Adultery وہ کیسی ذلت تھی۔پارٹ ون

Newbie
6
2
5
میرا ہاتھ آگے بڑھتا ھی گیا،اسکی رانوں کے اوپر میری انگلیاں رقص کرنے لگیں،لڑکی نے خود کو تھوڑا اور کھڑکی کی طرف گھما لیا جس کی وجہ سے میرا ہاتھ تھوڑا اور آگے سرک گیا اور اب میرے ہاتھ کی آخری پوروں نے اسکی بی شی کو محسوس کرنا شروع کر دیا،واہ آج تو مزہ آگیا۔میں اور سرعت کے ساتھ اپنے ہاتھ کو اسکی ران پہ رگڑنے لگا۔لیکن پھر یکدم میں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیاکیونکہ لڑکی کی حالت بن پانی کے مچھلی کی طرح ھو چکی تھی اسکی سانسیں بالکل بے ترتیب تھیں اوراپنے اردگرد کے ماحول کو بھول کر ایک اور ھی دنیا میں پہنچ چکی تھی اسکے قریب بیٹھی ماں نے بھی اپنی لڑکی کی بے چینی کو محسوس کر لیا تھا۔اور اسی وجہ سے میں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا تھا۔لڑکی کی ماں نے اپنی بیٹی سے کچھ پوچھا اور پھر یکدم اپنی نشست سے کھڑی ہو کر واپس گھومی جب تک میں سنبھلتا ایک زناٹے دار تھپڑ مجھے پڑ چکا تھا۔میں نے فوراً اپنی سیٹ چھوڑی اور دیوانہ وار بس کے دروازے کی طرف لپکا۔لیکن جب تک میں دروازے تک پہنچتا اور کئی لوگوں کے تھپڑ میرے چہرے کے دونوں اطراف اپنے نشان ڈال چکے تھے اور گالیوں سے میری تواضع ھو رھی تھی۔میں دروازے لے پاس پہنچ کر واپس مڑا اور اس دشمن جاں کو دیکھا جو ھونٹوں پہ ایک طنزیہ مسکان لئے مجھے ھی دیکھ رھی تھی۔میں واپس دروازے کی طرف مڑا اور چلتی بس سے باہر چھلانگ لگا دی کچھ لمحوں بعد میں نے خود کو ایک خاردار جھاڑی کے بالکل درمیان پایا گویا بس سے چھلانگ لگانے کے بعد یہ جھاڑی میری منزل بنی تھی۔میں جلدی سے اٹھا اور اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کو ٹٹولنے لگا۔انھیں صیح سلامت پاکر مجھے ایک اطمینان ھوا لیکن بہرحال جھاڑی کے کانٹوں نے مجھے بری طرح مزروب کر دیا تھا میں نے خود کو جھاڑی سے باھر نکالا اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر اپنے جسم میں چبھ جانے والے کانٹوں کو خود سے علیحدہ کرنے لگا۔اوسان بحال ھونے پر مجھے اپنی زلت اور رسوائی کا احساس ھوا ہائے ساری زندگی برے کام کئے لیکن کبھی ایسی ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔کاش زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں دفن ھو جاتا کاش ہائے کاش۔ا
ایک ھارن کی تیز آواز نے مجھے میری سوچوں سے باھر نکال پھینکا۔میں نے ایک موٹر سائیکل سوار کو کہتے سنا بھائی کیا ھوا ھے لگتا ھے تمھارا ایکسیڈنٹ ھوا ھے۔
میں نے کہا جی جناب تھوڑی دیر پہلے گزرنے والی بس نے مجھے ھلکی سی ٹکر مار دی۔
اواچھا یہ تو بہت برا ھوا بچت ھو گئی یا کوئی گہری چوٹ لگی ھے۔
اب میں اسے کیا بتاتا چوٹ تو بہت گہری لگی تھی لیکن آج چوٹ جسمانی نہیں روحانی تھی۔
میں ہلکا سا مسکرایا اور کہا بس بچ گیا ذرا کانٹے چبھے ھیں باقی کوئی اتنی چوٹ نہیں لگی۔

چلو شکر ھے یہ بتاؤ کہاں جا رھے تھے۔
جی جہلم شہر کیلئے نکلا تھا۔
اچھا چلو آؤ میں تمہیں چھوڑ دیتا ھوں میں بھی شہر ھی جا رھا ھوں۔
میں نے اسے شکر گزار نظروں سے دیکھا اور اسکے ساتھ بیٹھ گیا۔

موٹر سائیکل سوار اپنی دھن میں خاموشی سے موٹر سائیکل چلانے لگا اور مجھے پھر اپنی ھونے والی ذلت یاد آ گئی۔
میں جہلم شہر میں کپڑے کی دکان کرتا ھوں لیکن میری رھائش شہر سے تھوڑا دور ایک گاؤں میں تھی۔میں روزانہ اپنی دکان کیلئے شہر جاتا اور شام کو مغرب کے ٹائم واپس گاؤں آ جاتا۔شہر اور گاؤں کے اس سفر کے دوران میں نے بارہا لڑکیوں اور عورتوں کو جنسی تسکین کا نشانہ بنایا اور انکے نسوانی اعضاء مطلب مموں اور انکی گانڈپہ ھاتھ پھیرا۔کبھی کسی کی گانڈ میں انگلی کی کبھی کسی کی بی شی میں۔اور یہ سب کرتے کرتے میری عادت بنتی گئی۔

آج بھی جب میں گاؤں سے جہلم شہر میں جانے والی بس میں سوار ھوا تھا۔مجھ سے آگے والی دونوں نشستیں خالی تھیں اور میں دعا کرنے لگا کے کوئی لڑکی یا عورت میرے آگے والی نشست پہ آ بیٹھے تانکہ میں اسکے ساتھ مزے کر سکوں۔میری دعا قبول ھوئی اور تھوڑی دیر بعد بس میں دو عورتیں سوار ھوئیں اور سیدھا میرے آگے والی نشستوں پہ آ کے براجمان ھو گئیں۔

جب میں نے انکا جائزہ لیا تو وہ مجھے دونوں ماں بیٹی محسوس ھوئیں اب میں نے اطراف کا جائزہ لیا بس میں کافی مسافر تھے لیکن سب اپنے حال میں مست تھے۔میرے ساتھ والی نشست پہ ایک نحیف و نزار بوڑھا آدمی آ کے بیٹھ گیا۔میری نشست کھڑکی کی طرف تھی اور آگے والی نشست پہ کھڑکی کی طرف لڑکی براجمان ھوئی تھی۔میں نے ایک آخری نظر اسکی ماں پر ڈالی وہ بھی گہری سوچوں میں گم آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی گویا پورا ماحول میرے حق میں تھا اب میں نے اپنے سے آگے والی نشست کے ایک پہلو سے ھاتھ آگے بڑھایا اور لڑکی کے ایک چوتڑ پہ رکھ دیا۔پھر آھستہ آھستہ اپنے ہاتھ کے دباؤ کو اسکے چوتڑ پر بڑھاتا گیا لیکن لڑکی کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔اب میرے حوصلے بڑھے اور میں اپنے ہاتھ کو اسکے چوتڑ سے دھیرے دھیرے اسکی ران کی جانب لے گیا۔میرا لنڈ اکڑ چکا تھا اور اب میں اپنے ایک ھاتھ سے اپنے لن کو مسلنے لگا جبکہ دوسرے ھاتھ سے اسکی ران کو گدگدانے لگا لڑکی پوری طرح میرا ساتھ دینے لگی اور نہ صرف اس نے اپنا ھاتھ میرے ھاتھ پہ رکھا بلکہ تھوڑا سا کھڑکی کی طرف گھوم گئی جس سے میرے ھاتھ کی پوریں اسکی بی شی (پھدی) کو ٹچ کرنے لگیں لیکن پھر اسکی حالت بگڑنے لگی اور باقی کی ساری کہانی آ پ کو شروعات میں بتا چکا ھوں کہ پھر کیا ھوا۔میں تو اسکی حالت دیکھ کر ڈر گیا تھا اسلیئے اپنے ہاتھ کو واپس ھٹایا لیکن اس نے کیوں اپنی ماں کو میرے متعلق بتایا۔شایدوہ ماں کے پوچھنے پر گبھرا گئی اور بتا دیا ھو لیکن اسکی وہ طنزیہ مسکراہٹ۔وہ کیا تھی۔مجھے جو دوسری بات سمجھ آتی ھے کہ شاید اسکو میرا یوں ہاتھ واپس کھینچنا اچھا نہیں لگا ھو گا۔بہرحال مجھے بہت ذلت اٹھانی پڑی یہ بس میرے گاؤ ں سے آتی تھی اور بہت سارے جاننے والے لوگ اس میں سفر کرتے تھے اب پتہ نہیں وہاں کوئی ایسا میرے جاننے والا تھا یا نہیں۔بہرحال ذلت ورسوائی بہت اٹھانی پڑی۔
بھائی کدھر اتاروں آپکو۔موٹر سائیکل سوار کی آواز مجھے دوبارہ ھوش میں لے آئی۔شہر شروع ھو چکا تھا۔
اچانک مجھے میری بس سڑک کے ایک کنارے کھڑی نظر آئی ۔شاید کوئی سواریاں اتارنی تھیں۔لیکن یہ کیا بس سے سواریاں تو اتری تھیں لیکن یہ تو وہی دونوں ماں بیٹیاں تھیں۔
بھائی یہی ادھر ھی سائیڈ پہ اتار دو پلیز۔

موٹر سائیکل سوار نے مجھے وہیں اتارا اورچلا گیا۔
جاری ہے
 
🅰️uthor
Sameer khel
🅿️osted By
Sameer khel
🔘 Genres
  1. Adultery

Top