Erotica بڑے مّموں والی شہزادی کی چدائی

Some things are better forgotten.
Moderator
439
853
93
Note : I Am Not Original Writer, It's CnP Story From Internet.

Credit Goes To Original Writer : Unknown
 
Some things are better forgotten.
Moderator
439
853
93
یہ کہانی بالکل سچی ہے لیکن اس کے تمام نام فرضی ہیں تا کہ کسی کی بھی شناخت ظاہر نہ ہو سکے۔ میرا نام شاکر ہے میری عمر 32 سال کے قریب ہے۔ یہ کوئی ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے۔ ایک دن میرے کمرے میں تمام کمپیوٹرز خراب تھے اور مجھے کام کرنے کے لئے دوسرے کمرے میں جانا پڑا۔ جہاں کام ختم کرنے کے بعد حاجی صدیق صاحب نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور کہا کہ کبھی ہمارے پاس بھی آ کر بیٹھ جایا کریں۔ میں نے کہا حاجی صاحب آپ چائے پلائیں تو میں آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں۔ تو ان کو جیسے سانپ سونگ گیا اچانک ان کی میز کے دوسری طرف بیٹھی ایک لڑکی نے کہا سر چائے پلا دیں گے آپ بیٹھنے والی بات کریں اس کی بات سن کر میں حاجی صاحب کی ٹیبل پر بیٹھ گیا حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ شہزادی صاحبہ ہیں اور چند دن پہلے ہی آفس جوائن کیا ہے۔

انہوں نے ایک معروف سیاسی شخصیت کا نام بھی لیا اور بتایا کہ یہ ان کی رشتہ دار ہیں اور ان کی سفارش کی بدولت ہی اس دفتر میں آئی ہیں۔ میرے کان حاجی صاحب کی طرف اور نگاہیں شہزادی صاحبہ کی طرف تھی جو کسی بھی طرح سے شہزادی نہیں لگ رہی تھی 20 سال کے قریب عمر کی موٹے جسم کی مالک سانولے رنگ کی عام شکل و صورت کی مالک حجاب پہنے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی ٹیلی فون پر کینٹین میں چائے کا آرڈر دے رہی تھی اس کے جسم میں ایک ہی خوبی تھی کہ اس کے ممّے بہت بڑے تھے کم از کم 38 سائز کے ہوں گے۔ چائے پیتے ہوئے مسلسل اس کے مموں کے بارے میں سوچتا رہا بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ لاہور سے تین گھنٹے کی مسافت پر ایک قصبے سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں ایک سرکاری ہاسٹل میں رہتی ہے جس پوسٹ پر اس کو دفتر میں رکھا گیا ہے اس کے لئے اس کی کوالیفکیشن بھی پوری نہیں ہے۔

ایک دن اس نے مجھے میرے موبائل پر کال کی اور کہا کہ اس کا بھائی گھر سے آ رہا ہے اس کا ایک کام کسی جگہ پھنسا ہوا ہے اگر میں کوئی مدد کرسکتا ہوں تو کر دوں۔ میں نے حامی بھر لی تین بجے کے قریب شہزادی صاحبہ اپنے بھائی کے ساتھ میرے کمرے میں آئی اور مجھے ایک فائل پکڑا دی میں نے فائل دیکھی تو پتا چلا کہ جس شخص نے یہ کام کرنا ہے وہ میرا ایک دوست ہے میں نے اس دوست کو فون کیا تو اس نے کہا کہ کام ہو جائے گا اور یہ کام واقعی 2 دنوں بعد ہو گیا۔ اس کے بعد شہزادی صاحبہ نے مجھے شکریہ کے لئے فون بھی کیا ایک دن۔ میں کسی کام کے سلسلہ میں دوبارہ حاجی صاحب کے کمرے میں گیا تو حاجی صاحب موجود نہ تھے شہزادی صاحبہ نے مجھے بٹھایا اور چائے منگوالی اس دوران اس سے پندرہ بیس منٹ تک گفتگو ہوتی رہی۔ اس نے بتایا کہ ہاسٹل میں اس کی کسی بھی لڑکی کے ساتھ اتنی زیادہ دوستی نہیں ہوئی روزانہ ہاسٹل جا کر وہ رات گئے تک بور ہوتی رہتی ہے۔

میں نے اس کو مشورہ دیا کہ اس کے ہاسٹل کے قریب ہی ایک بڑا پارک ہے وہ وہاں شام کے وقت واک کے لئے چلی جایا کرے میں بھی اکثر شام کے وقت وہیں جاتا ہوں۔ اس نے کہا کہ میرے ساتھ جانے کے لئے کوئی بھی نہیں ہوتا حالانکہ میرا دل بھی کرتا ہے کہ شام کو واک کیا کروں۔ میں نے فوری طور پر خدائی خدمت گار بنتے ہوئے اپنی خدمات پیش کر دیں کہ میں جس وقت پارک جاتا ہوں اس وقت وہ بھی آجایا کرے تو میں اس کو واپس ڈراپ کر دیا کروں گا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد حاجی صاحب کمرے میں آ گئے میں نے ان سے کام کے متعلق بات کی اور اپنے کمرے میں آ گیا۔ شام کے وقت پارک جا رہا تھا کہ راستے میں شہزادی صاحبہ کا فون آ گیا کہ شاکر صاحب میں آج واک کے لئے جانا چاہتی ہوں آپ کس وقت آئیں گے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ چند گھنٹے پہلے ہی اس لڑکی نے مجھے ایک ٹکا سا جواب دیا تھا اور اب مجھے خود کہہ رہی ہے خیر میں نے اسے بتا یا کہ میں پارک تھوڑی دیر کے بعد پہنچ جاﺅں گا۔

میں پارک پہنچا تو گیٹ پر ہی اس کے ساتھ ملاقات ہو گئی۔ دونوں اکٹھے پارک میں گئے اور باتیں کرتے کرتے واک کرتے رہے۔ اس دوران شہزادی صاحبہ نے بتایا کہ ان کے باپ ایک مذہبی جماعت کے ضلعی امیر ہیں اور ان کا گھرانہ بہت مذہبی ہے اس کے گھر والے اس کو دوسرے شہر میں ملازمت کے لئے نہیں آنے دیتے تھے مگر وہ ضد کر کے یہاں آئی ہے۔ رات کو آٹھ بجے میں نے اس کو ہاسٹل چھوڑا اور خود گھر آ گیا۔ اگلے دن پھر شہزادی صاحبہ کا فون آ گیا سات آٹھ دن تک میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی خدمات شہزادی صاحبہ کو پیش کرتا رہا اب روزانہ شہزادی صاحبہ مجھے دفتر میں ہی انٹر کام کے ذریعے پوچھ لیتیں کہ کس وقت پارک جانا ہے۔ ایک دن میرے ایک کولیگ نے مجھے کہا کہ خوب عشق چل رہے میں نے اس سے پوچھا کہ کون سے عشق تو اس نے کہا کہ شہزادی صاحبہ کے ساتھ ۔ میں بہت پریشان ہوا اس دن میں نے واک کے دوران شہزادی کو کہا کہ میں کل سے تمہارے ساتھ نہیں واک کروں گا دفتر میں لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ باتیں کرتے ہیں تو کرنے دو تم میرے ساتھ نہ ہوئے تو میں بھی واک نہیں کر سکوں گی میری روٹین خراب نہ کرو اس دن میں نے دل میں "کچھ اور ہی" سوچ لیا اور اس سے کہا کہ کل اتوار ہے اور دفتر سے چھٹی ہے کیوں نہ کہیں آﺅٹنگ پر چلیں اس نے فوراً حامی بھر لی۔

میں اگلے دن صبح دس بجے کے قریب اس کے ہاسٹل چلا گیا اور اس کو گاڑی میں بٹھا کر سیدھا واہگہ بارڈر چلا گیا جہاں پر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا ہوٹل بنا ہوا ہے۔ اس کا مینجر میرا دوست ہے میں نے راستے سے اس کو فون کیا کہ میں آ رہا ہوں اور میرے ساتھ دفتر کی ایک کولیگ ہیں جنہوں نے شام کو فلیگ سرمنی دیکھنی ہے شام تک کمرا چاہئے۔ اس نے کہا کہ آ جائیں ہوٹل پہنچ کر ناشتہ کیا تو میں نے اٹھ کر کمرے کا دروازہ اندر سے بند کیا اور شہزادی صاحبہ کو آ کر پکڑ لیا اور ان کو کسنگ شروع کر دی۔ شہزادی صاحبہ نے مجھے ہاتھ سے ہٹا دیا اور کہا کہ کیا کر رہے ہیں یہ کوئی اچھی بات ہے۔ میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا تو کہنے لگی کہ یہ سب ناجائز ہے ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ مجھے بہت غصہ آیا میں نے اس کو زور زور سے 2 تھپڑ رسید کر دئے اور کہا کہ روزانہ میرے ساتھ پارک میں واک کے لئے جاتی ہو وہ سب کچھ جائز ہے یہاں میرے ساتھ ایک کمرے میں ٹھہری ہو یہ سب کچھ جائز ہے۔ روتے کہنے لگی کچھ بھی ہو میں یہ کام نہیں کروں گی۔

میں نے کہا کہ اگر وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتی تو فوری طور پر یہاں سے چلی جائے میں اس کو واپس بھی نہیں لے جا سکتا یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر نکل آیا اور مینجر سے اخبار لے کر دوبارہ کمرے میں آ کر پڑھنے لگا۔ 15 منٹ کے بعد شہزادی صاحبہ جو صوفے پر بیٹھی تھیں بیڈ پر میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگی اور کچھ نہیں مجھے صرف شرم آتی ہے۔ یہ سن کر میں نے اس کو کہا کہ تم آنکھیں بند کرلو شرم نہیں آئے گی تو کہنے لگی کہ صرف کسنگ ہی کرنی ہے اس سے آ گے کچھ بھی نہیں۔ میں نے موقع کو غنیمت جانا اور کہا کہ میں نے اس کے ساتھ دوستی صرف اس کے مموں کی وجہ سے کی ہے یہ مجھے بہت پسند ہیں میں ان کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ تو کہنے لگی کہ ٹھیک ہے مگر اس سے آگے کچھ نہیں۔ میں نے فوراً حامی بھر لی اور فوری طور پر اس کا حجاب اتارا اور اس کو کسنگ شروع کر دی۔ اس دوران پہلے تو وہ پتھر بنی رہی مگر تھوڑی دیر بعد میرا ساتھ دینے لگی۔ 10 15 منٹ بعد میں نے اس کی قمیص اتاری تو کہنے لگی کمبل اوپر اوڑھ لو۔ میں نے کمبل اوڑھ لیا اور اس کا بریزئیر بھی اتار دیا اور اس کے مموں کو چوسنا شروع کردیا اس دوران وہ کافی ہاٹ ہوگئی اور منہ سے اف ف ف ف 'ام م م م م م ' س س س س س س کی آوازیں نکالنے لگی۔

میں نے اس کی شلوار اتارنی چاہی تو اس نے پھر سے منع کر دیا۔ میں نے اس کو کہا کہ بہتر ہے آج مجھے منع نہ کرو میں نہیں چاہتا کہ تم سے زبردستی کروں مگر تم نے مزاحمت کی تو میں زبردستی کروں گا اور یہ کام پھر بھی ہو جائے گا۔ یہ بات سن کر اس نے مزاحمت ترک کر دی۔ اور میں نے اس کی شلوار اتار دی اس کے بعد میں نے کمبل بھی اوپر سے اتار دیا اس کے ممّے بھی کیا ممّے تھے۔ میں اپنے ہاتھ اس کے جسم پر پھیر رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے جسم کو بھی دیکھ رہا تھا وہ آہستہ آہستہ مچل رہی تھی اور میں اس کے جسم کو بغور دیکھ رہا تھا اس کے جسم پر دو جگہ تل تھے ایک دونوں ممّوں کے درمیان اور ایک پیٹ میں ناف کے قریب' اس نے ایک دو دن پہلے ہی ستر کے بال صاف کئے تھے۔

چند منٹ میں ہی شہزادی صاحبہ آﺅٹ آف کنٹرول ہو گئیں اور مجھ کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور کہنے لگی شاکر کچھ کرو میں آج مر جاﺅں گی۔ میں نے دوبارہ اس کی کسنگ شروع کر دی اور اس کو مزید تڑپانے لگا۔ وہ جنسی بلیوں کی طرح مجھے کاٹنے لگی میں نے اب اس کو زیادہ تڑپانا مناسب نہ سمجھا اوراپنے کپڑے اتار دیئے۔ وہ میرا 8 انچ سے بھی بڑا ہتھیار دیکھ کر اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور کہنے لگی شاکر یہ کیا کرنے لگے ہو۔ تو میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش رہنے کی ہدایت کی میں نے اس کی کمر کے نیچے تکیہ رکھا اور ٹانگیں اوپر اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ دیں اور اپنا ہتھیار اس کی چوت پر رکھ کر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور ایک زور دار جھٹکے سے اس کو سارا کا سارا لن اس کی چوت میں دھکیل دیا۔ اس کی چیخ میرے منہ میں ہی دب کر رہ گئی وہ مجھے دونوں ہاتھوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی مگر کامیاب نہ ہو سکی۔

میں اس کے اوپر ہی لیٹا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی مزاحمت کم ہوئی تو میں نے اس کے منہ سے اپنا منہ پیچھے کیا اور اس کو کہا کہ کیا ہوا ہے۔ تو کہنے لگی شاکر تم نے تو مجھے مار ہی ڈالا ہے اس کو فوری طور پر باہر نکالو۔ میں نے کہا کہ اب تم کو تکلیف نہیں بلکہ مزہ آئے گا۔ کہنے لگی مجھے ایسا مزہ نہیں چاہئے تم اس کو باہر نکالو۔ اس دوران وہ میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش بھی کرتی رہی مگر کامیاب نہ ہو سکی۔ اب میں نے اپنے لن کو آہستہ آہستہ سے اندر باہر کرنا شروع کیا تو اس کو بھی مزا آنے لگا ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ فارغ ہو گئی۔ مگر میں ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا اب اس کی چوت کافی گیلی ہوگئی تھی اور مجھے اس کو چودنے میں مزہ نہیں آرہا تھا اس لئے میں نے اپنا لن اس کی چوت سے باہر نکالا اور اس کی چوت بیڈ شیٹ سے صاف کی بیڈ شیٹ پر خون اور منی کے دھبے پڑ گئے تھے بیڈ شیٹ پر خون کے دھبے دیکھ کر وہ رونے لگی۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ پہلی بار ہر لڑکی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے تو وہ چپ ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے اس کو پھر سے چودنا شروع کر دیا۔ اب وہ پوری طرح میرا ساتھ دے رہی تھی اور جب بھی میں گھسا لگاتا وہ نیچے سے اچھل اچھل کر میرا ساتھ دیتی بیس منٹ کی چدائی کے بعد میں فارغ ہو گیا اور ساری منی اس کی چوت میں ہی چھوڑ دی۔ اب وہ نڈھال ہو کر میرے ساتھ لپٹ گئی۔ اس دوران وہ میرے لن کو مسلسل سہلاتی رہی کچھ ہی دیر کے بعد میں دوبارہ تیار ہو گیا۔

میں نے اس کو کہا کہ ایک بار پھر سے یہ کام کرنا ہے تو اس نے انکار کر دیا۔ میں نے اسرار کیا تو وہ تیار ہوگئی اور کہنے لگی کہ آج میں اس کام کی انتہا کو پہنچنا چاہتی ہوں۔ میں نے اس کی چوت پر اپنا لن رکھا تو چیخنے لگی کہ اب فوری طور پر لن چوت کے اندر ڈال دو میں نے ایسا ہی کیا اور تقریباً 15 منٹ تک اس کی چدائی کرتا رہا اب کی بار پھر میں اس کی چوت میں ہی چھوٹ گیا اور اس کے اوپر ہی لیٹ گیا۔ وہ بھی مکمل طورپر نڈھال ہو چکی تھی۔

کچھ دیر ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد اس نے باتیں شروع کر دیں اور کہنے لگی کہ اگر یہ بات میرے گھر والوں کو پتا چل گئی تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے۔ اس نے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے فیصل آباد کے ایک وکیل کے ساتھ اس کی زبردستی منگنی کر دی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی چار بہنیں ہیں جن میں سے دو بڑی بہنوں کی شادی ہو چکی ہے جب کہ دو اس سے چھوٹی ہیں جب کہ تین بھائی ہیں۔ اس کا باپ ابھی تک اس کی والدہ کے کردار پر شک کرتا ہے اور اکثر اوقات اس کو مارتا پیٹتا بھی ہے مگر وہ اپنے باپ کے سامنے ایک لفظ بھی نہیں بول سکتی۔ اس نے بتایا کہ اس کا باپ ان کی کسی بھی سہیلی کو گھر نہیں آنے دیتا اور نہ ہی ان کو کسی سہیلی کے گھر میں جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے باپ نے اس کو لاہور میں جاب کرنے کی اجازت کیسے دے دی۔ تو اس نے کہا کہ اس نے اپنی منگنی کے بعد احتجاج کے طور پر زہر کھا لیا تھا گھر والے اسے ہسپتال لے گئے ڈاکٹروں نے اس کی جان بچا لی۔ جب تندرست ہو کر گھر گئی تو اس نے گھر والوں سے کہا کہ وہ جاب کرنا چاہتی ہے۔ پہلے انہوں نے انکار کر دیا مگر جب میں نے دوبارہ زہر کھانے کی دھمکی دی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ اس نے بتایا کہ اس کا باپ اتنا شکی ہے کہ ہر روز ہاسٹل فون کر کے اس کے بارے میں پوچھتا ہے کہ اس کا میل جول کن لڑکیوں کے ساتھ ہے وہ دفتر سے کب آتی ہے اور کب جاتی ہے۔ اس کے بعد ہم دونوں نے اکٹھے غسل کیا اور میں اس کو شام سے پہلے ہی ہاسٹل چھوڑ آیا۔

اس کے بعد میری اس کے ساتھ ہر ہفتے چدائی ڈیٹ ہونے لگی۔ اس دوران اس کا حوصلہ کافی حد تک بڑھ گیا۔ ہم دونوں ایک بار مری بھی گئے جہاں میں نے اس کی چدائی کی ویب کیم کے ذریعے فلم بھی بنا لی وہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ جب کہ اس نے ہاسٹل میں جا کر اپنی ایک دوست جمیلہ (جو ایک سرکاری محکمے سے ہے) کو میرے بارے میں بتایا تو اس کو بھی مجھ سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔ میں نے اس کی بھی چدائی کی۔ جب کہ چند ماہ کے بعد شہزادی صاحبہ کی شادی ہو گئی۔ شہزادی صاحبہ کی والدہ کے ساتھ بھی مجھے ہم بستری کا موقع ملا اس کی کہانی میں ایک دور روز میں لکھ کر سب کے ساتھ شیئر کروں گا ابھی بھی اس کی ای میلز ' ایس ایم ایس اور فون مجھے آتے رہتے ہیں۔ اس کی ای میلز اور ایس ایم ایس کا ایک خزانہ میرے پاس محفوظ ہے۔ یہاں میں ایک بات بتانا بھول گیا کہ شادی سے چند روز پہلے اس نے مجھے بتایا کہ اس کو مینسز نہیں ہوئے۔ جب ڈاکٹر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے۔ میں نے اس کو حمل گرانے کا مشورہ دیا مگر وہ نہیں مانی۔ ابھی چند روز قبل اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ بیٹا میری چدائی کا نتیجہ ہے اس نے مجھے اس کی تصاویر بھی بھیجی ہیں۔

ختم شد۔
 

Top