Incest تڑپتی پڑکتی جوانیاں

Newbie
8
3
3
تڑپتی پڑکتی جوانیاں
قسط نمبر 2
بہزاد کنگ

مدثرہ نے مجھے چائے پکڑائی اور اپنی بہن نصرت کے پاس ہی بیٹھ کر اسے بھی چائے دی اور خود بھی پینے لگی ایک لمحے کےلئے خاموشی چھائی رہی پھر مدثرہ مسکرا کر بولی بھائی کی بنیا کیویں منہ پٹکا کے بیٹھے ہو میں اس بات پر ہنس دیا اور بولا کجھ نہیں بس ایویں ہی نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور چائے کی چسکیاں لینے لگی اتنے میں نوشی اور رافع دونوں بھائی اگئے وہ کسی کام سے گئے تھے اج اتوار کے دن انہیں بھی چھٹی تھی مجھے دیکھ کر وہ مسکرائے نوشی سیدھا میرے پاس ایا میں کھڑا ہوکر اسے ملا رافع سے جان پہچان نہیں تھی نوشی نے بتایا تو اسے بھی میرا یاد اگیا وہ تب بہت چھوٹا تھا جب میں گیا تھا اب کافی بڑا ہوچکا تھا وہ بھی پاس ہی بیٹھ گئے اتنے میں انٹی بھی اگئی مجھے دیکھ کر خوش ہوئی مدثرہ ایک اور چارپائی لے ائی ہم باتیں کرنے لگے میں نے نوشی سے کام کا پوچھا تو نوشی بولا کہ بس گزارہ ہے بھائی میں بولا کی خیال اے تینوں کنیڈا ناں لئے جاواں میری بقت پر وہ چونک گیا اور اس کا چہرہ دمک سا گیا وہ مایوسی سے بولا بھائی جی سادی قسمت اچ کدو آیا کینیڈا اوتھے جانڑ دے تے بڑے پیسے لگدے میں ہنس دیا اور بولا میری جان میرے ہوندیاں پیسیاں دی ٹینشن نا لئے وہ ہنس کر مجھے دیکھ کر بولا بھائی جے اے ہوجاوے تے بڑی گل اے میں مسکرا دیا نصرت اسے ٹوک کر بولی جی نہیں بھائی صاحب کوئی کنیڈا شنیڈا نہیں جانا افی تے ایویں لگا رہندا اساں اودے جا کے کی کرنا اور ترچھی نظر سے مجھے دیکھا یہ سن کر نوشی کے تیور بگڑے پر وہ بہن کو کہ کچھ نا سکا صرف اتنا ہی کہ پایا باجی کی ہوندا اے جے میں کینیڈا وگ جاواں نصرت منہ نیچے کرکے بیٹھی تھی اس کا چہرہ ہلکی سی لالی سے بھر گیا تھا وہ کچھ لمحے ٹھہر کے اپنے کام میں مگن بولی بس مینوں نہیں پتا میں اکھ دتا تے نہیں جانا ساڈے اچ ایڈی ہمت نہیں یہ کہ کر اس نے مجھے عجیب نظروں سے غورا میں اسے دیکھ رہا تھا اس کی نظر مجھ سے ملی تو ااس نے آنکھیں چرا لیں اس کا چہرہ شرم سے بھر گیا۔ نصرت جانتی تھی کہ نوشی کے کنیڈا جانے کی قیمت اس نے میرے نیچے سو کر ادا کرنی تھی اس کےلیے یہ بہت بڑی قیمت تھی ایک لڑکی کے طاس اس کی عزت کے سوا ہوتا ہی کیا ہے نصرت کے پاس بھی عزت کے سوا کچھ نا تھا جسے اس نے ساری زندگی بچا کے رکھا تھا شاید اسے سب سے زیادہ اپنی عزت پیاری تھی ساری زندگی اس نے اپنی چادر کو میلا نہیں ہونے دیا حالنکہ وہ اپنی منہ زور جوانی کو کیش کروا سکتی تھی لیکن اسنے اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کو داغ نہیں لگنے دیا تو وہ اب کیوں لگنے دے گی میں اس کے رنگ بدلتے چہرے اور بے بسی کو دیکھ کر شرمندہ سا ہوگیا میں نے سوچا کہ میں نے ساری زندگی کسی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھایا نصرت کو پھر میں نے بہن بنا رکھا تھا۔ میرے ضمیر نے مجھے جھنجھوڑ دیا کہ میں نے یہ سوچ بھی کیسے لیا۔ نصرت جیسی پاک دامن لڑکی بھلا کیسے یہ سب میرے ساتھ کرے گی۔ مجھے لگا کہ میں نے خود ہی اپنے آپ کو اپنی نظروں میں گرا لیا ہے میرا دل دھڑک رہا تھا اور شرمندگی سے میں کچھ بول نا سکا تھا نصرت منہ جھکائے اپنے کام میں مگن تھی ایک لمحے کےلئے خاموشی سی چھا گئی نوشی بھی ناامید ہوکر اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا مدثرہ یہ بات سن کر چہک کر نوشی سے بولی واہ بھائی کینیڈا وت سانوں وی لئے جاویں میرا وی بڑا دل اے توں کینیڈا جا۔ نصرت نے رک کر اسے غورا تو مدثرہ بولی باجی کجھ نہیں ہوندا۔ بھائی کینیڈا جا کے افی دے پیسے واپس کر دیسی اوتھے کما کے اس اچ کی مسئلہ اے۔ ویسے وی سادے حالات ٹھیک ہو جاسن گے توں وی سارا دن مشین گیڑ گیڑ کے تھک جاندی اے تینوں وی سکھ ملسی۔ تیرے گوار میاں صاحب نوں تے تیری پرواہ ہے نہیں توں تے اپنی پرواہ کر لئے۔ نصرت نے رک ہر مدثرہ ہو دیکھا اور بولی سادے حالت ٹھیک ہین سانوں ککھ وی نہیں میاں نوں پرواہ نا ہووے میں کہڑا اس دی منتاں کر رہی ہاں تھوڑی بہت اپنی کما کے کھا رہی آں۔ آنٹی وی بولی نصرت تینوں کی اعتراض اے اے دوواں بھراواں دی آپس دی گل اے۔ مجھ سے بولی بیٹا کینیڈا دے تے بڑے پیسے لگ جانے کوئی نکے ملک اچ بھیج دے میں نے مسکرا کر آنٹی ہو دیکھا میں نصرت کی طرف دیکھا تو وہ منہ جھکا کے بیٹھی تھی مجھے اس کی بے بسی پر افسوس ہوا میرا دل بجھ سا گیا مجھے لگا کہ میں نے نصرت کے ساتھ زیادتی کی ہے یہ سوچ کر میں شرمندہ سا ہوگیا۔ مدثرہ بولی نہیں امی افی بھائی نوں کینیڈا لے جاوے نوشی اوتھے جا کے کما کے واپس کر دیسی مجھے مدثرہ کی بات اچھی لگی میں بولا ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں تسی فیصلہ کر لئو کس ملک جانا اوتھے پہنچا دیساں سال اچ کما کے واپس کر دیسی میری اس بات پر نصرت نے چونک کر نظر اٹھا کر مجھے دیکھا میں نے نصرت کو دیکھ کر شرمندگی سے نظر چرا لی اور مجھے اب اپنی بات پر افسوس ہو رہا تھا میں نوشی سے بولا کہ تم اپنا پاسپورٹ بنوا کر مجھے بتانا اور اسے کچھ ضروری ٹپس دے کر نکل آیا میں گاڑی میں بیٹھ کر اپنے کسی کام جانے لگا میرا دماغ ہی ماؤف ہوچکا تھا میں نے اپنے اتنے پرانے تعلق کو داؤ پر لگا دیا تھا میں بڑا شرمندہ تھا میں یہی سوچتا اپنے کام پر چلا گیا شام ہو گھر گیا اور سوچنے لگا کہ نصرت کے ساتھ اچھا نہیں کیا وہ تو مجھے اپنا بھائی سمجھتی اور میں اسے کس کام پر مجبور کر رہا ہوں یہ سوچ کر میں نے اپنے اپ کو برا بھلا کہا اور سوچا کہ صبح جا کر نصرت سے صلح صفائی کروں گا اور نصرت سے معافی مانگوں گا وہ بڑے دل والی ہے معاف کردے گی جس سے میرے دل کو تسلی ہوئی اور میں سو گیا میں صبح جاگا نہا دھو کر ناشتہ کیا کچھ کام نمٹا ہر گاؤں کی طرف چل دیا گاؤں پہنچ کر میں سیدھا ہی نصرت کے گھر گیا میں نصرت سے معافی مانگ کر اپنی شرمندگی مٹانا چاہتا تھا میرا دل تھا کہ میں نصرت کو مطمئن کردوں کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں وہ میری طرف سے اپنا دل صاف کر لے میں نے گاڑی کھڑی کی اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ دیر بعد دروازہ کھلا سامنے نصرت کی چھوٹی بیٹی زرناب کھڑی تھی اس نے مجھے ایک نظر نیچے سے اوپر دیکھا وہ دوپٹے کے بغیر ہی تھی اس کا قد ٹھیک تھا پر وہ بالکل پتلی سنگلی پسلی باریک سی تھی میں نے اسے ایک نظر دیکھا تو اس کے سینے کی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تیزی سے اوپر نیچے ہو رہی تھیں اس کا چہرہ بھی کچھ بتا رہا تھا مجھے اس کی تیز سانسیں کچھ بتا رہی تھیں میں سمجھ گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے مجھے لگا کہ نصرت گھر پر ہوگی اس نے کیا کرنا ہے کھیل رہی ہوگی اس لیے سانس چڑھا ہوگا میں اندر داخل ہوگیا تو وہ مجھے دیکھتی ہوئی پیچھے ہٹ سی گئی میری نظر اسی کی اوپر نیچے ہوتی چھاتیوں پر تھی زرناب نئی نئی جوان ہو رہی تھی اس میں اگ کوٹ کوٹ کر بھری تھی اس کے جسم کی شیپ سے لگ رہا تھا جب جوانی پیک پر ائے گی تو جان نکال لے گی۔ ابھی سے ہی اس کا انگ انگ قیامت ڈھا رہا تھا میں نے اندر آکر اسی کی انکھوں میں دیکھا تو زرناب مجھے گہری نظروں سے غور رہی تھی اس کی انکھوں میں بلا کی شہوت اتری تھی میں چونک سا گیا کہ اتنی سی عمر کی لڑکی میں اتنی آگ میں زرناب کی نظروں کو غورا تو زرناب نے ایک ادا سے مجھے دیکھ کر اپنی کوٹی گہری آنکھیں میری انکھوں سے لاک کر لیں میرا دل دھڑک سا گیا اور میں کانپ گیا زرناب کی شہوت مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی میرے اندر ہلچل ہونے لگی تھی میں حیران تھا کہ اتنی چھوٹی سی عمر کی لڑکی میں اتنا جادو کہاں سے آگیا میں اسے دیکھ رہا تھا اور زرناب بھی بغیر چونکے میری انکھوں میں بے جھجھک دیکھ رہی تھی میں نے اندر گھر میں آ کر اس سے نظریں چرا لیں اس کی انکھوں میں عجیب گرمی تھی جو میں مزید برداشت نا کر پایا میں نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا اور بولا نصرت کدے ہے زرناب بولی امی باہر گئی اے وجیہ نوں درزائن ال چھوڑن۔ میں چونکا اور میں سمجھ گیا کہ زرناب کا سانس کیوں پھول رہا تھا۔ میں نے زرناب کو دیکھا تو اس نے اپنے بالوں کی چٹکی اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ کر ایک ادا سے مجھے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا گئی میں اس کی ادا سے سمجھ گیا میں بولا توں گھر اچ ہکلی اس نے مسکرا کر کاندھے اچکائے اور بولی مڑ کی مینوں گھر اچ کی ہونا میں مسکرا دیا اور اگے چل کر صحن میں چارپائی پر بیٹھ کر بولا ضروری نہیں کہ لکھ ہونا ہوندا۔ چھوریں نوں گھر اچ ہکلا نہیں رہنا چاہی دا وہ مسکرا کر مجھے ایک ادا سے دیکھ کر بولی افی صاحب جدو لڑکی دا دل ہووے اس نوں 7 پردیاں اچ رکھ لئو تے او وت وی نہیں قابو اندی۔ میں اس کی بات پر چونک گیا اور اسے دیکھ کر بولا زرناب توں تے وڈی ہو گئی ایں زرناب ہنس دی اور میرے پاس اکر بیٹھ گئی اور بولی جناب تھوانوں کی لگدا ناں ہوواں وڈی میں مسکرا کر بولا نہیں ہو وڈی پر کجھ قابو اچ وی رہو میں نے ڈایریکٹ فائر کیا زرناب مسکرا دی اور ایک مست نظر مجھ پر ڈال کر بولی میں کتھے حد اچو باہر ہوئی ہاں میں چونک گیا میرے پاس کوئی جواب نا تھا میں اسے اب کیا جواب دیتا۔ میں ایک لمحے تک چپ سا ہوگیا پھر میں نے اپنی بات بدلی اور بولا پڑھدی کس کلاس اچ ایں وہ بولی 9تھ کلاس اچ پڑھدی آں میں مسکرا کر بولا کتنی عمر اے تیری وہ میری انکھوں میں انکھیں ڈال کر بولی پندرہ سال ہو گئی ہن سولہویں اچ ہاں۔ میں مسکرا کر بولا عمر ویکھ تے گلاں ویکھ زرناب مجھے مست نظروں سے دیکھے ہی جا رہی تھی میں نظر چرا لی زرناب بولی جناب گلاں نال پتا نہیں لگدا وڈے نکے دا میں چونک گیا اور اسے غور کر دیکھا وہ میری آنکھوں میں مستی سے ابھی تک دیکھ رہی تھی میں بولا وت کیویں پتا لگدا تسی دس دیو اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا زرناب کا گورا چہرہ گلابی رنگ سے چمک رہا تھا زرناب کی گالوں پر گلابی لالی اتر کر اسے خوبی کی طرح بنارہی تھی میں اس پر مر سا گیا تھا اس کے پاس بیٹھنے سے زرناب کی مہک میرے اندر اتر کر مجھے مدہوش بنا رہی تھی مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا زرناب تھی تو چھوٹی سی لڑکی پر وہ بڑی بڑی جوان لڑکیوں سے بھی ظالم اداؤں کی مالک تھی جو مجھے نڈھال کر چکی تھی اس نے مسکراتی انکھوں سے مجھے دیکھا اور بولی جناب تسی آپ چیک کر لئو ہتھ لا کے کہ میں وڈی اں کے نکی میں اس کی اس بات پر چونک سا گیا اور زرناب جو دیکھا زرناب نے گلابی انکھیں میری انکھوں گاڑ کر مجھے مست نظروں سے دیکھ کر تسخیر کرلیا میں زرناب کے اس حملے سے بوکھلا سا گیا اور کچھ بول نا سکا زرناب مجھے دیکھتی ہوئی مسکرا رہی تھی میرا دل پھڑک رہا تھا میں بولا اے توں کی اکھ رہی ہیں۔ زرناب مسکرا کر بولی کیوں میں کجھ غلط اکھیا میں بولا زرناب اے غلط ہی ہے۔ وہ تھوڑی سخت لہجے میں بولی اے ہے وا جی وا۔ وجیہ نال سہی اے تے میرے نال غلط وا جناب میں چونک گیا اور زرناب کو دیکھ کر بولا زرناب اے ٹھیک نہیں اے زرناب بولی کیوں ٹھیک نہیں وجیہ نال وت کیویں ٹھیک ہے۔ اس نال وی غلط اے یا اور میرے نالو ڈھیر سوہنی اے اس بات سے مجھے جلن سی محسوس ہوئی میں سمجھ گیا کہ زرناب مجھے اس کے ساتھ دیکھ کر جل رہی تھی اب یہ بھی حساب برابر کرنا چاہتی اے میں بولا ایسی گل نہیں زرناب توں نکلی ہیں ہلے یہ سن ہر زرناب تیزی سے بولی توں رہن دے میں نکی کوئی ناں توں مینوں ازما تے سہی میں تینوں مایوس کراں تے توں مینوں جو مرضی سزا دے لئے میں زرناب کے اس رویے سے حیران بھی تھا اور مچل بھی رہا تھا کہ اسے کیا ہوگیا اس کے اندر اتنی اگ کہاں سے بھر ائی یہ کہ کر وہ اٹھ کر میرے قریب آ کر کھڑی ہوگئی اور بولی افی ہک واری مینوں چکھ تے سہی مزہ ناں دیواں تے اکھیں میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا وہ میرے اتنے قریب ا کی تھی کہ اس کے جسم سے نکلتی آگ مجھے محسوس ہورہی تھی اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور دبا کر مجھے دیکھ کر پھر خود ہی میری ران پر آکر بیٹھ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ملا کر دبا کر چوسنے لگی میں زرناب کے چھوٹے سے منہ کے موٹے نرم ہونٹوں کو منہ پر محسوس کرکے مچل گیا زندگی میں پہلی بار زرناب جیسی جوان لڑکی کا لمس پا کر میں بے قابو سا ہوگیا زرناب میرے ہونٹوں کو دبا کر چوس رہی تھی میں کراہ کت مچل سا گیا اور بے اختیار ہاتھ اٹھا کر زرناب کے چھوٹے سے تنے ہوئے ممے پر رکھ کر دبا کر فل منہ کھولا کر زرناب کا منہ اپنے منہ میں بھر کر چوس لیا جس سے زرناب کا چھوٹا سا مما میرے ہاتھ میں دب گیا جس سے زرناب کرا کر غراتی ہوئی کانپ زرناب کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اور اس کی غراہٹیں میرے منہ میں دبنے لگیں زرناب کی مزے سے بکاٹیاں نکلنے لگیں زرناب اپنا منہ میرے منہ خود ہی دبا کر بکانے لگی تھی اس کا جسم مزے سے تھر تھر کانپنے لگا میں نے زرناب کو کمر سے پکڑا اور کھنچ کر اپنی جھولی میں بیٹھا کیا زرناب خودبخود ہی میری جھولی میں چلی آئی اور جلدی سے میری جھولی میں بیٹھ کر اپنی ٹانگیں میری کمر سے لیٹ کر مجھے اپنے چڈوں میں دبوچ کر کراہ گئی میں نے زرناب کی قمیض کو ہاتھ ڈالا تو زرناب نے جھٹ سے خود ہی اپنا قمیض کھینچ کر اتار دیا جس سے زرناب کی باریک پتلا سا دودھ کی طرح گورا بدن میری آنکھوں کے سامنے چمکنے ہگا زرناب کی نئی نئی ابھرتی چھاتیاں تن کر کانپ رہی تھی زرناب کی چھاتیوں پر گلابی نپلز قیامت ڈھا رہی تھے میں نے دونوں ہاتھوں سے زرناب کی چھاتیاں دبا لیں زرناب کی چھاتیاں ابھی بڑی ہو رہی تھی وہ ابھی نئی نئی جوان ہو رہی تھی فل پکنے ہے قریب ہی تھی میرے ہاتھوں میں زرناب کی چھاتیاں بھر گئی جس سے زرناب نے کرلا کر بکاٹ بھری جو صحن میں گونج گئی میں نے نیچے یوکر زرناب کی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں اپنے ہونٹوں میں بھر ہر دبا کر چوس لیں زرناب کراہ کر کانپنے لگی زرناب کا جسم تھر تھر کانپنے لگا میں نے زور لگا کر زرناب کی ایک چھاتی دبا کر چوسکر منہ میں کھینچ ہر دبا لی جس سے پوری چھاتی میرے منہ میں بھر گئی زرناب کی چھاتی کی گلٹیاں مجھے محسوس ہونے لگی میں نے نپل پر زبان پھیری جس سے زرناب کرلا کر بکا گئی اور مچھلی کی طرح کانپتی ہوئی ہلکی سے چیخی ساتھ ہی زرناب کا جسم تھر تھر کانپتا ہوا میرے ہاتھ سے چھوٹنے لگا جس سے میں چونک سا گیا کہ اسے کیا ہوا اور پیچھے ہوا تو سا تھ ہی زرناب کی بکاٹی نکلی اور زرناب کی پھدی سے لمبی پانی کی دھار نکل کر زرناب کی شلوار گیلی کر گئی جس سے میں سمجھ گیا کہ زرناب میری ایک چوس برداشت نہیں کر پائی زرناب نے تڑپتے ہوئے کراہ کر اگے میری گردن میں باہیں ڈال کر اپنے ہونٹ دبا کر میرے ہونٹوں پر رکھ کر چوستی ہوئی پانی کی دھاریں مرتی چھوٹتی ہوئی پرسکون ہوکر مجھے چوسنے لگی زرناب کا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا میں زرناب کی پک کر ابلتی جوانی کی تھوک نگل کر مزے سے پاگل ہو تہا تھا زرناب سرگوشی سے بولی میری جان ہن پتا لگا کہ نہیں میرے وڈیاں ہوونڑ دا میں ہنس کر بولا زرناب توں تے بہوں وڈی ہو گئی ایں زرناب بولی وت کی خیال اے میں چونک کر بولا کس دا وہ بولی اندر چل دسدی اں میں زرناب کر اٹھا کر اندر لایا اور زرناب کو بیڈ پر لٹا کر زرناب کے اوپر لیٹ کر زرناب کو چومنے لگا زرناب ہانپتی ہوئی میرے ساتھ مجھے چومتی ہوئی سسک رہی تھی میں بولا زرناب اے کتھو سکھیا ہئی زرناب مسکرا دی اور میری انکھوں میں دیکھ کر بولی زمانا بڑا خراب ہے سب کجھ سکھا دیندا میں ہنس دیا زرناب بولی تینوں مزہ ایا کہ نہیں میں بولا ایڈی جلدی وہ بولی کیوں میں بولا سارا مزہ توں ہی لیا ہے مینوں تے دتا ہی نہیں زرناب مسکرا دی اور بولی وت مزہ لئے نا رک کیوں گیا ایں میں بولا نصرت کس ٹائم انا زرناب بولی اوہ تے آنڑ الی ہونی میں بولا فر انج تے مزہ نہیں آنا وہ بولی کیوں میں بولا ٹائم لگ جانا زرناب بے قراری سی بولی وت ہک واری پھدی تے ویکھ لئے میری یہ سن کر میں پیچھے ہوا زرناب کی شلوار کھینچ دی شلوار نے خود ہی اپنی پتلی ٹانگیں اٹھا لیں جس سے زرناب کی ٹانگوں کے درمیان چھپی چھوٹی سی بند ہونٹوں والی پھدی کھل کر سامنے اگئی جو پانی سے بھری تھی میں نے زرناب کی پتلی ٹانگیں پکڑ کر اوپر کیں دبا کر زرناب کی ٹانگیں اس کے کاندھوں سے ملا دیں جس سے زرناب کی چھوٹی سی بند ہونٹوں والی پھدی کھل کر میرے سامنے اگئی زرناب کے چھوٹے چھوٹے چتڑ بھی فل کھل کر کانپنے لگی ٹانگیں دبانے سے زرناب دوہری ہو کر کراہ کر بکا سی گئی اور تھر تھر کانپنے لگی زرناب کی کمر دوہری ہو چکی تھی زرناب کی پھدی کے ہونٹ کھل رہے تھے اور زرناب اپنی جوانی میں قدم رکھ رہی تھی میں پھدی کے قریب ہوا تو پھدی پچ پچ کرتی کھل کر بند ہوتی ہلکا ہلکا پانی چھوڑتی پھدی کا گلابی دہانہ پچ پچ کر رہا تھا پھدی کا نکلتا دانہ بھی لال گلابی تھا زرناب کی پھدی فل پک چکی تھی اور لن مانگ رہی تھی پر زرناب کی جسامت بہت پتلی اور چھوٹی تھی لگتی وہ بالکل بچی تھی پر زرناب پوری جوانی میں داخل ہو چکی تھی وہ کھانے کے لائق تھی میں نے کراہ کر زبان نکالی اور پھدی کے دہانے پر رکھ کر زرناب کی ھدی نیچے سے اوپر کر کس کر چاٹ لی میرہ زبان پھدی پر محسوس کرکے زرناب کرلا کر کراہ کر تڑپ کر مچھلی کی طرح تڑپ اور ہانپتی ہوئی کراہ ے لگی زرناب کی پھدی کا نمکین ذائقہ مجھے نڈھال کرگیا میں ہانپ کر بے اختیار منہ کھولا اور زرناب کی پھدی پر رکھ کر دبا کر چوس لیا زرناب کی پھدی اتنی چھوٹی تھی کہ ساری پھدی میرے کھلے منہ میں بھر ائی جسے میں دبا کر چوستا ہوا چاٹتا اس پر دانت رگڑنے کگا جس سے زرناب کی بکاٹی نکل کر گونج گئی اور زرناب جھٹکے مار کر تڑپتی ہوئی اچھلی اور کوکتی ہوئی کرلا کر جھٹکا مار کر ایک لمبی پانی کی دھار میرے منہ میں مار کر فارغ ہوگئی زرناب کی پھدی سے نکلنے والی منی کی دھار اتنی لمبی تھی کہ میرا منہ بھرر گیا اور میرا سانس بند ہونے لگا جس سے میں پیچھے کر کرا گیا زرناب تڑپتی ہوئی بکا کر پانی کی دھاریں مارتی فارغ ہوکر پر سکون ہو گئی زرناب کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اور زرناب کراہنے لگی میں زرناب کے اوپر ہوا تو زرناب ہینگ رہی تھی میں اوپر ہو کر زرناب کا منہ کھولا اور اسکی ساری منی اس کے منہ میں انڈیل دی جس منہ میں کے کر وہ کراہ کر انکھیں کھول کر مجھے دیکھا اس کی انکھوں میں لال ڈورے ابھر ائے تھے اس کا منہ لال ٹماٹر کی طرح ہوگیا زرناب نے گھونٹ بھر کر کانپتی آواز میں اففففف جانی میں تے مر گئی تو تے بہوں سواد دیندا ایں۔ میں زرناب کے ہونٹ چوسنے لگا زرناب بولی جانی میری منی تے بڑی سواد ہا توں نہیں پیتی میں ہنس دیا اور اسے چومنے کگا زرناب بولی توں مینوں دو واری مزہ دتا توں اپ لیا کے نہیں میں بولا کیویں لواں۔ لے تینوں تے رجا لواں وہ بولی تے تے لئے نا مزے میں بوکی دے نا۔ اس نے میری انکھوں میں نا سمجھنے والے انداز میں دیکھا میں ہنس دیا اور بولا کدی چوپا ماریا ہئی وہ ہنس کر بولی ماریا تے نہیں پر ویڈیو اچ ویکھیا اے میں بولی ویڈیو کتھو ویکھی ہئی وہ بولی سانوں ہک استاد ٹیوشن پڑھانڑ اندا سکول اچ او ویڈییو وکھاندا اے میں بولا اس آکھیا تے کجھ نہیں وہ بولی نہیں میری سہلیاں اس دے چوپے ماردیاں ہین پر میں اس دی صرف مٹھ ماردی ہاں۔ میں بڑا حیران ہوا کہ یہ سب اس نے وہیں سے سیکھا ہے۔ زرناب دیکھ دیکھ کر جلدی جوان ہو گئی میں بولا توں کیوں نہیں ماردی زرناب بولی اسدا لن ہک تگ نکا جیا ہے تے میریاں سہیلیاں چوپے مار کے جھوٹا کردتا میرا دل نہیں کردا اس دے چوپے مارن تے میں زرناب کے نخروں پر ہنسدیا اور بولا تینوں لمبا لن چاہی دا اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور ہاں میں سر ہلا کر بولی میں تے اس پن دا چوپا مارساں جو صرف میرا ہووے تے لما ہووے میں بولا وت اسدا مطلب توں سادے لن نوں تے چوپے نا مارسیں زرناب چونک کر بولی کیوں تیرا وی نکا اے میں ہنس کر بولا اپ ویکھ کئے یہ کہ کر میں اس کے ساتھ لیٹ گیا وہ اوپر اٹھ کر بیٹھ گئی اس کا ننگا جسم کپڑوں سے الگ ہوکر اور زیادہ چھوٹا ہوگیا تھا وہ اتنی چھوٹی تھی کہ بالکل گڑیا سی لگ رہی تھی پر وہ تھی پوری جوان وہ بھی گرمی سے فل میں اس کا پتلا بارک جسم دیکھ کر مچل رہا تھا میرا لن تن کر کھڑا تھا زرناب نے اوپر اکر میری پینٹ کھولی اورمیری زپ کھول کر میرا لن باہر کھینچ لیا میرا کہنی جتنا لمبا موٹا کالا لن نکل کر زرناب کے سامنے لہرانے لگا جسے دیکھ کر زرناب ڈر کر پیچھے ہو گئی زرناب کی گھٹی سی چیخ نکلی اور وہ جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی نی اماں میں مر جاواں ایڈا وڈا لن افی میں مرجاواں قسمیں ایڈا لن اج تک نہیں ویکھیا وہ مست نظروں سے مسلسل میرے لن ہو غور رہی تھی وہ ٹکٹی باندھے لن کو ہی دیکھ رہی تھی جیسے اس کی پسندیدہ چیز سامنے اگئی ہو میں ہنس جر بولا سنا ہن چوپا مارسیں ہے نہیں زرناب مچل کر بولی میں مرجاواں چوپا کی تو آکھ تے اپنے اندر لل لواں سارا میں ہنس کر بولا فل حال چوپا مار کے فارغ کر یہ سن کر زرناب اگے ہوئی اور میرے لن کو اپنی چھوٹے سے نرم ہاتھوں میں پکڑ کر مسلا میں زرناب جے نرم ہاتھوں کا لمس محسوس کرکے کانپ کر تھوڑا اٹھ سا گیا جس سے میری گانڈ اوپر ہو گئی زرناب نے ہانپتے ہوئے منہ نیچے کیا اور میرے لن کا ٹوپہ چوم لیا جس سے میری اور زرناب کی اکھٹی سسکی نکلی اور زرناب کراہ کر ہانپ گئی زرناب نے پھر میرے لن کو چوما اور اپنا ناک میرے لن کے ساتھ لگا کر میرے لن کو سونگھ کر بولی افففففف میری جان میرے شہزادے دی خوشبو کتنی مزیدار ہے یہ کہ کر زرناب نے زبان نکالی اور میرے لن کو سائیڈ سے چاٹ کر زبان منہ میں لے جا کر بولی اففف افی ذائقہ وی بڑا شاندار اے اور منہ کھول کر میرے لن ہے ٹوپے کو ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس لیا میں سسک کر کراہ سا گیا زرناب کے نرم ہونٹوں کی رگڑ میری جان ہے گئی اور میں کراہ کر کرلا سا گیا زرناب نے لن کو چوپا مار کر چھوڑ کر ہانپتی ہوئی سسکنے لگی میں زرناب کے ہونٹ کا لمس لن پر محسوس کرکے تڑپ گیا زرناب نے تک کر منہ کھولا اور میرے لن کا ٹوپہ منہ میں دبا کر چوس لیا جس سے میں تڑپ کر کرلا گیا زرناب کے منہ کا دہانہ چھوٹا تھا جس سے میرے لن کے ٹوپے کو ہی صرف منہ میں بھر کر چوس سکی میں زرناب کی گرمی سے پہلے ہی نڈھال تھا زرناب کے منہ کے چوپے نے میری جان کھینچ لی جس سے میں بیڈ سے اوپر ہو کر تڑپ کر بکا کر جھٹکا مارا اور ایک لمبی منی کی دھار سیدھی زرناب کے گلے میں ماری جو زرناب کے منہ سے زیادہ تھی جسے زرناب نے منہ میں دبا لیا زرناب میری منی کو منہ میں محسوس کر کے کراہ کر کانپ سی گئی اور گھٹی گھٹی چیخ مار کر میری منی پینے لگی میری منی زرناب کے منہ سے زیادہ تھی جو بہنے لگی میں جھٹکے مارتا زرناب کے منہ میں فارغ ہونے لگا جو مزہ آج زرناب نے دیا تھا وہ زندگی میں کبھی نا مل سکا تھا میں کراہ کر تڑپ کر زرناب کے منہ میں فارغ ہورہا تھا زرناب کچھ منی تو پی رہی تھی کچھ اس کے منہ سے بہ رہی تھی میں زرناب کے منہ میں فارغ ہو چکا تھا آخری دو تین جھٹکے ہی تھے کہ اتنے میں دروازہ کھلا اور نصرت اندر آگئی سامنے اپنی بیٹی زرناب کو ننگا دیکھ کر نصرت کی چیخ نکل گئی اور وہ بولی اوئے ہالنی اماں میں مر جاواں نی رڑا ہووی اے کی گند کیتی پئی ایں ہم بھی اس کے آنے سے بوکھلا گئے میں ہڑبڑا کر جلدی سے اٹھ گیا زرناب بھی اچھل کر پیچھے جا پڑی اور ہانپتی ہوئی اپنی ماں کو دیکھنے لگی نصرت کی نظر میرے کہنی جتنے لن پر پڑی اس نے ایک لمحے میرے لن کو دیکھا اور مجھے غور کر گہری آنکھوں سے دیکھ کر بغیر کچھ کہے پلٹ گئی میری تو ساری گرمی ہوا ہو گئی میرا لن بیٹھ چکا تھا زرناب بت بنی بیٹھی تھی میں نے نصرت کے پلٹنے پر سر پر ہاتھ رکھ کر بولا اففففف زرناب توں اے کروا دتا میرے کولو میں خود کو ملامت کرتا اوپر ہوا اور خود کو ٹھیک کیا میں نے بیڈ پر بیٹھ کر نصرت کا انتظار کرنے لگا کہ وہ اب واپس آکر میری بجائے گی میں سوچتا خود کو برا بھلا کہتا رہا مجھے زرناب کی کوئی فکر نہیں تھی مجھے اب اپنی فکر تھی میں چاہ کر بھی کچھ نا کر پایا مجھے کچھ سمجھ نا آیا میرا دل کیا نصرت کے آنے سے پہلے بھاگ جاؤں میں اٹھا اور باہر دیکھا تو کوئی نا تھا میرا رنگ اڑا ہوا تھا اور میں پسینے سے شرابور بھا گتا ہوا نصرت کے گھر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ گیا میں تھر تھر کانپتا سوچ رہا تھا کہ کتنی بڑی چول ماردی ہے۔ وہ تو بچی تھی تو تو سمجھدار تھا سارا مدعا مجھ پر گرنا تھا کہ میں اس پر زبردستی کر رہا تھا۔ نصرت پتا نہیں کیا کرے گی میں سوچ رہا تھا کہ اب وہ نہیں چھوڑے گی میرے ذہن میں عجیب سے وسوسے آکر گھوم رہے تھے میرے اندر سے جان ہی ختم ہو چکی تھی بڑی مشکل سے گاڑی کھینچ کر گھر آیا میرا سر پھٹ رہا تھا اتنا بڑا بلنڈر کرکے ا رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ میری ایک چول کی وجہ سے میرا نصرت کے ساتھ سالوں کا رشتہ میں نے اپنے ہاتھوں سے دفن کردیا تھا میں سر ہاتھ مارتا خود کو کوستا سو گیا
جاری ہے
نیکٹ قسط کے لیے لائک کمینٹ کریں شکریہ
زبردست مزہ آگیا
 

Top