتے ہوئے بولا
پھر اذلان اور راحم اپنے دوستوں کے پاس چلے گئے

اور وہ دونوں اپنے اپنے گھر چلی گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دار جی ۔۔۔۔۔۔۔ اور دادو
آپ دونوں کو بہت بہت مبارک ہو ۔۔۔
وہ خوشی سے چہکتے ہوئے دار اور صفیہ خاتون سے مخاطب تھا
کس بات کی بیٹا ۔۔۔۔۔۔ ؟
دار جی نے اس سے پوچھا
دار جی مجھے پارٹی والوں نے وزیر اطلاعت و نشریات بنانے کا فیصلہ کیا ہے ابھی مجھے
پارٹی کے سیکڑی کی کال آئی ہے
کل انہوں نے مجھے بلایا ہے حلف اٹھانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو بیٹا ۔۔۔ دار جی نے خوشی سے کہتے ہوئے اسے زور سے گلے لگایا
صفیہ خاتون نے بھی اسے گلے سے لگا کر مبارک باد دی اور اسکی پیشانی کو چوما
چلو تمھارے ماں باپ کو بھی بتاتے ہیں ۔۔۔۔ دار جی نے سکندر صاحب کو کال ملائی
کیسے ہیں آپ دار جی ۔۔۔۔۔ سکندر صاحب نے کال اٹینڈ کرتے ہی ان سے
پوچھا
میں ٹھیک ہوں اور تمھارے لیے میرے پاس ایک بہت بڑی خوش خبری ہے
دار جی پر جوش اور خوشی سے بھر پور لہجے میں بولے
کون سی خوشخبری دار جی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
تمھارا بیٹا وزیر اطلاعت و نشریات بننے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے سکندر
صاحب کو خوشی کی بات سے آگاہ کیا
بہت بہت مبارک ہو دار جی ۔۔۔۔۔۔ سکندر صاحب بھی بہت خوش تھے
سکندر صاحب اس وقت گھر پر ہی تھے اور زینب خاتون کے ساتھ اپنے روم میں بیٹھے ہوئے تھے جب دار جی کال آئی تھی
سکندر صاحب نے فون سپیکر پر لگا دیا تھا تاکہ زینب بیگم بھی
فون پر ہونے والی باتوں کو سن سکیں
زینب بیگم نے جب یہ سنا کہ ان کا بیٹا وفاقی وزیر بننے جا رہا ہے تو انکی خوشی کا کوئی
ٹھکانہ نہیں تھا
انہوں نے اوپر والے کا شکریہ ادا کیا اتنی بڑی عنایت پر
دار جی شاہ سے اور ماں جی سے بھی بات کروا دیں ۔۔۔۔۔ زینب بیگم نے ان سے کہا
وہ دونوں تمھاری بات سب رہے ہیں کیونکہ میں نے فون سپیکر پر کیا ہوا ہے جو کہنا ہے کہو۔۔۔ دار جی بولے
بہت بہت مبارک ہو شاہ بیٹا تمھیں اور دار جی اور ماں جی آپ دونوں کو بھی ۔۔۔۔
زینب بیگم بولیں
آپ کو بھی مبارک ہو ماما ۔۔۔۔۔ شاہ مسکراتے ہوئے بولا
کافی دیر وہ سب ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
'' دیا '' شاہ کے پکارنے پر وہ رک گئی
شاہ اس کے سامنے جا کھڑا ہوا
رات کا وقت تھا سب نوکر اور دار جی اور صفیہ خاتون سونے چلے گئے تھے
شاہ فارم ہاوس سے واپس آیا تھا جب اسے دیا کچن سے باہر آتی دیکھائی دی
میری طرف دیکھو ۔۔۔۔۔ شاہ کے کہنے پر دیا نے اپنا جھکا ہوا سر اوپر نا
اٹھایا بلکہ نفی میں سر ہلایا
میری طرف دیکھو ۔۔۔۔۔۔ اب کی بار وہ دھاڑا تھا
دیا نے فورا اسکی طرف دیکھا تو شاہ کو اپنی ہی طرف دیکھتے ہوئے پایا
شاہ اس دن کے بعد آج اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
اسکو اپنا آپ اسکی جھیل سی بلورین آنکھوں میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا
دیا نے اپنی نظریں جھکا لیں وہ بھلا کیسے اپنے مالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی تھی وہ اس گستاخی کی کبھی بھی مرتکب نہیں ہونا چاہتی
تھی
میری آنکھوں میں دیکھو تب تک جب تک میں تمھیں منع نا کروں ۔۔۔۔۔
شاہ نے سختی سے بولا
دیا نے نفی میں سر ہلایا
شاہ نے اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا
میری طرف دیکھو ۔۔۔۔۔۔
شاہ کے کہنے پر دیا نے اسکی طرف دیکھا
شاہ کافی دیر دیا کا چہرہ تھامے اسکی آنکھوں میں دیکھتا رہا
دیا بے بس سے کھڑی اسکی آنکھوں میں دیکھتی رہی وہ بچاری بے زبان کیا بول سکتی تھی بھلا اس کے سامنے
دیا کی آنکھوں میں آنسو ں بھرنے لگے تو شاہ اسکی آنکھوں میں آنسو
دیکھ کر تڑپ اٹھا
اس نے خواب میں ہمیشہ ان آنکھوں کو ہنستے ہوئے دیکھا تھا
وہ ان آنکھوں میں آنسو کیسے برداشت کر سکتا تھا جن کا وہ دیوانا تھا
اسکا دل ابھی بھی اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بھرا نہیں تھا
لیکن اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے دیا کا چہرہ اپنے مضبوط ہاتھوں
کی گرفت سے آزاد کر دیا
جاو ۔۔۔۔۔۔ شاہ کے اجازت دیتے ہی وہ فورا اپنے کواٹر میں چلی گئی
یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے کیوں میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہی
اپنے حواس کھو
بیٹھتا ہوں مجھے کچھ یاد ہی نہیں رہتا تھا
سوائے اسکی ان دو آنکھوں کے ۔۔۔۔۔۔
کیوں میری دیوانگی بڑھتی جا رہی ہے
وہ بلکل بھی خوبصورت نہیں ہے پھر کیوں میں اس کی طرف کھینچتا چلا جا رہا ہوں
کیوں میرا چاہتا ہے اسے سامنے بیٹھا کر اسکی آنکھوں میں کھو
جاؤ اور اپنا آپ بھی بھول جاؤں ۔۔۔۔۔
وہ اس وقت خود کو اپنے دل کے ہاتھوں بہت بے بس محسوس کر رہا تھا
شاہ نے اپنے دل میں ایک فیصلہ کر لیا تھا
اور وہ اپنے اس فیصلے سے بہت مطمئن تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 4
اور سناو تم دونوں کیسی چل رہی ہیں تم دونوں کی شادی کی تیاریاں
پرنسز نے راحم اور حیا سے پوچھا
بہت اچھی جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ راحم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
پر مجھے تم سے ایک شکوہ ہے ۔۔۔۔۔ حیا نے منہ بنایا
کس بات پر ۔۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا
تم میرے اور راحم کے ساتھ ہماری شادی کی شاپنگ کرنے نہیں آتی ہو ۔۔۔۔
حیا نے شکوہ بیان کیا
سوری یار تمھیں پتا تو ہے پاپا کے ساتھ بزنس جوائن کیا ہے اس لیے سارا ٹائم میرا
آفس میں ہی گزر جاتا ہے
اس نے وجہ بتائی
اٹس اوکے ۔۔۔۔ پر شادی میں ضرور آنا وہ نا ہو تمھیں میری شادی کا دن بھی یاد نا رہے ۔۔۔۔۔۔ حیا مسکراتے ہوئے بولی
میں بھول سکتی ہوں بھلا تمھاری شادی کے دن کو ۔۔۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی
ہ تینوں اس وقت ایک کیفے میں کافی پی رہے تھے
کافی دنوں بعد وہ اکھٹے ہوئے تھے ورنہ وہ اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے
حیا اور اسکا بھی ایم بی کمپلیٹ ہو گیا تھا اور وہ اب اپنے پاپا حیدر صاحب کے ساتھ
آفس کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی تھی
راحم اور حیا کے شادی کے ہفتے کے بعد ہونی تھی راحم اور حیا بہت خوش تھے
وہ دونوں دل وجان سے ایک دوسرے کو چاہتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دار جی اور دادو مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔
شاہ ڈنر کے بعد ان دونوں کے پاس ان کے کمرے میں موجود تھا
ہاں بولو بیٹا کیا بات ہے ۔۔۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے پیار سے پوچھا
میں کسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ شاہ بولا
یہ تو بہت خوشی کی بات ہے بیٹا میں تو خود سوچ رہا تھا تمھاری شادی کرنے کا
لیکن تم نے پہلے ہی میرے دل کی بات کہہ دی
بتاو کون ہے وہ لڑکی میں ہم سب خود اس کے گھر تمھارا رشتہ لے کر جائیں
گے ۔۔۔۔۔۔ دار جی نے خوشی کا اظہار کیا
پہلے آپ دونوں وعدہ کریں غصہ نہیں کریں گے میری بات سن کے ۔۔۔۔۔
شاہ بولا
بتاو کون ہے وہ ۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے سنجیدگی سے اس سے استفسار کیا
میں دیا سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ شاہ نے ان کے گویا ان کے سر پے بم پھوڑا تھا
کون دیا ۔۔۔۔؟ صفیہ خاتون نے دل میں اللہ سے دعا کی کہ وہ دیا نا ہو جس کا خیال میرے دل میں آ رہا ہے ورنہ بہت بڑا طوفان آ جانا ہے
کرمو چاچا کی بھتیجی دیا ۔۔۔۔۔
شاہ کے جواب پر دار جی بھڑ اٹھے
شاہ تم ہوش میں تو ہو ۔۔۔۔۔۔ دار جی دھاڑے
جی میں اپنے پورے ہوش وحواس میں ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور میں دیا سے شادی کرنا
چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔
شاہ نے اپنی بات دہرائی
پاگل ہو گئے ہو تم کیا ہے اس لڑکی میں نا شکل نا صورت نا ہی وہ ہمارے برابری کی
ہے
وہ کون سے ایسی حور ہے جو تم مر رہے ہو اس سے شادی کرنے کے لیے
دار جی اس پر غصہ کر رہے تھے
میں مانتا ہوں وہ کوئی حور نہیں ہے اور نا ہی وہ خوبصورت ہے پر میں اس سے محبت
کرتا ہوں اور میں اسی سے شادی کروں گا
اگر میری اس سے شادی نا ہوئی تو میں کسی سے شادی نہیں کروں گا
ساری عمر بنا شادی کیے گزار دوں گا
شاہ بھی اپنی بات پر ڈٹ گیا تھا
جیسا تم چاہتے ہو میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔۔ دار جی غصے سے بولے
میں بھی آپ کا خون ہوں دیا سے شادی کر کے دکھاوں گا
شاہ ان سے کہتا ہوا غصے سے وہاں سے چلا گیا
صفیہ سمجھاو اس لڑکے کو ہوش کے ناخن لے اتنے بڑے عہدے پر فائض ہے حکومت کا حصہ ہے ایک عقل مند مرد ہے کوئی سولہ سال کا ٹین ایجر نہیں ہے جو
اس طرح کر رہا ہے ایک لڑکی ہی تو ہے وہ ۔۔۔۔۔
ہم اسکی شادی اتنی خوبصورت لڑکی سے کر یں گے کہ وہ دیا کو بھول جائے گا
دار جی صفیہ خاتون سے مخاطب تھے جو کب سے خاموش ان کی اور شاہ کی باتیں
سن رہی تھیں
جی اچھا ۔۔۔۔۔ وہ صرف اتنا ہی بول پائی تھیں کیونکہ ان کی سوچ سمجھ شاہ کی بات
اور دار جی کا غصہ دیکھ کر جواب دے گئی تھی
اب کیا ہو گا اللہ میاں اگر دادا سِیر ہے تو پوتا سوا سِیر ہے
دو ایک جیسے لوگ آمنے سامنے آئیں گے تو پتا نہیں کیا ہو گا انہوں نے دل میں سوچا
اور اللہ سے بہتری کی دعا کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ میری بیٹی نے تو میرا سارا بزنس سنھبال لیا ہے ۔۔۔۔۔۔
حید صاحب اپنی پرنسز کو پیار سے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے خوشی سے بولے
پاپا یہ تو سب آپ کا کمال ہے آپ نے ہی مجھ سب سیکھایا ہے ۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے اپنا سر ان کے کندھے پر ٹکا دیا
بیٹا مجھے تم کو کچھ بتانا ہے ۔۔۔۔۔
جی پاپا بولیں کیا بات ہے ۔۔۔۔۔؟
وہ ان کے کندھے سے سر ہٹا کر ان کے روبرو بیٹھ گئی
بیٹا میں تمھیں اپنے ماضی سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں اب وہ وقت آ گیا ہے جب تمھیں ہر بات کا علم ہو جائے
جی پاپا بولیں میں سن رہی ہوں ۔۔۔۔
بیٹا میرا تعلق پاکستان سے ہے میں یہاں اپنی سٹڈیز کے لیے آیا تھا یہاں پر
میری ملاقات تمھاری ماما سے ہوئی
پھر ہم دوست بن گئے کب ہماری دوستی محبت میں بدلی ہمیں پتا ہی نا چلا
میں نے تمھاری ماما کو پر پوز کیا تمھاری ماما نے مجھ سے شادی کے لیے
ہاں کر دی اور اپنے ماما پاپا کو بھی منا لیا تمھاری ماما اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی
اسکے والدین کا تعلق بھی پاکستان سے تھا
تمھاری ماما کی پیدائش پیرس کی ہی تھی وہ یہیں پلی بڑھی تھی
اس کے پاپا ایک بزنس مین تھے اور اس سے بہت محبت کرتے تھے اس لیے وہ
میرے ساتھ اسکی شادی کے لیے مان گئے
میں اپنے بابا اور ماں جی کے پاس پاکستان گیا تاکہ انہیں منا سکوں تمھاری ماما سے شادی کے لیے
پر تمھارے دادا یعنی میرے بابا نا مانے میری شادی تمھاری ماما سے کرنے کے لیے
کیونکہ وہ میری شادی اپنے دوست کی بیٹی سے کرنا چاہتے تھے
میں نے انہیں بہت منانے کی کوشش کی پر وہ نا مانے
انہوں نے مجھے صاف کہہ دیا کہ اگر میں اپنی مرضی سے شادی کروں گا
تو میرا ان کے ساتھ ہر تعلق ختم ہو جائے گا
میں ان کی طرف سے مایوس ہو کر پیرس آگیا اور تمھاری ماما سے شادی کر لی
پھر کچھ عرصہ بعد تم آئی ہماری زندگی میں میں اور تمھاری ماما
بہت خوش تھے تمھاری پیدائش پر
تمھارے نانا نانی بھی بہت خوش تھے تمھاری پیدائش پر
تمھارے نانا نے تمھاری پیدائش پر اپنی ساری جائیداد کا وارث تمھیں بنا دیا
اور مجھے اور تمھاری ماما کو تمھاری جائیداد کا کیر ٹیکر بنا دیا
جب میری اور تمھاری ماما کی سڈیز مکمل ہوگئی تو میں نے تمھارے نانا کا آفس کا سارا کام سنھبال لیا اور تمھاری ماما تمھارے ساتھ اور اپنے والدین
کے ساتھ اپنے گھر میں مصروف ہو گئی
ہم سب بہت خوشی سے رہ رہے تھے مل کر
پر میرے دل میں ایک ملال تھا کہ میرے بابا اور ماں جی مجھ سے
ناراض ہیں ۔۔۔۔۔ حیدر صاھب کی آنکھیں یہ سب بتاتے بتاتے نم ہوگئی
تھیں
پاپا روئیں تو نا ۔۔۔۔ اس نے ان کی نم آنکھیں صاف کیں
اور نفی میں سر ہلایا
حیدر صاحب نے اسکے ہاتھ چوم لیے
آگے کیا ہوا پاپا ۔۔۔۔۔۔۔
پھر تمھارے نانا کی ڈیٹھ ہو گئی ۔۔۔۔ بہت بری حالت تھی تمھاری نانی اور تمھاری
ماما کی ان کی وفات پر میں نے بہت مشکل سے ان
دونوں کو سنھبالا تھا
پھر کچھ عرصے کے بعد میں تمھیں اور تمھاری ماما کو اپنے ساتھ لیے
بابا اور ماں جی کے پاس لے کر گیا
بابا نے مجھے اور تمھاری ماما کو بہت بے عزت کیا اور دھکے دے کر گھر سے نکال دیا
ہمیں ماں جی سے بھی نہیں ملنے دیا اور نا ہی تمھیں ایک نظر
دیکھنا تک گورا کیا
میرا خیال تھا کہ وہ تمھیں دیکھ کر ان کا دل موم ہو جائے گا اور وہ مجھے معاف کر دیں گے اور تمھاری ماما کو قبول کر دیں گے
پر ایسا نا ہوا ہم خالی ہاتھ وہاں سے آ گئے
وہاں سے واپس آنے پر تمھاری ماما کی طبیعت خراب رہنے لگی
چیک اپ کروانے پر پتا چلا کہ اسے برین ٹیومر ہے ۔۔۔
بہت رویا تھا میں یہ بات جان کر کہ وہ مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی
بہت محبت کرتا تھا میں تمھاری ماما سے اور آج بھی کرتا ہوں
اپنی آخری سانس تک اس سے محبت کرتا رہوں گا
میں نے بہت اسکا علاج کروایا لیکن وہ صحت یاب نا ہوسکی اور ہمیں چھوڑ کر چلی گئی
حیدر صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے
اور ان کے چہرے کو بھگو رہے تھے
پاپا ۔۔۔۔ اس نے روتے ہوئے ان کے آنسو صاف کیے اور ان کے گلے لگ گئی
کافی دیر وہ ان کے گلے لگی روتی رہی اور حیدر صاحب بھی اپنے ماضی
کو یاد کرتے ہوئے اپنے آنسو کو روک نہیں پا رہے تھے
بس اور نہیں روئے گی میری پرنسز ۔۔۔۔۔ حیدر صاحب
نے اس کے آنسو صاف کیے اور اسکی پیشانی چومی
آپ بھی نہیں روئیں گے پاپا ۔۔۔۔۔۔
اس نے بھی حیدر صاحب کا چہرہ صاف کیا
آگے کیا ہوا تھا پاپا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
تمھاری ماما کے جانے کے بعد میں نے اور تمھاری نانی نے بہت مشکل سے تمھیں سنبھالا تھا
ہم خود بھی بہت دکھی تھے لیکن تمھاری خاطر ہمیں اپنے آپ کو سنبھالنا پڑا
پھر تمھاری نانی بھی ہمیں چھوڑ کر تمھارے نانا اور ماما کے پاس چلی گئیں
پھر میں اور ہی ایک دوسرے کا واحد سہارا بچے تھے
میں نے بزنس کو اور تمھیں ایک ساتھ سنبھالا
تم ہی اب میرے جینے کا واحد سہارا ہو ۔۔۔۔۔۔ میری جان ہے میری پرنسز
اب میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنا بزنس پاکستان شفٹ کر لیں اور تمھارے دادا اور
دادی سے جا کر ملیں
شاید وہ مجھے اب ہی معاف کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔؟
ان کی آواز میں اسے ایک امید محسوس ہوئی اپنے بابا کے معاف کرنے دینے
کی امید
ٹھیک ہے پاپا جیسے آپ کی مرضی ۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنا سر ان کے کندھے
پر ٹکا دیا
اچھا پاپا اب اپنا موڈ ٹھیک کریں ہمیں حیا کی شادی پر بھی جانا ہے
وہ ان سے بولی
ٹھیک ہے بیٹا آپ ریڈی ہو جاو میں بھی تیار ہونے جاتا ہوں اپنے روم میں
پھر چلتے ہیں
وہ اس سے کہتے ہوئے اپنے روم میں چلے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب کروا رہے ہیں پھر میری شادی دیا کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ آج پھر ان کے سامنے موجود تھا
صفیہ خاتون نے اس کو بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ
اپنی بات پر اَڑ گیا تھا
پوتا تو وہ بھی دار جی کا ہی تھا کیسے اپنی بات سے پیچھے ہٹ جاتا
تمھارے دماغ سے یہ اسکا بھوت اتر نہیں اب تک ۔۔۔۔
دار جی سمجھ رہے تھے کافی دن ہو گئے ہیں اس نے اس دن کے بعد مجھ سے اپنی
شادی کی بات نہیں کی لگتا ہے اسے عقل آ گئی ہے
پر جہاں تو ابھی بھی اپنی ضد پر قائم تھا
آپ میری اس سے شادی کروا رہے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔۔ شاہ نے ان سے پوچھا
نہیں کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔ جو کرنا ہے کر لو ۔۔۔۔ دار جی غصے سے بولے
ٹھیک ہے پھر میں بھی دیا سے کل ہی آپ کو نکاح کر کے دکھاوں
گا اور اسے اپنی بیوی بنا کر آپ کے سامنے لے کر آوں
گا ۔۔۔۔۔۔ شاہ کا لہجہ اٹل تھا
تم یہ کس لہجے میں مجھ سے بات کر رہے ہو ۔۔۔ اور تمھاری ہمت کیسے ہوئی
میری بات سے انکار کرنے کی
میں تم سے بڑا ہوں تم نہیں سمجھے ۔۔۔۔۔
دار جی غصے سے بول رہے تھے
سوری اگر آپ کو برا لگو تو پر میں دیا سے شادی کر کے ہی رہوں گا
مجھے دنیا کی کوئی بھی طاقت اس سے شادی کرنے
سے نہیں روک سکتی دار جی آپ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔
اگر تم نے ایسا کیا تو میں تم سے ہر تعلق توڑ دوں گا ۔۔۔۔۔ دار جی نے اسے دھمکی
دی
آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے آپ مجھے خود سے دور نہیں
کر سکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ پر یقین لہجے میں بول رہا تھا
صحیح کہہ رہے ہو تم میں تمھیں خود سے دور نہیں کر سکتا تم میں میری جان بستی
ہے ۔۔۔۔ دار جی ہارے ہوئے لہجے میں گویا ہوئے
پر اگر تم نے اس سے شادی کی تو میں تم سے بات نہیں کروں گا شاہ ۔۔۔۔۔
ہمیشہ کے لیے ناراض ہو جاوں گا ۔۔۔۔۔
دار جی مان جائیں نا وہ میری محبت ہے مجھے میری محبت دے دیں پھر آپ جو کہیں گے میں وہی کروں گا
شاہ گھٹنوں کے بل ان کے سامنے بیٹھ گیا اور ان کے دونوں ہاتھ تھام کر ان کی منت کی
دار جی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے
ٹھیک ہے تم خاموشی سے اس سے اس سنڈے نکاح کر لو
اور اسے ہمارے فارم ہاوس
پر ہی رکھنا کسی کو پتا نا چلے کہ تم نے اس سے شادی کر لی ہے
اور وقت آنے پر میں تمھیں بھی میری ایک بات ماننا پڑے گے
اگر تمھیں یہ باتیں منظور ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ تم جا سکتے ہو ۔۔۔۔۔
دار جی اٹل لہجے میں گویا ہوئے
ٹھیک ہے مجھے آپ کی ہر بات منظور ہے ۔۔۔۔ شاہ نے خوشی سے
ان کے دونوں ہاتھوں پر بوسا دیا
اور ہاں اپنی وزارت پر بھی دھیان دو ۔۔۔۔۔
دار جی کے کہنے پر اس نے ہاں میں
سر ہلایا
اور ان کے روم سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جیسے ہی دار جی کے روم سے نکل کر لاونج میں آیا
تو دیا کو صفیہ خاتون کے پاس بیٹھا پایا
صفیہ خاتون اس سے کوئی بات کر رہی تھیں شاہ کو آتا دیکھ خاموش ہو گئیں
اسلام علیکم دادو ۔۔۔۔۔۔ شاہ ان کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا
اور دیا کو دیکھا جو ہمیشہ کی طرح اپنا سر جھکائے اس کے سامنے کھڑی تھی
وعلیکم اسلام بیٹا ۔۔۔۔۔ انہوں نے اس کے سر پر
پیار سے ہاتھ پھیرا
دیا تم کافی بنا کر میرے روم میں دے جانا ۔۔۔۔۔ شاہ کے حکم پر
وہ سر ہلاتی ہوئی وہاں سے کچن میں چلی گئی
اور سناو بیٹا کیسا جا رہا ہے تمھارا کام بیٹا ۔۔۔۔۔ انہوں نے اس سے
پوچھا
اچھا جا رہا ہے دادو ۔۔۔۔۔۔ بہت مصروفت چل رہی ہے آج کل
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
کیا بات ہے میرا پوتا آج بہت خوش دیکھائی دے رہا ہے
انہوں نے اس سے مسکراتے ہوئے خوشی کی وجہ پوچھی
شاہ کے چہرے سے اسکی خوشی واضع دکھائی دے رہی تھی
دادو دار ی مان گئے میری دیا کے ساتھ شادی پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سنڈے میرا نکاح ہے دیا کے ساتھ
شاہ نے اپنی خوشی کی وجہ انہیں بتائی
یہ تو اچھی بات ہے بہت بہت مبارک ہو بیٹا ۔۔۔۔۔ ان کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ دار جی کیسے مان گئے
اسکی شادی کے لیے وہ تو اپنے اصولوں کے معاملے
میں بہت سخت ہیں
آپ کو بھی مبارک ہو دادو ۔۔۔اوکے میں اب اپنے روم میں جا رہا ہوں صبح مجھے اسلام آباد کے لیے بھی نکلنا ہے ۔۔۔۔ شاہ ان سے کہتا ہوا وہاں
سے جانے لگا تھا کہ ان کے سوال نے شاہ کے قدم روک دیئے
دیا سے بات کی تم نے اس سے اسکی مرضی جانی ۔۔۔۔۔۔
صفیہ خاتون نے اس سے پوچھا
نہیں دادو ۔۔۔۔ لیکن جب وہ کافی دینے میرے روم میں آئے گی تو میں اس
سے پوچھ لوں گا
اسے ماننا ہی ہو گا اگر وہ نا بھی مانی تو میں پھر بھی اسی سے شادی کروں گا
چاہے اسکی مرضی ہو یا نا ہو ۔۔۔۔۔۔
اس کی شادی مجھ سے ہی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔
آپ کرمو چاچا سے بات کر لیجئے گا اور ماما پاپا کو بھی بتا دیجئے گا ۔۔۔۔۔۔
شاہ ان سے کہتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا
اور اپنے پیچھے صفیہ خاتون کے لیے سوچوں کا ایک جہان چھوڑ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 5
اسلام علیکم ماں جی کیسی ہیں آپ ۔۔۔۔۔
سکندر صاحب نے ان سے پوچھا
میں ٹھیک ہوں بیٹا تم سناو کیسے ہو اور میری بہو کیسی ہے
میں بھی ٹھیک ہوں ماں جی اور زینب بھی ٹھیک ہے آپ سنائیں دار جی کیسے ہیں
اور شاہ تو آپ کے پاس ہی آیا ہو گا آج ۔۔۔۔۔ ؟
ہاں شاہ ہمارے پاس ہی ہے اور تمھارے دار جی بلکل ٹھیک ہیں
مجھے تم سے اور زینب سے ایک بات کرنی ہے زینب تمھارے پاس
ہی ہے نا ۔۔۔۔۔۔
جی ماں جی وہ میرے پاس ہی ہے میں نے موبائیل کا سپیکر اون کر دیا ہے جو بھی بات کرنی ہے کریں ہم سن رہے ہیں
صفیہ خاتون نے شاہ ساری بات ان کو بتا دی
شاہ کا دیا سے شادی کرنے کا کہنا دار جی غصہ کرنا پھر دار جی کا مان جانا
اور اس سنڈے شاہ کا نکاح ہونا
سب سے انہیں آگاہ کر دیا
ماں جی اتنا کچھ ہو گیا اور ہمیں اب پتا چل رہا ہے اور شاہ کی مت ماری گئی ہے جو دیا
سے شادی کر رہا ہے دنیا کی اور ساری لڑکیاں
کیا ختم ہو گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ زینب بیگم ابھی تک شاک میں تھیں
کہ شاہ ایسا بھی کر سکتا ہے
ان کا فرمابردار بیٹا جس نے آج تک خوبصورت سے خوبصورت لڑکی کو آنکھ
اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا
کتنی ہی لڑکیاں شاہ کی پرسنیلٹی کی وجہ سے اس پر لٹو تھیں لیکن شاہ نے کبھی
بھی کسی کو گھاس نہیں ڈالا
وہی شاہ ایک ایسی لڑکی پر مر مٹا جو شکل و صورت میں کچھ بھی نا تھی جو رات کی تاریکی جیسی تھی
میں کیا کہہ سکتی ہوں بیٹا اب شاہ کی مرضی پر ہی یہ ہو رہا ہے
وہ تو ہماری بات تک سننے کو تیار نہیں اپنی بات پر اَڑا ہوا ہے
صفیہ خاتون بولیں
دار جی کیسے مان گئے میں تو اس بات پر حیران ہوں ماں جی ۔۔۔۔۔
سکندر صاحب نے حیرانی کا اظہار کیا
وہ شاہ سے بہت محبت کرتے ہیں اور شاہ کی ضدی فطرت اور غصے سے بھی واقف ہیں وہ اس عمر میں شاہ کو نہیں کھونا چاہتے ہوں
گے اس لیے مان گئے ہوں گے آخر کو شاہ ان کی جان ہے
صفیہ خاتون گویا ہوئیں
اچھا ماں جی ہم وقت ملتے ہی حیویلی آ جائیں گے ۔۔۔۔ سکندر صاحب نے کہا
ٹھیک ہے بیٹا اللہ حافظ میں اب اپنے کمرے مٰن جا رہی ہوں سونے
تم لوگ بھی آرام کرو ۔۔۔۔۔۔
اللہ حافظ ماں جی ۔۔۔۔۔۔ سکندر صاحب نے فون بند کر دیا
سکندر یہ شاہ کو کیا ہو گیا ہے کیوں کر رہا ہے وہ دیا سے شادی وہ کوئی حور تو ہے نہیں
جس کے پیچھے وہ دار جی سے بھی لڑ گیا
زینب بیگم ان سے مخاطب تھیں
سنا نہیں تم نے زینب ماں جی نے بولا تھا کہ شاہ اس سے محبت کرتا ہے
محبت یہ نہیں دیکھتی کہ محبوب خوبصورت ہے یا نہیں
محبوب تو محبوب ہوتا ہے چاہے جیسا بھی ہو ۔۔۔۔۔۔
اب ہم کیا کر سکتے ہیں اگر شاہ کو اس سے محبت ہو گئی ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر صاحب بولے
شاہ کی محبت دیکھ کر مجھے اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ
محبت اندھی ہوتی ہے
شاہ کو پتا نہیں اس میں کیا نظر آیا
چلو جیسے اسکی مرضی ہمیں تو اس کی خوشی عزیز ہے پر سکندر لوگ کیا کہیں گے
کہ ہماری بہو ۔۔۔۔۔۔۔ زینب بیگم نے اپنی
بات ادھوری چھوڑ دی
لوگوں کا تو کام ہے باتیں بنانا ہمیں اپنے بیٹے کی خوشی عزیز ہونی چاہے
سکندر صاحب نے انہیں سمجھایا
ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ہاں میں سر ہلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا نے شاہ کے روم کے دروازے پر ناک کیا
آجاو ۔۔۔۔۔ شاہ کے کہنے پر وہ اندر داخل ہو گئی
شاہ جو صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اس کو دیکھ کر اسکے مقابل آ کھڑا ہوا
دیا نے کافی کا کپ اسکی طرف بڑھایا تو شاہ نے کپ پکڑ کر میز پر رکھ دیا
دیا جو جانے کے لیے مڑنے ہی لگی تھی
شاہ نے اسکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ کی گرفت میں لیتے ہوئے
جانے سے باز رکھا
مجھ سے شادی کرو گی ۔۔۔ دیا کے اسکی طرف دیکھنے پر شاہ نے ڈریکٹ اپنی
بات اس کے سامنے رکھی
آں ۔۔۔۔ دیا بولی اور سوالیہ نظروں سے شاہ کی طرف دیکھا
دیا کو لگا شاید اسے سننے میں غلطی لگی ہے
دیا صرف '' آں '' بول سکتی تھی اسکے علاوہ وہ ایک بھی لطظ بھی نہیں بول سکتی تھی
میں نے کہا مجھ سے شادی کرو گی ۔۔۔۔۔ شاہ نے اپنی بات دہرائی
دیا آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی
کہ کہیں صاحب جی پاگل تو نہیں ہو گئے جو اس طرح کی بات کر رہے ہیں
دیا کو ابھی بھی لگ رہا تھا کہ اسے ہی سننے میں غلط فہمی
ہو رہی ہے
وہ چپ چاپ شاہ کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت بہت سنجیدہ دیکھائی دے رہا تھا
میری بات کا جواب دو دیا کرو گی مجھ سے شادی ۔۔۔۔۔
دیا کا ہاتھ ابھی بھی شاہ کے ہاتھ میں تھا
دیا نے شاہ کی طرف اشارہ کیا پھر اپنی کنپٹی کے پاس اپنی انگلی گھمائی
شاہ اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا اس لیے اس کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی
ہاں میں پاگل ہو گیا ہوں ۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکی بات کی تصدیق کی
لیکن تمھارے عشق میں ۔۔۔۔۔
دیا نے پہلے اپنے سینے پر انگلی رکھی پھر اپنی انگلی اپنے چہرے کے گرد گھمائی
مجھے اس سے تمھاری شکل و صورت سے کوئی فرق نہیں پڑتا
نا ہی تمھارے رنگ سے ۔۔۔۔۔۔
شاہ اسکا اشارہ سمجھتے ہوئے بولا
اب بتاو کرو گی مجھ سے شادی ۔۔۔۔۔۔۔
دیا نے نا میں سر ہلایا اور اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھوڑوانا چاہا
پر شاہ ایسا کرنے کے لیے راضی نہیں تھا
تم مانو یا نا مانو اس سنڈے کو ہمارا نکاح ہے یہ بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو ۔۔۔
شاہ دو ٹوک لہجے میں بولا
دیا زور شور سے نفی میں سر ہلا رہی تھی اور اسکی بات کی نفی کر رہی تھی
ہماری شادی ہو گی چاہے اس میں تمھاری مرضی ہو یا نا ہو اب جاو تم
شاہ نے اسکا ہاتھ آزاد کر دیا
دیا روتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
شاہ کو بہت دکھ ہوا اسکی وجہ سے دیا کی آنکھوں میں آنسو جو آ گئے تھے
پر اس کو حاصل کرنا اس کے لیے بہت ضروری تھا
تم میری ہو میں تمھیں اپنی بنا کے ہی دم لوں گا چاہے تم خوش ہو یا دکھی اس شادی
سے تم صرف میری ہو صرف میری ۔۔۔۔۔
شاہ اسکے جانے کے بعد اس سے دل میں مخاطب تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واوووووو ۔۔۔۔۔۔۔ پاپا بہت اچھا آفس بنایا ہے آپ نے
وہ ان کا آفس دیکھتے ہوئے خوشی سے چہک رہی تھی
یہ میرا نہیں میری پرنسز کا آفس ہے ۔۔۔۔۔ حیدر صاحب نے اسے
اپنے ساتھ لگایا
میرا آفس پاپا ۔۔۔۔۔۔ اس نے حیرانی سے پوچھا
جی پاپا کی جان آپ کا آفس اب میری پرنسز یہاں کا سارا کام سنبھالے گی اور میں ریسٹ کروں گا
وہ مسکراتے ہوئے بولے
اٹس ناٹ فئیر پاپا ۔۔۔۔۔۔
چلیں روز نا صحیح لیکن ایک ویک میں دو بار کو انڈسری کا چکر لگانا پڑے گا
ورنہ میں نے نہیں سنبھالنا اسکو ۔۔۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے اپنی شرط بیان کی
ٹھیک ہے جیسے میری پرنسز کی مرضی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ مان گئے تھے
وہ اور حیدر صاحب اس وقت اپنے پاکستان میں موجود ان کی نئی بنائی ہوئی
انڈسڑی میں موجود تھے
وہ دونوں ایک ماہ پہلے پاکستان آ چکے تھے اور ان کی انڈسڑی بھی بن چکی تھی
حیدر صاحب نے سارا سٹاف اور ورکر بھی اپائنٹ کر لیے تھے
اور آج اپنی پرنسز کو اسکا آفس دکھانے لائے تھے
اگلے دن انہوں نے اپنی پرنسز کے ہاتھوں ہی انڈسڑی کا افتتاح کروایا تھا
انہوں نے اپنی انڈسڑی کا نام اپنی پرنسز کی فرمائش پر
''حیدر انڈسڑیز '' رکھا تھا
انہوں نے اسے سارے سٹاف سے اسے ملوایا اور ساری انڈسڑی کا راونڈ بھی لگوایا
وہ اپنی سیٹ سنبھال چکی تھی اور اپنی عقل مندی کی وجہ سے
بہت اچھے اور بڑے کنڑیکٹ بھی حاصل کر چکی تھی
اسی خوشی میں حیدر صاحب نے سارے سٹاف اور ورکرز کو ایک دن کا لنچ
فری دیا تھا
ان کو کراچی آئے ہوئے ایک سال ہو گیا تھا ان کا کاروبار بہت ترقی کر رہا تھا
ان کی پرنسز کی ذہانت کی وجہ سے
سارا کام ان کی پرنسز نے ہی سنبھالا ہوا تھا وہ کبھی کبھی ہی جایا کرتے تھے
آفس ورنہ زیادہ تر گھر ہی رہتے تھے
کیونکہ ان کی طبیعت آج کل ٹھیک نہیں رہتی تھی حیدر صاحب کو ہائی بلیڈ پریشر
اور ہارٹ کا پروبلم تھا
اس لیے وہ ان کو گھر سے کم ہی نکلنے دیتی تھی
ان کی پرنسز نے ایک نرس کا انتظام ان کے لیے کیا ہوا تھا جو اسکی غیر موجودگی
میں ان کا خیال رکھتی تھی
وہ بہت خوش تھے اپنی بیٹی کی اپنے لیے اتنی محبت دیکھ کر اور اسکو دن دگنی
اور رات چگنی ترقی کرتا دیکھ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دن بھی آگیا جب شاہ کا نکاح ہونا تھا دیا کے ساتھ
دیا بار بار انکار کر رہی تھی اس شادی کے لیے
یہ بات شاہ تک بھی پہنچ چکی تھی لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں تھی اس بات کی کہ دیا
اس شادی سے راضی ہے یا نہیں
شاہ کے ماما ، پاپا ، دار جی دادو اور کرمو چاچا انکی بیوی بیٹا بیٹی سب فارم ہاوس
پر موجود تھے
دیا جانے کے لیے تیار نہیں تھی شاہ اسے زبردستی اٹھا کر گاڑی میں ڈال کر فارم
ہاوس لے آیا
جہاں باقی سب نکاح خواہ کے ساتھ پہلے سے موجود تھے
ان گنے چنے لوگوں کے سواہ کوئی نہین جانتا تھا کہ شاہ کا نکاح ہو رہا ہے
دار جی نے سب کو سختی سے منع کیا تھا کہ کسی کو شاہ کی شادی کی خبر نا ہو
شاہ نکاح نامے پر سائن کر چکا تھا
اب دیا کی باری تھی
جب نکاح خواہ نے اس سے پوچھا تو اسے نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا
شاہ کو جب یہ بات پتا چلی تو وہ دندناتا ہوا اس کمرے میں آیا
جہاں دیا اسکی ماما ، دادو ، نوراں خالہ دار جی اور نکاح خواہ کے ساتھ موجود تھی
سائن کرو دیا ۔۔۔۔۔۔ شاہ اسکے سر کھڑا دھاڑا
دیا نے زخمی نظروں سے روتے ہوئے اسکی طرف دیکھا
وہ شاہ کے غصے سے بہت ڈرتی تھی اب بھی شاہ کو غصے میں دیکھ
کر وہ پوری جان سے لرز گئی تھی
وہ شاہ کے ڈر کی وجہ سے کانپ رہی تھی
سائن کرو ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ نے اپنی بات دہرائی
دیا نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ سائن کر دیئے
نکاح کے ہوتے ہی سب نے شاہ کو مبارک باد دی
کچھ دیر فارم ہاوس میں رکنے کے بعد سب حیویلی چلے گئے
سوائے دیا اور شاہ کے وہ دونوں فارم ہاوس میں ہی موجود تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم پاپا ۔۔۔۔
وہ آفس سے آتے ان کے گلے لگ گئی
وعلیکم اسلام میری جان ۔۔۔۔۔۔ حیدر صاحب مسکراتے ہوئے بولے
کیسا گزارا آج کا دب میری پرنسز کا ۔۔۔۔۔۔۔
اچھا گزرا پاپا مجھے ایک بہت بڑی ڈیل ملی ہے ۔۔۔۔۔
وہ خوشی سے چہک رہی تھی
بہت بہت مبارک ہو بیٹا ۔۔۔۔ انہوں نے اسکی پیشانی چومی
میں سوچ رہا تھا کل سنڈے ہے کیوں نا ہم دونوں بابا جان اور ماں جی کے پاس
جائیں ۔۔۔۔
جیسے آپ کی مرضی پاپا ہم ضرور چلیں گے مجھے بھی بہت شوق ہے دادا
اور دادی سے ملنے کا ۔۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی
اچھا پاپا چلیں ڈنر کریں مجھے بہت بھوک لگی ہے
وہ ان کو ساتھ لیے ڈائنگ ٹیبل پر آ گئی جہاں ملازمہ کھانا لگا چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا ۔۔۔۔۔۔ شاہ نے اسے پکارا
جوسر جھکائے زمین پر بیٹھی تھی اور رونے میں مشغول تھی شاہ ابھی سب کے جانے کے بعد اس روم میں آیا تھا جہاں دیا موجود تھی
شاہ بھی اسکے سامنے زمین پر بیٹھ گیا
دیا ۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
دیا کے رونے میں کمی نا آئی اور چہرہ جھکائے بیٹھی رہی تھی

دیا رو تو نا سوری جو کیا میں نے تمھارے ساتھ تمھاری مرضی کے بغیر
تم سے شادی کی اس کے لیے مجھے معاف کر دو
شاہ جو کبھی کسی کے سامنے جھکا نہیں تھا کسی سے سوری تک نا کہا تھا
اور نا ہی کبھی زمین پر بیٹھا تھا
آج اس عام سی لڑکی جو اسکی محبت تھی جس کی آنکھوں سے اسے عشق تھا
اسکے لیے زمین پر بیٹھا تھا اس سے معافی مانگ رہا تھا
صحیح کہتے ہیں محبت بڑے بڑے کو بدل دیتی ہے پھر شاہ کیا تھا محبت کے سامنے
وہ بھی ہار گیا تھا اپنی محبت کے ہاتھوں اپنے دل کے ہاتھوں
تم بھی سوچ رہی ہو گی کس پاگل سے پالا پڑ گیا ہے ۔۔۔۔۔
شاہ نم آنکھوں سے اسکے جھکے چہرے کی طرف
دیکھ کر مسکر ایا تھا
دیا کا رونا شاہ کو تکلیف دے رہا تھا کب خود اسکی آنکھوں سے آنسو نکلے اسے پتا
ہی نا چل سکا
مجھے کئی سالوں سے ہر روز تمھاری یہ بلورین آنکھیں خواب میں دکھائی
دیتی تھیں
شروع شروع میں تو مجھے اس خواب پر بہت غصہ آتا تھا
کہ یہ کیا کیوں دو آنکھیں مجھے خواب میں دکھائی دیتی ہیں اور مجھے تنگ کرتی ہیں
پھر میں ان آنکھوں کو سوچنے لگا
آہستہ آہستہ مجھے تمھاری آنکھوں کو خواب میں دیکھنے کی عادت ہو گئی اور کب میری یہ عادت پیار سے عشق میں بدلی مجھے پتا ہی نا چلا
شاہ کی بات سن کر دیا نے رونے کی وجہ سے
لال ہوئی اپنی بلورین آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا
شاہ اسکی آنکھوں میں واضع حیرانی کے جذبات کو دیکھ سکتا تھا
دیا کی آنکھوں میں سوال تھا کہ کیا شاہ سچ کہہ رہا ہے
شاہ اس کی آنکھوں کی زبان سمجھ گیا تھا
ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں مجھے تمھاری اب دو آنکھوں سے عشق ہے شاہ نے اسکی آنکھوں کو اپنی انگلیوں سے چھوا
پھر میں نے تمھیں دیکھا تم مجھے بلکل بھی اچھی نہیں لگی تھی
پھر ایک دن میں نے تمھاری ان آنکھوں کو دیکھا ۔۔۔۔
شاہ نے اسکی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا
تمھاری یہ آنکھیں بلکل ان آنکھوں جیسی تھیں جو میں خوابوں میں دیکھتا تھا
بلکل وہی آنکھیں جن کا میں دیوانہ تھا
وہی آنکھیں جن کو اگر میں خواب میں نا دیکھتا تو مجھے چین نا آتا تھا
جس کی آنکھوں سے مجھے عشق تھا وہ بھلا مجھے عزیز کیوں نا ہوتی
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم خوبصورت نہیں ہوں تمھارے دانت ٹھیک نہیں ہیں
تم خوبصورت نہیں دیکھتی ہو مجھے تو بس تم اور تمھارا ساتھ چاہیئے ہو ۔۔۔۔
تم آج سے میری بیوی ہو اور مجھے تمھیں سب کے سامنے اپنی
بیوی کہنے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے
شاہ نے اپنا دل کھول کر اسکے سامنے رکھ دیا
وہ ابھی بھی بے یقینی سے شاہ کو دیکھ رہی تھی
یقین کر لو میری جان یہی سچ ہے ۔۔۔۔۔۔
شاہ لو دیتے لہجے میں کہتا ہوا اسکی آنکھوں پر جھک کر اسکی آنکھوں کو اپنے لبوں
سے چھونے لگا ہی تھا
کہ دیا نفی میں سر ہلاتی ہوئی پیچھے کو کھسکنے لگی
شاہ اسکی آنکھوں میں موجود التجا کو سمجھ گیا تھا
اس لیے اٹھ کھڑا ہوا
اس کو کھڑا ہوتا دیکھ دیا بھی کھڑی ہو گئی
جب تک تم نہیں چاہوں گی میں تمھیں ہاتھ بھی نہیں لگاوں گا ۔۔۔۔۔
اس لیے تم ٹینشن نا لو
اور رونا بند کر دو تمھارا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے
پلیز مجھے معاف کردو مجھے تمھاری مرضی سے تم سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی
پر میں بھی کیا کرتا تم مان ہی نہیں رہی تھی
میں تمھیں کھونا نہیں چاہتا تھا اس لیے مجھے یہ کرنا پڑا
پلیز معاف کر دو ۔۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے اسکے سامنے ہاتھ
جوڑ دئیے
شاہ کی آنکھیں نم تھیں
دیا نے ہاں میں سر ہلایا
تم نے مجھے معاف کردیا ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ کے پوچھنے پر دیا نے ہاں میں سر ہلایا
تھینک یو ویری مچ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ اسکے معاف کرنے پر خوش
ہو گیا تھا
اچھا اب تم سو جاو میں دوسرے روم میں جا رہا ہوں ڈر تو نہیں لگے گا نا
میں چلا جاوں ۔۔۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا
تو دیا نے ہاں سر ہلایا
مطلب چلا جاوں ۔۔۔۔۔۔۔
دیا نے پھر سے ہاں میں سر ہلایا
ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔ شاہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور دروازے کی طرف بڑھ گیا
شاہ دروازے کے پاس جا کر مڑا
ویسے عجیب ہی شادی ہوئی ہے میری نا میری بیوی خوش ہے اس شادی سے
نا ہی وہ دلہن کی طرح تیار ہوئی اور نا ہی میں دلہے کی طرح
تیار ہوا ہوں
نا میں بارات لے کر آیا اور نا ہی تمھیں رخصت کر کے لایا
الٹا اپنی دلہن کو زبردستی اٹھا کر لایا ہوں
اور اوپر سے میری ظالم بیوی نے مجھے روم سے بھی نکال دیا ہے ۔۔۔۔۔
شاہ شوخ لہجے میں گویا ہوا
اور دیا کو آخری بار دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے دوسرے روم میں چلا
گیا
اس کے جانے کے بعد دیا بیڈ پر گر گئی اور جو کچھ اس کے ساتھ
ہوا تھا اس سب کے بارے میں سوچنے لگی
سوچتے سوچتے ہی اسکی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 6
پاپا جہاں رہتے ہیں دادااور دادی ۔۔۔۔۔۔
ہاں میری پرنسز یہیں رہتے ہیں وہ دونوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
واووو ۔۔۔۔۔۔پاپا بہت پیاری جگہ ہے میں نے نہیں دیکھی ایسی جگہ کبھی
وہ خوشی کا اظہار کر رہی تھی
وہ اور حیدر صاحب ان کے والدین کے پاس جا رہے تھے
ان کی پرنسز پہلی بار پاکستان آئی تھی اس کے لیے یہ سب نیا تھا
وہ بہت خوش تھی پاکستان آ کر ۔۔۔۔۔۔
چلو بیٹا ہم پہنچ گئے ۔۔۔۔۔ حیدر صاحب اسکو اپنے ساتھ لیے گاڑی سے باہر
آ گئے اور گیٹ پر بیل دی
چوکیدار نے گیٹ کھولا
جی کس سے ملنا ہے آپ کو ۔۔۔۔۔۔ چوکیدار نے ان سے پوچھا
حیدر صاحب نے اپنا نام بتایا اور اپنا تعارف کروایا
اور اپنے بابا کا نام لیا کہ ان سے ملنا ہے
چوکیدار نے انہیں اندر جانے دیا
وہ اپنی پرنسز کو ساتھ لیے اندر آگئے
کتنی ہی یادیں ان کی نکھوں کے سامنے لہرا گئیں
ان کو اپنے بچپن اور جوانی کے وہ دن یاد آ گئے جو انہوں نے یہاں گزارے تھے
جیسے ہی وہ اپنی پرنسز کے ساتھ لاونج میں پہنچے تو
انہوں نے اپنے بابا کان اور ماں جی کو وہاں بیٹھا پایا
تم یہاں ۔۔۔۔۔۔ حیدر صاحب کے بابا جان غصے سے انہیں دیکھ رہے تھے
جبکہ ان کی ماں جی آنکھوں میں آنسو لیے انہیں دیکھ
رہی تھیں
اسلام علیکم باباجان ۔۔۔۔۔ انہوں نے سلام کیا
تم نکلو یہاں سے تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی جہاں آنے کی ۔۔۔۔۔۔۔
بابا پلیز معاف کر دیں مجھے ۔۔۔۔۔۔ حیدر صاحب نے ان
کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے
میری بات سنی نہیں تم نے نکلو یہاں سے ۔۔۔۔۔ ان کے بابا جان دھاڑے
بابا ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے روتے ہوئے اپنے بابا کو پکارا
جو ان کی طرف سے منہ موڑ چکے تھے
ماں جی ۔۔۔۔۔ حیدر صاحب اپنی ماں جی کی طرف بڑھے
رک جائیں بیگم اگر آپ اس سے ملی تو میں آپ سے ہر تعلق توڑ دوں
گا ۔۔۔۔
حیدر صاحب کے بابا نے ان کی ماں جی دھمکی دی
جس کی وجہ سے وہ رک گئی حیدر صاحب کی طرف بڑھنے سے
اور حیدر صاحب نے بھی اپنی ماں جی کی طرف بڑھتے قدم روک لیے تھے
آپ پلیز پاپا کو معاف کر دیں ۔۔۔۔۔۔ انکی پرنسز جو کافی دیر
سے اپنے پاپا کو روتا ہوا اور ان کے سامنے گڑگڑاتا ہوا دیکھ رہی تھی
اس نے اپنے پاپا کی سفارش کی
اسکی آواز پر حیدر صاحب کے بابا نے اسکی آواز پر مڑ کر اس کی طرف دیکھا
انہوں نے وہاں ایک پری چہرہ لڑکی جس نے بلو جینز کے ٹائٹس کے ساتھ
رائیل بلو گھٹنوں تک آتا فراک اور ڈوپٹے کو گلے میں ڈالا ہوا
تھا اور بالوں کو پونی ٹیل میں قید کیے کو کھڑے پایا
تم کون ہو ۔۔۔ انہوں نے اس سے پوچھا
بابا یہ میری بیٹی اور آپ کی پوتی ہے ۔۔۔۔۔ حیدر صاحب بولے
میری کوئی پوتی نہیں ہے اور نا ہی میرا کوئی بیٹا ہے تم میرے لیے اسی دن
مر گئے تھے جس دن تم نے میرے اصولوں کی خلاف جا
کر اپنی مرضی سے اسکی ماں سے شادی کی تھی
اس لیے میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نا ہی تمھاری بیٹی سے
تمھارے لیے یہی بہتر ہو گا کہ خود ہی یہاں سے چلے جاو ورنہ میں گارڈز کو بلا
کر تمھیں دھکے دے کر نکالوں گا ۔۔۔۔۔۔
ان کے بابا کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی وہ ان پر گرج رہے تھے
بابا معاف کر دیں نا میں تو آپ کا لاڈلا بیٹا ہوں پلیز معاف
کر دیں مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر صاحب ان کے پیروں میں بیٹھ گئے اور ان کے پاوں پکڑ لیے
وہ اپنے پاپا کو روتا ہوا اور اس حالت میں دیکھ کر رو
رہی تھی
حیدر صاحب کی والدہ بھی اپنے بیٹے کو روتا دیکھ زارو قطار رو رہی تھیں
بابا معاف کردیں ۔۔۔۔۔۔۔
وہ گڑ گڑا رہے تھے لیکن انکے بابا سنگدل تھے ان کا دل موم نا ہوا
انہوں نے اپنے پاوں انکے ہاتھ سے جھٹکے سے آزاد کیے
اور ان سے دور جا کھڑے ہوئے
میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گا اس لیے نکل جاو میرے گھر سے ۔۔۔۔
وہ ابھی بھی اپنے فیصلے پر قائم تھے
بابا معاف کردیں نا ۔۔۔۔۔ حیدر صاحب ابھی بھی معافی مانگ رہے تھے
گارڈز ۔۔۔۔۔۔ ان کے بابا کی گرج دار آواز میں دو گارڈز
دوڑے ہوئے آئے
جی حکم مالک ۔۔۔۔۔ گارڈز بولے
اسے باہر نکالو اور آئیندہ یہ گھر کے اندر داخل نا ہو ورنہ تمھاری خیر نہیں
انہوں نے گارڈز سے کہا
معاف کر دیں نا بیٹا ہے آپ کا ۔۔۔۔۔ ان کی ماں جی نے ان کے بابا سے سفارش
کی
نہیں ہے میرا بیٹا یہ ۔۔۔۔ گارڈز نکالو اسے یہاں سے فورا
گارڈز حیدر صاحب کی طرف بڑھے جو زمین پر بیٹھے رو رہے تھے اور اپنے بابا
اور ماں جی کو دیکھ رہے تھے
خبر دار جو میرے پاپا کو ہاتھ بھی لگایا تو ہاتھ تھوڑ دوں گی تم لوگوں کے
ان کی پرنسز گارڈز پر دھاڑی
گارڈز جو حیدر صاحب کے پاس جانے لگے تھے ویہیں رک گئے
وہ اپنے پاپا کے پاس گئی اور انہیں اٹھا کر کھڑا کیا
بہت سنگدل ہیں آپ میں نے آپ جیسا باپ کبھی نہیں دیکھا جسے اپنے
بیٹے کی بجائے اپنی انا اور اپنے
اصول پیارے ہیں اگر آپ کی وجہ سے میرے پاپا کو کچھ ہوا تو میں آپ کو چھوڑوں گی نہیں میں یہ بھول جاوں گی کہ میرا آپ سے
کیا رشتہ ہے میرے لیے میرے پاپا میرا سب کچھ ہیں
مجھے پتا ہوتا یہاں پاپا کے ساتھ یہ ہو گا تو میں کبھی بھی ان کو یہاں نہیں آ نے
دیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ غصے سے اپنے دادا کے سامنے ان سے بول رہی تھی
وہ اپنے پاپا کو وہاں سے لیے چلی گئی
راستے میں ہی حیدر صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی وہ انہیں فورا ہوسپٹل
لے آئی جہاں انہیں ایمرجنسی میں داخل کر لیا گیا
ڈاکڑ کیا ہوا ہے میرے پاپا کو ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے ڈاکڑ سے پوچھ رہی ہے
ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ان کی حالت بہت بری ہے ہم اپنی پوری کوشش کر
رہے ہیں آپ دعا کریں
ڈاکڑ اس سے کہتا ہوا یمرجنسی میں چلا گیا
پاپا ۔۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے ہوسپٹل کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھتی چلی گئی
اللہ میاں میرے پاپا کو ٹھیک کر دیں میرا تو ان کے سواہ کوئی بھی نہیں ہے
میرے پاپا کو نئی زندگی دے دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح دیا شاہ کے اٹھنے سے پہلے ہی اٹھ چکی تھی
اور نماز پڑھنے کے بعد کچن میں شاہ کے لیے ناشتا بنا رہی تھی
جب شاہ اسکو ڈھونڈتا ہوا کچن میں ہی آ گیا
تم جہاں ہو میں تمھیں تمھارے کمرے میں دیکھنے گیا تھا
اور تم یہاں پائی گئی ہو
دیا نے اسکی طرف ایک نظر دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی
تم ناشتا کیوں بنا رہی ہے ملازمہ ہے نا وہ ہی بنا دے گی
چلو باہر آو ۔۔۔۔۔ شاہ نے اس سے کہا
دیا نے نفی میں سر ہلایا
کہیں میری بیوی کا میرے لیے اپنے ہاتھ سے ناشتا بنانے کا دل تو نہیں کر
رہا ۔۔۔۔۔۔ شاہ شوخ ہوا
دیا کی طرف سے کوئی جواب نا آیا
چلو بنا لو ناشتا ویسے بھی مجھے تمھارے ہاتھ کے بنائے ہوئے کھانے بہت
پسند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ اس سے کہتا ہوا وہاں موجود ٹیبل کے گرد رکھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا
اور اسے کام کرتے دیکھنے لگا
دیا اسکی طرف پشت کیے اس کے لیے ناشتا بنا رہی تھی
کچھ دیر کے بعد اس نے پراٹھے اور قیمہ شاہ کے سامنے رکھا
واہ خوشبو تو بہت اچھی ہے ۔۔۔۔۔۔
بیٹھو تم بھی ۔۔۔۔۔ شاہ نے اسے کھڑا دیکھ اس سے کہا
دیا نے نا میں سر ہلایا
کہ وہ نہیں بیٹھے گی ۔۔۔۔۔۔
شاہ اپنی جگہ سے اٹھا اور دیا کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی ساتھ والی چیئر پر بیٹھا دیا
اور خود بھی بیٹھ گیا
شاہ نے ایک پلیٹ میں قیمہ نکالا
چلو کھاو دیا ۔۔۔۔
دیا ابھی بھی نفی میں سر ہلا رہی تھی
یار شوہر ہوں تمھارا کوئی تو میری بات مان لو ۔۔۔۔۔ شاہ نے مظلوم سا منہ بنایا
دیا نے کھانا شروع کر دیا
شاہ نے بھی اسکے ساتھ اسی پلیٹ میں کھانا شروع
کر دیا
اس کو اپنے ساتھ کھاتا دیکھ دیا نے کھانے سے ہاتھ روک لیا
شاہ نے اسکی طرف دیکھا جو اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی
کھاو کھانا کیوں چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔
اوہ سمجھ گیا میری وجہ سے نہیں کھا رہی ہو
اگر تم نے میرے ساتھ کھانا نا کھایا تو میں بھی نہیں کھاوں گا
شاہ نے منہ بنا لیا
دیا نے کھانا شروع کر دیا تو شاہ بھی مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ کھانے
لگ گیا
اچھا اب میں کام سے جا رہا ہوں رات تک آنے کی کوشش کروں گا
شاہ ناشتا کرنے کے بعد دیا سے بولا
دیا نے اسکی طرف دیکھا
کچھ کہنا چاہتی ہو دیا ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ کے پوچھنے پر دیا نے ہاں میں سر ہلا
جو کہنا ہے میرے ہاتھ پر اپنی انگلی سے لکھو میں سمجھ جاوں گا ۔۔۔۔۔
شاہ نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا
دیا نے کاپنتے ہوئے ہاتھ کے ساتھ اپنی ایک انگلی سے
اس کے ہاتھ پر ایک ایک کر کے لفظ
لکھنا شروع کر دیا
میں یہاں ہی رہوں گی کیا ۔۔۔۔؟
ابھی تو یہاں ہی رہنا پڑے گا کچھ عرصے بعد میں تمھیں اپنے ساتھ شہر میں اپنے
گھر میں رکھوں گا
کیا آپ میرے ساتھ اپنا رشتہ سب سے چھپا کر رکھیں گے ۔۔۔۔۔۔؟
دیا کی طرف سے ایک اور سوال کیا گیا
میں دار جی کو بہت جلد منا لوں گا پھر ساری دنیا کے سامنے اپنا اور تمھارا ولیمہ
بڑے شاندار طریقے سے کروں گا
اور سب کو بتاوں گا یہ ہے ہے میری بیوی میری محبت ۔۔۔۔۔
شاہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بول رہا تھا
دیا نے ہاں میں سر ہلایا
اچھا اللہ حافظ اب میں چلتا ہوں ۔۔۔۔۔ شاہ مسکراتا ہوا وہاں سے چلا
گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلیز اللہ میاں میرے پاپا کوٹھیک کر دیں ۔۔۔۔۔
میرے پاپا کو کچھ نا ہو پلیز ۔۔۔۔۔۔
وہ ہوسپٹل میں موجود پِرے روم میں سجدے میں جھکی اللہ کے سامنے
اپنے پاپا کی زندگی کے لیے گڑ گڑا رہی تھی
روتے روتے اسکی ہچکیاں بند گئی تھیں
وہاں موجود عورتیں اسکو ترحم بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں کئی
نے تو اسے تسلی دی
اور اس کی دعا پوری ہونے کی دعا کی
کافی دیر اللہ سے اپنے پاپا کی صحت یابی کی دعا کرنے کے بعد اب وہ ایمرجنسی روم
کے باہر موجود تھی
اور ڈاکڑ کے باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی
اس کی آنکھوں سے ابھی بھی اشک رواں دواں تھے
وہ دل میں اللہ سے ابھی بھی اپنے پاپا کی صحت یابی کی دعا مانگ رہی تھی
کافی دیر کے بعد ڈاکڑ باہر آیا
وہ لپک کر ڈاکڑ کے پاس گئی
کیسے ہیں میرے پاپا ڈاکڑ ۔۔۔۔۔
ان کو میجر ٹائپ کا ہارٹ اٹیک ہوا ہے
ہم نے اپنی پوری کوشش کی ہے لیکن ان کا بلڈ پریشر کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا
اگر ان کی یہی حالت رہی تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے
ڈاکڑ نے اسے وہ خبر دی جو اس کے لیے موت کے مترادف تھی
ڈاکڑ آپ کچھ بھی کر کے میرے پاپا کو بچا لیں پیسے کی فخر نا کیجیئے گا جتنا پیسا آپ
کہیں گے میں دینے کو تیار ہوں پلیز آپ ان کو بچا لیں
پلیز میرے پاپا کو ٹھیک کر دیں
وہ برستی آنکھوں کے ساتھ ڈاکڑ سے التجا کر رہی تھی
ہم اپنی پوری کوشش کریں گے باقی اللہ کی مرضی
ان کو ہوش آ گیا ہے آپ ان سے مل لیں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں
ڈاکڑ اس سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
وہ اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے ہوئے اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی روم
میں داخل ہوئی
ان کو اس حالت میں دیکھ کر اس کے رکے ہوئے آنسو پھر سے بہنے لگے
پاپا ۔۔۔۔۔ اس نے انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے انہیں پکارا
رو نہیں میری پرنسز تو بہت بہادر ہے نا ۔۔۔۔۔ وہ بہت آہستہ سے بول رہے
تھے جو بمشکل وہ سن پا رہی تھی
آپ کے بنا آپ کی پرنسز کچھ بھی نہیں ہے پاپا
آپ بس جلدی سے ٹھیک ہو جائیں اور میرے ساتھ گھر چلیں
میری بات سنو بیٹا میرے پاس اور ٹائم نہیں ہے
تم مجھ سے وعدہ کرو میرے بعد اپنا خیال رکھو گی خود کو کوئی نقصان نہیں پہنچاو
گی ۔۔۔۔۔ وہ اس سے وعدہ مانگ رہے تھے
نہیں آپ مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہے آپ میرے ساتھ ہی رہیں گے
وہ روتے ہوئے نفی میں سر ہلا رہی تھی
وعدہ کرو پرنسز ۔۔۔۔۔ ان کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ
رہے تھے
نہیں کروں گی وعدہ آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔
وہ ابھی بھی نفی میں سر ہلا رہی تھی
کیا چاہتی ہے میری پرنسز اس کے پاپا اس دکھ کے ساتھ اس دنیا سے جائیں
کہ ان کی پرنسز نے ان کی بات نہیں مانی
پاپا آپ ایسا تو نا کہیں آپ جو بھی کہیں گے میں وہ سب کرنے کو تیار ہوں
اس نے حیدر صاحب کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا لیا
تو پھر کرو وعدہ پرنسز تم خود کو ٹوٹنے نہیں دو گی خوش رہو گی اپنی زندگی جیو گی
میرے جانے کے بعد ۔۔۔۔۔۔
میں وعدہ کرتی ہوں پاپا ۔۔۔۔۔ وہ یہ کہتے ساتھ
ہی ان کے سینے پر سر رکھ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی
حیدر صاحب نے اس کی پیشانی چومی
کافی دیر بعد اس نے ان کے سینے سے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا
جو پرسکون سے آنکھیں بند کیے لیٹے ہوئے تھے
پاپا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے پکارنے پر انہوں نے کوئی جواب نا دیا
پاپا ۔۔۔۔۔اس نے حیدر صاحب کو ہلایا
پر پھر بھی انہوں نے آنکھیں نا کھولیں
پاپا ۔۔۔۔۔۔۔۔
پاپا ۔۔۔۔۔پلیز آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔۔ وہ چیخ رہی تھی
اور ان کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی
اس کی آواز یں سن کر ڈاکڑ دوڑا چلا آیا
دیکھیں نا ڈاکڑ یہ اٹھ نہیں رہے ۔۔۔۔
وہ ڈاکڑ سے روتے ہوئے کہہ رہی تھی
ڈاکڑ نے ان کی نبص چیک کی
آئم سوری ہی از نو مور ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں نا آپ چیک کریں ان کو کچھ نہیں ہوا یہ سو رہے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ پاگلوں کی طرح ڈاکڑ کو جھنجوڑ ہی تھی
پلیز مس ٹرائے ٹو انڈر سٹینڈ ہی از نو مور ۔۔۔۔۔
نہیں پاپا آپ آنکھیں کھولیں نا آپ مجھے اپنی پرنسز کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے
وہ اب حیدر صاحب کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے
ان کو جگا رہی تھی
پر وہ تو اللہ کے پاس چلے گئے وہ کہاں اٹھ سکتے تھے
وہ اپنی پرنسز کو چھوڑ کر اسکی ماما کے پاس چلے گئے تھے
روتے روتے وہ ہوش وحواس سے بیگانہ ہو گئی تھی
پاپا ۔۔۔۔۔۔ اٹھ جائیں نا
وہ ہوش میں آنے کے بعد ان کی میت کے پاس بیٹھی ان کو پکار رہی تھی
اس کی اجڑی ہوئی حالت دیکھ کر وہاں موجود ہر انسان کی آنکھ اشک بار ہو گئی تھی
حیدر صاحب کی میت کو ان کے یونیورسٹی کے دوست اسفند صاحب جو وکیل بھی تھے
حیدر صاحب کے گھر لے آئے تھے
اور ان کی پرنسز کو بھی لے آئے تھے گھر
گھر آنے کے کچھ دیر کے بعد اسے ہوش آ گیا تھا
وہ تب سے اپنے پاپا کی میت کے ساتھ جڑی بیٹھی تھی اور پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی
اسفند صاحب کی بیگم زرنور بیگم اس کے پاس بیٹھی اسے تسلی
دی رہی تھیں اسے سنبھال رہی تھیں
لیکن وہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی
کیسے وہ صبر کرتی کیسے سنبھل جاتی اسکی دنیا اس کے پاپا اسے چھوڑ کر جو چلے گئے
تھے
علی اسفند صاحب کا بیٹا اسے دکھ سے دیکھ رہا تھا
اسکو روتا دیکھ علی کی آنکھیں بھی نم ہو گئی تھیں اس کی حیدر صاحب سے بہت بن گئی تھی تھوڑے ہی دنوں میں
اس کو ان کے اس دنیا سے چلے جانے کا بہت دکھ تھا
کچھ دیر کے بعد حیدر صاحب کی میت کو اٹھا کر لے جانے لگے تو
حیدر ویلا پرنسز کی چیخوں سے گونج اٹھا
نہیں آپ سب کہاں لے کر جا رہے ہیں میرے پاپا کو
میرے پاپا کو میرے پاس رہنے دیں انہیں کہیں بھی نا لے کر جائیں
وہ ان کی میت سے لپٹ گئی تھی
اور اونچی آواز میں رو رہی تھی
زرنور بیگم اسے میت سے دور کر رہی تھیں
وہ بے ہوش ہو کر ان کی بانہوں میں جھول گئی
اس کو کچھ عورتوں کی مدد سے وہ اسکے کمرے تک لے کر آئیں
حیدر صاحب کی تدفین کے بعد اسفند صاحب اور علی زرنور بیگم کے پاس آئے
جو پرنسز کے پاس اس کے روم میں تھیں
کیسی ہے اب ہماری گڑیا ۔۔۔۔ اسفند صاحب نے زرنور بیگم سے اس کے بارے
میں پوچھا
اس وقت سے ہی بے ہوش ہے میں نے ڈاکڑ کو بھی چیک کروایا ہے
ڈاخر نے بولا ہے ٹینشن اور دکھ کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی ہے
ڈاکڑ نے نیند کا انجکشن دے دیا ہے صبح
تک اٹھ جائے گی پرنسز ۔۔۔۔۔ زرنور بیگم آنکھوں میں پیار سموئے اسے دیکھ
رہی تھیں
اللہ ہماری پرنسز کو ہمت اور صبر دے ۔۔۔۔۔
اور حیدر جنت میں جگہ دے اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے
اسفند صاحب نے دعا کی
آمین ۔۔۔۔ علی اور زرنور بیگم ایک ساتھ بولے
آپ اسکے پاس ہی رکیں ہم چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اسفند صاحب علی کو اپنے ساتھ
لیے وہاں سے چلے گئے
علی ، اسفند صاحب اور زرنور بیگم بھی اسے پرنسز ہی بولاتے تھے
ان سب کو وہ بہت عزیز تھی
اسفند صاحب اور زرنور بیگم تو اس کے دیوانے تھے ان کو تو اللہ نے بیٹی دے دی
تھی
ان کا صرف ایک ہی بیٹا علی تھا جس کا اپنا بزنس تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 7
دیا ۔۔۔۔
شاہ اسے فارم ہاوس میں واپس آتے ہی اسے آوازیں دے رہا تھا
شاہ کل کا گیا اگلے دن شام کو واپس آیا تھا
دیا کدھر ہے ۔۔۔۔۔ شاہ نے ملازمہ سے پوچھا
جی وہ اپنے روم میں ہیں
شاہ ملازمہ کے بتانے پر دیا کے روم کی طرف چل دیا
شاہ روم میں داخل ہوا تو دیا کو کھڑکی کے پاس باہر دیکھتے ہوئے پایا
دیا ۔۔۔۔ شاہ نے اس کے پاس جا کر اسے پکارا
لیکن دیا کی طرف سے کوئی جواب نا آیا
دیا اپنی ہی سوچوں میں گم تھی اسے شاہ کے موجودگی کا احساس ہی نا ہو سکا
دیا ۔۔۔۔ شاہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ
رکھا تو دیا اس کا لمس محسوس کرتے ہوئے اپنی خیالات کی دنیا سے واپس آئی
اور اسکی طرف مڑ کے دیکھا
جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا
کیا سوچ رہی ہو ۔۔۔۔۔
دیا نے نا میں سر ہلایا (مطلب کچھ نہیں سوچ رہی ہوں )
سوری یار کام تھا اس لیے کل واپس نہیں آ سکا تم ناراض تو نہیں ہو نا مجھ سے اس بات سے ۔۔۔۔۔ شاہ اسکی آنکھوں میں دیکھ
کر اس سے پوچھ رہا تھا
دیا نے ناں میں سر ہلایا
ہو جاو ناراض میں تمھیں منا لوں گا ۔۔۔۔۔۔ شاہ آنکھوں میں شوخی لیے
اس تک رہا تھا
دیا نے اپنا چہرہ جھکا لیا اس کی بات سن کر
شاہ اسکے قریب آیا اتنا قریب کے ان دونوں کے درمیان انچ بھر کا فاصلہ رہ گیا
تھا
دیا کا دل ڈر رہا تھا کہ وہ پتا نہیں شاہ اس کے ساتھ کیا کر دے گا
اس نے میچ کے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں
شاہ نے اسکی پیشانی کو اپنے لبوں سے چھوا
اور اس سے دور ہو کر کھڑا ہو گیا اور اسے دیکھنے لگا جو آنکھیں بند کیے کانپ رہی تھی
ریلیکس یار میں تمھیں کھا تھوڑا جاوں گا جو تم اس طرح کانپ رہی
ہو ۔۔۔۔۔۔ شاہ شوخ لہجے میں گویا ہوا
اچھا میری طرف تو دیکھو میں کچھ دیر تمھاری آنکھوں میں دیکھنا چاہتا ہوں
دیا نے اپنا جھکا ہوا چہرہ اوپر نا کیا
پلیز دیا ۔۔۔۔۔
شاہ کے لہجے میں کچھ تھا جسے محسوس کرتے ہوئے دیا نے اسکی طرف
دیکھا جو اپنی آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے اسے دیکھ رہا تھا
دیا نے اسکی آنکھوں کی تاب نا لاتے ہوئے
اپنی نگاہیں جھکا لیں
اچھا چلو تم کھانا لگواؤ میں چینج کر کے آتا ہوں پھر مل کر کھانا کھاتے ہیں
شاہ اس سے کہتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا
دیا بھی کچن کی طرف چل دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسی ہے میری پرنسز ۔۔۔۔۔
زرنور بیگم نے اسکی پیشانی چومی
وہ چپ چاپ لان میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے بیٹھی
تھی جب وہ اس کے پاس آئیں
ٹھیک ہوں آنٹی میں آپ کھڑی کیوں ہیں بیٹھیں نا ۔۔۔۔۔
وہ اپنے پاپا کی یادیوں سے باہر آتے ہوئے ان کو بیٹھنے کا کہہ رہی تھی
نہیں بیٹا میں بیٹھنے نہیں آئی بلکہ تمھیں لینے آئی ہوں
تم چلو اور ہم سب کے ساتھ مل کر کھانا کھاؤ ۔۔۔۔۔۔
نہیں میرا دل نہیں کر رہا کھانا کھانے کو ۔۔۔۔۔ اس نے صاف انکار کر دیا
میں کوئی نا نہیں سن رہی چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔
وہ لاڈ سے اسے کہتی اٹھا رہی تھیں
اچھا چلتی ہوں ۔۔۔وہ ان کے ساتھ ڈائنگ ٹیبل تک آ گئی
جہاں علی اور اسفند صاحب ان کا انتظار کر رہے تھے
میں کب سے اپنی پرنسز کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔ اسفند صاحب پیار سے بولے
ان کا پیار بھرا لہجا اسے بلکل حیدر صاحب جیسا لگا جس کی وجہ سے
اسکی آنکھیں نم ہو گئیں
رونا نہیں ہے بیٹا ورنہ میں تم سے ناراض ہو جاوں گا ۔۔۔۔ اسفند صاحب نے
اسے پیار بھری دھمکی دی
اس نے فورا اپنی آنکھیں صاف کر لیں
چلو اب سب بسم اللہ کرو ۔۔۔۔۔ اسفند صاحب کے کہنے پر
سب نے کھانا شروع کیا
علی کھانے کھانے کے دوران اسے دیکھ رہا تھا جو حیدر صاحب کے جانے
کے بعد مرجھا گئی تھی
حیدر صاحب کو اس دنیا سے گئے ایک ماہ ہو گیا تھا
زرنور بیگم تب سے اس کے ساتھ ہی تھیں علی اور اسفند صاحب بھی دفتر
سے آنے کے بعد اس کے پاس آ جایا کرتے تھے
وہ سب مل کر اسے زندگی کی طرف لانے کی کوشش کر رہے تھے
وہ کافی حد تک سنبھل چکی تھی
دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ علی نے سے پکارا
جو لاونج میں بیٹھی پتا نہیں کس سوچ میں گم تھی
جی ۔۔۔۔۔ دیا نے اس کی طرف دیکھا
خود کو زندگی کی طرف واپس لاو اپنے بزنس پر دھیان دو ۔۔۔۔۔
خود کو سنبھالو تمھیں اس طرح دیکھ کر حیدر انکل کی روح کو کتنی تکلیف ہوتی
ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔
علی نے اسے سمجھا یا
ٹھیک ہے کوشش کروں گی اور کل سے آفس بھی جایا کروں گی
وہ نم لہجے میں گویا ہوئی
یہ ہوئی نا بات اب تم نے رونا نہیں ہے کوئی بھی مشکل پیش آئے بزنس میں
تو مجھ سے کہنا میں تمھاری ہیلپ کروں گا
اوکے ۔۔۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔۔۔ اس نے ہاں میں سر ہلایا
آپ بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ پرنسز اس نا چیز کو اتنی عزت دینے کے لیے
علی مسکراتے ہوئے بولا
وہ بھی اسکو دیکھ کر مسکرا دی
اسی طرح مسکراتی رہا کرو مسکراتے ہوئے اچھی لگتی ہو۔۔۔۔ علی بولا
جیسے آپ کو حکم ۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی
علی اس کو دکھ کی کیفیت سے نکالنے میں کامیاب ہو چکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی وجہ سے میرے پاپا مجھے چھوڑ کر چلے گئے
میں آپ سے اس بات کا بدلہ لے کر رہوں گی آپ کے ساتھ وہ کروں گی کہ
آپ ہمیشہ مجھے یاد رکھیں گے
کہ آپ کا پالا کس سے پڑا ہے
آپ کو تباہ نا کر دیا تو میں بھی اپنے پاپا کی پرنسز نہیں ۔۔۔۔۔
وہ اپنے آفس میں بیٹھی دل میں اپنے پاپا کے والد سے مخاطب تھی جن کی وجہ سے اسکے پاپا اسے تنہا اکیلا اس دنیا میں چھوڑ کر اللہ
کے پاس چلے گئے
اتنے میں ڈور پر ناک ہوا
یس کم ان ۔۔۔۔۔
اسکی سیکڑی اندر آئی
میم آپ کی میٹنگ کا ٹائم ہو گیا ہے شاہ انڈسڑیز کے ساتھ
اوکے تم چلو میں آئی پانچ منٹ میں ۔۔۔۔
اوکے میم ۔۔۔ وہ اس سے کہتی ہوئی روم سے باہر چلی گئی
وہ اپنی گاڑی میں ڈرائیور اور اپنی سیکڑی کے ساتھ شاہ انڈسڑیز
کی طرف روانہ ہو گئی
اسکی گاڑی کے پیچھے ایک اور بھی گاڑی تھی جس میں اس کے دو گارڈز تھے
جو ہر وقت اسکے ساتھ ہوتے تھے
وہ گارڈز اپنے ساتھ نہیں رکھنا نہیں چاہتی تھی لیکن
اسفند صاحب کے کہنے پر اسکو اپنے ساتھ گارڈز رکھنے پڑے
اسفند صاحب نے ہی اس کے لیے گارڈز کا بندوبست کیا تھا
وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسے کبھی بھی کسی بھی قسم کی مشکل اور تکلیف پیش آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ کو فارم ہاوس سے گئے ہوئے دو دن ہو گئے تھے وہ اسلام آباد گیا ہوا تھا
اور دیا دو دن سے اکیلی فارم ہاوس میں رہ رہی تھی
سارا دن وہ فارم ہاوس میں گھومتی رہتی اور تو کوئی کام نہیں تھا اس کے پاس کرنے
کو ۔۔۔۔۔
شاہ نے فارم ہاوس میں گھوڑے رکھے ہوئے تھے
دیا اپنا زیادہ تر وقت گھوڑوں کو دیکھنے میں گزارتی تھی
دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا جو ابھی بھی گھوڑے کو دیکھ رہی تھی
شاہ کے پکارنے پر پیچھے مڑ کر اسکی طرف دیکھا
شاہ نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا
دیا کا دل دھک سے رہ گیا اسے شاہ سے اس بات کی امید نہیں تھی
دیا نے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کی لیکن شاہ نے اسے آزاد نا کیا
کچھ دیر کے بعد شاہ کو اس پر رحم آ ہی گیا
اور اس نے اسے آزاد کر دیا
سوری ۔۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں میرا دل ڈر رہا ہے جیسے تم اور میں الگ ہو جائیں
گے اس لیے ایسا ہو گیا
شاہ وضاحت دیتے ہوئے بولا
دیا نے اپنا چہرہ جھکایا ہوا تھا
تمھیں برا تو نہیں لگا ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا
دیا نے نا میں سر ہلایا
اوکے چلو اندر چلتے ہیں رات ہونے والی ہے
شاہ اسے ساتھ لیے اندر چلا گیا
شاہ ابھی واپس آیا تھا اور دیا کو اندر نا پا کر اس نے ملازمہ سے پوچھا
دیا کے بارے میں
ملازمہ نے بتایا کہ دیا یہاں ہے
اس لیے وہ یہاں آ گیا
وہ دو دن اس کے بغیر رہا تھا دو دن سے اس کے دل میں عجیب سے وسوسے
پیدا ہو رہے تھے
جیسے دیا اسے دور ہو جائے گی
وہ دیا کو کھونا نہیں چاہتا تھا
دیا کو اپنے سامنے پا کر وہ خود کو روک نا پایا اور اسے گلے سے لگا بیٹھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر حیدر انڈسڑیز کی اونر آپ سے میٹنگ کے لیے آ چکی ہیں
سکندر صاحب کی سیکڑی نے انہیں آگاہ کیا
سکندر صاحب اس وقت شاہ کے ساتھ اپنے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے
آپ ان کو میٹنگ روم میں بیٹھائیں میں آ رہا ہوں
سکندر صاحب کے کہنے پر ان کی سیکڑی اوکے سر کہتی ہوئی چلی گئی
میم آپ بیٹھیں سر آ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ سکندر صاحب کی سیکڑی اسے میٹنگ روم میں بیٹھا کر خود چلی گیہ
اوکے پاپا میں چلتا ہوں آپ اپنی میٹنگ اٹینڈ کریں ۔۔۔شاہ ان سے بولا
اگر تم فری ہو تو میرے ساتھ چلو میٹنگ کے لیے
اوکے پاپا چلتا ہوں آپ کے ساتھ ویسے میٹنگ ہے کس کے ساتھ
حیدر انڈسڑیز کی اونر ہے اس کے ساتھ ہے
بہت ہی قابل بچی ہے کچھ ہی وقت میں اس کی کمپنی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے دن بدن اس کی کمپنی ترقی کی منازل طے کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ سکندر صاحب اس سے بہت امپریس تھے
چلیں ان سے بھی مل لیتے ہیں جن کی آپ اتنی تعریف کر رہے ہیں
شاہ مسکراتا ہوا ان کے ساتھ میٹنگ روم کی طرف چل دیا
اسلام علیکم ۔۔۔۔۔ سکندر صاحب شاہ کے ساتھ اندر داخل ہوتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئے

وہ جو اپنے سامنے کھلی ہوئی فاعل میں گم تھی
وعلیکم اسلام ۔۔۔۔ سکندر صاحب کیسے ہیں آپ
اس نے خوش دلی سے ان سے پوچھا اس کا دھیان ابھی شاہ کی طرف نہیں گیا تھا
شاہ خوشگوار حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا
میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر صاحب بولے
میں بھی ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔
اس نے جواب دیا
یہ میرا بیٹا اذلان شاہ ہے ۔۔۔۔۔
انہوں نے شاہ کا اس سے تعارف کروایا
وٹ آ پلیزنٹ سرپرائز ۔۔۔۔۔ مسڑ اذلان اٹس یو
پاکستان کے موجودہ اطلاعات ونشریات ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے شاہ کی طرف بڑھا
جی میں ہی ہوں بہت اچھا لگا آپ سے مل کر پرنسز ۔۔۔۔۔۔
شاہ نے مسکراتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا
شاہ نے اسکی طرف دیکھا جو آج بھی گلاسز لگائے بلیک ٹائٹس کے ساتھ بلیک ہی
کُرتا اور گلے میں بلیک مفلر ڈالے
بنا کسی میک اپ کے اپنے بالوں کو جھوڑے میں قید کیے ہمیشہ کی طرح خوبصورت
لگ رہی تھی
آپ لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں ۔۔۔۔۔ سکندر صاحب نے مسکراتے
ہوئے ان دونوں سے پوچھا
آپ بیٹھیں دونوں بیٹھیں پھر میں آپ کو بتاتا ہوں
شاہ نے ان کو بیٹھنے کو بولا
اب بتاو ۔۔۔۔سکندر صاحب بیٹھنے کے بعد گویا ہوئے
پاپا میں نے اور انہوں نے ایک ہی یونی سے ایم بی اے کیا ہے
یہ میرے دوست راحم کی بہت اچھی دوست ہیں اس لیے ہماری اکثر ملاقات
ہو جایا کرتی تھی
اس لیے ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں
شاہ مسکراتے ہوئے بول رہا تھا
یہ تو اچھی بات ہے آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں
سکندر صاحب نے خوشی کا اظہار کیا
آپ کو بہت مبارک ہو پاپا بتا رہے تھے کہ آپ نے تھوڑے سے وقت میں
بزنس میں بہت ترقی کی ہے
ویسے آپ پاکستان کب آئیں اور کیوں ۔۔۔۔۔؟
شاہ نے اس سے پوچھا
پاپا چاہتے تھے کہ ہم واپس آئیں اور یہاں اپنا بزنس سٹارٹ کریں
اس لیے ہم یہاں آگئے اور اپنا بزنس سٹارٹ کیا
پاپا نے سارا بزنس میرے حوالے کر دیا اور خود کام سے لیو لے لی ان کا کہنا تھا
کہ اب میں کام کروں وہ آرام کریں گے
اپنے پاپا کا ذکر کرتے ہوئے اس کے لب مسکرا رہے تھے
اور آنکھوں میں نمی تھی
اور یہاں تک ترقی کی بات ہے یہ اللہ کا کرم ہے ورنہ میں تو نا چیز سی بندی
ہوں ۔۔۔۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی
اب ایسی بھی کوئی بات نہیں یہ آپ کی محنت اور قابلیت کا ہی کمال ہے جو آپ نے اتنے کم وقت میں اپنا اتنا نام پیدا کر لیا ہے
انکل کیسے ہیں ۔۔۔شاہ نے اس سے پوچھا
ہی از نو مور ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس دنیا میں نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔
اس کا لہجا نم ہو گیا تھا یہ بتاتے ہوئے
بہت افسوس ہوا بیٹا اللہ ان کو جنت و فردوس میں جگہ دے
سکندر صاحب نے افسوس کا اظہار کیا
آمین اس نے دل میں کہا
کیا ہوا تھا انکل کو ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ نے پوچھا
ہارٹ اٹیک ۔۔۔۔
بہت افسوس ہوا آپ کے پاپا کی دیتھ کا سن کر ۔۔۔۔۔ شاہ بولا
چلیں اس کو چھوڑیں سکندر صاحب ہم میٹنگ سٹارٹ کریں ۔۔۔۔۔
اس نے بات کا رخ بدل دیا
وہ اس وقت اپنے پاپا کا اور ذکر کر کے ان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی
بیٹا آج سے آپ مجھے انکل کہو گی اور میں آپ کو شاہ کی طرح پرنسز ۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے نا ۔۔۔۔ سکندر ساحب پیار سے بولے
سکندر صاحب کو وہ بہت اچھی لگی تھی اس سے مل کر وہ انہیں بلکل اپنی بیٹی
جیسی لگی تھی
انہیں ایسا لگا تھا جیسے اللہ نے اسے بیٹی دے دی ہو
ان کی اس کے ساتھ یہ تیسری ملاقات تھی
اوکے ٹھیک ہے انکل ۔۔۔۔ اسے ان کی بات سے کوئی اعتراض نہیں تھا
اور آپ مجھے بھی مسڑ اذلان کی بجائے اذلان کہیں گی تو مجھے
اچھا لگے گا
شاہ مسکراتے ہوئے بولا
اوکے انکل اور اذلان اب ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی
ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ شاہ نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیا ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ پاگلوں کی طرح پورے فارم ہاوس میں اسے ڈھونڈ
رہا تھا اور اسے پکار رہا تھا
شاہ جب اگلی صبح جب سو کر اٹھا تو دیا اپنے روم سے غائب تھی
شاہ نے پوار فارم ہاوس سر پر اٹھا لیا تھا دیا کو اس کے روم میں نا پا کر
سارے ملازموں کی گارڈز کی شاہ نے دوڑیں لگوا دیں تھیں دیا کو ڈھونڈنے کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 8
شاہ جی ان کا کچھ بھی نہیں پتا نہیں چلا ۔۔۔۔۔ ہم نے پورا فارم ہاوس اور آس پاس کا سارا علاقہ دیکھ لیا ہے
گارڈ نے شاہ کا آ کر بتا یا
اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا تم لوگ کہاں مر گئے تھے جب وہ غائب ہوئی
شاہ گارڈز پر چیخ رہا تھا
وہ اس وقت بلکل پاگل لگ رہا تھا
ویل ڈریس رہنے والے شاہ کے اس وقت کپڑے سلوٹ ضدا تھے بال بھیکرے
ہوئے تھے
اسے اس وقت صرف دیا کی پرواہ تھی جا پتا نہیں کہاں چلی گئی تھی
جاو ڈھونڈو اسے وہ نا ملی تو میں سب کی جان لے لوں گا
شاہ دھاڑا
سب وہاں سے چلے گئے
شاہ ویہیں زمین پر بیٹھتا چلا گیا
کہاں چلی گئی ہو دیا واپس آ جاو پلیز میں نہیں رہ پاؤں گا تمھارے بنا
شاہ رو رہا تھا
شاہ ۔۔۔۔ دار جی نے اسے پکارا
شاہ نے اپنی لال آنکھیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا
کیا ہوا ہے کیوں اپنی ایسی حالت بنا لی ہے
دار جی کو جیسے ہی دیا کے غائب ہونے کے اور شاہ کی ایسی حالت کے بارے میں
پتا چلا وہ صفیہ خاتون کے ساتھ شاہ
کے پاس آ گئے
دار جی وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے اسے واپس لے آئیں نا پلیز ۔۔۔۔۔۔
شاہ نے روتے ہوئے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے
شاہ ۔۔۔ دار جی نے دکھ سے اسے گلے لگا لیا
کیا حالت بنا لی ہے تم نے شاہ اٹھو اوپر بیٹھو میں اسے ڈھونڈ لوں گا تم فکر نا
کرو دار جی نے اسے زمین سے اٹھا کر
صوفے پر بیٹھایا
آپ لے آئیں گے نا اسے واپس ۔۔۔۔۔ شاہ نے امید بھری نظروں سے
ان کی طرف دیکھا
ہاں لے آوں گا تم خود کو سنبھالو ۔۔۔۔۔۔
دار جی کا دل کٹ رہا تھا اپنے جان سے عزیز پوتے کو اس حالت میں دیکھ کر
ان کا پوتا جس کے غصے اور ضد کے سامنے وہ بھی چپ
ہو جایا کرتے تھے جس سے ایک دنیا خوف کھاتی تھی وہ ایک لڑکی کے لیے بچوں کی طرح رو رہا تھا
صفیہ خاتون بھی اپنے پوتے کو اتنی بری حالت میں دیکھ کر رو رہیں تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوری میں لیٹ ہو گئی میٹنگ تھی
وہ کرسی پر علی کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی
کوئی بات نہیں میں بھی ابھی ہی آیا تھا
علی مسکراتے ہوئے بولا
چلیں پھر پیزا منگوایں مجھے بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔۔
علی نے ویڑ کو بلا کر پیزا آوڈر کیا
اب بتائیں کیا بات کرنی تھی آپ نے وہ علی سے پوچھ رہی تھی
علی نے اسے آج لنچ پر ایک ریسٹورانٹ میں بلایا تھا
اور اس وقت وہ علی کے ساتھ موجود تھی
آئی ایم ان لو ۔۔۔۔۔۔ علی مسکراتے ہوئے بولا
واو ۔۔۔۔ اٹس نائس ہو از دی لکی ون
اس نے اشتیاق سے پوچھا
ہے ایک خوبصورت سی لڑکی جس کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو اپنا دل
اسے دے بیٹھا ۔۔۔۔۔
وہ جانتی ہے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں
پرنسز نے اس سے پوچھا
میں نے اسے بتایا تو نہیں پر مجھے لگتا ہے کہ وہ میری نظروں کی زبان سمجھ چکی ہے
کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں
علی نے اسکی بات کا جواب دیا
نام بھی بتا دیں نا علی ۔۔۔۔۔۔ اس نے منت کی
اسکو جاننے کی بہت جلدی تھی کہ وہ کون ہے جس سے علی محبت کرتا ہے
نہیں ابھی نہیں وقت آنے پر بتاوں گا
چلیں کر لیتے ہیں ویٹ ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی
چلو اپنا پیزا کھاو ۔۔۔۔ ویڑ کے پیزا دے کر جانے کے بعد علی اس سے بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے سکندر صاحب کے گھر میں آتے ہی سکندر صاحب ، زینب بیگم اور شاہ کو
سلام کیا
سکندر صاحب کے دعوت دینے پر وہ ان کے گھر ڈنر کے لیے آئی تھی
وعلیکم اسلام ۔۔۔۔۔۔سب کے مشترکہ اس
کے سلام کا جواب دیا
بیگم یہ پرنسز اور پرنسز بیٹا یہ میری وائف اور شاہ کی ماما زینب ہیں
سکندر صاحب نے ان دونوں کا تعارف کروایا
اسلام علیکم آنٹی ۔۔۔ اس نے ان کو سلام کیا
زینب بیگم نے اسے دیکھا
پری چہرہ لڑکی رنگت اتنی گوری کہ اسے چھونے سے بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں وہ چھونے سے میلی نا ہو جائے
بیبی پنک کلر کا فراک پہنے ڈوپٹا ایک کندھے پر رکھے ، بال اپنی پشت پر پھیلائے
آنکھوں پر بلیک گلاسز لگائے اور میک اپ کے نام پر صرف بیبی پنک لیپسٹک
لگائے بلکل پرنسز لگ رہی تھی
وعلیکم اسلام ۔۔۔۔۔ انہوں نے اسے گلے سے لگایا
ہیلو پرنسز کیسی ہیں آپ ۔۔۔۔ شاہ نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا
ہائے اذلان میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں ۔۔۔۔۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں چلے بیٹھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ شاہ اس کی بات کا جواب
دیتا ہوا سب کو لیے اندر آ گیا
کافی دیر ان سب سے باتیں کرنے کے بعد وہ ان میں گھل مل گئی تھی
بیٹا آپ کی شادی ہو گئی ہے ۔۔۔۔ زینب بیگم نے اس سے پوچھا
نہیں آنٹی ۔۔۔۔ اس نے مختصر سا جواب دیا
کب کرنی ہے پھر ۔۔۔۔۔۔
میں ابھی تو کوئی ارادہ نہیں ہے شادی کا ۔۔۔۔۔ اس نے ان کی بات کا جواب دیا
اچھا بیٹا شاہ کی منگنی ہے اس سیٹر ڈے کو آپ ضرور آنا ۔۔۔۔۔
سکندر صاحب مسکراتے ہوئے بولے
بہت بہت مبارک ہو اذلان آپ کو ۔۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے
اسے مبارک باددی
شکریہ ۔۔۔۔ شاہ سنجیدہ سا تھا بیٹھا تھا
آپ خوش نہیں ہیں کیا اپنی منگنی سے ۔۔۔۔۔ اس نے شاہ سے پوچھا
نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ شاہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
پر آپ کا چہرہ تو کچھ اور ہی کہہ رہا ہے ۔۔۔۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو گی
شاہ نے اس کی بات کی نفی کی
چلیں مان لیا ۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی
کہاں ہے فنگشن ۔۔۔۔۔۔ اس نے پوچھا
ہماری خاندانی حیویلی ہے حیدر آباد میں وہاں پر ہے
اس کے سوال کا جواب زینب بیگم کی طرف سے آیا
اوکے ٹھیک ہے آپ مجھے اڈریس دے دیں میں ضرور آوں گی
سکندر صاحب نے اسے اڈریس دیا حیویلی کا
ویسے آنٹی کس سے ہو رہی ہے اذلان کی انگیجمنٹ ۔۔۔
اس نے زینب بیگم سے پوچھا
میری بھانجی سے ہو رہی ہے ۔۔۔۔ ان کی طرف سے جواب آیا
زینب بیگم نے اسے اپنی بھانجی کی تصویر بھی دیکھائی
بہت پیاری ہے اذلان کے ساتھ بہت سوٹ کرے گی ۔۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی
چلیں اب ڈنر کر لیتے ہیں ۔۔۔۔ زینب بیگم بولیں
تو سب ڈائننگ ٹیبل کی طرف چل دیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسفند انکل مجھے اپنے دادا کو ایک نوٹس بھیجنا ہے
وہ اسفند صاحب کے پاس ان کے آفس میں بیٹھی تھی
کس چیز کا نوٹس پرنسز ۔۔۔۔۔۔
اسفند صاحب نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا
اپنے پاپا کے حصے کی جائیداد جو ان کے اس دنیا کے جانے کے بعد اب میری
ہے وہ لینے کے لیے
آپ انہیں میری طرف سے ایک نوٹس بھیج دیں اگر انہوں نے مجھے میرے حصے
کی جائیداد دینے سے انکار کیا تو
میں ان پر کیس کروں گی ۔۔۔۔۔ اس نے ان کی بات کا جواب تفصیل
سے دیا
ٹھیک ہے جیسے میری بیٹی کہے گی ویسا ہی ہو گا میں آج کل تک ان کو تمھاری طرف سے ایک نوٹس بھیج دوں گا
اسفند صاحب بولے
تھینک یو انکل ۔۔۔۔۔۔۔ اسس نے مسکراتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا
کوئی بات نہیں بیٹا ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا
چلیں انکل اب میں چلتی ہوں رات کو آپ سے ملاقات ہو گی
اس نے ان سے اجازت چاہی
ٹھیک ہے بیٹا جاو اللہ کے حوالے ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ حافظ انکل ۔۔۔۔۔۔
اللہ حافظ بیٹا ۔۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے گھر آ گئی
وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی اسفند صاحب ، زرنور بیگم اور علی نے اس کو بہت منانے
کی کوشش کی کہ وہ ان کے ساتھ ان کے گھر میں رہے
پر وہ نا مانی
وہ اکیلے ہی رہنا چاہتی تھی
پاپا ۔۔۔۔۔۔ واپس آجائیں نا
آپ کی پرنسز آپ کو بہت یاد کرتی ہے میں آپ کے بنا کچھ بھی نہیں ہوں
پلیز آ جائیں نا میرے پاس ۔۔۔۔
وہ حیدر صاحب کے تصویر سینے سے لگائے
رو رہی تھی
آپ کی وجہ سے پاپا مجھے چھوڑ گئے آپ کی بربادی شروع ہو چکی ہے
میرے ہاتھوں سے اور آپ کا پتا ہی نہیں چل رہا
اب میری طرف سے ایک اور وار کے لیے تیار ہو جائیں
مجھے یقین ہے میرا یہ وار آپ کو ہلا کر رکھ دے گا
اس کے بعد میں اپنی آخری چال چلوں گی جو آپ کو ، آپ کی انا اور آپ کے اصولوں کو ختم کر کے رکھ دے
گا یہ وعدہ ہے میرا آپ سے ۔۔۔۔۔۔
اور میں جس بات کی ٹھان لوں وہ کر کے دیکھاتی ہوں
وہ اب اپنے پاپا کے بابا سے مخاطب تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا کہاں ہو تم واپس آ جاو
کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا میں نے تمھیں
چار سال چار ماہ دو دن آٹھ گھنٹے تیس منٹ چالیس سیکنڈ ۔۔۔۔۔۔
ہو گئے ہیں تمھیں مجھ سے الگ ہوئے ہوئے
بہت مشکل ہو گیا ہے اب تمھارے بنا رہنا پلیز آ جاو نا واپس میرے پاس
شاہ اس وقت حیویلی کے کوارٹر میں موجود تھا جہاں دیا نے اپنا سب سے
زیادہ وقت گزارا تھا
وہ روتے ہوئے اسے پکار رہا تھا
اس سے واپس آنے کی التجا کر رہا تھا
پر وہ جہاں ہوتی تو اسکی بات سنتی اس کی کسی بات کا جواب دیتی
وہ تو چار سال سے پتا نہیں کہاں چلی گئی تھی
شاہ پاگلوں کی طرح چار سال سے اسے ہر جگہ ڈھونڈ رہا تھا
جہاں بھی وہ اپنی وزارت کے کام کے سلسلے میں جاتا تھا وہاں دیا کو ڈھونڈتا تھاپر دیا اسے کہیں بھی نا ملی
وہ اب بھی اس کا انتظار کر رہا تھا
اس نے کئی ہی دعائیں مانگی تھیں اللہ سے دیا کی واپسی کی
پر ابھی تک اس کی کوئی بھی اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوئی تھی
اس کی دیا اسے نہیں ملی تھی
شاہ بہت ہی کم اب حیویلی آیا کرتا تھا
دار جی اور صفیہ خاتون کے بہت زیادہ اصرا کرنے پر وہ حیویلی آیا کرتا تھا
حیویلی آنے کے بعد وہ زیادہ وقت دیا کے کوارٹر میں
اس کی چیزوں کے ساتھ گزارتا تھا
شاہ سب کے سامنے تو سب کے سامنے خود کو نارمل ظاہر کرتا تھا
پر وہ ٹھیک نہیں تھا وہ اندر سے دن بدن ختم ہو رہا تھا
وہ چار سالوں سے بہت تکلیف میں تھا
واحد دار جی ہی تھے جن کے سامنے وہ روتا تھا ان کو اپنا درد بتایا کرتا تھا
دار جی اسکی دیوانوں سی حالت دیکھ کر خود بھی بیمار رہنے لگے تھے
وہ کس طرح اپنی جان اپنے پوتے کو تڑپتا ہوا ٹوٹتا ہوا دیکھ سکتے تھے اپنے پوتے کا دکھ انہیں اندر سے کھا رہا تھا
وپ دن بدن کمزور ہو رہے تھے
وہ چاہ کر بھی شاہ کے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہے تھے
انہوں نے بھی دیا کو بہت تلاش کیا پر وہ ان کو بھی نا ملی
پتا نہیں وہ کہاں غائب ہو گئی تھی آج تک کسی کو بھی اس بات کا پتا نہیں چل سکا تھا
دیا ۔۔۔۔۔۔
اب تو واپس آ جاو دار جی میری شادی کسی اور سے کروا رہے ہیں
میں تمھارے علاوہ کسی اور کا نہیں ہونا چاہتا پلیز مجھے اس تکلیف سے بچا لو
میں دار جی کی بات سے بھی انکار نہیں کر سکتا
ان کی طبیعت پہلے ہی میری وجہ سے خراب رہتی ہے اگر میں ان کو انکار
کرتا تو شاید وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلے جاتے
پلیز آ جاو نا ۔۔۔۔۔۔
شاہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا
پر وہ یہاں موجود نہیں تھی شاہ کی تڑپ اسکی منتیں وہ کہاں سن رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت پیار لگ رہا ہے میرا بیٹا ۔۔۔۔۔۔
زینب بیگم نے اسکی پیشانی چومی اور اسکی نظر اتاری
وہ لگ بھی بہت ہنڈسم رہا تھا وائٹ شلوار قمیض میں ۔۔۔۔۔
سفید رنگ اس پر بہت جچ رہا تھا
ہلکی ہلکی بڑھی شیو اسکی مردانہ وجاہت میں اضافہ کر رہی تھی
اچھا بیٹا میں باہر جا رہی ہوں تم تیار ہو کر آجانا ۔۔۔۔ زینب بیگم اس سے کہتی
ہوئیں اس کے روم سے نیچے چلی گئیں جہاں سب مہمان اس وقت شاہ کی انگیجمنٹ کے لیے جمع تھے
اب ہی آ جاو ۔۔۔۔۔ شاہ دل میں دیا سے خاطب تھا
دیا کی یاد آتے ہی اسکی آنکھیں نم ہو گئیں
وہ اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے نیچے آگیا
سب کی نظریں اس پر ہی تھیں
مہمانوں میں صرف دار جی اور سکندر صاحب کے دوست اور ان کے کچھ رشتہ
دار موجود تھے
شاہ کے جاننے والا کوئی بھی وہاں نہیں تھا شاہ نے کسی کو بھی نہیں بلایا تھا
اور نا ہی میڈیا کو اجازت دی تھی جہاں آنے کی
وہ سب کچھ سادگی سے کرنا چاہتا تھا
دار جی نے اس کی یہ بات مان لی تھی اس لیے زیادہ مہمان نہیں آئے تھے
انگیجمنٹ میں شرکت کے لیے
لیکن پھر بھی ایک چھوٹا سا فنگشن حیویلی کے لان میں منعقد کیا گیا تھا
اسلام علیکم شاہ نے سب کو سلا م کیا
دار جی اسے ہی دیکھ رہے تھے جو سنجیدہ سا دیکھائی دے رہا تھا
اس کی آنکھوں کی سرخی اس کے دکھ کی گواہی دے رہی تھی
چلیں رسم شروع کرتے ہیں ۔۔۔ صفیہ خاتون بولیں
تو زینب بیگم نے اپنی بھانجی کو شاہ کے ساتھ سٹیج پر رکھے صوفے پر بیٹھایا
ایک منٹ میرے بنا ہی آپ لوگ انگیجمنٹ کر رہے ہیں اٹس ناٹ فیئر اذلان
سب نے آواز کی سمت دیکھا جہاں وہ سفید میکسی میں میک اپ کے نام پر ریڈ لپ سٹک لگائے بال اپنی پشت پر پھیلائے اور آنکھوں پر
بلیک گلاسز لگائے ہاتھوں میں سرخ پھولوں کا بوکے لیے
کھڑی تھی اور اسکے پیچھے دو گارڈز کھڑے تھے
ارے پرنسز بیٹا آپ میں نے آپ کو کال بھی کی تھی لیکن آپ کا نمبر بند
جارہا تھا
اس لیے ہمیں پتا نہیں تھا کہ آپ آ رہی ہو کہ نہیں
سکندر صاحب مسکراتے ہوئے بولے
چلیں کوئی بات نہیں میں ٹائم پر ہی آ گئی ۔۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی اور سٹیج پر شاہ کی طرف بڑھی
گارڈز بھی اسکے پیچھے ہی تھے
اس نے گارڈز کو ہاتھ سے سٹیج سے نیچے رہنے کا اشارہ کیا
اور خود شاہ کے پاس آ گئی
بہت بہت مبارک ہو اذلان ۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے بوکے شاہ کو دیا
تھینکیو ۔۔۔۔۔ شاہ نے اس کا شکریہ ادا کیا
سٹیج پر زینب بیگم اور انکی بھانجی ، شاہ ، دار جی ، صفیہ خاتون ، سکندر صاحب
اس کے علاوہ موجود تھے
انکل سب سے میرا تعارف نہیں کروایں گے کیا ۔۔۔۔۔۔
اس نے دار جی کی طرف دیکھتے ہوئے سکندر صاحب سے عجیب سے لہجے میں
کہا
یہ ہے دیا حیدر ۔۔۔۔
حیدر انڈسٹریز کی مالک اور میری پرنسز ۔۔۔۔۔ سکندر صاحب نے مسکراتے ہوئے وہاں پر موجود سب سے اسکا تعارف کروایا
دیا حیدر ۔۔۔ دار جی نے اسکا نام دہراہ
جی ہاں دیا حیدر ۔۔۔۔۔ حیدر شاہ کی اکلوتی بیٹی دیا
آپ کے چھوٹے بیٹے حیدر شاہ کی بیٹی آپ کی پوتی ۔۔۔
پہچان تو گئے ہی ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ چہرے پر جلانے والی مسکراہٹ سجائے
دار جی سے مخاطب تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 9
دیا حیدر ۔۔۔ دار جی نے اسکا نام دہراہ
جی ہاں دیا حیدر ۔۔۔۔۔ حیدر شاہ کی اکلوتی بیٹی دیا
آپ کے چھوٹے بیٹے حیدر شاہ کی بیٹی آپ کی پوتی ۔۔۔
پہچان تو گئے ہی ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ چہرے پر جلانے والی مسکراہٹ سجائے
دار جی سے مخاطب تھی
دار جی اس وقت کچھ بھی بول نہیں پا رہے تھے بس خاموشی سے
اسے دیکھ رہے تھے
جبکہ زینب بیگم اور سکندر صاحب خوش تھے یہ جان کر کہ وہ حیدر صاحب کی بیٹی ہے
شاہ کو تو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ ہو کیا رہا ہے
وہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اسکے چاچو بھی ہیں وہ اس بات سے لا علم تھا
تم میرے بھائی حیدر کی بیٹی ہو میری بھتیجی ۔۔۔۔ سکندر صاحب
خوشی کے جزبات لیے اس سے پوچھ رہے تھے
جی ہاں آپ کی بھتیجی ۔۔۔۔۔ دیا اس وقت بہت سنجیدہ دکھائی دے رہی تھی
میرا بھائی حیدر کیسا ہے ۔۔۔۔ انہوں نے بے چینی سے دریافت کیا
وہ اس دنیا میں نہیں رہے ۔۔۔۔۔
دیا کالہجا تم ہو گیا تھا
دار جی لڑکھڑا کر گرنے لگے تو شاہ نے انہیں پکڑ کر انہیں گرنے سے بچایا
ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ کیسے مجھ سے پہلے اس دنیا سے چلا گیا
دار جی شاہ کے سہارے کھڑے دکھ کی کیفیت میں بول رہے تھے
ہوں ۔۔۔۔ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا اس دن آپ کی طرف سے ان کو اتنا
دکھ ملا کہ وہ مجھے اپنی پرنسز جو ان کو سب سے زیادہ
عزیز تھی اس کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے صرف آپ کی وجہ سے ۔۔۔۔۔
میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی
اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اسکے سرخ وسفید گال بھگو رہے تھے
ایک تعارف تو میں آپ سے اپنا کروانا بھول ہی گئی ۔۔۔
وہ اپنی گلاسز اتارتے ہوئے اپنے آنسو بے دردی
سے صاف کرتے ہوئے گویا ہوئی
جیسے ہی اس نے اپنی پلکوں کی باڑ اٹھا کر دار جی کی طرف دیکھا
شاہ جو دار جی کے پیچھے کھڑا تھا اور دیا کو دیکھ رہا تھا
اسکی آنکھوں کو دیکھتے ہی شاہ کی دنیا ساکن ہو گئی
اسے ایسا لگا اس کی تلاش ختم ہو گئی ہے
وہ یک ٹک دیا کو ہی دیکھ رہا تھا
کون سا تعارف ۔۔۔۔۔ سکندر صاحب کی طرف سے سوال کیا گیا
میں دیا اذلان شاہ بھی ہوں ۔۔۔۔۔۔ اذلان شاہ کی بیوی
اس نے سب کے سر پر بم پھوڑا
سب شاک کی کیفیت میں دیا کو دیکھ رہے تھے
کہ یہ وہ ہی دیا ہے جو ان کے گھر ملازمہ تھی جو رات کی سیاہی جیسی سیاہ تھی
بول نہیں سکتی تھی
اور اب یہاں ان سب کے سامنے پری جیسا رنگ و روپ لیے اپنی خوبصورت
آواز میں ان سب مخاطب تھی
تم وہ دیا ہو جس سے شاہ کی شادی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے
اسکی بات کی تصدیق چاہی
ہاں وہی دیا ۔۔۔۔ کیوں مسڑ اذلان شاہ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں
پہچان گئے ہو کہ نہیں مجھے ۔۔۔
دیا اب شاہ سے مخاطب تھی جو ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا
شاہ نے ہاں میں سر ہلایا
وہ اپنی خوشی کو بیان نہیں کر سکتا تھا لفظوں میں
اس کی دیا جو واپس آ گئی تھی وہ خوش کیوں نا ہوتا
وہاں موجود سب لوگ حیرانی سے سٹیج پر موجود ان سب کو دیکھ رہے تھے
کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے
اب یہ انگیجمنٹ نہیں ہو گی کیونکہ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔۔
دیا دو ٹوک لہجے میں سب سے مخاطب تھی
سکندر صاحب نے سب سے معزرعت کی سب وہاں سے چلے گئے
دار جی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی
شاہ انہیں ان کے روم میں لے گیا اور ڈاکڑ سے انکا چیک اپ کروایا
ڈاکڑ کے مطابق انہیں بہت بڑا صدمہ پہنچا تھا جس کی وجہ سے وہ بے
ہوش ہو گئے تھے
صفیہ خاتون کا بھی رو رو کر برا حال ہو گیا تھا کہ ان کا چھوٹا بیٹا ان کا حیدر انہیں
چھوڑ کر چلا گیا
زینب بیگم انہیں سنبھال رہی تھیں
سکندر صاحب سب کے چلے جانے کے بعد دار جی کے کمرے میں آ گئے
یہاں دار جی ڈاکڑ کے دیئے ہوئے نیند کے انجکشن کے زیرے اثر سو رہے تھے
اور شاہ ان کے پاس بیٹھا تھا
وہ دار جی کے پاس بیٹھ گئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر رو رہے تھے
جب شاہ نے انہیں پکارا
پاپا ۔۔۔۔۔۔ ہمت سے کام لیں
وہ اس کے گلے لگ گئے ان کے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
وہ کیسے ہم سب کو چھوڑ کر اس دنیا سے جا سکتا ہے
وہ مجھے دار جی ، ماں جی کو بہت عزیز تھا ہم سب کی جان تھی اس میں
میرا بھائی مجھے چھوڑ کر چلا گیا
پاپا سنبھالیں خود کو اگر آپ ایسے کریں گے تو دار جی اور دادو کا کیا بنے گا
انہیں آپ کی ضرورت ہے اس وقت ۔۔۔۔۔
اسکی بات پر انہوں نے اپنے آنسو صاف کیے اور خود کو نارمل کرنے کی
کوشش کی
پاپا مجھے چاچو کے بارے میں بتائیں وہ کہاں تھے ہم سے کیوں نہیں ملتے تھے
اور باہر دیا کیا کہہ رہی تھی کہ وہ دار جی سے ملنے آئے
اور دار جی نے ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی
سکندر صاحب نے حیدر صاحب کے بارے میں اسے بتایا
اور یہاں تک دار جی سے ملنے کی بات ہے میں نہیں جانتا کہ حیدر ان سے ملنے آیا تھا اور دار جی نے اسے کیا کہا
جس کی وجہ سے وہ اس دنیا سے چلا گیا
سکندر صاحب بولے
یہ بھی پتا چل جائے گا کہ کیا ہوا ہے آپ پلیز ہمت سے کام لیں اور
چلیں دادو کے پاس چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
وہ شاہ کے ساتھ صفیہ خاتون کے پاس آ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاپا آپ کی پرنسز آپ کی موت کا بدلہ لے کر رہے گی
میں نے سب کو برباد نا کر دیا تو میرا نام بھی دیا شاہ نہیں
وہ حیدر صاحب کی تصویر سے مخاطب تھی
اسکی خوبصورت بلورین آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو گئی تھیں
وہ اس وقت حیویلی کے گیسٹ روم میں موجود تھی
وہ شاہ کی منگنی روکنے کے بعد سے گیسٹ روم میں بند تھی
دیا ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ نے روم میں داخل ہوتے ہی اسے پکارا
یہاں کیوں آئے ہو ۔۔۔۔۔ دیا غصے سے اسے گھور رہی تھی
کیا میں تم سے ملنے کے لیے نہیں آ سکتا کیا ۔۔۔ ؟
نہیں تم مجھ سے ملنے نہیں آ سکتے یہاں سے جاو اور آئیندہ مجھ سے بات
نا کرنا ۔۔۔۔۔۔۔
دیا بے رخی سے اس سے مخاطب تھی
تم کیوں کر رہی ہو میرے ساتھ ایسا میں تم سے محبت کرتا ہوں
شاہ نے نم لہجے میں اس سے پوچھا
اسے دیا کا لہجا اسکی بے رخی بہت تکلیف دے رہی تھی
میں نہیں مناتی تمھاری محبت کو اور مجھے تمھاری محبت سے کوئی فرق نہیں پڑتا
کیونکہ میں تم سے نفرت کرتی ہوں شدید نفرت
دیا سفاکی سے بولتی اس کا دل توڑ گئی تھی
دیا ۔۔۔۔ شاہ نے آس سے اسے پکارا
کہ شاید وہ اس کی بات سن لے
میں نے بولا یہاں سے جاو ۔۔۔۔ دیا اونچی آواز میں چیخی
شاہ چپ چاپ وہاں سے چلا گیا
ہوں آیا بڑا مجھ سے ملنے والا تمھیں تو اتنی تکلیف دوں گی کہ تمھاری ساری
محبت ہوا ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔
دیا نے اسے جاتا دیکھ ہنکارا بھرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم بہت برا کر رہی ہو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
اور مجھے دیکھو میں جس کے سامنے کوئی بولنے کی ہمت نہیں کر پاتا
وہ تمھارے سامنے بے بس کھڑا تمھاری
ہر بات چپ چاپ سن کر آ گیا
واہ رے عشق تو بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے
محبوب کی گالیاں بھی محبت ہی لگتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ اپنی حالت پر ہنس رہا تھا
اور ساتھ میں دل ہی دل میں دیا سے مخاطب تھا
وہ اس وقت اپنے روم میں موجود تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح دیا فریش سی ناشتے کی ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئی
وہاں سب موجود تھے
دیا نے بنا کسی کو مخاطب کیے ناشتا کرنا سٹارٹ کیا
سب اسے دیکھ رہے تھے جو کسی کی بھی پرواہ کیے اپنے ناشتے میں مگن تھی
ایسے کیا دیکھ رہے ہیں آپ سب ۔۔۔۔۔۔۔
ناشتا تو ہی کر رہی ہوں
دیا نے سب کی طرف دیکھا اور ان سے پوچھا
اور ہاں مسڑ مراد شاہ آپ کب مجھے میرے حصے کی جائیداد دے رہے ہیں
وہ اب دار جی سے مخاطب تھی
بیٹا دادا ہیں یہ تمھارے انہیں دادا کہو نام نا لو ان کا یہ بد تمیزی ہوتی ہے
سکندر صاحب نے پیار سے اسے سمجھایا
او پلیز آپ مجھے نا سمجھائیں مجھے کیا کرنا ہے مجھے پتا ہے مجھے کیا کرنا ہے
اور کس کو کس طرح ٹریٹ کرنا ہے
اور آپ مجھے سمجھانے کی بجائے آپ اپنے بزنس پر دھیان دیں جو دن بدن
خسارے میں جارہا ہے
دیا بد تمیزی سے ان کے سامنے بول رہی تھی
اسکا مطلب ہے تم ہی ہو جس کی وجہ سے میرا بزنس خسارے میں جا رہا ہے
سکندر صاحب نے شک کا اظہار کیا
جی بلکل وہ میں ہی ہوں ۔۔۔۔۔ ابھی تو میں نے آپ سب کو اور بھی برباد
کرنا ہے آپ کو آسمان سے زمین پر لے آؤں گی
وعدہ رہا آپ سب سے ۔۔۔۔
وہ جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بول رہی تھی
تم کیا چاہتی ہو ۔۔۔۔۔ دار جی نے اس سے پوچھا ان کے لہجے میں پہلے جیسی
کڑک نہیں تھی
حیدر صاحب کی موت نے ان کو اندرسے توڑ کر رکھ دیا تھا
آپ سب کو برباد کرنا چاہتی ہوں آپ سے اپنے پاپا کی موت کا بدلہ لینا چاہتی ہوں
آپ کی وہ انا اور اصول جن کی وجہ سے
میرے پاپا مجھے چھوڑ کر چلے گئے ان کو توڑنا چاہتی ہوں
وہ بے دردی سے بول رہی تھی بنا اس بات کی پرواہ کیے کہ اس کے الفاظ کا ان سب پر کیا اثر ہو رہا ہے
اپنی بات پوری کرکے وہ وہاں رکی نہیں تھی
اور اٹھ کر اپنے روم میں چلی گئی تھی
اور وہاں سب اسے جاتا دیکھتے رہ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں کر رہی ہو تم ایسا آج تم نے کتنا برا بی ہیو کیا ہے دار جی کے ساتھ ان کی تب سے طبیعت خراب ہو گئی ہے
شاہ اس وقت دیا کے پاس اس کے روم میں موجود تھا
تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے ۔۔۔۔۔
اور جو کچھ تمھارے دار جی کے ساتھ ہو رہا وہ ان کی اپنی وجہ سے ہو رہا ہے
لگتا ہے کل کی بے عزتی بھول گئے ہو
جو آج پھر منہ اٹھا کر میرے پاس آ گئے ہو
بڑے ہی ڈھیٹ ہو تم تو ماننا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔
دیا نے بدتمیزی کی ہر حد پار کر دی تھی
دیا اپنی بات مکمل کر کے وہاں سے جانے لگی تو شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے روکا
ہاتھ چھوڑا میرا ۔۔۔۔ دیا چیخی
نہیں چھوڑ تا جو کرنا ہے کر لو اور مجھ سے یہ تم پوچھو کہ میں تمھارا کون ہوتا ہوں
تم اچھے سے جانتی ہو میں تمھارا
کیا لگتا ہوں
جس بات کی وجہ سے تم دار جی کے ساتھ بلکہ ہم سب کے ساتھ برا کر رہی ہو
وہ بات مجھ سے شئیر کرو
ہم مل کر اس کا حل نکال لیں گے
شاہ نرمی سے بول رہا تھا
دیا نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کروایا
اور ٹیبل پر پڑی چھری اٹھا کر اپنے اس ہاتھ کی ہتھیلی پر کافی گہرا کٹ لگایا
جو کچھ دیر پہلے شاہ نے پکڑا تھا اسے جانے سے روکنے کے لیے
یہ سب اتنی جلدی ہوا
کہ شاہ کو موقعہ بھی نا مل سکا کہ وہ دیا کو یہ کرنے سے روک پاتا
دیا ۔۔۔۔ یہ کیا کیا ہے تم نے کتنا خوب بہہ رہا ہے
شاہ پریشانی سے اسکی طرف بڑھا اور اسکا ہاتھ تھامنے لگا تو دیا فورا بول اٹھی
مجھے اب ہاتھ نا لگانا ورنہ میں اپنے ساتھ اس سے بھی برا کروں گی
یہ جو میں نے اپنا ہاتھ زخمی کیا ہے یہ اس وجہ سے کہ
تم نے اس ہاتھ کو پکڑا تھا
اب مجھے ہاتھ لگانے سے پہلے سوچ لینا میرے جسم کے جس بھی حصے کو چھو گے
میں اسی حصے کو زخمی کر لوں گی
دیا بے دردی سے بولتی اسے حیران کر گئی تھی
وہ حیرا ن تھا کہ میرے ہاتھ لگانے کی وجہ سے اس نے اپنے ساتھ کیا کر لیا
ہے
شاہ کو دکھ بھی بہت ہوا تھا کہ وہ اس سے اتنی نفرت کرتی ہے کہ اسے اسکا ہاتھ
تک پکڑنا اسے ناگوار گزرا تھا
اچھا نہیں لگاتا ہاتھ تم میرے ساتھ چلو ڈاکڑ کے پاس چلتے ہیں
پٹی کروانے بہت خون بہہ رہا ہے
شاہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا
جو غصے میں آ کر اپنا ہی نقصان کر رہی تھی
نہیں تم جاو میں خود ہی پٹی کر لوں گی ۔۔۔۔
دیا اس وقت وقت بہت تکلیف میں تھی لیکن اس کی آنکھ سے
ایک بھی آنسو نہیں نکلا تھا وہ شاہ کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی
ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں نوراں خالہ کی بیٹی کو بھیج رہا ہوں اس سے پٹی کروا
لینا ۔۔۔۔
شاہ اس کو ایک نظر دیکھتا ہوا وہاں سے چلا گیا جس کا چہرہ درد ضبط کرتے کرتے سرخ ہو گیا تھا
اس کے جاتے ہی وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو
دی
اسے اس وقت حیدر صاحب بہت یاد آ رہے تھے
پاپاآ جائیں نا آپ کی پرنسز کو اس وقت بہت درد ہو رہا ہے
آ جائیں نا واپس پلیز ۔۔۔۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے انہیں پکار رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا تمھیں چھونا اتنا برا لگتا ہے کہ تم نے اپنا ہاتھ ہی زخمی کر لیا
کیوں کرتی ہوں تم مجھ سے اتنی نفرت
میں نے تو ہمیشہ تم سے محبت ہی کی ہے پھر کیوں مجھے بدلے میں محبت کی بجائے نفرت دے رہی ہو
میرا کیا قصور ہے
شاہ اپنے روم میں بیٹھا دیا سے دل میں شکوے کر رہا تھا
شاہ ۔۔۔۔۔۔۔
دار جی اس کے کمرے میں آئے اور اسے روتے ہوا دیکھ
تڑپ اٹھے
کیا ہوا ہے نیچے کیوں بیٹھے ہو اور رو کیوں رہے ہو
دار جی نے اسے اٹھایا اور اپنے مقابل کھڑا کیا
دار جی میں نے دیا کا ہاتھ پکڑ لیا تھا آج اس نے میرے ہاتھ پکڑنے
کی وجہ سے اس نے اپنا وہی ہاتھ زخمی کر لیا ہے
بہت گہرا زخم لگا ہے اسے بہت خوب بہا ہے دار جی
اس کو تکلیف میں دیکھ کر مجھے درد ہو رہا ہے
ایسا لگ رہا ہے جیسے اسے نہیں مجھے زخم لگا ہے اسے نہیں
وہ کیوں ایسا کر رہی ہے میرے ساتھ میں نے تو اس کے ساتھ کچھ بھی برا نہیں کیا
وہ مجھے میری محبت کی سزا دے رہی ہے
وہ نفرت کرتی ہے دار جی مجھ سے ۔۔۔
کیوں دار کیوں بتائیں نا ۔۔۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے بچوں کی طرح بول رہا تھا
جیسے بچے کو اسکی پسند کی چیز نا ملے تو وہ اپنے بڑے کے پاس آتا ہے
شاہ کا بھی یہی حال تھا وہ بھی دار جی کے سامنے اپنا دکھ بیان کر رہا تھا ان سے اپنے دل کی باتیں کہہ رہا تھا
دار جی آنکھیں بھی نم ہو گئیں تھیں شاہ کو
اس حالت میں دیکھ کر
آپ اسے کہیں نا وہ مجھ سے نفرت نا کرے
اسے سمجھائیں نا دار جی ۔۔۔۔۔۔۔
اچھا تم فکر نا کرو میں اس سے بات کروں گا تم سنبھالو خود کو
دار جی نے اسے تسلی دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
Update. 10

ارے واہ آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں مجھ سے ملنے ۔۔۔۔
دیا درا جی کو اپنے روم میں دیکھ کر بولی
تم کیوں شاہ کو تکلیف دے رہی ہو اس کا اس سب میں کوئی قصور نہیں ہے
وہ تمھارا شوہر ہے کوئی غیر تو نہیں جس
کے ہاتھ لگانے پر تم نے خود کو زخمی کر لیا ہے
تمھاری وجہ سے شاہ اپنے کمرے میں بیٹھا رو رہا ہے
تمھاری تکلیف پر وہ تڑپ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
دار جی بولے
واہ ۔۔۔۔۔۔مطلب تیر اس بار بھی نشانے پر لگا ہے
وہ خوش ہوتے ہوئے بولی
دار جی حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے
کہ میں اس سے کیا بات کر رہا ہوں اور یہ کیا جواب دے رہی ہے
اور اوپر سے خوش بھی ہو رہی ہے
ارے حیران نا ہوں میں بتاتی ہوں میں کیوں خوش ہوں
میں جانتی ہوں شاہ آپ کی کمزروی ہے آپ کا لاڈلا پوتا ہے اس تکلیف آپ کو
تڑپا دیتی ہے
اور آپ کا شاہ میرے عشق میں پاگل ہے ہے نا بے وقوف آپ کا شاہ جو اس
سے نفرت کرتی ہے جو اسے دیکھنا تک گوارہ نہیں
کرتی اسکی وجہ سے مرد ہو کر رو رہا ہے
شاہ تکلیف میں ہے تو آپ بھی اس وقت تکلیف میں ہیں اس لیے تو دوڑے چلے
آئے میرے پاس شاہ کی بات کرنے
میرا یہی تو پلین تھا کہ آپ کی کمزوری پر وار کروں جو آپ کو اندر سے ہلا
کر رکھ دے اور میرا یہ پلین کام کر رہا ہے
ابھی تو میں آپ کو اور آپ کے لاڈلے کو اور تڑپاوں گی تکلیف دوں
گی آپ کی انا کو توڑ کے رکھ دوں گی
دیا نے ان کی حیرانی اچھے سے دور کر دی تھی
کیا لو گی شاہ کو چھوڑنے کے بدلے میں ۔۔۔۔۔۔
دار جی بولے
میں نے چھوڑا تو تھا آپ کے شاہ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے بعد اس کی حالت دیکھ تو لی ہو گی آپ نے
اب اگر میں گئی تو آپ کا لاڈلا مر جائے گا
دیا سفاکی سے بولتی ان کے دل پر وار کر گئی تھی
خبر دار جو تم نے شاہ کے بارے میں آئیندہ ایسا کہا تو اللہ میرے شاہ کو میری بھی زندگی لگا دے
دار جی شاہ تڑپ اٹھے تھے
مت کرو شاہ کے ساتھ ایسا تم جو کہو گی میں کرنے کو تیار ہوں
دار جی ہارے ہوئے لہجے میں گویا ہوئے
وہ جانتے تھے کہ ان کا پوتا اس سے کتنی محبت کرتا ہے
وہ واقعے میں اس کے بغیر مر جائے گا
میرے پاپا مجھے لوٹا دیں میں شاہ کو دل سے قبول کر لوں گی اسے کسی شکایت
کا موقع نہیں دوں گی
بولیں دیں گے میرے پاپا مجھے واپس ۔۔۔۔۔
دیا کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اسکے گال بھگو گئے تھے
میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں اسے کیسے واپس لا سکتا ہوں
یہ میرے بس کی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ دار جی بولے
تو پھر جو آپ چاہتے ہیں وہ بھی میرے بس کی بات نہیں ہے میں وہی کروں گی
جو میرا دل کہے گا
اور مجھے دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی سمجھے آپ
اب آپ جا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا بد تمیزی کی ہر حد پار کر چکی تھی
دار جی وہاں سے چپ چاپ چلے گئے کیونکہ جو وہ مانگ رہی تھی وہ اسے نہیں دے سکتے تھے
ان کے جانے کے بعد وہ تیار ہونے چلی گئی کیونکہ اسے اسفند صاحب کے گھر جانا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔ علی کیسے ہیں آپ
میں ٹھیک ہوں تم سناو کیسی ہو اور کب واپس آو گی ہم سب تمھیں بہت مس کر رہے ہیں
جی میں بھی ٹھیک ہوں اور آج ہی آ رہی ہوں آپ کے پاس
دیا نے اسکی بات کا جواب دیا
وہ تیار ہونے کے ساتھ ساتھ علی سے بات کر رہی تھی
اس نے فون سپیکر پر لگایا ہوا تھا
واہ یہ تو اچھی بات ہے جلدی آو پھر میں بے صبری سے تمھارا انتظار کر رہا ہوں
علی چہکتے ہوئے بولا
کیوں بھئی میرا انتظار کیوں کیا جا رہا ہے اور آپ اتنا خوش کیوں ہو رہے ہیں
دیا نے اس سے اسکی خوشی کی وجہ پوچھی
تم آو گی تو تمھیں اس سے ملواوں گا جس سے میں محبت کرتا ہوں اگر تم نا آئی تو وہ بھی نہیں آئے گی
کیا مطلب وہ بھی نہیں آئے گی ۔۔۔۔۔
دیا نے علی کی بات پر حیرانگی سے پوچھا
آو گی تو سب پتا چل جائے گا ۔۔۔۔۔
اچھا اب میں آفس کا کام ختم کر لوں پھر رات کو ملتے ہیں ۔۔۔
اوکے ٹھیک ہے اللہ حافظ ۔۔۔۔۔۔
دیا نے فون بند کر دیا
جیسے ہی وہ دروازے کی طرف مڑی اس نے شاہ کو دروازے
میں کھڑا پایا
اسے دیکھ کر دیا کی پیشانی پر بل پڑ گئے
شاہ اسکے پاس کچھ فاصلے پر کھڑا ہو گیا
کیوں آئے ہو یہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی کون ہے میں نے اسے ایک دن تمھارے ساتھ ریستورینٹ میں بھی دیکھا
تھا اس کے ساتھ تو تم بہت ہنس ہنس کر
باتیں کرتی ہو
شاہ اس سے استفسار کر رہا تھا
اس نے دیا کو ہاتھ لگانے کی غلطی نہیں کی تھی کیوں کہ اسے پتا تھا وہ اس کے ہاتھ لگانے پر کیا کرے گی
تم سے مطلب تم اپنے کام سے کام رکھو میرے معاملے میں
ٹانگ تم اَڑاو سمجھے
دیا نے اسے غصے سے گھورا
کیوں میں تم سے نا پوچھوں میں شوہر ہوں تمھارا ہر حق رکھتا ہوں تم پر ۔۔۔
شاہ کو اب اس کی باتوں پرغصہ آ رہا تھا
تم مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتے ہو اور نا ہی میں نے تمھیں خود پر کوئی حق دیا ہے
اس بات کو اپنے دماغ میں بیٹھا لو اچھا رہے گا تمھارے لیے
دیا نے اسکے پاس جاتے ہوئے اسکے کان میں سرگوشی کی
اسکا نازک سا خوشبو ں سا وجود شاہ کے ہواس پر طاری ہو رہا تھا
وہ اپنی تمام تو خوبصورتی کے ساتھ شاہ کے اتنے قریب تھی کہ شاہ اسکی سانسوں تک کو محسوس کر سکتا تھا
دیا اسے بت بنا چھوڑ کر اپنا ہینڈ بیگ موبائیل اور گاڑی کی چابی لے کر روم سے چلی گئی
جیسے ہی وہ لاونج میں پہنچی اس کا سامنا صفیہ خاتون سے ہوا
وہ ان کو اگنور کرتی ہوئی وہاں سے جانے لگی لیکن ان کی پکار نے اس کے قدم روک لیے
بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے دیا کو پکارا
جی بولیں ۔۔۔۔۔ دیا نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا
بیٹا مجھ سے کیسی ناراضگی میرا تو سارے قصے میں کوئی بھی قصور نہیں ہے میں نے تو ہمیشہ حیدر کے بابا سے اسکی سفارش ہی کی تھی
لیکن انہوں نے آج تک میری ایک بھی نا سنی اور میرا بیٹا مجھے چھوڑ کر چلا گیا
وہ روتے ہوئے بولیں
دیا کو انہیں دیکھ کر افسوس اور دکھ ہوا
وہ جانتی تھی کہ جو بھی آج تک ہوا ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے
میں آپ سے ناراض نہیں ہوں
دیا نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے ان کے دونوں ہاتھ تھام لیے
انہوں نے دیا کو لگے سے لگا لیا
انہیں دیا سے اپنے بیٹے حیدر کی خوشبو آ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کا حیدر ان کے لگے لگا ہوا ہے
ان کے پاس ہے
دیا کی آنکھیں بھی ان کے گلے لگ کرنم ہو گئیں
اچھا اب میں چلتی ہوں مجھے اسفند انکل کی طرف جانا ہے پھر وہاں سے میں اپنے گھر چلی جاوں گی
آپ سے مل کر اچھا لگا
دیا ان سے الگ ہوتے ہوئے بولی
اچھا خیر سے جاو بیٹا واپس کب آو گی ۔۔۔۔
واپسی کا تو کوئی پتا نہیں کیونکہ مجھے آسف بھی جانا ہوتا ہے پہلے ہی میں دو دن کے لیے سب کچھ مینجر کے حوالے کر کے آئی ہوں
پتا نہیں کیا ہوا ہو گا ان دونوں میں میرے پیچھے
جب بھی ٹائم ملا آپ سے ملنے ضرور آو گی
دیا بولی
اچھا ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے اسکی پیشانی چومی
اللہ حافظ ۔۔۔۔۔
اللہ حافظ بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔
دیا باہر کی طرف چل دی جہاں اسکا ڈرائیور اور گارڈ اسکا انتظار کر رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں جی اب بتائیں کون ہے جس سے آپ محبت کرتے ہیں
وہ اس وقت علی کے ساتھ اسکے آفس میں موجود تھی
میں جس سے محبت کرتا ہوں اسکا نام وانیہ ہے
علی مسکراتے ہوئے گویا ہوا
آپ کی سیکڑی وانیہ ۔۔۔۔۔اس کی بات کر رہے ہیں
دیا نے اس سے پوچھا
ہاں اسی کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔ علی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا جو اب اسے گھور رہی تھی
میری ناک کے نیچے اتنا سب کچھ ہوتا رہا اور مجھے پتا بھی نا چلا
دیا نے اسے مسکراتے ہوئے گھوری سے نوازہ
اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے میں نے تمھیں بتایا تو تھا کہ میں کسی سے محبت
کرنے لگا ہوں
اب مجھ پر الزام تو نا لگاو اٹس ناٹ فئیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی نے معصوم سامنہ بنایا
چلو کوئی نہیں معاف کیا آپ کو کیا یاد کریں گے
اب یہ بتائیں شادی کب کر رہے ہیں اور وانیہ جانتی ہے کہ آپ اس سے محبت
کرتے ہیں
نہیں میں نے وانیہ سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی سیدھا اس کے گھر رشتہ ہی لے کر جاوں گا
اور شادی تو تب ہو گی جب رشتہ پکا ہو گا اور تمھیں میری بہن ہونے کے
ناطے میری شادی کی بات ماما پاپا سے کرنی ہے اور میری شادی کی ساری
شاپنگ کرنے میں میری مدد بھی کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
علی بولا
ٹھیک ہے جیسے میرے بھائی کا حکم ۔۔۔۔۔
اس نے اپنا سر تسلیم خم کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے ہیں دار جی آپ سب نے مجھے بتایا کیوں نہیں ۔۔
شاہ ، ان سب سے غصے کا اظہار کر رہا تھا
دار جی اس وقت ایمرجنسی میں موجود تھے ان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا
شاہ کام کے سلسلے میں اسلام آباد گیا ہوا تھا جب دار جی کو اٹیک ہوا
اتفاق سے سکندر صاحب اس وقت حیویلی آئے ہوئے تھے جب دار جی
کی طبیعت خراب ہوئی تھی وہ انہیں اور صفیہ خاتون کو لے کر ہوسپٹل
آ گئے تھے
جہاں دار کی کو ایمرجنسی میں ایڈمیٹ کیا گیا
ابھی ڈاکڑ اندر ہی ہیں جب باہر آئے گا تو پتا چلے گا تم بس دعا کرو ۔۔۔۔۔
سکندر صاحب نے اسے حوصلہ دیا
جو پریشانی سے ادھر سے اُدھر سے ٹہل رہا تھا
شاہ نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا
اتنے میں ڈاکڑ باہر آیا
کیسے ہیں وہ ڈاکڑ ۔۔۔۔۔ شاہ نے ڈاکڑ سے پوچھا
وہ اب ٹھیک ہیں خطرے کی کوئی بات نہیں ہے بس احتیاط کیجئے گا آئیندہ ان کو کوئی سٹریس نا ہو
نہیں تو ان کی طبیعت پھر سے خراب ہو جائے گی
کچھ دیر میں ہم انہیں روم میں شفٹ کر دیں گے آپ ان سے مل لیجئے گا
اور ہاں وہ بے ہوشی میں کسی دیا کا نام لے رہے ہیں
ہو سکے تو انہیں بلوا لیں وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں
ڈاکڑ اپنی بات مکمل کر کے وہاں سے چلا گیا
شکر ہے اللہ کا ۔۔۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے اللہ کا شکر ادا کیا
سب نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا
بیٹا تم فون کر کے دیا کو بلا لو ۔۔۔۔۔ زرنور بیگم نے شاہ سے کہا
ٹھیک ہے میں کل کرتا ہوں پر دادو آپ بات کریں گی اس سے میری آواز سنتے
ہی اس نے کال کاٹ دینی ہے
شاہ نے کہتے ساتھ ہی کال ملا کر صفیہ خاتون کو موبائیل دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم کیسی ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔دیا نے ان سے پوچھا
میں تو ٹھیک ہوں بیٹا پر ۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا ہے آپ بولیں پر کیا ۔۔۔۔۔ دیا نے پریشانی سے پوچھا
تمھارے دادا کی طبیعت خراب ہے وہ اس وقت ہوسپٹل میں ہیں تم سے ملنا
چاہتے ہیں آ جاو تم یہاں ۔۔۔۔۔۔۔
صفیہ خاتون بولیں
ٹھیک ہے میں آتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا نے ان سے ہوسپٹل کا اڈریس پوچھ کر کال بند کر دی
کیا ہوا دیا کس کا فون تھا
علی نے اس سے پوچھا وہ ابھی بھی علی کے ساتھ اس کے آفس میں تھی
جب صفیہ خاتون کا فون آیا تھا
دادو کا فون تھا وہ دادا کی طبیعت خراب ہے مجھ سے ملنا چاہتے ہیں
دیا نے اسکی بات کا جواب دیا
تو جاو تم بلکہ میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں ۔۔۔۔۔
علی بولا
ٹھیک ہے چلیں ۔۔۔۔۔
دیا اس کے ساتھ ہوسپٹل آ گئی
جہاں سب پہلے سے موجود تھے
اسلام علیکم ۔۔۔۔دیا اور علی نے سب کو سلام کیا
وعلیکم اسلام ۔۔ سب نے جواب دیا
شاہ علی کو گھور رہا تھا اسے علی کا دیا کے ساتھ گھومنا پھرنا اچھا نہیں لگتا تھا
جاو مل لو ان سے ۔۔۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے اسے اندر جانے کا بولا
وہ سر ہلاتی ہوئی اندر داخل ہوئی
دار جی اس وقت ہوش میں آ چکے تھے
وہ اس کو اندر آتا دیکھ چکے تھے
دار جی نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا
پتا نہیں کس طاقت کے تحت اس کے قدم دار کی جانب اٹھنے لگے
وہ خود کو دار جی کے پاس نہیں روک پائی
وہ اب ان کے بیڈ کے پاس کھڑی تھی
بیٹا مجھے معاف کر دو میں پہلے ہی بہت دکھی ہوں میری وجہ سے میرا بیٹا
مجھے چھوڑ کے چلا گیا
دار جی نے روتے ہوئے اپنے ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیئے
نہیں ۔۔۔۔۔ دیا نے تڑپ کے ان کے دونوں ہاتھ پکڑ کر ان کے بندے ہوئے ہاتھ کھول دیئے
اور روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا
آپ مجھ سے معافی نا مانگیں معافی تو مجھے آپ سے مانگنی چاہیئے میں نے آپ کے ساتھ بہت بد تمیزی کی ہے
پلیز آپ مجھے معاف کر دیں
وہ روتے ہوئے بول رہی تھی
معافی نا مانگوں بیٹا میں جانتا ہوں تم پر کیا گزری ہو گی جب تمھارا باپ تمھیں اکیلا
چھوڑ کر چلا گیا تھا
اس کی جدائی تمھارے لیے بہت بڑا دکھ تھا اور تم اس وقت تھی بھی اکیلی
تم نے جو بھی کیا وہ تمھاری اپنے باپ سے محبت تھی
جس کے تحت تم نے سب کیا
دار جی بولے
وہ ان کے سینے پر سر رکھ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی
دار جی اسکا سر اور کمر سہلا رہے تھے انہیں ایسا لگا جیسے ان کا بیٹا کئی سال بعد
ان کے گلے لگا گیا ہے
دیا کو بھی ان سے اپنے پاپا کی خوشبو آ رہی تھی
اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اپنے پاپا کی آغوش میں ہے
اچھا بیٹا اب اور رو نا بس اور نہیں رونا ۔۔۔۔۔۔۔
دار جی بولے
تو اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے اور دار جی کے بھی آنسو
صاف کیے
اب مسکرا کر دکھاو ۔۔۔۔ دار جی کے بولنے پر وہ مسکرادی
جس سے اس کے ڈمپل نمودار ہوئے
دار جی بھی اسے دیکھ کر مسکرا دیئے
اتنے میں سب اندر داخل ہوئے اور ان کو مسکراتا دیکھ سب
خوشی سے کھل اٹھے
صلہ ہو گئی دادا پوتی میں ۔۔۔۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے ان سے پوچھا
ہاں ہو گئی میری پوتی بہت اچھی ہے ۔۔۔۔۔۔ دار جی مسکراتے
ہوئے بولے
اور میں دار جی شاہ بولا
تم بھی اچھے ہو پر دیا سے کم ۔۔۔۔۔ دار جی مسکرا رہے تھے
یہ تو غلط بات ہے دار جی آپ نے پارٹی بدل لی ہے
شاہ نے منہ بناتے ہوئے شکوہ کیا
سب شاہ کے شکوے پر مسکرا دیئے سوائے دیا کے وہ بلکل سنجیدہ بیٹھی تھی
دیا نے شاہ کے علاوہ باقی سب سے بھی اپنے برے رویے اور بدتمیزی کے لیے ان سے معافی مانگی
سب نے کھلے دل سے اسے معاف کر دیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاپا کیوں چلے گئے آپ مجھے چھوڑ کر ۔۔۔
کوئی بھی نہیں ہے جس سے میں اپنے دل کا حال اپنا دکھ کہہ سکوں
بہت سے لوگ ہیں میرے ادرگرد پر آپ کی
کمی کوئی بھی پوری نہیں کر سکتا
جب بھی ڈر لگتا ہے تکلیف ہوتی ہے آپ کی یاد بہت آتی ہے
پر آپ میرے پاس نہیں ہوتے
آپ کی جدائی اور مجھ سے سہی نہیں جاتی
میں دن بدن اندر سے ختم ہو رہی ہوں
آپ میرے لیے دعا کریں نا کہ اللہ یا تو مجھے آپ کی جدائی سہنے کا حوصلہ اور ہمت
دے دے یا پھر مجھے آپ کے پاس بلا لے
اور مجھ سے نہیں سہا جاتا آپ کی پرنسز آپ کو بہت مس کرتی ہے
وہ روتے ہوئے ان کی تصویر کو کبھی سینے سے لگاتی کبھی چومتی اور کبھی اس پر پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھی
رو رو کر اس نے اپنی آنکھیں سوجا لی تھیں
اس کی ہچکیاں بند گئیں تھیں
شاہ کافی دیر سے اسکے روم کے دروازے پر کھڑا دکھ سے اسے روتے ہوئے دیکھ
رہا تھا
اب اسے اور برداشت نا ہوا وہ دیا کے پاس آ گیا
دیا ۔۔۔۔۔
شاہ اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا
اس نے اپنی سرخ ہوئی آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا
ان سے کہو نا وہ آ جائیں واپس میں نہیں رہا جا رہا مجھ سے ان کے بغیر
دیا اپنے حواسوں میں نہیں تھیں
اس لیے شاہ سے اسطرح بات کر رہی تھی
ورنہ وہ تو شاہ کو دیکھنا تک گورا نہیں کرتی تھی بات کرنا تو دور کی بات تھی
جہاں وہ گئے ہیں وہاں سے وہ کبھی بھی واپس نہیں آ سکتے ہیں
اسطرح نا رو تمھارا اس طرح رونا تڑپنا ان کی روح کو کتنی تکلیف دیتا ہو گا
خود کو سنھبالو
تم اپنا ہر درد ہر خوف ہر تکلیف مجھ سے شئیر کر سکتی ہو
میں ہوں نا تمھارے لیے
شاہ نے اسکے ہاتھ ہر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا
دیا نے ااسکے قریب ہوتے ہوئے اپنا سر اسکے سینے پر ٹکا دیا
شاہ نے اسکے گرد اپنے بازوؤں کا حصار بنا لیا
کیوں چلے گئے وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے اسکے سینے سے لگے بول رہی تھی
نا رو پلیز تمھارے آنسو میرے دل پر گر رہے ہیں مجھے تکلیف دے رہے ہیں
شاہ نم لہجے میں بولا
دیا کے رونے میں اور تیزی آ گئی
اپنے پاپا کے جانے کے بعد اسکو پہلا سہارا ملا تھا جس کے ساتھ وہ اپنا دکھ بانڈ سکتی تھی
شاہ نے اسے زور سے خود میں بھینچ لیا
وہ اسکے بازوں میں بری طرح ٹوٹ رہی تھی
دیا ۔۔۔ کافی دیر کے بعد شاہ نے اسے پکارا
لیکن اسکی طرف سے کوئی جواب نا آیا
شاہ نے اسے خود سے دور کرتے ہوئے اسے دیکھا تو وہ سو چکی تھی
اس نے احتیاط سے اسے لیٹا دیا اور اس پر اچھے سے کمفرٹر اوڑھ دیا
جیسے ہی شاہ وہاں سے جانے لگا
دیا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا
شاہ نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا تو اسکی آنکھیں بند تھیں
شاہ نے اپنا ہاتھ چھوڑوانا چاہا دیا کے ہاتھ سے پر دیا نے اسکا ہاتھ نا چھوڑا
مجبورا اسے دیا کے پاس بیٹھنا پڑا
پلیز نا جاو ۔۔۔ دیا سوتے میں بڑبڑائی
شاہ اسکی بڑبڑاہٹ سن چکا تھا
جان اذلان ایک موقعہ تو دو مجھے میں تمھارے سارے دکھ خود میں سمیٹ لوں گا
تمھاری زندگی خوشیوں سے بھر دوں گا
شاہ نم لہجے میں بول رہا تھا
شاہ نے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیئے
اس نے اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے ٹکا دیا
شاہ اسکے پاس ہی لیٹ گیا شاہ کا ہاتھ ابھی تک دیا کے ہاتھ میں ہی تھا
دیا سوتے میں ہی اسکے سینے پر اپنا سر ٹکا چکی تھی
شاہ کا دل اسکی اس درجہ قربت پر بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا
جان اذلان کیوں میرا امتحان لینے پر تلی ہوئی ہو کیوں میرے اتنے قریب آ گئی ہو میں تو پہلے ہی تمھارے لیے بہت تڑپا ہوں
شاہ اس سے کہہ رہا تھا جو نیند کی وادیوں میں گم اسکے اتنے قریب تھی کہ شاہ اسکی سانسیں اپنے سینے پر محسوس کر سکتا تھا
صبح تم مجھے اپنے اتنے قریب دیکھ کر غصہ کرو گی
اور میرا ہی قصور نکالو گی
شاہ نے اپنے دل اور جزبات پر قابو پاتے ہوئے اسے خود سے دور کرنا چاہا تو دیا نے اسکی شرٹ اور زور سے پکڑ لی
شاہ نے بھی ہار مانتے ہوئے اسکے گرد اپنے بازوں کا حصار بنا لیا اور اسے اپنے بازووں میں چھپا لیا
کافی دیر شاہ جاگتا رہا اور اسے محسوس کرتا رہا
بہت محبت کرتا ہوں میں تم سے عشق ہو تم میرا
میری محبت کو مجھے قبول کر لو پلیز ۔۔۔۔۔۔
شاہ سوئی ہوئی دیا سے مخاطب تھا
کچھ ہی دیر بعد شاہ پر بھی نیند کی دیوی مہربان ہو گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
او ہیلو مسڑ اٹھو ۔۔۔۔۔۔
دیا نے اسے جھنجوڑا جو ابھی تک سو رہا تھا
دیا کی آنکھ اگلے دن بارہ بجے کھلی تھی اور شاہ کو اپنے بیڈ پر اپنے اتنا قریب
پا کر اسکا پارا ہائی ہو گیا تھا
وہ اب شاہ کو جاگا رہی تھی جو ابھی تک سویا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Top