Erotica مالکن اور کتے کا سیکس - مکمل

Active member
780
397
63
پہلی قسط
جمال خان ایک بہت بڑا اور کامیاب بزنس مین تھا۔ اسکی عمر40 سال تھی۔ اسکی بیوی سیما اس سے قریب 17 سال چھوٹی تھی۔ 23 سالہ سیما بے حد جوان اور خوبصورت تھی۔ مکھن کی طرح نرم، دودھ کی طرح سفید گوری چٹی اور چھوئی موئی کی طرح نازک جسم کی مالک تھی۔ وہ اپنی جوانی اور حُسن کا خُوب خیال رکھتی تھی۔ اپنے جسم پر ایک بھی غیر ضروری بال نہ رہنے دیتی۔ روزانہ امپورٹڈ بےبی لوشن کے ساتھ اپنے جسم کا مساج کرتی۔ باقاعدگی کے ساتھ بیوٹی پارلر جاتی اور اپنے حسن کو چار چاند لگواتی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ اپنی جوانی اور خوبصورتی کا خیال نہ رکھے گی تو جمال خان جیسا مالدار آدمی اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس بھی جا سکتا ہے۔ اپنی اداؤں کے جلوے جمال خان کو دکھاتی رہتی اور وہ بھی ایک بھرپور اور وجیہہ مرد تھا ہر طرح سے سیما کا خیال رکھتا اسکی مالی اور جسمانی ضرورتوں کو نہائیت ہی اچھے انداز میں پورا کرتا سیما کی مکمل تسلی تک۔ پارٹیز میں ہمیشہ ہی انکی جوڑی کی تعریف ہوتی تھی۔ دونوں ہی ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے اور ایکدوسرے سے بہت پیارک کرتے تھے۔ سیما جمال خان کے ساتھ باہر کے ملکوں کے بزنس ٹور پہ بھی جاتی۔ اور تمام قسم کی بزنس پارٹیز میں بھی شامل رہتی۔ مگر انکے علاوہ اسے گھر پے ہی رہنا پڑتا۔ گھر ۔۔۔۔۔۔ گھر کیا تھا ایک بہت بڑا بنگلہ تھا۔ نوکر چاکر، کاریں، ڈرائیور، سب کچھ تھا۔گھر پہ کام کاج کوئی کرنے کو تھا نہیں۔ نوکر ہی سارا کام کرتے تھے۔ کھاناپکانے کے لیے بھی خانساماں تھا جو کھانا بنانے کے بعد اپنے کوارٹر میں چلا جاتا تھا جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس طرح وہ گھر کے اندر زیادہ تر اکیلی ہی ہوتی تھی۔ سیما کا جہاں دل کرتا وہ ڈرائیور کے ساتھ جا سکتی تھی اور جاتی بھی تھی۔ مگر زیادہ تر گھر پہ ہی رہتی تھی۔ جمال خان بھی زیادہ تر شہر میں ہی رہتا تھا۔
ایک بار جب جمال خان اور سیما امریکہ کے ٹور پر گئے تو وہاں انکا میزبان رابرٹ تھا ۔ اسنے انکو ہوٹل مین ٹہرانے کی بجائے اپنے گھر میں ٹھرایا۔ رابرٹ اور اسکی خوبصورت بیوی جولیا بہت ہی اچھے اور ملنسار لوگ تھے۔ انھوں نے انکی خوب آو بھگت کی۔ انکے گھر میں دو کتے بھی تھے۔ جو کہ انکے گھر میں ہی پل کے جوان ہوے تھے۔ سفید رنگ کے جسم پر کالے رنگ کے بہت خوبصورت دھبے دھبے بنے ہوے تھے۔ قریب 4 فٹ لمبا اور ڈھائی فٹ اونچا قد تھا۔ بھاری مگر بہت مضبوط ۔ بےحد چست اور پھرتیلا جسم تھا انکا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں کتے بلکل ایک جیسے تھے۔ یعنی وہ دو جڑواں کتے تھے۔ جمی اور ٹامی ۔ سیما کو بھی وہ کتے بہت اچھے لگے تھے۔ دونوں ہی بہت اچھے سُدھائے ہوئے تھے۔ اپنے مالکوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ سیما نے دیکھ کے دونوں کتے رابرٹ اور جولیا کے آگے پیچھے پھرتے ۔ اپنی دُم ہلاتے انکے حکم کا انتظار کرتے ہوے۔ دونوں کتے گھر کے اندر پھرتے تھے مگر سیما کو کہیں بھی کوئی اُنکی پھیلائی ہوئی گندگی نظر نہیں آئی۔ رابرٹ نے جب اپنے مہمانوں کی پسندیدگی اور دلچسپی اپنے کتوں میں دیکھی تو اُسے اور بھی اچھا لگااور اُس نے اُنکو اپنا ایک کتا تحفے میں دینے کی آفر کر دی۔جمال خان اور سیما اس آفر پہ بہت حیران اور خوش ہوئےاورسیما نے جمال خان سے وہ کتا اپنے ساتھ لے جانے کی فرمائش کی۔ کتا تو جمال کو بھی پسند آیا تھا چنانچہ انھوں نے رابرٹ کی آفر کو شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا۔ سیما کو خوش ہوتے ہوئے دیکھ کر رابرٹ نے معنی خیز نظروں سے اپنی بیوی جولیا کی طرف دیکھا اور دونوں مسکرا دیئے۔
سیما: جولیا آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ یہ تو سارا سارا دن گھر سے باہر رہتے ہیں اور میں گھر میں بور ہوتی رہتی ہوں اب آپ نے ایک ڈوگی ہمیں دیا ہے تو چلو اسکے ساتھ میری کچھ مصروفیت بنی رہے گی اور وقت بھی پاس ہو جائے گا۔
جولیا مسکرا کے بولی۔۔۔ یس۔ ٹامی کے ساتھ آپ کا وقت سچ میں بہت اچھا گزرے گا اور آپ ہمیشہ ہمیں یاد کرو گی۔ ٹامی میرا پسندیدہ کتا ہے۔ اسکی بہت اچھی تربیت کی ہوئی ہے ہم نے۔ آپ لوگوں کو کبھی بھی اس سے کسی قسم کی کو شکائیت نہیں ہو گی۔
سیما خوش اور پُرجوش ہوتی ہوئی بولی۔۔۔ مجھے بہت اچھا لگے گا جب یہ میرے اشاروں پہ چلے گا۔
رابرٹ ہنستے ہوئے۔۔۔ یہ اشاروں پہ چلتا بھی ہے اور اپنے اشاروں پہ چلاتا بھی ہے۔
اسکی بات پہ جولیا ہنسنے لگی اور سیما بھی بنا کچھ سمجھے اُنکے ساتھ ہنسنے لگی۔ جب امریکہ سے دونوں واپس آئے تو ٹامی بھی انکے ساتھ تھا اور دونوں بہت خوش تھے۔
ٹامی نے جمال خان کے گھر میں رہنا شروع کر دیا وہ سچ میں ہی بہت شاندار جانور تھا بہت ہی مہذب اور تربیت یافتہ۔۔۔ بلکل امریکی عوام کی طرح۔ شروع شروع میں وہ نئے ماحول میں آ کے گھبرایا ہوا تھا۔ تھوڑا تنگ کیا۔ وہ بھی ڈرا ہوا تھا اور جمال خان اور سیما بھی اس سے تھوڑا دور دور رہتے۔ مگر آہستہ آہستہ اُنکا خوف جاتا رہا اور وہ اُسکے قریب آنے لگے اور وہ بھی بہت جلد جمال خان اور سیما کے ساتھ مانوس ہوگیا۔ گھر کے اندر ہی رہتا اور سیما کے آگے پیچھے پھرتا رہتا۔ سیما خود اسے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی۔ اسے واک کرواتی۔ شروع میں تو اسکے گلے میں پٹہ ڈالاگیا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ سیما نے اُتار پھینکا اور اب ٹامی گھر کے اندر بنا روک ٹوک اور بنا کسی رکاوٹ کے پھرتا تھا۔ اُسکی دیکھ بھال کے لیے ایک خاص نوکر رکھا تھا مگر ٹامی تو زیادہ وقت سیما کے ساتھ ہی گزارتا اور سیما کے ساتھ ہی خوش رہتا۔ سیماکو بھی اپنا فارغ وقت گزارنے کا ایک شغل مل گیا تھا۔ ٹامی سیماکے ساتھ کھیلتا اسکے پیروں کو چاٹتا اپنا منہ اور سر اسکے پیروں سے رگڑتا اور سیمابھی اسکے سر پہ اور جسم پہ ہاتھ پھیر کے اسکے جسم کہ سہلاتی اور اسکی محبت کا جواب محبت سے دیتی۔ شروع میں جب ٹامی نے سیما کے پیروں کو چاٹنے کے لیے اپنا منہ اسکے پیروں پر رکھنا چاہا تو وہ ڈر کے مارے اٗچھل ہی پڑی تھی اور اسکے قریب بیٹھا ہوا جمال خان بھی ہنسنے لگا تھا۔۔ مگر دھیرے دھیرے وہ اسکی عادی ہو گئی تھی اور اب اسے اچھا لگتا تھا جب ٹامی کی زبان اسکے پیروں پر سرکتی تھی ۔۔ اسے چاٹتی تھی ۔۔۔۔ اب تو اسکا اپنا بھی دل چاہتا تھا کہ وہ اسکے پیروں پہ اپنی زبان پھیرتا رہے۔ ۔۔۔ شام میں ٹامی سیما کے ساتھ لان میں کھیلتا ۔۔۔۔ سیما آگے آگے بھاگتی اور وہ اسکے پیچھے پیچھے بھاگ کر اسے پکڑنے کوشش کرتا ۔۔۔۔ کبھی کبھی سیما نیچے گھاس پر بیٹھ جاتی تو وہ اس پر چڑھ جاتا ۔۔۔ اسے نیچے گرانے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔ اور سیما بھی ہنستی ہوئی نیچے اسکے سامنے لیٹ جاتی ۔۔۔۔ اور وہ پھر اسکے پیروں کو چاٹنے لگتا ۔۔۔۔ اور کبھی اپنا سر اسکے منہ کے ساتھ رگڑنے لگتا ۔۔۔۔۔ اس سب سے سیما خوب انجوائے کرتی ۔۔۔۔۔
سیماایک ماڈرن اور آزاد خیال لڑکی تھی۔ وہ ہر طرح کے ماڈرن لباس پہننا پسند کرتی تھی ۔ مگر گھر کے اندر وہ اور بھی آزادی کے ساتھ رہتی تھی۔ اکژ گھر کےاندر اسکا لباس بہت بولڈہوتا۔ ٹی شرٹ اور شارٹس پہننا تو اسکا معمول تھا نا۔ ایسے ہی ایک روز وہ ٹی وی لاؤنج میں صوفے پہ لیٹی ہوئی ایک انڈین مووی دیکھ رہی تھی اور ٹامی بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ سیمانے شارٹس اور ٹی شرٹ ہی پہنی ہوئی تھی۔ شارٹس اسکے گھٹنوں سے اوپر تک تھی اور اسکی گوری گوری اور چکنی ٹانگیں ننگی ہو رہی تھیں۔ ٹی شرٹ بھی اسکے جسم کے ساتھ چپکی ہوئی تھی جس میں اسکے سیینے کے ابھار قیامت لگ رہے تھے۔ ٹامی نے سیماکے قریب آکر اسکے پیروں میں اپنا سر رگڑنا شروع کر دیا۔ اپنے سر کے ساتھ وہ سیماکے پیر کہ سہلانے لگا۔ سیمانے بھی اپنے دوسرے پیر کے ساتھ کُتے کے سر کو سہلانا شروع کردیا۔ بڑے ہی پیار سے اسکے سر پہ اپنا پیر پھیرنے لگی۔ ٹامی نے اسکے پیار بھرے انداز کو دیکھا تو خوش ہو کر وہ سیماکے پیر کو اپنی لمبی گلابی زبان نکال کر چاٹنے لگا۔ سیما کے پیر کے تلوے کو جب ٹامی نے اپنی زبان سے چاٹنا شروع کیا تو سیماکو ہلکی ہلکی گُدگُدی ہونے لگی اور اُسکے ساتھ ہی مزہ بھی آنے لگا۔ ٹامی کی نرم نرم زبان کبھی سیما کے تلوے کو چاٹتی تو کبھی پیر کے اوپر کے حصے کو چاٹنے لگتی۔ بڑے ہی پیار اور جوش کے ساتھ ٹامی سیماکے پیر کہ چاٹ رہا تھا جیسے کے اسکے پیر پہ کوئی شہد لگا ہو جسے چاٹنے میں اسے مزہ آرہا ہو۔ لذت کے مارے سیماکی توجہ بھی اب ٹی وی پر سے ہٹ چکی تھی اور وہ بھی ٹامی کہ ہی دیکھ رہی تھی اور اسکے سر کہ سہلارہی تھی اپنے پیر کے ساتھ۔ ٹامی بھی کبھی سیماکے ایک پیر کو چاٹتا اور کبھی دوسرے پیر کہ چاٹنے لگتا۔ دھیرے دھیرے اسکی زبان سیماکے پیر سے اوپر کوجاتی ہوئی اسکی گوری گوری ٹانگ کے نچلے حصے کو چاٹنے لگی۔ وہاں اس نے اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی۔
ٹامی کی لمبی کھردری گلابی زبان جیسے جیسے سیما کے پیروں اور ٹانگ کے نچلے حصے کو چاٹتی جاتی تو ویسے ویسے ہی اٗسے مزہ آنے لگا۔ پہلے پہل تو وہ اسے ٹامی کا روز کا کام ہی سمجھ رہی تھی اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی تھی مگر دھیرے دھیرے سیما کو بھی مزہ آنے لگا ۔۔۔۔۔ اچھا لگنے لگا۔ ۔۔۔ اسکی توجہ ٹی وی کی طرف سے ہٹ کہ اب صرف اپنے کُتے کی زبان سے ملنے والی لذت کی طرف ہی تھی۔ اسکا دل چاہ رہا تھا کہ ٹامی کی زبان اور اوپر کو آتی جائے اسکے جسم کو چاٹتی ہوئی۔ ۔۔ ٹامی بھی آہستہ آہستہ سیما کے جسم کے ننگے حصوں کو چاٹتے ہوے آگے بڑھ رہا تھا۔ ۔۔ اسکی لمبی گیلی زبان اپنے تھوکے کے ساتھ سیما کی ٹانگوں کو گیلا کر رہی تھی۔۔۔ جہاں جہاں سے وہ چاٹتا جاتا تھا وہاں وہ اسکے جسم کو گیلا کرتا جا رہا تھا۔۔۔۔ سیما کو بھی برا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔ بلکہ اس طرف تو اُسکا دھیان ہی نہیں تھا کہ کُتے کے منہ کا تھوک اسکے جسم کو گیلا یا گندہ کر رہا ہے۔۔۔ اسے تو بس اپنے مزے کا ہی احساس تھا بس۔۔۔۔۔۔ جو اس کتے کی زبان سے مل رہا تھا۔۔۔۔۔
ٹامی کا منہ اب سیما کی ننگی رانوں تک پہنچ رہا تھا۔۔ اس نے اپنی لمبی زبان کے ساتھ سیما کی گوری گوری چکنی ننگی ران کو چاٹنا شروع کردیا۔۔۔۔ سیما نے خود ہی اپنی شارٹس کو اپنی ران پہ تھورا اوپر کو سرکا لیا ۔۔۔۔۔ اپنی گوری گوری رانوں کو اور بھی ننگا کرتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اس کُتے کے لیے ۔۔۔۔۔ جیسے جیسے ٹامی نے سیما کی ننگی رانوں کو چاٹنا شروع کیا ویسے ویسے سیما لذت کے مارے تڑپنے لگی ۔۔۔۔ لذت کے مارے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔۔۔۔ کتے کا جسم اب سیما کے قریب تھا۔۔۔۔ اسکے ہاتھ کے قریب۔۔۔۔ سیما نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اسکے جسم پہ رکھا اور اسکے جسم کہ سہلانے لگی۔۔۔۔۔ اسکا ہاتھ تیزی کے ساتھ ٹامی کے جسم پہ حرکت کر رہا تھا ۔۔۔ اور وہ اسے سہلاتی ہوئی اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔۔۔ جمال خان نے بھی کئی بار اسکے جسم کو چوما اور اپنی زبان سے چاٹا تھا ۔۔۔ مگر جو مزہ سیما کو ٹامی کی زبان سے مل رہا تھا وہ لذت اسے آج پہلی بار مل رہی تھی ۔۔۔۔ سیما کا ایک ہاتھ اب ٹامی کے سر کو سہلا رہا تھا اور دوسرا ہاتھ اپنی ران پہ تھا ۔۔۔۔۔۔ ٹامی کی زبان سیما کی رانوں کو چاٹتی ہوئی کبھی اسکے ہاتھ کو بھی چاٹنے لگتی۔۔۔ سیما کو عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ اسے اپنی چوت کے اندر سرسراہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔ ہلکا ہلکا گیلا پن اپنی چوت کے اندر بھی محسوس کر رہی تھی وہ ۔۔۔۔۔ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایک کتے کی زبان اس قدر لذت دے سکتی ہے ۔۔۔۔ اسے تھورا خوف اور ڈر بھی لگ رہا تھا اس کتے سے کہ کہیں وہ اسے کاٹ نہ لے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر اسکے ساتھ ساتھ ۔۔۔ اسکی زبان سے ملنے والی لذت اسے سب کچھ بھول بھال کہ اسی مزے میں کھو جانے کو کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ آج سے پہلے بھی ٹامی نے کئی بار سیما کے پیروں کو چاٹا تھا مگر وہ کبھی بھی اسکے پیروں سے آگے نہیں بڑھا تھا پر آج اسکی زبان اسکے پیروں سے آگے اسکی ننگی ٹانگوں سے ہوتی ہوئی اسکی ننگی گوری چکنی رانوں تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی سیما لذت کی بلندیوں کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔
کُتے کی زبان سیما کی رانوں کے اوپری حصے کو چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔ اسکی چوت کے اردگرد ۔۔۔۔ جیسےابھی کے ابھی اسکی چوت تک پہنچ جائے گی ۔۔۔ مگر اسکی چوت کو تو اسکی پینٹی اور شارٹس نے کوور کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اور ان دونوں چیزوں کو اُتارے بنا وہ اپنی چوت کو ٹامی کے سامنے ننگی نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔ سیما کی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔ ٹانگیں پوری کُھلی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔۔ پورے کا پورا جسم جھٹکے کھا رہا تھا ۔۔۔۔ کُتے ٹامی کی زبان اسکے پورے جسم میں آگ لگا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے جسم پر موجود سارے کے سارے کپڑے اُتار پھینکے ۔۔۔ اور ٹامی کی زبان کے لمس کو اپنے پورے جسم پر محسوس کرے ۔۔۔۔۔۔ پورے جسم پر اسکی زبان کو پھروا کرمزے لے ۔۔۔۔۔ ابھی وہ اپنے دماغ میں پیدا ہونے والی اس خواہش کو پورا کرنے یا نہ کنٹرول کرنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ گھر کے اندر کے دروازے کی بیل بج اُٹھی ۔۔۔۔۔ سیما جیسے ہوش میں آگئی ۔۔۔ اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔ ٹامی کو اپنے جسم پر سے پیچھے ہٹایا ۔۔۔۔ وہ بھی بیل کی آواز سے چونک کر چوکنّا ہو چُکا ہوا تھا۔۔۔ سیما نے شرمندہ نظروں سے ٹامی کی طرف دیکھا اور پھر صوفے پر سے اُٹھ کر دروازہ کھولنے کے لیے بڑھ گئی۔۔۔ اسکا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔۔ منہ خشک ہو رہا تھا ۔۔۔۔ دروازہ کھولا تو سامنے خانساماں تھا ۔۔۔۔ جو کہ کھانا پکانے کے لیے آیا تھا ۔۔۔۔ سیما نے واپس آتے ہوے اسے ٹھنڈا پانی لا کے پلانے کو کہا ۔۔۔۔ اور واپس جا کر صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ اور اپنے سے کچھ دور بیٹھے ہوے ٹامی کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔ خانساماں پانی دے گیا تو وہ آہستہ آہستہ پانی پیتی ہوئی ٹامی کے بارے میں ہی سوچتی رہی ۔۔۔۔ کہ کسقدر عجیب بات ہے ۔۔۔ کسقدر عجیب لذت اور مزہ تھا اسکی زبان میں ۔۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر ۔۔۔۔ اگر ۔۔۔ اگر ٹامی کی زبان اسکی ننگی چوت کو چاٹتی تو اسے کتنا مزہ آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات ذہن میں آتے ہی اسکے پورے جسم میں ایک جھرجھری سی پھیل گئی ۔۔۔۔ اور چہرہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سُرخ ہو گیا ۔۔۔ ٹامی بھی اپنی جگہ پہ نیچے قالین پر بیٹھا اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ اپنی مالکن کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے اپنے کام کی تعریف چاہتا ہو ۔۔۔۔۔ جیسے کچھ انعام چاہتا ہو۔ ۔۔ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے کتے اور اپنے بارے میں ایسا سوچتے ہوے سیما کو تھوری شرم سی آرہی تھی ۔۔۔ مگر کوئی غلطی ہونے کی شرمندگی نہیں تھی۔۔۔۔ وہ مسکرائی اور ٹامی کی طرف دیکھتی ہوئی اپنے بیڈروم کی طرف بڑھ گئی۔۔
 
Active member
780
397
63
دوسری قسط
کمرے کی طرف ٹامی نے جاتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی فورا" اپنی جگہ سے اُٹھا اور اسکے پیچھے پیچھے چل پڑا۔۔۔ سیما نے جیسے ہی اپنے پیچھے مڑ کر دروازہ بند کرنے کا ارادہ کیا تو ٹامی دروازے کے بلکل سامنے کھڑا تھا ۔۔۔۔ بڑی ہی عجیب نظروں سے وہ سیما کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسکی لمبی گلابی زبان باہر لٹک رہی تھی ۔۔۔ اور بڑی بڑی آنکھیں سیما کی خوبصورت آنکھوں سے ملی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ ٹامی سیما کی طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہ وہ اپنی مالکن سے اُسکے کمرے کے اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہو۔۔۔ آج تک سیما نے یا جمال خان نے ٹامی کو اپنے بیڈروم میں آنے سے منع نہیں کیا تھا وہ جیسے چاہتا تھا اندر آجاتا تھا۔۔۔ مگر آج سیما اسے اندر آنے دینے کے لیے سوچ رہی تھی کہ آنے دے یا نہ۔۔۔۔ مگر پھر جیسے اُسے اس بے زبان پر ترس آگیا ہو ۔۔۔۔۔ وہ اُسے راستہ دیتی ہوئی بولی۔ ٹھیک ہے آجاؤ اندر ۔۔۔۔ لیکن یاد رکھنا کوئی شرارت نہیں چلے گی۔۔۔ سمجھے۔۔۔ ٹامی یہ سُن کر جلدی سے اندر کو بڑھا جیسے اٗسے اپنی مالکن کی شرط منظور ہو۔۔۔۔۔۔۔
کمرے کے اندر آکر اب سیما سوچنے لگی کہ وہ جس کام کےلیے اپنے کمرےمیں آئی ہے وہ اب ٹامی کے سامنے کرے یا نہ کرے ۔۔۔۔ یعنی اب وہ ٹامی کے سامنے ہی اپنے کپڑے تبدیل کرے یا پھر باتھ روم میں جا کر تبدیل کرے ۔۔۔۔۔۔ سیما نےکُتّے کی طرف دیکھا جو کہ ایک طرف نیچے کارپٹ پہ بیٹھا ہوا تھا بڑے ہی آرام سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی بڑی بڑی آنکھو کے ساتھ اپنی مالکن سیما کی طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے باتھ روم کے اندر جا کر ہی کپڑے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی الماری کی طرف جا کر اپنے کپڑے نکالنے لگی ۔۔۔ تبھی اُسے خیال آیا کہ ۔۔۔۔ ایک سوچ اسکے اندر پیدا ہوئی کہ وہ آخر ٹامی کے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ اس سے ڈر رہی ہے ۔۔۔۔ ٹامی ایک جانور ہی تو ہے ۔۔۔۔۔۔ کوئی انسان تو نہیں ہے نا کہ وہ اسکے سامنے اپنے کپڑے تبدیل نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ اُتار نہیں سکتی۔ ۔۔۔۔۔ اسکے سامنے ننگی نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔۔ وہ خود کو سمجھا رہی تھی کہ اس بے چارے بے زبان جانور کے سامنے اپنے کپڑے اتارنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ اسے کوئی نقصان تو نہیں پہنچا سکتا ۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک اچھا تربیت یافتہ جانور ہے ۔۔۔۔۔ اپنے مالکوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے والا ۔۔۔۔۔ اور اُن سے بہت زیادہ پیار کرنے والا ۔۔۔۔۔۔۔ اور ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو ٹامی نے اپنی محبت اور وفاداری کا ثبوت دیا تھا ۔۔۔۔ اسکے پیروں اور پیروں سے اوپر اسکے ننگے جسم کو چاٹ چاٹ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کو یاد آیا کہ جب ٹامی اسکی ٹانگوں اور رانوں کو چاٹ رہا تھا تو اسے کتنا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے کہ ٹامی کے ساتھ گزرے ہوے وقت کو یاد کر کے سیما کے جسم میں ایک بار پھر سے سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ ۔۔۔۔ ایک لذت آمیز لہر۔۔۔۔۔۔ اور ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔۔ سیما نے ٹامی کے سامنے ہی اپنے کپڑے تبدیل کرنے کا ارادہ کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
سیما نے بیڈ کے قریب کھڑی ہوتے ہوے ایک نظر دوبارہ سے ٹامی پہ ڈالی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اسکی طرف ہی دیکھتے ہوے اپنی ٹی شرٹ کو نیچے سے پکڑ کر اوپر کو اُٹھا نا شروع کر دیا ۔۔۔۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے سیما کی ٹی شرٹ اسکےجسم سے اُتر چکی تھی ۔۔۔ اب سیما اپنے کمرے میں اپنے پالتو کتے کے سامنے صرف ایک کالے رنگ کی بریزیئر اور شارٹس میں کھڑی تھی۔۔۔ ٹامی بھی بجائے ادھر اُدھر دیکھنے کے بڑے ہی شوق سے اپنی مالکن کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ سیما نے جب کتے کو اپنی ہی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو مسکرائی ۔۔۔ اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی شرٹ کو گول مول کر کے زور سے کتے کے منہ پہ پھینکا ۔۔۔۔ اور پھر خود ہی زور زور سے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔۔
سیما کی شرٹ کتے کہ منہ پر ٹکرا کر اسکے سامنے گر گئی ۔۔۔۔ ٹامی نے فوراََ اسے سونگھنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ سیما بھی اسکی حرکتوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ٹامی نے سیما کی شرٹ کو اپنے منہ میں اُٹھایا اور اُٹھ کر چلتا ہوا صوفے پر چڑھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ سیما کے جسم سے اُتری ہوئی شرٹ اپنے اکلے پیروں کے بیچ میں رکھی اور اسے سونگھتے ہوے سیما کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔ سیما بھی اسکی حرکتوں کو بڑی ہی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ اور مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔ پھر سیما نے اپنی نازک نازک انگلیاں اپنی شارٹس کے الاسٹک میں پھنسائیں اور اپنی نظریں ٹامی کی نظروں سے ملاتے ہوئے اپنی شارٹس بھی اتارنے لگی ۔۔۔۔ اور پھر نیچے اپنے پیروں کو باری باری اُٹھا کر اپنے پیروں سے نکال دیا ۔۔۔ مگر اس بار اپنی شارٹس کو ٹامی کی طرف پھینکنے کی بجائے اسے وہیں نیچے قالین پر پڑا رہنے دیا ۔۔۔۔۔ اب سیما اپنے بیڈروم میں صرف انڈرویئر اور بریزئر میں کھڑی تھی ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں اب اسے خود بھی اپنے جسم کی اپنے پالتو کتے کے سامنے اس طرح نمائش کرنے میں مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔۔ عجیب سا بھی لگ رہا تھا اور اچھا بھی ۔۔۔۔ سامنے صوفے پر اپنی ٹانگیں پھیلائے ہوے ٹامی ایسے بیٹھا ہوا سیما کو دیکھ رہا تھا کہ جیسے اسکے سامنے کوئی سٹیج ڈانسر سٹرپ ٹیز ڈانس کر رہی ہو اور وہ اسکے مزے لے رہا ہو ۔۔۔۔
سیما کو بھی آج پہلی با ر اس طرح کی بے شرمی کرتے ہوے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔ اس نے تھوڑی دیر کے لیے ٹامی کے سامنے اسی حالت میں رہنے کا سوچا ۔۔۔۔ وہ آگے بڑھی اور جا کر اپنے بیڈروم کا دروازہ لاک کر دیا ۔۔۔۔۔ اور واپس آکر بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر ترچھی لیٹ گئی ۔۔۔۔ سیما کا گورا گورا چکنا جسم صرف بریزئر اور اندرویئر میں بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ ٹامی کی طرف دیکھتے ہوئے اسکا اپنا ہاتھ خود بخود ہی اپنے گورے گورے جسم کو سہلانے لگا ۔۔۔۔ اپنے ننگے پیٹ پر پھسلنے لگا ۔۔۔ اسکی کالے رنگ کی بریزئر میں سے اسکے خوبصورت اور گورے گورے ممے آدھے بریزئیر میں سے باہر کو نکل رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ پیٹ پر سے اسکا ہاتھ پھسلتا ہوا آہستہ آہستہ اپنے مموں کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔ اور پہلے اپنے مموں کو اپنی بریزئیر کے اوپر سے سہلانے لگا ۔۔۔۔ اور پھر اس پر سے سرکتا ہوا اپنے مموں کے ننگے حصوں کو سہلانے لگا ۔۔۔۔ کبھی بھی سیما نے خود لذتی اپنے ہاتھ سے حاصل نہیں کی تھی ۔۔۔۔ مگر اس وقت پتہ نہیں کیوں اسے خود بھی اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور ایسے اپنے جسم کو سہلاتے ہوئے بھی اسکی نظریں ٹامی کو ہی دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔ دونوں کی آنکھیں پتہ نہیں ایکدوسرے کو کیا کیا پیغام دے رہی تھیں ۔۔۔۔ لیکن یہ بات ضرور تھی کہ دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کو ناپسند نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایکدوسرے کی موجودگی کو وہ انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ کُتّے کی سیما میں دلچسپی اور پسندیدگی اسکے منہ سے باہر لٹک رہی ہوئی گلابی زبان سے ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ جو اسکے جسم کی حرکت کے ساتھ ساتھ ہل رہی تھی ۔۔۔۔ جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنے منہ کے اندر کرتا اور اس پر بہہ نکلنے والے تھوک کو اپنے منہ کے اندر کر لیتا ۔۔۔۔
دوسری طرف سیما کو اپنی کیفیت کا اندازہ اپنے جسم کے ہولے ہولے گرم ہونے ۔۔۔ اور اسکی چوت کے اندر پیدا ہونے والے ہلکے ہلکے گیلے پن سے ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ اُسے اسطرح نیم برہنہ حالت میں اپنے شوہر کے علاوہ پہلی بار کسی دوسرے کے سامنے اپنے خوبصورت جسم کی نمائش کرنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔ اسے اس بات سے کوئی فرق محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ اسکے اس خوبصورت جسم کا نظارہ کرنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ ایک جانور ۔۔۔۔ ایک کتا تھا ۔۔۔۔۔ اسے تو بس یہی پتہ تھا کہ اسے یہ سب کچھ اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔ اور اسکا جسم ایک بار پھر سے ٹامی کی زبان کو محسوس کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ پھر سے اسکی زبان سے ملنے والے مزے کو حاصل کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ مگر کیسے ۔۔۔۔ کیسے وہ ٹامی کہ دوبارہ بلاے ۔۔۔۔ اسکی اس میں ہمت نہیں پیدا ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
لیکن سیما کو زیادہ دیر انتظار اور فکرنہیں کرنی پڑی کیونکہ بےزبان مگر سمجھدار ٹامی شائد اپنی مالکن کی خواہش اور جھجھک کو سمجھ گیا تھا ۔۔۔۔ اسی لیے وہ اپنی جگہ پہ اُٹھ کہ کھڑا ہوا ۔۔۔۔ صوفے پر ہی ۔۔۔۔۔ اپنے جسم کو کھینچتے ہوئے ایک انگڑائی لی اور پھر صوفے سے نیچے اُتر آیا ۔۔۔۔ اور اپنی چاروں ٹانگوں پر آہستہ آہستہ بیڈ کی طرف چلنے لگا ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر سیما کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔۔۔ اسے تھوڑی گھبراہٹ سی ہونے لگی ۔۔۔ مگر پھر بھی وہ بنا کوئی حرکت کیے بیڈ پر اپنی جگہ لیٹی رہی ۔۔۔۔ ٹامی کی طرف ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی ۔۔۔۔
سیما سارا دن گھر پر رہتے ہوئے اپنے انٹرنیٹ بھی استعمال کرتی رہتی تھی ۔۔۔۔ اور اپنے وقت گزاری کے لیے انٹرنیٹ پر ننگی فلمیں بھی دیکھتی تھی ۔۔۔۔ اور کئی بار تو جمال بھی اسکے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتا تھا ۔۔۔۔۔ اور یہ بات بھی نہیں تھی کہ سیما کو انسانوں کے جانوروں کے ساتھ سیکس کرنے کا علم نہیں تھا ۔۔۔۔ بلکہ وہ خود بھی انٹرنیٹ پر کئی بار خوبصورت لڑکیوں کو کتے سے چدواتے اور اسکا لوڑا چوستے ہوئے دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔ لیکن اسے یقین تھا کہ یہ کتا اسکے ساتھ ویسا کچھ نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی خود اس نے ایسا کچھ کرنے کا سوچا تھا کہ وہ کتے کے ساتھ اس حد تک جا ئے گی ۔۔۔۔ وہ تو بس اپنے جسم پر ٹامی کی کھردری زبان کی رگڑ کا مزہ لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔ اور اس سے آگے کچھ نہیں ۔۔۔۔
سیما کی نظریں ٹامی کی نظروں سے ملی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ اور وہ اسے اپنی طرف آتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔ ٹامی سیما کے بیڈ کے قریب آکر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔۔ سیما کا پیر بیڈ کے کنارے پر تھا ۔۔۔۔۔ ٹامی نے اپنا بڑا سا منہ آگے لا کر اسکے پیر کو اپنی ناک کے ساتھ زور زور سے سونگھا ۔۔۔ سیما کے پورے جسم میں سنسناہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے ٹامی نے اپنی زبان باہر نکالی اور اپنی لمبی زبان سے سیما کے پیر کو ایک بار لمبا چاٹا ۔۔۔۔ سیما کا پورا جسم کانپ سا گیا ۔۔۔۔ اس نے اپنا پیر تھوڑا پیچھے کھینچ لیا ۔۔۔۔ بیڈ کے کنارے سے دور ۔۔۔۔ جیسے ہی سیما کا گورا گورا پیر ٹامی کے منہ سے دور ہوا تو اس نے ایک بار سیما کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اسکے منہ سے ہلکی سی غراہٹ نکلی ۔۔۔۔ جیسے اسے سیما کی یہ حرکت پسند نہ آئی ہو ۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے ٹامی نے ایک چھلانگ لگائی اور سیما کے بیڈ پر چڑھ گیا ۔۔۔
ٹامی سیما کے نرم نرم بستر پہ چڑھا ہوا تھا ۔۔۔۔ اسکا بھاری بھرکم جسم جیسے پورے بیڈ کو کوور کر رہا تھا ۔۔۔۔ اسکے سامنے بیڈ پر لیٹی ہوئی ۔۔۔۔ صرف بریزیئر اور انڈرویئر میں لیٹی ہوئی سیما کو اپنا جسم اسکے مقابلے میں بہت چھوٹا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ سچ مانو تو سیما کو اب ٹامی سے تھوڑا تھوڑا خوف محسوس ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔ خوف آتا بھی کیوں نہ ۔۔۔۔ ایک تو وہ جانور تھا ۔۔۔ اتنے نوکیلے لمبے لمبے دانتوں والا ۔۔۔۔ اور پھر اسکا جسم بھی سیما کے نازک جسم سے زیادہ طاقتور اور وزنی تھا ۔۔۔۔۔
سیما ہولے سے آواز نکالتی ہوئی کسمسائی ۔۔۔۔ ٹاٹاٹا۔۔۔ٹامی ی ی ی ی ۔۔۔۔ کیا کر رہے ہو ۔۔۔ چلو نیچے اترو بیڈ سے ۔۔۔۔
سیما کی آواز میں اپنے پالتو جانور کے لیے حکم نہیں تھا ۔۔۔۔ بلکے اسکی آواز تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ٹامی کی منت کر رہی ہو بستر سے نیچے اترنے کی ۔۔۔۔ مگر وہ درندہ تو اس وقت اپنی مالکن کی کوئی بھی بات سننے اور ماننے کو تیار نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اس نے دوبارہ سے اپنا منہ نیچے کیا اور اپنی زبان باہر نکال کر سیما کے پیر کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔ کبھی اسکے تلوے کو چاٹتا ۔۔۔ اور کبھی پیر کے اوپری حصے کو ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ٹامی کی زبان سیما کے پیر سے اوپر کو آنے لگی ۔۔ اسکی ٹانگ کے نچلے حصے کو چاٹنے لگی ۔۔۔۔ ٹامی کی زبان تیزی کے ساتھ اسکے منہ کے اندر باہر ہو رہی تھی اور وہ تیزی سے سیما کی ٹانگ کو چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ اور اوپر کو جانے لگا ۔۔۔۔ اسکے گھٹنے کو چاٹتے ہوئے اسکی ننگی گوری ران پر آگیا ۔۔۔۔ اور اسکی زبان اب سیما کی رانوں کا چاٹنے لگی ۔۔۔۔ کبھی ایک تو کبھی دوسری کو چاٹتی ۔۔۔۔
اب ٹامی کی آواز میں کوئی غراہٹ نہیں تھی ۔۔۔۔ بلکہ وہ تو بہت ہی پیار کے ساتھ سیما کی رانوں کو چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔ سیما کو جو تھوڑی دیر پہلے خوف محسوس ہو رہا تھا ٹامی سے وہ بھی جاتا رہا تھا ۔۔۔۔ بلکہ اب اسکے منہ سے ہلکی ہلکی سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔۔۔ اسکی ٹانگیں خود بخود ہی کھلتی جا رہی تھیں ۔۔۔ ٹامی کی زبان کو اپنی رانوں کے درمیان کا حصہ دکھانے کے لیے ۔۔۔۔ کہ وہ وہاں بھی اپنی زبان کا جادو چلائے۔۔۔۔ اور ٹامی نے بھی اپنی پیاری سی ۔۔۔۔ خوبصورت سی مالکن کو مایوس نہیں کیا تھا ۔۔۔۔ وہ اب سیما کی رانوں کا اندر کا حصہ بھی چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔ اسکی زبان سیما کی چوت کے قریب قریب حرکت کر رہی تھی ۔۔۔ مگر ایک بار بھی اسکی زبان سیما کی چوت سے نہیں ٹکرائی تھی ۔۔۔۔ سیما کی چوت نے گرم ہوتے ہوئے تھوڑا تھوڑا پانی چھوڑنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔ اسکی چوت کے پانی کی مخصوص مہک ٹامی کو بھی آرہی تھی ۔۔۔۔ اور پھر اس نے اپنی تھوتھنی سیما کے انڈرویئر کے اوپر سے اسکی چوت پہ رکھی اور سیما کی چوت کو سونگھنے لگا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی ٹامی کا منہ سیما کی چوت سے ٹکرایا تو سیما کو بہت ہی عجیب سا مگر بہت ہی اچھا لگا ۔۔۔۔ اسکا دل چاہا کے جیسے ٹامی اپنا منہ اسکے پیروں پر رگڑتا ہوتا ہے ویسے ہی یہاں اسکی چوت کو بھی اپنے منہ سے زور زور سے رگڑدے ۔۔۔۔ ٹامی نے اپنا منہ سیما کی چوت کے اوپر اسکی پینٹی کے اوپر سے ہی رگڑا ۔۔۔۔ اپنی لمبی سی زبان باہر نکالی اور پینٹی کے اوپر سے ہی اسکی چوت کے پھولے ہوئے حصے کو دو تین بار چاٹا ۔۔۔۔ اور پھر اسکے ننگے پیٹ کی طرف بڑھا ۔۔۔ سیما کی چوت اسکی موٹی زبان کے چاٹنے سے پھڑکنے لگی تھی ۔۔۔۔ اسکے اندر جیسے پانی پانی سا ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ جیسے ہی ٹامی نے اپنا سر ہٹایا تھا تو سیما کا دل چاہا کہ وہ اسکی چوت کو اور بھی کچھ دیر کے لیے چاٹے ۔۔۔ ۔ مگر ٹامی نے اس بار اپنی مالکن کی خواہش کا احترام نہیں کیا ۔۔۔۔ اور اپنے منہ کو سیما کی چوت پر سے ہٹا کر آگے ۔۔ اوپر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔
ٹامی اب بیڈ پر ہی چلتا ہوا سیما کے منہ کے قریب آچکا تھا ۔۔۔۔ اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور سیما کے گال کو چاٹ لیا ۔۔۔۔ آج پہلی بار جمال کے علاوہ کسی دوسرے نے اسکی گوری گوری گال کو چاٹا تھا ۔۔۔۔ اور وہ بھی ایک کتے نے ۔۔۔۔ ٹامی نے آج تک صرف سیما کے پیروں کو ہی چاٹا تھا ۔۔۔۔ مگر آج وہ اسکے پیروں سے آگے بڑھ آیا تھا ۔۔۔۔ اور اسکے چہرے ۔۔ اسکے گالوں تک پہنچ گیا تھا ۔۔۔ اپنی لمبی گلابی کھردری زبان سے سیما کے گال کو چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔ اور سیما بھی کوئی مزاحمت نہیں کر رہی تھی ۔۔۔ اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہی تھی ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ۔۔۔ شائد اسلیئے کہ اسے خود بھی مزہ آرہا تھا ٹامی کی زبان کو اپنے گالوں پر محسوس کرتے ہوئے ۔
ٹامی نے اپنی زبان کو سیما کے ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے اسکے ہونٹوں کو چاٹنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔ ۔۔۔۔۔ آج پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ ٹامی اسکے ہونٹوں کو چاٹنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ جو کہ سیما کے لیے نئی بات تھی ۔۔۔۔ اور تھوڑی مشکل بھی ۔۔اسی لیے ۔۔۔ سیما اسکا منہ پرے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔ تاکہ ٹامی کی زبان اسکے ہونٹوں کو نہ چاٹے اور وہ اپنا تھوک اسکے ہونٹوں پر نہ لگا دے ۔۔۔ مگر ٹامی کہاں ماننے والا تھا ۔۔۔ اس نے اپنے انداز میں ہی سیما کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور سیما کے نازک سے جسم کو اپنی ٹانگوں کے درمیان لے لیا ۔۔۔۔ وہ ایسے کے اب سیما کا جسم ٹامی کی دونوں طرف کی ٹانگوں کے بیچ میں تھا ۔۔۔۔ ٹامی کی اگلی ٹانگیں سیما کے سینے اور اسکی دونوں بازوؤں کے درمیان تھیں ۔۔۔ اور پچھلی ٹانگیں اسکے گورے گورے چوتڑوں کے گرد ۔۔۔۔۔ ٹامی اب پوری طرح سے سیما کے جسم پر چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔ بلکل ایسا نظر آرہا تھا کہ جیسے کوئی مرد سیما کے جسم پر سوار ہو اسے روندنے کے لیے ۔۔۔۔ اسکا ریپ کرنے کے لیے ۔۔۔۔ اب دوبارہ سے ٹامی نے اپنی منہ نیچے لا کر سیما کے ہونٹوں کو چاٹنا چاہا ۔۔۔۔۔
سیما ٹامی کی اس پوزیشن سے گھبرا گئی تھی ۔۔۔۔ ڈر بھی گئی تھی ۔۔۔۔ کہ ٹامی جیسے صحتمند اور بھاری جسم کے کتے کے نیچے تھی وہ۔۔۔ اسے ڈر لگنے لگا کہ کہیں ٹامی اسے کوئی نقصان ہی نہ پہنچا دے ۔۔۔ کہیں اپنے بڑے بڑے نوکیلے دانتوں کے ساتھ اسے کاٹ ہی نہ دے ۔۔۔۔۔ اسی لیے وہ تھوڑی سہم سی گئی ۔۔۔۔۔ اور اب کی بار جب ٹامی نے اپنا منہ نیچے لا کر سیما کے ہونٹوں کو چاٹنے کی کوشش کی تو سیما اپنا منہ اسکے آگے سے نہ ہٹا سکی ۔۔۔۔ اور اپنے چہرے کو ٹامی کے سامنے بلکل ایک ہی جگہ پر رکھتے ہوئے خوف زدہ نظروں سے اسکی آنکھوں میں دیکھتی رہی ۔۔۔۔ ٹامی نے جب دیکھا کہ اسکی مالکن اب کو ئی مزاحمت نہیں کر رہی ہے تو اس نے اپنی لمبی سی زبان نکالی ۔۔۔۔ اور سیما کے گلابی پتلے پتلے ہونٹوں کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔ اسکی لمبی کھردری گلابی زبان ایک ہی بار میں اسکے دونوں ہونٹوں کو اور پورے منہ کو چاٹ لیتی ۔۔۔۔۔ اور اسکے ہونٹوں کو اپنے تھوک سے گیلا کرنے لگا ۔۔۔۔
سیما کو بھی محسوس ہونے لگا کہ ٹامی کے انداز میں کوئی غصہ یا وحشیانہ پن نہیں ہے ۔۔۔۔ بلکہ وہ اب اپنی روز کی روٹین کی طرح ہی سیما کو چاٹ رہا ہے ۔۔۔ تو سیما بھی تھوڑا ریلیکس ہونے لگی ۔۔۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو نیچے سے اُٹھایا اور ٹامی کی کمر کو سہلانے لگی ۔۔۔ کبھی اسکے پیٹ کو سہلانے لگتی ۔۔۔ تاکہ ٹامی بھی کچھ اور خطرناک حرکت کرتے ہوے اسے کوئی نقصان نہ پہنچائے ۔۔۔۔۔ ٹامی بھی جیسے اس کھیل میں مزہ لینے لگا ۔۔۔ وہ بار بار اپنی زبان سے سیما کے چہرے اور اسکے ہونٹوں کو چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔ ایک بار سیما نے ٹامی کو پچکارتے ہوئے اسے روکنے کے لیے اسکا نام لینے کے لیے اپنا منہ کھولا ۔۔۔۔ تو جیسے ہی سیما کا منہ کھلا ٹھیک اسی وقت ٹامی کی زبان سیما کے ہونٹوں پر آئی اور منہ کھلا پاتے ہوئے سیدھی اسکے منہ کے اندر گھس گئی ۔۔۔۔۔ جیسے ہی ٹامی کی زبان سیما کے منہ کے اندر داخل ہوئی تو بے اختیاری طور پر اسے روکنے کے لیے سیما کا منہ بند ہو گیا ۔۔۔۔ لیکن اس سے پہلے کافی دیر ہو چکی تھی ۔۔۔۔ اور جو ہونا تھا ۔۔۔۔ یا جو ٹامی کرنا چاہتا تھا وہ ہو چکا تھا ۔۔۔۔ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہوا تھا ۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ جیسے ہی سیما نے اپنے منہ کو بند کیا تو ٹامی کی لمبی زبان جو کہ پہلے ہی سیما کے منہ کے اندر داخل ہو چکی تھی اب سیما کا منہ بند ہونے کی وجہ سے اسکے ہونٹوں کے بیچ میں جکڑی گئی۔۔۔۔۔ ایک جانور ۔۔۔ ایک کتے کی زبان ایک انسان ۔۔۔ ایک انتہائی خوبصورت لڑکی کے منہ کے اندر ۔۔۔۔۔ اُف ف ف ف ۔۔۔۔۔۔ کیا منظر تھا ۔۔۔۔ سیما خود بھی حیران رہ گئی کہ یہ کیا ہو گیا ہے ۔۔ ۔۔ مگر اب تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔
ٹامی کی زبان ابھی بھی سیما کے منہ کے اندر تھی ۔۔۔۔ اور ابھی بھی وہ اسے حرکت دے رہا تھا ۔۔۔۔ اور اب اس جانور کی زبان سیما جیسی خوبصورت لڑکی کی زبان سے رگڑ کھا رہی تھی ۔۔۔۔ اسکے منہ کو اندر سے جیسے چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔ سیما نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اسکے بڑے سے منہ پر رکھتے ہوئے اسے پیچھے کرنے کی کوشش کی اور اپنا منہ کھول کر دوسری طرف کیا ۔۔۔ اور ٹامی کی زبان اپنے منہ سے نکالی ۔۔۔۔ ٹامی نے بھی کو ئی مزاحمت نہیں کی ۔۔۔ نہ کوئی زبردستی کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ سیما اپنی جگہ سے اُٹھنے لگی ۔۔۔ تو اب کی بار ٹامی سیما کے اوپر سے اُتر گیا ۔۔۔۔ اور سیما جلدی سے اُٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ ٹامی ابھی بھی اسکے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔۔ ابھی بھی جیسے اسکے اوپر ہی چڑھا ہوا تھا ۔۔۔ مگر اب پھر سے اسکا انداز پیار اور لاڈ بھرا تھا ۔۔۔۔۔ کھیلنے کے انداز میں ۔۔۔ اور اب بھی وہ بار بار سیما کے گالوں کو اپنی زبان سے چھونے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔ اور اس میں وہ کامیاب بھی ہو جاتا تھا ۔۔۔
سیما: بس ۔۔۔ بس ۔۔۔ اٹس اینف ٹامی ۔۔۔۔ گو ۔۔۔ گو ناؤ ۔۔۔۔۔
ٹامی بھی سیما کی بات سمجھ گیا ہمیشہ کی طرح ۔۔۔ اور سیما کے پاس ہی بیڈ کے اوپر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ سیما کے پیروں کے قریب ۔۔۔۔ اور اسکے پیروں کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔ اپنا سر اور منہ سیما کے پیروں پر رگڑنے لگا ۔۔۔۔ سیما بھی آہستہ آہستہ ٹامی کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔۔۔۔ اسکی فر کو سہلانے لگی ۔۔۔۔ آج ایک بار تو ٹامی نے سیما کو ڈرا ہی دیا تھا ۔۔۔ مگر اسکے ساتھ ساتھ جو اس نے مزہ دیا تھا وہ بھی الگ ہی تھا ۔۔۔۔ یہ اسی لذت اور مزے کا ہی نتیجہ تھا کہ سیما ابھی بھی نیم برہنہ حالت میں ۔۔۔۔ صرف بریزئیر اور انڈرویئر پہنے ہوئے اپنے ٹامی کے پاس بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ اور وہ بھی بار بار اپنا منہ اور جسم سیما کے ننگے جسم سے رگڑ رہا تھا ۔۔۔۔ دونوں کی ہی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں ۔۔۔ سیما کو اپنا منہ ابھی بھی ٹامی کے تھوک سے گیلا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اور اپنے منہ کے اندر اسے ابھی بھی ٹامی کی زبان کا لمس محسو س ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور سیما مسکراتی ہوئی ٹامی کے جسم کو سہلا رہی تھی ۔۔۔۔ یہی سب سوچتے ہوئے ۔
کچھ دیر کے بعد سیما نے اپنے بیڈ سے اُٹھ کر کپڑے پہنے ۔۔۔۔ اور دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگی ۔۔۔ ٹامی نے اپنی مالکن کو باہر جاتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی بیڈ سے نیچے اُترا اور اپنی دُم ہلاتا ہوا سیما کے پیچھے پیچھے چل پڑا ۔۔۔۔ کچن میں سیما نے جا کے خانساماں کے ساتھ کچن کا کام دیکھا ۔۔۔ اور ٹامی لاؤنج میں ہی تھا ۔۔۔۔۔
سیما کو بس یہی ڈر تھا کہ ٹامی جمال کے سامنے کو ئی ویسی حرکت نہ کر دے جیسی وہ اسکے ساتھ کمرے میں کرتا ہوا آیا ہے ۔۔۔۔ مگر شکر ہے کہ ٹامی بلکل اپنی روز کی روٹین کی طرح رہا ۔۔۔۔ اپنے انداز میں کوئی بھی تبدیلی ظاہر نہیں ہوئی اسکے اندر ۔۔۔۔۔۔ جس سے سیما بھی خوش اور مطمئن ہوئی ۔ ۔۔۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اسکی نظریں ساری شام ٹامی پر ہی ٹکی رہیں ۔۔۔۔ وہ اسکے اندر آج پیدا ہونے والی تبدیلی اور اسکے اس نئے انداز پر غور کرتی رہی ۔۔۔۔۔ جیسے جیسے وہ اسکے بارے میں سوچتی جاتی ۔۔۔ ویسے ویسے ہی اسے اچھا لگنے لگتا ۔۔۔۔ کچھ بھی برانہیں لگتا ۔۔۔۔ تبھی اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس نے اُٹھ کر اپنا منہ بھی نہیں دھویا تھا اور نہ ہی کلّی کی تھی ۔۔۔ اور ابھی تک وہ ٹامی کا تھوک ویسے ہی اپنےچہرے اور منہ کے اندر لیے ہوئے پھر رہی تھی ۔۔۔ لیکن اس بات کے یاد آنے پر بھی وہ بس مسکرا ہی دی ۔۔۔ بنا خود سے یا ٹامی سے نفرت کیے ۔۔۔۔ جب جب سیما کو خیال آتا اُس مزے کا
 
Active member
780
397
63
تیسری قسط
اگلی صبح جمال ناشتہ کر کے اپنے دفتر جانے کے لیے تیار ہوا ۔۔۔۔۔۔ ہر روز کی طرح سیما اسے گیٹ پر چھوڑنے کے لیے آئی ۔۔۔ ٹامی بھی انکے پیچھے پیچھے اپنی دُم ہلاتا ہوا آرہا تھا ۔۔۔۔ جمال نے بڑے پیار سے اسکے سر کو سہلایا اور پھر اپنی کار میں بیٹھ کر نکل گیا ۔۔۔۔ چوکیدار نے گیٹ بند کیا ۔۔۔ اور سیما گھر کے اندر کی طرف چلدی ۔۔۔۔ ٹامی بھی اسکے پیچھے پیچھے تھا ۔۔۔۔ اٹھکیلیاں کرتا ہوا ۔۔۔ کبھی اس سے آگے نکلتا ۔۔۔ کبھی پیچھے چلنے لگتا ۔۔۔ کبھی اسکی ٹانگوں سے اپنا جسم سہلاتا ۔۔۔۔ سیما اسکی حرکتوں کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھی کہ کیسے وہ اپنی مالکن کو خوش کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔۔ تاکہ آج پھر وہ کل والا کھیل کھیل سکے ۔۔۔۔ سیما کی مسکراہٹ ٹامی کو بتا رہی تھی کہ اسکی مالکن کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔۔

گھر کے اندر آکر سیما نے اندر سے دروازہ لاک کر لیا ۔۔۔۔ اور پھر ناشتہ کی میز پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ اب وہ گھر کے اندر ٹامی کے ساتھ بلکل اکیلی تھی ۔۔۔۔ اسے تھوڑی سی گھبراہٹ بھی ہور ہی تھی اور تھوڑی بے چینی بھی ۔۔۔۔ کہ پتہ نہیں اب کیا ہو گا ۔۔۔۔۔ ناشتہ کی میز پر بیٹھ کر سیما ڈبل روٹی توڑ کر کھانے لگی ۔۔۔۔۔۔ ٹامی بھی اسکے قریب ہی نیچے زمیں پر ادھر اُدھر پھر رہا تھا ۔۔۔۔ سیما کی کرسی کے اردگرد۔۔۔۔ اسکو لبھانے ۔۔۔ اور اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔ سیما نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بریڈ کا ایک ٹکڑا اپنی ٹیبل سے کچھ دور نیچے قالین پر پھینکا ۔۔۔ اور ٹامی کو اسے کھانے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ ٹامی نے اس بریڈ کے ٹکڑے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اور پھر سے سیما کے گرد گھومنے لگا ۔۔۔۔ اپنا سر سیما کےپیروں پر رگڑتے ہوے سیما نے دو چار ٹکڑے بریڈ کے اور بھی نیچے پھینکے مگر ٹامی نے انکی طرف بھی توجہ نہیں دی ۔۔۔ ۔۔۔ سیما سمجھ گئی کے آج ٹامی کی دلچسپی کچھ کھانے پینے میں نہیں بلکہ اسکے ساتھ کل والا کھیل کھیلنے میں ہے ۔۔۔۔

کچھ دیر کے بعد سیما اپنی جگہ سے اُٹھی ۔۔۔۔ الماری میں رکھے ہوئے ڈوگی سپیشل بسکٹ نکال کر ایک پلیٹ میں رکھ کر نیچے کارپٹ پر ٹامی کے آگے رکھے ۔۔۔۔ ٹامی انکو کھانے لگا ۔۔۔۔۔ سیما ٹامی کو وہیں کچن میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔۔۔ سیما اپنے کمرے میں آتے ہی باتھ روم میں چلی گئی ۔۔۔۔ اور اپنے سارے کپڑے اُتار کر نہانے لگی ۔۔۔۔۔ بہت بڑے سے باتھنگ ٹب میں بیٹھ کر ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے نہانے کا مزہ لینے لگی ۔۔۔۔۔ اپنے گورے گورے چکنے چکنے جسم کو سہلاتی ہوئی ٹامی کے بارے میں سوچنے لگی ۔۔۔۔ وہ کچھ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ کل کی طرح آج بھی ٹامی کے ساتھ مزے اور لذت کا وہی کھیل کھیلے یا کہ نہیں ۔۔۔۔۔ ایک طرف اسے یہ بات روک رہی تھی کہ وہ ایک انسان ہے ۔۔۔ تو کیسے کسی جانور کو اپنے جسم سے اس طرح کھیلنے سے سکتی ہے ۔۔۔۔۔ جبکہ یہ بات معاشرے۔۔۔ مذہب ۔۔۔۔ اور اخلاقیات ۔۔۔ سب کے خلاف تھی ۔۔۔۔ مگر ۔۔ دوسرے طرف شیطان اسے بہکا رہا تھا کہ جو مزہ اسے کل ایک کتے کی زبان سے ملا ہے وہ کبھی اسے مرد۔۔ ایک انسان کی زبان سے نہیں ملا تھا ۔۔۔۔ اور پھر انگریز لڑکیاں تو پتہ نہیں کیا کیا کرتی ہیں جانوروں کے ساتھ ۔۔۔۔ اور وہ تو صرف تھوڑا بہت اپنے ٹامی کے ساتھ کھیل ہی رہی ہے نا ۔۔۔۔۔ وہ تو اپنے کتوں سے اپنی چوت تک چُدوا لیتی ہیں اور وہ تو بس اپنے جسم کو ہی اس سے چٹوا رہی ہے نا ۔۔۔۔۔ یہی سب سوچتے ہوئے اسکا ہاتھ اپنی پانی کے نیچے اپنی چوت تک پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔ اور وہ اپنی چوت کو سہلا رہی تھی ۔۔۔۔ اور اسے خیال آیا کہ اسے اس بات کا پتہ بھی نہیں چلا تھا کے کب اسکا ہاتھ اپنی چوت پہ پہنچ کے اسے سہلانے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔ لیکن اب اسے یہ احساس ضرور ہوا تھا کہ اسے اپنی چوت کو سہلانے میں مزہ ضرور آرہا تھا ۔۔۔۔۔ آخر میں سیما نے سب کچھ حالات پر چھوڑ دیا ۔۔۔ کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا ۔۔۔۔

سیما نہا کر فارغ ہوئی تو کپڑے پہنے کی بجائے ایک بڑا سا تولیہ اپنے جسم پر لپیٹ کر باہر نکل آئی ۔۔۔۔ تولیہ اسکے مموں کے اوپری حصے سے لے کر اسکی آدھی رانوں تک تھا ۔۔۔۔ اور باقی کا پورے کا پورا گورا گورا جسم بلکل ننگا تھا ۔۔۔۔ سیما کے لیے ایسے نہا کر باہر آنا کوئی نئی بات نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ اکثر نہانے کے بعد ایسے ہی باہر آکر پہلے اپنے بال برش کرتی اور پھر کپڑے پہنتی تھی ۔۔۔۔ آخر گھر کے اندر اور کوئی ہوتا ہی نہیں تھا تو وہ کس سے ڈرتی یا پردہ کرنے کی کوشش کرتی ۔۔۔۔۔ آج بھی سیما نہا کر تولیہ لپیٹ کر باہر آئی اور ایک چھوٹے تولیے سے اپنے بال خشک کرتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی ۔۔۔۔ پھر اس نے ہیئر ڈرائیر اُٹھایا اور اپنے بال سُکھانے لگی ۔۔۔۔۔

بیڈروم کا دروازہ لاک نہیں تھا ۔۔۔۔ بس ہلکا سا ہی بند تھا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں سیما کو دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔ اس نے بنا دروازے کی طرف دیکھے ۔۔۔ اپنے سامنے لگے ہوئے آئینے میں دروازے کو دیکھا ۔۔۔۔ کھلے ہوئے دروازے میں سے ٹامی کمرے میں داخل ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اسے اپنے کمرے میں داخل ہوتا ہو دیکھ کر سیما کا دل زور سے اُچھل پڑا ۔۔۔۔۔ اور اسکے ہاتھ بھی ایک لمحے کے لیے تو کانپ ہی گئے ۔۔۔۔۔ ٹامی چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ دوڑتا ہو سیما کی طرف آیا ۔۔۔۔ اور آکر اپنا منہ سیما کی ننگی بازو سے رگڑنے لگا ۔۔۔۔ سیما نے بھی اپنے ایک ہاتھ کے ساتھ ٹامی کے سر کو سہلانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔

سیما اب آئینے کے سامنے سٹول پر ایسے بیٹھی ہوئی تھی کہ صرف اسکا تولیہ اسکے جسم پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے مموں کا اوپری حصہ اور انکے درمیان بنتی ہوئی گہری لکیر بھی صاف نظر آرہی تھی ۔۔۔۔ نچلے حصے میں اسکا تولیہ اسکی آدھی رانوں تک چڑھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور اسکی گوری گوری آدھی رانیں اور ان سے نیچے پوری کی پوری چکنی ٹانگیں بلکل ننگی تھیں ۔۔۔۔۔ ٹامی نے جب اپنی مالکن کو اسکی محبت کا جواب محبت سے دیتے ہوئے دیکھا تو وہ فورا" ہی سیما کے گھٹنوں کو اپنی زبان سے چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔
سیما ہولے سے چلائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ےےےےے ٹامی ۔۔۔ کیا کر رہے ہو یار ۔۔۔۔۔ ابھی میں نہا کے آئی ہوں اور تم پھر سے میرا جسم گنداکرنے لگے ہو نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہٹو پیچھے ۔۔۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔

سیما اسے کہہ تو رہی تھی مگر اسے اپنے پاس سے ہٹانے کے لیے کوئی زور نہیں لگا رہی تھی ۔۔۔۔۔ بلکہ اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے پیچھے ہٹانا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر ٹامی کہاں ماننے والا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جو ہوا ہی کتا ۔۔۔۔۔ اس نے بھلا کسی کی کیا بات ماننی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی مرضی کی مطابق نیچے سیما کے پیروں سے لے کر اسکی گھٹنوں تک اسکی ٹانگوں کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔ اپنی لمبی سی گلابی گیلی گیلی زبان سے سیما کی ٹانگوں کو گیلا کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بُرا تو سیما کو بھی نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ ابھی جو کافی دیر تک باتھ روم میں بیٹھی وہ سوچتی آئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ سب کچھ ایک بار پھر اسکے ساتھ ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر اسکا جسم اور دل ۔۔۔ دماغ کا ساتھ چھوڑ کر لذت کا ساتھ دینے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ بہکنے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔ اس انوکھے پیار میں کھونے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔ مم م م م م م م ۔۔۔۔ سی ی ی ی ی ی ی ۔۔۔۔۔ اسکے منہ سے سسکاریاں سی نکلنے لگی تھیں ۔۔۔۔ وہ ٹامی کو خود سے دور کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ اسکا جسم اور سر سہلا رہی تھی ۔۔۔۔۔ ٹامی کو اور بھی شہہ دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

ٹامی تھا تو کتا ۔۔۔۔ مگر تھا ذہین ۔۔۔۔ اپنی مالکن کی مرضی کو سمجھ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اب سیما کے پیروں اور گھٹنوں کو چاٹنا چھوڑ کر اب سیما کے ننگے بازوؤں کو چاٹنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔ ٹامی بھی پورے جوش میں تھا ۔۔۔۔ اسکی زبان بڑی تیزی کے ساتھ اسکے منہ میں اندر باہر ہو رہی تھی ۔۔۔۔ اور سیما کے ننگے گورے گورے بازوؤں کو چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اسکے کندھوں تک پہنچ گیا ۔۔۔۔ سیما کے کندھوں کو اپنی زبان سے چاٹنے لگا ۔۔۔۔ پھر ٹامی نے اپنا منہ کھول کر سیما کے کندھے کی گولائی کو اپنے اگلے نوکدار دانتوں کے بیچ میں لیا ۔۔۔۔ اور آہستہ سے اسے اپنے اگلے دانتوں میں دبانے لگا ۔۔۔۔۔ جیسے وہ سیما کو کاٹنے لگا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔ کاٹ نہیں رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ جانوروں کے مخصوص انداز میں وہ سیما سے ۔۔۔ اپنی مالکن سے پیا ر کر رہا تھا ۔۔۔۔ پہلے پہل تو سیما کو ڈر لگا کہ ٹامی اسے کاٹنے لگا ہے ۔۔۔ مگر جب ٹامی کے نوکیلے دانتوں کا بس ہلکا ہلکا دباؤ ہی اسے اپنے کاندھوں پر محسوس ہو ا تو اسکا خوف کم ہوا ۔۔۔۔ اور جب ٹامی کے اس طرح سے ہولے ہولے کاٹنے سے سیما کو لطف آیا تو اسکے منہ سے بھی بے اختیار سسکاری نکل گئی ۔۔۔۔۔ اور ساتھ میں ہی لذت کے مارے اسکی آنکھیں بند ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔ ٹامی کے دانت سیما کو اپنے گوشت میں دھنستے ہوئے محسوس تو ہو رہے تھے مگر اسے لگ رہا تھا کہ اس میں اسے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ اسی لیے وہ بھی اسے اب روک نہیں رہی تھی ۔۔۔۔ ٹامی نے اپنے دانت ہٹائے سیما کے کاندھے پر اسکے دانتوں کے ہلکے ہلکے نشان پڑ رہے تھے ۔۔۔۔ اور ٹامی نے اسی جگہ کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔

لذت کے مارے سیما کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔ ٹامی اسکے ننگے گورے گورے کاندھے کو چاٹتا ہو اور اسکی گردن کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔۔ اسکی گردن کا اپنی زبان سے چاٹتے ہوئے ۔۔۔۔۔ ٹامی سے سیما کا ہر طرح کا خوف ختم ہو چکا ہوا تھا ۔۔۔۔ اب وہ اسے روک نہیں رہی تھی ۔۔۔۔ بلکہ اسکے جسم پر اپنا ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔۔۔ اسکے جسم کو سہلا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اسکی گردن کو سہلا رہی تھی ۔۔۔۔۔ جیسے ہی ٹامی کی زبان ۔۔۔۔ لمبی کھردری زبان ۔۔۔۔ سیما کے چہرے پر پہنچی تو اس نے آج ایک بار پھر سے سیما کے گورے گورے گالوں کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ وہ گال جو آج تک صرف اسکے شوہر نے ہی چومے اور چاٹے تھے ۔۔۔۔۔ اب ایک کتا بھی اس میں اسکے شوہر کا حصہ دار ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمال خان جیسے بڑے آدمی کی خوبصورت بیوی کے گورے گورے گالوں کو ایک کتا ۔۔۔۔ انکا اپنا کتا چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔ اپنے تھوک سے اسکا پورے کا پورا چہرا بھرا رہا تھا ۔۔۔۔ اور اب تو اسکی زبان سیما کے ہونٹوں پر بھی پہنچ رہی تھی ۔۔۔۔ اسکے ہونٹوں کو چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔ آج بنیتا نے ٹامی کی اس حرکت کا کچھ برا نہیں منایا ۔۔۔۔ بلکہ اپنے سامنے کھڑے ہوئے ٹامی کی گردن کو سہلاتی رہی ۔۔۔۔۔۔ سیما سٹول پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور ٹامی اسکے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔۔ اس پوزیشن میں ٹامی کا منہ سیما کے چہرے کے برابر آرہا تھا ۔۔۔۔ اسقدر بڑا قد اور جسامت تھی ٹامی کی ۔۔۔۔۔

جیسے جیسے ٹامی کی زبان سیما کے ہونٹوں کو چاٹتی جاتی تھی ۔۔۔ ویسے ویسے سیما کی مستی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ اسے آج یہ سب کچھ برا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔ بلکہ وہ ایک بار بھی ٹامی کو پیچے ہٹانے کی کوشش کیے بنا ۔۔۔۔ اور اپنے ہونٹوں کو اسکے سامنے سے ہٹائے بغیر ٹامی کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔۔ آہستہ آہستہ سیما کے ہونٹ کھلنے لگے ۔۔۔۔۔ دونوں ہونٹوں کے درمیان میں خلا بننے لگا ۔۔۔۔۔ اور پتہ نہیں کیوں اور کیسے ۔۔۔۔ بنا سوچے سمجھے ۔۔۔۔ بند آنکھوں کے ساتھ ہی ۔۔۔ سیما کی زبان اسکے منہ سے باہر نکل آئی ۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے سیما کی زبان ٹامی کی زبان سے ٹکرا رہی تھی ۔۔۔۔ ٹامی کی زبان تیزی کے ساتھ حرکت کرتی ہوئی سیما کی زبان کو چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔ اور اب تو سیما کی زبان نے بھی تھوڑی حرکت شروع کر دی ہوئی تھی ۔۔۔۔ دونوں کی زبانیں ایک دوسری سے ٹکرا رہی تھیں ۔۔۔۔ اور سیما ٹامی کے ساتھ ایسے مست تھی جیسے کہ وہ کوئی جانور نہیں بلکہ اسکا کوئی عاشق ہو جسکے ساتھ وہ مستی کر رہی ہو ۔۔۔۔ ایک بار تو سیما نے خود ٹامی کی لمبی سی زبان کو اپنے ہونٹوں میں پکڑنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ اور ایک دو بار کی کوشش کے بعد اس میں کامیاب ہوئی ۔۔۔ مگر صر ف تھوڑی دیر کے لیے ہی وہ اسکی زبان کو چوس سکی ۔۔۔ اور پھر ٹامی کی زبان اسکے منہ میں سے سرک گئی ۔۔۔۔ پھسل کر باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔۔۔

ایسے ہی ٹامی کے ساتھ کسنگ کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ زبان لڑاتے ہوئے سیما کو پتہ بھی نہیں چلا کہ کب ان دونوں کے جسموں کی حرکت سے سیما کے جسم پر لپٹا ہوا تولیہ ۔۔۔۔ جو اسکے سینے کے ابھاروں کو ۔۔۔۔ اسکے مموں کو ڈھانپے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔ کھل کر ۔۔۔۔۔ اسکے سینے سے سرک کر اسکی گود میں آگرا ۔۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی ۔۔۔۔ سیما کے خوبصورت ۔۔ گورے گورے ۔۔۔۔ ممے ٹامی کے سامنے ننگے ہو گئے ۔۔۔۔۔ سیما کے ہونٹوں اور پھر تھوڑی کو چاٹتا ہو ا ٹامی نیچے اسکے سینے کی طرف آنے لگا ۔۔۔۔ اور پھر سیما کے گورے گورے سینے کو اپنی لمبی زبان سے چاٹنے لگا ۔۔۔۔ اسکی زبان جیسے ہی سیما کے ممے سے ٹکرائی تو سیما کے منہ سے سسکاری نکل گئی ۔۔۔ مگر ٹامی کہاں رکنے والا تھا ۔۔۔۔۔ تیزی کے ساتھ سیما کے مموں کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔ کبھی ایک کو تہ کبھی دوسے کو ۔۔۔۔ جیسے جیسے ٹامی کی زبان سیما کے نپلز کو رگڑنے لگی ۔۔۔ تو سیما تو جیسے تڑپنے لگی ۔۔۔۔ منہ سے سسکاریاں نکالتے ہوئے وہ ٹامی کے سر کو اپنے سینے کی طرف کھینچنے لگی ۔۔۔۔ عجیب حالت ہو رہی تھی سیما کی ۔۔۔ آج تک کبھی پہلے سیما کو اپنے نپلز کے چھوئے جانے سے اسقدر مزہ نہیں آیا تھا جتنا آج اسے ٹامی کی زبان اپنے نپلز سے چھونے کی وجہ سے مل رہا تھا ۔۔۔۔

کچھ دیر تک سیما کے سینے اور مموں کو چاٹنے کے بعد ایک بار پھر سے ٹامی نے سیما کو اپنے طریقے سے کاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اس بار ٹامی نے اپنا منہ کھولا اور سیما کے پورے کے پورے ممے کو اپنے بڑے سے منہ کے اندر لینے لگا ۔۔۔ اپنے دانتوں کے درمیان ۔۔۔۔۔ اور اپنے دانتوں میں لیکر اس نے ایک بار پھر سے آہستہ آہستہ سیما کے ممے کو کاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔ اپنے دانتوں کے بیچ میں انکو دبانے لگا ۔۔۔ سیما کو منہ سے ہلکی ہلکی چیخیں نکلنے لگیں ۔۔۔۔ درد اور خوف کے مارے نہیں بلکہ لذت کے ساتھ ۔۔۔۔ ٹامی سیما کے مموں کو باری باری ایسے جگہ جگہ سے کاٹ رہا تھا کے جیسے وہ انکو کھانے کی کوشش کر رہا ہو ۔۔۔۔ ایسے ہی تیزی کے ساتھ اپنی کاٹنے کی جگہ تبدیل کرتے ہوئے سیما کا نپل اسکے دانتوں کے بیچ آگیا اور جیسے ہی ٹامی نے اسے کاٹا تو سیما کی تو جیسے جان ہی نکل گئی ۔۔۔۔ ایک تیز سسکاری اور چیخ اسکے حلق سے نکلی ۔۔۔۔ اپنے نپل میں ہونے والے ہلکے سے درد کی وجہ سے ۔۔۔ مگر اسکے ساتھ ہی اسکے سارے جسم میں لذت آمیز لہریں دوڑنے لگیں ۔۔۔۔ اسکی چوت گیلی ہونے لگی ۔۔۔ جو کہ اس وقت اسکے جسم کا واحد حصہ تھا جو کہ تولیہ سے ڈھکا ہوا تھا ۔۔۔۔

سیما کو اس قدر لذت ملی ۔۔۔ اتنا مزہ آیا کہ اس نے ٹامی کا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اپنے منہ کی طرف لاتی ہوئی اپنے ہونٹ ٹامی کے منہ کے اگلے کالے حصے یعنی اسکے ہونٹوں پر رکھ دئے ۔۔۔ اور ایک بار سے چومنے کے بعد اسکے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرنے لگی ۔۔۔۔ ٹامی کی حرکتیں سیما کو مست کرتی جا رہی تھیں ۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے تک وہ ٹامی کے ساتھ کچھ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔ اور اب وہ خود کو ٹامی کے رحم و کرم پر چھوڑ چکی تھی ۔۔۔۔ اور حالات کی لہروں پر بہتی چلی جا رہی تھی ۔۔۔۔ ٹامی کے ساتھ ۔۔۔۔ جو مستی اور انوکھی لذت کے سفر میں سیما کے ساتھ تھا ۔۔۔۔۔۔ بلکہ اس سفر پہ سیما کو لے جانے والا بھی ٹامی ہی تھا ۔۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعد سیما نے اپنے جسم پر موجود آخری ۔۔۔ مگر بے مقصد کپڑا ۔۔۔ اپنی رانوں پر پڑا ہو تولیہ بھی اتار کے نیچے کارپٹ پہ پھینک دیا ۔۔۔۔۔۔ اور اب وہ ٹامی کے سامنے بلکل ننگی تھی ۔۔۔۔ اور ٹامی ۔۔۔۔ وہ تو ازل سے ہی ننگا تھا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی ٹامی نے سیما کی ننگی رانوں کو دیکھا تو فورا" ہی نیچے کو آکر اسکی رانوں کو چاٹنے لگا ۔۔۔ کبھی ایک تو کبھی دوسرے ۔۔۔ کبھی یہاں سے تو کبھی وہاں سے ۔۔۔۔ سیما کی رانوں کو چاٹتا ہوا ٹامی اسکی رانوں کے اندر کے حصوں کی طرف آنے کی کوشش کررہا تھا ۔۔۔۔ اور بیچاری سیما اسے روک بھی نہ سکی ۔۔۔۔ اسکی ٹانگیں خود بخود ہی کھل گئیں ۔۔۔۔ اور ٹامی کی زبان سیما کے جسم کے سب سے نازک اور سب سے خاص اور سب سے پرائیویٹ حصے ۔۔۔۔ اسکی چوت کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔۔ جیسے ہی ٹامی کی زبان نے ایک بار میں ہی سیما کی پھول جیسی کھِلی ہوئی چوت کو پورے کا پورا چاٹا تو سیما کا تو پورے کا پورا جسم ہی اپنی جگہ سے اچھل کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ اور اس نے خود کو گرنے سے بچانے کے لیں ٹامی کے مضبوط جسم کو جلدی سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا ۔۔۔۔۔ اب ٹامی بنا کسی روک ٹوک کے سیما کی چوت کو چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔

دو دن کے اندر ہی ۔۔۔۔ سیما جیسی معصوم ۔۔۔ اور خوبصورت لڑکی اس حد تک کھُل چکی ہوئی تھی کہ اس وقت وہ بلکل ننگی ہو کر بیٹھی ہوئی اپنے کتے سے اپنی چوت چٹوا رہی تھی ۔۔ ۔۔۔۔ اس میں اس بیچاری ۔۔۔ معصوم سی کلی کا بھی کوئی قصور نہیں تھا ۔۔۔۔ یہ تو کمال تھا ٹامی جیسے سمجھدار اور تجربہ کار کتے کا ۔۔۔ جو اپنی حرکتوں اور اپنی زبان کے ساتھ کسی بھی لڑکی کو مدہوش کرکے اپنے سامنے بے بس کر دینے کا ماہر تھا ۔۔۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔۔ ٹامی کوئی عام کتا نہیں تھا ۔۔۔۔ وہ خاص طور سے تربیت یافتہ تھا ۔۔۔۔ اپنے کام میں ماہر تھا ۔۔۔۔ یعنی اسے تربیت ہی یہ دی گئی ہوئی تھی کہ ایک لڑکی کو کیسے گرم کرنا ۔۔۔ اور کیسے اسے چودنا ہے ۔۔۔۔ اور اپنی اسی خوبی اور اپنے کام میں مکمل مہارت کی وجہ سے ہی ٹامی اپنی پرانی مالکن جولیا کا پسندیدہ کتا تھا ۔۔۔۔ جس سے چدوا چدوا کر جولیا کبھی بھی بور نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ اور آج سیما بھی صر ایک دن کی مزاحمت کے بعد ہی ٹامی کے سامنے اپنی ساری مزاحمت ختم کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور اس وقت اس بدیشی کتے کے سامنے اپنی چوت کھول کہ بیٹھی اس سے اپنی چوت چٹواتی ہوئی مزے لے رہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔ اور کتا بھی ایسے مزے لے لے کے سیما کی چوت سے بہہ کرنکلنے والے پانی کو چاٹ رہا تھا کہ جیسے اندر سے کوئی شہد نکل رہا ہو ۔۔۔۔۔ جسکا وہ ایک قطرہ بھی ضائع جانے نہ دینا چاہتا ہو ۔۔۔۔۔

ٹامی کی کھردری ۔۔۔ لمبی ۔۔۔ گلابی زبان اتنی بری طرح سے سیما کی چوت کو چاٹ رہی تھی کہ سیما کے جسم سے اسکی جان نکلی جا رہی تھی ۔۔۔۔ اسکے منہ سے زور دار سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔۔۔ جو کہ پورے کمرے میں پھیل رہی تھیں ۔۔۔۔۔ شازیہ سے اس سٹول پر بیٹھنا اور اپنا توازن برقرار رکھنا بہت مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔ مگر پھر بھی وہ کسی نہ کسی طور ٹامی کو پکڑ کر اپنے تھرتھراتے ہوئے جسم کو سہارا دینے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ اچانک ٹامی کی لمبی زبان پھسل کر سیما کی چوت کے سوراخ کے اندر چلی گئی ۔۔۔ صرف ایک لمحے کے لیے ۔۔۔ مگر وہ لمحہ تو جیسے کوئی کرنٹ سا لگا گیا سیما کے جسم میں ۔۔۔۔۔ ۔۔ اور سیما کا پورے کا پورا جسم اپنی جگہ سے اچھل پڑا ۔۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے شازیہ نیچے کارپٹ پہ گری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ نیچے کارپٹ سے اٹھنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔۔۔ ۔۔۔ اور نہ ہی ٹامی نے اسے اٹھنے کا کئی موقع دیا ۔۔۔۔۔ وہ جلدی سے اپنی جگہ سے گھوم کر ایک بار پھر سے سیما کی چوت کی طرف آگیا ۔۔۔۔ سیما کی رانوں کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے بھی فوری اپنی ٹانگوں کو کھولتے ہوے ٹامی کو دوبارہ اپنی چوت کی طرف متوجہ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اب تو جیسے ٹامی چاہتا تھا ۔۔۔۔ جو چاہتا تھا ۔۔۔۔سیما کے ساتھ وہی کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سیما بھی بلکل ویسا ہی کر رہی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ بنا کوئی مزاحمت کیے ۔۔۔ بنا کوئی انکار کیے ۔۔۔۔۔

مزاحمت اور انکار ۔۔۔۔ یہ تو وہاں ہوتے ہیں نا جہاں انسان کو مزہ نہ آرہا ہو ۔۔۔۔۔ جبکہ یہاں ۔۔۔۔ یہاں تو سیما کو اس سب میں پورا پورا مزہ آرہا تھا ۔۔۔۔ اس ٹامی کی زبان سیما کی چوت پر چل رہی تھی۔۔۔ اور اسکے پورے جسم کو جلا رہی تھی ۔۔۔۔ اس میں پید ا کرنے والی آگ کے ساتھ ۔۔۔۔۔ سیما تو اپنی رانوں کو پورا کھولے ہوئے ٹامی کے آگے پڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور وہ اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں کھڑا ۔۔۔۔ اپنا سر جھکائے ۔۔ اپنا منہ سیما کی چوت پر رکھے ہوئے ۔۔ اپنی لمبی زبان کے ساتھ سیما کی چوت کو چاٹتا جا رہا تھا ۔۔۔۔ ٹامی کی لمبی زبان تیزی کے ساتھ چل رہی تھی ۔۔۔ کبھی وہ اسکی پوری کی پوری چوت کو اپنی زبان سے ایک ساتھ ہی چاٹنے لگتا ۔۔۔۔ اور کبھی اسکی چوت کے اوپری حصے پر اپنی پوری توجہ لگا دیتا ۔۔۔۔۔ سیما کی چوت کے دونوں لبوں کے درمیان ۔۔۔ بلکل اوپر کے حصے میں ۔۔ اسکی چوت کا دانہ ۔۔۔ ۔۔ ٹامی کی بے رحم کھردری زبان کے رحم و کرم پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے ٹامی کی زبان مسلسل رگڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔ چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔ اور کچھی دیر پہلے تک ٹامی کو روکنے کا ارادہ کرنے والی سیما اب صر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے اسکے سامنے پڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ تڑپ رہی تھی ۔۔۔۔۔ سسسک رہی تھی ۔۔۔۔۔ مگر یہ تڑپ اور سسک کسی تکلیف یا درد کے مارے نہیں تھی ۔۔۔ بلکہ لذت کی وجہ سے تھیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور اسکے منہ سے نکلنے والی تیز سسکاریاں ۔۔۔۔ پورے کمرے مٰیں گونج رہی تھیں ۔۔۔۔۔ اور اسکے دونوں ہاتھ ٹامی کے سر پر تھے ۔۔۔۔ اسے اپنے سے دور کرنے کے لیے نہیں بلکہ ۔۔۔ اسکے منہ کہ اور بھی اپنی طرف کھینچنے کے لیے ۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں سیما نے اپنی دونوں ٹانگیں اور انکو ٹامی کی کمر کے اوپر رکھتے ہوئے اسکے حیوانی جسم کو اپنی گوری گوری نازک اور سیکسی ٹانگوں کے بیچ میں دبانے لگی ۔۔۔۔ تاکہ وہ کہیں بھا گ نہ جائے ۔۔۔۔۔ سیما اپنے گورے گورے پیروں کے ساتھ ٹامی کی نرم نرم فر کو سہلا رہی تھی ۔۔۔ اسکے پیر اسکی پوری کمر پر سرک رہے تھے ۔۔۔ کبھی وہاں سے نیچے ۔۔۔ اسکی ٹانگوں کو سہلانے لگتی ۔۔۔۔ کچھ بھی نہ سوچتے ہوئے ۔۔۔۔۔ بس آنکھیں بند کیے ہوئے ۔۔۔ اپنی چوت پر اسکی زبان کے مزے لیتے ہوئے اسکے جانور کے جسم کو اپنے پیروں سے سہلانا اسے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ ٹامی کے جسم اور اسکی ٹانگوں کو اپنے پیروں کے ساتھ سہلاتے ہوئے ۔۔۔ پتہ نہیں کب اور کیسے ۔۔۔ اسکا پیر نیچے جانے لگا ۔۔۔۔۔ ٹامی کے پیٹ کے نیچے کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔ اور ایسے ہی اسکا پیر ۔۔۔۔ کسی سخت سی چیز سے ٹکرایا ۔۔۔۔ جسکی سیما کو فوری طور پہ کچھ سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ وہ اسے بھی اسکی ٹانگ کی کوئی ہڈی ہی سمجھی ۔۔۔۔ سخت سی لمبی سی ۔۔۔۔ آنکھیں بند تھیں سیما کی ۔۔۔۔ مگر دماغ جیسے کسی نشے سے باہر آرہا تھا ۔۔۔۔ اپنے پیروں کے ساتھ اس چیز کو جانچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔ جاننے کی کوشش میں تھا کے یہ کیا ہوجو اسکے پیروں کے ساتھ ٹکرا رہا ہے ۔۔۔۔۔ دونوں پیر اب اسکے دماغ کی مدد کر رہے تھے ۔۔۔۔ اس چیز کو کوئی نام دینے کے لیے ۔۔۔۔ اور پھر سیما کے دماغ میں ایک چھناکا سا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ لنڈ ۔۔۔۔۔۔۔ لوڑا۔۔۔۔۔ لن ۔۔۔۔ ایک ساتھ ہی اس چیز کے کئی نام اسکے دماغ میں آئے ۔۔۔۔۔ اور اچانک سے ہی اسکے دونوں پیر اس چیز سے دور ہٹ گئے ۔۔۔۔۔ مگر ٹامی کی زبان کی اسکی چوت پر رگڑ اور چوت سے بہتے ہوئے چکنے پانی نے اسے سب کچھ ایک بار پھر سے بھولنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔۔ اور ہو پھر سے سسکنے لگی ۔۔۔۔۔ اور تھوڑی ہی دیر میں اسکا پیر ایک بار پھر سے ٹامی کے پیٹ کے نیچے اسکے لنڈ کی طرف بڑھا ۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے اسکے پیر نے ایک بار پھر سے ٹامی کے لنڈ کو چھونا شروع کر دیا ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ۔۔۔ ٹامی کو ڈسٹرب کیے بنا ۔۔۔۔ پھر اسکے دونوں پیرٹامی کے لن کے گرد لپٹ گئے ۔۔۔۔۔۔ اور آہستہ آہستہ وہ ٹامی کے لن کو اپنے دونوں پیروں کے بیچ میں لے کر دونوں پیروں کے ساتھ سہلانے لگی ۔۔۔۔ ٹامی کی زبان کے لمس کے ساتھ ہی وہ اپنی منزل کو پہنچ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اسکی چوت کے اندر گرمی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ اور وہ پانی چھوڑنے والی تھی ۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے سیما نے مضبوطی سے ٹامی کے سر کو اپنے ہاتھوں سے جکڑا اور پھر ۔۔۔۔ اسکی چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ چند لمحوں میں ہی سیما کا جسم ڈھیلا پڑنے لگا ۔۔۔۔ اسکی سانسوں کی رفتار تیز ہو گئی ۔۔۔۔ وہ لمبے لمبے سانس لیتی ہوئی اب خود کو نارمل کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ اور ٹامی اپنی زبان کے ساتھ سیما کی چوت سے نکلنے والا گاڑھا گاڑھا پانی چاٹتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ چوت کا پانی نکلنے کے بعد سیما نے ٹامی کو خود سے پیچھے کو دھکیلا ۔۔۔۔ اور اس بار ٹامی اسکو چھوڑ کر اس سے دور ہوگیا ۔۔۔۔۔ مگر اس کے سر کی طرف ۔۔۔ اسکے ہاتھوں کی رینج میں ہی اسکے قریب بیٹھ کر ہانپنے لگا ۔۔۔۔ اسکا جسم بھی ہل رہا تھا ۔۔۔۔ اور زبان بھی باہر لٹک رہی تھی ۔۔۔۔ سیما اسی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ بڑے ہی پیار سے ۔۔۔ بڑی ہی چاہت سے ۔۔۔۔۔ کیوں کہ آج جسقدر اس جانور نے اسے مزہ دیا تھا ۔۔۔۔ وہ اسے کبھی پہلے نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔ اور اس مزے کے لیے وہ دل سے ٹامی کی شکر گزار تھی ۔۔۔۔ وہاں قالین پر سے اٹھنے کو اسکا دل بھی نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ چہر ے پر سکون ہی سکون تھا ۔۔۔۔۔ اور ایک مسکان ۔۔۔۔۔
 
Active member
780
397
63
چوتھی قسط
سیما کا بیڈ روم عجیب منظر پیش کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ سیما جیسی خوبصورت لڑکی ۔۔۔۔ اپنے خوبصورت جسم کے ساتھ ننگی اپنے کمرے کے کارپٹ پر پڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور اسکا وفادار کتا ۔۔۔۔ اسکے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ چوت کا پانی نکلنے کے بعد سیما نے اپنا سر گھما کے ٹامی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر مسکرا کے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اسکے منہ کو سہلانے لگی ۔۔۔۔۔ کتا بھی اپنی مالکن کی طرف سے اپنے کام کو ۔۔۔۔ اپنی کارکردگی کو پسند کیے جانے پر خوش ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ سیما آہستہ آہستہ اسکے سر کو سہلا رہی تھی ۔۔۔۔ سیما نے مسکراتے ہوئے اسکو دیکھتے ہوئے اپنی انگلی کو اسکے نوکیلے دانتوں پر پھیرنے لگی ۔۔۔۔ اسے تھوڑا عجیب لگ رہا تھا ۔۔۔۔ مگر اسے یہ بھی پتہ تھا ۔۔۔ یہ بھی احساس تھا کے اسکے ان دانتوں نے اسے کسطرح مزہ دیا تھا ۔۔۔ اسکے مموں کو کاٹتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔

ٹامی کے منہ پر سے سیما کا ہاتھ اسکی گردن پر آگیا ۔۔۔۔ اور پر اسکے پیٹ کو سہلانے لگی ۔۔۔۔ سیما کی نظر ٹامی کی کھلی اور پھیلی ہوئی ٹانگوں پر پڑی ۔۔۔ اور اسے وہاں وہی چیز نظر آئی ۔۔۔۔ جسے وہ تھوڑی دیر پہلے اپنے پاؤں سے سہلا رہی تھی ۔۔۔۔۔ سیما کی نظر اسی پر جم کر رہ گئی ۔۔۔۔ ٹامی کے لنڈ پر ۔۔۔۔۔ وہ اسے دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔۔ بنا کسی اور طرف دیکھے ۔۔۔۔۔ بنا اپنی پلکیں جھپکائے ۔۔۔۔۔ وہ سرخ رنگ کا لمبا سا ۔۔۔۔ چمکتا ہوا ۔۔۔ کسی ہڈی کی طرح ہی لگ رہا تھا ۔۔۔ مگر اس وقت بہت زیادہ اکڑا ہوا نہیں تھا ۔۔۔ پھر بھی کافی لمبا لگ رہا تھا ۔۔۔ قریب قریب 8 انچ تو ہو گا وہ اس وقت بھی ۔۔۔۔۔ اگے سے بلکل پتلا سا نوکدار ۔۔۔۔ اور پیچھے کو جاتے ہوئے موٹا ہوتا جاتا تھا ۔۔۔۔۔ پھیلتا جاتا تھا ۔۔۔۔ اسکے لنڈ کے اگلے سوراخ میں سے بھی ہلکا ہلکا پانی رِس رہا تھا ۔۔۔۔ سیما کا ہاتھ ابھی بھی ٹامی کے جسم پر تھا ۔۔۔۔ اسکی پسلیوں کو سہلا رہا تھا ۔۔۔۔۔ سیما کا ہاتھ آہستہ آہستہ آگے کو سرکنے لگا ۔۔۔۔ ٹامی کے لنڈ کی طرف ۔۔۔۔۔ اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔ وہ خود کو روکنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ مگر اسکا جسم ۔۔۔ اسکے قابو میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔ ہاتھ آہستہ آہستہ سرکتا ہو آگے کو بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ چند لمحوں میں ہی سیما کا ہاتھ ٹامی کے لنڈ کے قریب پہنچ چکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اپنے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ۔۔۔۔۔ سیما نے اپنی انگلی سے اسکے لن کی نوک کو چھوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فورا" ہی اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا ۔۔۔ جیسے اس میں کوئی کرنٹ ہو ۔۔۔۔ یا جیسے اس کا لن اسکی انگلی کو کاٹ لے گا ۔۔۔۔۔ یا اسے ڈنک ماردے گا ۔۔۔۔۔ مگر ٹامی کے لن میں ذرا سی حرکت پیدا ہونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔۔۔۔ اسکا لن ویسے کا ویسے ہی اسکی ران کے اوپر پڑا رہا ۔۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر کے بعد سیما نے دوبارہ سے اپنی انگلی سے ٹامی کے لن کو چھونا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اس پوزیشن میں لیٹے ہوئے سیما کا ہاتھ بڑی ہی مشکل سے ٹامی کے لن تک پہنچ رہا تھا ۔۔۔۔ کچھ سوج کر سیما نے تھوڑا سی حرکت کرتے ہوئے ٹامی کے جسم کے نچلے حصے کی طرف سرک گئی ۔۔۔۔۔ اب اسکی انگلی بڑی آسانی کے ساتھ ٹامی کے پورے لنڈ پر سرک رہی تھی ۔۔۔ اسے سہلا رہی تھی ۔۔۔۔۔ سیما نے ٹامی کے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ مگر اس جانور نے کونسا کوئی اپنے چہرے سے تاثرات دینے تھے ۔۔۔۔ جو وہ سیما کی حرکت سے خوشی کا اظہار کرتا ۔۔۔۔۔ لیکن ایک بات کی سیما کو تسلی تھی کہ ٹامی کوئی ناپسندیدگی بھی نہیں دکھا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور اسی کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔ سیما کے ہاتھ کی پوری انگلیاں اسکے لنڈ کے گرد لپٹ گئیں ۔۔۔۔ بہت ہی گرم ۔۔۔۔۔ چکنا چکنا ۔۔۔۔ اور سخت ۔۔۔۔۔ اور لمبا ۔۔۔۔ اور مضبوط محسوس ہو رہا تھا اسے ٹامی کا لنڈ ۔۔۔۔۔ سیما نے اسے اپنے ہاتھ میں لے کر آہستہ آہستہ اپنی مٹھی کے اندر ہی اسے آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ ٹامی کا لنڈ اسکی مٹھی میں آگے پیچھے کو سرک رہا تھا ۔۔۔۔ اسکے لنڈ کے چکنے پن سے سیما کا ہاتھ بھی چکنا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ اسکے لنڈ کو محسوس کرتی ہوئی وہ اسکا موازنہ انسانی لنڈ کے ساتھ بھی کر رہی تھی ۔۔۔۔ یعنی اپنے شوہر کے لنڈ کے ساتھ ۔۔۔۔ اور بنا کسی چیز کو ناپے وہ بآسانی کہہ سکتی تھی کہ ٹامی کالنڈ اسکے شوہر کے لنڈ سے لمبا اور موٹا ہے ۔۔۔۔۔

سیما کے سہلانے سے ۔۔۔۔ اسکی مٹھ مارنے سے ۔۔۔۔۔ ٹامی کو بھی شائد مزہ آنے لگا تھا ۔۔۔۔ وہ پہلے تو اسی طرح لیٹا رہا ۔۔۔ مگر پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ سیما ابھی بھی ٹامی کے قریب نیچے کارپٹ پر ہی لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ اور اب ٹامی اسکے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔۔ مگر اب سیما کو اس سے کوئی بھی ۔۔۔۔ کسی قسم کا بھی ۔۔۔۔ خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسکے اچانک اٹھ کر کھڑا ہونے سے اسکا لنڈ سیما کے ہاتھ سے نکل گیا تھا ۔۔۔۔۔ مگر اسے اپنی جگہ سے کہیں آگے نہ جاتے ہوئے دیکھ کر سیما نے ایک بار پھر سے اسکا لنڈ پکڑ لیا ۔۔۔۔ اور آہستہ آہستہ اسے سہلانے لگی ۔۔۔۔۔ ٹامی اگر اپنے لنڈ کو ابھی بھی سیما کے ہاتھ میں دیئے رکھنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔ تو سیما کا دل بھی اسکے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے چھوڑنے کو نہیں چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اب وہ نیچے کارپٹ پر پڑی ہوئی ۔۔۔۔ ٹامی کے پیٹ کے نیچے ۔۔۔ اسکی فر میں سے ۔۔۔۔ کھال میں ہورہے ہوئے سوراخ میں سے نکلتے ہوئے لنڈ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ اسے چھو رہی تھی ۔۔۔۔ اور اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بار پھر سے اسے آگے پیچھے کر رہی تھی ۔۔۔۔ ٹامی کے لنڈ میں سے نکلنے والا کوئی لیسدار سا مواد ۔۔۔۔۔ صاف ظاہر ہے کہ ۔۔۔۔ ٹامی کی منی ہی تھی وہ ۔۔۔۔ نکل نکل کر سیما کے ہاتھ پر لگ رہی تھی ۔۔۔۔ مگر وہ اپنی ہی ۔۔۔۔ اس نئی دنیا میں مگن ۔۔۔۔۔ اسے اپنے ہاتھ آئی ہوئی یہ نئی چیز اچھی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ سیما کو محسوس ہوا کہ اب ٹامی کا لنڈ پہلے کی نسبت اکڑ چکا ہوا ہے ۔۔۔۔ اور بھی سخت ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔ سیما کا ہاتھ اس کے لنڈ پر پیچھے کو جانے لگا ۔۔۔۔۔۔ اسکی جڑ تک ۔۔۔۔۔ اور پیچھے اسے کچھ اور ہی چیز محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔۔ کچھ موٹی سی ۔۔۔۔ گول سی ۔۔۔ بہت بڑی سی ۔۔۔۔ سیما تھوڑا اب اور بھی ٹامی کے لنڈ کی طرف سرک آئی ۔۔۔۔ کافی قریب پہنچ چکی تھی اسکے لنڈ کے ۔۔۔۔۔اور اب ۔۔۔۔۔۔ وہ اسکی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔ یہ ٹامی کے لنڈ کا آخری حصہ تھا ۔۔۔۔ جو کہ کسی گیند کی طرح موٹا اور پھولا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ مرغی کے انڈے کے جتنا موٹا اور بڑا ۔۔۔۔۔۔ اب بہت قریب سے ٹامی کا لنڈ دیکھنے پر اسے اور بھی یہ عجیب لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ لمبا سا موٹا سا ہتھیار تھا کتے کا ۔۔۔۔۔ جس پر چھوٹٰی چھوٹی رگیں ہی رگیں تھیں۔۔۔۔۔۔ گہرے نیلے رنگ کی ۔۔۔۔ ان گہری نیلی رگوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی اسکے لنڈ پر کہ اسکے لنڈ کا سرخ رنگ اب جامنی سا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ٹامی کے سرخ لنڈ کو سہلاتے ہوئے ۔۔۔۔ سیما کی نظروں میں وہ تما م فلمیں چل رہی تھیں اینیمل سیکس کی جو اس نے پہلے دیکھ رکھی تھیں ۔۔۔۔۔ اسکے دماغ میں گھوم رہا تھا کہ کیسے لڑکیاں ایک کتے کا لنڈ منہ میں لے کر چوستی ہیں ۔۔۔۔۔ کیسے اسے اپنی زبان سے چاٹتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ پہلے جب اس نے یہ سب دیکھا تھا تو اسے گھن آتی تھی ۔۔۔۔۔ مگر اب ۔۔۔ اس وقت حقیقت میں ایک کتے کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے سہلاتے ہوئے اسکا ذہن کچھ بدل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اب اسے اتنا برا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔ بلکہ اسکا دل چاہ رہا تھا کہ آج ایک بار ۔۔۔۔۔۔ صر ف ایک بار ۔۔۔۔ پہلی اور آخری بار ۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اس کتے کے لن کو اپنی زبان لگا کر چیک تو کرے کہ کیسالگتا ہے اسکا ذائقہ ۔۔۔۔۔ اور کیا سچ میں کوئی مزہ بھی آتا ہے یا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہی سوچتے ہوئے بلکل غیر ارادی طور پر ۔۔۔۔ اور ایسے کہ جیسے وہ کسی جادو کے زیر اثر ہو۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ٹامی کے لن کی طرف بڑہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکل قریب ۔۔۔۔۔ اسکے ہونٹ ٹامی کے ہونٹوں کے بلکل قریب پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔۔۔ اسکا اپنا دماغ بلکل بند ہو چکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ وہ کچھ بھی اور نہیں سوچ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ بس اسے ٹامی کا لن ہی نظر آرہا تھا ۔۔۔۔۔ بنا سوچے سمجھے ۔۔۔ آخر کار سیما نے اپنے ہونٹوں کے ساتھ ٹامی کے لن کو چھو لیا ۔۔۔۔۔ صف ایک لمحے کے لیے ۔۔۔۔۔۔ اور فورا" ہی اسکا منہ پیچھے ہٹ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ سیما کو حیرت ہوئی کہ اسے یہ برا نہیں لگا تھا ۔۔۔۔۔۔ ڈرتے ڈرتے سیما نے ٹامی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔ پھر اپنے اردگرد ایک نظر دوڑائی ۔۔۔۔ یہ دیکھنے کےلیے کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا ۔۔۔۔۔ پھر اپنی تسلی کرنے کے بعد اس نے دوبارہ اپنے ہونٹ ٹامی کے لن کی طرف بڑھا ئے ۔۔۔۔۔ اور ایک بار پھر اسکے لن کو اپنے ہونٹوں سے چھوا ۔۔۔۔۔۔۔ اپنا ہاتھ پیچھے کے حصے میں لے جا کر سیما نے اسکے لن کے موٹے گول حصے کے پیچھے سے ٹامی کے لن کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیا ۔۔۔۔۔ اور اپنے ہونٹوں کو جوڑ کر اسکے لن پر لمبائی کے رخ پھیرنے لگی ۔۔۔۔۔ عجیب سا مزہ آنے لگا تھا سیما کو ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے ہونٹوں سے جیسے اسکے لن کو سہلا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ گھس رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر تک ایسے ہی اپنے ہونٹوں کے ساتھ ٹامی کے لن کو سہلانے کے بعد سیما کا خوف اور جھجھک ختم ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اسے جیسے جیسے یہ سب اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔ وہ ویسے ویسے ہی کھلتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی اسکے ہونٹ بھی کھلے اور اس کی زبان باہر نکلی ۔۔۔۔۔ اور اس نے اپنی زبان کی نوک کے ساتھ ٹامی کے لن کو سہلانا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اس کے لن پر اپنی زبان آہستہ آہستہ پھیرنے لگی ۔۔۔۔ اسکی نوک سے لے کر اسکی پیچھے کی موٹی گولائی تک ۔۔۔۔۔۔۔ سیما اب اپنی زبان پھیرتی ہوئی اسکے لن کو محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔ کچھ عجیب سی چیز لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ نئی سی ۔۔۔۔۔جمال کے لن سے مختلف۔۔۔۔ عجیب سا مگر اچھا ۔۔۔۔۔۔ سیما نے اپنی زبان کو ٹامی کے لن کی نوک پر رکھا ۔۔۔۔ اور اسے اپنی زبان سے چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔ سیما کو حیرت ہوئی کے اس میں سے وقفے وقفے سے تھوڑا تھوڑا پانی نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ہلکی سی دھار کی صورت میں ۔۔۔۔۔ اور ایک بار تو جب سیما کی زبان اسکی نوک پر تھی تو وہی پانی اسکی زبان پر آگیا ۔۔۔۔۔ سیما نے فورا'' ہی اسے تھوک دیا ۔۔۔۔ مگر زبان پر اسکا ذائقہ رہ گیا ۔۔۔ تبھی سیما کو لگا ۔۔۔۔ احساس ہوا کہ اسکا ذائقہ کچھ اتنا بھی برا نہیں ہے ۔۔۔۔۔ سیما نے اب ایک بار پھر اپنی زبان سے اسکے لن کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ پھر پیچھے اپنی زبان لے جا کر اسکی موٹی گیند کو چاٹا ۔۔۔۔۔ اور ایک بار پھر ہمت کر کے اسکے لن کی ٹوپی کو اپنے ہونٹوں کے بیچ میں لیا ۔۔۔ اور اسے چوسنے لگی ۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر کے ۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہ سوچتے ہوئے ۔۔۔۔۔ مگر اسکے لن سے نکلنے والے پانی کو قبول کرتے ہوئے ۔۔۔۔

اور پھر ٹامی کے لن سے اسکا ہلکا ہلکا پانی نکل کر سیما کے منہ کے اندر گرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ مگر اس بار سیما نے اسکے لن کو اپنے منہ سے باہر نہیں نکالا ۔۔۔۔ اور اسے چوسنے لگی ۔۔۔۔ اسکے لن کا پانی نکل نکل کر سیما کے منہ کے اندر گرنے لگا ۔۔۔۔ کچھ عجیب سا ذائقہ لگ رہا تھا اسے ۔۔۔۔۔۔ مرد کے لن سے مختلف ۔۔۔۔۔ گاڑھا پانی نہیں تھا مرد کی طرح بلکہ پتلا پتلا سا تھا ۔۔۔۔۔ نمکین سا ۔۔۔۔۔ کسیلا سا ۔۔۔۔۔۔ جو کہ اب سیما کے حلق سے نیچے اتر رہا تھا ۔۔۔۔ اسکے گلے میں سے ہوتا ہوا اسکے پیٹ کے اندر ۔۔۔۔۔ مگر اب سیما کو یہ برا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ اب اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ اور ٹامی کا لنڈ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔ کبھی اسے منہ کے اندر لیتی اور چوسنے لگتی ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ بھول بھال کر سیما اب صر مزہ لے رہی تھی ۔۔۔۔۔ خود کو پوری طرح سے اپنے کتے کے ساتھ مست کر چکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ جانور اور انسان کا فرق ختم کر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے لن کو چوستی چلی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹامی نےاپنی جگہ سے حرکت کرتے ہوئے اپنا لنڈ سیما کے ہاتھ میں سے چھڑوایا ۔۔۔۔ اور گھوم کر سیما کے پیچھے آگیا ۔۔۔۔۔۔ اور سیما کی گوری گوری گانڈ کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔ اسکی زبان سیما کی گانڈ کے بیچ میں گھستی ہوئی اسکی چوت تک پہنچ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اور جیسے ہی ایک بار پھر سے ٹامی کی زبان سیما کی چوت سے ٹکرانے لگی تو ۔۔۔۔ سیما کی چوت کی آگ ایک بار پھر سے بھڑکنے لگی ۔۔۔۔۔۔ ٹامی اب پوری طرح سے متحرک ہو چکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ کبھی وہ سیما کی چوت کو چاٹتا کبھی اسکی گانڈ کو چاٹنے لگتا ۔۔۔۔۔۔ ادھر سیما کا بھی برا حال ہو رہا تھا لذت کے مارے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی کہنیاں زمین پر ٹکا کر اپنا سر اپنے ہاتھوں پر رکھے اپنی گانڈ کو اور بھی اوپر کہ اٹھا کر نیچے جھک ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ ٹامی اسکی چوت کو چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور اسکے منہ سے نکلنے والی سسکاریوں سے پورا کمرہ گونج رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

اچانک ٹامی نے ایک چھلانگ لگائی اور اپنی دونوں اگلی ٹانگیں سیما کی کمر پر رکھ کر اسکے اوپر چڑھ گیا ۔۔۔۔۔ اسکے اگلے دونوں پاؤں سیما کی کمر پر تھے ۔۔۔۔ اور پیچھے سے اس نے اپنے لنڈ کو سیما کی گانڈ سے ٹکرانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما سمجھ گئی کہ وہ اب اپنا لنڈ اسکی چوت میں داخل کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ گھبرا گئی ۔۔۔۔۔۔ ایسا تو اس نے نہیں سوچا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حد تک جانا اس کے پروگرام میں شامل نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو بس اپنی چوت چٹوانے تک کا مزہ چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ مگر اب تو شائد بات اسکے کنٹرول سے نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ٹامی اسکے اوپر چڑھ کر اسکو چودنے کی تیاری میں تھا ۔۔۔۔۔۔ سیما گھبرا گئی ۔۔۔۔۔۔ اس نے جلدی سے اٹھ کر اپنی جگہ سے کھڑی ہونا چاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ٹامی نے اپنا پورا وزن سیما کی کمر پرڈال دیا ۔۔۔۔ اپنے اگلے پیروں کی گرفت اسکے کاندھوں پر اور مضبوط کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ اور پیچھے سے اپنا لنڈ اور بھی تیزی کے ساتھ اسکی گانڈ کی دراڑ میں مارنے لگا ۔۔۔۔۔ اسے سیما کی چوت میں داخل کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔ سیما اب کافی خوفزدہ تھی ۔۔۔۔۔۔ مگر کچھ اور بھی تو عجیب ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ کہ جب جب ٹامی کا لنڈ سیما کی چوت سے ٹکراتا تو اسے الگ ہی مزہ ملتا ۔۔۔۔۔۔ الگ ہی دنیا کی سیر کرواتا ۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک طرف تو سیما کو اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ خود ٹامی کا لنڈ اپنی چوت میں لے لے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر کہ اگر اتنا مزہ صرف لنڈ کے باہر سے اسکی چوت سے ٹکرانے سے مل رہا ہے تو اگر یہ لنڈ چوت کے اندر چلا جائے گا تو پھر اسے کتنا مزہ دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسرے ہی لمحے اسے کچھ اور خیال آنے لگتا ۔۔۔۔۔ اپنی حیثیت کا ۔۔۔ ۔۔۔ اپنے ایک انسان ۔۔۔ ایک عورت ہونے کا ۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ وہ تو ایک جانور ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ کیسے ایک کتے کو اپنا لنڈ اپنی چوت کے اندر ڈال کر خود کو اس سے چدوا سکتی ہے ۔۔۔کیسے ایک کتے کے سامنے کتیا بن کر کھڑی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے ایک کتے کو خود کو چودنے کی اجازت دے سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے ایک کتے کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ اسے اپنی کتیا سمجھ کر چود ڈالے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر اس نے ایک بار پھر سے خود کو اپنی اس پوزیشن سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کتیا کی پوزیشن سے ۔۔۔۔ کھڑا کرنے کا ارادہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ مگر اب تو سب کچھ اسکے بس سے باہر تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ تو اب اپنے ٹامی کی ۔۔۔۔۔ ایک کتے کی غلامی میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے نیچے ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ کتا اپنا لنڈ اسکی چوت کے اندر ڈالنے کی کوشش میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے ہی ٹامی نے محسوس کیا کہ سیما ایک بار پھر سے اسکے نیچے سے نکلنے کے لیے زور لگا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنی چوت دیئے بنا اسکے نیچے سے نکلنا چاہتی ہے ۔۔۔ تو اس نے اپنی گرفت اسکے جسم پر اور بھی سخت کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اپنا آخری حربہ بھی آزما لیا ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنا منہ کھول کر سیما کی گردن کو اپنے نوکیلے ۔۔۔۔ لمبے لمبے ۔۔ خوفنا ک دانتوں کے بیچ میں لے لیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکی گردن پر اپنے دانتوں کا دباؤ بڑھانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی سیما کو اپنی گردن کو گوشت میں ٹامی کے دانت گھستے ہوئے محسوس ہوئے تو وہ خوف کے مارے اپنی جگہ پر ساکت ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ کہیں ٹامی سچ میں ہی اسکی گردن کو نا کاٹ لے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی سیما نے اپنی حرکت بند کی ۔۔۔۔۔۔ تو یہ لمحہ ٹامی کے لیے کافی تھا ۔۔۔۔۔ اس نے دوبارہ سے سیما کی چوت پر حملہ شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکا لنڈ اب سیما کی چوت کے سوراخ سے ٹکرا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آخر ایسے ہی ایک زور دار دھکے کے ساتھ ٹامی کا موٹا لنڈ سیما کی چوت کی گہرائیوں میں اتر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی کمرے میں سیما کی ایک درد بھری ۔۔۔۔۔ بہت ہی تیز چیخ گونج گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دوبارہ سے ٹامی کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر فورا'' ہی اسے اپنی گردن میں کیل سے گھستے ہوئے محسوس ہوئے ۔۔۔۔۔۔ اور وہ مزید نہ ہل سکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادھر پچھے سے اب ٹامی کا لنڈ پورے کا پورا سیما کی چوت کے اندر جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کے کاندھوں کو پکڑے ہوئے وہ دھنا دھن گھسے مار رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کی چوت کو چود رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا لمبا لنڈ بہت گہرائی تک جا رہا تھا سیما کی چوت کے اندر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیما بلکل بےبس ہو چکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ چاہتے ہوئے بھی ہل نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ایک بات جو سیما کو عجب لگ رہی تھی وہ یہ تھی کہ ٹامی کے دھکے مارنے کا انداز ایسا تھا کہ جیسے کوئی مشین چل رہی ہوئی ہو ۔۔۔۔۔ اتنی تیزی کے ساتھ ٹامی کا لنڈ سیما کی چوت کے اندر باہر ہو رہا تھا کہ سیما کو یقین نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اسے اب یہ بات بھی قبول کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی تھی کہ اسے بھی ٹامی کے لنڈ سے چدائی میں مزہ آنا شروع ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ سیما نے اب اپنی مزاحمت بلکل ختم کر دی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور دوبارہ سے کارپٹ پر اپنے ہاتھوں کے اوپر اپنا سر رکھ کر اپنی گانڈ کو اور بھی ہوا میں اوپر کو اٹھاتی ہوئی ۔۔۔ اپنی گانڈ کو پیچھے کو دھکیل رہی تھی ۔۔۔۔۔ سیما کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں ۔۔۔۔ اور چوت تھی کہ بس پانی ہی چھوڑتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ تیز رفتاری کے ساتھ دھکے مارتے ہوئے ٹامی کا لنڈ سیما کی چوت میں سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔ سیما نے فورا'' ہی اپنا ہاتھ پیچھے اپنی رانوں کے بیچ میں لے جا کر ٹامی کا لنڈ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسکی نوک کو دوبارہ سے اپنی چوت کے سوراخ پر ٹکا دیا ۔۔۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے ٹامی کا لنڈ ایک بار پھر سے سیما کی چوت میں اتر چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سے اس کی چوت کی دھنائی شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیما کی چوت لنڈ اندر جانے کے بعد سے 3 بار پانی چھوڑ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ مگر ٹامی ابھی تک لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما نڈھال ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اچانک ہی ٹامی نے ایک زور دار دھکا مارا اور پھر یکدم سے ساکت ہو گیا ۔۔۔۔۔ مگر اس آخری دھکے کے ساتھ ہی سیما کی ایک بار پھر سے چیخ نکل گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنی چوت پھٹتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔ جیسے کوئی بہت بڑی چیز اسکی چوت میں کسی نے ڈال دی ہو ۔۔۔۔۔۔ گول سی ۔۔۔۔ موٹی سی ۔۔۔۔۔۔ تبھی سیما کو خیال آیا کہ شائد ٹامی نے اپنے لنڈ کا آخری موٹا گول حصہ بھی اسکی چوت کے اندر پھنسا دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب ٹامی کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ بس سیما کے اوپر بلکل آرام سے کھڑا تھا ۔۔۔۔۔ اور سیما کو اپنی چوت کے اندر ٹامی کے لنڈ سے اسکی گرم گرم منی گرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ اور اسکی منی کی گرمی سے سیما کی چوت نے ایک بار پھر سے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔ اور سر نیچے رکھے رکھے لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔۔۔۔۔۔

اب سیما کو لگا کے اپنا پانی نکالنے کے بعد ٹامی بھی اپنا لنڈ اسکی چوت سے نکال لے گا ۔۔۔۔ مگر کافی دیر تک بھی ٹامی نے اپنا لنڈ باہر نہیں نکالا تو سیما کو پریشانی ہونے لگی ۔۔۔۔ اس نے خود کو حرکت دی ۔۔۔۔ اور اسے نیچے اترنے کو بولا ۔۔۔۔۔۔ مگر ٹامی اپنی جگہ پر کھڑا تھا ۔۔۔۔۔ اچانک ٹامی نے اپنی اگلی ٹانگیں سیما کے اوپر سے اتاریں ۔۔۔۔ اور ایک طرف کو گھوم گیا ۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی سیما کی چیخیں نکل گئیں ۔۔۔۔۔۔ اب ٹامی اپنے لنڈ اور پیچھے کی گولائی کو پورے کا پورا سیما کی چوت میں گھماتا ہوا اپنا رخ موڑ چکا تھا ۔۔۔۔ اب سیما کی گانڈ ٹامی کی گانڈ کے ساتھ لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ سیما نے خود کو آگے کھینچتے ہوئے اسکا لنڈ اپنی چوت سے نکالنا چاہا مگر ۔۔۔۔ اسقدر تکلیف ہوئی کہ وہ وہیں رک گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔

اچانک ہی ٹامی نے آگے کو چلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ سیما کا حیرت سے برا حال ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے فکر ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔ کتا اب اسکے کمرے سے باہر کو جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی چوت میں پھنسے ہوئے ٹامی کے لنڈ کے ساتھ سیما بھی اسکے پیچھے پیچھے کھینچنے پر مجبور تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ الٹے قدموں اپنے گھٹنوں اور ہاتھوں پر ٹامی کے پیچھے پیچھے رینگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
سیما: ٹامی ۔۔۔۔۔۔ ٹامی ۔۔۔۔۔۔ پلیز سٹاپ ۔۔۔۔۔۔ رک جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر ٹامی کہاں سن رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ تو اسے گھسیٹتا ہوا لاؤنج میں لے آیا تھا ۔۔۔۔۔ اور اب بیچ لاؤنج میں کھڑا ہوا ہانپ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔۔ سیما تو خوف کے مارے سن ہو کر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ سوچ سوچ کر ہی مری جا رہی تھی کہ اگر کسی نے اسے اس طرح کتے کے ساتھ دیکھ لیا تو وہ تو کبھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہی نہیں رہے گی ۔۔۔۔ اسکے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ایک بار پھر سے کوشش کی کے ٹامی کا لنڈ اسکی چوت سے باہر نکل آئے مگر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باہر سے خانساماں کی آواز آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بی بی جی ۔۔۔۔۔ کھولیں دروازہ ۔۔۔۔۔ کھانا بنانے کا وقت ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

سیما خوف سے بھری ہوئی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر کے بعد آنا ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی میں مصروف ہوں ۔۔۔۔۔۔
خانساماں ۔۔۔ جی مالکن کہہ کر واپس چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اسے کیا پتہ تھا کہ اسکی مالکن اندر کس کام میں مصروف ہے ۔۔۔۔۔ اسے کیا معلوم تھا کے اندر اسکی مالکن اپنے کتے سے چد رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے جانے کے بعد سیما نے کچھ سکون کا سانس لیا ۔۔۔۔

کوئی پندرہ منٹ کے بعد ٹامی کا لنڈ اسکی چوت سے باہر نکلا ۔۔۔۔۔ اس نے فورا'' ہی سیما کی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ اپنی منی اور سیما کی چوت کے پانی کو چاٹ کر صاف کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اور سیما نیچے سر جھکاے ۔۔۔۔
 
Active member
780
397
63
پانچویں قسط
کوئی پندرہ منٹ کے بعد ٹامی کا لنڈ اسکی چوت سے باہر نکلا ۔۔۔۔۔ اس نے فورا'' ہی سیما کی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ اپنی منی اور سیما کی چوت کے پانی کو چاٹ کر صاف کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اور سیما نیچے سر جھکاے ۔۔۔۔ ایک کتیا کی طرح اسکے سامنے جھکی رہی ۔۔۔۔ اور پھر اس نے کروٹ لی ۔۔۔۔ اور کارپٹ پر ہی سیدھی ہو کر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی کی طرف دیکھتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیرانی ۔۔۔ اور شرم سے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اچانک ہی اسکی زور دار ہنسی چھوٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ قہقہے لگا کر زور زور سے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہہاہاہہاہاہاہہاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہہاہاہاہاہہہہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناٹ بیڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کے منہ سے ہنسی کے بعد یہی الفاظ نکلے ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور ٹامی کے سر کو سہلا کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑی ۔۔۔۔۔۔۔ دوبارہ سے نہانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کو جمال آیا تو تھوڑی دیر کے لیے وہ واک کرنے کے لیے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی کو بھی ساتھ لے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما بھی روز انکے ساتھ جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر آج اسکا دل نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ کچھ کشمکش میں تھی کہ یہ سب کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ جانتی تھی کہ اسے مزہ آیا ہے ۔۔۔۔۔ اچھا لگا ہے ۔۔۔۔ مگر یہ بات اسکے دل میں چبھ رہی تھی کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ انکے جانے کے بعد وہ لاؤنج میں آئی ۔۔۔۔ چائے پی رہی تھی کہ اسکی نظر ایک کونے میں لگے ہوئے ٹامی کے بستر کی طرف گئی ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر تک اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔ اور پھر اٹھ کر ٹامی کے بستر کے پاس آگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ چار فٹ لمبائی کا ایک روئی سے بھرا ہوا ایک گدا تھا ۔۔۔۔۔۔ بہت ہی نرم سا ۔۔۔۔۔ جو کہ ٹامی کے بستر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔ سیما اسکے بستر کے قریب بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اپنا ہاتھ آہستہ آہستہ ٹامی کے بستر پر پھیرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے سہلانے لگی ۔۔۔۔۔۔ اسے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہلی ۔۔۔۔ اور پھر ٹامی کے بستر پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ اسے ٹامی کے بستر پر بیٹھنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ دھیرے دھیرے اس پر ہاتھ پھیرتی ہوئی وہ ٹامی کے بستر پر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ اپنا چہرہ اس نرم نرم بستر پر پھیرنے لگی ۔۔۔۔۔ اپنی ناک اس پر رگڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بستر میں سے عجیب سی بو آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ جانور کے جسم کی ۔۔۔۔۔ مگر سیما کو بری نہیں بلکہ اچھی لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ بس اپنا چہرہ اس پر رگڑتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنا ننگا جسم اس پر سہلائے ۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے بنا کچھ سوچے ۔۔۔۔ اپنی شرٹ کو نیچے سے پکڑ کر اوپر اٹھایا ۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک ہی لمحہ میں اپنے جسم سے الگ کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ننگی ہو کر کتے کے بستر پر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔ اپنا ننگا گورا گورا ۔۔۔۔ چکنا چکنا جسم اس نرم نرم بستر پر رگڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نرم نرم ریشمی بستر کے نرم نرم ریشمی جسم کے ساتھ رگڑنے سے اسے بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اب پھر سے اپنے گالوں کو اس بستر سے رگڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کیے ہوئے ۔۔۔۔۔ جیسے وہ اس کتے کو اپنا سب کچھ تسلیم کر چکی ہو ۔۔۔۔۔۔ مان چکی ہو ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر میں بیل ہوئی تو سیما جیسے ہوش میں واپس آئی ۔۔۔۔۔ جلدی سے اٹھ کر شرٹ پہنی اور مسکراتی ہوئی دروازہ کھولنے کے لیے چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔

پھردونوں بیٹھ کر کھانا کھانےلگے ۔۔۔۔۔۔ ٹامی بھی حسب معمول انکے ساتھ ہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھانے کے بعد دونوں لاؤنج میں ہی بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ٹامی بھی سیما کے پیروں میں ہی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمال خان اس سے دور دوسری طرف تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سیما اپنا پیر ٹامی کے جسم پر پھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اسکے سر پر اپنا پاؤں پھیرتی ۔۔۔۔ اور کبھی اسکے پیٹ کو اپنے پیر سے سہلانے لگتی ۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اسکا پیر خود بخود ہی ٹامی کے پیٹ کے نیچے کی طرف جانے لگا ۔۔۔۔۔ جمال خان اگر اسکی طرف دیکھتا بھی تو اسے پتہ نہ چلتا کہ وہ کیا کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے اپنا پاؤں ٹامی کے لنڈ والے حصے کی طرف بڑھانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اپنے پیروں کی انگلیوں سے اسکے لنڈ کو سہلانا شروع کر دیا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ٹامی نے فورا'' اپنا سر اوپر اٹھایا اور سیما کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کے ہونٹوں پر کھیلنے والی مسکراہٹ کو دیکھ کر اس نے دوبارہ سے اپنا سر نیچے رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ٹامی کا لن جو کہ ابھی تک اسکی کھال کے اندر ہی تھا ۔۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اسکی کھال سے باہر نکلنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اسکے سرخ سرخ لنڈ کی اگلی نوک اور اگلا آدھا حصہ اسکی کھال سے باہر تھے ۔۔۔۔۔ اور اسے دیکھتے ہی سیما کھل اٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لنڈ کو دیکھتے ہوئے اسے یاد آنے لگا کہ کیسے اس لن نے اسکی چوت کے اندر داخل ہو کر اسے مزہ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کیسے ٹامی اپنے لن کو اسکی نازک سی چوت کے اندر باہر کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے وہ دھنا دھن دھکے مار رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کبھی ٹامی کے لنڈ کو دیکھتی اور کبھی اسکے منہ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کو ٹامی پر کوئی غصہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ جو مزہ اور جو لذت ٹامی نے اسے دی تھی ۔۔۔۔۔ اسکے بعد تو وہ اسکی دیوانی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی کے لیے اسکی محبت اور چاہت بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکی محبت کا انداز بھی بدل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سیما کے پیر کی انگلیاں ٹامی کے چکنے چکنے سرخ رنگ کے لن کو سہلا رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے اسکے لن کو اپنے پیر کے انگوٹھے اور انگلی کے بیچ میں لیا اور اپنے پیر کو اسکے لن پر اوپر سے نیچے کو سہلانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کہ وہ ٹامی کے لن کی مٹھ مار رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ اسکے لن پر اپنی انگلیوں کا دباؤ ڈالتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔

ٹامی نے اپنا سر موڑ کر اپنے لن کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ اپنا منہ سیما کے دوسرے پیر پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ جو اسکے قریب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی زبان سے سیما کے پاؤں کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کو بھی اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ ٹامی نے اپنا منہ کھول کر سیما کے گورے گورے نازک پیر کو اپنے دانتوں کے اندر لیا ۔۔۔۔۔ اور اسے آہستہ آہستہ دبانےلگا ۔۔۔۔۔۔ کاٹنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے نوکیلے دانت سیما کے پیر میں اوپر اور نیچے سے دھنس رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ اور سیما کو ہلکاہلکا لذت آمیز درد ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کے چہرے پر لذت کے سائے لہرانے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار جب ٹامی نے تھوڑا زور سے اسکے پیر کو اپنے دانتوں سے دبایا تو سیما کے منہ سے سسکاری نکل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ اسے سن کر جمال خان نے چونک کر سیما کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔ تو اسے سیما کا پیر ٹامی کے منہ کہ اندر نظر آیا ۔۔۔۔۔۔ وہ خوفزدہ ہو گیا ۔۔۔

جمال : سیما ۔۔۔۔۔۔ سیما ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہا ہے ٹامی ۔۔۔۔۔۔ ہٹاؤ اسے ۔۔۔۔
سیمامسکرائی : ڈونٹ وری ڈارلنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں کہتا ٹامی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو بس لاڈ کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ جسٹ ریلیکس ڈیئر۔۔۔۔۔۔۔
جمال خان بھی دیکھنے لگا کہ ٹامی بس اسکے پیر کو اپنے دانتوں کے اندر لیتا ہے ۔۔۔۔۔ اور پھر اپنے منہ سے اسکا پیر نکال کر اسے چاٹنے لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کہ وہ اسکے پیر سے کھیل رہا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جمال کو بھی تسلی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی فکر ختم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکرایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے یار یہ تو تمھارے پاؤں سے کھیل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ سیما بھی مسکرا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جمال دوبارہ سے ٹی وی دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادھر سیما کا پیر ٹامی کے لن سے پیچھے کو جانے لگا ۔۔۔۔۔۔ اسکی ران کو سہلاتے ہوئے ۔۔۔۔ اسے اسکی دم کے نیچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی گانڈ کے سوراخ کے نیچے ٹامی کے ٹٹے لٹکتے ہوئے نظر آئے ۔۔۔۔۔۔۔ کالے کالے سے ۔۔۔۔۔ گول گول سے ۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے ایک نظر جمال خان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اور پھر اپنے پیر کو انگوٹھے سے اسکے ٹٹوں کو سہلانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے شوہر جمال کے موٹے موٹے اور بڑے بڑے ٹٹے تو وہ سہلا ہی چکی تھی کئی بار ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ان چھوٹے سائز کے بالز کے ساتھ کھیلنا بھی سیما کو اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے پیرکے ساتھ ان سے کھیل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ساتھ ہی وہ سوچنے لگی کہ ان ٹٹوں کے اندر بننے والی منی کو بھی وہ ٹیسٹ کر چکی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے یہ ماننے میں کوئی عار یا شرم نہیں تھی کہ اسے ٹامی ۔۔۔۔۔ اپنے کتے کے لن کی منی کی اپنے منہ میں اچھی لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اسکا ذائقہ اسے پسند آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنےمیں جمال خان کے موبائل پر کوئی کال آئی ۔۔۔۔۔ وہ اسے اٹینڈ کرکے سنتا ہوا۔۔۔۔ لاؤنج سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔ باہر لان میں ۔۔۔۔۔ جمال کے جاتے ہی ٹامی نے اپنی جگہ سے اٹھ کر چھلانگ لگائی ۔۔۔۔ اور صوفے پر چڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور سیما کے چہرے کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما اسکی اس حرکت پر ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔ اسے اس بات کی خوشی بھی ہوئی تھی اور تسلی بھی کہٹامی نے اسکے شوہر کے سامنے اسکے ساتھ کچھ بھی غلط کرنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی اسکے گالوں اور ہونٹوں کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ بار بار اپنی زبان کہ اوپر نیچے کو لاتا ہوا اسکے چہرے کو چاٹتا ۔۔۔۔۔ اسکے ہونٹوں کو چاٹتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے بھی اپنی زبان باہر نکالی ۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی زبان کو ٹامی کی زبان سے ٹکرانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کی زبان ٹامی کی زبان سے ٹکرانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت لڑکی کی زبان ایک کتے کی زبان کو چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی زبانوں کو چاٹ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ کتے کے منہ سے اسکا تھوک سیما کے منہ کے اندر جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ مگر سیما اسکا کچھ بھی برا سمجھے بنا اپنے اندر نگلتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ٹامی کی زبان کو چاٹتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ جیسے وہ کوئی نیچ جانور نہیں بلکہ اسکا محبوب ہو۔۔۔۔۔۔ اور وہ اسکی محبوبہ ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے وہ اسکا بوائے فرئینڈ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اسکی گرل فرئنڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔جیسےوہ اسکاعاشق ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اسکی معشوقہ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ جیسے وہ ایک کتا ہے تو ۔۔۔۔۔۔ تو وہ اسکی کتیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ دونوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ صرف سیما ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ بھول بھال کر ٹامی کو پیار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سیما نے ٹامی کے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے خود سے پیچھے کیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور صوفے سے اترنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی خاموشی سے صوفے پر سے اترا ۔۔۔۔ اور کمرے کے ایک کونے میں موجود اپنے چھوٹے سے بستر پر چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سونے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

رات کو جمال خان اسکے پاس آیا ۔۔۔۔ اور اس رات اس نے بھی سیما کو چودا ۔۔۔۔۔۔۔ مگر سیما محسوس کر رہی تھی کہ اسے جو مزہ آج ٹامی کے لن سے چدوانے میں آیا تھا وہ اسے آج جمال کے ساتھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی ۔۔۔۔۔۔ جمال خان کا لن اپنی چوت میں لینے کے باوجود بھی ۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کیے ٹامی کا ۔۔۔۔ ایک کتے کا تصور ہی کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ اسے چودرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اس کتے کے لن کے مزے لے رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی کو ہی یاد کرتے ہوئے سیما کی چوت نے پانی چھوڑا ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کافی دیر کے بعد دونوں سو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما اگلے دن ایک بار پھر ٹامی کے لن کا مزہ لینے کا سوچتی ہوئی نیند کی وادیوں میں چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے تسلی تھی کہ اب اسے اپنی تنہائیوں کا ساتھی مل چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی تنہائیوں کو رنگین کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا دل ابھی بھی یہی چاہ رہا تھا کہ وہ جا کر کتے کے ساتھ اسکے نرم نرم بستر پر لیٹ جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر پھر خود پر جبر کر کے سو ہی گئی ۔۔
 
Active member
780
397
63
چھٹی قسط
دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ( بات چیت تو انکی انگریزی میں ہوئی تھی ۔۔۔ مگرانکی گفتگو یہاں پر اردو میں لکھ رہا ہوں )
جولی : ہیلو ۔۔۔ کیسی ہو سیما ۔۔۔
سیما: میں ٹھیک ٹھاک ہوں ۔۔۔۔ اور آپ ۔۔؟؟؟
جولی : ہم بھی ٹھیک ہیں ۔۔۔۔ اور وہ اپنے ٹامی کا سناؤ ۔۔۔ وہ کیسا ہے ۔۔۔۔۔
سیما: ہاں وہ بھی ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کچھ کہتے کہتے رک گئی ۔۔۔۔۔۔
جولی کی ہنسی کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔ کیا کیا ہے ٹامی نے ۔۔۔۔۔
سیما گھبرا کر بولی ۔۔۔۔ ک ک کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
جولی کی پھر آواز آئی ۔۔۔۔ کہیں اس ٹامی نے تم کو چود تو نہیں دیا ۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا
سیما بری طرح سے گھبرا گئی ہوئی تھی ۔۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔۔ وہ بھلا کیوں مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جولی ہنسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔ وہ میں اس لیے کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔۔ بڑا ہی کمینہ ہے یہ کتا ۔۔۔۔ یہ تو یہاں مجھے بھی چودتا رہا ہے ۔۔۔۔ اس لیے میں تو کہہ رہی تھی ۔۔۔۔
سیما کے منہ سے فورا'' ہی نکلا ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کو بھی ۔۔۔۔۔۔
جولی ہنسی ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مجھے تو روز ہی چودتا تھا یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب اسکا بھائی اکیلا ۔۔۔۔۔۔ ویسے ایک بات ہے کہ مزہ خوب آتا ہے اس سے چدوانے سے ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں ہے نہ ایسی بات ۔۔۔۔
سیما: ہاں ۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ مجھے کیا پتہ ۔۔۔۔۔۔ سیما گھبرا رہی تھی ۔۔۔۔
جولی : ارے یار مجھ سے چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔ بس کرتی رہو اسکے ساتھ اور انجوائے کرو خوب ۔۔۔۔۔
سیما: لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جولی: ارے لیکن ویکن کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔ بس مزے لو ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا ۔۔۔۔۔
سیما: اوکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بائے ۔۔۔۔۔ پھر بات کریں گے ۔۔۔۔
سیما نے فون بند کر دیا ۔۔۔۔۔۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔۔ مگر جولی سے باتیں کر کے اور یہ جان کر اسے کافی سکون ملا تھا کہ وہ اکیلی نہیں ہے ۔۔۔ کسی اور نے بھی ٹامی کے ساتھ چدائی کی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ جان کر اسکے چہرے پر سکون والی مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔۔
اب ۔۔۔ سیما کا انداز ہی کچھ الگ تھا ۔۔۔۔۔ وہ کچھ الگ ہی سوچ میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے شوہر جمال خان کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے بھی وہ پاس ہی زمیں پر بیٹھے ہوئے ٹامی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ جمال اپنے ناشتے میں مگن تھا ۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ اپنی حسین و جمیل بیوی سے باتیں بھی کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس بیچارے کو کیا پتہ تھا کہ اسکی ایسی خوبصورت بیوی ۔۔۔۔ ایک کتے سے چدوا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں جمال خان نے ناشتہ کیا اور اپنے دفتر چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ جمال کے جاتے ہی سیما نے گھر کا اندر کا دروازہ لاک کیا ۔۔۔۔ اور اپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔۔۔ اس وقت بھی ٹامی دروازے کے قریب ہی کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ اندر آنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر سیما نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے دروازہ بند کر لیا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور کمرے کی بھی اندر سے کنڈی لگا لی ۔۔۔۔۔۔ تا کہ ٹامی اندر نہ آسکے۔۔۔۔۔ شائد آج وہ اپنے اس محبوب کو کچھ تڑپانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اندر کمرے میں آکر ۔۔۔۔ سیما نے اپنے بدن پر پہنا ہوا نائٹ گاؤن اتار کر بیڈ پر پھینک دیا ۔۔۔۔۔ اور ننگی ۔۔۔۔۔ بلکل ننگی حالت میں آئینے کے سامنے بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ ہلکا ہلکا گنگناتے ہوئے میک اپ کرنے لگی ۔۔۔۔۔ خود کو بنانے سنوارنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اسکے دل کی حالت بھی عجیب سی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ سوچ کر کہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جیسی خوبصورت اور جوان لڑکی ۔۔۔۔۔ ۔۔ ایک کتے کو اپنا محبوب مانتی ہوئی اسکے لیے تیا ر ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے چدنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکو سکون پہنچانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے جسم سے اپنے جسم کو سکون دینے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ سب کچھ سوچتے ہوئے بھی اسے برا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک مسکراہٹ تھی جو اسکے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میک اپ کر کے ۔۔۔۔۔ اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگا کر ۔۔۔۔ تیار ہوئی اور خود کو آئینہ میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اپنی تیاری ۔۔۔۔ اور اپنی خوبصورتی کو دیکھ کر وہ خود بھی شرما گئی ۔۔۔۔۔

اب مرحلہ تھا کپڑوں کا ۔۔۔۔ وہ سوچنے لگی کہ کیا پہنے ۔۔۔۔۔۔۔ سوچتے سوچتے اسے خیال آیا کہ کیوں نہ آج وہ بھی ٹامی کے جیسے ہی رہے ۔۔۔۔۔۔ خود کو ٹامی کے سامنے اسی کے جیسی ہی بن کر پیش کرے ۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی اس نے کچھ بھی پہننے کا ارادہ ترک کر دیا ۔۔۔۔۔ اور اپنے ننگے وجود کو آئینے میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اسکے خوبصورت گورے گورے ممے تنے ہوئے تھے ۔۔۔۔ انکے آگے گلابی نپل اکڑے ہوئے قیامت ڈھا رہے تھے ۔۔۔۔۔ چوت گوری گوری ۔۔۔ گلابی چوت ۔۔۔۔ بالوں سے بلکل پاک ۔۔۔۔ ہولے ہولے رس رہی تھی ۔۔۔۔ چُدنے کے لیے پوری طرح سے تیا ر تھی ۔۔۔۔۔ ایک کتے کے لن کو اپنے اندر لینے کے لیے بلکل تیا ر ۔۔۔۔۔۔ خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے اسے کچھ خیال آیا ۔۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی اسے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ آئینے کے سامنے سے اٹھی ۔۔۔۔۔۔ اور ایک طرف بنی ہوئی الماری کی طرف بڑھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے سب سے نچلے حصے میں سے کچھ نکال کر واپس آئینے کے سامنے آگئی ۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے اپنی گوری گوری گردن میں پہننے لگی ۔۔۔۔۔۔ اسکے ہکس بند کیے ۔۔۔۔ اور خود کو دوبارہ آئینے میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی کی گردن کا پٹہ ۔۔۔۔۔ جو اسکے گلے سے اتار دیا گیا ہوا تھا ۔۔۔ اب سیما کے گلے کے گرد لپٹا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے اسے اپنی گردن کے گرد ٹائٹ کر کے باندھ لیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب خود کو اس پٹے کے ساتھ دیکھ کر اسکے چہرے پر شرم کے لال گلابی رنگ پھیل گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوری کی پوری کتیا لگ رہی ہو اب تو تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما خود سے بولی ۔۔۔۔ اور ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تو جب ایک کتے سے پیار کروں گی ۔۔۔۔ اس سے چدواؤں گی ۔۔۔۔ تو کتیا تو بننا ہی پڑے گا نا ۔۔۔۔۔۔ سیما نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا ۔۔۔۔۔ اور پھر کمرے سے باہر جانے کے لیے بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔
 
Active member
780
397
63
آخری قسط
دروازہ کھول کر سیما باہر نکلی ۔۔۔۔۔ ٹی وی لاؤنج میں ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔۔۔ ٹامی کو ۔۔۔۔۔ ٹامی لاؤنج کے کونے میں رکھے ہوئے اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ سیما نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔۔ ٹامی نے بھی بڑی ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔ اب اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے اسکی نظر سیما پر ہی تھی ۔۔۔۔۔ سیما نے ایک عجیب حرکت کی ۔۔۔۔۔ وہ نیچے جھکی ۔۔۔۔ اور کارپٹ پر اپنے گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ اور اب اپنے گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل ہی چلتی ہوئی ۔۔۔۔۔ ننگی ہی چلتی ہوئی ۔۔۔۔۔ ٹامی کے بستر کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔۔۔ ٹامی کے ۔۔۔۔ ایک کتے کے ۔۔۔ بستر کی زینت بننے کے لیے ۔۔۔۔ سیما نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر ٹامی ایک جانور ہو کر اسے اسقدر مزہ دے رہا ہے تو وہ بھی اسی کے جیسی ہو کر ۔۔۔۔۔ ایک جانور کی طرح ۔۔۔۔ ایک کتیا کی طرح ۔۔۔ خود کو اسے پیش کرے گی ۔۔۔۔۔۔ اپنا جسم اسے پیش کرے گی ۔۔۔۔ اور اسے پورا پورا مزہ دے گی ۔۔۔ اسی لیے وہ گلے میں پٹہ ڈالے ۔۔۔۔ بلکل ننگی حالت میں گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی ٹامی کے قریب جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

ٹامی کے پاس جا کر وہ ٹامی کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ وہ بھی اپنی جگہ پر ہی لیٹا ہوا اپنی مالکن کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سیما آگے بڑھ کر اسکے گدے پر چڑھ گئی ۔۔۔۔ اور آگے جھک کر ٹامی کے چہرے کے ساتھ اپنا چہرہ رگڑنے لگی ۔۔۔۔ اس نے ٹامی کے منہ کو چومنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی ۔۔۔ اور اسکے کالے ہونٹوں والے حصے کو چاٹنے لگی ۔۔۔۔ ٹامی نے بھی اپنی زبان باہر نکالی ۔۔۔۔ اور سیما کے منہ کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔ سیما کو اپنائیت کا احساس ہوا ۔۔۔۔ اس نے بھی فورا'' اپنی زبان سے ٹامی کی زبان کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کی زبانیں ۔۔۔۔ سیما اور ٹامی کی زبانیں ۔۔۔۔۔ ایک انسان اور ایک جانور کی زبانیں ۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت حسین لڑکی اور ایک کتے کی زبان ۔۔۔۔۔ ایک دوسری سے ٹکرا رہی تھیں ۔۔۔۔ ۔۔۔ ایک دوسری کو چاٹ رہی تھیں ۔۔۔۔ دونوں کا تھوک آپس میں مل رہا تھا ۔۔۔۔۔ سیما نے دونوں ہاتھوں میں اسکا منہ پکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ اور اپنی زبان کو اسکی زبان سے ٹکرا رہی تھی ۔۔۔۔۔ ۔۔ اسے چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔ پھر سیما نے آگے بڑھ کر اپنی ایک سائیڈ کو لیٹتے ہوئی ۔۔۔۔۔ اپنا جسم ٹامی کے جسم سے لگا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کا گور ا گورا چکنا ۔۔۔۔ننگا جسم ۔۔۔۔ ٹامی کی کھال کی نرم نرم فر سے رگڑنے لگا ۔۔۔۔ سیما کو بھی مزہ آرہا تھا ۔۔۔۔۔ اسے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ اپنے جسم کو ٹامی کے جسم کے ساتھ گھستی ہوئی ۔۔۔۔۔ مزہ لینے لگی ۔۔۔۔۔ ساتھ ساتھ ہی اب اس نے ٹامی کے جسم کو ۔۔۔۔۔ اسکی کھال کو چومنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اسکی کمر کے اوپر سے ۔۔۔۔۔۔ اور کبھی پیٹ پر سے ۔۔۔۔۔۔۔ تو کبھی اسکی گردن پر سے ۔۔۔۔۔۔ اپنے ہونٹوں کو اس جانور کے جسم سے رگڑنے میں سیما کو مزہ آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسکا ہاتھ بھی ٹامی کے جسم کو سہلا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

سیما ٹامی کو اپنی جگہ سے کھڑا کرنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ تاکہ وہ اسے پیار کرے ۔۔۔۔۔ اسے چودے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر ٹامی ابھی ابھی اپنی جگہ پر ہی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ سیما اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔ اور اسکے گدے پر ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے آگے پیچھے پھرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اسکے پیچھے جاتی ۔۔۔۔۔ کبھی اسکے سامنے آجاتی ۔۔۔۔۔۔ پھر اپنی خوبصورت گانڈ کو اسکے سامنے لہرانے لگتی ۔۔۔۔۔ مگر ٹامی ابھی بھی سستی کے ساتھ اسکے سامنے لیٹا ہواتھا ۔۔۔۔ کبھی کبھی جب سیما اپنی گانڈ کو ٹامی کے منہ کے بلکل ساتھ لگاتی تو وہ ایک دہ بار اسکی گانڈ کو چاٹ لیتا اپنی زبان سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سے نیچے اپنے سامنے پڑے ہوئے بسکٹ کھانے لگتا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے سامنے کافی سارے بسکٹ پڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔ جو تھوڑی دیر پہلے سیما اسکے لیے ڈال کے گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ کچھ ان میں سے ٹامی نے کھا لیے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ کچھ آدھے کترے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔ کچھ منہ سے نکالے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ جن پر اسکا تھوک بھی لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ قریب ہی ایک کھلے سے برتن میں ٹامی کے لیے دودھ پڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے برتن میں ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ سوچ کر سیما مسکرائی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر نیچے کو جھک کر ۔۔۔۔۔۔ ٹامی کے آگے سے بسکٹ اپنے منہ سے اٹھا کر کھانے لگی ۔۔۔۔۔۔ ٹامی نے اسے دیکھا تو ایک بسکٹ اپنے منہ میں ڈالا اور پھر اسے باہر نکال دیا ۔۔۔۔۔۔ سیما نے فورا'' ہی اسے اپنے ہونٹوں سے اپنے منہ میں لیا اور ٹامی کی طرف دیکھتی ہوئی کھانے لگی ۔۔۔۔۔۔ چبانے لگی ۔۔۔۔۔۔ اسے بڑا ہی عجیب لگ رہا تھا کہ وہ ایک کتے کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی چیز خود کھا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج سے چند دن پہلے تک تو وہ ایسا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔ مگر اب وہ یہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے پورے ہوش و ہواس کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی مرضی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔

آخر کچھ دیر کے بعد ٹامی اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔۔۔ اور گدے سے نیچے پڑے ہوئے بڑے سے برتن میں ڈالے ہوئے دودھ میں منہ مارنے لگا ۔۔۔۔۔ اپنی زبان اندر ڈال کر ۔۔۔۔۔۔ لپ لپ کرتا ہوا دودھ پینے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما بھی اپنے گھٹنوں کے بل فورا'' آگے بڑھی ۔۔۔۔۔ اور خود بھی اپنا منہ نیچے کر کے اسی برتن میں ڈال دیا ۔۔۔۔ اور اپنی زبان نکال کر ۔۔۔۔۔۔ کتے کے برتن میں سے ہی دودھ چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اسے خود پہ ہنسی بھی آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ ایک انسان ہو کر جانور کی طرح برتن میں سے دودھ پی رہی ہے ۔۔۔۔۔ اور مالکن ہوتے ہوئے بھی اپنے کتے کے برتن میں سے اسکا جھوٹا دودھ پی رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی زبان کے ساتھ چاٹی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کتے نے پیا ہے تو کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔ اسکے ذائقے میں تو کچھ فرق نہیں آیا نا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ہم اپنی جھوٹی چیزیں اسے دے سکتے ہیں تو ہمیں اسکا جھوٹا کھانے میں اور پینے میں کیا حرج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دوسرے کا جھوٹا کھانے سے ہی تو آپس کا پیار بڑھتا ہے نا ۔۔۔۔۔ سیما مسکرائی ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔اسے اپنی انہی باتوں اور حرکتوں کے ساتھ اسے اپنی چوت بھی گیلی ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔سیما نے اپنی ایک انگلی نیچے لے جا کر اپنی چوت کے اندر ڈالی اور اپنی چوت کے اندر باہر کیا تو اسے اپنی چوت کا گاڑھا پانی اپنی انگلی پر محسوس ہوا ۔۔۔۔۔۔ سیما نے اپنی انگلی واپس لا کر اپنے منہ میں ڈال کر اپنی ہی چوت کا پانی چاٹ لیا ۔۔۔۔۔۔۔ اب سیما دوبارہ سے گھوم کر ٹامی کے پیچھے آئی ۔۔۔۔۔۔ اسکی کمر کو چومنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی دم کے نیچے اسکے گول گول کالے ٹٹے لٹک رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے اپنے ہاتھوں سے انکا سہلانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی نے دودھ کو چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔ مڑ کر سیما کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اور پھر سے اپنا منہ آگے کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیما نے ٹامی کی کمر کو چوما ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اپنے ہونٹ ٹامی کے کالے کالے ٹٹوں پر رکھ کر انکو چومنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اپنی گلابی زبان باہر نکالی اور ان کالی کالی گیندوں کو اپنی زبان سے چھیڑنے اور انکو چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے منہ سے ان پر تھوک گرایا ۔۔۔۔ اور اپنی زبان سے اسے ان پر ملنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انکو باری باری منہ میں لے کر چوسنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑا ہی اچھا لگ رہا تھا اسے ۔۔۔۔۔ انکو چاٹنا ۔۔۔۔۔۔ انکو چوسنا ۔۔۔۔۔۔۔ الگ ہی مزہ آ رہا تھا سیما کو ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ایک خوبصورت حسین لڑکی ۔۔۔۔ ایک کتے کے پیچھے جھکی ہوئی اپنے گلابی گلابی ہونٹوں کے ساتھ ۔۔۔۔ اس کتے کے کالے کالے ٹٹوں کو اپنے منہ میں لے کر چوس رہی تھی ۔۔۔۔۔ اور اپنے منہ کے اندر ہی رکھتے ہوئے ان پر زبان بھی پھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے پتہ نہیں کتنی مزے کے چیز اسکے منہ کے اندر ہو ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ سیما کی نظر ٹامی کے لنڈ پر پڑی جو اب آہستہ آہستہ اسکی کھال سے باہر نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے اسکی گولیوں کو چوستے اور چاٹتے ہوئے ۔۔۔۔۔ اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اسکے لن کو پکڑ لیا ۔۔۔ اور اسے اپنی مٹھی میں لے کر سہلانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مٹھی میں لے آگے پیچے کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ٹامی بھی مستی میں آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے اب آگے کو جا کر ٹامی کا لن اپنے منہ میں لیا ۔۔۔۔۔۔ اور اسے چوسنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اپنی زبان سے چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ منہ میں لے کر اندر باہر کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزے لیتی ہوئی ۔۔۔۔۔ انجوائے کرتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹامی بھی اب فل مستی میں آچکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اپنا لن سیما کے منہ سے چھڑوا کر سیما کے پیچے لپکا ۔۔۔۔ اور اسکی گانڈ کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔۔ سیما نے اپنا سر نیچے کو کیا ۔۔۔۔ اور اپنی گانڈ کو اوپر کو اٹھاتے ہوئے اپنی چوت کو ٹامی کے سامنے کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی نے بھی فورا'' اسکی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی زبان سیما کی چوت کے اندر تک جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ نیچے سے اوپر تک چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سیما آنکھیں بند کیے لذت کی وادیوں میں دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اچانک ہی ٹامی نے سیما پر حملہ کیا ۔۔۔۔۔ اور اسکے اوپر چڑھ کر گھسے مارنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اسکا اکڑا ہوا لن سیما کی گانڈ اور اسکی رانوں سے رگڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ گھس رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سیما اب ہنس رہی تھی ٹامی کی حالت پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر پھلے تک وہ جو آرام سے لیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ اب اپنا لن اسکی چوت میں ڈالنے کے لیے بے چین ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور سیما بھی اپنے کتے کے بستر پر اس سے چدنے کے لیے پوری طرح سے راضی اور تیار تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ پیچھے لے جاکر اپنی رانوں کے بیچ میں سے ٹامی کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے اپنی چوت کے سوراخ پر ٹکا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خود بھی تو اب زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے ٹامی کا لن اپنی چوت کے سوراخ پر رکھا ۔۔۔۔۔۔ تو ٹامی نے ایک ہی دھکے کے ساتھ ہی اپنا لن سیما کی چوت میں داخل کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک زور دار سسکاری کے ساتھ سیما تڑپ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کو آگے کو گرنے سے سنبھالا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اپنی گانڈ کو اوپر کو اٹھاتی ہوئی اپنی چوت کو پیچھے کو ۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی کے لن کی طرف دھکیلنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی کا لن بھی سیما کی چوت میں اندر باہر ہوتا ہوا اسے چود رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتے نے اپنی مالکن کو چودنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسے بھی اب یقین ہو گیا تھا کہ اسکی مالکن اسکی کتیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے وہ جیسے چاہے چود سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے دھکوں میں تیزی آتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر دھکے کے ساتھ ٹامی کا لن سیما کی چوت میں گہرائیوں تک جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سیما ہر ہر دھکے کے ساتھ کراہتی ہوئی آگے کو گرنے لگتی ۔۔۔۔۔۔ جس سے ٹامی کا لن پھسل جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس چیز کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹامی نے اپنے اگلے دونوں پیر سیما کے کاندھوں پر رکھے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنا منہ آگے لا کر سیما کے گلے میں بندھا ہوا اسکا پٹا اپنے اگلے دانتوں میں لے لیا ۔۔۔۔۔۔ اور سیما کو اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی پیچھے سے زور زور کے دھکے مارتا ہوا اپنا لن جڑ تک سیما کی چوت میں داخل کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کا لذت کے مارے برا حال ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ مگر اسکے ساتھ ساتھ اسے اپنی چوت میں درد بھی کافی ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی اب وہ بے بسی کے ساتھ ٹامی کی گرفت میں جھکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے چدوا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اسکی چوت نے ایک بار پانی چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر میں ٹامی کی گرفت ڈھیلی ہوئی ۔۔۔۔۔۔ اس نے سیما کے گلے میں ڈلا ہوا پٹہ اپنے منہ سے نکالا ۔۔۔۔۔۔۔ تو سیما اچانک سے اسکے نیچے سے نکل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے گھٹنوں اور ہاتھوں پر ہی بھاگتی ہوئی صوفے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی بھلا اپنی کتیا کو کیسے چھوڑ سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ فورا'' ہی اسکے پیچھے پیچھے لپکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہنستی ہوئی سیما صوفے پر پہنچی ۔۔۔۔ اور وہاں سیدھی ہو کر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔ اپنی ٹانگوں کو کھولا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی چوت ایک بار پھر ٹامی کے آگے کر دی ۔۔۔۔۔۔ ٹامی نے آتے ساتھ ہی سیما کی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی لمبی زبان کے ساتھ اوپر سے نیچے تک اسکی چوت کو چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ایک بار پھر ٹامی نے اوپر کو چھلانگ لگائی ۔۔۔۔ اپنے اگلے پیروں کو سیما کی کمر کی سائیڈز پر ۔۔۔۔۔۔ صوفے کے اوپر رکھا ۔۔۔۔۔ اور سیما کے تقریبا'' اوپر ہی چڑھ آیا ۔۔۔۔۔۔ اسکا لن نیچے سے سیما کی چوت کے قریب تھا ۔۔۔۔۔۔ اسکی چوت کے اردگرد ٹکرا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر سیما نے ہاتھ بڑھا کر ٹامی کے چکنے لال لال لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے اپنی چوت کے اوپر رگڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی کے موٹے لن کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں رکھ کر اسے اپنی چوت پر رگڑنا بہت ہی مشکل کام تھا سیما کے لے ۔۔۔۔ کیونکہ ٹامی تیزی کے ساتھ دھکے مار رہا تھا ۔۔۔۔۔ اپنا لن اپنی مالکن کی چوت کے اندر داخل کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سیما نے ٹامی کے لن کی نوک کو اپنی چوت کے سوراخ پر ٹکایا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے ۔۔۔۔۔۔ ٹامی کے ایک ہی دھکے کے ساتھ ہی اسکا لنڈ سیما کی چوت کے آخری سرے تک اتر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر اسکے بعد تو دے دھنا دھن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی نے سیما کی چوت کو چودنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکا لن تیزی کے ساتھ سیما کی چوت میں اندر باہر ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سیما بھی اب اپنی آنکھیں بند کر کے اسکے لن کے تیزی کے ساتھ اپنی چوت میں اندر باہر ہونے کی تکلیف کو برداشت کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ میں ہی مزے بھی لے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چند بار ہی ٹامی کا لمبا لن سیما کی چوت کے اندر آخری حد تک ٹکرایا تو سیما کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔ اسکے جسم نے تیز تیز جھٹکے لے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چوت کی دیواروں نے ٹامی کے لن کو بھینچا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی اپنا پانی نکل گیا اسکا ۔۔۔۔۔۔۔۔

سیما کا جسم نڈھال سا ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ڈھیلی پڑ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ٹامی تو ابھی بھی مستی میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ایک کتا ہو کر ۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت لڑکی کی چوت ملنے کا نشہ تھا اس پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بس اسے چودے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے لمبے موٹے لال لن کی نوک سیما کی چوت کے اندر اسکی بچہ دانی سے ٹکرا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اور بھی زور لگا رہا تھا جیسے کہ وہ اپنے لن کو سیما کی بچہ دانی کے اندر داخل کرنا چاہتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی اپنے دونوں پیر سیما کی کمر کے گرد رکھ کے اگلے حصے سے صوفے پہ چڑھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ پورے کا پورا سیما کے نازک جسم کے اوپر تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سیما نے ٹامی کے لن کو اسکے پچھلے حصے کی گولائی کے پیچھے سے پکڑ رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ آج ٹامی اپنے لن کا یہ خطرناک حصہ اسکی چوت کے اندر داخل نہ کر سکے ۔۔۔۔۔۔۔ اور آج بھی وہ کل کی طرح اسکے لن پر ہی پھنسی نہ رہ جائے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ ٹامی کے ارادے تو خطرناک ہی تھے ۔۔۔۔۔۔ آخر تھا تو وہ ایک جانور ہی نا ۔۔۔۔۔ اور وہ بھی ایک وحشی جانور ۔۔۔۔۔ جو کہ ہوس اور سیکس کی آگ میں ۔۔۔۔ اور بھی وحشی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ٹامی وحشی ہی تو ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے دھکوں ۔۔۔۔۔ اسکے گھسوں کی رفتار تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی بھی ایک ہی خواہش تھی نا ۔۔۔۔۔۔۔ کہ اپنے سیکس کی تکمیل کر سکے ۔۔۔۔۔۔ اور وہ تکمیل تو تب ہی ہوسکتی تھی جب اسکا لن پورے کا پورا ۔۔۔۔۔۔ یعنی اسکی گولائی اسکی کتیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی مالکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی سیما کی چوت کے اندر جاکر نہ پھنس جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اسکے بنا تو کتوں کو شائد مزہ ہی نہیں آتا تھا نا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہی حالت ٹامی کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی پوری کوشش تھی کہ اپنا لن سیما کی چوت میں پورے کا پورا ڈال دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے طاقتور دھکوں کی مدد سے آخرکار وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو ہی گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما بھی تو اسکی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی نا زیادہ دیر ۔۔۔۔۔۔۔ آخر اسکا ہاتھ بھی ٹامی کے لن پر سے ہٹ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے ٹامی کا پورا لن ۔۔۔۔۔۔ اپنی پچھلی گولائی سمیت اسکی چوت کے اندر اتر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکی ٹائٹ چوت کے رِنگ نے ٹامی کے لن کو جکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ٹامی کے لن کا اگلا نوکیلا حصہ سیما کی بچہ دانی کا سوراخ پار کرتا ہوا بچہ دانی کے اندرگھس ہی گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تیز چیخ کے ساتھ سیما نے اپنے بازو ٹامی کے نیچے سے اسکے جسم کے گرد لپیٹ لیے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے اپنے جسم کے ساتھ دبا لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے ہی ٹامی کے لن کا اگلا حصہ سیما کی چوت کے اندر داخل ہوا تو ایک بار پھر سیما کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے خود بھی ٹامی کے لن سے ہلکا ہلکا پانی اسکی چوت کے اندر گرتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما کی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔ اور اسکی چوت پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اور وہ ایک بار پھر اپنی منزل کو پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کے بعد سیما کو تھوڑا ہوش آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ ٹامی کے نیچے ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے جسم کے ساتھ لپٹی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔ ٹامی کا لن اسکی چوت کے اندر ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکی تمامتر کوشش کے باوجود بھی ٹامی کے لن کی موٹی گولائی اسکی چوت کے اندر پھنس چکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ساری صورتحال کو سمجھنے کے بعد سیما صرف مسکرا کر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اب اسے کچھ دیر انتظارکرنا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹامی کے فارغ ہونے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔

سیما کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اپنا مزہ لینے کے بعد آخر اسے بھی تو اپنے محبوب کو خوش کرنا تھا نا ۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ اب اسکا سب کچھ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی تنہائیوں کا ساتھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا دوست ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا ٹھوکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شدہ
 

Top