Incest تڑپتی پڑکتی جوانیاں

21
11
5
قسط نمبر ایک
اگر کہانی اچھی لگے تو کمیٹ لازمی کرا کریں
تڑپتی پھڑکتی جوانیاں

میرا نام افتخار ہے میری عمر 30 کے لگ بھگ ہے مجھے سب افی کے نام سے پکارتے ہیں میں آج آپ کو اپنی کہانی سنانے جا رہا ہوں میں پاکستان کے ایک گاؤں کا رہائشی ہوں میں اب کینیڈا میں رہائش پذیر ہوں میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں میرے والد قدرتی طور پر کالے رنگ کے اور موٹے نین نقش کے مالک تھے اس لیے میں بھی والد کی طرح کالے رنگ کا ہوں لیکن میرے نین نقش والدہ کی طرح ہیں میرا قد چھ فٹ کے قریب اور جسم بھی کافی طاقتور اور توانا چونکہ گاؤں سے تعلق ہے تھوڑی بہت زمین اور ساتھ میں والد نے جانور بھی پال رکھے تھے اس لیے گاؤں کی خوش خوراکی اور جبلت میں بھی بھرپور مردانگی ملی جس وجہ سے کافی تندرست و توانا جسامت کا مالک ہوں ابھی تک غیر شادی شدہ ہوں گاؤں میں چند گھر ہی رشتہ دار تھے ان میں سے ایک گھر ماموں نواز کا بھی تھا ماما نواز امی کا دور کا رشتہ دار تھا اس لیے میں اسے ماما ہی کہتا تھا ماما نواز کی بھی تھوڑی سی زمین تھی جس پر وہ کام کرتا تھا ساتھ میں کچھ مزارہ بھی کرتا تھا نواز کے پانچ بچے تھے سب سے بڑی بیٹی کا نام نصرت تھا جو مجھ سے لگ بھگ دو سال بڑی تھی نصرت بچپن میں اکثر ہمارے گھر رہتی جس سے اس کی اور میرے درمیان بہت بے تکلفی تھی ہمارے درمیان دوستی اور پیار کا ایک عجیب سا رشتہ تھا اتنی چھوٹی عمر میں کچھ پتا تو نا تھا پر ہماری ایک دوسرے سے بہت اچھی دوستی تھی ہم مل کر کھیلتے مل کر سکول جاتے نصرت بہت ہی اچھی اور لائق بچی تھی لڑکوں اور لڑکیوں کا سکول ساتھ ساتھ ہی تھے اس لیے وہ مجھے سکول ساتھ ہی لے جاتی وہ مجھ سے دو سال بڑی تھا اسے گھر والے مجھ سے زیادہ سمجھدار سمجھتے تھے اور شاہد میں تھا بھی اکلوتا اس لیے میرا خیال رکھنے کی ڈیوٹی بھی نصرت کے ذمے تھی اس لیے وہ مجھے ساتھ لے جاتی اور لاتی بھی ساتھ پانچویں کے بعد نصرت تو ہائی سکول چلی گئی لیکن میں بھی سمجھدار ہو گیا تھا اس لیے اب اکیلا آنے جانے لگا لیکن نصرت اور میری دوستی اب بھی کم نہیں ہوئی تھی وہ اکثر ہمارے گھر آجاتی اور کافی دیر مل کر کھیلتے نواز کے دوسرے بچوں میں دوسرے نمبر پر مدثرہ تھی جو نصرت سے دو سال چھوٹی تھی مدثرہ سے دو سال چھوٹی ماہم تھی ماہم کے بعد نوشیر تھا اور پھر سب سے چھوٹا رافع تھا نواز اپنے پانچ بچوں کی پرورش بہت ہی اچھے انداز میں کر رہا تھا وقت گزر گیا اور پتا ہی نا چلا تھا ہم جوان ہو گئے تھے لیکن ہمارے درمیان اب بھی بے تکلفی اسی طرح تھی کبھی کوئی غلط خیال نا آیا نا کسی نے ہمارے بارے میں سوچا نصرت میٹرک کر چکی تھی اور گیارہویں میں داخلے کی خواہش کر رہی تھی نصرت کافی سمجھدار اور لائق تھی میٹرک میں اچھے نمبر لیے تھے وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی پر کالج شہر میں تھا اور پھر گاؤں کی کوئی لڑکی اب تک کالج نہیں گئی تھی وہ جانا چاہتی تھی لیکن اس کا باپ روائتی تھا جو بیٹی کو باہر نکالنے سے ڈرتا تھا پر وہ بیمار بھی تھا اور شہر آنے جانے کے مسائل بھی تھے انہی دنوں میں نواز کا انتقال ہو گیا اور نصرت کے سارے ارمان پانی میں بہ گئے کچھ عرصہ تو آس پاس اور رشتہ داروں نے سنبھالا دیا لیکن لمبی کافی بڑا تھا ابو نے بھی ان کی زمین سنبھالنے کی کوشش کی اس دوران رشتہ داروں نے گھر والوں کو ایک مرد جس کا نام گلشیر تھا کا سہارا دینے کےلئے نصرت کی شادی ایسے بندے سے کر دی جو عمر میں نصرت سے تین گنا بڑا تھا نصرت 16 17 سال کی تھی اور وہ 35 40 سال کا نصرت جیسی کلی نے اس بڑی عمر کے شخص سے شادی کی مخالف تو کی پر مجبوراً نصرت کو اس کے ساتھ جانا ہی پڑا گھر کی اور بہن بھائیوں کی خاطر اسے یہ قربانی دینا پڑی نصرت سمجھدار بھی تھی اور پڑھیں لکھی اسے اپنے گھر کا احساس تھا نصرت کی شادی کے ایک سال بعد اس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی اس کا نام وجہہ رکھا گیا پھر وقت گزرنے لگا نصرت کے ہاں ایک اور بیٹی بھی پیدا ہوئی جس کا نام زرناب تھا پھر وقت پر لگا کر گزرنے لگا میں میٹرک کے بعد کالج چلا گیا میرا آنا جانا بھی کم ہو گیا نصرت سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی وہ بھی بڑی ہوگئی تھی پھر اسے دو گھروں کے کام کرنے پڑتے تھے کچھ سالوں میں میرے والدین کا بھی انتقال ہوگیا اور میں شہر میں رشتے داروں کے پاس رہنے لگا وہاں گریجویشن کی اور سٹڈی ویزہ پر لیندے جانے کا پلان بنا کر اپنی گاؤں والی زمین بیچ کر کینیڈا چلا گیا وہاں کچھ عرصہ ملازمت کی پھر ایک ہوٹل کا کام شروع کیا اور اپنا سارا وقت اسے دے دیا پتا ہی نا چلا وقت پر لگا کر ایسے اڑا کہ دس 12 سال گزر گئے ایک چھوٹا سا ہوٹل اب پوری ایک چین میں بدل چکا تھا کینیڈا کے امیر پاکستانیوں میں شمار ہونے لگا وہیں ایک پاکستانی فیملی کی لڑکی سے شادی بھی ہو گئی جس سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا کچھ عرصہ پہلے ہی مجھے ایک نیا کام شروع کرنا تھا جس کےلئے مجھے کچھ لوگوں کی ضرورت تھی اس لیے میں نے پاکستان واپس آنے کا پلان بنایا کیونکہ میرا ارادہ تھا اب اپنے گاؤں کے لوگوں کی زندگی بدلنے کا میں اپنے نئے کام میں اپنے لوگوں کو شامل کرنا چاہتا تھا اس لیے واپس آیا کچھ دن تو شہر میں رہا اور پھر گاؤں چکا آیا گاؤں اب کافی بدل چکا تھا اس وقت بھی لوگ پکے گھر بنا رہے تھے پر کچھ کچے مکان تھے جو اب ختم ہو چکے تھے ان کی جگہ بھی پکے بن چکے تھے پکی گلیاں نالیاں سولنگی اب گاؤں جدید اور پھیل چکا تھا میں کافی عرصہ باہر رہا اس لیے گاؤں کے بچے اور نوجوان مجھے کم ہی جانتے تھے لیکن میری عمر کے اور بڑے لوگوں نے میر خوب آؤ بھگت کی اپنے پرانے لوگوں میں آکر میں بہت خوش تھا اپنے لوگوں کے ساتھ وقت بڑی رفتار سے اور بہت خوبصورت گزر رہا تھا مجھے نصرت اب بھی یاد تھی یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میں اسے بھول جاتا اس سے میرا تو خاص تعلق تھا وہ شاید مجھے بھوک گئی ہو تو الگ بات ہے یہ زندگی ہے ہی ایسی چیز اپنی رعنائیوں میں گم کرکے بڑے بڑے دوست اور پیارے بھلا دیتی ہے دو تین دن تو نصرت کی طرف جانے کا وقت ہی نا ملا کچھ میں خود بھی جھجھک رہا تھا کہ پتا نہیں اب کتنی تبدیلیاں آ گئی ہوں گیں کوئی پہچانے گا کہ نہیں روز جانے کا سوچتا پر پتا نہیں جا نا سکا ایک دن شام سے پہلے شہر جا رہا تھا میرے پاس ہنڈا سوک تھی میں جب چوک میں پہنچا تو چوک میں مجھے ایک پتلا سا لمبے قد کا لڑکا نظر آیا ہلکے سے گردن تک لمبے گھنگریالے بال اور ہلکی ہلکی مونچھیں داڑھی صاف میری نظر اس پر پڑی تو میں اس کے پاس جا کر گاڑی روک دی شکل سے پہچانا لگ رہا تھا مجھے لگا کہ یہ نوشیر ہے میں نے اس کے پاس گاڑھی روک کر شیشہ نیچے کیا تو اس نے مجھے پہچاننے کے انداز میں دیکھا اور جھک کر اندر دیکھا میں نے مسکرا کر دیکھا اور بولا توں نوشی ہیں مامے نواز دا پتر وہ مسکرا کر ہاں جی تسی افی بھائی ہو میں ہنس دیا اس وقت نوشی بہت چھوٹا تھا اب تو بہت بڑا ہو گیا میں گاڑھی سے اتر آیا اور اسے جپھی ڈال کر سینے سے لگا لیا میں بولا ہاں میں آگی ہی آں وہ بہت خوش ہوا سلام دعا کے بعد وہ شکوے کے انداز میں بولا بھائی اے تے زیادتی ہے اتنے دن ہوگئے تسی آئے ہوئے ہو چکر ہی نہیں لایا میں مسکرا کر بولا بس یار ٹائم نہیں ملیا صبح لازمی چکر لیساں وہ بولا نہیں بھائی صبح تسی ہن ہی چکو میرے نال باجی تے تھواڈا روز پچھدی اے باجی کا سن مجھے بھی نصرت کو دیکھنے کا اشتیاق ہوا لیکن اب وقت نہیں تھا مجھے واپس کوئی کام تھا اور خالی ہاتھ تھا میں بولا نہیں یار نوشی ہن لیٹ ہورہی مینوں واپس جانا اے تے ہن خالی ہتھ اپنی بھین دے گھر جانا وی اچھا نہیں لگدا صبح سب تو پہلے گھر آساں وہ بولا افی بھائی ہن توں امیر ہوگیا ایں آگے تے ہر ویلے ساڈے گھر ہی ہوندا آئیں ہم وی او ہی گھر اے میں شرمندہ سا ہوگیا اور بولا نہیں یار اے گل نہیں ہن وی میرا اپنا گھر اے یہ کہ کر میں نوشی کو ناہ نا کرسکا اور اس کے گھر کی طرف چل پڑا نوشی کا گھر پاس ہی تھا اسی بازار کی آخری نکڑ پر تھا گھر کے پاس میں نے گاڑی کھڑی کی اور نکل آیا سامنے گھر تھا جہاں پہلے لکڑی کا دروازہ تھا اب اس پر گیٹ لگا تھا چھوٹا سا جو مالٹی کلر کا تھا اور رنگ پر زنگ لگ چکا تھا گیٹ بھی پرانا ہو چکا تھا نوشی اپنے کسی دوست کے پاس کھڑا ہوگیا میں نے دروازہ کھولا اندر داخل ہوگیا نوشی کا گھر اپنے پرانے کی جگہ نیا بن چکا تھا لیکن اسی طرح دو تین کمرے تبدیلی یہ تھی کہ نئی کیچن اور واشروم بنائے گئے تھے گے برآمدہ بھی تھا میں گھر کا جائزہ کے رہا تھا اس گھر سے میری بہت سے یادیں کڑی تھیں بچپن کی سب کچھ نظروں کے سامنے چلنے لگا تھا اتنے میں میری نظر سامنے گئی جہاں ٹوٹی تھی اس پر جھک کر ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی پانی بھر رہی تھی لڑکی دوپٹے کے بغیر تھی اور اس نے گت کر رکھی تھی اور اس کی گت آگے لٹک کر اس پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس کی جسامت زیادہ موٹی نہ تھی پتلی سی گانڈ باہر کو نکل کر دلکش نظارہ دے رہی تھی دروازے کے کھٹکنے پر اس لڑکی نے اپنی گت کو جھٹکا دے کر پیچھے لہراتی ہوئی کمر پر پھینکتی ہوئی مڑ کر دیکھا تو سامنے مجھے دیکھ کر وہ چونک سی گئی اس نے مجھے پہلی بار دیکھا تھا میں کافی تگڑا اور لمبے قد کا اوپر سے رنگ بھی سانولا تھا وہ دیکھ کر ایک بار تو گھبرا سی گئی کہ میں کون ہوں اس لڑکی کی شکل اور نین نقش بالکل نصرت کی طرح کے تھے اسے دیکھ کر ایک بار توو میں چونک گیا مجھے لگا نصرت کا بچپن لوٹ آیا ہے اس نے ایک لمحے کےلئے مجھے نظر اٹھا کر سر تا پاؤں دیکھا تو اس کی گھبراہٹ ایک لمحے کےلئے کچھ کم ہوئی اور اس نے بڑے کانفیڈنس سے مجھے گھورا جیسے میرے اندر سے کچھ تلاش کر رہی ہو میں جینز اور ٹی شرٹ میں تھا جس میں میری باڈی نظر آرہی تھا میرا جسم کافی فٹ اور خوبصورت تھا اس کی گہری موٹی آنکھیں میرا جسم ٹٹول رہی تھیں اس کی نظر بار بار میرے جسم پر گھوم رہی تھیں جس سے میں سمجھ گیا کہ اس کی تلاش کیا ہے اور مجھ میں کیا ڈھونڈ رہی ہے اتنے میں پیچھے سے نوشی داخل ہوا تو وہ اور میں سنبھل گئے میں بھی اس کے ہلکے ہلکے ابھرے مموں کو دیکھ رہا تھا جو زیادہ بڑے تو نہیں تھے پر نظر آ رہے تھے میں سمجھ گیا تھا کہ یہ نصرت کی بیٹی وجیہ ہے جو اس وقت ایک سال کی تھی اب کافی بڑی ہوگئی تھی وہ مجھے بھی اپنے مموں میں مدہوش دیکھ کر میرے ساتھ پینگھیں بڑھانے کی کوشش میں تھی نوشی کو دیکھ کر وہ سنبھل گئی میں بھی سنبھل گیا اور ایسے ظاہر کیا کہ میں گھر کو دیکھ رہا ہوں نوشی آگے بڑھا اور بولا افی بھائی اے باجی دی وڈی بیٹی وجیہ ہے وجیہ اے بھائی افی اے تیرا ماموں کینیڈا آلا یہ سن کر وجیہ کے چہرے پر ہلکی سی خوشی کی لہر سی دوڑ گئی اور وہ مسکرا دی میں بھی مسکرا دیا وہ میرے پاس آئی اور اپنا سر آگے کردیا میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس نے مسکرا کر اپنی موٹی آنکھیں میری آنکھیں میں گاڑھ کر مجھے سگنل دے دیا تھا اس کی گالیں لالی سے لا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی تھی میں سب سمجھ گیا تھا اور حیران بھی ہو رہا تھا کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں وجیہ کو سب پتا تھا وجیہ مجھے مسکراتی ہوئی دیکھتی اندر کیچن میں چلی گئی نوشی بولا گھر ٹھیک بن گیا میں بولا صیح بن گیا اے اتنے میں اندر سے نصرت نکلی وہ دیکھنے آئی تھی باہر کون ہے وہ نکلی تو اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ چونک سی گئی میں آج اتنے عرصے بعد نصرت کو دیکھا تو حیرانی سے اسے ہی دیکھتا رہ گیا اس وقت تو شاید اتنی سمجھ نہیں تھی پر اب نصرت کے انگ انگ کو دیکھ کر ایک عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی نصرت کا قد پہلے ہی ٹھیک ٹھاک تھا پر اب وہ کافی بڑی ہوگئی تھی نصرت دوپٹے کے بغیر تھی نصرت کا جسم بھرا بھرا سا لگ رہا تھا نصرت کے تنے ہوئے ممے ہوا میں اکڑ کر کھڑے تھے نصرت نے کسا ہوا قمیض ڈال رکھا تھا جو اس کے انگ انگ واضح کر رہا تھا نصرت کے موٹے چوتڑ بھی صاف نظر آ رہے تھے میں نے ایک نظر نصرت کے جسم پر گھمائی تو میں دنگ سا رہ گیا نصرت کہیں سے بھی شادی شدہ اور دو بچیوں کی ماں نہیں لگ رہی تھی وہ فل ہاٹ اور سیکسی جسم کی مالک تھی جو دس پندرہ سال پہلے تو اتنا نہیں تھا شاید اس عرصے میں اس نے وہ سب سیکھ لیا تھا جو اسے پتا نہیں تھا نصرت تو حیرانی سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی جبکہ میں اس کے مست جسم کو غور رہا تھا اس کو بھی شاید اندازہ ہوگیا تھا میری نظر میں شہوت وہ صاف دیکھ چکی تھی لیکن نصرت نے فی الحال اس کو اگنور کرکے مجھے حیرانگی سے دیکھ رہی تھی نصرت نے بھی ایک لمبی گت کر رکھی تھی جو اس پر بھی جچ رہی تھی اتنے سالوں بعد نصرت تو بہت خوبصورت ہو گئی تھی میں اس کی بیٹی کو پہلے ہی دیکھ کر بے تاب سا ہو چکا تھا اب نصرت خود بھی قیامت ڈھا رہی تھی نصرت مجھے دیکھ کر بولا ہالنی اماں میں مر جاواں آج بڑے دناں بعد میرے بھرا نوں ساڈے گھر دا راہ لبھ پیا میں نصرت کی یہ بات سن کر شرمندہ سا ہوگیا اور کچھ بولا نا سکا نصرت پاس آکر میرے کاندھے پر ہاتھ پھیر کر بولی میرا بھرا بہوں امیر ہوگیا اتنے دن ہو گئے میں رستہ ویکھ رہی ہاس کہ توں آسیں پہلے ساڈے گھر میں شرمندہ سا ہوکر بولا نہیں ایسی گل نہیں بس کجھ مصروفیت ہی ایسی ہا کہ ٹائم ہی نہیں ملیا ہن آ نہیں گیا نوشی بولا باجی ہن وی میں لئیے آیاں اے تے آؤ ہی ناہ نصرت بولی اے ہن وڈا ہوگیا ناں ساڈے تے اس دی تک کیویں پوندی میں بولا ہلا ہن شرمندہ ہی کردا رہنا یا بہون دا وی اکھسو یہ کہ کر میں ہنس دیا نصرت نے گہری نظر سے مجھے مسکرا کر دیکھا میرے سر پر چپاٹ مار کر بولی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اور ہنس دی میں بھی نصرت کی چپاٹ سے ہلکا سا سر نیچے دبا دیا نصرت کے اٹھے ہوئے موٹے تازے ممے مجھے دعوت نظارہ دے رہے تھے میں رہ نہیں پا رہا تھا میری نظر بار بار نصرت کے ممے غور رہی تھی نیچے سر دبا کر میں نے نصرت کے مموں کے قریب ہو کر نصرت کے مموں کی ہلکی سے نظر آتی لکیر میں جھانکا اور اوپر ہوتے ہوئے میری نظر نصرت سے ملی تو وہ مجھے اپنے مموں کو غورتا دیکھ کر ہلکی سی مسکرا سی دی نصرت کی آنکھوں میں ہلکی سی لالی اتر چکی تھی اور نصرت کی پھولی ہوئی موٹی گالوں کا ماس مسکراہٹ سے اکٹھا ہوکر قابل دید نظارہ پیش کرنے لگیں پتا نصرت کو بھی لگ گیا کہ میں اس کے مموں کو تاڑ رہا ہوں اس لیے وہ بھی مسکرا سی گئی لیکن ابھی بھی اس نے خود کو ڈھانپا نہیں تھا وہ مڑی اور بولی آجا ایتھے بہ جا صحن میں پڑی چارپائیوں کی طرف اشارہ کیا نصرت کے گھومنے سے نصرت کے موٹے تنے ہوئے باہر کو نکلے چتڑ نظر آنے لگے میری نظر ان پر پڑی تو میں ان کو ایک بار تسلی سے گھورا نصرت میری طرف گھومی تو جلدی سے میں نے نظر چرا کر اس کو دیکھا سمجھ تو وہ بھی گئی کہ میری نظر کہاں تھی اس لیے وہ ایک لمحے کےلئے چپ سی ہوئی اور پھر مجھے دیکھ کر مسکرا گئی میں اس کے یوں انداز سے مسکرا کر شرما گیا نصرت بولی ایتھے بہ جا میں نے بیٹھتے ہوئے نظر اٹھا کر نصرت کو دیکھا تو نصرت بھی گہری آنکھوں سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی نصرت جس چارپائی پر بیٹھ رہی تھی اس پر اسی کا دوپٹہ پڑا تھا شاید وہ دوپٹہ اتار کر کام کر رہی تھی گھر میں خواتین اکثر کام کرتے وقت دوپٹہ اتار دیتی ہیں نصرت کے پاس دوپٹہ پڑا تھا پر اس نے ابھی لیا نہی تھا میرے دل کی آواز مجھے بتا رہی تھی کہ شاید وہ مجھے اپنے ممے دکھانے کے لیے دوپٹہ نہیں لے رہی میں مسکرا کر اسے ایک نظر دیکھا تو وہ بھی ہلکا سا مسکرا دی نصرت کا گورا رنگ چمک رہا تھا ناک میں کوکے کا نشان بہت خوبصورت لگ رہا تھا پر اس میں کوکا نہیں تھا نصرت نے بیٹھتے ہوئے ایک نظر مجھے دیکھا اور دوپٹہ اٹھا کر اپنے اوپر لے لیا اتنے میں اندر سے آنٹی بھی نکل آئی آنٹی کافی بوڑھی لگ رہی تھی میں اٹھ کر آنٹی کو ملا تو آنٹی بڑی خوش ہوئی آنٹی میرے پاس بیٹھ گئی نوشی بھی پاس ہی بیٹھا تھا اتنے میں اندر سے پھر نصرت کی بیٹی وجیہ نکلی جسے دیکھ کر نصرت بولی اے وجیہ ہے میری دھی میں ہنس کر بولا اے تے بڑی وڈی ہو گئی نصرت بولی توں وی تے پندرہ سالاں بعد آیا ایں میں ہنس دیا اتنے میں اندر سے مدثرہ اور ماہم بھی نکل آئیں ان کے ساتھ بھی میری جان پہچان تھی پر وہ بھی کافی بڑی ہو چکی تھیں دونوں مجھ سے ملیں نصرت بولی ماہم بھائی واسطے چائے بناؤ میں بولا نہیں اس تکلف دی ضرورت نہیں مدثرہ جو پاس ہی کھڑی تھی بولی جی نہیں تکلف کہڑا توں گھر دا ہی بندہ ہیں مدثرہ میری ہم عمر تھی وہ بھی اب کافی بڑی ہو چکی تھی اس وقت یہ بھی سنگل پسلی تھی ماہم جو اس سے چھوٹی تھی اس کے ساتھ میرا میل جول کم تھا وہ اندر جا چکی تھی مدثرہ کا جسم بھی کافی بھرا بھرا تھا مدثرہ کی آواز پر میں نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو اس کی براؤن آنکھوں میں چمک مجھے نظر آئی اور وہ میرے کسے سینے کو تاڑ رہی تھی شاید اسے بھی میری اندر دلچسپی تھی میں ہنس کر اسے دیکھا تو اس نے نظر چرا کر مجھے دیکھا اور بولی بہو توں میں چاہ بنا لواں اور مسکراتی آنکھوں سے مجھے دیکھا میرا دل تو دھڑک سا گیا تھا نصرت اور مدثرہ کے نین نقش ایک جیسے تھے پیچھے سے وجیہ بھی بالکل اس جیسی تھی مدثرہ کیچن میں چلی گئی میں واپس بیٹھ گیا اتنے میں اندر سے ایک اور چھوٹی سی لڑکی نکلی جو وجیہ سے چھوٹی تھی نصرت بولی اے نکی دھی ہے زرناب زرناب ماموں نوں مل زرناب نے ایک نظر گھما کر مجھے دیکھا اور مجھے سلام کیا اس کے نرم ہاتھ کو محسوس کرکے میں مچل سا گیا میں بولا بڑی جلدی وڈیاں ہوگئیںاں تیریاں دھیاں نصرت تیرے کیڈیاں لگ رہیاں نصرت ہنس دی میں بولا ہور بچے کوئی نہیں نصرت مسکرا دی اور بولی اتنے ہی بڑے ہین میں بولا نہیں فر وی آنٹی بولی بچے تاں ہوندے جے کوئی قابل ہووے نصرت شرما سی گئی اور بولی کچھ نہیں میں بولا کی مطلب آنٹی بولی آبی تینوں پتا تے ہا گلشیر آگے ہی بڈھا ہا مسیں دو دھیاں ہی جم سگیا اپنے پلے کجھ ناہس تے سارا قصور میری دھی دا بنا دتا کہ اے بچے پیدا نہیں کر سگدی نصرت شرما کر بولی امی بس کر اے گلاں بھلا افی نال کرن آلیاں میں بولا کیوں مینوں اپنا وی آدھے ہوتے اپنی پریشانی وی نہیں دسدے ۔ نصرت بولی نہیں کوئی پریشانی نہیں۔ جدو کوئی عزت نا دیوے وت سانوں کی لوڑ اس نوں عزت دیونڑ دی جو کوئی بوئے او کھٹے میں بولا فر وی گل کی بنی آنٹی بولی گل ایو کجھ ہی بنی کہ اس کولو آپ تو کجھ ہو نہیں آیا تے سارا نصرت دے ذمے لا دتا کہ اے بچے پیدا نہیں کر سگدی 4 5 سال ہو گئے نصرت گھر ہی چھوڑ کے آگئی اے میں بولا اے تے غلط گل اے آنٹی پہلے دن ہی غلط فیصلہ ہویا گلشیر آلا آنٹی بولی میرا تے اپنا دل کوئی نا پر مجبوری ہا تاں سانوں وی سہارے دی لوڑ ہا اتو میرے بھرا تے دیر وی ساتھوں تنگ ہانڑ ٹھہو ٹھہو کر دتا میں بولا تے ہن فر کی حالات ہین آنٹی بولی کوئی نہیں گزارا ہو ہی رہیا اے اتنے میں مدثرہ چائے لے کر آگئی اور میرے سامنے رکھ دیے ٹرے میں چائے اور کچھ بسکٹ تھے مدثرہ چائے رکھ کر نصرت کے پاس بیٹھ گئی میں چائے پینے لگا چائے پیتے ہوئے میری نظر بھی بار بار نصرت اور مدثرہ کی طرف اٹھ رہی تھی دونوں بہنیں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر تھیں نصرت کی گہری کالی آنکھیں مجھ سے ٹکرا کر جھک جاتیں مدثرہ کی بھوری آنکھوں میں عجیب خمار تھا جیسے اسے عجیب سی خوشی تھی میں چائے پیتے ہوئے ان دونوں بہنوں کو ہی تاڑ رہا تھا نصرت اور مدثرہ دونوں ایک سے بڑھ کر حسین اور سیکسی لگ رہی تھیں میں ان دونوں کو غورنے میں اتنے مگن تھا کہ چائے ختم بھی ہوگئی مجھے کوئی کام تھا اس لیے صبح آنے کا کہ کر میں چلا گیا جاتے ہوئے میرے ذہن میں نصرت اور مدثرہ کا حسین جسم ہی گھومتا رہا رات بڑی مشکل سے نکالی ساری رات ان کے خیال ہی ذہن میں گھومتے رہے صبح میں اٹھا تو آج فریش سا فیل کر رہا تھا کافی دن ہو گئے تھے سیکس کیے ہوئے کینیڈا میں بیوی کے باوجود بھی کافی فرینڈز تھیں سیکس کےلئے یہاں کافی دنوں سے مس کر رہا تھا میں ناشتہ کرکے بازار گیا اور وہاں نصرت مدثرہ اور سب گھر والوں کےلیے شاپنک کی میری ذہن میں نصرت کے ناک کا کوکا تھا اس لیے نصرت کےلئے ایک بڑا سا سونے کا کوکا لے لیا میں ایک ڈیڑھ گھنٹے میں نصرت کے گھر پہنچ گیا دروازہ بند تھا میرے ہاتھ میں شاپر تھے میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ دیر بعد دروازہ کھلا تو سامنے وجیہ کھڑی تھی وجیہ اسی طرح دوپٹے کے بغیر تھی میں آج کپڑوں میں تھا وجیہ نے مجھے ایک نظر سر تا پاؤں غورا میں اندر آگیا وجیہ تھوڑا سا پیچھے ہوئی گیٹ خود ہی بند ہو گیا وجیہ نے میرے ہاتھ میں شاپر دیکھے تو سمجھ گئی اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور ہلکی سا مسکرا کر میری آنکھوں میں دیکھا میں بھی مسکرا دیا میری نظر اس کے چھوٹے چھوٹے مموں پر پڑی وجیہ نے مجھے اپنے ممے تاڑتا دیکھ کر اپنی گت اٹھا کر آگے اپنے مموں پر ڈال لی اور ایک نظر مجھے غور کر دیکھا میں بھی اسے دیکھا تو اسی کی نظروں میں عجیب سی کشش تھی اس نے ہاتھ باندھ کر اپنے مموں کو اٹھا لیا اور دوسرے ہاتھ سے اپنی گت اٹھا کر اس سے کھیلنے لگی میری آنکھوں میں غورتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ سج رہی تھی میں نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا نصرت کدے ہے اس نے اشارے سے کہا کیچن میں میں نے ادھر دیکھا اور اس کو شاپر پکڑا کر بولے تھوڈے واسطے کجھ سامان لئے آیاں آں وجیہ نے مسکرا کر پکڑ لیا اور مڑنے لگی میں نے اس کا بازو ٹ لیا اس نے مڑ کر دیکھا میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنا منہ قریب کرکے وجیہ کی گال چوم لی وجیہ کاہن کر سسک گئی اور سسسسی کر کے آنکھیں بند کرلیں مجھے بھی وجیہ کی نرم گال کا لمس بے قرار کر گیا میں نے گال چوم کر وجیہ کو دیکھا اور منہ کھول کر وجیہ کی کافی ساری گال ہونٹوں میں دبا کر چوس لی وجیہ کانپ کر سسکنے لگی اور گھٹی گھٹی آپیں بھرنے لگی میرا ہاتھ بے اختیار وجیہ کے مموں پر گیا جس سے وجیہ کانپ کر سسک گئی وجیہ کا چھوٹا سا مما ابھی تک میرے ہاتھ میں تھا جو بالکل چھوٹا تھا اور ابھی تک سہی طرح سے بنا نہیں تھا ممے کو دبانے سے وجیہ ہلکی سی کراہ گئی ممے میں ابھی تک گلٹیاں تھیں جس کا مطلب تھا وجیہ کے ممے ابھی پک رہے تھے میں نے پچ کی آواز سے وجیہ کی گال چھوڑی تو وجیہ نے مدہوشی سے مجھے دیکھا میں نے آگے ہوکر وجیہ کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر چوس لیے وجیہ نے میرا ساتھ دیتے ہوئے میرے ہونٹ چوستی ہوئی چاٹنے لگی میں ایک ہاتھ سے وجیہ کا سر دبا کر چوسنے لگا وجیہ نے ہونٹ کھول کر میری زبان کھینچ کر دبا کر چوس لی جس سے میں سسک گیا وجیہ نے میری زبان کھینچ کر اپنے منہ میں دبا کر چوس لی جس سے میں مزے سے کراہ سا گیا وجیہ جیسی اس عمر کی لڑکی کا ذائقہ کبھی چکھا نہیں تھا آج وجیہ کا ذائقہ چھک کر عجیب سا مزہ آرہا تھا وجیہ کا تھوک مجھے نڈھال کر رہا تھا وجیہ بھی کافی بے قراری سے مجھے چوس رہی تھی مجھے وجیہ کو چوستے ہوئے دو منٹ ہو چکے تھے کہ میری نظر سامنے پڑی وہاں سامنے وجیہ کی چھوٹی بہن زرناب بڑے انہماک سے ہمیں دیکھ رہی تھی میں زرناب کے دیکھنے پر چونک گیا اور وجیہ کے منہ سے زبان کھینچ لی پچ کی آواز سے زبان وجیہ کے منہ سے نکل آئی جو وجیہ اپنے ہونٹوں میں کس کر چوس رہی تھی میرا لن تن کر کھڑا ہوچکا تھا وجیہ نے سوالیہ آنکھوں سے مجھے دیکھا میرے چھوڑنے پر زرناب بھی اندر چلی گئی میں بولا باقی فرسہی کوئی ویکھ لیسی وجیہ نے ادھر ادھر دیکھا اور مسکرا کر مجھے مدہوشی سے دیکھا میں نے جیب سے 1000 کا نوٹ نکالا اور وجیہ کو پکڑا کر بولا تیری محنت دی کمائی زرناب نوں حصہ ونڈائیں وہ مسکرا کر ہنس کر پیسے پکڑ کر اندر جانے لگی میں مڑا اور کیچن کی طرف چلا گیا کیچن میں جیسے ہی میں داخل ہوا تو سامنے نصرت سنک پر کھڑی تھی نصرت نے سفید شلوار قمیض ڈال رکھا تھا جو ہلکا سا کسا ہوا تھا جس میں نصرت کا نگ انگ نظر آرہا تھا تنے ہوئے ہوا میں اکڑے ممے صاف نظر آرہے تھے جبکہ پتلی کمر کے نیچے موٹی باہر کو نکلی گانڈ بہت زبردست تھی نصرت وائٹ سوٹ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی وہ آج بھی دوپٹے کے بغیر تھی لمبی گت گانڈ پر پڑی قیامت ڈھا رہی تھی نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور سامنے مجھے کھڑا دیکھ کر مسکرا کر منہ نیچے کرکے کام کرنے لگی میں اس کے جسم کو غور رہا تھا جو وہ دیکھ کر شرما گئی نصرت کی دو بڑی بڑی بیٹیاں تھیں لیکن پھر بھی وہ کافی جوان لگ رہی تھی نصرت کی شادی بہت چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی اس لیے اس کی بیٹیاں بھی اب اس جیسی تھیں نصرت کی عمر 32 سال تھی لیکن پھر بھی نصرت بالکل جوان تھی نصرت کا قد بھی کافی اچھا تھا اور جسم بھی کافی بھرا سا خوبصورت تھا نصرت بالکل گھوڑی کی طرح اتھری جوانی کی مالک تھی میں نصرت کو دیکھتا ہوا اندر چلا گیا نصرت کے پاس کھڑا ہوکر بولا سناؤ جناب کی حال اے نصرت بولی ٹھیک توں سنامیں کم کر رہی آں آج تینوں ٹائم نہیں دے سگدی میں ہنس کر بولا اچھا جی آپ کل بڑیاں گلاں کر رہی ہائیں نصرت ہنس دی اور بولی اے وی مجبوری اے کم تے کرنا اے میں نصرت کو دیکھ کر ہنس دیا اور بولا نصرت توں اپنے آپ نوں ضائع ہی کردتا نصرت نے مسکرا کر نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور منہ نیچے کرکے بولی کوئی گل نہیں جو قسمت اچ ہووے او ہی ملدا میں بولا طلاق نہیں لئی نصرت بولی نہیں ہوسگدا اس نوں کسے ویلے وی پتا لگ جاوے کے غلطی کس دی توں سنا توں خوش ہیں اپنی بیوی نال میں بولا میں تے خوش ہاں توں ہن اس اچو کڈھنا کی اس دے پلے ہے کجھ نہیں توں ہلے جوان ہیں تیرے اچ کی کمی اے چھڈ اس نوں کوئی اپنے جیا کچھ نصرت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور بولی سر دا سائیں تے ہے نا سارا کجھ او ہی نہیں ہوندا میں بولا توں کملی ایں نصرت سارا کجھ ایو ہی ہوندا۔ وہ بولی ہن بچیاں وڈیاں ہین ہن اوہناں دا کجھ سوچساں میں نے ایک نظر اسے دیکھا اور بولا مدثرہ دی شادی کیوں نہیں کیتی وہ مسکرا کر بولی کیویں کردے آج ہر بندہ پیسے نوں ویکھدا سادے کول اتنا پیسہ کدو آیا جہڑا وی رشتہ آندا ڈیمانڈز ہی نہیں مکدیاں ساڈے کول ہمت ناہی ڈیمانڈ پوری کرن دی گھر دے خرچے مسیں پورے ہوندے اس توں بیٹھی ہی ہین دوویں میں بولا ہین کدے نصرت بولی مدثرہ تے ماہم دوویں ماسٹر کیتا ہویا ہے سکول پڑھاندیاں ہین میں بولا تے تیریاں دھیاں وہ بولی وجیہ میٹرک کر گئی اے پر اگاں میں نہیں پڑھائی زرناب نویں پڑھدی اے میں بولا اگاں کیوں نہیں پڑھائی وہ بولی اتنی ہمت ہی نہیں میں بولا تے گلشیر نوں آکھ وہ ہنس کر بولی اس نوں تے پتر چاہی دا اس نوں دھیاں دی لوڑ نہیں میں نے نصرت کو چھیڑا اور بولا تے وت دے اس نوں پتر اس نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور بولی میں ہکلیاں پیدا کرنا اے کر لوے پیدا میں روکیا اور منہ نیچے کر گئی میں مسکرا کر بولا تے اس نوں پیدا کردے وت اس کولو نہیں ہوندا نصرت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور مجھے مسکراتا دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں مذاق کر رہا ہوں اور مسکرا کر بولی بکواس نا کر شرم کر بھرا سمجھدی ہا تینوں میں بولا میں وی بھین بنا کے ہی مشورہ دے رہیا وہ ہنس دی اور بولی کوئی ہور گل کر میں بولا نوشی تے رافع کی کردے وہ بولی دوویں فیکٹری اچ کم کردے ہین ہلے نکے ہین کماندے ہی اتنا کجھ ہین کہ مسیں سودا ہی گھر دا آندا یا اپنے خرچے پورے کردے میں مسکرا کر بولا وت توں چاہویں تے اس نوں کینیڈا لے جاواں نصرت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا وہ سمجھ گئی اور بولی تیرا بھرا ہے اس کولو پچھ میں کی آکھنا نصرت کو سمجھ لگ گئی تھی کہ میں کیا چاہتا ہوں اس لیے وہ بار بار ہمارے درمیان بہن بھائی ہے رشتے کو یاد دلا رہی تھی نصرت شروع سے ہی بہت باحیا اور پاکدامن تھی اب بھی وہ ویسی ہی تھی مشکل حالات کے باوجود بھی اس نے غلط قدم نہیں اٹھایا تھا وہ بار بار مجھے بھی اس قدم سے دور رکھنے کےلئے وہی کہ رہی تھی ہمارے درمیان کے بہن بھائی کے رشتے کو بار بار اجاگر کر رہی تھی میں بولا نصرت تیری کی خیال ہے وہ اب شرما سی گئی تھی اس کے چہرے پر ہلکی سی لالی اتر آئی تھی وہ بولی میں کی آکھنا میں نے آگے ہاتھ کرکے نصرت کا ہاتھ پکڑنا چاہا نصرت برتن رکھ رہی تھی نصرت نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا اور بولی ناں کر افی میں بولا کیوں نا کراں نصرت بولی بس ایویں ہی میں بولا کوئی وجہ وہ کچھ نا بولی اور برتن رکھتی رہی پھر بولی جے میں اے کرنا ہوندا تے پہلے ہی کر لیندی میں نصرت کو دیکھنے لگا نصرت کا سفید خوبصورت چہرہ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا میں نصرت کو دیکھنے لگا نصرت کا خالی ناک دیکھ کر مجھے نصرت کےلیے لایا کوکا یاد آیا تو میں نے جیب سے کوکے والے ڈبی نکال کر بولا تیرے واسطے ہک شئے لئے آندی نصرت دیکھ کر بولی اے کی ہے میں کھول کر بولا تیرا خالی نک ویکھ کے کوکا لئے آندا اے نصرت مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی اس دی کی لوڑ ہا میں ہنس دیا اور بولا لوڑ ہا تے لئے آندا سوہنا لگسی تینوں نصرت ہنس دی اور بولی مینوں کوئی نہیں لوڑ اس دی میں نے کوکا نصرت کی طرف کر دیا اور بولا لل لئے نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور میرے ہاتھ سے پکڑ لیا میں مسکرا دیا نصرت کام کررہی تھی نصرت کچھ دیر بعد آنکھیں نیچے کیے بولی میں تے تینوں ایو جیا ناہس سمجھدی باہر جاکے توں تے بڑا کجھ سکھ گیا ایں اور ہنس دی میں ہنس کر بولا دنیا بڑا کجھ سکھا دیندی توں باہر نکلی جے نہوں نصرت ہنس دی اور بولی بڑا تیز ہوگیا ایں میں بولا وت کی خیال اے نصرت بولی کس بارے میں بولا گلشیر نوں بیٹا دیون تے نصرت نے رک کر مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولی بڑا بدتمیز ہیں میں ہنس دیا اور بولا کجھ نہیں ہوندا اس نوں کی پتا لگنا نصرت شرما گئی اور بولی بہوں بے حیا وی ہوگیا ایں میں بولا ہلا کوکا تے پا لویں نصرت بولی کس واسطے میں بولا میرے واسطے نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور مسکرا دی میں بھی مسکرا دیا اتنے میں دروازہ کھٹکا اور میں چونک سا گیا نصرت مسکرا دی نصرت نے باہر نکل کر دروازہ کھولا تو کوئی عورت تھی محلے کی نصرت کپڑے سینے کے کام بھی کرتی تھی جو نصرت کو دینے آئی تھی نصرت اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کر رہی تھی میں بھی کچھ دیر بیٹھا پھر مجھے کسی کام جانا تھا میں وہاں سے نکل آیا میں فری ہوا تو نصرت کے ساتھ گزرے لمحات کے بارے میں سوچنے لگا مجھے فیل ہوا کہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا نصرت جیسی پاک دامن لڑکی میرے ساتھ بھلا یہ سب کیوں کرے گی وہ تو اس کا اور میرا تعلق ہی ایسا تھا کہ سب کچھ ہنس کر سہہ گئی تھی میں سوچ رہا تھا کہ صبح نصرت سے معذرت کر لوں گا یہ سوچ کر سو گیا صبح اتوار کا دن تھا میں کھانا کھا کر نکلا کچھ ضروری کام کرنے کے بعد میں دوپہر کو نصرت کے گھر کی طرف چل دیا گاڑی سامنے ہی کھڑی کرکے میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو سامنے صحن میں نصرت مشین رکھ کر کپڑے سی رہی تھی ایسا کا دوپٹہ اترا ہوا تھا جس سے نصرت کا ہلکا سا کسا قمیض نے اس کے موٹے مموں کو ہوا میں کھڑا کر رکھا تھا مموں کی ہلکی سی لکیر واضح نظر آرہی تھی میرے اندر داخل ہونے پر نصرت نے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا میں اس کے موٹے تازے مموں میں گم سا ہوچکا تھا نصرت مجھے دیکھ کر چونک سی گئی میں چلتا ہوا اس کا جسم گھور رہا تھا نصرت کا جسم ہلکا سا بھرا بھرا لیکن چست جسم تھا بالکل نوخیز دوشیزہ کی طرح اس سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ اپنے جسم کا بھرپور خیال رکھتی ہے میں نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ مجھے دیکھتی ہوئی سیدھی ہوئی اور اپنا دوپٹہ اٹھا کر اپنے جسم کر ڈھانپ لیا میں نصرت کو یوں سنبھلتے ہوئے سمجھ گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے جس سے میں شرمندہ سا ہوگیا اور خود کو کوسا کہ میں نے ایسا کیوں کیا جس پر میں شرمندگی سے آنکھیں نیچے کرلیں جسے دیکھ کر نصرت کو بھی شاید شرمندگی ہوئی نصرت ایسی ویسی لڑکی تو تھی نہیں وہ اپنے شوہر سے الگ ہوکر بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھ رہی تھی ورنہ اکثر شادی شدہ لڑکیاں شادی کے بعد زیادہ کھل جاتی ہیں اور پھر مرد کے بغیر نہیں رہ سکتیں لیکن نصرت بہت ہی با حیا اور خود پر کنٹرول رکھنے والی لڑکی تھی ویسے بھی اس پر اب دو بیٹیوں کی زمہ داری تھی بھی ساتھ میں دو جوان بہنیں بھی گھر میں تھیں اگر وہ بھٹک جاتی تو سب پر اثر پڑا تھا اس لیے وہ بھی خود پر قابو رکھ رہی تھی میں شرمندہ سا ہوکر آگے بڑھتا گیا اور پاس ہی پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا نصرت کے چہرے پر ہلکی سی لالی تھی شاید وہ بھی کسی مرد کے سامنے پہلی بار یوں آئی تھی ورنہ باہر تو وہ نقاب میں نکلتی تھی جس سے اس کا جسم دھکا ہوتا نصرت کو کوئی نا دیکھ پاتا میں نے نصرت کے چہرے کو غور کر دیکھا تو وہ اپنے کام میں مگن تھی میں بھی چپ تھا شرمندگی سے نصرت نے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا تو میں اسے گھور رہا تھا جس سے اس کی نظریں میری نظروں سے ایک لمحے ٹکرائی جس سے اکی آنکھوں میں گلابی ڈورے تیر گئے اور پھر اس نے نظریں چرا لیں میں نصرت کو دیکھ کر مچل بھی رہا تھا اور شرمندہ بھی ہورہا تھا دماغ کا کوئی کونہ مجھے روک رہا تھا پر دل بہت بے قابو ہو رہا تھا میں کچھ نا بولا تو اتنے میں اندر سے مدثرہ نکلی جس نے مجھے دیکھا تو چہک کر بولی واہ جی واہ سرکار آوری آئے ہین مدثرہ کافی کھلے انداز میں ایسے بولی جیسے بہت جان پہچان ہو میں ہنس دیا اور بولا جیا ہنڑ ہی آئے ہاں اور میرے قریب آکر اپنا ہاتھ آگے کردیا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سلام کا جواب دیا مدثرہ کا موم کی طرح نرم ہاتھ محسوس کرکے میں مچل گیا تھا میرا دل دھک دھک کرنے لگا مدثرہ نصرت سے چھوٹی اور میری ہم عمر تھی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی اور شاید وہ بھی نصرت کی طرح غیر مرد کے قریب نہیں گئی تھی اس لیے وہ بھی اندر سے پک چکی تھی اس سے اب مرد کے بغیر رہا نہیں جا رہا تھا اس لیے وہ بھی اب مجھ پر جال پھینک رہی تھی میں نے اس کا نرم ہاتھ چھوڑنا چاہا پر مجھے جھٹکا لگا مدثرہ نے میرا ہاتھ دبا سا دیا میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں لالی دوڑ رہی تھی اس نے آنکھوں کے اشارے سے مجھے کچھ کہا میں سمجھ گیا مدثرہ کی گول ابھرے ماس والی گالیں لال ہو رہی تھیں میں یہ دیکھ کر مچل س گیا مدثرہ نے گہری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دی مدثرہ نے ایک لمحے کےلئے مجھے دیکھتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑے رکھا میں بھی اس کے ہاتھ کا جواب دے رہا تھا ایک لمحے میں ہی اس کے دل کی ساری بات میں سمجھ چکا تھا میں مسکرا دیا تو اس نے ہاتھ دبا کر اپنی انگلی اٹھا کر میری ہتھیلی پر گھمائی اس کی نرم انگلی کا لمس مجھے نڈھال کرگیا اور میں اس کی اس حرکت سے مچل سا گیا مدثرہ میرا ہتھ چھوڑ دیا اور سیدھی ہوکر اپنی بہن کے پاس جا کر بیٹھ گئی میں بولا اگے توں نظر نہیں ائی وہ مسکرا دی اور بولی میں سکول گئی ہاس پڑھاون میں بولا سکول کیوں وہ بولی بس ایویں ماسٹر کرکے وہلے رہن نالو بہتر ہے گھر دیاں دی کجھ خدمت کر لئو میں مسکرادیا نصرت بولی مدثرہ تے ماہم ماسٹ کیتا ہویا ہے پڑھیاں لکھی ہینڑ سکول پڑھاندیاں ہین اپنا خرچہ تے کڈھ لیندیاں ہین اتنے ہک ہما لیندیاں ہین کہ اپنا خرچہ بنا لینڑ میں بولا اسدا مطلب تسی ساریاں ہی محنت کر رہیاں او وہ مسکرا دی نصرت بولی مدثرہ بھائی واسطے چاہ بنا لیا وہ بولی بھائی تیرا ہے میرا تے کوئی نہیں ہم دونوں اس بات پر چونک سے گئے اور مدثرہ کو غورنے لگے مدثرہ فلو میں بول گئی تھی اسے بھی احساس ہوا کہ غلط کہ دیا ہے یہ کہ کر مدثرہ شرمندہ ہو ہر بولی مذاق کر رہی ہاں اور جلدی سے اٹھ کر چلی گئی میں ہنس دیا نصرت بھی مسکرا کر مجھے غورا اور کام میں مگن ہو گئی اسے کام میں مگن دیکھ کر میں بولا بڑے مصروف ہو جناب کوئی لفٹ ہی نہیں۔ یہ سن کر اس نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا اور مجھے غور کر بولی حیا کر کجھ کوئی سن لیسیا میں مسکرا فیا اور بولا میں کی اکھیا ہے وہ خقموشی سے گہری آنکھوں سے مجھے غور کر منہ نیچے کر گئی میں مسکرا دیا اور ایک لمحے بعد بولا جناب اگر تھوانوں اچھا نہیں لگ رہیا تے میں اپنی افر واپس لئے لیندا انج اگنور تے نا کر یہ سن کر اس نے نظر اٹھا کر مجھے غورا اور مجھے چھیڑ کر بولی کہڑی افر میں بولا جہڑی صبح تینوں دتی ہا۔ نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا سی گئی اس کی موٹی گالوں پر لالی اتر آئی اور وہ میری انکھوں میں غورنے لگی نصرت نے نظر نیچے کی اور کپڑے کو سوئی سے ٹانکا لگاتی بولی بہوں بدتمیز ہوگیا ایں۔ میں مسکرا کر بولا انگریزاں دے ملک اچ رہندا آں وہ بولی انگریزاں دے ملک اچ جہڑا جاوے او انج ہو جاندا میں مسکرا کر بولا انگریزاں فی صحبت دا اثر تے ہوجاندا اے انگریز اپنے ار کرکے بھیجدے ہین اس بات پر نصرت نے اپنی گہری نظر اٹھا کر مجھے غورا اور مجھے مدہوش انکھوں سے دیکھنے لگی میں نے بھی انکھیں نصرت کی انکھوں سے لاک کرکے پیار بھرے انداز میں دیکھنے لگا نصرت نے مجھ سے آنکھیں نہیں چرائی اور لگاتار ہم دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کو غور کر دیکھتے ہوئے انکھیں ایک دوسرے سے لاک کیے رکھیں نصرت نے میرے ساتھ انکھیں لاک کیے ہوئے ہی دھاگا منہ میں ڈال کر گیلا کیا اور مجھ سے انکھیں چرا کر سوئی میں ڈالنے لگی نصرت کی انکھوں میں لالی اتر ائی اور شرم سے اس کا منہ لال ہونے لگا اتنی میں اندر سے وجیہ نکلی وہ دوپٹے کے بغیر تھی مجھے دیکھ کر اس نے اپنی ماں کو دیکھا اور پھر میری طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرا کر میری انکھوں میں انکھیں ڈال کر لاک کر لیں میں اسے دیکھ کر مچل سا گیا وجیہ دوپٹے کے بغیر تھی اس کے قمیض میں اس کی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں نظر ارہی تھی جو کہ ابھی تک سہی طرح سے بنی نہیں تھیں میں حیراں بھی ہوا کہ وجیہ ابھی تک پوتی جوان تو ہوئی نہیں پر وہ مرد ہو پٹانے کے سارے گر جانتی ہے میں تھوڑا سا حیران بھی ہوا پر اسوقت میں اسکے جسم کی گولایوں کے مزے لے رہا تھا وہ مجھے دیکھ کر مسکراتی ہوئی واشروم میں چلی گئی میں نصرت سے بولا اے تیری دھی وہلی ہی ہوندی وہ مجھے دیکھے بغیر بولی نہیں پنڈ اچ ہی ہک درزائن ہے اس کو جاندی اے ول سکھن میں وہیں سمجھ گیا کہ یہ اتنی تیز کیوں ہے۔ وہاں اس جیسی ہی لڑکیاں ہوں گی جن سے یہ سارے گر سیکھ رہی ہے۔ وہ پھر اس نے مجھے غور کر کہا وے توں وجیہ نوں اتنے پیسے کیوں دتے میں چونک گیا اور اسے فیکھا تو وہ عجیب نظروں سے مجھے غور رہی تھی مجھے خیال ایا اس وقت زرناب دیکھ رہی تھی اس نے بتایا ہوگا۔ میں بولا کیوں نہیں دے سگدا میں ڈر سا گیا تھا کہ کہیں کچھ کہ نا دے پھر اس نے ایک لمحے مجھے غورا اور پھر منہ نیچے مشین کی طرف کرکے بولی وجیہ ہلے نکی ہے اس نوں تے پتا نہیں تینوں تے پتا ہے۔ ویسے وی او گلشیر دی دھی اے اس نوں پتا لگ گیا تے میرے نال اس دی وی جان کڈھ لیسی۔ میں چونک گیا اسے پتا چل چکا تھا زرناب نے اسے بتا دیا۔ میں بولا کجھ نہیں ہو دا اسدا اپنا دل ہا تے میں اس نوں کجھ اکھیا اے میں بھلا اپے اس نوں کجھ اکھ سگدا ہاں۔ نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے غورا اور بولی افی توں اس نوں سمجھانا ہا اسدی عمر بہوں چھوٹی اے اس عمر اچ اے کم کرکے کیوں میری عزت دا جنازہ کڈھو ایں میں بولا ناں پریشان ہو میں کسے نوں نہیں دسدا میرے نال ای کجھ کر رہی ہے پرایا تے جوئی نہیں نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے غورا اور پھر مجھے ایک لمحے کےلئے اسی طرح غورتی رہی میں بھی اس سے نظریں ملائے اسے غورتا رہا اتنے میں پچھے سے کیچن سے مدثرہ نکلی تو اس کی نظر ہم پر پڑی اس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے اکھ مٹکا کرتے دیکھ لیا لیکن جلدی سے نصرت نے نظر چرا لی اور نیچے منہ کرکے اپنا کام کرنے لگی



IMG-20230720-WA0002
free image hosting
NicE starting
 
42
76
18
بہزاد کنگ
قسط نمبر چار

میں نصرت کے اوپر گر کر نصرت کے ہونٹ دبا کر چوستا ہوا ہانپنے لگا نصرت بھی آہیں بھرتی کانپتی ہوئی میرے نیچے پڑی ہینگ رہی تھی نصرت کی پھدی میرے لن کو کس کر دبوچ رکھا تھا میرا لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں اترا ہوا تھا نصرت کراہیں بھرتی میرا ساتھ دے رہی تھی نصرت کا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا میرا لن نصرت کی پھڈی میں فارغ ہوکر نصرت کی بچہ دانی کو بھر چکا تھا نصرت کی پھدی میں آگ لگی تھی جو میرے لن کو نڈھال کر چکی تھی میں کراہتا ہوا نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوس رہا تھا نصرت کے ناک کا کوکا نصرت کے ہانپنے سے ناک میں اچھل کر مجھے نڈھال کر رہا تھا میں نصرت کے اوپر گر کر نصرت کو چوم رہا تھا اتنے میں آنٹی اندر آئی اور مجھے نصرت کے اوپر پڑا آہیں بھرتا دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں نصرت کے اندر فارغ ہوچکا ہوں نصرت کو ہانپتا دیکھ کر آنٹی پاس آئی اس کی نظر میرے لن پر پڑی جو اس کی بیٹی کی پھدی میں جڑ تک اترا ہوا تھا جسے نصرت کی پھدی دبوچ رہی تھی میں سسک کر ہانپتا ہوا نصرت کو چوم رہا تھا آنٹی ہمارے قرب آئی اور نصرت کی ہوا میں کھڑی کانپتی ٹانگ پکڑ کر بولی نصرت فارغ سواد آیا کے نہیں نصرت نے آنکھیں کھول کر ہانپتے ہوئے اپنی ماں کو دیکھا اور سسک کر ہوں کی آٹنی مجھے سے بولی افی نصرت دا سواد آیا کہ نہیں میں مسکرا کر بولا آنٹی انج دا سواد تے اج تک نہیں آیا نصرت دی پھدی بہوں چس دتی اے نصرت اپنی ماں کو دیکھ کر شرما رہی تھی وہ آنکھیں بند کر کے ہلکا سا مسکراتی ہوئی منہ ایک طرف کر گئی نصرت شرم حیا والی لڑکی تھی کبھی بھی ہوں کسی کے سامنے اس نے چدوایا نہیں تھا آج پہلی بار چدوا رہی تھی تو شرمانا تو بنتا تھا میں نصرت کی شرم سے لال گالیں دیکھ کر نیچے ہوا اور مسکرا کر بولا نصرت ہن تے توں روز میرا لن لینا ہے ہنڑ تے نا شرما اور نصرت کی موٹی گال کو منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا نصرت کی گال سے مٹھاس نکل کر مجھے نڈھال کرنے لگی نصرت بولی افی اتنا تے شرمان دے ہنڑ میں مسکرا گیا آنٹی بولی افی نصرت دے اندر فارغ ہوگیا ایں میں بولا ہک وار تے ہوگیا آں آنٹی نصرت سے بولی نصرت تھوڑی دیر تک انج ہی پئی رہو تاکہ تھواڈی منی آپس اچ چنگی مکس ہو جائے میں مسکرا کر بولا آنٹی ہلے تے دل نہیں بھریا ہلے ہک وار ہور نصرت دی پھدی لینی اے نصرت میری بات سن کر شرما گئی اور ہنس کر منہ دوسری طرف کر لیا آنٹی بولی میں جاندی آں نصرت ایویں ہی شرمائی جاندی اے میں مسکرا کر نصرت کو چومنے لگا آنٹی چلی گئی میں نصرت کو چومتا ہوا بولا میری جان ہنڑ شرمانا چھڈ دے نصرت بولی آپے شرم ا رہی اے پتا نہیں کیوں میں ہنس کر پیچھے ہوا اور نصرت کی ٹانگیں دبا کر نصرت کے کاندھوں سے ملا کر لن کھینچا جس سے لن ٹوپے تک نکل آیا نصرت کی گانڈ تڑپ کر کانپ گئی اور نصرت کی ہلکی سی کراہ نکل گئی میں اوپر ہوکر پوری شدت سے دھکہ مار کر اپنی کہنی جتنا لن یک لخت پورا جڑ تک نصرت کی پھدی کے پار اتار دیا میرا لن نصرت کی پھدی چیر کر نصرت کی بچہ دانی میں اتر گیا جس سے نصرت نے تڑپ کر چیخ ماری اور بکا کر کانپتی ہوئی اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھ دیا میں نے جھٹکے سے لن ٹوپے تک کھینچ کر پوری شدت سے دھکے مارتا ہوا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کے آر پر کرتا نصرت کی پھدی کو زبردست طریقے سے چودنے لگا میں دھکوں کی بارش کرتا لن تیزی سے پورا نکال کر یک لخت دھکے سے کہنی جتنا پورا لن نصرت کی پھدی کے آرپار کرنے لگا میرا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کو بچہ دانی تک چیر کر نصرت کی چیخیں نکالنے لگا نصرت تڑپتی ہوئی بکا کر چیختی ہوئی باں باں کرنے لگی میرے لن کی کھردری چمڑی نصرت کی پھدی کے ہونٹ تیزی سے مسل کر کاٹتی ہوئی نصرت کو نڈھال کرنے لگی جس سے نصرت تکلیف سے دوہری ہو کر نیچے دھنستی ہوئی اوپر کو آٹھ کر زور لگا کر ارڑا کر بکا جاتی میں نصرت کی تنگ پھدی میں مسلسل لن پھیرتا ہوا نصرت ہو چودتا نڈھال ہوتا جا رہا تھا نصرت کی پھدی کی گرمی میری ہمت توڑ رہی تھی جس سے میری سپیڈ بڑھنے لگی اور میں پیک پر پہنچ کر فل شدت سے دھکے مارتا لن تیزی سے نصرت کی پھدی میں آر پار کرتا نصرت کو بری طرح سے چیرنے لگا تھا جس سے نصرت کی پھدی کو میرے لن نے بچہ دانی تک رگڑ کر مسل دیا تھا مسلسل لن کی رگڑ سے نصرت کو پھدی میں جلن ہونے لگی جس سے نصرت تڑپ کر زور سے چختی ہوئی بکاٹ مارنے لگی کمرہ نصرت کے بکاٹ سے گونجنے لگا تھا نصرت کی پھدی میں لن کی رگڑ سے میں بھی انڈ پر تھا میں زور دار دھکے مارتا ہوا نصرت کو شدت سے چودنے لگا نصرت میرے دھکے برداشت نا کر پائی نصرت کی ہمت ٹوٹ گئی جس سے بکا کر اچھلی اور نصرت کی حال حال نکل گئی نصرت اپنے ہاتھ میرے سینے پر رکھ دبا کر مجھے دھکیل کر بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی وے میری پھدی پاٹ گئی مرجانیاں ہولی کر وے میں مردی پئی پائوں اوئے ہالیوئے اماں کدے گئی ہیں اوئے ہالیوئے اماں اس نوں ڈک اے میری جان کڈھ گیائی اوئے ہالنی اماں میں مر گئی میں بھی پیک پر پہنچ چکا تھا میں نصرت کو اگنور کیے پوری شدت سے لن کھینچ کر آخری دھکے امر کر نصرت کی پھدی کو چیر کر رکھ دیا تھا جس سے نصرت اچھل کر پوری شدت سے ارڑا کر بجائی اور اپنا سر ادھر ادھر مارتی ہوئی میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی اوئے ہال ہوئے افی تینوں واسطہ ہئی مینوں چھڈ دے میں مردی پئی آؤں تیرا لن میری پھدی پاڑ گیائی ہالنی اماں کدے گئی مینوں چھڑوا اے میری جان پیا کڈھدا آئی اوئے ہال ہوئے تینوں واسطہ ہئی مینوں چھڈ دے وے مرجانیاں میں رکے بغیر پوری شدت سے لن کھینچ کر نصرت کی پھدی میں آخری زوردار دھکا مار کر کرلا گیا نصرت بھی لن جڑ تک لے کر اچھل کر تڑپ گئی اور زوردار بکاٹ مار کر پیچھے سر کو دبا کر زور سے تڑپ کر لمبی بکاٹ مار کر منی کی دھار کس کر میرے لن پر مار کر تڑپنے لگی ساتھ ہی میں بھی کرلا کر ایک لمبی منی کی دھار نصرت کی پھدی میں مار کر بکا کر نصرت کے اوپر گر گیا نصرت کی پھدی نے میرے لن کو دبوچ کر کس لیا میں کرلا کر بکا کر نصرت کے اندر فارغ ہونے لگا نصرت بھی تڑپ کرلاتی ہوئی مجھے باہوں میں دبا کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں میں دبا کر چوستی ہوئی ہینگنے لگی نصرت کی کانپتی ٹانگیں نصرت کے کندھوں سے ملی ہوئی تھی جن پر میرا وزن پڑنے سے مزید دب گئی تھیں میں نصرت کی کی پھدی کو بھر رہا تھا کہ پیچھے سے پھر آنٹی دروازہ کھول کر اندر آگئی جو شاید نصرت کی حال حال سن کر اندر آئی تھی کہ دیکھوں تو سہی نصرت اتنی حال حال کیوں کر رہی ہے آنٹی جیسے ہی اندر آئی سامنے میرا لن آنٹی اپنی بیٹی کی پھدی میں جھٹکے مارتا فارغ ہوتا دیکھ کر رک گئی آنٹی میرے ٹٹوں کو اچھلتا ہوا منہ اپنی بیٹی کی پھدی میں پھینکتا دیکھ رہی تھی آنٹی کے سامنے نصرت کی پھدی بھی میرے لن کو دبوچ کر نچوڑ رہی تھی میں آگے نصرت کے اوپر پڑا نصرت کو چوس رہا تھا آنٹی مجھے اپنی بیٹی کے اوپر پڑا دیکھ رہی تھی نصرت کی ٹانگیں کانپتی ہوئی ہل رہی تھی میں دو منٹ تک نصرت کے اندر فارغ ہوتا رہا نصرت بھی میرے لن کو دبوچ کر اپنی پھدی میں نچوڑ کر ہانپنے لگی میں کچھ دیر ایسے ہی نصرت کے اوپر پڑا رہا اور نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا نصرت کو پیار کرنے لگا نصرت آنکھیں بند کیے مجھے چومتی ہوئی سسکتی ہانپنے لگی نصرت کی پھدی ابھی تک میرے لن کو دبوچ کر چوس رہی تھی نصرت کی پھدی کے ہونٹوں کی گرفت میرے لن پر ابھی تک تھی میں اوپر ہوکر نصرت کو چوم لیا نصرت سسک کر بولی افففف افی آج تے مار گھتیا تیرے لن بہوں وڈا لن اے تیرا میری تے پھدی نوں رگید کے رکھ دتا ہیس میں نے سسک کر نصرت کو دیکھا تو نصرت مجھے دیکھتی ہوئی کانپ رہی تھی میں بولا میری جان اے دس سواد آیا کہ نہیں نصرت بولی سچی گل اے تیرے لن اوکھا تے کیتا پر سواد وی بڑا دتا ہیس آج لگا ہے کہ میری گرمی سہی نکلی اے اگے تے گلشیر کولوں پھدی مرا کے من بھریندا ہی نا آج سہی من بھری گیا اے میں نیچے ہوکر نصرت کو چومنے لگا نصرت سسکتی ہوئی بولی افی ہنڑ تے پکی گل اے ناں نوشی نوں کینیڈا بھیجسیں گیا میں ہنس کر بولا میری جان انج سمجھ میرا لن تیری پھدی اچ گیا اودو تیرے بھرا دے کینیڈا دے ویزے تے مہر لگ گئی۔ نصرت ہنس دی اور بولی میں جانڑدی آں ہلے سہی مہر نہیں لگی میں بولا کی مطلب نصرت ہنس کر بولی افی توں بھلا صرف نصرت دی پھدی واسطے نوشی نوں کینیڈا لے جا رہیا ایں میں بولا ہور کی نصرت چپ سی ہو کر مسکراتی ہوئی میری آنکھوں میں دیکھنے لگی میں اسے دیکھ رہا تھا نصرت ابھی تک میرے نیچے دوہری پڑی تھی میرا لن اس کی پھدی میں جڑ تک اترا تھا جسے اس کی پھدی نے دبوچ رکھا تھا نصرت بولی کل مدثرہ گھر ہوسی میں اس نوں اکھساں سکول نا جاسی۔ میں نصرت کی بات سن کر ہنس پڑا نصرت بولی ہس نہیں سچی آکھ رہی آں میں نصرت کو بولا ایڈی جلدی کی ہے تینوں وہ بولی کیونکہ میں چاہندی آں کہ توں جتنی جلدی ہوسکے اپنے پیسے پورے کر لئے تے نوشی نوں جلد ہی کینیڈا بھیج دے میں ہنس پڑا اور بولا میری جان فکر کیوں کردی ایں میں ایڈوانس لئے کے کم کرن آلا نہیں تیری پھدی لئے کے کم شروع کیتا اے باقی پھدیاں نوشی نوں کینیڈا بھیج کے لیساں۔ نصرت ہنس دی اور بولی وے نہیں وے میں تے تینوں ایڈوانس پھدیاں دینیاں ہین اپنی بھیناں دیاں تاکہ ویزے اچ کوئی رکاوٹ نا ہووے میں ہنسدیا اور بولا فی الحال تیری پھدی دا رس تے چنگی طرح پی لواں پہلے تیری پھدی چنگی طرح مار کے تینوں حاملہ کرساں وت کسے ہور بارے سوچساں نصرت مسکرا کر بولی او کیوں میں بولا تاکہ میرا لن صرف تیری ہی پھدی اچ جا کے تیرے بچے نوں پوری طاقت دیوے جے ہور پھدیاں اچ جاوے تے تیرے بچے نوں پورا مال نہیں بننا نصرت مسکرا دی اور میرا لن دبوچ کر بولی وے تیرا لن تے ہلے وی اٹ آر اے میں بولا کی خیال اے ہک پھیرا ہور ہو جاوے وہ بولی وے بس کر آگے ہی بہوں ڈھاڈھا یدھا ہئی قسمیں پھدی ہی ساڑ دتی ہئی تھک گئی آں ہنڑ میری تے پسلیاں فی پیڑ کڈھ دتی تیرے لن میں مسکرا کر بولا نصرت توں تے ٹھہو تھک گئی ہیں نصرت بولی آج پہلی واری ترکڑے لن کولو یہا اے ہولی ہولی اپنا راہ بنا جاسی آج پہلی واری ہا نا آج توں صبر کر جا میں پیچھے ہوکر نصرت کی پھدی سے لن کھینچ لیا جو پچ کی آواز سے نصرت کی پھدی سے نکل گیا نصرت لن نکلتے ہی کرلا کر کراہ کر سر پیچھے دبا کر ہانپتی ہوئی بکا سی گئی نصرت کی پھدی سے لن نکلتے ہی بند کھلتی ہوئی پچ پچ کی آوازیں دینے لگی نصرت اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر دوہری ہوکر بولی اوئے ہالنی اماں میں مر گئی افففففففف سسسسسئیئییییی میرااااا ہااااااں ہی چیری گیا وے ظالما آج تے ظلم کیتا ہئی اففففففف ہائئئئئے اماااااااں۔ میں مر جاواں ہالنی امااااااں میں کدے جاووااااں۔ اففففففف سسسسیییی کرتی نصرت اپنا سینہ دباتی ہوئی اپنی ٹانگیں دوہری کرکے اپنے گھٹنے اپنے سینے سے ملا کر تڑپنے لگی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا نصرت دہوری ہو کر لیٹ گئی نصرت کی پھدی صاف نظر آنے لگی میرے لن کی رگڑ سے نصرت کی پھدی کے ہونٹ لال ہوکر اندر باہر ہورہے تھے میں نصرت کے پیچھے لیٹ گیا اور نصرت کو پیچھے سے اپنے سینے سے لگا کر نصرت کی گال کو کس کر چوسنے لگا نصرت آہیں بھرتی میرا ساتھ دینے لگی میں نصرت کی گال کو دبا کر چوستا ہوا نصرت کی نرم گال پر زبان پھیرنے لگا نصرت بھی سسکتی ہوئی انجوائے کرنے لگی میں نصرت کے ممے دباتا ہوا نصرت کی گال کو چوس کر مزے لینے لگا نصرت سسک کر بولی افی گلشیر دا کی کرنا اے میں بولا میں آج ہی اس نوں ملدا آں تے اس نوں منا لیساں وہ بولا او تے ٹھیک اے پر اسدا لن اٹھدا رے اٹھا پی ہوئی نہیں اس اچ مینوں یہن دی کوئی ہمت نہیں تے تیرا بچہ میں پیدا کرساں تے وت تے رولا پئے جاسی میں بولا تے وت نصرت بولی افی بچہ تے تیرا ہی ہونا پر گلشیر دا لن وی تے اندر جانا چاہیے دا تاکہ او وی مطمئن رہوے کے میرا بچہ اے نہیں تے اس نوں پتا لگ جانا کہ اے کسے ہور دا بچہ اے میں بولا میری جان توں پریشان کیوں ہوندی ایں اور وی حل کڈھ لواں گے اسدا ہک حکیم نوں جانندا آں او ہک ایسی دوائی دیندا اے کہ جس نال لن وقتی۔کھڑا ہوجاندا اے تیرا کم کر دیسی گیا نصرت میری بات سے مطمئن ہو گئی اور میرے ہونٹ منہ میں بھر کر چوسنے لگی میں نصرت کی زبان ہو کھینچ کر چوستا ہوا بولا نصرت کی موڈ اے ہنڑ گنجائش ہے کہ نہیں نصرت بولی افی ہنڑ ہمت نہیں تیرا لن لینڑ تے اگے ہی میری پھدی چیر کے رکھ دتی ہیس مسیں ودی آں پسلیاں پیڑ پیاں کردیاں ہنڑ تے کمر نوں وی درد ہونٹ پگ پئی میں بولا چلو آج واسطے اتنا کافی اے میں نصرت کے ہونٹوں کو چوسنے لگا نصرت میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی میری زبان کھینچ کر چوسنی لگی اتنے میں اندر انٹی آئی اور ہمیں ایک دوسرے کی باہوں میں پیار کرتا دیکھ کر مسکرا گئی آنٹی کے آنے پر ہم رکے نہیں اور ایک دوسرے کو چومتے رہے نصرت کی اب کچھ جھجھک اتر چکی تھی آنٹی پاس آکر بولی نصرت فری ہوگئے ہو میں نصرت کے ہونٹوں کو چھوڑ کر مسکرا کر بولا آنٹی میرا تے ہلے بڑا دل ہا پر تیری دھی تھک گئی آنٹی مسکرا میرے لن کو دیکھ کر بولی افی تیرا ہتھیار وی تے چنگا ترکڑا اے نصرت تے اتنا ہی بڑا اے دو واری تے پھدی مروا لئی ہیس اے وی بڑا ہیس میں ہنس دیا آنٹی بولی نصرت ہک مسئلہ خراب ہو گیا اے پر توں اس نوں سنبھال سگدی ایں نصرت تھوڑی گھبرا سی گئی میں بولا خیر تے ہے آنٹی بولی افی خیر ہی ہے بس نوشی گھر آگیا اے تے اس اپنی بھین نصرت نوں تیرے کولو پھدی مری دیاں ویکھ لیا ہے تے او ہنڑ مچھریا بیٹھا نصرت یہ سن کر اچھل کر اٹھ گئی اور گھبرا کر نی اماں اے تے رڑا ہوگیا توں کدے ہائیں اس ویلے اس نوں اندر آوںڑ کیوں دتا آنٹی بولی میں ایتھے ہی ہاس پتا ہی نہیں لگا جس ٹائم افی تیری پھدی نوں رگڑ کے تیری حال حال کڈھ رہیا ہا اس ٹائم ہی او آیا تے تیری حال حال سن کے کمرے اچ ہی آگیا آگو اپنی تینوں اس حالت اچ افی نال ویکھ لیا ہاس نصرت گھبرا سی گئی اور بولی امی کجھ آکھیا تے نسو آنٹی بولی آکھنا کی ہیس بس کردا پیا اے اندر کمرے اچ بیٹھا پریشان تو میں بھی ہوگیا کہ پتا نہیں وہ کیا کہے گا اب آنٹی مجھے چپ دیکھ کر بولی افی توں پریشان نا ہو کجھ نہیں ہوندا نصرت بولی امی پریشانی آلی گل تے ہے نا آنٹی بولی توں آجا اس نوں سمجھا توں اسدی وڈی بھین ایں تینوں کجھ نہیں آکھدا توں اس نوں اپنی مجبوری دس تے اس نوں سمجھا کہ اے کیوں ضروری ہا نصرت بولی امی میں اس نوں کس منہ اکھساں اے سب میں بولا نصرت توں کوشش کر تے وت میں وی سانوں سمجھیساں گیا نصرت بولی توں کوشش کر جلدی ہی اس نوں باہر بھیج دے نہیں تے اس رولا پائی ہی رکھنا آخر اسی اسدیاں بھیناں ہاں اس دی غیرت اے گوارا کردی کہ اسدیاں بھیناں غیر مرد کول سون میں بولا چلو میں ٹرائی کردا آنٹی بولی سانوں سمجھا نصرت بیڈ سے اتری تو کراہ کر اپنی کمر پکڑ کر سسکنے لگی میرے لن کی تازہ تازہ چدائی نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا اسکی کمر دکھ رہی تھی نصرت سسکتی ہوئی کراہ کر اپنے کپڑے ڈال کر آنٹی کے ساتھ باہر نکل گئی میں کچھ دیر لیٹا رہا اور پھر شلوار ڈال کر باہر نکلا تو کوئی نہیں تھا میں سمجھ گیا کہ دونوں ماں بیٹیاں نوشی کو سمجھا رہی ہیں میں واشروم میں چلا گیا واشروم سے نکلا تو نصرت اور اس کا چھوٹا بھائی رافع بھی اسی کمرے سے نکل رہے تھے میری نظر نصرت سے ملی تو نصرت کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر میں بھی مطمئن ہو گیا کہ بات بن گئی ہے اس نے اپنے بھائیوں کو قابو کرہی لیا ہے نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں بھی نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا اور اشارے سے پوچھا کہ کیا بنا نصرت نے اشارے سے سب اچھا ہے کی نوید سنائی میں نے اس کو کمرے میں آنے کا اشارہ کیا وہ سمجھ گئی اور ہاں میں سر ہلا کر کمرے کی طرف چل پڑی میں مسکرا کر اس کے بھائی رافع کو دیکھا تو وہ میرے اور اپنی بہن نصرت کو مسکراتا دیکھ رہا تھا میری اس سے نظر ملی تو وہ اپنی بہن اور میرے درمیان اشاروں کی بات سمجھ گیا تھا اس نے نظر چرا کر سر جھکا لیا اسے بھی پتا تھا کہ اسکی بہن کا میں آج سے یار ہوں وہ اپنی بہن کو میرے ساتھ کمرے میں جاتا دیکھ رہا تھا میں اندر کمرے میں چلا گیا نصرت نے ہا سا دروازہ بند کردیا میں نے قمیض نہیں ڈالا تھا میں صرف شلوار میں تھا میرا جسم ننگا تھا میں نصرت سے پہلے اندر پہنچ گیا تھا نصرت جیسے ہی اندر آئی میں نے نصرت کو باہوں میں بھر کر سینے سے لگا لیا نصرت بھی میری باہوں میں آگئی میں نصرت کے ہونٹوں کو چوم کر نصرت کی گال کو منہ میں بھر کر چوس لیا نصرت بولی میری جان ہنڑ بس وی کر چا آگے میرے بھرا مینوں تیرے کولو یہیندیاں ویکھ کر بڑے تپے پئے ہینڑ میں ہنس دیا اور بولا مینوں تے لگ گیا توں اپنے گھروں نوں قابو کر ہی لیا اے نصرت مسکرا کر میرے ہونٹ چوم کر بولی اتنا پیار کرن آلا یار ملے تے فر اس واسطے بھراواں نوں وی سمجھانا ہوندا میں مسکرا کر بولا وت گل بنی کے نہیں نصرت میری باہوں میں تھی نصرت بھی مجھے اپنی باہوں میں دبا کر بولی منا لیا ہے میں مینوں اپنے بھراواں دا پتا اے او بڑی جلدی من جاندے میں بولا کوئی اعتراض تے نہیں ہن اوہناں نوں نصرت بولی ہک واری تے ٹھڈے کر آئی آں بعد دا پتا نہیں میں ہنس کر بولی بھرا نوں وی ٹھڈا کر آئی ایں نصرت میری بات پر چونک گئی اور میری گال پر ہلکا سا تھپڑ مار کر بولی بکواس ناکر بھرا ہئے میرا میں ہنس دیا اور بولا بھرا ہے تے کی ہے ہک مرد وی اے نصرت نے شرم سے میری آنکھوں میں دیکھا اور بولی بک بک نا کر میں ہنس دیا اور نصرت کو چومنے لگا نصرت میرے ہونٹ چوم کر بولی افی میں کجھ سمجھا تے دتا اے کجھ توں وی سمجھا دیویں میں نصرت کو اپنی طرف کھینچ کر بیڈ پر بیٹھ گیا اور اور نصرت کو کھینچ کر اپنی جھولی میں بھر لیا نصرت خود ہی اٹھ کر میری طرف منہ کر کے میری جھولی میں بیٹھ گئی نصرت کے ممے میرے سینے میں چبھنے لگے میرا لن تن کر نصرت کی پھدی پر دب گیا نصرت نے اپنی ٹانگیں میری کمر میں ولیٹ کر مجھے دبوچ لیا اور میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی میری گردن میں ہاتھ ڈال کر میرے ہونٹ کس کر میری زبان کھینچ کر چوسنے لگی میرا لن تن کر نصرت کی پھدی کی گرمی سے نڈھال ہو رہا تھا نصرت کی پھدی کو چود کر تو میرے اندر اور گرمی بھر چکی تھی نصرت گانڈ اٹھا کر ہلکے ہلکے دھکے مارتا میرا لن اپنی پھدی پر رگڑنے لگی جس سے مجھے بھی مزہ آنے لگا میں مزے سے سسک کر کراہنے لگا نصرت بھی کراہتی ہوئی میری زبان کھینچ کر چوسنے لگی نصرت اور میری آہوں سے کمرہ گونجنے لگا اسی دوران نصرت کا بھائی نوشی شاید نصرت کو ڈھونڈتا ہوا اندر آگیا اسے پتا نہیں تھا کہ نصرت میرے ساتھ ہے جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا تو سامنے اس کی بہن نصرت میری جھولی میں بیٹھ کر مجھے باہوں میں بھر کر دبوچ کر میرے ہونٹ اور زبان چوستی اپنی گانڈ ہلا کر سسک کر آہیں بھر رہی تھی نوشی اپنی بہن کو میری جھولی میں بیٹھ کر اپنی ہلکی ہلکی گانڈ ہلاتا دیکھ کر مجھے چومتا دیکھ چونک کر وہیں رک سا گیا اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بہن نصرت غیر مرد کی جھولی میں بیٹھی اسکو اپنے سینے سے دبوچ کر سسک رہی تھی نوشی یہ دیکھ کر چونک سا گیا میں نصرت کی مدہوشی میں مگن تھا مجھے ایک لمحے کےلیے نوشی کا سایہ نظر آیا نوشی اپنی بہن کو میرے ساتھ پیار کرتا دیکھ کر مڑ گیا اور باہر نکل کر اپنی بہن کو آواز لگائی جس کو سن کر نصرت چونک کر مجھ سے الگ ہوئی اور میری جھولی سے پیچھے اتر کر ہنس دی اور بولی بھائی وی نا آج لگدا میری جان لئے کے رہسی اور میری جھولی سے اٹھ کر اپنا منہ صاف کرکے باہر چلی گئی میں سسک کر پیچھے لڑھک گیا میرا لن تن کر کھڑا تھا میں لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں کچھ دیر بعد نصرت دروازہ کھول کر اندر آگئی میری شلوار میں ٹینٹ بنا تھا نصرت مجھے لیٹا دیکھ کر میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور میرے لن کو دیکھ کر بولا افففف افی تیرا ہتھیار تے بہوں گرم اے ہر ویلے کھلوتا ہی رہندا میں ہنس دیا اور نصرت کو اپنی طرف کھینچ لیا نصرت میری طرف خود ہی کھینچتی چلی آئی اور میرے اوپر جھک کر میرے ہونٹ چومنے لگی میں اپنا نالا کھول کر اپنا کہنی جتنا لن باہر نکال کر بولا جناب اس ہن تیری پھدی دا ذائقہ چکھ لیا ہے ہنڑ اے تھلے نہیں باہندا نصرت ہنس کر بولی ہک واری تے میری پھدی دا ستیاناس کڈھ دتا ہیس آج گنجائش کوئی نہیں میں مسکرا کر بولا وت ہک چوپا ہی مار دے میں ابھی یہ بات کر ہی رہا تھا کہ رافع دروازہ کھول کر اندر آیا تو سامنے اپنی بہن کو میرے اوپر جھکا دیکھ کر رک گیا اسی لمحے نصرت میرے ننگے کہنی جتنے لمبے کھڑے لن پر ہاتھ رکھ کر بولی میری جان نوں چوپا مار دیندی آں میرا چوپا تینوں میری پھدی نالو وی ڈھیر سواد دیسی اور نیچے ہوکر اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹ سے ملا کر چومنے لگی رافع جیسے ہی اندر آیا تو اپنی بہن کی یہ بات اس نے بھی ان لی اور اپنی بہن کو میرا ننگا لن پکڑ کر میرے ہونٹ چوستا دیکھ لیا دروازہ کھلنے سے نصرت بھی چونک کر اوپر ہو کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں اس کا بھائی اس کے ہاتھ میں میرا ننگا لن دیکھ رہا تھا نصرت کا ہاتھ اس کے بھائی کے سامنے میرے لن سے بھرا ہوا تھا نصرت کی نظر اپنے بھائی سے ملی تو اس نے چونک کر میرا لن جلدی سے چھوڑ دیا اور میری شلوار اوپر کر میرا لن ڈھانپ کر بولی رافع کی گل اے رافع چونکا اور اپنی بہن کی طرف سرخ منہ دیکھ کر شرمندہ سا ہوگیا رافع نے گھونٹ بھر کر کہا باجی بھائی آکھ رہیا اے جس ویلے فری ہو جاویں آکے اسدی گل سنی اور جلدی سے دروازہ بند کر کے نکل گیا نصرت نے گھوم کر مجھے دیکھا اور ہنس دی میں بھی ہنس دیا نصرت بولی تینوں وی ہنڑ انج چھڈ کے نہیں جا سگدی میں بولا کوئی ضروری کم ہے تے کر آ وت تیرے بھرا نا آکھیں کہ ساڈی بھین نوں ونجا کیا ہیس سادے کم وی نہیں کردی نصرت ہنس کر بولی ہنڑ ضروری توں ہی ہیں میری جان ناکے او آپ ویکھ تے گیا اے کہ میں تیرے لن نوں سکون دیون اب مصروف آں میں نصرت کی بات سن کر ہنس دیا نصرت تو پہلے دن ہی کافی کھل چکی نصرت نے میرا لن نکالا اور ہاتھ میں بھر کر مسلا میں سسک کر کرلا گیا نصرت کا نرم ہاتھ مجھے نڈھال کر گیا میں کانپ گیا نصرت نے منہ نیچے کیا اور میرے لن کا ٹوپہ چوم لیا میں سسک گیا نصرت نے زبان نکال کر میرے لن کو چاٹ لیا میری زوردار کراہ نکل گئی میں سسک کر کانپتا ہوا نصرت کو دیکھنے لگا نصرت میرے لن کو مسلتی ہوئی چاٹنے لگی میں کرلا کر کرا گیا نصرت میرے لن کو اچھی طرح چاٹ کر منہ کھولا اور میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے میں سسک کر کرلا گیا نصرت کے ہونٹوں کی گرفت میری جان نکالنے لگی نصرت کے نرم ہونٹوں نے مجھے نڈھال کر دیا نصرت نے ہونٹ دبا کر میرے لن کو چوس کیا جس سے نصرت کی بھی کراہ نکل گئی نصرت نے اپنے ہونٹوں میرے لن پر دبا کر کس کر چوپا مارا جس سے نصرت کے نرم ہونٹوں کی رگڑ نے میری جان کھینچ لی میں نے کرلاٹ ماری اور ہانپتا ہوا نیچے سے اوپر اٹھ گیا میں نصرت کے چوپے کو برداشت نا کر پایا نصرت نے رکے بغیر میرا لن اپنے ہونٹوں کی گرفت میں دبا کر کس کر چوپے مارنے لگی نصرت میرے لن کو منہ میں کے کر مزے سے نڈھال ہوگئی تھی جس سے وہ بھی بے قابو ہوکر اپنے ہونٹوں میرے لن پر دبا کر کس کر تیز تیز چوپے مارتی اپنا منہ میرے لن پر اوپر نیچے کرتی تیز تیز چوپے مارنے لگی میں نصرت کے نرم ہونٹوں کی رگڑ کے سامنے ہمت ہار گیا میری کراہیں نکل گئی۔ اور میں نیچے اوپر اٹھ کر نصرت کے منہ میں لن دبانے لگا نصرت ہانپتی ہوئی مزے سے غرا کر تیز تیز چوپے مارتی میرا لن چوس رہی تھی اسی لمحے دروازہ پھر کھلا اور نوشی اندر آگیا سامنے اس کی بہن میرے لن پر جھکی میرا لن اپنے ہونٹوں میں دبا کر کس کر چوپے مارتا ہینگ رہی تھی میں اس کی بہن کے چوپوں کو برداشت نا کر پایا اور اسی لمحے جب نوشی اندر آیا کرلا کر غرایا اور گانڈ اٹھا کر لن نصرت کے منہ میں مارا نصرت اپنے بھائی کے سامنے تیزی سے میرے لن کو چوپے مار کر چوس رہی تھی میرے لن کو اپنی بہن کے منہ دیکھ کر نوشی رک گیا اپنی بہن کو میرا لن ہونٹوں میں دبا کر تیز تیز چوپے مار کر ہینگتا دیکھنے لگا وہ اپنی بہن کی ہینگ صاف سن رہا تھا اسی لمحے میری ہمت بھی ٹوٹ گئی اور میں نے غرا کر جھٹکا مار کر ایک لمبی منی کی دھار نصرت کے گلے میں ماری جس سے نصرت کا گلہ بھر گیا نوشی اپنی بہن کے منہ میں میرا کھٹکا دیکھ کر چونک گیا نصرت کا گلہ میری منی سے بھر گیا جس سے نصرت کا سانس بند ہونے لگا تو نصرت نے رک کر اپنا سانس بحال کیا اور میری منی اکھٹی کرکے گھونٹ بھر کر میری ساری منی پی گئی غڑپ کی آواز سے ساری منی نصرت کے پیٹ میں چلی گئی نصرت کے بھائی نے بھی غڑپ کی آواز سن کی تھی وہ سمجھ گیا کہ اس کی بہن نے میری منی پی لی ہے منی جیسے ہی نصرت کے اندر اتری جس سے نصرت مزے سے مچل گئی نصرت کے سینے سے ایک مزے سے بھرپور غراہٹ نکلی جیسے شیرنی دھاڑ رہی ہو نصرت ہو منی پی کر اتنا مزہ آیا تھا اس کا بھائی اس کی مزے سے بھرپور دھاڑ سن رہا تھا میری منی اتنی زیادہ تھی کہ نصرت منہ میں سنبھال نا پائی جو کچھ اسی کی باچھوں سے بہنے لگی نوشی میرے لن سے بھرے اپنی بہن کے منہ سے منہ نکلتا دیکھ لیا اسے یقین ہوگیا کہ نصرت میری منی پی گئی نصرت نے لن تھوڑا باہر نکالا اور میرے میرے ٹوپے کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا تاکہ اندر منی کے ٹھہرنے کی جگہ بن جائے نصرت کے ہونٹوں کی گرفت نے میری منی کھینچ لی میں نے کرلا کر ایک اور جھٹکا مارا جس نے نصرت کا گلہ بھر دیا جس کو نصرت نے دبا کر پی لیا نصرت کا بھائی اپنی بہن کے منہ میں میرا منی چھوڑتا لن دیکھ رہا تھا نصرت کا سر منی چوس کر کانپنے لگا نوشی کی آنکھوں کے سامنے میرے ٹٹے اچھل اچھل کر اسی کی بہن کے منہ میں منی پھینک رہے تھے جسے اس کی بہن نچوڑ کر چوس کر پی رہی تھی نوشی اپنی بہن کے منہ میں میرا جھٹکے مار کر منہ چھوڑتا لن دیکھ رہا تھا نصرت منی پی کر مزے سے بے حال ہورہی تھی اسنے پہلی بار کسی مرد کی منی پی تھی جس سے وہ بے قابو سی ہوگئی اسکے اندر آگ سی لگ گئی نصرت میرا لن منہ میں دبا کر کس کر تیز تیز سانس لیتی ہانپنے لگی نصرت کا سانس تیز ہوگیا تھا نصرت میرے لن کو دبوچ کر چوستی ہوئی خالی کر چکی تھی نصرت کا مزہ سے برا حال تھا نصرت میرے لن کو دبا کر تیز تیز سانس لیتی ہینگتی ہوئی پھنکارنے لگی تھی نصرت کا ناک تیزی سے کھلتا بند ہوتا شوں شوں کرنے لگا نصرت سپنی کی طرح میرا لن چوس کر نچوڑتی ہوئی پھنکارنے لگی تھی نصرت کے پھنکارنے اور ہینگنے سے کمرہ گونجنے لگا تھا نصرت کا بھائی اپنی بہن کو پھنکارتا اور ہینگتا ہوا دیکھ رہا تھا میرا لن نصرت نچوڑ کر خالی کر چکی تھی پر نصرت کا دل نہیں بھرا تھا نصرت میرے لن کو ہونٹوں میں دبا کر چوستی ہوئی اسی طرح پھنکار رہی تھی نصرت کا سانس تیز چلنے لگا تھا میرے لن سے بھرے نصرت کے منہ پر ناک میں کوکا اچھل کر قیامت ڈھا رہا تھا میں مزے سے تڑپ رہا تھا ہم دونوں اتنے مگن تھے ہمیں نوشی کا پتا نہیں تھا نوشی کو بھی پتا چل گیا تھا اسی کی بہن نے مجھے فارغ کر کے میری منی پی لی ہے اب وہ فری ہے نوشی بولی باجی فری ہوگئی ایں نوشی کی ابت سن کر ہم دونوں چونک گئی نصرت اپنے بھائی کی آواز سن کر جلدی سے میرا لن پچ کی آواز سے چھوڑ کر اوپر ہوکر ہانپتی ہوئی نوشی کو دیکھنے لگی نوشی کی نظر اپنی بہن کے منہ سے نکلتے میرے لن پر تھی میرے لن پر اپنی بہن کے منہ کا تھوک دیکھ کر وہ اپنی بہن کو دیکھ کر بولا باجی فری ہو گئی ایں تے ہک گل سن میری آکے اور نکل گیا میں بھی نوشی کو دیکھ کر چونک گیا تھا میں نے نوشی کو دیکھا تو اس کے چہرے پر شرمندگی تھی وہ اپنی بہن کو ہوں سرعام غیر مرد کا لن چوس کر شرمندہ تھا نصرت نے ہانپتے ہوئے مجھے دیکھا اور ہنس کر بولی لگدا میرے بھراواں نوں وی تیرے نال پن پھدی کھیڈنا چنگا لگدا اے میں ہنس دیا نصرت مسکرا کر اوپر ہوئی تو نصرت کے ہونٹوں پر میری سفید منی لگی ہوئی نظر آرہی تھی نصرت اٹھ کر جانے لگی میں ہنس دیا میں کچھ دیر لیٹا رہا اور پھر اٹھ کر واشروم چلا گیا میں واشروم سے نکلا تو سامنے نصرت اپنے بھائی کے پاس بیٹھی تھی میں ہنس دیا نصرت مجھے دیکھ کر ہنس دی میں بھی اسے دیکھ کر مسکرا کر نوشی کو دیکھا تو وہ مجھے دیکھ رہا تھا اس نے نظر چرا لی اور اپنی بہن کو دیکھنے لگا جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی میرا جسم ننگا تھا نصرت مدہوشی سے مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی جبکہ اس کا بھائی اس کے ہونٹوں پر لگی میری منی کو دیکھ رہا تھا میں نے مسکرا کر نصرت کو اشارہ کیا اور اپنی زبان نکال کر اپنے ہونٹوں پر پھیر کر اسے منی ک بتایا وہ سمجھ گئی اور اپنے بھائی کے سامنے زبان نکال کر اپنے ہونٹوں پر لگی منی منی چاٹ کر منہ میں اتار گئی اس کا بھائی اسے دیکھ رہا تھا میں اندر گیا اور قمیض ڈالنے لگا اتنے میں نصرت اندر آئی اور مجھے باہوں میں بھر کر بولی افی نوشی پچھ رہیا اے اپنے کم دا میں مسکرا کر نصرت کو چومنے لگا اور بولا میری جان توں ویزے دی فیس دے نہیں چھڈی ہنڑ کم شروع کر دیندے آں توں سانوں آکھ میرے نال شہر چلے آج تو کم شروع کردی دے آں اور نصرت کو باہوں میں دبا کر چومنے لگا میں اور نصرت کچھ دیر ایک دوسرے کو چومتے رہے اتنے میں نوشی پھر اندر آیا اور میری باہوں میں نصرت کو دیکھ کیا میں اسکی بہن کو چوم رہا تھا نوشی کے اندر آنے پر میں نے نصرت کو چھوڑ دیا نصرت اپنے بھائی کے سامنے خود کو میری باہوں میں پاکر ایک لمحے کےلئے شرما سی گئی پھر وہ نارمل ہوکر نوشی سے بولی نوشی افی آکھ رہیا اے کہ اس نال شہر جا کے ویزے دا کم شروع کردیے توں تیار ہوکے اس نال جا اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی نوشی ہمیں ہی دیکھ رہا تھا اسکی بہن نصرت کا ایک ہاتھ ابھی بھی میرے ہاتھ میں تھا جو وہ دیکھ رہا تھا نصرت میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی افی میرے بھرا دا کم ہنڑ جلدی ہو جانڑا چاہیے دا میں ہنس کر بولا جناب تساں آکھ دتا اے ہنڑ نہیں کردا یہ کہ کر میں نے نوشی کو دیکھا اور بولا چلیے فر وہ بولا چلو میں نصرت کے ساتھ ہی باہر نکلا نوشی بھی کچھ ضروری کاغذات کے کر آگیا میں نے اس کے سامنے ہی نصرت کو ایک فرنچ کس کی جسے وہ بھی دیکھ رہا تھا وہ دیکھ کر نکل گیا تو نصرت بولی وے کیوں میرے بھراواں نوں شرمندہ کردا میرے بھراواں دے سامنے مینوں نا بنیا کر میں بولا میری جان اسدا فائیدہ وی تے اوہناں ہی لیناں نصرت ہنس کر بولی صرف اوہناں نا فائیدہ لیناں توں وی تے سواد لینا نہیں میں بولا میں سواد لینا تے اسے سواد دا بچہ توں وی جمنا نصرت ہنس دی اور بولی ہر گل دا جواب اے تیرے کول ہلا جا نوشی جڑ آکھسی کہ رجدا ہی نہوں میں ہسن کر نصرت کو ایک کس کر فرنچ کس کی اور باہر نکل آیا میں باہر نکلا تو سامنے نوشی کھڑا تھا مجھے دیکھ کر منہ نیچے کر گیا میں نے گاڑی کو اور ہم اندر بیٹھ گئے اندر کچھ دیر تو سناٹا رہا میں پھر بولا نوشی پریشان نا ہو اے وی ضروری ہا۔ گھر دی گل اے میں گھر اچ رکھساں کسے نوں نہیں دسدا پریشان نا ہو وہ بولا سہی اے جیویں باجی تے تینوں بہتر لگے میں بولا تینوں تے پتا اے گلشیر تیرہ بھین نوں طلاق دے رہیا اے کہ پتر نہیں جم سگدی جبکہ او آپ ہی نا مرد اے تے نصرت اگر طلاق لل لئی تے بے سہارا ہوا جاسی انج سمجھ کہ اس نوں سہارا دے رہیا آں اگر ساڈی تھوڑی جئی قربانی توں اسدا گھر بچ جاوے تے کوئی مسئلہ نہیں نوشی سامنے دیکھ کر بولا ہاں سہی اے مینوں تے کوئی اعتراض نہیں ویسے وی باجی نوں ضرورت ہا کسے سہارے دی میں بولا توں فکر نا کر میں ہاں نصرت نوں پورا مطمئن وی رکھساں تے اسدا گھر وی نہیں خراب ہونٹ دیندا نوشی چپ سا ہوکر کچھ سوچنے لگا میں اسے چپ دیکھ کر بولا نوشی کی گل اے تینوں اے سب اچھا نہیں لگا ویکھ نوشی گھر دی دل گھر گھر اچ ہی حل ہوجاوے تے او بہتر اے مینوں وی پتا اے کہ نصرت تیری بھین اے تیری عزت اے میں اس کم اچ پوری احتیاط کرساں کسے نوں بھنک وی نا پوسی جتنی تینوں تیری عزت پیاری اتنی مینوں وی پیاری اے نوشی میری بات مسکرا کر بولا نہیں بھائی اے گل نہیں مینوں وی پتا ہے کہ توں سادے واسطے مخلص ہیں تینوں وی ساڈی عزت دا خیال اے توں راز نوں راز ہی رکھسیں اے مینو پتا ہے میں تے انج ہی سمجھ اسدے حق اچ ہاں تیرے تے باجی نصرت دے نال آں اس کم اچ بس ہک ہور گل اے میں بولا او کی ہے توں مینوں دس کی مسئلہ اے نوشی بولا یار تینوں پتا اے گھر اچ ساریاں ہی لڑکیاں ہین مدثرہ تے ماہم دی وی شادی نہیں ہوئی پچھو باجی دی دھیاں وی جوان ہین میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا اور بولا نوشی توں پریشان کیوں ہوندا ایں وہ بولا پریشان نہیں بس ڈر لگا رہندا اے اوہناں نوں ہنڑ شادی دی بڑی لوڑ اے اگر او اپنے آپ تے قابو نا رکھ سگیاں کوئی ایو جہیا کم نا کر لینڑ جس تو بدنامی ہوجاوے تے ساری عزت مٹی اچ مل جانی وہ خاموش ہوگیا میں اسے خاموش دیکھ کر بولا نوشی فکر نا کر کجھ سوچ لیندے آں اوہنا دے بارے وی وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا افی بھائی ہک ریکوسٹ ہور وی اے میں بولا میری جان حکم کر وہ منہ نیچے کرکے شرمندہ سا ہوکر بولا یار توں اتنا کجھ جے کر رہیا ایں باجی نصرت واسطے اسدا اتنا خیال کر رہیاں تے جدو تک باجی مدثرہ تے باجی ماہم دی شادی دا کوئی سین نہیں بنڑدا توں اوہنا دا وی خیال رکھی رکھ میں نے چونک کر نوشی کو دیکھا جو منہ نیچے کرکے بیٹھا تھا میں حیران رہ گیا کہ نوشی خود اپنی بہنوں کو مجھے پیش کر رہا ہے میں اس بات پر اسے دیکھا اس نے مجھے چپ دیکھ کر کہا افی بھائی توں گھر دا بندہ ایں تینوں ہی آکھ رہیا آں ورنہ انج کوئی اپنی عزت دے بارے کسے نوں آکھدا اے مینوں تیرے تے پورا یقین اے توں میری عزت دی حفاظت وی کرسیں تے میری بھیناں نوں مطمئن وی رکھسیں نوشی کی بات سن کے میرے اندر تو لڈو پھوٹ رہے تھے میں اسے دیکھ رہا تھا کہ یہ کیسی باتیں کر رہا ہے میں نے حیرانی کا اظہار کیا یہ ضروری بھی تھا کیونکہ اسے یہ پتا نا چلنے دینا تھا کہ میری تو پہلے ہی مدثرہ کے ساتھ گپ ہے میں اس بات پر نا مانا تو وہ مجھے قائل کر ہی گیا میں نے ہونا ہی تھا ہم شہر پہنچ گئے کچھ ضروری ڈاکومنٹس بنوا کر کینیڈا دوست سے رابطہ کیا او کو ڈاکو مونٹس بھیجے اس نے کہا جلد ہی کام ہو جائے گا شام کو گھر آئے راستے میں گلشیر مل گیا اس سے دعا سلام ہوئی تو وہ بھی بڑا خوش ہوا وہ لگ تو زیادہ بوڑھا نہیں تھا پر تھا بےکار ہی اس لیے تو نصرت میرے ساتھ سیٹ تھی میں اس سے باتوں باتوں میں بات چھیڑی تو اس نے بھی نصرت کے ساتھ صلح کی خواہش کا اظہار کیا مجھے اب لیٹ ہو رہی تھی میں صبح آنے کا اور اس سے ملنے کا کہ کر نوشی کو چھوڑ کر چلا آیا آج کافی تھک گیا تھا بڑے دنوں بعد پھدی ملی تھی اس لیے طبیعت بڑی خوش تھی میں جلد ہی سو گیا صبح اٹھا اور نہا دھو کر فریش ہوکر سیدھا نصرت کے گھر چلا گیا میں گھر گیا تو آنٹی جھاڑو دے رہی تھی مجھے دیکھ کر وہ مجھ سے ملی آنٹی نے مجھے کہا کہ نوشی دس رہیا ہا گلشیر ملیا میں نے آنٹی کو خوشخبری سنائی کہ وہ بھی تیار ہے صلح کےلئے آںٹی مسکرا کر بولی وت تے چنگی گل اے صلح تو پہلے پہلے نصرت دی بچہ دانی بھر دے اپنی منی نال میں اور آنٹی ہنس پڑے آنٹی بولی نصرت کیچن اچ اے میں مسکرا کر کیچن میں چلا گیا نصرت سنک پر کھڑی برتن دھو رہی تھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی نصرت نے آج کسا ہوا لباس ڈال رکھا تھا نصرت کا انگ انگ باہر کو نکل رہا تھا نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے پیچھے جو لٹکی گت تباہی مچا رہی تھی مجھ سے رہا نا گیا میں نصرت کو پیچھے سے جپھی میں بھر کر سینے سے لگا کر چوسنے لگا نصرت سسک کر میرے سینے سے آلگی اور میرے ہونٹ چوسنے لگی میں آج پیٹ شرٹ میں تھا نصرت میرے سینے سے لگ کر مجھے چومنے لگی میں نصرت کے تن کر کھڑے ممے دبا کر مسلتا ہوا نصرت کو چوسنے لگا نصرت سسک کر آہیں بھرتی ہانپنے لگی میں نے نصرت کے قمیض کو ہاتھ ڈال کر کھینچ کر اتار دیا نصرت برا کے بغیر تھی نصرت کے گورے تن کر کھڑے ممے ہوا میں لہرانے لگے جنہیں دیکھ میں مچل سا گیا اور مموں کو دبا کر مسلتا ہوا چوسنے لگا نصرت بھی کرا کر مرا سر دباتی ہوئی مجھے چوسنے لگی میرا لن تن کر کھڑا تھا مجھ سے اب رہا نہیں جا رہا تھا نصرت کی پھدی کی عادت سی ہو گئی تھی میں نے اپنا لن نکال کر نصرت کی شلوار نیچے کھینچ دیا نصرت کے موٹے باہر کر نکلے چتڑ قیامت ڈھا رہے تھے نصرت کی سفید کمر پر نصرت کی گت قیامت لگ رہی تھی میں نصرت کی کمر کو مسل کر چاٹتا ہوا چومنے لگا نصرت سسک کر خود ہی آگے سنک پر گھوڑی بن گئی میں پیچھے ہوا اور لن نصرت کی پھدی سے ٹکا دیا نصرت سسک کر کانپ گئی اور میرے لن کو اپنی پھدی پر محسوس کرکے مچل گئی میں نصرت کی گت پکڑ کر اپنے ہاتھ پر ولیٹ کر زوردار دھکا مار کر نصرت کی گت اپنی طرف کھینچ کی میرا لن نصرت کی پھدی چیر کر نصرت کی بچہ دانی میں جال لگا نصرت گت کھینچنے سے کرلا کر تڑپی اور زوردار بکاٹ مار کر درمیان سے دوہری ہوکر میرے سینے سے لگتی ہوئی تڑپ کر زور سے بکاٹ مار کر ہینگنے لگی میرے لن نے نصرت کی پھدی چیر کر نصرت کو دوہرا کرکے اپنے سینے سے لگا کر لیا تھا نصرت ہے تنے ہوئے ممے ہوا میں لہرا گئے نصرت بکا کر حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالنی اماں میری پھدی چیر دیتی ہئی ظالما امہنمممممم ہااااااااڑڑڑڑڑ میں مر گئی نصرت کے اچانک بکاٹ اور دھاڑیں اور حال حال سن کر آنٹی کیچن میں آگئی سامنے نصرت کو میرے آگے دوہرا ہوکر تڑپتا دیکھ بولی حال وے افی بیچاری نصرت دی تے حال حال کڈھ دیندا ایں نصرت اپنی ماں کو دیکھ کر بولی ہالنی اماں آج تیری دھی مر گئی افی دا لن مینوں چیر گیا ہئی آنٹی ہنس کر مڑ گئی اور میں نصرت کے ہونٹوں کو چومتا ہوا نصرت کی گت کھینچ کر لن کھینچ کھینچ کر پوری شدت سے دھکے مارتا نصرت کی پھدی کو چودنے لگا میرا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کے آر پار ہو کر نصرت کی جان نکالنے لگا جس سے نصرت بوکھلا کر دھاڑنے لگی میں پوری شدت سے رکے بغیر نصرت کی گت کھینچ کر کس کس کر دھکے مارتا لن نصرت کی پھدی میں پوری شدت سے پھیرتا نصرت جو شدت سے چودنے لگا نصرت کی پھدی کو مسل کر میرا لن تیزی سے نصرت کی بچہ دانی میں اتر جاتا میں نصرت کے منہ سے منہ جوڑ کر نصرت کو چوس رہا تھا جس سے نصرت کی دھاڑیں میری منہ میں دبنے لگیں نصرت کا جسم بری طرح سے کانپنے لگا تھا نصرت دوہری ہو کر تڑپتی ہوئی میرے سینے سے لگ کر بکا رہی تھی نصرت کے بکاٹ میں منہ میں دبا رہا تھا میں نصرت کی گت پوری شدت سے کھینچ کر تیزی سے لن نصرت کی پھدی میں پھیرتا ہوا نصرت کو پوری شدت سے چود کر نڈھال کر رہا تھا نصرت بکا کر تڑپ رہی تھی نصرت کی پھدی میں تیزی سے اندر باہر ہوتالن نصرت کی پھدی کے ہونٹ دبوچ کر مسل رہے تھے جس سے نصرت کی پھدی کے ہونٹوں کی رگڑ ہے سامنے میری ہمت بھی ٹوٹنے لگی میں کرلا کر تڑپ گیا دو منٹ کے دھکوں میں میں پیج پر پہنچ چکا تھا اسی لمحے نوشی بھی کیچن میں آگیا سامنے اپنی بہن کو میرے سامنے دوہرا دیکھ کر رک گیا اس کی بہن کی گت میرے ہاتھ میں تھی جو میں نے پوری شدت سے کھینچ رکھی تھی جس سے اس کی بہن دوہری ہوکر میرے سینے سے لگی تڑپتی ہوئی بکا رہی تھی جبکہ میں پوری شدت سے دھکے مارتا اس کی بہن کو اس کے سامنے شدت سے چود رہا تھا میرے دھکوں سے نصرت کے ممے اور جسم ہل رہا تھا جو نوشی دیکھ رہا تھا کچن اسکی بہن کی کرلاٹیں سے گونج رہی تھی نوشی اپنی بہن نصرت ہو میرے نیچے دوہرا ہو کر میرے لن کو اپنی بہن کی پھدی میں تیزی سے اندر ہوتا اپنی بہن کو چدواتا دیکھ کر رک گیا میری سپیڈ پیک پر تھی جس نے اس کی بہن نصرت کو جنجھوڑ ہر رکھ دیا تھا جس سے نصرت بکا رہی تھیں نوشی اپنی بہن کی بکاٹ سن رہا تھا میں نوشی ہے سامنے دو تین دھکے مار کر کرا کر کانپتا ہوا رک کر کرلا گیا اور ایک لمبی منی کی دھار اسکی بہن نصرت کی پھدی میں مار کر فارغ ہوگیا میں کرلاتا ہوا نصرت کے اندر فارغ ہوتا نصرت کے اوپر گر گیا نصرت نیچے سنک رک جھک کر ہینگنے لگی نصرت کا جسم بھی دھڑکتا ہوا کانپنے لگا نصرت بھی میرے ساتھ فارغ ہوکر کرلانے لگی میں نصرت کی گت چھوڑ کر نصرت کے اوپر جھک کر کا پتا ہوا نصرت کے اندر فارغ ہونے لگا نوشی مجھے اپنی بہن کے اوپر جھکا دیکھ کر نصرت کی پھدی میں فارغ ہوتا دیکھنے لگا دو منٹ میں نصرت کی پھدی نے میرا لن نچوڑ کر چوس لیا ہم آہیں بھرتے ایک دوسرے کو چومنے لگے نوشی ابھی تک ہمیں دیکھ رہا تھا وہ بھی اب اپنی بہن کی چدائی انجوائے کرنے لگا تھا نصرت کرلا کر بولی ہالنی اماں افی تیرا تے لن پھدی چیر دیندا اے آج تے مار دتا ہئی یہ کہ اس نے آنکھ کھلی تو سامنے اس کا بھائی کھڑا تھا جسے دیکھ کر وہ رک گئی نوشی بہن کو دیکھ کر ہٹ گیا نصرت بولی افی توں وی عجیب ہیں میں بولا کی ہویا وہ بولی افی توں مینوں کمرے اچ یدھا کر ایتھے کیچن اچ ہی آج تے مینوں یہ چھڈیا ہئی میرا بھرا ویکھ رہیا ہا اپنی بھین نو یہیندیاں میں ہنس کر بولا اوہ اپنا بندہ اے کل اس نال گل ہو گئی اے او نہیں روکدا نصرت ہنس دی اور مجھے چومنے لگی میں نصرت کے ہونٹ چوسنے لگا میں نے نصرت کو اٹھا کر اپنے سی ے سے لگا کر نصرت کے ممے دبا کر مسلتا ہوا چوسنے لگا نصرت مزے سے سسکتی ہوئی کراہنے لگی میں کافی دیر نصرت کو چوستا رہا نصرت بھی بھر پور انجوائے کرتی رہی نصرت کراہ کر بولی افی ہنڑ بس کر میں بولا کیوں نصرت بولی ہنڑ باقی کسر مدثرہ تے کڈھیں میں مسکرا دیا اتنے میں پیچھے سے آنٹی بولی نصرت افی دی منی چنگی طرح لئے لے اپنی بچہ دانی اچ مدثرہ نہیں نسدی آنٹی کی بات پر میں ہنس دیا اور نصرت کی پھدی سے لن کھینچ کر نکال لیا نصرت کراہ کر کرلا گئی آنٹی دیکھ کر بولی افی ہک واری ہور نصرت نوں یہ لئے نصرت کو باہوں میں بھر کر اٹھا کر اندر لے آیا اور نصرت کو بیڈ پر لٹا دیا نصرت مجھے دبوچ کر چوستی ہوئی میری زبان چوسنے لگی میں نصرت کی ٹانگیں دبا کر نصرت کے کاندھوں سے ملا دیا اندر آتے ہوئے دروازہ کھلا ہی رہ گیا تھا افی اسی دوران اندر سے نکلا اور سامنے بیڈ پر اپنی بہن کی ٹانگیں کاندھوں سے لگا دیکھ کر رک گیا میں نے لن نصرت کی پھدی سے ٹکا کر دھکا مارا اور اپنی کہنی جتنا لن نصرت کی پھدی میں جڑ تک اتار کر رک گیا نوشی میرا لن اپنی بہن کی پھدی میں اترتا دیکھنے لگا لن جڑ تک اتر کر نصرت کو ہلا کر رکھ دیا جس سے نصرت کرلا گئی میں رکے بغیر تیز تیز دھکے مارتا نصرت کی پھدی میں تیزی سے لن گھماتا ہوا نصرت کو شدت سے چودنے لگا میرا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کے آرپار ہوتا نصرت کو نڈھال کرنے لگا نوشی اپنی کی پھدی میں تیزی سے اندر باہر ہوتا میرا لن دیکھ رہا تھا میں پوری شدت سے نصرت کی پھدی میں پن گھماتا ہوا جس کر دھکے مارتا نصرت کو چود رہا تھا نصرت بکا کر کرلا رہی تھی دو تین منٹ کے جاندار دھکے مارتا ہوا میں نصرت کی پھدی میں لن جڑ تک اتار کر کراہ کر نصرت کی پھدی میں منی کی دھاریں مارتا فارغ ہوگیا نوشی اپنی بہن کی پھدی میں جڑ تک اترا میرا منہ چھوڑتا لن دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے میرے ٹٹے اچھل اچھل کر اس کی بہن نصرت کی پھدی میں منی پھینکتے دیکھ رہا تھا نصرت کی پھدی اپنے بھائی کے سامنے میرے لن کو دبوچ کر نچوڑ گئی میں کرلا کر نصرت کے اوپر گر سا گیا نصرت کی ہانپتی ٹانگیں نصرت کا بھائی دیکھ رہا تھا میں نصرت کو چومتا ہوا ہانپنے لگا نصرت بولی افییییی آج تے سواد آگیا ہی تیرا لن میری جان کڈھ گیا افففف میں مر گئی میں اوپر ہوکر نصرت کو کچھ دیر چومتا رہا نصرت میری زبان کو اپنے منہ میں دبا کر چوستی رہی کچھ دیر بعد میں نصرت کو چومتا رہا نصرت مجھے چومتی ہوئی بولی افی گلشیر نال گل کیتی میں بولا نصرت خوشخبری اے تیرا میاں تیرے واسطے کاہلا پیا ہویا نصرت مسکرا دی اور بولی وت اس نوں آکھ مینوں منا لوے میں ہنس کر نصرت کے اوپر پڑا نصرت کو چومنے لگا نصرت میرے نیچے پڑی ہانپ رہی تھی میں پیچھے ہوا اور لن نصرت کی پھدی سے نکال لیا نصرت کراہ کر ہانپتی ہوئی لیٹ گی میں اٹھااور نہا کر گلیشیر کی طرف نکل گیا

IMG-20240215-WA0035
 
42
76
18
تڑپتی بھڑکتی جوانی
بہزاد کنگ
قسط نمبر 5
بہزاد کنگ

میں وہاں سے سیدھا گلشیر کے پاس گیا اور اس سے بات کی تو گلشیر تیار ہوگیا اس نے بتایا کہ وہ نصرت کو لے تو آئے گا لیکن وہ نصرت کو مطمئن نہیں کر پائے گا میں بولا اس کا بھی حل ہے میں اسے وہیں سے ایک حکیم کے پاس لے گیا اس نے اسے دوا دی اور بتایا کہ اگر خوراک اچھی کر لے تو ٹھیک ہو سکتا ہے میں دوا لے کر باہر آیا اور گلشیر کو وہیں کھڑا کر کے حکیم کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ ایسی دوا دینی تھی کہ اسکے جراثیم مر جاتے وہ ہنس پڑا اور بولا فکر نا کر یہ ویسے ہی نامرد ہے اس کے اندر پانی نہیں ہے صرف اس کا لن اکڑے گا تھوڑا بہت پانی چھوڑے گا لیکن بچہ نہیں پیدا کرے گا حکیم مسکرا کر بولا بے فکر رہو بچہ تمہارا ہی پیدا ہو گا میں ہنس دیا حکیم نے مجھے دوا دی اور بولا کہ اسے استعمال کرو مزید تگڑے ہو جاؤ گے میں وہاں سے آگیا اور گلشیر ہو لے کر گھر پہنچا جہاں اس کی نصرت سے صلح کروائی لیکن نصرت نے شرط رکھ دی کہ وہ اب یہیں رہے گی گلشیر مان گیا میں نے نصرت سے پوچھا تو وہ ہنس کر کہنے لگی کہ تمہارے ساتھ بھی تو مزے کرنے ہیں نا گھر چلی گئی تو تم نے وہاں کوئی آنا ہے مدثرہ اور ماہم میں ہی مصروف رہنا ہے میں ہنس دیا میں وہاں سے آگیا اگلے دن میں نوشی کو لے کر اسلام آباد آگیا جہاں اس کے ویزے پر کام کرنا تھا وہاں دو دن رکنا پڑا دو دن بعد ہم سیدھے نصرت کے گھر پہنچے ہم گھر پہنچے تو عصر سے کچھ پہلے کا وقت تھا نصرت اپنی ماں کے پاس بیٹھی تھی اس کے ساتھ اس کی بیٹیاں بھی بیٹھی تھیں دونوں کپڑے بنا رہی تھیں نصرت ان کو بتا رہی تھی مدثرہ اور ماہم چھت پر بچوں کو پڑھا رہی تھیں مجھے دیکھ کر نصرت ہنس دی میں نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا نصرت تو آج چمک رہی تھی مجھے دیکھ کر نصرت کھڑی ہو گئی ہم جا کر نصرت اور آنٹی کے پاس پہنچ کر سلام دعا کی نصرت نے جواب دیا میں آنٹی والی چارپائی پر بیٹھ گیا تو نصرت کی دونوں بیٹیاں مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی تھی میری نظر وجیہ پر پڑی تو وہ مجھے غور کر مسکرا رہی تھی وجیہ نصرت کی بچپن کی تصویر تھی وہی پتلی سی نازک سی نصرت جو وجیہ کے روپ میں بیٹھی تھی میں تو وجیہ کو دیکھتا ہی رہ گیا تھا وجیہ بھی مجھے گہری نظروں سے دیکھتی ہوئی مسکرا رہی تھی نصرت کی جوانی تو خود بے قابو کر دیتی تھی یہ تو پھر اسکی بیٹیاں تھیں میں دو دن سے نصرت سے دور تھا۔ لیے نصرت کی یاد بھی بڑی ا رہی تھی میرا لن سر اٹھانے لگا تو نصرت بولی کی بنیا میرے بھرا دا میں نصرت کی آواز سے چونکا اور نصرت کو دیکھا تو نصرت مجھے گہری آنکھوں سے غور رہی تھی میں نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا نصرت بھی ہلکا سا مسکرا دی نصرت نے مجھے اپنی بیٹی وجیہ کو تاڑتا دیکھ لیا تھا جس سے نصرت میری توجہ اس سے ہٹانے لگی تھی میں نصرت ہو دیکھ کر مسکرا کر بولا نصرت ہنڑ شروع ہو گئے ہاں تے تیرے بھرا نوں باہر گھل کے ہی رہساں نصرت مسکرا دی وجیہ اور زرناب دونوں مجھے ہی غور رہی تھیں میں بھی انہیں ہی دیکھ رہا آنٹی بولی نصرت اوہناں نوں پانی تے پیوا آؤندیاں نال ہی شروع ہو گئی ہیں میں ہنس دیا نصرت زرناب سے بولی جا پانی لئے آ زرناب آٹھ کر کیچن میں چلی گئی پانی لینے نصرت وجیہ سے بولی وجیہ بس کر کپڑے اندر رکھ جا کے وجیہ آٹھ کر اندر چلی گئی نصرت میری آنکھوں میں غورنے لگی میں مسکرا کر اسے دیکھنے لگا نصرت کی آنکھوں میں شہوت اتر آئی تھی وہ مجھے مستی سے غور رہی تھی آنٹی بولی افی اتنے سفر تو تسی تھک تے گئے ہوسو میں مسکرا کر بولا آنٹی ظاہری گل اے تھکاوٹ تے ہوجاندی آنٹی مسکرا نصرت سے بولی نصرت وت دی آج تھکاوٹ چنگی طرح لاہ مجھ سے بولی افی آج اپنی ساری تھکاوٹ توں نصرت تے کڈھ دے نصرت اپنی ماں کی بات سن کر چونک سی گئی اور شرما کر اپنے بھائی نوشی کو دیکھا جو پاس ہی بیٹھا تھا نوشی بھی اپنی ماں کی بات سن کر شرمندہ سا ہوگیا دونوں بہن بھائیوں کی آپس میں نظر ٹکرا کر گھوم گئی دونوں شرمندہ سے ہوگئے میں بھی آنٹی کے یوں نوشی ہے سامنے کہنے پر شرمندہ سا ہوگیا تھا نوشی خود ہی اٹھ کر واشروم چلا گیا نصرت اپنی ماں سے ناراض ہوتے ہوئے بولی امی بھائی دے سامنے تے اے گل نا کریں ہا آنٹی بولی بس کر نصرت کجھ نہیں ہویا بھائی نوں وی پتا ہے افی اس واسطے ہی ایڈا اوکھا ہوندا ودا جے اس دی بھین افی دی تھکاوٹ لاہ چھڈے تے کجھ نہیں ہوندا نصرت شرما سی گئی اور اپنی ماں کو دیکھ کر بولی امی توں وی ناں۔ کی آنکھوں تینوں اور ہنس کر مجھے دیکھ کر بولی افی ہنڑ توں آپ ہی دس بھلا میں ایتھے ساریاں دے سامنے تیرے ہیٹھ پئی چنگی لگساں میں ہنس کر بولا کوئی گل نہیں آنٹی بولی کوئی گل کیوں نہیں افی نوشی واسطے ہی اے کر رہی اے تے نال بچہ پیدا کرنے واسطے تے کجھ نہیں ہوندا توں اج دی رات افی کول وگ جا میں آنٹی کی اس بات پر چونک گیا اور نصرت کو دیکھا نصرت شرما سی گئی اور آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا میں نصرت کو دیکھ رہا تھا آنٹی کی بات مجھے بھی اچھی لگی تھی اگر آج نصرت میرے ساتھ سجائے تو مزہ آ جائے آج ساری رات نصرت کو سونے ہی نا دوں نصرت میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی امی افی نال کیویں جاساں گھر دے کی آکھسن آنٹی بولی نصرت کجھ نہیں ہوندا گھر اچ وی ساریاں نوں ہی پتا اے وگ جا افی نال اج دی رات افی کول رہ ا کجھ نہیں ہوندا نصرت اس بات پر منہ نیچے سی کر گئی اتنے میں زرناب پانی لائی اور مجھے پکڑا دیا نوشی بھی آگیا تھا میں پانی پینے لگا نصرت منہ نیچے کیے کچھ سوچ رہی تھی نوشی پاس آکر پانی پینے لگا نصرت نے زرناب کو بھی اندر بھیج دیا آنٹی نصرت سے بولی نصرت وت کی خیال اے نصرت نے آنکھ اٹھا کر نوشی کو دیکھا اور خاموش ہو کر منہ نیچے کر لیا نصرت کا منہ لال سرخ ہو کر چمک رہا تھا نصرت کے ناک میں کوکا قیامت ڈھا رہا تھا میں نصرت کو دیکھ رہا تھا آنٹی نوشی سے بولی نوشی ہک گل کرنی ہا نوشی بولا جی امی نصرت کا منہ جھک گیا آنٹی بولی نوشی کے نصرت آج دی رات افی کول وگ جاوے تینوں اعتراض تے کوئی نہیں نوشی اس بات پر چونک گیا نصرت اپنے بھائی کے سامنے میرے ساتھ جانے کی بات پر شرم سے لال ہو رہی تھی نوشی نے ایک نظر نصرت کو دیکھا اور بولا امی مینوں کی اعتراض ہونا باجی نوں تے افی نوں پتا اگر باجی جانا چاہندی تے میں کیوں روکنا آنٹی مسکرا کر بولی لئے نصرت تیرے بھرا نوں تے کوئی اعتراض نہیں ہنڑ ہور کس تو پچھنا اے میں تے آکھدی آں وگ جا آج دی رات افی چنگی طرح لائی تے وت کسر نہیں رہندی بچہ وی جلدی بن جاسی نوشی اپنی بہن کا ناجائز بچے والی بات سن کر باجی کو دیکھ رہا تھا نصرت بولی امی مینوں نہیں پتا اور اٹھ کر بولی میں چاہ بنا لواں آنٹی اسے جاتا دیکھنے لگی میں نصرت کی موٹی باہر کو نکلی گانڈ کو غور رہا تھا نوشی مجھے اپنی بہن کی گانڈ دیکھتا دیکھ رہا تھا آنٹی بولی افی توں آپ ہی منا اس نوں توں اس نوں پورا ٹائم دے توں اس دے اندر بچہ بنسی نوشی خاموشی سے سن رہا تھا میں بولا آنٹی اگر او نہیں جانا چاہندی تے کوئی زبردستی نہیں نا پریشان کر اس نوں میں کچھ دیر بیٹھا رہا پھر آنٹی بولی توں آپ ہی جا کے اس نوں منا لئے میں یہ سن کر مسکرا دیا اور آٹھ کر کیچن میں چلا آیا نصرت سنک پر کھڑی ہوکر چائے بنا رہی تھی میں اندر گیا تو نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا کر منہ نیچے کر گئی میں بولا سوہنیے لفٹ ہی نہیں کروا رہے نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا تو نصرت کی گہری کاجل سے بھری آنکھوں میں شہوت بھری تھی ہونٹوں پر لال سرخی اور کسے پھولوں والے قمیض میں تن کر کھڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے پیچھے پڑی لمبی گت جو باہر ہو نکلی گانڈ پر پڑی نصرت پر سج رہی تھی نصرت کی کمان کی طرح تنی کمر نصرت کے حسن پر قیامت ڈھا رہی تھی نصرت مسکرا مجھے دیکھ رہی تھی میں اندر جاتے ہیں نصرت کو سائیڈ سے اپنی بازو میں بھرا اور سینے سے دبا کر نصرت کے ہونٹوں کو چوم لیا نصرت نے اپنے ہونٹ کھولے اور میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس لیے میں سسک کر نصرت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر نصرت کی کمر مسلتا ہوا نصرت کو چوسنے لگا میرا ہاتھ پھسلتا ہوا نیچے نصرت کی کمر پر گیا تو نصرت کی بھری ہوئی نرم گانڈ کو دبا کر مزا آگیا میرا لن تن کر کھڑا تھا میں نصرت کے چتڑوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا سسکنے لگا میں نے قمیض اٹھا کر نصرت کی شلوار میں ہاتھ ڈال کر نصرت کی ننگی گانڈ کو مسلنے لگا نصرت سسک کر کراہ سی گئی اور ہانپنے لگی نصرت میرے ہونٹ فل زور سے دبا کر چوستی ہوئی سسک رہی تھی میں نصرت کے ہونٹوں کو چھوڑ کر بولا نصرت تیری چت تے بڑی نرم ہے کدی مروائی ہئی نصرت نے میری آنکھوں میں دیکھا اور ناں میں سر ہلایا میں مسکرا کر بولا چلو کوئی شئے تے تیری وی سیل پیک اے ساڈے واسطے ویسے کیوں نہوں مروائی بڑا سواد آندا نصرت نے مجھے غور کر دیکھا اور بولی گلشیر مسیں پھدی ماردا ہے چت فر کس نال مارنی ہاس اور مسکرا کر مجھے دیکھنے لگی میں مسکرا کر نصرت کی نرم گانڈ سے کھلنے لگا جس سے مجھے مزا آنے لگا میں سسک کر نصرت کی گانڈ دبا کر بولا افففف نصرتتتت کیا چت ہے تیری آج کدی میرے کول آجاویں نا تے تیری چت نوں پاڑ کے رکھ دیواں ویسے آج مینوں تیرے تے بڑی گرمی چڑھی ہوئی اے آج میرے نال آجا آج ساری گرمی تیرے تے کڈھساں نصرت گانڈ دبوا کر سسک رہی تھی نصرت بولی افی تیرے لن دی عادت تے مینوں وی پئے گئی اے تیرا لن سواد بڑا دیندا پر افی اپنیاں بھیناں تے دھیاں دے سامنے تیرے نال تیرے کول اونٹ جاواں تے بڑا عجیب جیا لگسی میں بولا کہڑا عجیب لگنا اوہنا نوں وی تے پتا ہے نا نصرت بولی نوشی تے رافع تو علاؤہ کسے نوں نہیں پتا میں مسکرا کر بولا تے وت لگن دے پتا اوہناں وی ہک دن میرے ہیٹھ ہی آنا نصرت نے ہنس کر مجھے دیکھا اور بولی ویسے تینوں سمجھایا ہا توں مڑ میری دھیاں تے ھ رکھی ودا ایں میں مسکرا کر بولا میری جان تیری دھیاں وی تے میرے تے اکھ رکھی ہوئی اے نصرت بولی او تے ہلے نادان ہینڑ اوہناں نوں نہیں پتا توں تے سمجھدار اے میں بولا کوئی ذری نہیں نادان اوہناں نوں سارا پتا اے لن پھدی واسطے ہی بنیا ہویا اے ویسے کی خیال اے وت وجیہ نوں میرے نال گھل چا نصرت نے مجھے غورا اور بولی پاگل ایں جیڈا توں تے تیرا لن ترکڑا تے وجیہ نیو جئی اے توں تے وجیہ دی جان کڈھ لینڑی میں سے رسک نہیں لیندی میں بولا کجھ نہیں ہوندا میں حوصلے نال استعمال کرساں گیا وہ بولی جی نہیں گلشیر نوں پتا لگا میرے نال تیری وی جان کڈھ کیسی میں بولا توں تے آکھیا ایں اس نوں دھیاں دی لوڑ نہیں وے اپنی مرضی کرنٹ دے یہ کہ کر میں نصرت کے پیچھے آچکا تھا میں نصرت کو باہوں میں بھر کر نصرت کے ممے دباتا ہوا نصرت کی گرم کو چاٹنے لگا نصرت کے ممے تن کر کھڑے تھے نصرت کے مموں کی لکیر صاف نظر آ رہی تھی میں نصرت کی گال کو دبا کر منہ میں بھر کر چوس کر نصرت کے ممے دبا کر مسلتا ہوا نصرت کو سینے سے دبا لیا نصرت فل میری باہوں میں دب کر سسکتی ہوئی کراہنے لگی میرا لن نصرت کی گانڈ میں چبھتا ہوا نصرت کے چڈوں میں گھس گیا جسے نصرت نے دبا کر کس لیا میں نصرت کے چڈوں کی گرمی سے مچل کر کرا گیا میں نصرت کے موٹے ممے کس کر دباتا ہوا نصرت کی گال کو چوس رہا تھا مجھے نیچے نصرت کے مموں کی لکیر نظر آرہی تھی مجھے شرارت سوجھی اور میں نے ایک بڑی سی تھوک سیدھی نصرت کے مموں کی لکیر کے درمیان پھنک دی نصرت میری تھوک اپنے مموں کی لکیر میں محسوس کر کے مچل کر کانپ گئی مجھے نصرت کے کانپنے پر مزہ آیا میں نے ایک اور تھوک سیدھی نصرت کے مموں کی لکیر میں پھینکی جس سے نصرت کے مموں کی لکیر گیلی نظر آنے لگی نصرت نے میرے ہونٹوں سے ہونٹ ملائے اور میرے لن کو اپنے چڈوں میں دبا کر خود ہی ہلکے ہلکے جھٹکے مارتی میرے لن کو رگڑنے لگی میں نصرت کے چڈوں میں لن رگڑتا محسوس کر مچل کر کراہنے لگا نصرت میری زبان کھینچ کر اپنے میں دبا کر چوستی ہوئی میرے لن کو دبا کر رگڑنے لگی میں ایک ہاتھ نصرت کی کمر میں ڈال کر نصرت کو جھٹکے مارتا دوسرے ہاتھ سے نصرت کے ممے کو مسل کر فل مزے سے انجوائے کر رہا تھا کہا تنے میں کیچن میں نصرت کا بھائی رافع آگیا جیسے ہی وہ اندر آیا تو سامنے اپنی بہن کو پیچھے سے مجھے چمٹا دیکھ کر وہ چونک سا گیا میرے ایک ہاتھ اپنی بہن نصرت کی کمر کو دبائے اور دوسرے ہاتھ ہو اپنی بہن کے مموں پر دیکھ کر اپنی بہن نصرت کے منہ سے جڑا میرا منہ دیکھ کر رافع چونک گیا اس کی بہن نصرت میری باہوں میں جکڑی تھی اور میرے سینے سے لگی خود اپنی گانڈ ہلاتی ہوئی میرا لن اپنے چڈوں میں دبا کر مسل کر کراہ رہی تھی رافع اپنی بہن کو دیکھ کر چونک گیا تھا اسی لمحے میری بھی اس پر نظر پڑی تو میں نے نصرت کے منہ سے اپنی زبان کھینچ لی پچ کی آواز سے میری زبان اپنی بہن کے منہ سے نکلتا دیکھ کر رافع چونکا میں جلدی سے اسی کی بہن کو چھوڑ کر پیچھے سے ہٹ گیا میرا تنا ہوا لن اپنی بہن کے چڈوں سے نکلتا رافع نے بھی دیکھ لیا تھا نصرت میرے یوں چھوڑنے پر چونکی اور آنکھیں کھول کر مجھے سوالیہ انداز میں دیکھا تو میں دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا نصرت نے مڑ کر دروازے کو دیکھا تو وہ بھی چونک کر جلدی سے سیدھی ہوگئی رافع کی نظر اپنی بہن نصرت کے تنے ہوئے مموں پر گئی جہاں نصرت کے مموں کی لکیر میری تھوک سے گیلی صاف نظر آ رہی تھی میں نصرت کے مموں کی لکیر پر رافع کی نظر دیکھ رہا تھا رافع بھی ایک نظر دیکھ کر گھونٹ بھر کر رہ گیا میں رافع کو گھونٹ بھرتا دیکھ کر سمجھ گیا نصرت بھی اپنے بھائی اپنے ممے تاڑتا دیکھ کر شرما گئی اور جلدی سے سنبھل کر چائے کی طرف دھیان دینے لگی تو رافع بھی سنبھل سا گیا اور بولا باجی پانی پیونڑ آیا ہاس نصرت نے ایک نظر اسے دیکھا جو چوری سے اپنی بہن کے ممے تاڑ رہا تھا نصرت بولی اگاں آکے پی لئے یہ سن کر اس نے نظر اٹھا کر اپنی بہن کا جلوہ دیکھا تو اس کی بہن کا سکیسی بدن اسے بھا سا گیا رافع اندر آیا اور نظر نیچے کیے اندر پانی پینے چلا گیا میں نصرت سے الگ ہوکر نصرت کے پاس ہی کھڑا تھا نصرت کا بدن رافع کو بھی پسند آیا اس دوران ہم دونوں ہی چپ رہے رافع پانی پی کر نکل گیا میں نے نصرت کو دیکھا تو وہ مجھے دیکھ کر شرما کر مسکرا گئی میں ہنس کر بولا نصرت تیرا جسم تے قیامت سے تیرے بھراواں دی وی جان کڈھ رہیا اے نصرت مسکرا کر بولی وے بکواس نا کر میں ہنس دیا اور نصرت کے پیچھے گیا نصرت کسمسا سی گئی اور بولی وے بس کر ہنڑ میں گرمی سے پہلے ہی تنگ تھا نصرت کا منع کرنا مجھے اچھا نا لگا میں تپ سا گیا اور تھوڑا سخت لہجے میں بولا نصرت ہک وار تے کرن دے نال وی نہو اؤ تے ایتھے وی مزہ نہیں دے رہی تیرا مینوں کی سکھ اے نصرت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور میرے تیور دیکھ کر چپ سی ہو گئی اسے شاید اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا وہ گھوم کر میری طرف ہوئی اور میرے سینے سے لگ کر میرے ہونٹ چوم کر بولی میری جان ناراض تے نا ہو میں تے انجے آکھیا ہا اصل اچ سارے ودے ہین نا تے اس توں ہکلا بندہ ہووے تے وت کوئی منع کردی آں میں نصرت کو پگھلتا دیکھ کر مچل گیا میرا دل کیا نصرت کو تھوڑا اور تنگ کیا جائے میں تھوڑا مصنوعی غصے میں بولا بس کر نصرت توں تے دو دن اچ ہی میرے توں رج گئی ایں میں تیرے واسطے کی کر رہیا آں توں تے انج میرے نال رکھی بولدی پئی ایں نصرت مجھے سچ مچ ہی ناراض سمجھ کر نادم سی ہوکر گھبرا گئی نصرت کا منہ لال ہوگیا اور نصرت کے منہ سے لالی غائب ہونے لگی نصرت میرے قریب ہوکر بولی میری جان سوری میرا ایو جہیا مطلب بالکل نہیں میں تے ایویں آکھ رہی ہاس میں تھوڑا لال ہوکر ماتھے پر تیور ڈال کر بولا چھڈ نصرت تیرے توں اے امید ناہ نصرت سچ مچ ہی میرے رویے سے گھبرا گئی اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر بولی میری جان انج نا کر میں آکھ رہی آں ناں ایسی گل نہیں پلیز نا ناراض ہو میں نصرت کے ہاتھ ہٹا کر بولا توں رہن دے اور نصرت کو ہٹا کر نکلنے لگا تو نصرت نے بھاگ کر مجھے پکڑ لیا اور بولی وے افی کی ہویا نا جا نا ویکھ لئے میں تیرے آگے ہتھ پئی جوڑدی آں مینوں معاف کردے اگاں تینوں ایو جہیا گل نا کرساں اور یہ کہ ہر میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیے میں بولا نصرت ہنڑ مسکے نا لا مینوں جاونڑ دے میں آگے بڑھنے لگا تو نصرت جھٹ سے میرے پاؤں پڑ گئی اور میرے پاؤں پکڑ کر بولی وے ظالما مینوں نا چھڈ کے جا میں تیرے پیری پوندی آں مینوں معاف کردے نصرت کا منہ لال ہوکر رونے جیسا ہوگیا تھا میں نصرت کو دیکھ کر ہنس دیا مجھے نصرت کی حالت دیکھ کر نصرت پر ترس سا آگیا میں ہنس کر نیچے ہوا اور نصرت کو کاندھوں سے پکڑ کر اٹھا لیا اور مسکرا کر نصرت کے ہونٹوں کو چوم کر بولا نصرت تینوں بھلا میں چھڈ سگدا آں نصرت مجھے مسکراتا دیکھ کر ہنس دی نصرت کی جان میں جان آئی اور نصرت کا لال چہرہ کھل سا گیا نصرت مسکرا کر میرے سینے سے لگ کر بولی افی توں بہوں ڈھاڈھا ہیں میں تینوں بھلا انج ناراض کر سگدی ان ہنڑ توں میری جان ایں میں ہنڑ تیرے توں بغیر نہیں رہ سگدی افی ہنڑ مینوں تیرے نال پیار ہو گیا اے پلیز مینوں معاف کردے مینوں نا چھوڑیں میں نصرت کی بات پر ہنس کر بولا نصرت تیرے جئی آگ دی بھری جوانی نوں ہوں چھڈدا جیڈا سواد تیری پھدی دیندی کوئی ہور نہیں دیندی میں تے ایوں شگل لایا تیرے نال نصرت میری بات سن کر پیچھے ہوئی اور میرے سینے پر تھپڑ مار کر بولی بہوں گندہ ایں میرے امتحان لیندا ایں میں نصرت کی بات پر ہنس دیا نصرت مڑ کر چائے بنانے لگی میں نصرت کو باہوں میں بھر کر چومتا ہوا نصرت کے ممے دبا کر بولا نصرت توں تے میری جان ایں میرا لن ہنڑ تینوں ہی منگدا اے نصرت مسکرا کر میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر کر چوس کر بولی میری جان میری پھدی نوں وی تیرے لن دا نشہ چڑھ گیا سے ہنڑ نہیں رہندی تیرے لن توں بغیر میں بولا وت کی خیال اے ہک واری پھدی اچ لن مروا نہوں کی دی نصرت مسکرا کر بولی نیکی اور پوچھ پوچھ میں ہنس کر نصرت کو چومنے لگا نصرت بھی میرا ساتھ دیتی ہوئی مجھے چومنے لگی میں نصرت کے ممے دبا کر نصرت کی گال کو چوس کر نصرت کو کس کر دبوچ کر چوس رہا تھا نصرت میرا ساتھ دیتی سسک رہی تھی میں نصرت کا قمیض اٹھا کر نصرت کے ممے ننگے کرکے مسلنے لگا نصرت سسک کر کراہنے لگی نصرت کے نپلز تن کر اکڑ رہے تھے نصرت سسک کر اپنی شلوار خود ہی نیچے کرکے میرے کان میں بولی افی مار میری پھدی ہنڑ یہ کہ کر نصرت میرا لن خود ہی نکال کر اپنی پھدی سے لگا کر ہلکا سا پش کرکے میرا ٹوپہ اپنی پھدی میں دبا لیا جس سے نصرت کراہ کر کرلا سی گئی میں نصرت کے ہونٹ دبا کر چوستا ہوا نصرت کی گانڈ کو دبا کر دھکا مارا اور اپنا لن جڑ تک نصرت کی پھدی کے پار کردیا جس سے نصرت تڑپ کر کرلا سی گئی میرا لن نصرت کی پھدی میں جاتے ہی میں مچل کر کراہ سا گیا نصرت کی پھڈی میرے لن کو دبوچ کر نچوڑ رہی تھی میں نے مچل کر نصرت کی گال کو دبا کر چوستے ہوئے لن کھینچ کر دھکے مارتا ہوا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کے آرپار کرتا نصرت کی پھدی کو چودنے لگا جس سے نصرت کراہ کر تڑپنے لگی میرا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کو گھیلتا ہوا اندر باہر ہوتا پھدی کو مسلنے لگا جس سے میری کراہیں نکلنے لگی میں مزے سے نصرت کی گال کو چوس رہا تھا نصرت کی نرم گال مجھے مزے سے نڈھال کر رہی تھی نصرت کی گال کی تھوک میرے اندر آگ رہا تھی میں مچل کر کر کراہتا ہوا بے اختیار تیز تیز دھکے مارتا نصرت کو کس کر چود رہا تھا نصرت بھی تڑپتی ہو سنک پر جھک کر کراہتی ہوئی آہیں بھرنے لگی میں مزے سے بے قابو ہوکر نصرت کی گال کو دانتوں میں بھر کر دبا کر کاٹ لیا جس سے میرے اندر آگ سی لگ گئی اور میں نصرت کی گال دانتوں میں دبا کر کس کر چوستا ہوا دانتوں میں دبا کر کس کر دھکے مارتا تیزی سے لن نصرت کی پھدی میں پھیرتا نصرت کو پوری شدت سے چیرنے لگا جس سے نصرت بھی تڑپ کر بکانے لگی میں پوری شدت سے نصرت کی گال کو چک مارتا نصرت کو چود رہا تھا اسی لمحے نوشی بھی کیچن میں آگیا سامنے مجھے نصرت کی گال کو چک مارتا تیزی سے گھسے مارتا لن نصرت کی پھدی میں پھیرتا ہوا چودتا دیکھ کر رک گیا جس سے نوشی اپنی بہن کو تڑپ کر کرلاتا دیکھ رہا تھا نصرت کی گانڈ نوشی کے سامنے ننگی تھی اور میرا لن تیزی سے نصرت کی پھدی میں اندر باہر ہوتا نوشی دیکھ کر ہٹ گیا میں پوری شدت سے دبا کر نصرت کو چود کر نصرت کی بکاٹیاں نکال دیں نصرت کی کرلاٹیں سے کیچن گونج گئی دو منٹ میں نصرت نے میرا کام تمام کر دیا میں دھکے مارتا کرلا کر کراہتا ہوا لن نصرت کی پھدی میں اتار کر نصرت کی پھدی میں فارغ ہوگیا جس سے نصرت بھی تڑپ کر کراہتی ہوئی میرے ساتھ فارغ ہوگئی میں کراہ کر فارغ ہوتا دانت نصرت کی گال میں دبا دیے جس سے میرے دانت نصرت کی گال میں چبھ گئے میں اور نصرت تڑپ کر فارغ ہوتے ہوئے کانپنے لگے اسی لمحے نصرت کی بہن ماہم کیچن میں داخل ہوئی اور سامنے کا منظر دیکھ چونک کر چیخ ماری اور منہ پر ہاتھ رکھ کر وہیں رک گئی سامنے اپنی بہن نصرت کے ممے اور ننگی گانڈ دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں نصرت کو چود رہا تھا ہمیں کانپتا ہوا کراہیں بھرتا دیکھ کر وہ بھی سمجھ گئی کہ میرا لن اس کی بہن کی پھدی میں اترا ہوا فارغ ہورہا تھا نصرت بھی کانپتی ہوئی کرلاتی فارغ ہو رہی تھی ماہم حیرانی سے منہ پر ہاتھ رکھے اپنی بہن نصرت کو نیم ننگی حالت میں میری باہوں میں دیکھ رہی تھی میں نصرت کی گال کو دبا کر چوستا ہوا نصرت کے اندر فارغ ہو رہا تھا نصرت کی پھدی میرا لن دبا کر نچوڑ رہی تھی ماہم کچھ لمحے دیکھتی رہی پھر چلی گئی تب کر نصرت کی پھدی میرا لن نچوڑ کر چوس چکی تھی میں آہیں بھرتا نصرت کے اوپر گر سا گیا نصرت بھی ہانپتی ہوئی نیچے ہو گئی میں نصرت کے اندر فارغ ہوکر ہلکا سا محسوس کرنے لگا تھا نصرت ہانپتی ہوئی کراہ رہی تھی میرے دانت نصرت کی گال میں چبھ گئے تھے جس سے نصرت کی گال پر میرے دانتوں کے نشان بن گئے اور نصرت کی گال لال ہو گئی تھی میں دیکھ کر مچل سا گیا نصرت ہانپتی ہوئی تڑپ رہی تھی میں نصرت کی گال پر اپنے دانتوں کی نشان پر زبان پھیرتا سرگوشی میں بولا سوری میری جان نصرت ہانپتی بولی کوئی گل نہیں میری جان اے تیری محبت دی مہر لگی اے میں مسکرا کر نصرت کو چومنے لگا میں دو منٹ تک نصرت کو چومتا آہستہ آہستہ ہم سنبھل کر ہوش میں آگئے میں نصرت سے بولا نصرت تیری بھین ماہم ویکھ لیا ہے تینوں یہیندیاں ہویاں نصرت ہنس کر بولی چنگی گل اے ویکھ کیا ہیس تے اس وی تیرے کولو ہی یہونا اے میں مسکرا دیا اور نصرت کو چومنے لگا نصرت چائے بنانے لگی میں پیچھے ہوکر لن نکالنے لگا تو نصرت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کرکے میری کمر پکڑ کر مجھے روک لیا میں نے نصرت کو دیکھا تو نصرت بولی ہک واری اندر ہی رہن دے میری پھدی نوں اپنے لن نوں چنگی طرح چوسنے تے دے میں ہنس دیا اور نصرت کو باہوں میں بھر کر دبوچ کر نصرت کی گال چوسنے لگا نصرت چائے بنانے لگی نصرت کی پھدی میرا لن دبوچ کر چوس رہی تھی میں نصرت کی گانڈ اپنے ساتھ دبا کر چوستا ہوا نصرت کے ممے مسلنے لگا نصرت بھی میرا ساتھ دیتی کام کرتی ہوئی مجھے چوس رہی تھی میرا لن نصرت کی پھدی میں جڑ تک اترا ہوا تھا میں نصرت کے ممے مسل کر دبا کر چوسنے لگا اسی لمحے آنٹی بھی اندر آگئی اور اپنی بیٹی کی ننگی گانڈ میرے ساتھ لگا دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں اسے چود رہا تھا آنٹی بولی نصرت نوں اج اپنے نال لئے جا آج ساری رات اپنی گرمی لاہ لئو دوویں جینے میں ہنس کر بولا آنٹی میں تے تیار ہاں نصرت نے میرے ساتھ لگ کر مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولا اچ گلشیر آیا ہا میں بولا وت کی آدھا نصرت مسکرا کر بولی او اپنی سدھر لاہ گیا میں تے حیران ہاں اسدا لن تے سہی کھڑا ناہ وندا آج تے بڑا کھڑا ہویا پر میرے تو پہلے ہی فارغ ہوگیا آنٹی بولی نصرت چھڈ توں اسدا نام ہی بنانا ہے بچہ تے افی دس ہونا اے نصرت بولی امی میں ویسے افی نوں دس رہی ہاں کہ ہنڑ کوئی ڈر نہیں اور میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی میں تے اے آکھ رہی آں کہ ہم جلد تو جلد مینوں حاملہ کر دے میں ہنس دیا اور بولا میری جان ہن توں حاملہ ہو جاسیں نصرت ہنس کر میرے ہونٹ چومنے لگی میں بھی نصرت کو چومنے لگا اتنے میں چائے پک گئی جسے نصرت نے کپ میں ڈال دیا میں اتنے میں پیچھے ہوا اور لن نصرت کی پھدی سے کھینچ کر نکال لیا نصرت کراہ کر مچل گئی اور نصرت بولی اففف افی تیرا لن تے پھدی چھل کے رکھ دیندا اے میں مسکرا دیا نصرت نے اپنے کپڑے اوپر کیے اور چائے اٹھا کر چلی گئی میں بھی باہر نکل آیا ۔
 

Top