Romance عشق تیرا لگتا ہے ضروری (Completed)

Newbie
33
12
8
قسط نمبر 11

شاہ نے مندی مندی سی آنکھیں کھولیں تو دیا کو خود کو گھورتے ہوئے پایا
وہی ہوا نا جس کا خدشہ تھا شاہ نے دل میں سوچا اور اٹھ بیٹھا
تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔
دیا نے اس سے سخت لہجے میں پوچھا
تم نے ہی روکا تھا اس لیے رک گیا ۔۔۔۔۔
شاہ نے اطمینان سے جواب دیا
میں نے روکا تھا تو تم کیوں رکے ویسے بھی اس وقت میں اپنے حواسوں میں نہیں تھی
کیوں کر رہی ہو تم میرے ساتھ ایسا
تم سب سے صلح کر چکی ہو پھر مجھے ہی کیوں اگنور کرتی ہو مجھ سے برے طریقے
سے پیش آتی ہو آخر کیوں
میں تمھاری بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی ہوں اور اب تم نکلو یہاں سے
دیا جزبات سے عاری لہجے میں گویا ہوئی
ایسے تو نہیں جانے والا میں پہلے وجہ بتاو۔۔۔۔۔
شاہ جانے کو تیار نہیں تھا وہ وہی اڑ کر بیٹھ گیا
دیا مسلسل اسے گھور رہی تھی
کوئی وجہ نہیں ہے تم جاو یہاں سے
نہیں جاوں گا پہلے وہ وجہ بتاو۔۔۔۔
میں تم سے نفرت کرتی ہوں ۔۔۔سن لیا اب جاو
تم مجھ سے نفرت نہیں کرتی ہو یہ بات میں جانتا ہوں
میں نے کئی بار تمھاری آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھی ہے جسے تم چھپانے کی کوشش کرتی ہو
کوئی نہیں ہے مجھے تم سے محبت ۔۔۔۔۔۔دیا چیخ ہی پڑی تھی
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہی بات کہو ایک بار ۔۔۔۔۔
دیا نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں صرف اسکے محبت ہی محبت تھی
کیوں نہیں جارہے ہو پلیز چلے جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔
دیا منت بھرے لہجے میں بولی
تم کیوں کر رہی ہو مجھے خود سے دور کیوں خود کو اور مجھے تکلیف دے رہی ہو
مان جاو نا اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو مجھے معاف کر دو
میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں
شاہ نے اسکے آگے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے
شاہ کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں
دیا نے روتے ہوئے اسکے دونوں ہاتھ تھام لیے
میں تمھاری زندگی میں شامل ہو گئی تو تمھاری زندگی مشکل ہو جائے گی
میں آج تک اپنے پاپا کے علاوہ کسی سے کلوز نہیں ہو پائی
اپنی نیچر کی وجہ سے
تم سے دور اس لیے رہتی ہوں تاکہ میری وجہ سے تمھیں مشکل نا ہو
اگر میں نے تم سے رشتہ قائم کر لیا نا تمھیں ایک پل کے لیے بھی خود سے دور نہیں جانے دوں گی
میں اس معاملے میں ایسی ہی ہوں
تم مجھ سے اکتا جاو گے مجھے چھوڑ دو گے اور میں مر جاو گی اگر ایسا ہوا تو ۔۔۔۔۔۔
اس لیے میں ایسا کچھ چاہتی ہی نہیں
تم اپنی زندگی گزارو اور میں اپنی ہمارے لیے یہی ٹھیک رہے گا
دیا شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہی تھی
تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمھیں چھوڑ دوں گا یا تم سے اکتا جاوں گا
مجھے قبول کر لو بدلے میں چاہے ساری عمر اپنے پاس ہی بیٹھائے رکھنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے
شاہ اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرے بول رہا تھا
مجھے کچھ ٹائم چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا نے اسے ٹالنے کی کوشش کی اور اس سے دور کھڑی ہو گئی
ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی ۔۔۔۔
پر زیادہ دیر نا کرنا کیا پتا میری زندگی کا میں رہوں یا نا رہوں
شاہ اس سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
دیا اسے جاتا دیکھتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لیے میں ایسا کچھ چاہتی ہی نہیں
تم اپنی زندگی گزارو اور میں اپنی ہمارے لیے یہی ٹھیک رہے گا
دیا شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہی تھی
تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمھیں چھوڑ دوں گا یا تم سے اکتا جاوں گا
مجھے قبول کر لو بدلے میں چاہے ساری عمر اپنے پاس ہی بیٹھائے رکھنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے
شاہ اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرے بول رہا تھا
تم جاو یہاں سے اس پر پھر کبھی بات کریں گے
دیا نے اسے ٹالنے کی کوشش کی اور اس سے دور کھڑی ہو گئی
ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی ۔۔۔۔
پر زیادہ دیر نا کرنا کیا پتا میری زندگی کا میں رہوں یا نا رہوں
شاہ اس سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
دیا اسے جاتا دیکھتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھوڑے بہت اچھے ہیں کیا میں ہارس رائیڈنگ کر سکتی ہوں ۔۔۔۔۔
دیا نے شاہ سے فرمائش کی
تمھیں آتی ہے ہارس رائیڈنگ ۔۔۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا
ہاں آتی ہے تھوڑی بہت ۔۔۔۔۔
دیا اور شاہ نے اس دن کے بعد اس بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی
آج وہ دونوں فارم ہاوس پر آئے ہوئے تھے
اچھا آو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔
شاہ اسے اپنے ساتھ لیے اپنے پسندیدہ گھوڑے کے پاس لے آیا
اسے گھوڑے پر بیٹھا کر خود اسے پیچھے گھوڑے پر بیٹھ گیا اور گھوڑے کی لگام
پکڑ لی
تم کیوں بیٹھے ہو ۔۔۔۔۔۔ دیا نے اپنے دھڑکتے دل کے ساتھ شاہ سے پوچھا
میرا بھی دل کر رہا تھا ہارس رائیڈنگ کرنے کو
شاہ شوخ لہجے میں گویا ہوا
کسی اور گھوڑے پر بیٹھو میرے ساتھ نہیں
دیا بولی
نہیں میں تو اسی گھوڑے پر بیٹھنا ہے
شاہ نے گھوڑے کو بھاگنا شروع کر دیا
کافی دیر بعد شاہ نے گھوڑا روکا اور خود نیچے اتر کر دیا کو بھی نیچے اتارا
دیا کا منہ بنا ہوا تھا
شاہ اسکا پھولا ہوا منہ دیکھ کر مسکرا دیا
مزا نہیں آیا کیا جو ایسے منہ پھولا رکھا ہے ۔۔۔۔۔
ہوں ۔۔ دیا ہوں کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
شاہ مسکراتا ہوا اس کے پیچھے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ فارم ہاو س سے حیویلی کی طرف جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی
کے آگے دو گاڑیاں آ رکی اور ان کے جانے کا راستہ بند
کر دیا
مجبورا شاہ کو گاڑی روکنا پڑی
ان گاڑیوں نے آٹھ لوگ باہر آئے شاہ کو خطرے کا احساس ہوا
یہ کیا ہو رہا ہے اذلان یہ لوگ کون ہیں اور ہماری طرف کیوں آرہے ہیں
دیا نے اس سے پوچھا
دیا فکر نہیں کرو میں ہو ں نا ۔۔۔۔
شاہ نے فورا گاڑی ریورس کی اور گاڑی بھاگنا شروع کر دی
وہ سب لوگ گاڑی میں سوار ہو کر شاہ کی گاڑی کا پیچھا کرنے لگے اور ان کی گاڑی پر گولیاں چلانے لگے
ایک گولی ان کی گاڑی کے ٹائر میں لگی جس کی وجہ سے گاڑی لڑکھڑا گئی
شاہ نے گاڑی بڑی مشکل سے کنڑول کی
گاڑی روک کر شاہ نے دیا کو اپنے ساتھ لیا اور بھاگنا شروع کر دیا
وہ لوگ بھی ان کا پیچھا کر رہے تھے
دیا اور شاہ جنگل میں پہنچ چکے تھے
دیا درخت پر چڑھنا آتا ہے شاہ نے اس سے پوچھا جو اس وقت ہرنی کے بچے کی طرح سہمی ہوئی تھی
دیا نے نفی میں سر ہلایا
اچھا میری کمر پر چڑھ جاو اور مجھے کس کے پکڑ لو ۔۔۔۔۔
دیا نے اسکی کمر کر چڑھ کے اسکو زور سے پکڑ لیا
شاہ اسے لیے ایک گھنے درخت پر چڑھ گیا جہاں وہ آسانی سے کھڑے ہو سکتے تھے
اور ان لوگوں سے چھپ بھی سکتے تھے
شاہ نے دیا کو درخت کے ساتھ کھڑا کیا اور خود اسکی طرف رخ کیے کھڑا ہو گیا
دیا اس کے چمٹ کر کھڑی تھی
دیا وہ لوگ ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں تم آواز نا نکالنا ورنہ ہم پکڑے جائیں گے
شاہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی
دیا نے اسکے ساتھ لگے ہی ہاں میں سر ہلایا
شاہ نے اپنا موبائیل سائیلنٹ موڈ پر کیا اور خدا کا شکر بھی کیا کہ اسکا موبائیل
پینٹ کی پاکٹ میں ہی تھا
وہ اکیلا ہوتا تو ان لوگوں سے لڑ کر ان کا منہ توڑ دیتا پر اس کے ساتھ دیا تھی جس کی وجہ سے اس سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی
وہ لوگ کافی ان کو ڈھونڈتے رہے اور ناکام ہو کر لوٹ گئے
ان کے جانے کے تقریبا آدھا گھنٹا بعد شاہ نے اپنے سیکڑی کو فون کر کے ان لوگوں کا پتا کرانے کا بولا
اور حیویلی فون کر کے ڈرائیور کو فون کر کے گاڑی یہاں لانے کا کہا
اور کتنی دیر یہاں رہنا ہے مجھ سے اور کھڑا نہیں ہوا جا رہا
دیا بولی
چلو چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ شاہ اسے لیے درخت سے نیچے آ گیا
مجھ سے چلا نہیں جارہا ۔۔۔۔۔۔دیا بے بسی سے بولی
بھاگنے اور اتنی دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے دیا کی ہمت جواب دے گئی تھی
شاہ نے اسکی طرف دیکھا جس نے رو رو کر اپنی نکھیں سوجا لی تھیں
شاہ کو ان لوگوں پر بہت غصہ تھا جن کی وجہ سے اسکی دیا
کو اتنی تکلیف سہنی پڑ رہی تھی
شاہ نے اسے اپنے بازوں میں بھر کے چلنا شروع کر دیا
دیا اسکے گلے میں اپنی بانہیں ڈالے اسے دیکھ رہی تھی جو اس وقت بہت غصے میں دیکھائی دے رہا تھا
شاہ اسے روڈ تک لے آیا یہاں ڈرائیور گاڑی کے ساتھ موجود تھا
دیا کو گاڑی کی پیچھلی سیٹ پر بیٹھا کر خود بھی اس
کے ساتھ بیٹھ گیا اور ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا بولا
تم جاو میں ایک کام سے جارہا ہوں رات تک واپس آ جاو گا ۔۔
حیویلی پہنچ کر شاہ اس سے بولا
کہاں جارہے ہو ۔۔۔۔۔۔
بس ہے ایک کام ۔۔۔۔ شاہ نے اسے ٹالا وہ اسے بتا کر اور پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا
تم ان لوگوں کے پیچھے جا رہے ہو نا ۔۔۔۔۔ دیا نے اسکی طرف دیکھا
ہاں ان کا ہی پتا کرنے جا رہا ہوں میں ان کو چھوڑوں گا نہیں ان کی ہمت بھی کیسے ہوئی ایسا کرنے کی
شاہ غصے سے لال ہو رہا تھا
اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو ۔۔۔۔۔
کچھ نہیں ہو گا ڈونٹ وری تم جاو ۔۔ شاہ نے اسکا گال تھپتھپایا
دیا اس کے گلے لگ گئی
شاہ نے اسے خود میں بھینچ لیا
بہت ہی غلط وقت چنا ہے تم نے ۔۔۔۔۔ شاہ شوخ لہجے میں بولا
دیا فورا اس سے دور ہوئی اور خود کو ملامت کی کہ کیوں وہ ایسا کر بیٹھی
اللہ حافظ ۔۔۔۔ شاہ مسکراتے ہوئے بولا
اللہ حافظ دھیان رکھنا اپنا ۔۔۔۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔۔
شاہ وہاں سے چلا گیا اور دیا حیویلی کے اندر آ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بتاو کس کے کہنے پر تم نےمجھ پر حملہ کیا تھا
شاہ کے ہتھے ان گولوں میں سے ایک لگ گیا تھا جن لوگوں نے اس پر اور دیا پر
حملہ کیا تھا
شاہ نے پہلے اچھی طرح سے اس کی درگت بنائی
جب وہ مار کھا کھا کے نڈھال ہو گیا تب شاہ نے اس سے پوچھا
بولو ۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکا منہ اپنے ہاتھ میں لے کر دبایا
جس سے وہ کراہ اٹھا
بتاتا ہوں ۔۔۔ بتاتا ہوں ۔۔ وہ آدمی بولا
شاہ نے اسکا منہ چھوڑ دیا
مجھے بلال صاحب نے بھیجا تھا آپ پر حملہ کرنے لے لیے
اس آدمی نے شاہ کی بات کا جواب دیا
اسکی تو ۔۔۔۔۔ شاہ نے پاس پڑی کرسی کو غصے سے ٹھوکر لگائی
چھوڑ دو اسے شاہ اپنے آدمی سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
شاہ سیدھا بلال کے پاس اس کے گھر پہنچا
گارڈز نے اسے دروازے پر روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نا رکھا اور انہیں دھکا
دیتا ہوا اندر آ گیا
تم لوگ جاو ۔۔۔بلال نے گارڈز سے کہا جو شاہ کو روکنے اس کے پیچھے آ رہے تھے
گارڈز وہاں سے چلے گئے
شاہ غصے سے بلال کی طرف آیا اور ایک زور کا گھونسا اسکے منہ پر جڑ دیا
بلال دور جا گرا
تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے اوپر حملہ کروانے کی ۔۔۔
شاہ غصے سے دھاڑا
بلال غصے سے اٹھا اور شاہ پر وار کرنا چاہا
تو شاہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کچھ بھی کرنے سے باز رکھا
تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا وہ بھی میرے ہی گھر میں ۔۔۔
بلال غصے سے بولا
ہاں میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا ۔۔۔ شاہ نے ایک اور مکہ اس کے منہ پر مارا
پھر ایک اور مکہ اسکے پیٹ میں مارا
شاہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا
شاہ نے پاگلوں کی طرح بلال کو مارنا شروع کر دیا
بلال شاہ کا مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا وہ نیچے پڑا ہوا تھا اور شاہ اوپر سے اسے مار رہا تھا
اب آئندہ مجھ پر حملہ کروانے سے پہلے سوچ لینا اس بار تو
زندہ چھوڑ رہاہوں آئیندہ نہیں چھوڑوں گا
شاہ غصے سے اسے ٹھوکر مارتا ہوا وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے ابھی تک نہیں آیا
دیا لاونج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی
کافی دیر وہ اسکا انتظار کرتی رہی پر وہ نا آیا
دیا کی آنکھ لگ گئی وہ صوفے پر سر ٹکا کر سو گئی
شاہ جب حیویلی آیا تو لاونج میں دیا کو صوفے پر سوتے ہوئے پایا
شاہ جو غصے میں تھا دیا کو دیکھتے ہی اسکا سارا غصہ اڑن چھو ہو گیا
وہ مسکراتے ہوئے صوفے کے پاس آیا
اور گھٹنوں کے بل فرش پر دیا کے پاس بیٹھ گیا
شاہ نے دیا کا ایک ہاتھ جو صوفے سے لٹک رہا تھا اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا
شاہ نے اسکے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوا
پھر اس نے دیا کے چہرے پر آئے بال ہٹائے
تو دیا ہلکا سا کسمسائی شاہ نے فورا اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا
کافی دیر شاہ ویسے ہی بیٹھے دیا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسکو دیکھتا رہا
شاہ نے دیا کے نرم وملائم گال کو اپنی دو انگلیوں سے چھوا
اور اسکی پیشانی چوم لی
آئی لو یو جان اذلان ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور اسکے کان کی لو کو اپنے لبوں سے چھوا
اذلان نے اسے اپنی بانہوں بھرا اور اسے اٹھائے
اسکے روم میں لے جا کر اس کے بیڈ پر لیٹا دیا
اور خود اپنے روم میں چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 12
اسلام علیکم ۔۔۔۔ دیا نے ناشتے کی ٹیبل پر سب کو سلام کیا
وعلیکم اسلام ۔۔۔۔۔ سب نے مسکراتے ہوئے گرم جوشی سے اسکے سلام کا جواب دیا
کچھ ہی دنوں میں وہ سب کی آنکھ کا تارا بن گئی تھی
دار جی تو اسکے دیوانے ہو گئے تھے وہ انہیں شاہ سے بھی زیادہ وہ عزیز ہی گئی تھی
دادا جان میں کل واپس جارہی ہوں کافی دن ہو گئے ہیں
بزنس منیجر کے حوالے کیا ہوا ہے
دیا بولی
ٹھیک ہے بیٹا جاو پر آؤ گی کب ۔۔۔۔ دار جی نے اس سے پوچھا
ایک ہفتہ تو لگ جائے گا سنڈے کو آ جاو گی واپس
دیا نے ان کی بات کا جواب دیا
رہو گی کہاں ۔۔۔۔ صفیہ خاتون نے اس سے پوچھا
اپنے گھر اور کہاں رہوں گی ۔۔۔۔ دیا نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا
نہیں تم اب اکیلے نہیں رہو گی سکندر اور زینب کے ساتھ ان
کے گھر میں رہو گی
دار جی بولے
ٹھیک ہے ان کے ساتھ ہی رہوں گی اور کوئی حکم ۔۔۔۔۔
دیا نے مسکراتے ہوئے پوچھا
نہیں اور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ دار جی مسکرا رہے تھے
شاہ دیوانوں کی طرح ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا
دیا نے اسے گھورا پر وہ پھر بھی اسے دیکھنے سے باز نا آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب تک دیا اور شاہ اسی طرح رہیں گے اب ہمیں ان کی دوبارہ سے شادی کر دینی چاہیئے
صفیہ خاتون نے دار جی سے کہا
وہ دونوں اس وقت اپنے روم میں تھے
ہممم۔۔۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا
دار جی پرسوچ لہجے میں گویا ہوئے
پھر آپ سب سے بات کریں اور کوئی ڈیٹ فکس کر دیں ہم دھوم دھام سے
ان دونوں کی شادی کریں گے
ٹھیک ہے میں اس سنڈے سب سے بات کروں گا سب یہاں ہی ہوں گے
دار جی ان کی بات کے جواب میں بولے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا اور کتنا ٹائم لو گی ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ نے اس سے پوچھا
دیا جو ریلنگ سے ٹیک لگائے چاند کو دیکھ رہی تھی
شاہ کی آواز پر اپنے خیالوں سے باہر آئی
وہ جیسے ہی شاہ کی طرف مڑی شاہ کر سینے سے اسکا سر ٹکرا گیا
شاہ اس کے بلکل پیچھے کھڑا تھا
دیا نے پیچھے ہونا چہا پر وہ ایسا نا کر پائی کیونکہ پیچھے ریلنگ تھی
وہ نکل کر جانے لگی وہاں سے تو شاہ نے ریلنگ پر اس کے دونوں طرف اپنے ہاتھ
رکھ اسکے فرار کے سارے راستے بند کر دیئے
تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا ۔۔۔
شاہ اسکی طرف جھکا
دور ہو مجھ سے پھر دیتی ہوں تمھاری بات کا جواب ۔۔۔۔
دیا نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کی
شاہ اس سے دور ہو گیا پر ریلنگ پر دیا کے گرد اپنے ہاتھ نا ہٹائے
اب بولو ۔۔۔۔ شاہ آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد کیے اسے دیکھ رہا تھا
میری کچھ شرطیں ہیں مان لو گے تو میں ہاں کر دوں گی
دیا ایک ادا سے بولی
ٹھیک ہے تمھاری ہر شرط منظور ہے ۔۔۔۔۔
پہلے سن تو لو اتنی بھی جلدی کیا ہے مسڑ ۔۔۔۔۔
اچھا چلو بتاو کیا شرطیں ہیں تمھاری ۔۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا
میری ہر بات مانو گے ۔۔۔۔۔ دیا نے اپنی پہلی شرط اسکے سامنے رکھی
تمھاری ہر بات مانو گا ۔۔۔۔۔
شاہ فورا بولا
دیا اس کی جلدی پر مسکرا دی
تمھارے ڈمپل بہت پیارے ہیں ۔۔ شاہ نے اسکے ڈمپل کو اپنے ہاتھ سے چھوا
تھینکس ۔۔۔۔۔ دیا نے اسکا ہاتھ اپنے گال سے ہٹایا
مجھ پر غصہ نہیں کرو گے اور نا ہی مجھے کبھی ڈانٹو گے ۔۔۔
یہ بھی منظور ہے ۔۔۔۔۔۔۔
سیاست چھوٹ کر اپنے پاپا کا بزنس جوائن کرو گے ۔۔۔۔
تو میں اسی دن تمھاری اب بولو منظور ہے ۔۔۔۔۔
دیا اپنی آخری اور سب سے بڑی شرط اسکے سامنے رکھ کے اس کوہی دیکھ رہی تھی
منظور ہے ۔۔۔۔۔ شاہ بنا وقت لیے بولا
سوچ لو ایک بار پھر میں تمھیں تمھاری بات سے پھرنے نہیں دوں گی
سوچ لیا ۔۔۔۔۔۔ شاہ دیا کی بات کے جواب میں بولا
ٹھیک ہے جس دن سیاست چھوڑو گے اس سے اگلے دن ہم دوبارہ سے شادی
کریں گے
مجھے بہت شوق ہے پاکستانی شادی دیکھنے کا ۔۔۔۔۔
دیا بولی
ٹھیک ہےایسا ہی ہو گا میں دار جی سے بات کر لوں گا اور سیاست بھی چھوڑ دوں گا
اب تو ویسے بھی اس ہفتے ہی ہماری حکومت کے پانچ سال مکمل ہو جائیں گے
میں ہمیشہ کے لیے سیاست کو خیر آباد کہہ دوں گا
ویسے ایک بات تو بتاو تمھیں میرے سیاست میں رہنے سے کیا پرابلم ہے
شاہ نے اس سے پوچھا
بس ہے کوئی پرابلم ۔۔۔۔۔ میرے ساتھ رہو گے تو پتا چل جائے گا
کہ میں نے کیوں یہ شرط رکھی ہے
دیابولی
اوکے ۔۔۔ شاہ نے سر ہلایا
اب تم جاو ۔۔۔۔ دیا بولی
شاہ اسکی طرف جھکا تو دیا نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا
شاہ نے اسکا چہرہ ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کیا اور اسکی آنکھیں چوم لیں
دیا کا دل دھک دھک کر رہا تھا
ہمیشہ جب بھی شاہ اس کے پاس آتا تھا اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا وہ کبھی سمجھ ہی نہیں پائی تھی کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا
ہے
آئی لو یو ۔۔۔۔ شاہ نے کہتے ساتھ ہی اسے اپنی بانہوں میں لے لیا
دیا نےبھی اپنے بازو اسکی کمر کے گرد لپیٹ لیے
اوکے گوڈ نائٹ اب تم سو جاو کافی رات ہو گئی ہے
شاہ نرم سے اسے خود سے دور کرتا اس کی پیشانی چومتا ہوا وہاں سے چلا گیا
اس کے جانے کے بعد دیا بھی روم میں آ گئی
اور بیڈ پر لیٹ گئی کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی وادی میں اتر چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دار جی نے سب سے بات کی شاہ اور دیا کی شادی کے بارے میں
سب کو بھلا کیا اعتراض ہونا تھا
سب بہت خوش تھے
شاہ تو خوشی سے دیوانہ ہوا جا رہا تھا
اس نے سیاست کو ہمیشہ کو خیر آباد کہہ دیا تھا دار جی کو بھی اس کے فیصلے سے کوئی اعتراض نہیں تھا
آج دیا کو مایوں بیٹھا دیا گیا تھا
شاہ اس سے ملنا چاہتا تھا پر کوئی اسے اس سے ملنے ہی نہیں دے رہا تھا
رات گئے دیا کو اپنے روم میں اکیلا پا کر وہ اس کے روم میں آ گیا
اور دروازہ لوک کر لیا
دیا ابھی تک جاگ رہی تھی اور کھڑکی سے ٹیک لگائے چاند کو دیکھ رہی تھی
دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ دروازے کی طرف مڑی
اور وہاں شاہ کو پایا
تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔
دیا نے اس سے پوچھا
شاہ چلتا ہوا اس کے پاس آ گیا
تم سے ملنے آیا ہوں تمھیں دیکھنے آیا ہوں ۔۔۔۔۔۔
شاہ محبت سے چور لہجے میں کہتا ہوا اس کا ہاتھ تھام چکا تھا
مل لیا اور دیکھ بھی لیا ہے اب جاو تم یہاں سے مجھے سونا ہے ۔۔۔
دیا نے اپنا ہاتھ چھوڑوایا
بہت ظالم ہو تم دیا ۔۔۔۔۔۔ شاہ نے ٹھنڈی آہ بھری
دیا اس کے انداز پر کھلکھلا کر ہنس دی
اور شاہ اس کی ہنسی کے صحر میں کھویا اسکو ٹکٹکی باندھے محبت پاش نظروں سے
دیکھ رہا تھا
او ہیلو مسڑ کیا ہوا بت کیوں بن گئے
دیا نے اسکو بت بنا دیکھ اس کے سامنے ہاتھ ہلایا جس سے شاہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹ آیا
تمھیں کبھی کسی نے بتایا کہ تمھارا کھلکھلا کے ہنسنا اگلے بندے کادل لوٹ لیتا ہے
شاہ گھمبیر لہجے میں بولتا اسے دیکھ رہا تھا
نہیں کسی نے نہیں بتایا ۔۔۔۔۔
دیا اسکی آنکھوں میں دیکھتی مسکراتے ہوئے بولی
چلو اب میں نے تو بتا دیا ہے نا اس لیے میرے علاوہ کسی اور کہ سامنے کھل کے نا ہنسنا
میں نہیں چاہتا میرے علاوہ اور کوئی تمھیں چاہے
تم صرف میری ہو صرف میری ۔۔۔۔۔۔
شاہ اسکی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر لگا چکا تھا
اور دیا دھڑکتے دل کے ساتھ نظریں جھکا گئی تھی
اچھا ویسے دیا تم نے جو حلیہ حیویلی میں نوکرانی بننے کے لیے اپنایا تھا کوئی بھی دیکھ نہیں کہہ سکتا تھا اس گونگی اور سیاہ رنگت والی
لڑکی کے پیچھے جنت کی حور سے بھی زیادہ خوبصورت حسینہ ہو گی جس کی آواز اتنی خوبصورت ہے کہ دل کرتا ہے بندہ بیٹھا اسے سنتا رہے

شاہ بولا
میں بھی تو یہی چاہتی تھی کہ کسی کو پتا نا چلے میری اصلیت کا اس لیے میں نے وہ حلیہ اپنایا تھا
میں جب حیویلی میں آئی تھی کرمو چچا کی بھتیجی بن کے میرا کوئی خاص پلین نہیں تھا دادا جان سے بدلہ لینے کا
پر تم ملے اور مجھ پر لٹو ہو گئے میں بہت خوش تھی کہ چلو دادا جان کی کمزوری
ہاتھ آ گئی ہے میرے
پھر تم خود ہی میرا پلین کامیاب بناتے گئے مجھے کچھ کرنا ہی نہیں پڑا
میں جانتی تھی کہ میں تمھارے لیے کیا ہوں تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو
پھر میں نے اپنی وہ چال چلی جس نے تمھیں ہلا کر رکھ دیا
تمھیں چھوڑ کے چلی گئی
تمھاری حالت دیکھ کر دادا جان بیمار رہنے لگے ان کو تمھارے دکھ اور حالت
کا بہت صدمہ پہنچا تھا
کیوں کہ تم میں ان کی جان جو تھی
پھر میں پرنسز بن کے تمھاری زندگی میں آئی سکندر انکل کے بزنس کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا
جب مجھے پتا چلا کہ دادا جان تمھاری شادی کرنے لگے ہیں تو آگئی تمھاری
شادی کو روکنے کے لیے
پھر میں نے سب کے ساتھ بہت برا رویہ رکھا سب کو بہت ستایا
پر دادا جان کو جب ہوسپٹل میں بیڈ پر بیمار اور کمزور حالت میں دیکھا تو میں کمزور پڑھ گئی
ان کو معاف کر دیا سب کچھ بھلا دیا
میں ایسا کبھی نا کرتی سب کے ساتھ جو میں نے کیا
پر میں بھی کیا کرتی میرے پاپا مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے ان کی موت نے اور جدائی نے مجھے پاگل کر دیا تھا
میں داداجان کو ان کی موت کا قصور وار سمجھتی تھی حلانکہ وہ تو اللہ کی مرضی تھی جو پاپا مجھے چھوڑ کے چلے گئے
اس میں دادا جان کا کوئی قصور نہیں تھا
ان کی موت کا بدلہ لینے کے لیے میں وہ سب کر بیٹھی جو مجھے نہیں کرنا تھا
دیا بہتی آنکھوں کے ساتھ سب کچھ شاہ سے شئیر کر رہی تھی
شاہ نے اس کے آنسو صاف کیے اور اسے اپنی بانہوں میں لے لیا
جو ہوا بھول جاو دیا پرانی باتوں کو یاد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا
سب تمھیں بہت چاہتے ہیں تم ہم سب کی جان ہو
ہم سب کے لیے خوش رہا کرو
اور میں ہوں نا تم اپنا ہر دکھ درد ہر بات مجھ سے شئیر کیا کرو
میں تمھاری ہر بات سنا کروں گا تمھاری ہر بات مانا کروں گا
شاہ اسکی پشت اور سر سہلاتے ہوئے نرمی اور محبت سے بول رہا تھا
دیا نے اسکے سینے میں سر چھپائے ہی ہاں میں سر ہلایا
اچھا اب مسکراو پھر مجھے جانا بھی ہے رات بہت ہوگئی ہے ۔۔۔۔
شاہ اس سے الگ ہوا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر لیا
دیا مسکرا دی جس سے اس کے ڈمپل نمودار ہوئے
شاہ نے اسکے دونوں ڈمپل اپنے لبوں سے چھو لیے
تمھارے ڈمپل بہت پیارے ہیں ۔۔ شاہ مسکرا رہا تھا
بلکہ تم خود بھی بہت خوبصورت ہو اتنی خوبصورت کہ تمھیں ہاتھ لگانے سے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں
ہاتھ لگانے سے میلی نا ہو جاو ۔۔۔۔۔۔
پر میں تو ہاتھ لگاو گا مجھے تو حق ہے تمھیں چھونے کا ۔۔۔۔۔
شاہ آخر میں شوخ ہوا
اب تم جاو مجھے نیند آ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔
دیا اس کو پھیلاتا دیکھ بولی
تم بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا نے پیلے رنگ کا جوڑا پہنا ہوا تھا
آئی لو یو ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ نے محبت کا اظہار کیا
جواب نہیں دو گی ۔۔۔۔۔۔ شاہ آنکھوں میں امید لیے اسے دیکھ رہا تھا
ہممم۔۔۔۔۔۔
کیا جواب دوں ۔۔۔ دیا اسے تنگ کر رہی تھی اس لیے اس طرح بولی
یہی کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو ۔۔۔
ابھی جواب نہیں دوں گی پھر کبھی سہی ۔۔۔۔۔ دیا مسکراتے ہوئے اسے چڑا رہی تھی
آہ۔۔ چلو نا دو جواب میرے آئی لو یو کا ۔۔
شاہ نے ٹھنڈی آہ بھری
اچھا اب میں چلتا ہوں ۔۔۔۔۔ شاہ مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا
دیا بھی مسکرا دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
قسط نمبر 13
شادی بہت بہت مبارک ہو جان اذلان ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ نے اسکے نرم وملام نازک سے مہندی سے سجے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوا
تمھیں بھی مبارک ہو ۔۔۔
دیا نے دھڑکتے دل کے ساتھ آہستہ سے جواب دیا
بہت خوبصورت لگ رہی ہو میری جان دل کر رہا ہے کہ ساری عمر تم ایسے ہی
میرے سامنے اس روپ میں بیٹھی رہو اور میں تمھیں دیکھتا رہوں
وہ آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد کیے اسکا چاند سا چہرہ اپنی آنکھوں کے حصار
میں لیے اسکے سامنے اسکے دونوں ہاتھ تھامے بیٹھا تھا
دیا نے اسکی بات کا کوئی جواب نا دیا اپنی نظریں جھکائے بیٹھی رہی
دیا نے سکن کلر کی کرتی اور ریڈ لہنگا اور ڈوپٹا پہنا ہوا تھا
خوبصورت تو وہ پہلے بھی تھی آج اس پر ٹوٹ کے روپ آیا تھا
وہ جنت سے اتری کوئی حور لگ رہی تھی اس وقت
آج اسکی اور شاہ کی شادی تھی
وہ اس وقت شاہ کے لیے سجی سنوری اسکے پھولوں سے سجے کمرے میں اس کے سامنے بیٹھی تھی
شاہ تو پہلے ہی اسکا دیوانہ تھا آج اسکو دلہن بنا دیکھ شاہ اپنا سب کچھ اس پر ہار گیا تھا
وہ جب سے روم میں آیا تھا اس نے ایک پل کے لیے بھی دیا کے چہرے سے اپنی نگاہیں نہیں ہٹائی تھیں
شاہ خود بھی بہت پیارا لگ رہا تھا اس نے بلیک کلر کی شروانی پہنی ہوئی تھی
جو اس پر بہت سوٹ کر رہی تھی
سب نے ان کی جوڑی کی بہت تعریف کی تھی وہ دونوں سورج اور چاند کی جوڑی لگ رہے تھے
شاہ نے اسکی ٹھوڑی پکڑ کے اسکا جھکا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا
دیا ۔۔۔۔ شاہ نے بہت پیار سے اسے پکارا
تو دیا کیوں نا اسکی طرف دیکھتی
دیا نے جب شاہ کی طرف دیکھا تو اسے خود کو ہی دیکھتے ہوئے پایا
آئی لو یو جان اذلان ۔۔۔۔۔
شاہ نے اسکی بلورین آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کیا
دیا نے اپنی پلکوں کی باڑ گرا لی
آج بھی جواب نہیں دو گی ۔۔۔۔۔ بہت پیار سے پوچھا گیا
آئی لو یو ٹو ۔۔۔۔۔ دیا نے بنا اس کی طرف دیکھے کہا
پتا نہیں کیوں آج وہ شاہ کے سامنے اپنی گھنی پلکوں کی باڑ اٹھا نہیں پا رہی تھی
اسے شاہ سے شرم آ رہی تھی
اسکا دل اس وقت دھک دھک کر رہاتھا اوپر سے شاہ کا دیوانوں کی طرح یک ٹک دیکھنا اسے کنفیوز کر رہا تھا
ورنہ یہ وہی شاہ تھا جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ بات کیا کرتی تھی
پر آج وہ ایسا نہیں کر پا رہی تھی
شاید آج کا دن ایسا تھا یا پھر ان لمحوں کا اثر تھا جس کی وجہ سے اس کے ساتھ ایسا ہو رہا تھا
تھیکنس میری جان ۔۔۔۔ شاہ نے اس کے دونوں ہاتھ چوم لیے
یہ تمھارا گفٹ ۔۔۔۔ شاہ نے ایک خوبصورت سا نیکلس اسکے سامنے کیا
اٹس ویری بیوٹیفل تھینکس فار دس ۔۔۔۔۔
دیا مسکراتے ہوئے بولی اسے نیکلس بہت پسند آیا تھا
میں پہنا دوں ۔۔۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا
دیا نے ہاں میں سر ہلا دیا
شاہ اس کے قریب ہوا اور اسے نیکلس پہنا کر اسکی گردن پر اپنے دہکتے لب رکھ دیئے
دیا کا سانس اٹک گیا تھا سینے میں اسکا دل پوری رفتار سے دھڑک رہا تھا
شاہ کی اس حرکت پر
شاہ جب اس سے دور ہو کہ اسکے سامنے بیٹھا تو اسے شرم سے لال پڑتا ہوا پایا
اف جان اذلان تم پہلے ہی بہت خوبصورت لگ رہی ہو اور اوپر سے تمھارا
بلش کرنا میری جان لے لے گا اب
شاہ اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرتے ہوئے بولا
مرنے کی باتیں نا کرو اذلان پاپا کے بعد اب میں تمھیں نہیں کھونا چاہتی
یہ کہتے ہوئے دیا کی خوبصورت آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر چکی تھیں
شاہ اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ اٹھا تھا
نہیں کرتا اب یہ بات ۔۔۔۔۔
میں تمھیں کبھی بھی چھوڑ کے نہیں جاوں گا
ہمیشہ تمھارے ساتھ رہوں گا
شاہ نے کہتے ساتھ ہی اسکی نم آنکھوں کو چوم لیا
دیا ایک بات تو بتاو تمھیں مجھ سے محبت کب ہوئی ۔۔۔۔۔
جب پہلی بار تم نے مجھے ہگ کیا تھا اور بعد میں سوری بھی بولا تھا اس دن مجھے تم سے محبت ہو گئی تھی
دیا نے اسکی بات کا جواب دیا
پھر بھی مجھے چھوڑ کے چلی گئی تھی ۔۔۔ شاہ نے شکوہ کیا
کیونکہ اس وقت پاپا کی محبت تمھاری محبت پے حاوی آ گئی تھی
اس وقت مجھے صرف پاپا کی موت کا بدلہ لینا تھا چاہے
اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑتا
میں تمھارے پاپا کی جگہ تو نہیں لے سکتا پر کوشش کروں گا تمھیں اتنی
محبت اور توجہ دے سکوں کے تم ان کی کمی محسوس نا ہو
اب تم کبھی بھی نہیں رو گئی مجھے تم ہر وقت ہنستی ہوئی اور خوشی نظر آو گی
وعدہ کرو مجھ سے ۔۔۔۔۔۔
شاہ ابھی دیا کا چہرہ اہنے دونوں ہاتھوں میں بھرے بیٹھا تھا
اور اس سے وعدہ لے رہا تھا
وعدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیا بولی
شاہ نے اسکے سرخ ہونٹوں پر اپنے دہکتے ہوئے لب رکھ دیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں جا رہی ہو جان اذلان ۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح جب دیا شاہ کی بانہوں کے حصار سے نکلنے لگی تو اسی وقت شاہ جاگ گیا
اور اسے جانے سے روکنے کے لیے اسکے گرد اپنی گرفت
اور مضبوط کر دی
جس سے دیا کو رکنا ہی پڑا
اذلان جانے دو پہلے ہی اتنی دیر ہو گئی ہے سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے
وہ منمنائی وہ شاہ کی جزبے لوٹاتی نظروں کی طرف بنا دیکھے بول
رہی تھی
اسے شاہ کے رات والے محبت کے مظاہرے یاد آ گئے
جس سے اسکا چہرہ حیا کی لالی سے سرخ ہو گیا تھا
شاہ دلچسپی سے اسے ہی ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا شاہ کے لب اسے سرخ پڑتا دیکھ مسکرا اٹھے تھے
کیا ہے اس طرح کیوں مسکرا رہے ہو ۔۔۔۔ دیا اپنی حیا اور گبراہٹ کو چھپانے کے لیے اس سے مصنوئی غصے سے بولی
شاہ نے کروٹ بدلتے ہوئے اسے بیڈ پے لیٹایا اور خود اس پر جھک گیا
یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ دیا کو سمبھلنے کا موقعہ نا ملا
میرے مسکرانےپر بھی پابندی ہے اب ۔۔۔۔۔ شاہ شوخ ہوا
مسکرانےپر پابندی نہیں ہے لیکن اب کیوں مسکرا رہے ہو ۔۔۔۔۔۔
میں تو اس لیے مسکرارہا ہوں کیوں کہ آج میں بہت خوش ہوں
میری دیا میری جان ہمیشہ کے لیے میری جو ہو گئی ہے
میں خوش نہیں ہوں گا تو کون خوش ہو گا
تم تو خوش ہو نا ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ اسکی خوبصورت سی جھیل جیسی بلورین آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
میں بہت خوش ہوں اذلان ۔۔۔۔۔
اس نے کہتے ساتھ ہی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں
شاہ کو اسکی ادا پر ٹوٹ کے پیار آ یا تھا
اس نے اسکی دونوں آنکھیں باری باری اپنے لبوں سے چھو لیں
دیا نے آنکھیں کھول کے اسکی طرف دیکھا تو اسے مسکراتے ہوئے اپنی طرف ہی دیکھتے ہوئے پایا
آئی لویو جان اذلان ۔۔۔۔۔۔ شاہ لو دیتے لہجے میں بول رہاتھا
آئی لو یو ٹو ۔۔۔۔ دیا مسکراتے ہوئے بولی
شاہ اس پر جھکا ایک شوخ سی شرارت کر چکا تھا
دیا اپنا سانس بحال کرتے ہوئے اسے گھور رہی تھی
جبکہ شاہ اسے دیکھ کہ مسکرا رہا تھا
اذلان اب اٹھو اور مجھے بھی جانے دو ۔۔۔۔۔۔۔
سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے برا لگتا ہے اتنا وقت ہو گیا ہے اور ہم ابھی تک کمرے سے ہی نہیں نکلے
نا جانے دوں تو ۔۔۔۔۔
شاہ نا کرو نا جانے دو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہی ہو گا ۔۔۔۔۔
میرا دل نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔
شاہ کا اتنا کہنا تھا دیا نے اسکے بال اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر زور سے
کھینچے
اف ظالم لڑکی چھوڑو میرے بال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ چیخا تھا
نہیں پہلے مجھے چھوڑو پھر تمھارے بال چھوڑ دوں گی ۔۔۔۔۔
شاہ نے اسکی پیشانی کو اپنے لبوں سے چھوتے ہوئے اسے اپنی گرفت سے آزاد کر دیا
دیا نے بھی اسی وقت اس کے بال چھوڑ دیئے اور اٹھ کھڑی ہوئی
اور واشروم میں گھس گئی
شاہ مسکراتے ہوئے اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں جانے کی تیاری کر رہے ہو اذلان ۔۔۔۔۔۔
شاہ جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنے بال سیٹ کر رہا تھا دیا کے پوچھنے پر اسکی طرف مڑا
دوست کی طرف جا رہا ہوں ۔۔۔۔۔
نا جاو اتنی رات ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ دیا فورا سے بولی
جانا ضروری ہے میری جان ۔۔۔۔۔ شاہ نے اسے کمر سے پکڑ کے اپنے قریب کیا
دیا نے اپنا سر اسکے سینے پر ٹکا دیا اور شاہ کا دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں
ڈال کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا
شاہ اور دیا کی شادی کو دو ماہ ہو گئے تھے وہ دونوں شہر میں زینب بیگم اور سکندر صاحب کے ساتھ رہتے تھے
دیا اپنا بزنس سنھبالتی تھی اور شاہ اپنے پاپا کا ۔۔۔۔
ہر ویک اینڈ پر وہ سب حیویلی دار جی اور صفیہ بیگم سے ملنے جایا کرتے تھے
اوکے میری جان اللہ حافظ میں اب چلتا ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے
شاہ نے دیا کو اپنے سے الگ کرتے ہوئے کہا
نہیں جاو ۔۔۔۔۔۔۔ دیا نے اسے روکنے کی کوشش کی
جانا ضروری نا ہوتا تو کبھی بھی نا جاتا میری جان تمھیں چھوڑ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ نے اسکی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کی
دیا اب کی بار کچھ نا بولی اور اپنا چہرہ جھکائے کھڑی رہی
جاوں میں ۔۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا
دیا نے ہاں میں سر ہلا دیا وہ نہیں چاہتی تھی کہ شاہ جائے اسے چھوڑ کے اس وقت
شاہ نے اپنا ہاتھ دیا کے ہاتھ سے آزاد کروایا جو وہ چھوڑ نہیں رہی تھی
اور دیا اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی جو کچھ دیر پہلے شاہ کے ہاتھ میں تھا
شاہ چلا گیا اور دیا اپنا گلہ پکڑتی ہوئی بیڈ پر گر گئی اسے سانس نہیں آ رہا تھا
وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی پر اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے اردگرد آکسیجن ختم ہو گئی ہے
دوسری طرف شاہ جب گاڑی تک پہنچا تو اسے یاد آیا کہ وہ چابی تو روم میں ہی بھول آیا ہے
وہ چابی لینے کے لیے جیسے ہی روم میں آیا تو دیا کو اٹک اٹک کے سانس لیتے ہوئے پایا
دیا کی یہ حالت دیکھ کے شاہ کے ہاتھ پاوں پھول گئے
دیا میری جان کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ شاہ نے اسکے پاس بیٹھ کہ پریشانی سے پوچھا
دیا اسے کیا جواب دیتی اسے تو سانس ہی نہیں آ رہا تھا
شاہ کو دیکھتے ہی اسکی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے
شاہ نے اسے مصنوئی سانس دیا جس سے دیا کا سانس بحال ہو گیا
اسکا سانس بحال ہوتے ہی شاہ نے اسے سینے سے لگا لیا
شاہ کادل دھک دھک کر رہاتھا وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ وقت پے نا آتا تو کیا ہوتا
یہ سوچتے ہی شاہ کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں
کچھ دیر کے بعد شاہ نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اپنے سامنے کیا
اور اسکے آنسو صاف کیے
کیا ہوا تھا میری جان جو تمھیں سانس نہیں آ رہا تھا کیا تمھیں یہ مسلہ پہلے سے ہی ہے ۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا جو نم آنکھوں سے شاہ کو ہی دیکھ رہی تھی
نہیں مجھے ایسا کوئی بھی پرابلم نہیں ہے پر جب تم مجھے چھوڑ کہ گئے تو پتا نہیں کیوں میرا سانس رکنے لگا
یہ کہتے ہی دیا کے آنسو بہنے لگے شاہ نے اسے خود میں بھینچ لیا
میری تو جان ہی نکل گئی تھی تمھاری اتنی بری حالت دیکھ کر اگر میں چابی لینے نا آتا تو ۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے تو میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ آگے کیا ہوتا
میں تو خیال میں بھی تم سے دور ہونے تمھیں کھونے کا نہیں سوچ سکتا
شاہ نم لہجے میں بول رہا تھا
تمھیں میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مجھ سے دور رہو ورنہ تمھاری لائف میری وجہ سے مشکل ہو جائے گی
میں بھی کیا کروں میں ایسی ہی ہوں پاگل سی
پہلے پاپا تھے وہ بھی جب مجھے کبھی چھوڑ کے جاتے تھے تو میرا یہی حال ہوتا تھا
اور اب تم ہو ۔۔۔۔
دیا یہ کہتے ہی پھوٹ پھوٹ کے رو دی ۔۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکے گرد اپنی گرفت اور مضبوط کر کے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا
آئیندہ کبھی بھی تمھیں تمھاری مرضی کے بنا ایک پل کے لیے بھی چھوڑ کے نہیں جاوں گا یہ وعدہ ہے میرا اپنی جان سے ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔ دیا اور شاہ نے دار جی اور صفیہ خاتون کو مشترکہ سلام کیا
وعلیکم اسلام میرے بچے آئے ہیں دار جی نے کھڑے ہوتے ہوئے اپنی بانہیں پھیلائیں
دیا اور شاہ دونوں ایک ساتھ ان کے گلے لگ گئے دار جی نے ان دونوں کی پیشانی چوم لی
پھر وہ دونوں صفیہ خاتون سے گلے ملے
تمھارے ماماپاپا کیوں نہیں آئے شاہ بیٹا ۔۔۔۔۔۔ صفیہ خاتوں نے اس سے پوچھا
ان کو کام تھا اس لیے وہ نہیں آئے کل کو وہ بھی آ جائے گئے دادو
شاہ نے ان کی بات کا جواب دیا
اور دیا کی طرف دیکھا جو دار جی کے کندھے پر سر رکھے ان سے باتیں کر رہی تھی
شاہ اور صفیہ خاتون ان دادا پاتی کو دیکھ کر مسکرا دیئے
جو آپس میں اپنی ہی باتوں میں گم تھے
آج ویک اینڈ تھا اس لیے شاہ اور دیا حیویلی آئے ہوئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی تو ۔۔۔۔۔۔ میں ابھی آتا ہوں ۔۔۔
شاہ غسے سے فون بند کرتا ہوا روم سے جانے لگا تو دیا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے روکا
کہاں جا رہے ہو اتنے غصے میں دیا نے اس کو غصے میں دیکھتے ہو ئے پوچھا
وہ بلال ہمارے گاوں کے ایک آدمی کو مار رہا ہے وہ بھی ہمارے ہی گاوں میں آ کر اس کی عقل ٹکانے لگانے جا رہا ہوں
تم کہیں نہیں جاو گے اتنے غصے میں پولیس کو انفارم کرو وہ خود ہی دیکھ لے گی اس مسلے کو
تم گئے تو اسے جان سے ہی مار دو گے اور میں نہیں چاہتی تم ایسا کچھ کرو
دیا بولی
شاہ نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور اپنا ہاتھ چھوڑواتا ہوا روم سے چلا گیا
وہ اس وقت بہت غصے میں تھا
او ۔۔۔ شٹ شٹ ۔۔۔۔۔ شاہ جیسے ہی گاڑی میں بیٹھنے لگا اسے دیا کا خیال آیا
اور وہ فورا کمرے کی طرف بھا گا
جہاں دیا لمبے لمبے سانس لے کر سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی
شاہ نے اسے مصنوئی سانس دیا جس سے اسکا سانس بحال ہو گیا
تم بہت بہت بری ہو دیا میرا خیال بھی نہیں آتا تمھیں ایسا کرتے ہوئے تمھیں کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا
شاہ اسے خود میں بھینچے اس سے شکوہ کر رہا تھا
تو تم کیوں گئے تھے مجھے چھوڑ کہ ۔۔۔۔۔ دیا روتے ہوئے بولی
مت ماری گئی تھی میری غصے میں پاگل ہو گیا تھا اس لیے مجھے یاد ہی نہیں رہا
کہ میرے جانے کہ بعد تمھاری کیا حالت ہو گی
جیسے ہی مجھے یاد آیا پاگلوں کی طرح دوڑتا ہوا یہاں تک پہنچا ہوں
اچھا تم پتا کرو اس آدمی کا فون کر کے کسی کو ۔۔۔۔۔۔۔
دیا اس سے الگ ہوتے ہوئے بولی
شاہ نے اپنے ایک آدمی کو فون کر پوچھا
کیاہوا اذلان ۔۔۔۔ دیا نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا
جس آدمی کو بلال نے مارا تھا اسے ہوسپٹل لے گئے ہیں وہ خطرے سے باہر ہے
کچھ چوٹیں آئی ہیں اسے
اور بلال کو پولیس پکڑکے لے گئی ہے
شاہ بولا
ہممم۔۔۔۔ دیا نے سر ہلایا
اچھا چلو نیچے چلتے ہیں دار جی اور دادو کے پاس ۔۔۔۔۔
شاہ اسے اپنے ساتھ لیے نیچے آ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے ہیں بھائی بہت دیر کر دی آج آپ نے آنے میں تو کب سے آپ کا ویٹ
کر رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Newbie
33
12
8
Last Update 14



کیسے ہیں بھائی بہت دیر کر دی آج آپ نے آنے میں تو کب سے آپ کا ویٹ
کر رہی تھی
دیا مسکراتے ہوئے علی سے بولی
علی ابھی ابھی آفس سے واپس آیا تھا
دیا اور اذلان علی کے گھر آئے ہوئے تھے ڈنر کے لیے علی کو اس بات کا نہیں پتا تھا
کیوں کہ دیا نے سب کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی علی کو نہیں بتائے گا
اس کے آنے کے بارے میں
دیا کافی دیر کے بعد علی سے مل رہی تھی
علی کی شادی اسکی پسند کی لڑکی سے ہو گئی تھی وہ خوش وخرم زندگی گزار رہا تھا
اپنے والدین اور بیوی کے ساتھ
تم نے کون سا مجھے اپنے آنے کا بتایا تھا اگر بتا دیتی تو میں آج آفس ہی نا جاتا
علی مسکراتے ہوئے بولا
میں نے تو آپ کو سرپرائز دینا تھا اس لیے نہیں بتایا
میں بہت خوش ہوں تمھیں اتنے عاصے بعد مل کے ورنہ تم تو عید کا چاند ہی ہو گئی ہو شادی کے بعد
مصروفات ہی بڑھ گئی ہیں میں کیا کروں ۔۔۔۔۔۔۔
ہاں اتنی تم مصروف نا ہو تو ۔۔۔۔۔۔ چلو اب مجھے اپنے شوہر سے ملنے دو
وہ کیا سوچتا ہو گا میں اس سے ملا ہی نہیں اور تم سے باتوں میں لگ گیا
وہ کچھ نہیں سوچے گا ۔۔۔
دیا مسکراتی ہوئی اس کے ساتھ شاہ کے پاس چل دی
علی گرم جوشی سے شاہ سے ملا اور اسکا حال چال پوچھا
سب نے اچھے ماحول میں کھانا کھایا اور بہت اچھا وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ بیٹا تمھارے ماموں کے بیٹے کی شادی ہے اگلے ویک تم دونوں ہمارے ساتھ
جا رہے ہو ۔۔۔۔۔
تم دونوں کو کوئی اشو تو نہیں ہے نا ۔۔۔۔۔
زینب بیگم نے ان سے پوچھا
نہیں ماما ہمیں پرابلم نہیں ہے ہم جائیں گے آپ کے ساتھ کیوں دیا ۔۔۔۔۔۔؟
جی جی ماما ہم جائیں گے ۔۔۔۔ دیا نے مسکراتے ہوئے حامی بھری
پھر ٹھیک ہے تم دونوں اپنی اپنی تیاری کل لو اس ویک اینڈ کو دار جی اور ماں جی سے ملنے کے اگلے دن ہی ہمیں جانا ہے
ٹھیک ہے ماما ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ سب کے ساتھ اپنے ماموں کی حیویلی پہنچ چکا تھا
پوری حیویلی میں شادی کے ہنگامے اور تیاریاں چل رہی تھیں کل کو مہندی تھی
لڑکیوں کے اور عورتوں کے سونے انتظام کمروں میں اور لڑکوں کے سونے کا انتظالم حیویلی کی چھت پے کیا گیا تھا
دیا چار لڑکیوں کے ساتھ ایک روم میں ٹھہری ہوئی تھی
وہ کافی دیر سے بیڈ پے لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی لیکن نیند اس کی آنکھوں سے
کوسوں دور تھی
اس نے شاہ کو کال کی لیکن اس نے بھی کال اٹینڈ نا کی
دیا بنا آواز پیدا کیے روم سے باہر نکل کر چھت پے آ گئی جہاں شاہ موجود تھا
جیسے ہی وہ چھت پے آئی ٹھنڈی ہوا نے اسکا استقبال کیا
مارچ کا مہینہ چل رہا تھا نا سردی تھی اور نا ہی گرمی معتدل سا موسم تھا
چھت پے بہت ساری چارپایاں بچھائی گئی تھیں جس پر سب لڑکے سو رہے تھے
دیا نے ایک جگہ کھڑے ہو کر شاہ کو تلاشنہ شروع کر دیا
سب لڑکے سو رہے تھے کیوں کہ رات کے بارہ سے بھی اوپر کا ٹائم تھا
کچھ دیر کے اسے شاہ مل ہی گیا
شاہ کی چارپائی سب لڑکوں سے ہیٹ کے ایک سائیڈ پر الگ ہی جگہ پر تھی
شاہ کا چہرہ چادر سے باہر تھا اور وہ آنکھیں کھولے چودیویں کے چاند کو دیکھ رہا تھا
دیا دبے پاوں اس کے پاس آئی اور اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا
دیا ۔۔۔۔۔۔ شاہ نے آہستہ سی آواز میں اس کا نام لیا
دیا نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اسکی آنکھوں سے ہٹا دیا اور اسکے سامنے چارپائی پے بیٹھ گئی
شاہ بھی اٹھ کے بیٹھ گیا
تم جہاں کیا کر رہی ہو اگر کوئی دیکھ لے گا تو کتنا برا لگے گا ۔۔۔۔
شاہ سرگوشی کی صورت میں بول رہا تھا
میں کیا کروں مجھے نیند نہیں آ رہی ۔۔۔۔۔۔ دیا منہ بناتے ہوئے بولی
نیند تو مجھے بھی نہیں آ رہی ۔۔۔
میں تمھارے پاس لیٹ جاوں ۔۔۔۔۔
شاہ دیا کی اس فرمائش پر اسے دیکھتا رہ گیا
کوئی دیکھے گا ہمیں ایک ساتھ تو کیا سوچے گا دیا کچھ تو عقل سے کام لو یہ ہمارا گھر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی حالانکہ اس کا دل اسے دیا کی بات ماننے پر اکسا رہا تھا
جس نے جو سوچنا ہے سوچے آئی ڈونٹ کیئر ۔۔۔۔۔۔۔
دیا کہتے ساتھ ہی چارپائی پے لیٹ گئی۔۔۔
شاہ بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا
شاہ کے لیٹے ہی دیا نے اپنا سر اسکے سینے پر ٹکا دیا
شاہ نے انے اور اسکے اوپر چادر صحیح کی اور اس کے گرد اپنے بازوں کا حصار بنا لیا
کچھ ہی دیر میں ان دونوں پر نیند کی دیوی مہربان ہو گئی
شاہ اٹھو نماز پڑھنے چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ شاہ کو فجر کے ٹائم اسکا ایک کزن جگانے کی کوشش کر رہا تھا
ٹھیک ہے تم جاو میں بھی آتا ہوں ۔۔۔۔ شاہ کے کہنے پر اسکا کزن سر ہلاتا ہوا وہاں سے چلا گیا
شاہ نے سر اٹھا کر اپنے ادرگرد دیکھا سب نماز پڑھنے جا چکے تھے
شاہ نے شکر ادا کیا کہ سب چلے گئے ہیں کیونکہ اسے ابھی دیا کو اٹھا کہ اسے واپس اس کے روم میں بھیجنا تھا
شاہ کا منہ چادر سے باہر تھا جبکہ دیا کا چادر کے اندر تھا دیا چونکہ کہ شاہ کے سینے پر سر رکھے سو رہی تھی اس لیے اسکا منہ چادر کے اندر تھا
کوئی دیکھ کہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ شاہ کہ علاوہ بھی کوئی اس چارپائی پے سویا ہوا ہے
شاہ نے دیا نے منہ سے چادر ہٹائی اور اس جگانے کی کوشش کرنے لگا
دیا ۔۔۔شاہ نے اسکا چہرہ تھپتھپایا
دیا نے مندی مندی آنکھیں کھولیں اور اپنا سر اوپر اٹھاتے ہوئے شاہ کو دیکھا
ہممم۔۔۔۔ دیا نے سوالیہ نظروں سے شاہ کو دیکھا
اٹھو اور اپنے روم میں جاو میں نہیں چاہتا کہ کوئی ہمیں اس طرح دیکھے
دیا اسکی بات سنتے ہی اٹھ کے بیٹھ گئی
وہ ابھی بھی نیند میں جھول رہی تھی اس کے بال اسکے چہرے پر آ رہے تھے
شاہ اٹھ کے بیٹھ گیا اور اس کے چہرے پر سے اسکے بال ہٹائے
دیا نے اپنا سر اسے کنندھے پر ٹکا دیا
دیا اٹھو یار کوئی آ جائے گا ۔۔۔۔ شاہ نے اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر
ہوش میں لانے کی کوشش کی
اچھا جاتی ہوں ۔۔۔ دیا کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی شاہ بھی اٹھ کھڑا ہوا
دیا نے ایک ہی قدم اٹھایا تو لڑکھڑا کے گرنے لگی لیکن شاہ نے اسے پکڑ کے گرنے سے بچا لیا
آر یو اوکے ۔۔۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا
ہاں آئی ایم فائن وہ ابھی بھی نیندمیں ہوں نا اس لیے چکر آ گیا
شاہ نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا اور اسکی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے ہوئے آہستگی سے اسے خود سے الگ کیا
شاہ دیا کا ہاتھ تھامے اسے روم تک چھوڑ گیا اور خود مسجد چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا ایک بات تو بتاو ۔۔۔۔ شاہ کی ماموں کی بیٹی جس سے اس کی منگنی ہونے والی تھی اس نے دیا کو مخاطب کیا
آج مہندی تھی شاہ کے ماموں کے بیٹے کی ناشتے کے بعد سب لڑکیاں اور کچھ عورتیں لاونج میں موجود تھیں دیا بھی ان سب کے ساتھ ہی بیٹھی تھی
زینب بیگم بھی وہاں ہی تھیں
پوچھو ۔۔۔۔۔ دیا بولی
تم کل ساری رات کہاں تھیں ۔۔۔۔۔۔
کیا مطلب کہاں تھی ۔۔۔ دیا نے اس کے سوال پر اسکی طرف دیکھا
تم کل ساری رات روم میں نہیں تھی صبح فجر ٹائم واپس آئی تھی
میں تمھیں بتانا ضروری نہیں سمجھتی میں جہاں بھی جاوں اٹس نن آف یور بزنس
دیا نے دو ٹوک جواب دیا
بتانا نہیں چاہتی یا پھر بتا نہیں سکتی کہ تم کل ساری رات کس کے ساتھ تھی
وہاں موجود سب اس وقت اب دونوں کو ہی دیکھ رہی تھیں
اس سے پہلے کہ دیا کوئی جواب دیتی شاہ جو کہ وہاں سے گزر رہا تھا وہ اس کی ساری بات سب چکا تھا
اٹس انف ہاؤ ڈیئر یو ٹو سے لائک ڈیٹ ٹو مائی وائف ۔۔۔۔۔
شاہ غصے سے اس پر دھاڑا
آرام سے بیٹا ۔ ۔۔۔۔ زینب بیگم شاہ سے بولیں
ماما آپ درمیان میں نا آئیں ۔۔۔۔ اور تم تمھیں دیا کیوں بتائے کہ وہ کل رات کہاں تھی تم ہوتی کون ہو اس سے یہ بات پوچھنے والی ۔۔۔۔
شاہ اب اپنی کزن سے مخاطب تھا
تو تم پوچھ لو اس سے یہ وہ کہاں تھی کل رات ۔۔۔۔۔۔ وہ اب بھی ڈھٹائی سے بول رہی تھی
کیوں پوچھوں میں اس سے ۔۔۔۔۔ وہ کل رات میرے ساتھ تھی
اب پتا چل گیا اب خوش ہو ۔۔۔۔۔
اس وقت دل کر رہا ہے کہ دیا کے کردار پر انگلی اٹھانے کے جرم میں ایک کھینچ کے تمھیں لگاوں ۔۔۔۔
دیا شاہ کے اور اسکے درمیان آ گئی وہ نہیں چاہتی تھی کہ شاہ غصے میں واقعے ہی اسے ایک لگا دے
اب تمھیں پتا لگ گیا ہو گا اب خوش ہو ۔۔۔۔۔۔ دیا اسے غصے سے گھورتے ہوئے بولی
وہ دیا کی بات کا کوئی بھی جواب دیئے بنا وہاں سے واک آوٹ کر گئی
اور شاہ دیا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے وہاں سے لے گیا
سب کی رشک بھری نگاہیں ان دونوں پر ہی تھیں کئی لڑکیاں تو دیا کو حسد بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں کہ اسے اتنا ہنڈسم اور چاہنے والا شوہر ملا ہے
زینب بیگم نے دل ہی دل میں شاہ کی اور دیا کی نظر اتاری اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو جان اذلان اللہ نے ہمیں چاند سی بیٹی دی ہے ہماری بیٹی بلکل تمھارے جیسی ہے
شاہ نے دیا کے آنکھیں کھولتے ہی اسلی پیشانی چومتے ہوئے مبارک باد دی
تمھیں بھی مبارک ہو ۔۔۔۔۔۔
وہ ہے کہاں مجھے اسے دیکھنا ہے ۔۔۔۔ دیا نے اس سے پوچھا
وہ باہر ماما لوگوں کے پاس ہے میں لے کر آتا ہوں ۔۔۔۔۔ شاہ اس سے کہتا
ہوا روم سے باہر چلا گیا
دیا اس وقت ہوسپٹل میں موجود تھی
اللہ نے ان دونوں کو رحمت سے نوازہ تھا دارجی ، صفیہ بیگم ، زینب بیگم اور سکندر صاحب بہت خوش تھے ننھی سی پری کو دیکھ کر
اور شاہ کی تو اللہ نے دل کی مراد پوری کر دی تھی
اس کی بہت بڑی خواہش تھی کہ اللہ اسے ایک بیٹی دے بلکل دیا جیسی
جب اسے پتا چلا کہ اللہ نے اسے بیٹی دی ہے تو اس کے پاوں خوشی سے زمین پر نہیں ٹک رہے تھے
وہ بے چینی سے دیا کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اسے یہ بات بتا سکے
کہ اللہ نے اس کی سن لی ہے
ماشااللہ بہت پیاری ہے ہماری بیٹی دیا نے اپنی بیٹی کی پیشانی پر پیار کیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا
میں بہت بہت خوش ہوں دیا ۔۔۔۔۔۔۔ بہت بہت شکریہ مجھے اتنی پیاری سی بیٹی دینے کے لیے
شاہ کی خوشی کا اندازہ وہ اسکے خوشی سے جگمگاتے چہرے سے ہی لگا سکتی تھی
میں بھی بہت خوش ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیا نے اپنا سر شاہ کے کندھے پر ٹکا
دیا اور آسودگی سے اپنی آنکھیں موند لیں
اور دل میں اپنے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اس اتنا چاہنے والا شوہر اور پیاری سی بیٹی دی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
The End
 

Top