Adultery وہ کیسی ذلت تھی۔پارٹ ٹو ok

Newbie
6
2
5
موٹر سائیکل سوار کے جانے کے بعد میں دونوں ماں بیٹی کی طرف متوجہ ھو گیا۔وہ ایک گلی کی طرف بڑھ گئیں۔میں بھی ایک محفوظ فاصلے سے انکا پیچھا کرنے لگا۔اگرچہ یہ علاقہ شہر کا حصہ تھا لیکن مضافات میں ھونے کی وجہ سے یہاں سڑک کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف مکانات بنے ھوئے تھے لیکن ان مکانوں کے پچھلی طرف بس زیادہ تر خالی پلاٹ تھے یا پھر کھیت۔دونوں ماں بیٹی آپس میں باتیں کرتی گلی گلی کے نکڑ پر پہنچ کر سامنے کی طرف تھوڑا دائیں جانب گھوم گئیں اور میری نظروں سے اوجھل ھو گئیں ۔میں نے جلدی جلدی قدم اٹھائے اور گلی کے نکڑ پر پہنچ گیا۔سامنے منظر کچھ یوں تھا کے ایک بڑا خالی میدان اور اسکے اطراف میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اکا دکا مکان تھے۔اور ان سے آگے کھیت نظر آ رھے تھے۔میں نے دونوں ماں بیٹی کو میدان کے وسط سے گزرتے ھوئے سیدھا جاتا دیکھا تو تھوڑی دیر کو دوبارہ گلی میں گھس گیا مبادا وہ پلٹ کر مجھے دیکھ نہ لیں۔
جیسے ھی دونوں ماں بیٹی میدان کے دوسری طرف پہنچیں میں بھی جلدی جلدی انکے پیچھے چل پڑا۔وہ میدان کے دوسری طرف بنے ایک مکان کے پہلو سے گزرتے ہوئے تھوڑی اوٹ میں چلی گئیں تھیں۔میں نے جلدی جلدی قدم بڑھائے اور میدان کو طے کرتا اسی مکان کے پہلو میں پہنچ گیا۔ایک بار پھر دونوں ماں بیٹی میرے سامنے تھیں۔یہ ایک کچا سا چھ فٹ کا راستہ تھا جو کھیتوں کے درمیان سے گزرتا ھوا تھوڑی دور بنے ھوئے ایک مکان تک چلا گیا تھا۔ماں بیٹی اسی راستے سے اس مکان کے نزدیک پہنچ چکی تھیں میں تھوڑا رک گیا کیونکہ اس طرف وہ کھیتوں میں بنا ہوا واحد مکان تھا اور مجھے یقین تھا کہ یہی ماں بیٹی کی منزل ھے۔وہ راستہ طے کر کے مکان کے دروازے سے اندر داخل ھوئیں تو میں نے بھی قدم بڑھا دیے۔مکان کے پاس پہنچ کر میں نے اسکا جائزہ لینے لگا۔یہ چھوٹا سا ایک منزلہ اینٹوں کا بنا ھوا مکان تھا جسکے اطراف کھیت تھے۔سامنے کی طرف ایک کمرہ اور اسکے ساتھ مین دروازہ تھا۔جو لوھے کی چادروں سے بنایا گیا تھا اور قدرے مظبوط تھا ۔اب میں گھر کے دائیں طرف والے کھیت میں داخل ھوا جہاں گندم کی فصل کھڑی تھی۔اس طرف مکان کی چار دیواری اور اسکے آخر میں ایک اور کمرہ تھا۔میں دیوار کے پاس سے گزرتے ھوئے مکان کی پچھلی طرف پہنچ گیا یہاں سرسوں کا ایک چھوٹا سا کھیت تھا۔میں نے پھر سے مکان کا جائزہ لیا اس طرف صرف دو کمرے تھے ایک تو وہ جو دائیں طرف کی چار دیواری کے آخر میں تھا اور دوسرا کمرہ اسی کمرے سے متصل تھا۔اچانک میرے کانوں میں آواز سی پڑی۔میں نے کھوجنے کی کوشش کی کے یہ آواز کدھر سے آئی ھے۔مکان کی پچھلی طرف ایک کھڑکی تھی۔میں جائزہ لیتے ھوئے کھڑکی کے قریب ھوا تو مجھے باتوں کی آواز آنے لگی۔کھڑکی لکڑی کی تھی اور اسکے سامنے لوھے کی گرل لگی ھوئی تھی ۔اس وقت کھڑکی کھلی ھوئی تھی میں جلدی سے کھڑکی کے عین نیچے بیٹھ کر اندر سے آنے والی آوازوں کو سننے لگا۔

دیکھو جی یہ حال ھے آجکل ان آوارہ لوگوں سے کسی کی عزت محفوظ نہیں۔
یہ عورت کی آواز تھی۔

تمھیں چاھئے تھا اس بے غیرت آدمی کو بس روک کر پولیس کے حوالے کرتی۔اسے بھاگنے کا موقع نہیں دینا چاہئے تھا۔
یہ آواز مردانہ تھی اور یقیناً یہ بات میری ھی ھو رھی تھی۔
نہیں بھاگ تو گیا لیکن اسکے ساتھ ھوئی بڑی بری۔لوگوں نے تھپڑوں اور گالیوں سے اسکی خوب تواضع کی۔اگر وہ چلتی بس سے کود نہ جاتا تو پھر اسے پولیس کے حوالے ضرور کرتی ۔

اس عورت کی آواز میں شدید نفرت تھی میں سلگ گیا۔وہ لمحات دوبارہ یاد آئے اور میں نے غصے سے منہ بھینچ لیا۔

اچھا دفعہ کرو اس کمینے بے غیرت دلے کو اور یہ بتاؤ جس کام سے گئیں تھیں اسکا کیا بنا تمھارے بھائی نے پیسے دیے یا نہیں۔یہ مرد کی آواز تھی۔
ھاں دے دیے ھیں اور پورے دیے ھیں۔
عورت تھوڑا دھیمے انداز میں بولی۔
ھوں یہ ھوئی نا بات چلو پھر میں سفر کی تیاری کرتا ھوں۔تم آرام کرو تھک گئی ھو گی۔اور رفعت کدھر ھے اسے کہو میرا بیگ نکال دے۔
ٹھیک ھے میں کہے دیتی ھوں۔پھر خاموشی چھا گئی اور میں وھاں سے اٹھ کر تھوڑی دور کھیت کی پگڈنڈی پہ اگی ھوئی جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھ گیا۔جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور ایک سگریٹ سلگا کر گزرنے والے واقعات پر غور کرنے لگا۔
میں سوچتے سوچتے مرد اور عورت کی گفتگو پر غور کرنے لگا یکدم میرے ذھن میں جھماکا ھوا۔او تو گویا اس گھر میں موجود مرد نے کسی سفر پہ جانا تھا۔میرے دماغ میں ایک شیطانی خیال سر اٹھانے لگا۔اگر وہ مرد سفر پہ جاتا ھے تو پھر پیچھے گھر پہ کون کون ھو گا۔اس سوچ کے ساتھ ھی ایک میٹھی سی بے چینی نے میرے دل کو گھیر لیا اور میرا ہاتھ رینگتا ھوا میرے چڈوں کے درمیان لنڈ پہ چلا گیا۔اچھا کیا پتہ پیچھے دونوں ماں بیٹی رہ جائیں اور کوئی نہ ھو۔ھاہ آہ مزا آ جائے گا کاش ایسا ھی ھو۔یہ سب سوچتے سوچتے میں لنڈ کو دبانے لگا۔میرےدماغ میں لڑکی کی رانوں اور بی شی کا لمس تازہ ھو گیا۔لیکن پھر فوراً ھی مجھے اسکی وہ طنزیہ مسکراہٹ یاد آئی تو ساری ھونے والی ذلت سامنے آ گئی۔دماغ نے ایک جھٹکا کھایا اور میں نے شدید غصے سے لنڈ سے ھاتھ ھٹا کر ھوا میں ایک مکا لہرا دیا۔انتقام کا ایک احساس میرے اندر جاگا اور بے اختیار میں کھڑا ھو گیا۔لیکن جلد ھی میں نے خود پہ قابو پا لیا اور دوبارہ اپنی جگہ بیٹھتے ھوئے ایک خطر ناک منصوبہ بنانے لگا۔
میں نے سوچا کہ اگر قدرت میرا ساتھ دے رھی ھے تو مجھے اپنا انتقام لازمی لینا چاہیے ۔تانکہ ھوئی ذلت کا کچھ ازالہ ھو سکے۔لیکن پہلے مجھے اس مکان کی نگرانی کرنی تھی اب پتہ نہیں اس مرد نے کب سفر کے لئے نکلنا تھا اور اسکے بعد گھر میں کتنے نفوس رھنے تھے ان تمام باتوں کو جان لینے کے بعد ھی اگلا قدم اٹھایا جا سکتا تھا۔میں نے کچھ دیر مزید سوچا اور اٹھ کھڑا ہوا۔پہلے میں نے سڑک کا رخ کیا تانکہ کچھ پانی بسکٹ خرید سکوں کیونکہ میں نے اس مکان کی نگرانی کا سوچ لیا تھا۔یہ تو طے تھا کہ مرد آج یا کل تک سفر پر روانہ ھو جائے گا ۔اسکا اندازہ میں نے ایسے لگایا کہ اس نے اپنا بیگ نکالنے کو کہا تھا۔

میں نے سڑک پر موجود ایک دکان سے پانی،سیون اپ کی ایک لیٹر والی بوتل،بسکٹ اور سگریٹ کا ایک پیکٹ لیا اور واپس اسی مکان پر پہنچ گیا۔اس گھر کے بائیں جانب ایک گھنا سا جھاڑی نما درخت تھا جسکی شاخیں آڑی ترچھی ھو کر زمین سے لگ رھیں تھیں میں اس درخت کے پاس چلا گیا اور وھاں چھپنے کے لیئے کوئی آرام دہ جگہ ڈھونڈنے لگا۔درخت کی جو شاخیں زمین کو چھو رھیں تھیں انکے درمیان ایک خلا سا نظر آیا۔میں اس خلا کے درمیان چلا گیا ۔وھاں کافی جگہ تھی مطلب بیٹھا اور لیٹا جا سکتا تھا اور وھاں سے مکان کا دروازہ بھی صاف نظر آتا تھا ۔میں وھاں بیٹھ گیا۔زمین نرم تھی اور بیٹھنے لیٹنے کے لیئے موزوں تھی۔میں نے بسکٹ نکالے اور بوتل کھول کر کھانے پینے لگا۔مجھے وھاں بیٹھے بیٹھے شام ھو گئی نہ تو گھر سے کوئی نکلا اور نہ ھی کوئی گھر میں داخل ھوا۔میں کہنی سر کے نیچے دے کر لیٹ گیا۔رات ھو گئی اور ٹائم دھیرے دھیرے سرکنے لگا۔اگرچہ یہ جگہ آرام دہ تھی لیکن بہرحال بستر تو نہ تھا۔

میں نے سرسوں کے کھیت سے سرسوں کے چند پودے توڑے اور انہیں نیچے بچھا کر لیٹ گیا۔مجھے اپنے گھر کی طرف سے کوئی خاص فکر نہیں تھی کیونکہ اکثر میں گھر والوں کو بغیر بتائے دوستوں یاروں کی محفل میں پوری رات گذار دیتا تھا۔آج بھی میری غیر موجودگی میں انھوں نے فرض کر لیا ھو گا کہ میں دوستوں کے ساتھ ھونگا۔

جیسے جیسے رات بھیگ رھی تھی سردی بھی ھو رھی تھی۔اور میرے تن پہ صرف کپڑے تھے لیکن میں انتقام کے جذبات لیئے اس سردی سے جوج رھا تھا۔جیسے تیسے رات کٹی اور صبح کا اجالا چاروں طرف جگمگانے لگا۔میں نے سوتے جاگتے سردی سے ٹھٹھرتے رات گزار دی تھی۔میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور دروازے کی جانب نگاہ ڈالی ۔میرا دل خوشی سے بھر گیا کیونکہ وہاں ایک زبردست منظر تھا۔مرد بیگ اٹھائے دروازے سے چند قدم دور جا رھا تھا جبکہ دروازے پر وھی ماں بیٹی کھڑی اسے الوداعی نظر سے دیکھ رہیں تھیں۔وہاں انکے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔

اچھا تو گویا دونوں ماں بیٹی اب پیچھے گھر پر اکیلی تھیں۔میں خوشی سے جھوم گیا۔
مرد جب چلتے چلتے نظروں سے اوجھل ھو گیا تو وہ دونوں واپس گھر کے اندر چلی گئیں۔میں نے بھی اپنی جگہ چھوڑ دی اور گھر کی پچھلی سائیڈ پہ آ کے کھڑکی کے نیچے دبک گیا۔اندر سے دونوں ماں بیٹی کے بولنے کی آواز آ رھی تھی میں سن گن لینے لگا۔

ماں اپنی بیٹی رفعت سے کہہ رھی تھی کہ سراج کو جگا دو اس نے سکول جانا ھے۔
رفعت نے کہا اچھا امی۔
مطلب گھر پہ مزید ایک فرد موجود تھا۔

میں دوبارہ اسی درخت کی شاخوں کے درمیان آ کے بیٹھ گیا اور سراج کے سکول روانہ ھونے کا انتظار کرنے لگا۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد سکول یونیفارم میں ایک نہایت ھی سرخ و سفید پیارا سا بچہ گھر سے نکلا۔اسکی عمر لگ بھگ 12سال کے اریب قریب تھی۔نہایت ھی پیارا بچہ تھا۔میں لونڈے باز تو نہیں لیکن اس بچے کو دیکھ کے تھوڑی سی حوس کا شکار ھوا۔بچہ کچے راستے سے سڑک کی طرف روانہ ھو گیا۔میں سوچنے لگا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔کیا ڈائریکٹ ھی گھر میں داخل ھو جاؤں یا ابھی مزید انتظار کروں۔تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں نے گھر میں داخل ھونے کا فیصلہ کر لیا۔میں گھر کے دروازے تک آ گیا۔دروازہ بند تھا میں نے اس پہ ھاتھ رکھا اور ھلکا سا دباؤ دیا۔دروازہ میں ایک جھری پیدا ھو گئی۔گویا اندر سے کنڈی نہیں لگی ھوئی تھی۔میں نے جھری سے آنکھ لگائی اور اندر دیکھنے لگا۔اندر ایک چھوٹا سا صحن تھا
۔صحن کے سامنے دو کمرے تھے جبکہ ایک کمرہ اسی دروازہ کے ساتھ تھا۔سامنے کے دونوں کمروں میں سے بائیں طرف والے کمرے کے سامنے ٹین کی ایک چھوٹی سی چادر سے ایک چھوٹا سا برآمدہ نما کچن بنایا گیا تھا۔جہاں سے دھواں سا اٹھتا نظر آ رہا تھا۔صحن سنسان تھا۔کچن میں بھی کوئی نہیں تھا۔صحن میں دروزے کی بالکل پاس ایک کیاری میں کچھ پھول کھلے ھوئے تھے اور انکے درمیان ایک لیموں کا چھوٹا سا پودا تھا۔میں نے جلدی سے دروازہ کھولا اور اسی لیموں کے پودے کی آڑ میں لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اندر کمرے وھی عورت نکلی جس نے مجھے بس میں تھپڑ مارے تھے اور کچن میں بنے چولہے کے پاس بیٹھ گئی۔چولہے پہ مٹی کی ایک دیگچی چڑھی ھوئی تھی۔اس نے اسکا ڈھکنا اٹھایا اور چمچے سے اس ھلانے لگی۔اتنے میں اندر سے وھی دشمن جاں نکلی ۔اسکے ہاتھ میں جھاڑو تھا۔وہ دوپٹے سے آزاد تھی۔میں نے اسکے سراپے کا جائزہ لیا۔بڑی ابھری ھوئی چھاتی۔نیچے پتلی سی کمر اور اسکے نیچے کا سراپہ تھوڑا چوڑا سا تھا۔وہ نیچے بیٹھ گئی اور صحن میں جھاڑو دینے لگی۔
تمھارے ابا چلے گئے وہ ھوتے تو آج دوپہر کو وہ بھی ساگ کھاتے۔عورت کی آواز نے مجھے متوجہ کیا۔

ھاں امی لیکن انھوں نے تو جانا تھا اور آپ ابھی سے انھیں یاد کرنے لگیں۔رفعت کی آواز باریک اور مہین سی تھی۔میں دوبارہ رفعت کو دیکھنے لگا کافی خوش شکل لڑکی تھی۔ماتھا چھوٹا تھا لیکن آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ستواں تھوڑی سی لمبی ناک اسمیں کوکا اور پھر منہ کا چھوٹا سا دھانہ۔بے حد معصومیت سے گندا ھوا چہرہ تھا۔میں تھوڑا کھو سا گیا۔
لیکن جلد ھی پھر سے ایک احساس نے جنجھوڑ ڈالا کہ جلد ھی رفعت جھاڑو دیتے دیتے ادھر آ جائے گی اور میں دیکھ لیا جاونگا۔
میں نے کیاری میں نظر ڈالی وہاں ایک اینٹ کا ٹکڑا نظر آیا میں نے اسے ہاتھ میں لے کر تولا اور مطمئن ھو گیا۔انتقام کا وقت آ گیا تھا۔رفعت رفتہ رفتہ جھاڑو دیتے دیتے ادھر قریب ھو چلی تھی وہ نیچے بیٹھی ھوئی جھاڑو دے رھی تھی۔اس نے اپنی قمیض کو پیچھے سے اٹھا کر کمر میں اڑسا ھوا تھا۔اسکے چوتڑوں کی گولائی نمایاں تھی۔نہایت متناسب سے چوتڑ تھے۔میں اینٹ کا ٹکڑا لے کے پوری طرح تیار ھو گیا۔رفعت بڑھتے بڑھتے مجھ تک پہنچ چلی تھی۔میں ایکدم اپنی جگہ سے اٹھا اور رفعت کے سر پر پہنچ گیا جب تک رفعت کچھ سمجھتی میں اینٹ کا ٹکڑا اسکے سر پر زور سے مار چکا تھا۔رفعت کے سر سے خون کی ایک دھار نکلی اور چہرہ کو بھگونے لگی۔اس کچھ ھوش نہ رھا اور وہ مضروب حالت میں ایک طرف لڑھک گئی ھاں اسکی ماں نے یہ سب دیکھ لیا لیکن وہ سکتے کی سی کیفیت میں اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ۔جب تک وہ سنبھلتی میں اسکے سر پہ پہنچ چکا تھا۔اینٹ کے ٹکڑے کا دوسرا وار میں نے اسکے سر پہ کیا اور وہ بھی سر پہ زخم کھا کے لیٹ گئی۔

میں نے اینٹ کا ٹکڑا پھینک دیا اور ان دونوں ماں بیٹی کو گھسیٹ کر کمرے میں لے گیا۔میں اتنی تیزی دکھانے کے بعد ہانپ گیا اور پانی پینے کے لئے دوبارہ کچن چلا گیا۔پانی پیتے پیتے میری نظر دروازے پہ چلی گئی۔میں نے جا کے دروازے کی اندر سے کنڈی لگائی اور واپس کمرے میں آ گیا۔دونوں ماں بیٹی بے سدھ پڑی تھیں۔میں نے انکے دوپٹے تلاش کئے اور دونوں کی پیٹھ ایک دوسرے سے ملا کر دونوں کے ھاتھ پیچھے کیے اور ایک دوسرے سے کس کر باندھ دیے۔اب مجھے انکے سر کے زخموں کی فکر ھوئی میں نے دونوں کے زخموں کا سرسری سا جائزہ لیا۔دونوں کے سر سے خون بہنا بند ھو چکا تھا۔زخم بھی زیادہ گہرے نہیں تھے۔میں نے پاس پڑی چارپائی سے چادر اٹھائی اور اسے پھاڑ کر چند ٹکڑے بنائے ۔ایک ایک ٹکڑا دونوں کے منہ میں دیا اور پھر کس کر اوپر سے دونوں کے منہ باندھ دیے۔پھر باقی ماندہ چادر سے دونوں کر پیروں کو آپس میں جوڑ کر باندھ دیا۔اب میں مطمئن ھو چکا تھا۔لہذا چارپائی پہ بیٹھ کے دونوں کو دیکھنے لگا۔جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور ایک سگریٹ سلگا لیا۔دونوں کو دیکھتے ہوئے مجھے پھر اپنی ذلت ورسوائی یاد آ گئی اور بے اختیار میں نے ایک ڈھڈھا سامنے پڑی عورت کے پیٹ پر جما دیا۔شاید ڈھڈھے کی تکلیف تھی کہ اسے ھوش آ گیا۔آنکھیں کھول کر مجھے دیکھنے لگی پھر یکلخت اسکی آنکھیں خوف سے بھر گئیں اور وہ غوں غاں کرنے لگی۔شاید چیخنا چلانا چاھتی تھی۔لیکن منہ میں کپڑا تھا اسلیئے غوں غاں سے زیادہ کچھ نہ نکلا۔میں مسکرا اٹھا۔اسکی آنکھوں میں بے بسی تیر گئی اور وہ مزہد خوف زدہ ھو گئی۔میں مسکراتے مسکراتے قہقہے لگانے لگا۔میرے قہقہے خاصے اونچے تھے غالباً اسی وجہ سے رفعت بھی کسمسا کر ھوش میں آ گئی۔اس نے بھی جب مجھے دیکھا تو اسکی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔اس نے بھی غوں غاں کی جسے سن کر میں پھر قہقہے لگانے لگا۔دونوں ماں بیٹی بڑی بے بسی اور خوف سے مجھے دیکھے جا رھیں تھیں۔

باقی آئندہ
 
🅰️uthor
Sameer khel
🅿️osted By
Sameer khel
🔘 Genres
  1. Adultery

Top