Incest تڑپتی پڑکتی جوانیاں

42
76
18
بہزاد کنگ
قسط نمبر 3
میں سو کر اٹھا تو میرے ذہن پر ندامت چھائی ہوئی تھی میں نے کتنا غلط کیا تھا۔ نصرت کا مان توڑ دیا تھا یہ مجھ سے بہت غلط ہوا تھا پر جو ہونا تھا ہو گیا اب کیا کیا جا سکتا تھا اگلے دو دن میں اس سب سے نکل نا پایا پھر آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگا مجھے افسوس تھا کہ ایک اچھا تعلق بگڑ گیا تھا مجھ سے اب نصرت کی طرف جانے کی ہمت نہیں تھی میں اگلا پورا ہفتہ گاؤں نہیں گیا اگر جانا ہوا بھی تو اپنا کام نمٹا کر واپس آگیا مجھے لگا کہ سب کچھ ہی اب تو ختم ہوگیا تھا کیونکہ ان کی طرف سے بھی کوئی رابطہ نہیں کر رہا تھا میں پریشان تھا میں بھی اب سب کچھ بھلانا شروع کردیا پریشان رہ رہ کر اب کوفت ہونے لگی تھی لیکن میری ہمت نہیں تھی اب واپس ان کی طرف جانے کی ایک دن حسب معمول گاؤں گیا میں گاؤں میں اپنا کام کرکے کسی سے ملنے پیدل ہی جا رہا تھا میں نے ایک بازار سے دوسرے میں جیسے ہی مڑا تو سامنے آنٹی کے ساتھ دو لڑکیاں نقب میں میرے سامنے تھیں میں تینوں کو دیکھ کر چونک کر رک گیا۔ میری نظر آنٹی پر پڑی میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آنٹی کے ساتھ چلتی دونوں نصرت اور مدثرہ تھیں میں نے ان کو دیکھا تو دونوں گہری مدہوش آنکھوں سے مجھے ہی غور رہی تھیں ان کے یوں غورنے سے میں گھبرا سا گیا آنٹی بولی میرا پتر کی حال اے میں بولا ٹھیک مٹی تسی سناؤ وہ بولی اسی تے ٹھیک آن توں سنا غائب ہی ہویا ودا ایں بڑے دن ہو گئے آیا ہی نہیں میں نے نظر اٹھا کر نصرت کی طرف دیکھا تو نصرت آنکھیں پھاڑے مجھے کھا جانی والی نظروں سے غور رہی تھی میں یہ دیکھ کر تھوڑا گھبرایا نصرت کے چہرے پر نقاب تھا لیکن اس کی آنکھیں میں عجیب سی وحشت تھی میں گھبرا رہا تھا مدثرہ بھی آنکھیں پھاڑے مجھے ہی غور رہی تھی میں بولا بس تھوڑا مصروف ہاں اس تو نہیں آ پایا۔ مدثرہ بولی افی آگے وی توں مصروف ہوندا ہائیں چکر ضرور لیندا ہائیں ایسی کی گل ہوئی کہ توں واپس آی ہی نہیں یہ بات کہ کر مدثرہ نصرت کی طرف آنکھ گھما کر دیکھا اور ہنس دی نصرت بھی ترچھی آنکھ سے مدثرہ کو غورا اور مسکرا دی میرا دل تو دھک دھک کر رہا تھا کہ نصرت بہت ناراض ہوگی پر اس کے چہرے پر کچھ تاثر نہیں تھا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جو ہوا اگنور کر گئی تھی پھر بھی مجھے خیال آیا کہ شاید اس نے کسی کو بتایا نہیں اور اب یہاں پر بھی میرا راز رکھ رہی ہے مدثرہ نے نصرت کو مسکرا کر کہا کیوں نصرت اور ہلکی سی کہنی نصرت کو مار دی میں نصرت اور مدثرہ کی شرارتوں سے پریشان بھی ہو رہا تھا کہ پتا نہیں کیا کچھڑی پک رہی ہے۔ نصرت نے مسکرا کر مدثرہ کو ترچھی نگاہوں سے دیکھا اور بولی اس نوں آکھیا تے کسے کجھ نہیں ہے۔ اے اپنے کولو ہی رزلٹ کڈھی ودا اے یہ کہ کر دونوں بہنوں نے آنکھیں بھر کر مجھے غورا تو دونوں کی آنکھوں میں عجیب مستی بھری تھی جسے دیکھ کر میں شرما سا گیا نصرت نے مجھے شرماتا دیکھ کر مدثرہ کو کہنی ماری اور دونوں مسکرا دی میں ان کو دیکھ کر تھوڑا پزل سا ہوا آنٹی بولی وے دس تے سہی کی ہویا ہے میں بولا آنٹی کجھ نہیں ہویا وت آندا کیوں نہیں میں بولا میں بولا آساں گیا نصرت مجھے غورتی ہوئی بولی جی نہیں آساں نہیں گیا ہنڑ چل سادے نال گھر میں چونک کر بولا ہن تے میں کسے کم جاؤ آں مدثرہ بولی کم فر کر لئیں ہنڑ چل سادے نال میں کشمکش میں تھا آنٹی بھی بولی چل کجھ کھا پی لئے وت کم کر پئیں نصرت اور مدثرہ دونوں نے مجھے غورا میں بھی سوچا کہ آنٹی ساتھ ہے اگر کوئی ایسی ویسی بات ہے بھی تو نصرت کچھ نہیں کہے گی میں یہ سوچ کر ساتھ چل پڑا وہ بھی کہیں ہمسائی کی طرف سے آ رہی تھی ہم جیسے ہی گھر پہنچے تو سامنے مجھے زرناب پر نظر پڑی میں تو چونک گیا مجھے اس دن زرناب کے ساتھ گزرے لمحات یاد آگئے میں اسے ایک نظر بھر کر دیکھا تو وہ مجھے دیکھ کر مسکرا گئی نصرت اور مدثرہ میرے آگے تھیں نصرت نے منہ پھیر کر مجھے دیکھا میں نے آنکھیں نصرت کی طرف گھمائیں تو نصرت گہری آنکھوں سے مجھے غور رہی تھی میں شرمندہ ہو ہر منہ نیچے کر گیا اتنے میں ہلکی سی نصرت اور مدثرہ کی ہنسی سنائی دی میں نے اوپر دیکھا تو وہ آپس میں دیکھ کر کچھ پھس پھسا کر ہنس دیں میں شرمندہ ہوگیا وہ دونوں اندر چلی گئیں میں آنٹی کے پاس ہی صحن میں بیٹھ گیا آنٹی بولی اگلے دن توں نوشی دے کاغذ بنانے دا آکھیا ہا وت کی بنیا میں بولا آنٹی او مینوں ملے میں اسدا کم کر دیساں گیا آنٹی نے اونچی آواز میں نصرت اور مدثرہ کو چائے کا کہا اتنے میں اندر سے مدثرہ نکلی تو میں اسے ہی دیکھتا رہ گیا مدثرہ نے نیچے جینز کی پینٹ ڈال رکھی تھی جس میں اس کی ٹانگیں اور گانڈ پھسی ہوئی صاف دکھ رہی تھیں میں تو اس کو ہی غورنے لگا مدثرہ نے اوپر ایک وائٹ شرٹ ڈالی ہوئی تھی جس پر ریڈ پھول کے ڈیزائن بنے ہوئے بہت خوبصورت لگ رہے تھے مدثرہ کی شرٹ رانوں سے اوپر تک تھی مدثرہ دوپٹہ کے بغیر تھی مدثرہ نے چوٹی پر بالوں کو پونی لگا کر بال کھلے چھوڑ رکھے تھے جس سے مدثرہ بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی مدثرہ کیچن ہے دروازے پر پہنچی اور گھوم کر مجھے دیکھا مدثرہ کی مدہوش آنکھوں سے مستی چھلک رہی تھی مدثرہ نے غور کر مجھے دیکھا اور اپنی بالوں کی چوٹی کو ہاتھ سے اٹھا کر اپنے آگے بڑے بڑے مموں پر رکھا اور مسکرا کر مجھے دیکھتی ہوئی کیچن میں گھس گئی میں تو یہ نظارہ دیکھ کر مست ہی ہو چکا تھا ساتھ ہی میں چوکنا بھی ہوا کہ آنٹی بیٹھی تھی میں نے آنٹی کو دیکھا تو وہ اپنے دھیان میں تھی میرا دل مطمئن سا ہوا آنٹی نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا تو آنٹی کی آنکھوں میں عجیب سی کشمکش تھی اور چہرے پر اضطراب تھا میں سب سمجھ گیا کہ آنٹی نے مجھے مدثرہ کو غورتے دیکھ لیا ہے میرا دل دھک دھک کرتا بند ہونے لگا میں نے گھونٹ بھر کر آنٹی کو دیکھا انٹی اور میری نظریں ملیں تو آنٹی مجھ سے نظر ملا نا پائی اور آنکھیں چرا لیں میں سب سمجھ گیا میں دل ہی دل میں بولا کہ اففف کیا بلنڈر پہ بلنڈر ہورہا ہے۔ لگتا ہے اس گھر سے پکے پکے برتن اٹھیں گے میرے میں سوچنے لگا کہ کیا کروں میرا منہ نیچے ہی تھا کہ اتنے میں اندر سے نصرت آئی میں اپنے آپ میں گم تھا مجھے اس کے آنے کا پتا نہیں چلا نصرت آتے ہی بولی جناب کہڑی سوچاں وچ گم بیٹھے ہو میں نصرت کی بات سن کر چونک سا گیا اور آنکھ اٹھا کر دیکھا تو سامنے نصرت کھڑی تھی نصرت وائٹ شلوار قمیض میں تھی ہلکا سا کسا لباس نصرت کے بدن کو واضع کر رہا تھا نصرت کے انگ انگ کا پتا چل رہا تھا نصرت نے اپنا اٹھا ہوا سینہ اپنے دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا نصرت نے نصرت کا سر ننگا تھا اور گت نظر آرہی تھی میں نے ایک نظر نصرت کے بدن پر گھما کر نصرت کے چہرے کی طرف دیکھا تو میری نظر وہیں رک گئی نصرت مجھے مدہوش نظروں سے غورتی ہوئی مسکرا رہی تھی میں نصرت کے چہرے کو دیکھ کر مچل گیا نصرت نے ہلکا سا میک اپ کرکے لال سرخی لگا رکھی تھی جبکہ نصرت کے میں وہی کوکا چمک رہا تھا جو میں نے نصرت کو گفٹ کیا تھا میں ہکا بکا نصرت کو دیکھتا ہی رہ گیا نصرت بھی میری آنکھوں میں ایک لمحے کےلئے مستی سے غورتی رہی اور پھر دوسری چارپائی پر بیٹھ کر مسکرا کر اپنی ماں کو دیکھا جو چپ بیٹھی تھی میں تو نصرت کے حسن کی تاب نا لا پا رہا تھا لال سرخی پر گورا چہرہ ناک میں کوکا قیامت ڈھا رہا تھا میں تو مر سا گیا تھا میرا دل مچل کر باہر نکلنے کو بے تاب تھا میں نصرت کو ہی دیکھنا چاہتا تھا پر آنٹی کا لحاظ کیے خود کو قابو کرکے بیٹھا رہا نصرت بولی ہن دسو جناب اتنے دن کتھے غائب رہے ہو میں مسکرا دیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا گہری کاجل سے بھری نصرت کی آنکھیں مسکرا کر مجھے ہی دیکھ رہی تھیں نصرت کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا جیسے کوئی انجانی سی خوشی نصرت کو تھی میں کچھ سمجھ نا پا رہا تھا کہ یہ کیا ہے آنٹی بولی افی فر نوشی دا کجھ بنیا نصرت بولی اماں نوشی نوں ہنڑ افی باہر بھیجی گیا ہور کی بننا یہ کہ کر نصرت نے میری آنکھوں میں غور کر دیکھا اور ہلکی سی مسکرا گئی میں مسکرا کر منہ نیچے کر گیا آنٹی بولی نوشی روز تیرا پچھدا اے میں بولا آنٹی بس کجھ ایسا مصروف ہویا کہ ٹائم نہیں ملیا نصرت نے میری بات سن کر مجھے غورا اور مسکرا دی نصرت کے ناک میں کوکا اور ہونٹوں کی لال سرخی بہت حسین لگ رہی تھی میں چپ سا ہوگیا اتنے میں نوشی گیٹ سے اندر آیا اور مجھے دیکھ کر مسکرا دیا اس کے چہرے پر بھی خوشی اتر آئی تھی وہ چلتا ہوا میرے پاس آیا اور بولا افی بھائی کدے غائب ہو نظر ہی نہیں آئے میں بولا بس کجھ مصروف ہاس ہنڑ میں آگیا ہاں ہنڑ تیرا کم ہو جاسی اتنے میں مدثرہ چائے بھی لے کر آگئی اس نے مجھے چائے پکڑائی چائے کے ساتھ بسکٹ بھی تھے میں چائے پکڑ کر پینے لگا نوشی بولا بھائی میں پاسپورٹ اور دوسرے کاغذ بنوا لئے ہینڑ میں بولا اے تے چنگا کیتا ہئی نصرت نے مجھے غور کر دیکھا اور بولی افی ہنڑ میرے بھرا نوں کینیڈا لئے جاسیں گیا میں نے نصرت کی بات سنی اور اور چونک کر اسے دیکھا اس کے منہ پر ہلکی سی لالی اتر آئی تھی جبکہ اس کی آنکھوں میں گلابی ڈورے صاف چمک رہے تھے میں سمجھ گیا تھا پر حیران بھی ہوا کہ یہ تبدیلی کیسے اور کیوں آئی نصرت تیار کیسے ہوگئی اس سب کےلیے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا مجھے غورتا دیکھ کر ایک ادا سے بولی کی بنیا شانی کینیڈا نہیں جا سگدا میں چونک کر نظر چرا لی اور بولا نہیں نہیں جا سگدا اے شانی خود مسکرا دیا اور نصرت سے بولا سچی باجی نصرت نے ہاں میں سر ہلایا مدثرہ بولی باجی کی گل اے ایڈا چینج نصرت بولی کیوں کی ہویا مدثرہ بولی باجی اگلے دن توں منع کر رہی ہائیں آج آپ آکھ رہی ہیں باجی ہنس دی اور بولی بس ایویں میں آکھیا میرے بھرا دا جے دل ہے نصرت کے بھری ہوئی نرم گالیں مسکرا کر گلابی ہورہی تھیں نصرت کے دل کی بات میں سمجھ چکا تھا میں حیران تھا کہ اسے کیا ہوا ہے میں مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا نصرت نے مجھے دیکھا اور مسکرا کر نظر نیچے کر لی مجھے آنٹی کا خیال آیا میں نے آنٹی کو دیکھا تو وہ مسکرا کر نصرت کو دیکھ رہی تھی نصرت نے آنٹی کو آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو آنٹی کے چہرے پر نصرت کےلیے پیار پھیل سا گیا میں آنٹی کے یوں مسکرانے سے بھی حیران تھا کہ نصرت اور آنٹی کے درمیان بھی کوئی بات ہے۔ مدثرہ بولی مبارک نوشی ہنڑ تیاری کر کینیڈا دی وت توں سانوں وی لئے جانا اے یہ سن کر سب ہنس دئیے نصرت ہنس کر مجھے دیکھ کر اپنی انگلیاں دبا رہی تھی اسے ہلکی ہلکی شرک بھی آ رہی تھی میں نصرت ہو دیکھ کر مچل رہا تھا شانی آٹھ کر اندر گیا مدثرہ بھی برتن ہے کر چلی گئی آنٹی بولی افی کے کے تیری کوشش نال نصرت دا گھر بچ جاوے تے اے ہک ہور احسان وی سادے تے ہوسی میں یہ سن کر چونک کر آنٹی کو دیکھا میرا دل تیزی سے دھڑک گیا آنٹی نے مجھے دیکھا اور بولی نصرت آکھ رہی ہا کہ توں اگر گلشیر نال گل کریں تے او میرے نال رسائی کر لوے تیری اس من وی لینی سے میں حیرانی سے آنٹی کو دیکھ رہا تھا آنٹی وہی باتیں کر رہی تھی جو نصرت سے میں نے کیں تھیں اس کا مطلب تھا کہ ساری باتیں نصرت نے اپنی ماں سے کی ہیں میں نے نصرت کو سوالیہ انداز میں دیکھا تو اس کی آنکھوں میں مستی سے لال ڈورے چھلکنے لگے تھے اور وہ مسلسل مجھے غورنے لگی تھی اس کی آنکھیں میں عجیب سی شہوت تھی نصرت کی یہ دیکھنے کا انداز بہت ظالم تھا آنٹی بولی افی توں کوشش کرکے اہناں میاں بیوی نوں آپس اچ ملا دے میں نصرت کو دیکھ کر بولا آنٹی میں کوشش کردا اں۔ آنٹی مسکرا دی اور بولی اسی تینوں دے تے کجھ نہیں سگدے توں اپنا سمجھ کے ہی ساڈے تے اے وی احسان کردے میں بولا انٹی میرا اپنا گھر اے مینوں کی چاہی دا تسی فکر نا کرو میں کجھ کردا آں مجھے اسوقت کال آگئی میں پھر آنے کا کہ کر نکل آیا اور جس سے ملنا تھا اس سے ملا ایک دو اور کام نمٹائے اور گاڑی ہے کر چل دیا شام ہونے ہو تھی میں فری ہو کر نصرت ہے بارے میں سوچنے لگا میرا دل دھک دھک کرتا نصرت نصرت کرنے لگا میں مچل گیا میرے ذہن میں آج جو کچھ ہوا سب دوڑنے لگا میرا دل کیا کہ ایک چکر لگاتا جاؤں پر شام ہورہی تھی اگر ادھر جاتا تو دیر ہوجانی تھی صبح ہی جاؤں گا یہ سوچ کر میں گھر کی طرف چل پڑا میرے زہن میں بار بار یہ سوال دوڑ رہا تھا کہ نصرت میں اچانک یہ تبدیلی کیسے آئی پہلے تو وہ مجھے قریب بھی نہیں آنے دے گی پر اب وہ خود ہی سارا میدان بنا رہی تھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا پر میرا دل بہت خوش تھا اس سب سے میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ سب میرے ساتھ نصرت خود کرے گی میں مچل کر سوچ رہا تھا کہ ایسی کیا بات ہے جس سے نصرت یہ سب کر رہی ہے مجھے زرناب کا خیال آیا کہ کہیں نصرت مجھے اس کے ساتھ دیکھ کر نا تیار ہو گئی ہو ظاہری سی بات تھی نصرت خود بھی بھر پور جوان تھی ابھی تک اور اوپر سے اسے ایسا مرد ملا بھی نہیں تھا جو وہ چاہتی تھی اس کا اپنا مرد اسے مطمئن نہیں کر پاتا تھا ہو سکتا ہے وہ زرناب کے ساتھ مجھے دیکھ کر قابو نا رکھ پائی ہو۔ میں نصرت کی اداؤں کا سوچ سوچ کر مچل رہا تھا آنٹی اور نصرت کا رویہ بھی کچھ عجیب تھا نصرت بار بار اس کی طرف جو دیکھ رہی تھی یقیناً دال میں کچھ کالا تھا کہیں نصرت نے آنٹی کو سب باتیں بتا نا دی ہوں میں یہ سب سوچ سوچ کر مچل رہا تھا مجھے کام بنتا دکھائی دیا تھا میں گھر آیا اور نوشی کےلیے کینیڈا میں اپنے سیکرٹری کو کچھ ہدایات دیں میں چاہتا تھا اسے کوئی اچھا کام دوں ظاہر ہے اب اس کی بہن کے ساتھ رنگ رلیاں منانا تھی اسے آرام تو دینا تھا میں نے کچھ اور کام نمٹائے اور سو گیا صبح تھوڑا لیٹ اٹھا کھانا کھا کر سیدھا نصرت کی طرف چلا آیا میں نے گاڑی سامنے کھڑی کی اور دروازہ کھٹکھٹایا تو زرناب نے دروازہ کھولا مجھے دیکھ کر زرناب بھی چونک گئی اور ہنس کر مجھے دیکھا اور بولی آئے ہو جناب میں تھوڑا جھجھکا وہ ہنس دی اور اپنے بازو پیٹ پر باندھ کر اپنی گت آگے پھینکی اور بولی جناب اپنا کم کرکے فر مڑ کے ساڈی خبر ہی نہیں لئی تسی تے بڑے بے وفا نکلے میں شرمندہ سا ہوگیا وہ سچی ہی تھی کہ پتا نہیں نصرت نے اسے کچھ کہا ہو گا میں بولا ہلا سوری جناب اے دسو کہ کسے کجھ آکھیا تے نہیں وہ اپنی گت کو پیچھے پھینک کر بولی کسے دی مجال ہی نہیں ویسے امی بس جھڑکاں ہی دریاں ہانڑ آکھیا کجھ نہیں۔ اور ہنس کر مجھے دیکھنے لگی میں اس کے انداز سے مسکرا دیا میں بولا ہلا امی گھر ہی ہئی وہ بولی کیچن اچ ہے میں نے مسکرا کر اسے دیکھا وہ بولی جناب یک فرنچ کس ہی کر دیو میں بولا زرناب نصرت ویکھ لیسی گئی وہ بولی چھڈ امی تینوں کجھ نہیں آکھدی میں ہنس دیا وہ بولی سچی میں بولا کیوں ایڈا تینوں کنج یقین وہ بولی بس ہے نا میں نے کیچن کی طرف دیکھا اور زرناب کی گردن میں ہاتھ ڈال کر سر کو اوپر کی طرف مروڑ کر زرناب کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دبا کر چوسنے لگا زرناب کی کچی جوانی کی مٹھاس بھری تھوک میرے اندر جا کر مجھے بے حال کر گئی زرناب نے میرا سر اپنے ہاتھ سے دبا کر میری زبان کھینچ کر دبا کر چوس لی زرناب کا چھوٹا سا گرم منہ مجھے نڈھال کرگیا میں ہانپ گیا چھوٹی سی عمر میں زرناب پوری ماہر کی طرح میری فرنچ کس کرتی مجھے چوس رہی تھی میں زرناب کی پھڑکتی جوانی کا رس پی کر نڈھال ہوکر بے قابو ہوا رہا تھا میرا لن تن رہا تھا زبان میری ساری زبان کھینچ کر اپنے ہونٹوں میں دبا کر سختی سے چوس کر مجھے بے حال کر رہی تھی میں مزے سے مچل کر بے قابو ہو رہا تھا دو سے تین منٹ تک میں زرناب کی کچی جوانی کا رس کھینچ کر چوستا ہوا پچ کی آواز سے چھوڑ دیا زرناب میری زبان چھوڑ کر ہانپتی ہوئی کرلا گئی مزے سے زرناب کے سینے سے تیز سانس کے ساتھ زرناب کی ہلکی سی بکاٹی نکل گئی میں زرناب کی آگ دیکھ کر مچل رہا تھا اتنی چھوٹی سی عمر میں زرناب کے اندر آگ لگی تھی زرناب ہانپتی ہوئی بولی افففف اماں توں تے جان ہی کڈھ لیندا ایں پتا نہیں او دن کدو اسی جدو اسی وی تیرے وچ سمو جڈاں گئے میں ہنس کر زرناب کے نرم ہونٹوں کو چوما زرناب نے بھی مجھے ایک بار پھر فرنچ کس کر کے میرے ناک سے ناک ملا کر بولی افی میرا کجھ کر نہیں تے مر جاساں گئی میں ہنڑ مسیں ودی آں تیرے بغیر رہ نہیں سگدی میں پیچھے ہوکر بولا زرناب حوصلہ کر تیرے نالو وڈیاں اس گھر اچ صدیاں ہینڑ تینوں ڈھیر آگ لگی اے وہ مسکرا کر بولی میں اوہناں نوں وی جانڑدی آں او وی بڑیاں اکھیاں ودیاں ہینڑ۔ اوہناں دی وی تیرے تے نظر اے بس تھوڑے دن ہینڑ توں قابو اجاسیں اوہناں دے میں بولا مثلاً کون کون اے۔ وہ ہنس دی اور بولی خالہ مدثرہ تے ماہم نوں تے میں سنیا اے تیرے بارے پلان بنادیاں میں چونک کر بولا کیویں دے پلان زرناب بولی تینوں پھساوںڑ دے میں مسکرا دیا اور بولا پر میں تے تیرا عشق آں وہ ہنس دی اور بولی وے مینوں اپنی بنا لئے نا میں بولا بنا لیساں کوئی ٹائم تے آوے وہ بولی کدو ٹائم آسی میں بولا آ جاسی گیا فکر نا کر میں پچھے ہٹ کر کھڑا تھا کہ اتنے میں اندر کیچن سے نصرت نکلی اور دروازے پر کھڑی ہوکر زرناب کو پکارا زرناب نے چونک کر مڑ کر نصرت کو دیکھا اور مڑ گئی نصرت کل والے سفید لباس میں تھی جو نصرت کے جسم کو کس کر واضح کر رہا تھا نصرت ہے تنے ہوئے ممے ہوا میں اکڑے نظر آرہے تھے نصرت نے ایک نظر مجھے غور کر دیکھا زرناب اپنی ماں کی طرف چلی گئی میری نظر نصرت کے سارے جسم سے ہوتی ہوئی زرناب کی لہراتی گانڈ پر پڑی لہرا رہی تھی زرناب کی چھوٹی سی گانڈ اور اوپر پتلی کمر دیکھ کر میں مچل سا گیا میں بڑے انہماک سے زرناب کو غور رہا تھا نصرت بولی زرناب جا نال آلی باجی آل جہڑا کم تینوں آکھیا جا کے او کر یہ سن کر وہ رک گئی میں نے نظر اٹھا کر نصرت کو دیکھا تو وہ گہری مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی اس کی آنکھوں میں عجیب سی مستی تھی زرناب بولی اچھا امی نصرت مجھے دیکھتی ہوئی اندر چلی گئی میں مچل سا گیا تھا دونوں ماں بیٹی کی اداؤں میں قیامت تھی نصرت کے اندر جانے پر میں ایک لمحے کےلئے رکا اور پھر کیچن کی طرف بڑھ گیا میں جیسے ہی کیچن کے دروازے پر پہنچا سامنے نصرت سنک پر کھڑی کام کر رہی تھی نصرت ایک ادا سے مجھے مست آنکھوں سے دیکھا نصرت کے ناک میں کوکا قیامت ڈھا رہا تھا میں مچل سا گیا نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے نصرت بولی سرکار آئے ہو میں بولا جناب آ گئے آں تھواڈے در توں خیر کینٹ نصرت میری اس بات پر ہنس دی اور نظر اٹھا کر مجھے مستی سے دیکھا نصرت کے سفید دانت چمک رہے تھے نصرت کے مسکرانے سے نصرت کی گالیں بھر سی جاتیں جنہیں دیکھ کر دل کرتا بندہ منہ بھر کر دبوچ کر چوس چوس کر کھا جائے میں نے ایک نظر نصرت کے کسے ہوئے بدن پر ڈالی تو میں مچل گیا کیا خوبصورت جسم تھا نصرت کا باہر کو نکلے تن کر کھڑے ممے کمان کی طرح تنی کمر باہر کو نکلے پھولے ہوئے چتڑ قیامت ڈھا رہے تھے کسے ہوئے قمیض میں نصرت کا بدن ہلکا ہلکا دکھ رہا تھا میں نصرت کے بدن کی خوبصورت شیپ دیکھ کر مچل رہا تھا نصرت نے مجھے دیکھا اور مجھے اپنا بدن دیکھتا ہوا دیکھ کر مسکرا دی میں بھی مسکرا دیا اور نادر
چلا آیا نصرت کے منہ پر ہلکی سی لالی پھیل گئی نصرت بولی تینوں آگے وی آکھیا ہا میریاں دھیاں توں ولا جا او ہلے نکیاں ہین میں چونک گیا مجھے سمجھ آگئی کہ زرناب ہو چومتا دیکھ لیا تھا نصرت نے میں نصرت کے پیچھے سے گزر تو نصرت کی لمبی گت نیچے گانڈ پر پڑی قیامت ڈھا رہی تھی نصرت کی گوری گردن کو دیکھ کر میں مچل رہا تھا میں گزر کر دوسری طرف آیا اور بولا تیرے بھرا نوں کینیڈا نہیں بھیجنا اور دوسری طرف آکر سنک پر نصرت کے سامنے کھڑا ہوگیا نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دی نصرت کی بھری ہوئی گالیں لال ہونے لگی تھیں میں مچل سا گیا نصرت کا گلہ اب کافی کلا سا تھا جس سے نصرت کا گورا سینہ چمک رہا تھا جبکہ نصرت کے تنے مموں کی ہلکی سی لکیر بھی نظر آ رہی تھی میں مچل سا گیا مجھے یاد آیا جب نصرت کیچن سے باہر نکلی تھی تب اس کی لکیر نظر نہیں آرہی تھی نصرت نے مجھے دکھانے کے لیے اپنے مموں کی لکیر واضع کر رکھی تھی میں یہ دیکھ کر مچل گیا کہ نصرت کا اپنا بھی من ہے میرے ساتھ رنگ رلیاں منانے کا میرا لن فل تن کر کھڑا تھا میں کپڑوں میں تھا جس سے میرے سامنے ٹینٹ بن رہا تھا میں نصرت کو دیکھ کر بولا تینوں کی اعتراض اے تیریاں دھیاں تے آپے مینوں پھسا رہیاں ہین نصرت نے مجھے غورا اور مسکرا کر بولی ہلا اے دس گلشیر نوں ہنڑ وقت پتر دیسیں کہ نہیں یہ کہ کر نصرت نے مستی سے مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی نصرت کی آنکھوں میں شہوت بھر رہی تھی میں نے مسکرا کر اپنے تنے لن کی طرف اشارہ کیا اور بولا میری جان اسی تے فل تیار آں نصرت نے میری نظر کا پیچھا کیا اور میری شلوار کا ٹینٹ بنا دیکھا تو شرما گئی اور بولی ہا وے کیڈا بے شرم ہیں توں تے ایتھے ہی شروع ہو گیا ایں ذرا وی صبر نہوں میں ہنس دیا اور ہاتھ آگے کرکے نصرت کا بازو پکڑ لیا نصرت کانپ کر سسک گئی اور مجھے گہری مست آنکھوں سے دیکھ کر بولی وے چھڈ مینوں نا تنگ کر اور اپنا ہاتھ جھٹکے سے چھڑوا لیا میں نصرت کے بالکل قریب ہوگیا اتنا قریب کہ کہ ہمارے درمیان بہت کم فاصلے رہ گیا نصرت کے بدن سے نکلتی گرم مہک میرے ناک کو چڑھنے لگی میں مدہوش سا ہونے لگا تھا میں نصرت کے بالکل قریب ہوکر بولا میری جان آپ ہی مینوں بلاندی وی ہیں وت آپ ہی نخرے کردی ایں نصرت مسکرا کر نظر اٹھا میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی افی ایتھے کوئی اجاسی وت میں بولا وت اندر چلدے آں نصرت کسمسا سی گئی مجھے سے رہا نہیں جا رہا تھا میں نصرت کے قریب ہوکر اپنے بازو اٹھا کر نصرت کو باہوں میں بھرنا چاہا تو نصرت نے میرا آگے والا بازو پکڑ لیا میں نصرت کے بالکل قریب ہوچکا تھا نصرت نے سسک کر مجھے دیکھا اور میری آنکھوں میں دیکھ کر سرگوشی میں سسک کر بولی افییییی نااااںکررررر نا۔ میں نصرت کے بالکل قریب ہوکر رک سا گیا میں نصرت کی سائیڈ پر کھڑا ہوکر نصرت کو باہوں میں لینے کو آگے بڑھا تھا اس لیے میں اتنا قریب آگیا تھا کہ میرا تنا ہوا لن نصرت کے نرم پٹ سے ٹکرا کر چھبنے لگا تھا جس سے نصرت اور میری اکھٹی سسکی نکل گئی نصرت کا گرم جسم مجھے نڈھال کر گیا نصرت نے میری آنکھوں میں دیکھ کر مجھے روکا میرا ناک نصرت کے ناک کے بالکل قریب آکر رک گیا میں اور نصرت ایک لمحے کےلئے ایک دوسرے کی آنکھوں میں مستی سے دیکھتے رہے نصرت کی آنکھوں سے بے پناہی شہوت اور پیار نکل کر میرے اندر اتر رہا تھا نصرت میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکے ہوئی تھی نصرت کا سانس بہت تیزی سے چل کر میری سانس ے مل کر میرے اندر اتر کر مجھے مدہوش کر رہا تھا میرا لن جھٹکے مارتا نصرت کے پٹ کو چومنے لگا تھا میں نے سسکار کر کہا کیوں نصرت۔۔۔ میری جاااااان کیوں روک رہی ہیں نصرت کچھ نا بولی اور میری آنکھوں میں دیکھتی رہی میں نصرت کی آنکھوں میں ڈوب سا گیا تھا نصرت کے ہانپتے ناک میں کوکا اچھل کر مجھے بے حال کر رہا تھا میں نے بے اختیار منہ آگے کیا اور نصرت کے بڑے بڑے گلابی ہونٹ چوم لیے نصرت کی سسکی نکلی اور اس کی آنکھیں بند ہوگئی میں نے نصرت کے ہونٹوں کو چوم کر اپنے ہونٹ نصرت کے ہونٹوں سے ملا کر چوس لیے نصرت کی سسکی نکلی اور اس نے بھی اپنی ہونٹوں کو کھول کر میرے ہونٹ چوستی ہوئی میرا ہاتھ خود ہی چھوڑ دیا میں نے ہاتھ اٹھا کر نصرت کو باہوں میں بھر کر اپنے سینے سے لگا لیا جس سے میر لن نصرت کے پٹ میں دب گیا گیا نصرت کا ایک تنا ہوا مما بھی میرے سینے میں چبھ گیا میں سسک کر کرا گیا نصرت میرے سینے سے لگتے ہی سسک کر کرلا سی گئی میں نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا اپنا لن نصرت کے پٹ پر ہلکا ہلکا رگڑنے لگا نصرت کا جسم مزے سے تھر تھر کانپنے لگا نصرت کی آنکھیں بند ہوگئی نصرت میرا ساتھ دیتی ہوئی میری زبان کھینچ کر چوسنے لگی میں نے نصرت کو دبا کر باہوں میں بھر کر سینے سے لگا لیا نصرت میری جپھی میں دب کر میرے سینے سے لگ کر میری زبان چوس کر سسکتی ہوئی ہانپنے لگی میں کراہ کر مچل کر نصرت کو چوس رہا تھا نصرت میری زبان اپنے ہونٹوں میں دبا کر کس کر چوس رہی تھی نصرت میرا بھر پور ساتھ دینے لگی تھی میں نصرت کو اپنے سینے سے دبا کر چوس رہا تھا اتنے میں گیٹ کھڑکا میں اور نصرت چونک کر الگ ہوگئے میرا دل دھڑکنے لگا تھا میں سسک کر کراہ کر پیچھے ہوا اور جلدی سے اپنا لن اپنے چڈوں میں دبا لیا تا کہ آنے والا دیکھ نا سکے نصرت نے خود کو بھی سنبھالا اور مجھے اپنا لن چڈوں میں دباتا دیکھ کر مسکرا کر مجھے دیکھ کر کام میں مگن ہوگئی اتنے میں زرناب اندر آئی تو نصرت بولی کی ہویا زرناب بولی امی آنٹی کوئی نہیں نصرت نے ایک لمحے تک زرناب ہو دیکھا پھر کچھ نا بولی نصرت کچھ سوچنے لگی شاید وہ زرناب کے آنے سے تھوڑی مایوس سی ہوئی تھی وہ میرے ساتھ فل انجوائے کرنا چاہ رہی تھی لیکن زرناب ہے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں تھا وہ کچھ سوچ کر بولی زرناب ہک کم کر او کل جہڑی باجی دو سوٹ بھیجے ہین سلائی واسطے او باجی آپ لئے جا تے کٹوا لیا اس نوں آکھ امی آکھ رہی میرے کول ٹائم نہیں کٹن دا کٹ کے دے چا سی میں لیساں زرناب اچھا کہ کر مڑ گئی میں نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا میں سمجھ گیا کہ نصرت زرناب کو گھر سے نکالنا چا رہی ہے کیونکہ تسلی سے میرے ساتھ وقت گزار سکے میں نصرت کو دیکھ کر ہنس دیا نصرت مسکرا کر شرما کر نظر نیچے کرکے مجھے دیکھنے لگی میں بولا سہی طریقہ اے نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولی بھائی نوں کینیڈا وی بھیجنا اے تے اہناں دے پیو دے نوں پتر وی نہیں دینا میں یہ سن کر ہنس دیا اور نصرت کے قریب ہوگیا نصرت بھی اب کھل سی رہی تھی نصرت کی بھری ہوئی گوری گال گلابی ہوکر مجھے بے حال کر رہی تھی میں نصرت کو دیکھ کر مچل رہا تھا اتنے میں دروازہ کھٹکا میں سمجھ گیا زرناب نکل گئی ہے میں نے نصرت کو باہوں میں بھر کر دبوچ لیا جس سے نصرت بھی سیدھی ہوکر میرے سینے سے لگ کر مجھے باہوں میں بھر کر دبوچ لیا نصرت کے موٹے موٹے ممے میرے سینے میں دب کر میری جان ہی نکالنے لگے میں تڑپ کر نصرت کو دبا کر ہونٹ نصرت کے ہونٹوں سے ملا کر کس کر دبا کر چوسنے لگا نصرت بھی مجھے چوستی ہوئی میرا ساتھ دینے لگی نصرت کا جسم آگ سے تپ رہا تھا میں کرا کر سسکتا ہوا مچل کر نڈھال ہو چکا تھا میرا تنا ہوا لن نصرت کے چڈوں میں جا گھسا جسے نصرت نے چڈوں میں دبا لیا نصرت کے چڈوں میں آگ لگی تھی جس سے میری کراہیں نکل کر نصرت کے منہ میں دبنے لگیں نصرت میری زبان کھینچ کر چوستی ہوئی میرا لن چڈوں میں دبا کر خود ہی ہلکے ہلکے جھٹکے مارتی میرا لن اپنے چڈوں میں رگڑ ے لگی میں تو پہلے ہی مزے سے نڈھال تھا نصرت کی گرمی نے میری جان ہی کھینچ لی نصرت بھی بےقرار تھی آگ اس کے اندر بھی برابر لگی تھی نصرت میری زبان کھینچ کر چوستی ہوئی تیز تیز جھٹکے مارتی میرا تیزی سے رگڑتی ہوئی کراہنے لگی نصرت کی کرلاٹیں میرے منہ دب کر ارڑاٹوں میں بدل رہی تھیں نصرت اتنی جنونی ہو کر میری زبان کھینچ کر چتھ کر چوستی ہوئی جھٹکے مارتی ہوئی کرلا رہی تھی جیسے شیرنی دھاڑ رہی نصرت کی دھاڑیں کیچن میں گونج رہی تھیں میں مزے سے مر رہا تھا مسلسل دو منٹ کے دھکوں نے میری جان کھینچ لی میں کرلا سا گیا اس پہلے نصرت کا جسم زور سے دھڑکا اور وہ ہانپتی ہوئی بکا کر تڑپی اور اور مجھے باہوں میں کس لیا ساتھ ہی اس کا جسم جھٹکے کھانے لگا نصرت تھر تھر کانپتی پانی چھوڑنے لگی مجھے لگا نصرت کے چڈوں میں آگ محسوس ہوئی ساتھ ہی میں نصرت ہو دبوچ کر دبا کر چوستا ہوا فارغ ہوگیا میرا جسم بھی تھرکنے لگا تھا نصرت کے چڈوں کی گرمی نے میری جان ہی نکال ہے رکھ دی تھی میں اور نصرت ایک دوسرے کو باہوں میں دبوچ کر سینے سے سینہ ملائے ہانپ ہر فارغ ہو چکے تھے نصرت کی آنکھیں بند تھیں اور سانس چکی کی طرح چل رہا تھا نصرت ہانپتی ہوئی کراہ کر میرے ہونٹ دبا کر چوم رہی تھی ہم ایک دوسرے میں اتنے مگن تھے کہ ہمیں پتا ہی نا چلا تھا کہ آنٹی کب کی کیچن میں آ کر ہمیں پیار کرتا دیکھ رہی تھی اپنی بیٹی ہو میرے سینے سے لگا فارغ ہوتا دیکھ کر وہ مسکرا رہی تھی ہم فارغ ہو کر نڈھال ہوچکے تھے نصرت میرے ہونٹ چھوڑ کر پیچھے ہوئی اور منہ کھول کر تیز تیز سانس لیتی ہانپنے لگی میں نصرت کی گلابی گالوں کا دیوانہ ہو رہا تھا میں نے منہ کھول کر نصرت کی گال منہ میں بھر کر دبا کر چوس لی نصرت اپنا سر اوپر کر کے آنکھیں بند کرکے اپنے ہونٹوں کو دانتوں میں دبا کر اپنی گال مزے سے میرے منہ میں دبانے لگی نصرت کو بھی مزہ آ رہا تھا نصرت نے مجھے اپنی باہوں سے الگ نہیں کیا تھا میں نصرت کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا نصرت مزے سے مجھے اپنے سینے سے لگا کر اپنی گال چسوا رہی تھی کہ پیچھے سے آنٹی کی آواز آئی لیلی مجنوں کوئی آس پاس دا وی دھیان رکھو یہ سن کر نصرت چونک کر پیچھے ہوئی نصرت کو لگا کہ پکڑے گئے ہیں اس لیے وہ ڈر کے مارے تیزی سے پیچھے ہوئی اور میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھ مجھے پیچھے دبا کر خود کو چھڑوانے کے انداز میں مجھے دھکیل کر بولی اوئے ہالنی اماں میں مر گئی یہ کہ کر نصرت مڑی تو سامنے اسکی اپنی ماں کھڑی تھی جسے دیکھ کر وہ رک گئی میں نصرت نے مجھے چھوڑ دیا تھا پر میں نے اسے ابھی تک اپنی باہوں میں بھر رکھا تھا نصرت اپنی ماں کو دیکھ کر رک گئی اور بولی ہالنی اماں ڈرا ہی دتا اور آگے منہ کرکے اپنا سر میرے کاندھے پر رکھ کر بولی اماں آج تے تراہ کڈھ دتا ہئی آنٹی مسکرا کر بولی تسی وی تے انج بے فکر ہوکے لگے ہوئے ہو ایو جہیا کم لک ہے کریندا تسی سرعام ہی شروع ہو میں ہنس دیا نصرت مسکرا کر بولی امی پتا ہی نہیں لگا دس کی کردی آنٹی مسکرا کر بولی میری کملی دھی ہنڑ جو وی کرنا اندر جا کے کر میں برتن دھو لیساں تسی اندر جاؤ نصرت پیچھے ہوئی اور مجھے چھوڑ دیا میں نے بھی چھوڑ دیا نصرت گھوم گئی اور باہر نکل گئی آنٹی بولی افی کی گل اے پتر ہی ہوسی میں آنٹی کی بات سن کر ہنس دیا اور مسکرا کر بولا آنٹی فکر نا کر پتر ہی جنسی نصرت آنٹی ہنس دی میں باہر نکل آیا اور واشروم سے ہو کر اندر چلا گیا تو نصرت پلنگ پر بیٹھی تھی میں نصرت کے پاس جا کر بیٹھ گیا نصرت پلنگ سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی میں نصرت کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا نصرت میری طرف چلی آئی اور میری باہوں میں چلی آئی میں نصرت کی گال کو دبا کر چوس کر چاٹ لیا نصرت کی نرم گال بڑا مزہ دے رہی تھی نصرت کو بھی مزہ آنے لگا تھا میں نے ایک موٹا مما ہاتھ میں بھر کر دبا کر مسل دیا نصرت کی کراہ نکل گئی نصرت سسکتی ہوئی میرا ساتھ دینے لگی اور میرے ہونٹ بار چوسنے لگی میں نصرت کے دونوں ممے بار بار دبا کر مسل رہا تھا نصرت سسک کر بولی افی ہک گل تے دس میں بولا حکم کر میری جان نصرت بولی نوشی کتنے اچ کینیڈا پہنچسی میں ہنس کر بولا میری جان پچھ کے کہ کرسیں نصرت مسکرا کر بولی پتا تے ہووے میری قیمت کی لگی میں ہنس دیا اور بولا 45 لکھ اچ نصرت میری بات سن کر سہم سی گئی اور حیرانی سے بولی 45 لکھ۔۔ اتنے پیسے۔۔۔ میں بولا میری جان جانا وی تے کینیڈا اے۔ نصرت میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی اتنے پیسے میرے تے بھرے نی میں مسکرا کر بولا میری جان 45 لکھ اچ تیرے جئی آگ دی بھری جوانی لبھ جائے ہور کی لینا نصرت میری بات سن کر مسکرا دی اور بولی افی اے تے بہوں ڈھیر ہین اس اچ تے تینوں مدثرہ تے ماہم وی مل سگدی اے میں نصرت کے منہ سے یہ سن کر گھونٹ بھر کر رہ گیا اور نصرت کو حیرت سے دیکھنے لگا نصرت نے مسکرا کر میری آنکھوں میں دیکھا اور بولی کی بنیا۔ لگدا منہ اچ پانی آگیا سن ہے میں ہنس کر بولا نہیں۔ او میرے نیڑے کدے آندیاں نصرت ہنس کر بولی میری جان مدثرہ تے فل تیار اے میں بولا تے ماہم نصرت بولی اس کدے جانا اس وچ وی بڑی آگ اے مزے دی گل اے دوویں ایک پیک ہین اور مسکرا کر مجھے دیکھا میں بولا پکی گل اے نصرت بولی میریاں بھیناں ہین مینوں پتا اے نصرت میرے ہونٹ چومنے لگی میں نصرت کو باہوں میں بھر کر دبا کر چوستا ہوا نصرت کے قمیض کو ہاتھ ڈالا تو نصرت نے اپنا قمیض اتار دیا نصرت کے گورے جسم پر بلیک برا چمک رہی تھی میں نے اپنا قمیض بھی کھینچ کر اتار دیا اور نصرت کو باہوں میں بھر کر چوسنے لگا نصرت کے موٹے تنے ہوئے ممے برا میں قید تھے میں نے۔ پیچھے ہاتھ ڈال کر نصرت کی برس کا ہک کھول دیا جس سے نصرت کی برا کھل گئی نصرت کے تنے ممے برا کی قید سے آزاد ہوکر تھرکنے لگے نصرت کے تن کر کھڑے موٹے مموں کے گلابی نپلز قیامت ڈھا رہے تھے میں نصرت کے ممے ہاتھ میں پکڑ کر دبا کر مسلتا ہوا نصرت کے نپلز کو مسلنے لگا نصرت کرلا کر کانپنے لگی نصرت کے نپلز کو مسلنے سے نصرت مزے سے تھر تھر کانپنے لگی نصرت کا۔جسم کانپنے لگا میں نے ہاتھ میں مما دبا کر نصرت کا نپل منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے نصرت تڑپ کر کراہ گئی اور مجھے پکڑ کر پیچھے لیٹ گئی میں نصرت کے اوپر چڑھ گیا اور نصرت کو دبا کر نصرت کے مموں کو چوسنے لگا نصرت نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر میری کمر کے گرد لپیٹ لیں ہم بالکل چدائی والی پوزیشن میں آگئے نصرت سسکتی ہوئی کراہنے لگی میں نصرت کے اوپر جھک کر نصرت کے مموں کو چوسنے لگا میرا لن تن کر کھڑا ہوچکا تھا جو سیدھا نصرت کی پھدی سے ٹکرا گیا نصرت کرا کر کانپ گئی نصرت کی پھدی سے نکلتی گرمی مجھے محسوس ہوکر نڈھال کر رہی تھی نصرت میرا سر دبا کر اپنا مما چسوا رہی تھی نصرت کا جسم دھڑکنے لگا تھا نصرت کراہتی ہوئی کرلانے لگی تھی نصرت کی آہوں سے کمرہ گونج رہا تھا نصرت میرے لن کا لمس برداشت نا کر پا رہی تھی میں سمجھ گیا تھا میں پیچھے ہاتھ نصرت کی ٹانگوں میں ڈالا اور نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر اپنے کاندھوں پر رکھ کر اپنا وزن نصرت کی ٹانگوں پر ڈالا جس سے نصرت کی ٹانگیں دبا کر نصرت کے کاندھوں سے جا لگیں نصرت بکا کر کرلا گئی اور تڑپ کر آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا میرا لن نصرت کی پھدی پر دب گیا تھا نصرت کی ٹانگیں نصرت کے کاندھوں سے جا لگیں تھیں جبکہ نصرت دوہری ہوکر ہانپتی ہوئی تھر تھر کانپنے لگی تھی نصرت نے کرلا کر مجھے دیکھا میں نے اوپر ہوکر نصرت کی شلوار کھینچ کر نصرت کی پھدی ننگی کر دی اور خود بھی اوپر ہو کر اپنا کہنی جتنا لن نکال کر نصرت کی پھدی کے دہانے سے ٹچ کیا لن نصرت کی پھدی سے ٹچ ہوتے ہی میں کرلا گیا جبکہ نصرت جھٹکا کھا کر زور سے تڑپی اور کرلا کر سر ادھر ادھر مارتی کانپنے لگی میں نے نصرت کی ٹانگوں پر سارا واش ڈال کر نصرت کو دبا رکھا تھا نصرت کا جسم بری طرح سے کانپنے لگا میں آہستہ آہستہ لن نصرت کی گرم پھدی پر رگڑنے لگا جس سے نصرت کرلانے لگی اور کانپتی ہوئی سر ادھر ادھر مارنے لگی نصرت کی کراہیں نکل کر گونج رہی تھیں نصرت کا کوکا ہانپتے ناک میں اچھل کر مجھے نڈھال کر رہا تھا مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے لن نصرت کی پھدی کے دہانے سے سیٹ کیا تو نصرت نے ہانپتے ہوئے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا میں نے نصرت کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے آہستہ سا لن دبایا جس سے لن کا ٹوپہ ہلکا سا ہی اندر گھسا تھا کہ نصرت کی زوردار کراہ نکلی اور ساتھ ہی دروازہ کھلا جہاں نصرت کا بھائی رافع اندر داخل ہوا اور سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی وہ ہڑبڑا کر سامنے اپنی بہن کو ننگا میرے نیچے پڑا دیکھ کر رک سا گیا میرے نیچے اپنی بہن کی کاندھوں سے لگی کانپتی ٹانگیں اور ننگی پھدی میں ہلکا سا چبھا میرے لن کا ٹوپہ دیکھ کر رافع وہیں منہ کھولے کھڑا ہوکر آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا نصرت اپنے بھائی رافع کو اندر آتا دیکھ کر ہڑبڑاائی اور میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنی ٹانگوں اور ہاتھوں کا زور لگا کر مجھے پیچھے دھکیل کر چیخی اور تیزی سے اوپر ہوکر اپنی شلوار اوپر کرکے بولی ہالنی اماں میں مر گئی اور جلدی سے اپنا قمیض اٹھا کر اپنے موٹے مموں کو ڈھانپ لیا نصرت کے یوں زور لگانے پر رافع نے اپنی سیدھی ہوتی بہن کی پھدی میں اترا میرے لن کا ٹوپہ پچ کی آووز سے نکلتے دیکھ لیا تھا میں نصرت کی اس حرکت سے گڑبڑا سا گیا مجھے سمجھ نا آئی کہ کیا ہوا ہے میں نے حیرانی سے دروازے کی طرف دیکھا تو میں بھی بوکھلا گیا سامنے نصرت کا بھائی رافع کھڑا آنکھیں پھاڑ کر ہکا بکا ہمیں دیکھ رہا تھا اس کی نظر مجھ سے ملی میں جلدی سے اپنا لن اپنی شلوار میں ڈال کر چھپا لیا رافع بھی سمجھ گیا کہ ابھی اس کی بہن چدنے والی تھی رافع نے ایک نظر اپنی بہن کو دیکھا اور مڑ کر نکل گیا اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا اس کے نکلتے ہی نصرت گھبرا کر پریشانی کی حالت میں بولی ہالنی اماں میں تے مر گئی آج کجھ نہیں بچنا میں بولا نصرت کجھ نہیں ہوندا نصرت تو گھبراہٹ سے مری جا رہی تھی اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگا تھا میرے بھی سانس سوکھ چکے تھے نصرت منہ نیچے دبائے پڑی تھی اسے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا ہم اسی کشمکش میں تھے کہ اتنے میں آنٹی اندر آئی اور بولی رافع تھوانوں ویکھ لیا اے میں بولا آنٹی کجھ آکھیا تے نہیں اس آنٹی مسکرا دی اور بولی کجھ نہیں آکھدا او تے اس پچھیا کی ہو رہیا اے میں آکھیا تھواڈا مستقبل بن رہیا اے وت اس نوں ساری گل سمجھائی ہے سمجھ گیا اے نصرت نے منہ اٹھا کر دیکھا اور بولی امی بھائی کدے گیا آنٹی بولی او وگ گیا اے تسی اپنا کم کرو۔ نصرت بولی ناں امی اتنا کافی اے آنٹی بولی نصرت کجھ نہیں ہوندا کر کئے ہک واری میں جاندی پئی آں باہر دس دھیان رکھساں تسی کرو یہ کہ کر آنٹی نکل گئی میں نصرت کی ٹانگوں کے بیچ آیا اور نصرت کا قمیض کھینچ کر نصرت کو ننگا کرکے نصرت کے اوپر لیٹ کر نصرت کو چوسنے لگا نصرت سسکتی ہوئی میرا ساتھ دینے لگی میں دو منٹ تک نصرت کو چوستا رہا نصرت بولی افی ہک گل تے دس میں پچھ میری جان نصرت بولی افی تینوں تسلی اے پتر ہی ہوسی میں مسکرا دیا اور نصرت کے ہونٹوں کو چوم کر بولا میری جان یقین رکھ پتر ہی جمسی گیا نصرت مسکرا کر بولی میرا تیرے تے یقین ہی ہے توں ہی تے تیرے ہیٹھ پئی آں میں پیچھے ہوا اور نصرت کی شلوار پکڑ کر کھینچ دی نصرت نے اپنے گھٹنے اٹھا کر سینے سے لگا لیے جس سے نصرت کی پچ پچ کرتی بند کھلتی پھدی سامنے آگئی نصرت کی پھدی کے ہونٹ ہلکے ریڈ براؤن کلر کے تھے جو تھوڑے موٹے تھے پھدی کا دہانہ بھی زیادہ کھلا نہیں تھا نصرت ہانپتی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی میں پیچھے ہوا اور اپنی شلوار اتار کر نصرت کے چڈوں میں آکر نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر اوپر ہوا میں کھڑی ہیں نصرت میرا کہنی جتنا تنا لن دیکھ کر بولی افففف افی اتنا وڈا لن آج تک نہیں لیا میں میں بولا جان اے آج توں تیری پھدی اچ ہی جاسی نصرت مسکرا دی میں نے نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر دبا کر نصرت کے کاندھوں سے ملا دیں نصرت کی پھدی کھل کر میرے سامنے آگئی میں نے اپنا نصرت کی پھدی کے دہانے سے سیٹ کرکے پش کیا پچ کی آواز سے ٹوپہ نصرت کی پھدی میں اتر گیا جس سے نصرت کرلا سی گئی میں نصرت کی پھدی میں ٹوپہ اتار کر مچل گیا اندر تو آگ لگی تھی میں نے گانڈ کھینچ کر دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا لن یک لخت پورا جڑ تک نصرت کی پھدی کے پار کردیا جس سے نصرت تڑپ کر اچھلی اور کانپتی ہوئی کرلا کر بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی ااااااہہہہہہہ ااااہہہہہہہ ااااہہہہہہہ امااااااں میری پھدی وے لعنتیا قسمیں مار دتا ہئی میرے اچانک دھکے سے لن نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا جڑ تک نصرت کی بچہ دانی میں اتر گیا جس سے نصرت کی حال حال نکل گئی میں نیچے ہوکر نصرت کو چومنے لگا نصرت کا جسم بری طرح سے کانپنے لگا نصرت آہیں بھرتی کرلانے لگی تھی میرا لن نصرت کی پھدی نے دبوچ رکھا تھا اندر تو آگ لگی تھی جو میری جان نکال رہی تھی میں نصرت کے اوپر جھکا اور لن کھینچ کر آہستہ آہستہ دھکے مارتا لن اندر باہر کرنے لگا جس سے نصرت کرلا کرا کراہتی ہوئی آہیں بھرنے لگی میرا لن نصرت کی پھدی میں اندر باہر ہوکر راستہ بنانے لگا نصرت مزے سے کراہنے لگی نصرت کی ٹانگیں کانپنے لگی میں مزے سے بے حال ہونے لگا تھا نصرت کی پھدی کی آگ نڈھال کر رہی تھی میں نے لن کھینچا اور تیزی سے دھکے مارتا ہوا لن نصرت کی پھدی کے اندر باہر کرتا نصرت کو چودنے لگا نصرت کراہتی ہوئی بکانے لگی میرا کہنی جتنا لن یک لخت تیزی سے نصرت کی پھدی کے آر پار ہونا لگا جس سے نصرت کانپ کر ایک بار بکا کر کرلا گئی میں رکے بغیر لن کھینچ کھینچ کر نصرت کی پھدی میں تیزی سے اندر باہر کرتا نصرت کو چودنے لگا تھا جس سے میرا لن نصرت کی پھدی کے ہونٹ بری طرح سے مسل کر نصرت کو نڈھال کرنے لگا نصرت کی پھدی کے ہونٹ میرے لن کو رگڑ کر مجھے بے حال کرنے لگے جس سے میں بے اختیار مچل کر بے قابو سا ہوکر اپنی سپیڈ تیز کرنے لگا ہر دھکے کے ساتھ میری سپیڈ بڑھنے لگی اور ہر دھکا نصرت کی پھدی کی آخری حد کو چھو کر نصرت کی جان لینے لگا مسلسل پھدی ہے ہونٹ کی رگڑ میری جان نکالنے لگی تھی میں ہر دھکے کے ساتھ منزل کی جانب بڑھنے لگا نصرت کی پھدی نے آخر میری جان کھینچ لی میں نے لن کھینچ کر پوری شدت سے دھکا مار کر لن یک لخت جڑ تک اتار کر تیزی سے نصرت کو چودنے لگا میرا کہنی جتنا لن ٹپ تک نکل کر یک لخت جڑ تک پورا اتر کر نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑ کر نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا تیزی سے نصرت کی پھدی کو چودنے لگا میرے لن کے تین چار دھکوں نے نصرت کی پھدی چیر کر رکھ دی میرے لن کھردری چمڑی نے نصرت کی پھدی ہے ہونٹ مسل کر رگڑ کر جلا کر رکھ دیے جس سے نصرت کی برداشت جواب دے گئی اور نصرت ہڑبڑا کر اچھلی اور بکا کر زور سے چیخ مار کر پوری شدت سے ارڑا کر بکائی نصرت کی بکاٹ کی آواز کمرے سے باہر بھی کسی نے سن لی تھی میں نصرت کی بکاٹ سن کر پھر لن کھینچ کر کرلا کر پوری شدت سے دھکا مار کر لن پوری طاقت سے نصرت کی پھدی میں تیزی سے گھماتا ہوا نصرت کو بری چود چود کر نڈھال کرنے لگا نصرت میرے لن کے دھکوں کے سامنے ہمت ہار گئی اور میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے پیچھے دھکیل کر ہٹانے کی کوشش کرتی تھر تھر کانپتی ارڑا کر بکانے لگی نصرت کے بکاٹ اتنے بلند تھے کہ باہر تک سنائی دئیے نصرت کی پھدی نے میری بھی جان کھینچ لی تھی میں کرلا کر تڑپا نصرت کی پھدی نے میری ہمت توڑ دی میں بکا کر آچکا اور لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتار کر ہڑبڑا کر تڑپا اور ہینگ کر ایک لمبی منی کی دھار نصرت کی پھدی میں مار کر کرلا گیا ساتھ ہی نصرت زور سے تڑپی اور ہینگ کر میرے لن منی کی دھار مار کر کرا کر میرے لن کو دبوچ کر نچوڑنے لگی نصرت کی پھدی کے دبوچنے سے میرے لن کی سانس بند ہوگئی اور میں نے جھٹکا مار کر کرلاٹ ماری اور ایک اور منی کی لمبی دھار نصرت کی بچی دانی میں انڈیل دی نصرت میرے نیچے پڑی تھر تھر کانپتی چھوٹ رہی تھی اسی لمحے باہر سے نصرت کا بھائی نوشی جو کہ نصرت کے بکاٹ سن کر کمرے کی طرف آیا تھا دروازہ کھول کر اندر آگیا سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ٹھٹھک سا گیا سامنے میں اس کی بہن نصرت کو دوہرا کرکے اس کی ٹانگیں کاندھوں سے لگا کر اس کی بہن پر چڑھا ہوا تھا میرا کہنی جتنا لن اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بہن نصرت کی پھدی میں جڑ تک اترا جھٹکے مارتا اس کی بہن کی پھدی میں فارغ ہورہا تھا وہ اپنی بہن کی پھدی کو میرے لن کو دبوچتا دیکھ کر وہیں جم سا گیا تھا اس کی کانوں میں اسی بہن کی اور میری مزے سے نکلتی کرلاہیں اور بکاٹیں نکل کر گونج رہی تھیں وہ اپنی بہن کو میرے نیچے پڑا اپنی پھدی میں جڑ تک میرا لن لیے دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے میرے ٹٹے اچھل اچھل کر منی اس کی بہن نصرت کی پھدی میں پھینک رہے تھے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بہن کی پھدی میرا لن دبوچ کر نچوڑ رہی تھی نوشی ہکا بکا اپنی بہن کی پھدی میں جھٹکے مار کر فارغ ہوتا میرا لن دیکھ رہا تھا ہم دونوں مزے میں اتنے مست تھے کہ ہمیں نوشی کے آنے کی کوئی خبر نا تھی میں نیچے ہوکر نصرت ہے ہونٹوں کو دبا کر چوسنے گا نصرت کی پھدی اپنے بھائی کے سامنے میرے لن کو دبوچ کر نچوڑتی ہوئی اپنی بچہ دانی بھرتی ا


پنی منی سے مکس کر رہی تھی اپنی بہن نصرت کی دوہری ہوئی ہانپتی ٹانگیں وہ دیکھ رہا تھا اپنی بہن کو میرے ساتھ مزے کرتے دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ اس کی بہن کی مرضی سے سب ہوا ہے یہ دیکھ کر وہ مڑا اور نکل گیا جبکہ میں نصرت ہے اوپر نڈھال ہوکر گر کر ہانپتا ہوا نصرت کو چومنے لگا نصرت بھی میرا ساتھ دیتی ہوئی مجھے چومنے لگی​
جاری ہے


IMG-20230805-WA0017
 

Top