Erotica ظرف

Newbie
12
13
3
یہ رہی آپکی رہائش گاہ۔۔۔۔شکور نے تانگہ ایک کھنڈر نما فاریسٹ ہاوس کے سامنے روکا
میں پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہوں اور مجھے اندرون سندھ میں بنے والی نئی سٹرک کے لیے بطور انجینئر بھیجا گیا تھا
شکور نے ہی مجھے ریلوے سٹیشن سے ریسیو کیاتھا

میں فاریسٹ ہاوس کا چوکیدار اور خانساماں ہوں جی۔۔یہ پیچھے میری کوٹھڑی ہے۔۔۔شکور نے عمارت کے عقب میں بنے کوارٹر کی طرف اشارہ کیا
چند دن گزرے تو میں علاقے سے کافی شناسا ہوگیا۔۔۔دن بھر تیز دھوپ میں خواری کے بعد جب میں گھر پہنچتا تو تھکن سے ایسا برا حال ہوتا تھا کہ بستر پر گرتے ہی گہری نیند سو جاتا
اس دن میں قدرے جلدی گھر آگیا۔۔۔اپنی ہی جھونک میں جیسے ہی میں اندر گھسا تو چونک گیا۔۔ شکور کی کوٹھڑی کے برآمدے میں کھڑی ** سالہ لڑکی اپنی دھن میں شٹاپو کھیل رہی تھی۔۔۔
اپنی چادر کو کمر کے گرد باندھے ایک پاوں پر اچھلتی شٹاپو کے پتھر کو سرکاتی اسکی ہلکورے لیتی جوانی میرے ایمان کی بنیادیں ہلا گئی۔۔۔۔
اسکے لمبے بالوں کی چٹیا لچکیلی کمر پر ادھر ادھر تھرک رہی تھے جبکہ اسکا جسم پھلدار درخت کی طرح اپنے جوبن سے لہرا رہا تھا۔۔۔۔میری نظروں کی گرمی سے اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔۔۔جیسے ہی اسکی نظریں مجھ سے ٹکرائیں وہ ایک لمحے کو ٹھٹھکی اور پھر شرم سے منہ چھپاتی اندر کوارٹر میں گھس گئی۔۔۔
صاحب یہ رائتہ چکھیں ۔۔۔۔میری بیٹی نے بنایا ہے شکور نے رائتہ میری طرف بڑھایا
تمہاری بیٹی !! میرا دل زور سے دھڑکا
ہاں جی۔۔۔شہدادکوٹ ہوتے ہیں میرے گھر والے، یہ میٹرک کے پیپرز کے بعد فری تھی تو ضد کر کے ادھر آ گئی کچھ دن۔۔۔ملواونگا صبح آپکو ۔۔۔۔بڑی سیانی ہے آپکی طرح اسے بھی گھومنے کا بہت شوق ہے
شکور کے لیے وہ بچی تھی لیکن میری نظر سے دیکھو تو وہ رس بھری ایسی جوانی تھی جس کا نشہ دیکھنے والے کو مخمور کر دیتا تھا
ہمارے درمیان عجیب سی تاکا جھانکی پنپ رہی تھی۔۔۔اکثر مجھے احساس ہوتا کہ میرے آتے جاتے وقت کوئی مجھے نوٹ کرتا ہے۔۔۔آخر کیوں نہ کرتا میں بانکا سجیلا جوان جو تھا
اس دن موسم صبح سے ہی خراب تھا۔۔۔شام ہوتے ہی ایسی بارش شروع ہوئی کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہوگیا۔۔۔
صاحب جی آپ ریسٹ ہاوس چلے جائیں۔۔۔سنا ہے دریا کا بند ٹوٹ گیا ہے۔۔میں مزدوروں کو لیکر بند باندھنے کے لیے جا رہا ہوں۔۔۔گھنٹے دو تک پہنچ جاونگا۔
شکور یہ کہہ کر تیز تیز قدموں سے دریا کی کیطرف روانہ ہوگیا۔
میں بارش میں بھیگتا پھسلتا جب فاریسٹ ہاوس پہنچا تو وہ برآمدے میں سہمی ہوئی کھڑی تھی۔
بابا نہیں آئے ؟
اس کی سہمی سرگوشی میرے کانوں سے ٹکرائی۔
آ رہے ہیں تمہارے بابا تھوڑی دیر تک ۔ تم پریشان نا ہو میں نے اسے تسلی دی
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔اس نے پریشانی سے تیز ہوتی بارش کو دیکھا
اچھا گھبراو مت اور میرے ساتھ آجاوُ ادھر ۔۔۔میری پیشکش پر اسکا رنگ سرخ پڑگیا۔
آپکے ساتھ ۔۔۔وہ منمنائی۔
ہاں میرے ساتھ۔ پریشان مت ہو شکور نے مجھے کہا تھا کہ تمہیں اپنے پاس بلا لوں،
میرے اندر کا شیطان سر اٹھانے لگا تھا
آااچھوں ۔۔میں نے متواتر چوتھی چھینک ماری۔۔۔لگتا ہے آپکو سردی لگ گئی ہے۔۔۔میں آپکو چائے اور انڈہ بنا کر دیتی ہوں آپ تب تک کپڑے بدل لیں۔۔۔اس نے چوری چوری میرے گیلے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا
دس بج چکے تھے۔باہر ہر طرف پانی تھا۔۔۔۔بارش کا زور بڑھتا جا رہا تھا۔۔
تمہیں سردی نہیں لگ رہی میں نے اسکے کانپتے وجود کو دیکھا۔۔۔بارش کے ساتھ تیز ہوا نے موسم اچانک بدل دیا تھا
نن نہیں میں ٹھیک ہوں۔
اس نے دانت بجاتے ہوئے جواب دیا
کیا ٹھیک ہو؟ چلو شاباش ادھر آو رضائی میں آجاو،
میں نے اسے گہری نظر سے گھورا
نن نہییں مم میں ٹھیک ہوں۔
وہ منمنائی
ارے ایسے کیسے ۔۔۔آو شاباش ورنہ میں بھی رضائی نہیں لونگا میں نے اسکی سادگی سے فائدہ اٹھایا
نن نہیں آپکو بخار ہو جاے گا باو جی۔۔۔میں آتی ہوں وہ آہستگی سے میری چارپائی کی پائنتی پر آبیٹھی۔۔۔ارے ایزی ہو کر بیٹھو ۔۔۔۔گھبراو مت۔ میں اسے آہستہ آہستہ ورغلا رہا تھا۔
کمرے سے باہر بجلی کی کڑک اور بارش کی گھن گھرج تھی جبکہ کمرے میں اسکی نوخیز جوانی میری بانہوں میں۔۔۔نجانے مجھے کیا ہوگیا تھا۔۔۔ بادلوں کی کڑک میں مجھے اسکی سسکاریاں بھی سنائی نہیں دیں
اسکے گیلے جوان جسم کی سوندھی سوندھی مہک مجھے بہکاتی جا رہی تھی۔۔۔جب طوفان اترا تو ہوش آیا کہ میں ایک معصوم کلی کو روند بیٹھا ہوں۔
شکور اگلے دن گیارہ بجے آیا تو میں پریشان صورت برآمدے میں بیٹھا تھا۔۔۔
مجھے اب اس لمحے کا انتظار تھا جب شکور اچانک کوارٹر سے نکل کر میرا گریبان پکڑ کر میری بازپرس کرے گا۔
لیکن وہ اندر سے آیا تو بلکل پہلے کی طرح نارمل تھا۔۔۔۔شائد اس نے زبان نہیں کھولی تھی لیکن میرا دل اندر سے کانپ چکا تھا۔۔۔سہہ پہر تک خب سوچ سمجھ کر ایمرجنسی کے بہانے میں وہاں سے بھاگ نکلا
کراچی پہنچ کر بھی مجھے شکور کا ڈر کافی دن ستاتا رہا لیکن ہفتے دس دن بعد میں آہستہ آہستہ کراچی کی رونقوں میں کھو گیا
دو تین ماہ بعد میری شادی ہوگئی تو میں شادی کے مزے میں ایسا ڈوبا کہ بھول ہی گیا کہ میں نے کسی کلی کو جذبات میں بہک کر کلی سے پھول بنا دیا تھا
یہ تقریبا دس ماہ بعد کی بات ہے جب ڈور بیل بجی ۔۔۔۔میں نے دروازہ کھولا تو ٹھٹھک کر رک گیا
دروازے پر کوئی نہیں تھا مگر دروازے پر رکھا ایک چند دن کا بچہ ہاتھ پاوں مارتا رو رہا تھا
میں نے گھبرا کر خالی گلی کو دیکھا اور دوبارہ بچے کو۔۔۔بچے کے نیچے بچھی میری گرم چادر
مجھے شکور کا ظرف بتا رہی تھی

ختم شد​

Do Not Post UA Content.

Scorpio 🦂
 
Last edited by a moderator:
Newbie
10
7
3
یہ رہی آپکی رہائش گاہ۔۔۔۔شکور نے تانگہ ایک کھنڈر نما فاریسٹ ہاوس کے سامنے روکا
میں پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہوں اور مجھے اندرون سندھ میں بنے والی نئی سٹرک کے لیے بطور انجینئر بھیجا گیا تھا
شکور نے ہی مجھے ریلوے سٹیشن سے ریسیو کیاتھا

میں فاریسٹ ہاوس کا چوکیدار اور خانساماں ہوں جی۔۔یہ پیچھے میری کوٹھڑی ہے۔۔۔شکور نے عمارت کے عقب میں بنے کوارٹر کی طرف اشارہ کیا
چند دن گزرے تو میں علاقے سے کافی شناسا ہوگیا۔۔۔دن بھر تیز دھوپ میں خواری کے بعد جب میں گھر پہنچتا تو تھکن سے ایسا برا حال ہوتا تھا کہ بستر پر گرتے ہی گہری نیند سو جاتا
اس دن میں قدرے جلدی گھر آگیا۔۔۔اپنی ہی جھونک میں جیسے ہی میں اندر گھسا تو چونک گیا۔۔ شکور کی کوٹھڑی کے برآمدے میں کھڑی پندرہ سولہ سالہ لڑکی اپنی دھن میں شٹاپو کھیل رہی تھی۔۔۔
اپنی چادر کو کمر کے گرد باندھے ایک پاوں پر اچھلتی شٹاپو کے پتھر کو سرکاتی اسکی ہلکورے لیتی جوانی میرے ایمان کی بنیادیں ہلا گئی۔۔۔۔
اسکے لمبے بالوں کی چٹیا لچکیلی کمر پر ادھر ادھر تھرک رہی تھے جبکہ اسکا جسم پھلدار درخت کی طرح اپنے جوبن سے لہرا رہا تھا۔۔۔۔میری نظروں کی گرمی سے اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔۔۔جیسے ہی اسکی نظریں مجھ سے ٹکرائیں وہ ایک لمحے کو ٹھٹھکی اور پھر شرم سے منہ چھپاتی اندر کوارٹر میں گھس گئی۔۔۔
صاحب یہ رائتہ چکھیں ۔۔۔۔میری بیٹی نے بنایا ہے شکور نے رائتہ میری طرف بڑھایا
تمہاری بیٹی !! میرا دل زور سے دھڑکا
ہاں جی۔۔۔شہدادکوٹ ہوتے ہیں میرے گھر والے، یہ میٹرک کے پیپرز کے بعد فری تھی تو ضد کر کے ادھر آ گئی کچھ دن۔۔۔ملواونگا صبح آپکو ۔۔۔۔بڑی سیانی ہے آپکی طرح اسے بھی گھومنے کا بہت شوق ہے
شکور کے لیے وہ بچی تھی لیکن میری نظر سے دیکھو تو وہ رس بھری ایسی جوانی تھی جس کا نشہ دیکھنے والے کو مخمور کر دیتا تھا
ہمارے درمیان عجیب سی تاکا جھانکی پنپ رہی تھی۔۔۔اکثر مجھے احساس ہوتا کہ میرے آتے جاتے وقت کوئی مجھے نوٹ کرتا ہے۔۔۔آخر کیوں نہ کرتا میں بانکا سجیلا جوان جو تھا
اس دن موسم صبح سے ہی خراب تھا۔۔۔شام ہوتے ہی ایسی بارش شروع ہوئی کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہوگیا۔۔۔
صاحب جی آپ ریسٹ ہاوس چلے جائیں۔۔۔سنا ہے دریا کا بند ٹوٹ گیا ہے۔۔میں مزدوروں کو لیکر بند باندھنے کے لیے جا رہا ہوں۔۔۔گھنٹے دو تک پہنچ جاونگا۔
شکور یہ کہہ کر تیز تیز قدموں سے دریا کی کیطرف روانہ ہوگیا۔
میں بارش میں بھیگتا پھسلتا جب فاریسٹ ہاوس پہنچا تو وہ برآمدے میں سہمی ہوئی کھڑی تھی۔
بابا نہیں آئے ؟
اس کی سہمی سرگوشی میرے کانوں سے ٹکرائی۔
آ رہے ہیں تمہارے بابا تھوڑی دیر تک ۔ تم پریشان نا ہو میں نے اسے تسلی دی
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔اس نے پریشانی سے تیز ہوتی بارش کو دیکھا
اچھا گھبراو مت اور میرے ساتھ آجاوُ ادھر ۔۔۔میری پیشکش پر اسکا رنگ سرخ پڑگیا۔
آپکے ساتھ ۔۔۔وہ منمنائی۔
ہاں میرے ساتھ۔ پریشان مت ہو شکور نے مجھے کہا تھا کہ تمہیں اپنے پاس بلا لوں،
میرے اندر کا شیطان سر اٹھانے لگا تھا
آااچھوں ۔۔میں نے متواتر چوتھی چھینک ماری۔۔۔لگتا ہے آپکو سردی لگ گئی ہے۔۔۔میں آپکو چائے اور انڈہ بنا کر دیتی ہوں آپ تب تک کپڑے بدل لیں۔۔۔اس نے چوری چوری میرے گیلے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا
دس بج چکے تھے۔باہر ہر طرف پانی تھا۔۔۔۔بارش کا زور بڑھتا جا رہا تھا۔۔
تمہیں سردی نہیں لگ رہی میں نے اسکے کانپتے وجود کو دیکھا۔۔۔بارش کے ساتھ تیز ہوا نے موسم اچانک بدل دیا تھا
نن نہیں میں ٹھیک ہوں۔
اس نے دانت بجاتے ہوئے جواب دیا
کیا ٹھیک ہو؟ چلو شاباش ادھر آو رضائی میں آجاو،
میں نے اسے گہری نظر سے گھورا
نن نہییں مم میں ٹھیک ہوں۔
وہ منمنائی
ارے ایسے کیسے ۔۔۔آو شاباش ورنہ میں بھی رضائی نہیں لونگا میں نے اسکی سادگی سے فائدہ اٹھایا
نن نہیں آپکو بخار ہو جاے گا باو جی۔۔۔میں آتی ہوں وہ آہستگی سے میری چارپائی کی پائنتی پر آبیٹھی۔۔۔ارے ایزی ہو کر بیٹھو ۔۔۔۔گھبراو مت۔ میں اسے آہستہ آہستہ ورغلا رہا تھا۔
کمرے سے باہر بجلی کی کڑک اور بارش کی گھن گھرج تھی جبکہ کمرے میں اسکی نوخیز جوانی میری بانہوں میں۔۔۔نجانے مجھے کیا ہوگیا تھا۔۔۔ بادلوں کی کڑک میں مجھے اسکی سسکاریاں بھی سنائی نہیں دیں
اسکے گیلے جوان جسم کی سوندھی سوندھی مہک مجھے بہکاتی جا رہی تھی۔۔۔جب طوفان اترا تو ہوش آیا کہ میں ایک معصوم کلی کو روند بیٹھا ہوں۔
شکور اگلے دن گیارہ بجے آیا تو میں پریشان صورت برآمدے میں بیٹھا تھا۔۔۔
مجھے اب اس لمحے کا انتظار تھا جب شکور اچانک کوارٹر سے نکل کر میرا گریبان پکڑ کر میری بازپرس کرے گا۔
لیکن وہ اندر سے آیا تو بلکل پہلے کی طرح نارمل تھا۔۔۔۔شائد اس نے زبان نہیں کھولی تھی لیکن میرا دل اندر سے کانپ چکا تھا۔۔۔سہہ پہر تک خب سوچ سمجھ کر ایمرجنسی کے بہانے میں وہاں سے بھاگ نکلا
کراچی پہنچ کر بھی مجھے شکور کا ڈر کافی دن ستاتا رہا لیکن ہفتے دس دن بعد میں آہستہ آہستہ کراچی کی رونقوں میں کھو گیا
دو تین ماہ بعد میری شادی ہوگئی تو میں شادی کے مزے میں ایسا ڈوبا کہ بھول ہی گیا کہ میں نے کسی کلی کو جذبات میں بہک کر کلی سے پھول بنا دیا تھا
یہ تقریبا دس ماہ بعد کی بات ہے جب ڈور بیل بجی ۔۔۔۔میں نے دروازہ کھولا تو ٹھٹھک کر رک گیا
دروازے پر کوئی نہیں تھا مگر دروازے پر رکھا ایک چند دن کا بچہ ہاتھ پاوں مارتا رو رہا تھا
میں نے گھبرا کر خالی گلی کو دیکھا اور دوبارہ بچے کو۔۔۔بچے کے نیچے بچھی میری گرم چادر
مجھے شکور کا ظرف بتا رہی تھی

ختم شد​
کہانی کا انداز اچھوتا اور دلفریب تھا لیکن جب کہانی کی اٹھان اپنے جوبن پر تھی تو اختتام پزیر۔ ہو گئی اور اچانک ایسا محسوس ہوا کہ کسی سحر سے آزاد ہو گئے ہوں بہر حال تشنگی باقی رہی لیکن سچی بات یہ ہے کہ تھوڑی سی بھی طوالت کہانی کی چاشنی کو بد مزہ کر دیتی کہانی لکھنے والی بجا طور پر تعریف کی سزاوار ہیں
 

Top