Romance دوریاں (Completed)

.
Moderator
2,363
1,827
143
قسط: 5
سہہ پہر ہونے لگی تھی اک روشن دن ختم ہونے کو تھا درختوں اور عمارتوں کے سائے طویل ہونے لگے تھے۔
رفعت ابھی واش روم سے نہا کے نکلی تھی گرے کلر کی کامدار قمیض اور وائٹ شلوار میں اس کا اجلا سرخ و سفید سراپا دمک رہا تھا نم زلفیں ٹاول میں لپٹی ہوئی تھیں چہرے پہ بھی ہلکی سی نمی جاگ رہی تھی۔
اس نے چہرہ خشک کیا پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پڑے سٹول پہ آبیٹھی اور میک اپ کرنے لگی دل آج الگ انداز میں دھڑک رہا تھا۔
آج سلیمان نے آنا تھا شام چھ بجے کی فلائیٹ تھی اور وہ سب اسے ریسیو کرنے جا رہے تھے آخر کئی سال بعد وہ گھر کے راستوں پہ قدم رکھ رہا تھا۔
شکایتوں اور خفگیوں کا ایک انبار تھا جو رفعت کے دل کی آنگن می جمع تھا وہ اس کی بے اعتنائیوں سے شاکی رہی تھی مگر اب شاید حالات بدلنے والے تھے اس کے دل میں امید کی کونپل پھوٹی شاید اس کا رویہ جو وہ فون پہ روا رکھتا تھا بدل جاتا۔۔۔
وہ خاصی حد تک تیار ہوگئی تھی گہرا میک اپ وہ کرتی نہیں تھی خوبصورت چہرہ میک اپ سے پاک رہ کر بھی پرکشش لگتا تھا چہرے پہ ہلکا سا فاؤنڈیشن لگا کر گالوں پہ ہلکی سی سرخی بکھیری آنکھوں میں کاجل لگا کر نرم ہونٹوں پہ ریڈ لپ اسٹک لگانے لگی۔
لپ اسٹک لگا کے دونوں ہونٹوں کو ہلکا سا جوڑا پھر مطمئن سی ہوئی ہونٹ گلاب کی ادھ کھلی کلی سے شاداب لگ رہے تھے آنکھوں میں امیدوں کے دیپ ٹمٹما رہے تھے۔
ٹاول کھول کر بالوں کو کنگھی کرنے اور کیچر میں قید کرنے لگی۔
رفعت۔۔۔ بیٹا آجاؤ۔۔۔ دیر ہو جائیگی۔۔۔ امی نے ڈرائینگ روم سے آواز دی تھی۔
آرہی ہوں بس دو منٹ۔۔۔ پھر جلدی سے اٹھی شفاف آئینے میں ہلکورے لیتے اپنے عکس کو دیکھا تیکھا ناک نقشہ۔۔۔شہابی رنگت۔۔۔ ریشمی بال جو کولہوں کو چھو رہے تھے اور موزوں جسمانی خدوخال۔۔۔
اس حلیے میں وہ کسی کی بھی دل کی دنیا زیر و زبر کر سکتی تھی ایک سفید دپٹہ سکارف کی شکل میں چہرے سے لپیٹ کے وہ باہر آگئی
ندا اور امی تیار بیٹھی تھیں۔۔
چلو بیٹا چلتے ہیں دیر ہو جائیگی۔۔۔ امی نے اس کی تیاری کو غور سے دیکھا تھا مگر فقط اتنا ہی بولیں ابھی چھ بجنے میں قریب ایک گھنٹا باقی تھا وہ ساتھ چلتی ہوئی باہر آئیں۔
دروازے سے نکلتے ہی رفعت نے جس پہلے انسان کو دیکھا وہ ریحان تھا وہ اپنے گھر کا دروازہ کھول کے باہر نکل رہا تھا اسے دیکھ کر ٹھٹک کر رکا گہری آنکھوں میں ستائش ابھری۔
رفعت نے اسے دوسری نظر دیکھنے سے گریز کیا تھا ندا اور امی ساتھ ہی تھیں وہ آگے بڑھ گئی لیکن ریحان کی نگاہیں اسے اپنی پشت پہ محسوس ہوئی تھیں وہ اسے دیکھتا رہا تھا رفعت ذرا سی بے چین ہوئی چند دنوں میں وہ دونوں جسمانی طور پر خاصے قریب آگئے تھے شاید ضرورتوں کی آندھی نے انھیں بے مضطرب کیا تو ایک دوسرے کی پناہ میں آئے تھے ایک ساتھ لپٹ کر بہکتے رہے تھے مگر ایک حد سے نہیں گزرے تھے۔
ریحان لب بھینچے اسے گلی میں جاتے دیکھتا رہا جہاں ایک گاڑی کھڑی تھی وہ جا کے اس میں بیٹھ گئی تو ریحان نے سر جھٹکا رفعت نے دوسری نظر ڈالنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا اس کے دل پہ ہلکی سی چوٹ لگی۔
+---------------------+
رفعت اپنے کمرے میں آئرن سٹینڈ کے پاس کھڑی سلیمان کے چند جوڑے استری کر رہی تھی۔
وہ آگیا تھا اور اب نیچے ڈرائینگ روم میں سب کے ساتھ بیٹھا خوش گپیاں کر رہا تھا کچھ مہمان بھی آئے تھے وہ دل جمعی سے کپڑے پریس کر کے وارڈروب میں لگے ہینگر میں لٹکانے لگی کہ دروازہ کھلا وہ اندر آیا تھا۔
رفعت جلدی سے اس کی طرف مڑی ہونٹوں پہ ہلکی شرمگیں مسکراہٹ ابھری۔
جب سے وہ آیا تھا وہ ٹھیک سے ملی بھی نہیں تھی ائیرپورٹ پہ بس سلام دعا ہی کیا تھا اتنے سال بعد آیا تھا گلے ملنا تو اس کا حق تھا وہ اس کی طرف دیکھتی رہی مگر سلیمان ایک نظر اس پہ ڈال کے ہونٹ بھینچے ٹیبل پہ پڑے اپنے ہینڈ بیگ کی طرف بڑھا رفعت کی رنگت پھیکی سی پڑی تھی۔
سلیمان آپ ڈنر سے پہلے نہائینگے کیا؟ اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا مگر وہ متوجہ نہیں تھا بیگ میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا پھر ایک پیکٹ نکال کر سیدھا ہوا۔۔۔ پتہ نہیں کیا تھا وہ۔۔۔ شاید کسی کے لئے گفٹ لایا تھا۔
پیکٹ نکال کے وہ اس کی طرف مڑا جو کمرے کے وسط میں کھڑی انگلیاں مروڑتی اسے دیکھ رہی تھی۔
میں نہا لونگا اگر نہانا ہوا تم یہ کپڑے باتھ روم میں رکھ دو۔۔۔۔ وہ بولا تو لہجہ جذبات سے عاری تھا
رفعت کو سبکی سی محسوس ہوئی وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ مضبوط جسم کا مالک تھا مگر اب پہلے سے قدرے بھاری ہو گیا تھا رنگت کسی قدر زیادہ گندمی ہوگئی تھی اور بال سامنے سے اڑ چکے تھے پیشانی پہ شکنیں جیسے مستقل ڈیرہ جمائے ہوئے تھیں بھاری مونچھوں کی اوپر پھیلی ہوئی ناک سے وہ سخت گیر سا مرد نظر آرہا تھا۔
پھر اس کی نگاہیں ان کپڑوں پہ پڑیں جو رفعت استری کر رہی تھی اور ماتھے پہ پڑے بلوں میں چند بلوں کا اضافہ ہوا۔
کس نے کہا تمھیں یہ کپڑے استری کرنے کو؟۔ سرد سے لہجے میں بولا رفعت جو پہلے ہی نروس سی کھڑی تھی بوکھلا گئی۔
وہ۔۔۔ میں نے سوچا آپ تھکے ہونگے اور آکر نہا دھو کے کپڑے بدلینگے اس لئے میں نے یہ کپڑے استری کر دئیے۔۔۔ وہ ہکلائی
کپڑے تو میں بدلوںگا لیکن یہ نہیں۔۔۔ میرے بیگ میں چند جوڑے پڑے ہیں وہ استری کر لو۔۔۔۔ وہ نخوت سے بولا رفعت بے اختیار سر اثبات میں ہلا گئی۔
وہ باہر چلا گیا تو رفعت خود کو سنبھالتی اس کے بیگ کی طرف آئی اور اس کے چند جوڑے نکال کر مشینی انداز میں استری کرنے لگی چہرے پہ تھکن سی اتر آئی تھی۔۔۔
یہ تھکن جسمانی نہیں ذہنی تھی جو اس کے روئیے کے سبب رگ و پے میں اتری تھی۔
+----------------------+
شام کا اندھیرا ہر طرف پھیل گیا تھا آسمان پہ بادلوں کی ٹکڑیاں تیر رہی تھیں جنھوں نے موتیوں کی مانند چمکتے ستاروں کو اپنی اوٹ میں چھپا رکھا تھا۔
ریحان اپنے گھر کی چھت پہ کھڑا ہتھیلیاں منڈیر پہ ٹکائے کھڑا تھا نگاہیں ساتھ والے گھر پہ جمی ہوئی تھیں آج رفعت کا شوہر آیا تھا۔
امی اسے کئی بار ان کے گھر جا کے مل آنے کا بول چکی تھیں مگر وہ ہچکچا رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ انجانے میں اس کی نگاہ بہک کر رفعت کی طرف جائے۔۔۔ اگر اس کا شوہر اس بات کو بھانپ لیتا تو اس کے لئے مصیبت کھڑی ہوجاتی۔
وہ کافی دیر یونہی کھڑا یاسیت بھری نظروں سے اس طرف دیکھتا رہا پھر نیچے اتر آیا اور دروازہ کھول کر اس کے گھر کی طرف آیا دل بھی عجیب پرندہ ہے اس کی طرف جانے کے لئے پھڑپھڑا بھی رہا تھا مگر اندر ہی کہیں چوری پکڑے جانے کا خوف بھی سرسرا رہا تھا۔
وہ اندر آیا کافی گہما گہمی تھی کافی سارے لوگ ڈرائینگ روم میں جمع تھے جو پڑوسی اور رشتے دار ہی تھے اور ملنے آئے تھے وہ بھی سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔
نگاہ سلیمان پہ جمی ہوئی تھی سلونی شکل و صورت کا عام خدوخال والا آدمی تھا البتہ جسامت گینڈے کی طرح مضبوط تھی۔
چہرے پہ بڑی بڑی مونچھیں نمایاں تھیں اور کلائیوں پر بالوں کی بہتات تھی ریحان اسے خالی خولی نظروں سے تکتا رہا اسے رفعت کے ساتھ اس کا رشتہ بے جوڑ لگا وہ سرخ و سفید رنگت کی نازک اندام لڑکی تھی جلد اتنی ملائم کہ چھو لو تو نشان پڑ جائے یہ انسان اس سے میل نہیں کھاتا تھا ریحان نے سر جھٹکا۔
اس لمحے رفعت طشتری میں کوئی چیز لئے اندر آئی تھی اس نے سیاہ رنگ کی لانگ شرٹ اور وائٹ شلوار پہنی تھی دپٹا سلیقے سے چہرے کو گھیرے میں لئے ہوئے تھا ریحان کی نگاہیں اس کے وجود سے دیوانہ وار لپٹ گئیں اس کی آنکھوں میں وارفتگی اتر آئی تھی۔
رفعت نے بھی اسے دیکھ لیا تھا وہ ایک لمحے کے لئے ہلکی سی ٹھٹکی پھر طشتری ٹیبل پہ رکھ کر سلیمان سے کچھ پوچھنے لگی۔
ریحان کے پیٹ میں گرہیں سی پڑنے لگیں ہونٹ سختی سے ہونٹوں پہ جم گئے یہاں بیٹھنا دوبھر محسوس ہونے لگا وہ زیادہ دیر وہاں بیٹھا نا رہ سکا وہاں سے اٹھ کے باہر آگیا۔
کیفیت عجیب ہو رہی تھی آج وہ اس کی بانہوں میں سونے والی تھی۔۔۔
وہ اس کا شوہر ہے مجھے یہ سب محسوس نہیں کرنا چاہئیے۔۔۔ اس نے خود کو کوسا پھر گیٹ سے باہر نکل آیا عجیب بے چینی سی طاری ہونے لگی تھی معلوم نہیں کیوں اس کا دل کیا دیواروں پہ مکے برسائے انھیں توڑ دے یا اپنے ہاتھ تڑوا لے۔
+----------------------+
رات اندھیرے کی بارش میں بھیگنے لگی تھی درو دیوار آپس میں دھیمے سروں میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔
کمرے میں نائٹ بلب کی نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی رفعت اپنے بیڈ پر دراز شب خوابی کا باریک لباس پہنے ہوئے تھی۔۔۔ آتی جاتی ہر سانس کے ساتھ اس کا منہ زور سینہ ڈوب ابھر رہا تھا ریڑھ کی ہڈی میں میٹھی میٹھی لہریں دوڑ رہی تھیں وہ کمرے میں آگئی تھی سلیمان ابھی آنے والا تھا۔
یکلخت دروازہ کھلا رفعت نے دھڑکتے دل سے دیکھا سلیمان اندر آیا تھا وہ اسے دیکھتی رہی وہ اندر آکے ایک بے تاثر نگاہ اس پہ ڈالتا واشروم میں گھس گیا باہر نکلا تو صرف ایک ٹراؤزر اور بنا آستینوں کے بنیان پہنے ہوئے تھا بنیان کے غیر موجود آستینوں سے اس کے توانا بازو نظرآرہے تھے جن پہ گھنے بال تھے توند بھی ہلکی سی ابھری ہوئی تھی وہ سیدھا بیڈ کی طرف آیا اور برابر میں لیٹ گیا۔
رفعت نے جیسے سانس تک روک لی وہ اس کی پیشقدمی کی منتظر تھی سانس کی لے چڑھ آئی تھی اور رگ رگ میں خمار دوڑ رہا تھا شوہر بڑے طویل عرصے کے بعد آیا تھا وہ خود سپردگی پہ آمادہ تھی متاع جان اس پہ لٹانے کے لئے تیار۔۔۔ مگر اس طرف کوئی حرکت نا ہوئی۔
وہ یوں ہی ساکت لیٹا ہوا تھا رفعت ذرا سی کسمسائی تو بیڈ ہلکا سا چرچرایا تھا جیسے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہو مگر وہ بے حس و حرکت رہا نا جانے کیوں رفعت کو لگا وہ جان بوجھ کے اسے نظر انداز کر رہا ہے۔۔
دن بھر دونوں کے بیچ دو جملوں کا ہی تبادلہ ہوا تھا ورنہ وہ اپنے سلوک سے اس کے وجود کی نفی کرتا رہا تھا اور اب بھی کر رہا تھا۔
سلیمان کروٹ دوسری طرف بدل گیا رفعت نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا وہ منہ دوسری طرف کئے لاتعلق سا لیٹا تھا۔
چند لمحے بعد اس کے سانس لینے کی ہلکی سی خرخراہٹ کمرے میں گونجنے لگی رفعت کے ہونٹ بھینچ گئےوہ بے حس سی ہوئی۔۔۔ ہر احساس کی جیسے موت ہوگئی تھی آنکھیں چھت میں کسی غیر مرئی نقطے پہ جمی ہوئی تھیں اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور۔۔۔۔
+---------------------+
جاری ہے۔۔۔۔
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
دوپہر ہونے لگی تھی رفعت کچن میں سلاد بنانے میں مصروف تھی ساتھ ہی پلاؤ کو دم پہ رکھا ہوا تھا۔۔
آج اس نے بلیو کلر کا سادہ سا شلوار کرتا سوٹ پہن رکھا تھا دوپٹہ کندھوں پہ تھا اور بال چٹیا میں گندھے ہوئے کمر پہ جھول رہے تھے اس حلئیے میں بھی اس کا حسن کسی کو بھی مسحور کر سکتا تھا۔
سلیمان کو آئے ہوئے آج ہفتہ ہونے کو تھا اس کا روئیہ پہلے دن کی سی سردمہری لئے ہوئے تھا ضرورت کے وقت اپنے مخصوص سرد سے تحکمانہ لہجے میں بات کر لیتا تھا ورنہ وہ ساتھ رہ کے بھی لاتعلق تھے۔
بستر پہ فاصلے ہنوز قائم تھے رفعت نے لاشعوری طور پہ کوشش کی تھی ان فاصلوں کو پاٹنے کی مگر اس کا لیا دیا انداز دیکھ کر اپنے خول میں سمٹ آئی تھی۔
کئی راتیں مسلسل وہ اسے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی تھی کئی بار اس کی طرف کروٹ لی۔۔۔ چوڑیاں کھنکائیں۔۔۔ بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ ایک تند نظر اس پہ ڈال کے سونے کی تلقین کر دیتا۔
شاید وہ اس کی کیفیت سے ناواقف نہیں تھا بس انجان تھا یا پھر یہ بھی اذیت دینے کا اک انداز تھا۔
رفعت کو اس کی آنکھیں تمسخر اڑاتی محسوس ہوتی تھیں انداز گفتگو بڑی حد تک طنزیہ ہوتا تھا وہ کچھ پوچھ بھی لیتی تو جواب طنز بھرے انداز میں ملتا کہ وہ چپ ہو کر رہ جاتی شاید باہر رہ کر وہ بڑی حد تک سنکی ہو گیا تھا اتنے عرصے بعدوہ واپس آیا تھا سب کے لئے سامان میں کچھ تحائف تھے جب کہ رفعت کے لئے فقط پرفیوم کی دو بوتلیں نکلی تھیں جن میں سے ایک آدھی استعمال شدہ تھی رفعت کو لگا شاید یہ بھی کسی اور کے لئے لی گئی ہونگی مگر مجبوری میں اسے تھما دی گئی ہیں اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا مگر اس نے اف تک نا کیا خاموشی سے سہہ گئی۔
وہ بالوں کی چند لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستی کچن سے باہر نکل کر ڈرائینگ روم میں لگے وال کلاک میں ٹائم دیکھنے آئی پھر واپس جا کر چاولوں کو دیکھنے لگی دو بجنے لگے تھے وہ آتا ہی ہوگا اس نے سر جھٹکا۔
وہ اپنے کسی جاننے والے کی طرف گیا ہوا تھا پچھلے کئی دنوں سے یہی اس کا معمول تھا صبح کا نکل کر دوپہر کو آتا یا پھر رات کو واپسی ہوتی۔
ندا کی شادی قریب تھی چند دنوں میں ہی دن رکھ لیا جاتا پھر کاموں کا بوجھ بڑھ جاتا اور بازار کے چکر الگ سے لگنے لگ جاتے اس نے ماتھے کو سہلایا اسے ہلکا سا چکر آیا تھا۔
اس لمحے ندا کچن میں آئی شاید پانی پینے آئی تھی اور اسے ڈگمگاتا ہوا دیکھ لیا وہ تیزی سے اس کی طرف آئی تھی۔
بھابی۔۔۔ کیا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ پریشان سی پوچھتی وہ اس کا بازو تھام گئی۔۔
ہاں ٹھیک ہوں۔۔۔ وہ مسکرائی مگر کمزوری سی محسوس ہوئی تھی۔
ارے آپ بالکل ٹھیک نہیں لگ رہی ہیں۔۔۔ چہرہ تو دیکھیں کتنا سرخ ہو رہا ہے۔۔۔ندا تشویش میں گھر گئی پھر اس کی کلائی پکڑی۔
رفعت کو اس لمحے کھڑا رہنا مشکل محسوس ہوا ٹانگیں بے جان سی ہوئیں۔
اففف آپ کو تو بخار ہے۔۔۔۔ ندا حیرت سے اسے دیکھنے لگی اور آپ یہاں کچن میں ہیں۔۔۔
کمرے میں جائیں میں کر لونگی چاولوں کو ہی اتارنا ہے نا؟ وہ بولی رفعت نے اثبات میں سر ہلایا
وہ نہیں جانا چاہتی تھی مگر ندا نے اسے باہر کی طرف دھکیل دیا وہ جیسے تیسے کر کے خود کو دھکیلتی بیڈ روم میں آئی۔
آنکھوں کے سامنے کئی بار اندھیرا چھایا قدم کئی بار اکھڑے یکلخت کیا ہوا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے توانائیاں یکدم صلب ہوگئی ہیں۔
اسے نہیں پتہ چلا وہ کیسے بیڈ تک پہنچی اور کیسے لیٹی ہوش سے رابطے منقطع ہو گئے تھے۔
+---------------++++
سلیمان لنچ کے وقت گھر آیا پھر اپنے روم میں داخل ہوتے وقت دروازے پہ ہی ٹھٹک کر رک گیا۔
سامنے ہی بیڈ پہ رفعت آڑھی ترچھی اوندھی لیٹی ہوئی تھی کمر کا خم نمایاں ہوگیا تھا اور سڈول ٹانگوں کی دلکشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
سلیمان کی آنکھوں میں نخوت کے سائے تیرے وہ دانت پیستا اس کی طرف آیا پھر بے دردی سے کھردرا ہاتھ اس کے بدن پہ رکھ کے اسے ہلایا جلایا۔
وہ ہنوزلیٹی رہی اس کی آنکھوں کی سرخی اور بڑھ گئی۔
رفعت کو کسی سخت تکلیف دہ لمس کا احساس ہوا تو اس کی آنکھوں میں لرزش ابھری پھر پٹ سے آنکھیں کھول دیں چند لمحے لگے اسے صورت حال سمجھنے میں۔
وہ اس کے نازک بدن کو ٹٹول رہا تھا انداز بے حد عامیانہ تھا جیسے وہ گوشت پوست کا کوئی ٹکڑا ہو جسے قصائی دیکھ بھال رہا ہو رفعت کو اس کی آنکھوں میں بہت دن بعد وہ چمک نظر آئی جو مرد کے اندرونی کشمکش کو آشکار کر دیتی ہے وہ بھی عورت تھی ان نظروں کا مطلب سمجھتی تھی۔۔۔
وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا کچھ بخار کا اثر تھا کچھ خجالت نے آن لیا تھا۔
واہ لاٹ صاحبہ کیا انداز ہیں تمھارے سونے کے۔۔۔ وہ زہر خند لہجے میں بولا رفعت کو توہین کا شدید احساس ہوا تھا سبکی کے احساس سے چہرہ سرخ تر ہوا۔
تم یہاں نیند کے مزے لوٹ رہی ہو۔۔۔ کھانا کون دیگا مجھے۔۔۔ وہ پھنکارا رفعت گڑبڑا گئی
وہ۔۔۔ کھانا بن گیا ہے آپ بیٹھیں میں دے دیتی ہوں۔۔۔ وہ دپٹا لیتی کھڑی ہوگئی تھی۔
ہاں یہ احسان کر دو مجھ پہ۔۔۔ وہ بولا تو رفعت دروازے کی طرف بڑھی
پہلے میرا ایک جوڑا استری کرو۔۔۔ تحکمانہ آواز اسے رکنے پہ مجبور کر گئی۔
وہ ایک معمول کی طرح اس کی طرف مڑی جو اپنی شرٹ نکال کر واش روم میں گھس رہا تھا۔
رفعت اس کا ایک جوڑا نکال کر استری کرنے لگی واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔
اس لمحے اسے فون کے وائبریشن کی مخصوص گھوں گھوں سنائی دی سلیمان کی شرٹ کی اوپری جیب میں پڑا موبائیل وائبریٹ کر رہا تھا۔
رفعت تذبذب کا شکار ہوگئی پھر ہمت کر کے اس کی جیب سے فون نکالا اور سکرین پہ نظر دوڑائی۔
واٹس ایپ پہ کال آرہی تھی باہر کا کوئی نمبر تھا نمبر کے ساتھ ہی لڑکی کی ایک تصویر لگی تھی۔
تصویر کچھ ایسی تھی کہ رفعت کے گال تمتما اٹھے اسے کال ریسیو کرنے کی ہمت نا ہوئی ہاتھ کانپنے لگے تھے۔
کال کٹ گئی وہ فون ہاتھ میں لئے غائب دماغ سی بیٹھی رہی۔
اس لمحے اس کے ہاتھ میں پکڑا فون پھر سے جھنجھنا اٹھا واٹس ایپ پہ کئی میسجز موصول ہوئے تھے۔
نا جانے کیوں رفعت نے وہ چاٹ کھول لی پھر آہستہ آہستہ میسجز پڑھنے لگی چہرے کی حالت متغیر ہونے لگی تھی۔
گلہ جیسے خشک ہوا آنکھیں پتھرا سی گئیں۔
چاٹ لڑکی کی تصویروں سے بھرا ہوا تھا اپنی چندھی ہوئی آنکھوں اور چپٹے ناک نقشے سے وہ لڑکی ایشیائی لگ رہی تھی کوئی بھی تصویر نارمل نہیں تھی وہ اس انداز میں لی گئی تھیں کہ اس کا انگ انگ نمایاں ہو رہا تھا کئی تصویروں میں اوپری بدن لباس کی قید سے آزاد تھا اور پردہ پوشی کے لئے ہاتھوں کا استعمال کیا گیا تھا جو کافی ہر گز نہیں تھا۔
سلیمان کے میسجز تھے جن میں وہ اس سے رقم کے بارے میں بات کر رہا تھا ان دونوں کی شاید کوئی ڈیل ہوئی تھی اور سلیمان نے اسے کوئی رقم ادا کی تھی۔
رفعت نے سنا تھا کہ خلیجی ممالک میں ایشیائی ممالک جیسے کہ فلپائن اور تھائی لینڈ وغیرہ کی بہت سی لڑکیاں ملازمت کے لئے آتی ہیں اور اگر انھیں زیادہ رقم کمانے کا کوئی ذریعہ نظر آئے تو اس کے استعمال سے بھی نہیں کتراتیں۔
وہ تلخی سے آنکھیں سکرین پہ جمائے میسجز پڑھ رہی تھی کہ باتھ روم میں گرتے پانی کی آواز تھم گئی شاید وہ باہر نکلنے کو تھا۔
اس نے فون جلدی سے رکھا پھر استری کرنے لگی صدمے کے ابتدائی اثرات سے نکل کر اس کے دل میں دبا دبا سا غصہ ابل رہا تھا ہونٹ سختی سے بھینچ گئے تھے۔
+----------+++
بیٹا آج مارکیٹ چلیں کچھ لینا ہے۔۔۔
سلیمان لنچ میں مصروف تھا کہ ماں کی آواز پہ چونک کے سر اٹھایا۔
مجھے کہیں جانا ہے پیسے دے دونگا آپ اور رفعت چلی جاؤ۔۔ بے اعتنائی سے کہہ کر دوبارہ سے پلاؤ کے پلیٹ کی طرف متوجہ ہوگیا۔
اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تم چلے جاؤ ساتھ۔۔۔ وہ ذرا ہچکچا کے بولیں سلیمان کے ماتھے پہ کئی بل پڑے تھے۔
کیوں کیا ہوا اسے؟ ناک سکوڑ کے انھیں دیکھا۔
اسے کچن میں چکر آگیا تھا بخار ہے شاید۔۔۔ ان کے لہجے میں لجاجت سمٹ آئی
تم چلے جاؤ ساتھ اسے آرام کرنے دو۔۔۔
کوئی بخار نہیں ہے سب بہانے ہیں کام سے بچنے کے۔۔۔ اس کے سیاہی مائل ہونٹوں پہ طنزیہ مسکراہٹ پھیلی۔
بولیں اسے چلی جائیگی آپ کے ساتھ نا جانا چاہے تو مجھے بتائیں۔۔۔ سرد سے بے تاثر لہجے میں کہتا وہ باہر نکل گیا۔
کمرے سے نکلتی رفعت نے اس کے آخری جملے سنے تھے اور دھمکی آمیز تاثر محسوس کر لیا تھا وہ وہیں کھڑی رہ گئی نازک جسم بخار کی شدت سے کانپ رہا تھا۔
+-------------+++
ریحان اپنے بیڈ پہ نیم دراز بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے لیٹا ہوا تھا لیپ ٹاپ اس کے گھٹنوں پہ دھرا تھا جس کے ماؤس پیڈ پہ اس کی انگلیاں چل رہی تھیں مگر وہ فوکس نہیں کر پا رہا تھا نا جانے اس کا دھیان کہاں تھا۔
تھک ہار کے اس نے لیپ ٹاپ سکرین نیچے کھینچ لی پھر بستر سے اتر آیا اور کھڑکی میں آن کھڑا ہوا۔۔
باہر ایک اور سیاہ رات پر پھیلا رہی تھیں ہنگامے مدھم پڑ رہے تھے۔
اس کی نظریں سامنے والے گھر کی درو دیوار سے لپٹ رہی تھیں کسی کو تلاش کر رہی تھیں مگر نا مراد لوٹ رہی تھیں اسے دیکھے کئی دن ہو گئے تھے۔
+-----------++++
کمرے میں نائٹ بلب کی نیلگوں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی درو دیوار جیسے دم سادھے کھڑے تھے۔
رفعت اپنے بیڈ پہ چت لیٹی ہوئی تھی کمفرٹر سینے تک اوڑھ رکھا تھا کومل بدن جیسے بخار میں پھنک رہا تھا شام سے پہلے وہ امی کے ساتھ مارکیٹ گئی تھی اور کئی بار غش کھاتے کھاتے رہ گئی تھی اب بدن ٹوٹ رہا تھا۔
دروازے پہ ہلکی سی آہٹ ہوئی تو اس نے آنکھیں کھول کے دیکھا سلیمان اندر آیا تھا پھر دروازہ لاک کر کے ایک نظر اسے دیکھا اور واشروم کی طرف بڑھ گیا وہ ساکت لیٹی رہی۔
چند لمحے بعد وہ باہر آیا تو جسم پہ شرٹ موجود نہیں تھی وہ اپنا مخصوص ٹراؤزر اور بنا آستینوں کے بنیان پہنے ہوئے تھا وہ سیدھا اس کی طرف آیا رفعت کو اس کا انداز بدلا ہوا سا لگا۔
وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا جن نظروں سے رفعت کو دیکھا وہ کسمسا کر رہ گئی ان نظروں کا مطلب وہ جانتی تھی۔
سلیمان اس کے پاس آ بیٹھا پھر اسے کندھوں سے پکڑ کر کھینچا۔۔
کپڑے اتارو۔۔۔ اس نے بھاری آواز میں تحکمانہ سرگوشی کی تھی بہکی بہکی سانسیں اس کے چہرے پہ پڑنے لگیں۔
رفعت بے حس و حرکت سی لیٹی رہی اس کے اندر کچھ ٹوٹ رہا تھا بکھر رہا تھا ہونٹ آپس میں سختی سے بھینچ گئے تھے ۔
کئی دن وہ اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے کے لئے تیار رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ ان کے درمیان حالات معمول پہ آئیں اور وہ منہ موڑے رہا تھا آج جب اسے معلوم تھا کہ رفعت کی طبیعت ٹھیک نہیں تو وہ اسے بلا رہا تھا۔۔۔آج اس کے پاس سلیمان کے لئے کچھ نہیں تھا جسم بخار سے تڑخ رہا تھا اٹھنے سے چکر آرہے تھے اس کے میسجز پڑھ کے احساسات مردہ سے ہو گئے تھے۔
اتارو۔۔۔ اس نے پھر کہا پھر خود ہی اس کے کپڑے ایک ایک کر کے الگ کرنے لگا وہ آنکھیں میچے لیٹی رہی کوئی احساس نہیں جاگا تھا ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ نہیں ہوئی تھی نرمی اور محبت کا احساس ناپید تھا۔
اپنی بنیان اتار کر وہ اس پہ جھک آیا بہکی سانسیں اس کے بدن پہ پڑنے لگیں ہاتھ اس کے نازک جسم کا بھنبھوڑنے لگے دانت اس کے جسم پہ اپنے نشان چھوڑنے لگے۔
رفعت کے ہونٹوں سے درد بھری کراہ نکلی اسے پھر سے چکر سا آیا تھا سلیمان کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی اس کی تکلیف محسوس کر کے جیسے اس کی انا کی تسکین ہوئی تھی۔
ہر احساس پہ کراہت کا احساس غالب تھا سر جیسے درد سے پھٹ رہا تھا وہ اس سے ایسا سلوک کر رہا تھا جیسے کسی گھر میں چور گھس آئیں۔۔۔ ہر نازک چیز توڑ ڈالیں۔۔۔ قیمتی چیزیں لوٹ لیں۔
سلیمان نے اس کا چہرہ ہاتھ میں جکڑ کر ایک تھپڑ مارا۔۔۔پھر دبا دبا غرایا۔
لاش کی طرح مت لیٹی رہو۔۔۔ میرا ساتھ دو۔۔ وہ آنکھیں شدت سے بند کئے لیٹی رہی گال سن ہو گیا تھا نفرت کی ایک لہر سی بدن میں اٹھی تھی وہ انگلی بھی نا ہلا سکی بدن میں سکت نہیں رہی تھی دل کیا جو انسان اس سے کمبل کی طرح لپٹا ہوا ہے اسے اتار پھینکے۔
نا جانے کب اپنی وحشت اس پہ اتار کر وہ جدا ہوا تھا رفعت ساکت سی لیٹی رہی چہرہ ہر جذبے سے عاری تھا۔
وہ دوسری طرف منہ کر کے سو گیا تھا رفعت آہستہ سے اٹھی۔۔۔ کپڑے جو کچھ بیڈ پے کچھ نیچے بکھرے ہوئے تھے انھیں سمیٹا اور جیسے تیسے پہننے لگی ہر حرکت کے ساتھ منہ سے کراہ نکل رہی تھی بدن پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔
کپڑے پہن کر وہ باتھ روم کی طرف آئی اور واش بیسن کے ساتھ کھڑے ہو کر تپتے چہرے پہ پانی کے چھپاکے مارنے لگی آنکھیں دھندلائی ہوئی تھیں۔
دل کیا کمرے سے نکل جائے کہیں دور چلی جائے مگر بے بسی کے پنجوں میں پھڑپھڑا کر رہ گئی چند لمحے آئینے میں اپنے ٹوٹے بکھرے عکس کو دیکھتی رہی پھر بے جان قدموں سے بیڈ کی طرف آئی اور لیٹ گئی۔
+---------++++
جاری ہے۔۔۔
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
قسط:7 سیکنڈ لاسٹ
نیلگوں آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا سورج کی کرنیں تپش سے عاری تھیں موسم قدرے خوشگوار ہو رہا تھا۔
وال کلاک دس بجا رہی تھی رفعت ڈائینگ روم کی ڈسٹنگ کرنے اور باقی کاموں سے فارغ ہونے کے بعد صوفے پہ آبیٹھی۔
چھوٹا سا خوبصورت کشن گود میں رکھ کر اس نے ٹی وی لگا لیا اور بے دلی سے ٹی وی دیکھنے لگی۔
اس کا بخار اتر گیا تھا طبیعت قدرے بحال ہوگئی تھی۔۔
ندا کی شادی کے دن قریب آرہے تھے آج یا کل میں شادی کی تاریخ رکھ دی جاتی پھر مہمانوں کو تانتا بندھ جاتا اور سر کھجانے کی بھی فرصت نا ملتی۔
اب بھی کام بہت بڑھ گئے تھے روزانہ مارکیٹ کے چکر لگ رہے تھے کچھ نا کچھ لایا جا رہا تھا۔
آج بھی انھیں ندا کی جیولری دیکھنے جانا تھا۔۔
رفعت خالی خولی نظروں سے سکرین کو دیکھتی بیٹھی رہی ندا اندر کمرے میں تھی سلیمان ابھی بھی سو رہا تھا اس کا خیال آتے ہی رفعت کی آنکھیں منجمد سی ہوئیں۔
سلیمان کے ساتھ گزرے یہ چند دن اس کے لئے کسی امتحان سے کم نا تھے اس کے شب و روز ایک ان چاہی قربت میں گزرے تھے۔
اس کی بہکی سانسیں چہرے پہ سوئیوں کی مانند چبھتے بال اور کھردرا اذیت ناک لمس۔۔۔ کچھ بھی اس کے اندر چاہے جانے کا احساس پیدا نہیں کر پایا تھا۔۔
طبیعت کی خرابی کے باوجود سلیمان اسے روندتا رہا تھا اس کی اذیت سے حظ اٹھاتا رہا تھا اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے پھر سے دوریاں اختیار کرلی تھیں۔
راتوں کو کئی بار رفعت کی آنکھ کھلی تو اسے کمرے میں موجود نہیں پایا تھا باہر ٹیرس پر سے اس کی گفتگو کی دھیمی آہٹیں اس کے کانوں تک پہنچتی تھیں وہ فون پہ لگا ہوتا تھا رفعت کانوں میں انگلیاں دے لیتی تھی۔
ایسا لگتا تھا وہ جلد ازجلد ندا کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہو کر واپس جانا چاہتا ہے۔۔۔ رفعت نے بیٹھے بیٹھے صوفے پہ پہلو بدلا اس کا دل جیسے بے حس ہو رہا تھا اگر کوئی احساس باقی تھا تو وہ نفرت اور غصے کا تھا۔
اس لمحے اس کے کمرے کا دروازہ کھلا سلیمان باہر آیا وہ بھاری بھرکم چثے پہ نیا کھڑکھڑاتا ہوا سوٹ پہنے ہوئے تھا۔
ڈرائینگ روم میں آکے ایک چبھتی ہوئی تیز نگاہ رفعت پہ ڈالی جو ہڑبڑا کے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
ناشتہ لاؤ۔۔۔ دو الفاظ بول کر وہ کچن ٹیبل کی طرف چلا گیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا رفعت ہونٹ بھینچے کچن میں آئی تھی پھر ناشتہ نکالنے لگی۔
اسے دیکھ کے کسی روبوٹ کا گمان ہو رہا تھا جو حکم کی تعمیل کر رہی ہو چہرے پہ کسی جذبے کا گزر نہیں تھا ہاں آنکھوں میں ہلکی سی بیزاری تھی سلیمان کے روئیوں نے اس کا دل چھلنی کر دیا تھا اب وہ اس کے لئے کچھ محسوس نہیں کرتی تھی۔
ناشتے کے برتن اس کے سامنے رکھ کر وہ واپس مڑی اور ڈرائینگ روم کی طرف آئی سلیمان نے اسے پکارا تھا۔
کچھ دیر بعد ہم لوگ جیولر کے پاس جائینگے۔۔۔ وہ بولا رفعت اس کی طرف پلٹی ذرا سی الجھی۔
"ہم" سے اس کی کیا مراد تھی کون کون جارہے تھے؟ وہ بھی جانا چاہتی تھی ندا کے لئے جیولری سیٹ اسی نے سلیکٹ کیا تھا اب دیکھنے جانا تو بنتا تھا کہ کیسے بنا ہے اگر کوئی کمی بیشی ہوتی تو وہ دور کی جا سکتی تھی۔
تم گھر پہ رہنا گھر سنبھالنا۔۔۔ اس نے سرد انداز میں اگلا جملہ بول کر رفعت کی خوش فہمی دور کر دی یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہ ندا اور امی ہی جا رہے تھے رفعت نہیں۔
میں بھی چلی جاؤنگی آپ کے ساتھ۔۔۔ وہ ہمت کر کے بولی سلیمان کے چہرے پہ شدید ناگواری پھیلی۔
تو گھر میں کون رہیگا تمھارا باپ؟۔۔۔ وہ پھنکارا تم گھر پہ رہو اور ہمارے آنے تک لنچ بنادو۔۔ رعونت سے کہہ کر وہ ناشتے میں مصروف ہوگیا۔
الفاظ رفعت کے گلے میں ہی خشک ہوگئے۔۔۔ گھر کو لاک کر کے بھی تو جایا جا سکتا تھا لنچ آکے بھی تو بنایا جا سکتا تھا۔۔
وہ ہونٹ سیتی بوجھل قدموں سے بیڈروم میں آگئی اور بیڈ کے کنارے ٹک گئی اس کے سامنے بیٹھنا مشکل لگ رہا تھا ورنہ وہ اس کے یا اس کے والدین پہ کوئی اور جملہ چست کر دیتا اور اس کا صبر بھی تمام ہو جاتا۔
دل غبار آلود ہو رہا تھا وہ کتنی ہی دیر ایک ہی پوز میں بیٹھی رہی آنکھوں میں یاسیت اتر آئی تھی۔
دل میں بغاوت بھرے خیالات سر اٹھانے لگے اگر وہ اس سے یوں نا انصافی کر سکتا تھا تو وہ بھی کر سکتی تھی ریحان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا۔
+----------------++++
ریحان ٹیرس پہ کھڑا تھا ہاتھ سنگ مرمر کی ریلنگ پہ جمے ہوئے تھے آنکھیں گلی میں اچھلتے کودتے بچوں پہ تھیں جو ہر فکر سے آزاد کھیل رہے تھے۔۔۔
یکلخت سامنے والے گھر کا دروازہ کھلا ریحان کی نگاہوں نےاس طرف پرواز کی تھی۔
سلیمان ندا اور ماں کے ساتھ باہر آرہا تھا یہ لوگ کہیں جا رہے تھے ریحان کی آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیں سی ابھری۔
رفعت باہر نہیں آئی تھی ریحان نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی وہ دروازہ بند کر کے واپس اندر کی طرف مڑ گئی تھی ریلنگ پہ اس کے ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوگئی۔
دل بلیوں اچھلنے لگا تھا رفعت سے ملے دو ہفتے ہونے کو تھے پھر وہ اسکے قریب نہیں جا سکا تھا دور ہی دور سے اس کے خوبصورت چہرے کو نگاہوں کی آغوش میں بھرتا رہا تھا۔
آج وہ اکیلی تھی گھر والے کہیں جا رہے تھے اس کے دل میں کسک سی جاگی اسے دیکھنے کی اس خوشبو کو محسوس کرنے کی جو اس کے بدن سے پھوٹتی تھی۔
اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے بے اختیار خود کو کوسا دل میں امڈتے طوفان پہ بند باندھنے کی کوشش کی اور کمرے میں آکر بستر پر دراز ہو گیا۔
بے چینی سی طاری ہورہی تھی دل تھا کہ اسے اکسا رہا تھا اس سمت جانے پہ آمادہ کر رہا تھا جہاں وہ ماہ جبین رہتی تھی۔
کچھ دیر وہ یوں ہی بستر پہ دراز آنکھوں پہ کلائی رکھے لیٹا رہا اپنے آپ سے لڑتا رہا پھر اٹھ بیٹھا اور چھت پہ آگیا۔
دونوں گھروں کے درمیان بمشکل چار فٹ کا فاصلہ حائل تھا جسے عبور کرنا کچھ مشکل نا تھا وہ ہونٹ بھینچے کھڑا رہا پھر طائرانہ نظروں سے ارد گرد دیکھا اطراف میں موجود گھروں کی چھتیں نظر آئیں وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا سب لوگ گھروں کے اندر تھے اس نے احتیاط سے ایک پیر اپنی طرف کی منڈیر پہ رکھا دوسرا سامنے کی دیوار پہ رکھا اور بے آواز چھت پہ اتر گیا۔
پھر دھیمے قدموں سے چلتا سیڑھیوں کی طرف آیا اور اترنے لگا معلوم نہیں کہاں ہوگی وہ۔۔۔ اس نے سوچا سانس ہلکی سی بے ترتیب ہوئی تھی۔
آرام آرام سے سیڑھیاں اترتا وہ نیچے آیا آخری سیڑھی پہ قدم رکھتے ہی کچن کی طرف سے مدھم آواز آئی تھی جیسے برتن رکھے گئے ہوں یا اٹھائے گئے ہوں اس گھر کا نقشہ اسے ازبر تھا۔
آواز کا تعاقب کرتے ہوئے وہ کچن کی طرف آیا اور دروازے میں ہی رک گیا قدم جیسے تھم گئے تھے۔
آنکھیں اس پہ جم گئیں وہ دوسری طرف منہ کئے کچن کاؤنٹر کے پاس کھڑی تھی اس کے ہاتھ چل رہے تھے شاید کچھ بنا رہی تھی۔۔
وہ گرے کلر کی شارٹ شرٹ اور گھیرے دار شلوار پہنے ہوئے تھی دپٹا موجود نہیں تھا لمبے ریشمی بال پونی کی قید کاٹ رہے تھے۔
اس نے ایپرن باندھ رکھا تھا جس کی گستاخ ڈوریاں اس کی موزوں کمر کو سختی سے جکڑے ہوئے تھیں اس کے سڈول کولہوں کے جان لیوا ابھار لباس کے اندر سے اپنی موجودگی کا پتہ دے رہے تھے ریحان کی آنکھیں گستاخیوں پہ اتر آئیں بے خود ہو کر وہ اس کی طرف آیا تھا۔
اس کے عین پیچھے کھڑے ہو کر آہستہ سے اس کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار قائم کر دیا۔
رفعت جو اس کی موجودگی سے بے خبر تھی اس اچانک افتاد پہ حواس باختہ ہوئی تھی منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی پھر تڑپ کر دور ہونا چاہا۔
میں ہوں۔۔۔ ریحان نے اس کے کان کے پاس خمار آلود سرگوشی کی تھی۔
ریحان۔۔۔ تت تم۔۔۔ رفعت کے ہونٹوں سے اتنا ہی نکل سکا اس کا وجود سن سا ہو گیا تھا اسے یہاں موجود پا کر۔
ہاں۔۔۔وہ اس کی پشت کو سینے سے لگائے کھڑا تھا کمر پہ گرفت اب بھی قائم تھی ہونٹ اس کی گردن پہ رینگنے لگے۔
چھوڑو مجھے پلیز۔۔۔ اس نے خود کو چھڑانے کی سعی کی دل جیسے سینے سے باہر آنے کو تھا۔
ریحان میرا شوہر آجائیگا۔۔۔ اس نے جیسے التجا کی تھی وہ سلیمان سے نالاں تھی مگر خوفزدہ بھی۔۔
کوئی نہیں آئیگا۔۔ میں نے انھیں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ آہستہ سے بولتا وہ اس کی گردن کا پور پور لبوں سے چھو رہا تھا ہاتھ اس کے ہموار پیٹ پہ جمے ہوئے تھے۔
پھر اس کی قمیض اوپر کر دی اور دہکتے ہوئے ہونٹ عقب سے اس کی موزوں کمر پہ سفر کرنے لگے۔
وہ یونہی اس کے نرم و نازک وجود کو بازوؤں میں اٹھا کے ڈرائینگ روم کے صوفے تک لایا تھا۔
ڈرائینگ روم کا بڑا صوفہ ان دونوں کا بستر بن گیا سارے خیال رفعت کے ذہن سے اوجھل ہو گئے تھے شوہر نے جو خلا چھوڑا تھا اسے کوئی اور پر کر رہا تھا۔
ریحان نے اسے صوفے پہ لا گرایا پھر اسے اپنے وجود سے ڈھانپ لیا وہ اس کے ہونٹوں کو باری باری اپنے ہونٹوں میں لے رہا تھا دونوں ہاتھ قمیض تلے اس کے جوان بدن سے گستاخیوں میں مصروف تھے رفعت کی حالت غیر ہونے لگی۔
گھر میں ہر طرف سناٹا تھا بس ان دونوں کی بہکی بہکی سانسیں ماحول میں دھیما سا ارتعاش پیدا کر رہی تھیں ریحان اس کے سیمیں بدن کو نئے سرے سے دریافت کر رہا تھا۔
ہاتھ اس کی گھیرے دار شلوار کی سلوٹوں میں الجھ گئے ہونٹ اس کے برہنہ پیٹ کے ذائقے چکھ رہے تھے اس کے بدن سے اٹھتی مہک اس کے حواس پہ چھا رہی تھی۔
ریحان۔۔۔ رفعت سسکی۔
آج نہیں۔۔۔ وہ ہاتھ اس کے سینے پہ رکھ کے دھکیلنے لگی یکایک عجیب سا خوف دل میں آ بیٹھا تھا دیکھ لئے جانے کا خوف۔۔۔ سلیمان کے آجانے کا ڈر وہ مضطرب ہوئی۔
اسے خود سے دور کرنا چاہا ڈر تھا کہ اگر ابھی دور نا کیا تو طوفان سب بہا لے جائیگا۔
ریحان نے سرخ خمار آلود نظروں سے اسے دیکھا۔
آج نہیں پلیز۔۔۔ وہ ملتجی لہجے میں بولی۔
ریحان نے گہری سانس لی پھر جھک کر اس کے لبوں کا طویل بوسہ لیا اور الگ ہونے لگا۔
+-----------+++
جاری ہے۔۔۔
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
قسط:8 (لاسٹ)
ریحان آہستہ سے اس کے اوپر سے اٹھا اور تیز ہوتی سانسیں بحال کرنے لگا جلتی ہوئی نگاہیں رفعت پہ تھیں جو ہنوز صوفے پہ چت لیٹی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی۔
کیوں دور کر دیتی ہو مجھے خود سے۔۔۔۔ آہستہ سے شکوہ کیا اس کی آنکھوں میں بہتا خمار وہ دیکھ چکا تھا جانتا تھا وہ خود پہ جبر کر کے دور ہو رہی ہے۔
یہ مناسب نہیں ہے۔۔۔ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے بولی پھر کپڑے درست کرنے لگی جنھیں اس نے درہم برہم کر دیا تھا دل اب بھی سینے میں لرز رہا تھا۔
اس کا جوان سینہ ڈوب ابھر رہا تھا ریحان کی نگاہیں اس کے دلفریب بدن کے نشیب و فراز میں الجھیں دل کیا پھر اس کے وجود پہ چھا جائے مگر ضبط کے حدیں چھو کر رہ گیا۔
تم جاؤ پلیز اس سے پہلے کہ وہ آجائیں۔۔۔ رفعت منت بھرے انداز میں بولی پھر اٹھ بیٹھی۔
ریحان نے اس کے سراپے کو آنکھوں میں سمیٹا پھر الوداعی نظر ڈال کر باہر آگیا۔
+---------++++
سہہ پہر ڈھلنے لگی تھی گھر میں گہما گہمی اپنے عروج پر تھی نقرئی قہقہے گونج رہے تھے رنگین آنچل لہرا رہے تھے۔
ندا کی شادی کی سر گرمیاں جاری تھیں کل بارات آنی تھی گھر میں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جن میں زیادہ تر خواتین ہی تھیں۔۔
رفعت ہلکے سرخ رنگ کا خوبصورت کامدار جوڑا پہنے خواتین کے ساتھ ڈرائینگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی بالوں کا خوبصورت جوڑا کندھے پہ آگے کی طرف لہرا رہا تھا ہلکے میک اپ نے اس کے سراپے کو بے حد خوبصورت بخش رکھی تھی وہ بہت ساری لڑکیوں کے جھرمٹ میں بھی نمایاں لگ رہی تھی۔۔
اب جا کے تھوڑی سی فراغت ملی تھی تو وہ یہاں آبیٹھی ورنہ صبح سے ہی کاموں میں مصروف تھی شادی کے گھر میں سو طرح کے جھنجٹ تھے۔۔
وہ یوں ہی بیٹھی تھی کہ دروازے کے باہر سلیمان کی جھلک نظر آئی وہ چبھتی ہوئی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا پھر اشارے سے بلایا رفعت کی مسکراہٹ ذرا سی ماند پڑی پھر وہ ساتھ بیٹھی خواتین سے معذرت کرتی دپٹا سنبھالتی باہر کی طرف آئی۔
جی۔۔۔ جھجکتے ہوئے سلیمان کی طرف دیکھا تھا جس کے ماتھے پہ بل پڑے ہوئے تھے چہرہ غصے سے مزید گندمی ہو رہا تھا۔
تم تیار ہو کے یہاں بیٹھی ہوئی ہو میری کوئی پرواہ ہے تمھیں یا نہیں۔۔۔ وہ دبی آواز میں پھنکارا۔
کک۔۔ کیوں کیا ہوا۔۔۔ رفعت کا حلق سوکھنے لگا تھا اس کے تیور دیکھ کر۔۔۔
میرے کپڑے اور جوتے کہاں رکھے ہیں تم نے۔۔۔ وہ غصے سے پوچھ رہا تھا۔۔
رفعت نے حیرت سے اسے دیکھا وہ اس کے کپڑے وارڈروب میں لگا کے آئی تھی جوتے بھی بیڈروم میں سامنے ہی رکھے تھے باقی چیزیں بھی۔۔۔
وہ اسے چبھتی نظروں سے دیکھ رہا تھا رفعت کے ہونٹ بھینچ گئے وہ سمجھ گئی تھی کہ سلیمان کو اس کا یوں تیار ہو کر فارغ بیٹھنا پسند نہیں آیا تب ہی بھڑاس نکال رہا ہے وہ کئی دنوں سے اسے کچھ کہنے کا موقع بھی تو نہیں دے رہی تھی۔۔
وہ پلٹ کر بیڈ روم کی طرف آئی سب چیزیں وہاں موجود تھیں لیکن رفعت نے اسے جتایا نہیں بس خاموشی سے ہر چیز اسے تھمائی پھر باہر نکل گئی۔۔
سنو۔۔۔ وہ باہر نکلنے لگی تھی کہ اس نے آواز دی۔
ڈرائینگ روم میں لاٹ صاحبہ کی طرح بیٹھی نا رہو سب انتظامات کا جائزہ بھی لو۔۔۔ اگر کوئی کمی کوتاہی ہوئی تو تمھاری خیر نہیں۔۔۔ اس کی آواز نے کانوں میں کڑواہٹ گھولی رفعت ہونٹ باہر نکل آئی کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
وہ صبح سے مسلسل چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف تھی لیکن اسے وہ نظر نہیں آیا تھا لیکن دو پل فارغ بیٹھنا فوراً نظر آگیا تھا اور اب اسی بات پہ طنز کر رہا تھا۔
+-----------+++
ریحان برش ہاتھ میں لئے شیشے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا وہ ابھی ابھی شاور لے کے نکلا تھا گھنگریالے بال ہلکی سی نمی لئے ہوئے تھے نگاہیں شیشے میں ابھرتے اپنے عکس پر تھیں۔۔
آج پڑوس میں مہندی کی تقریب تھی لوگوں کا مدھم شور اور ڈھولکی کی گونج وقفے وقفے سے ابھر رہی تھی وہ بھی وہاں جا رہا تھا۔۔
مانگ نکال کر اس نے اپنا تنقیدی جائزہ لیا پھر مطمئن سا ہو کر سر ہلادیا بیضوی آئینے نے بھی اس کے وجیہہ سراپے کو سراہا وہ کافی محنت سے تیار ہوا تھا۔
باہر گلی میں اکا دکا لوگ آ جا رہے تھے گھر کے سامنے کئی گاڑیاں کھڑی تھیں وہ دروازے کی طرف آیا پھر کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔۔
چھوٹے سے لان میں سلیمان سمیت کئی لوگ موجود تھے وہ ان کے قریب کرسی پہ آبیٹھا خواتین شاید ڈرائینگ روم میں تھیں۔۔
وہ اس طرح سے بیٹھا تھا کہ گیٹ کی طرف اس کی پشت تھی جبکہ سامنے ہی گھر کا اندرونی حصہ نظر آرہا تھا اس نے کن اکھیوں سے اندر جھانکا کئی لڑکیاں نظر آئی تھیں لیکن اس کی نگاہیں کسی اور کی دید کی آس لئے ہوئے تھیں رفعت کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
وہ لوگ لان میں بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے شام ڈھل گئی تھی بیرونی روشنیاں جلا دی گئی تھیں دیواروں پہ لگے قمقمے روشن ہو کر جگمگا رہے تھے ریحان مایوس سا پہلو بدلتا رہا وہ نظر نہیں آئی تھی۔
مہندی کی رسمیں شاید ادا ہو گئی تھیں بہت سی خواتین گھر سے نکل گئیں کچھ اب بھی اندر موجود تھیں سلیمان بھی اٹھ کے کہیں جا چکا تھا ریحان وہیں بیٹھا رہا۔۔
دفعتاً وہ اسے نظر آئی سرخ کامدار لباس پہنے۔۔۔ شیفون کا ہم رنگ دوپٹا اوڑھے۔۔۔ بالکونی کی لائیٹ کی روشنی میں اس کی موہنی صورت دمک رہی تھی۔۔۔ سہج سہج کر چلتی باہر آئی پھر سیڑھیاں چڑھتی دوسری منزل پہ چلی گئی ریحان کی نگاہوں نے قدم قدم پہ اس کا تعاقب کیا تھا اس نے ریحان کو نہیں دیکھا تھا شاید جلدی میں تھی۔۔
ریحان بیٹھے بیٹھے بے چین ہوا ادھر ادھر دیکھا کوئی آس پاس موجود نہیں تھا چند لمحے یوں ہی بیٹھا دل میں اٹھتی کشمکش سے لڑتا رہا پھر اٹھا اور سیڑھیوں کی طرف آیا۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اوپر آیا اوپر بس ایک ہی کمرہ تھا یہ کمرہ اکثر بند رہتا تھس ریحان نے کبھی اسے کھلا نہیں دیکھا تھا شاید آج اسے مہمانوں کے لئے کھولا گیا تھا وہ شاید اندر تھی دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔
وہ اس طرف آیا اور دہلیز پہ رک سا گیا قدم تھم سے گئے تھے وہ سامنے ہی دوسری طرف منہ کئے کھڑی تھی۔
یہ بیڈروم کے طرز پہ سجایا گیا کمرہ تھا ایک طرف مسہری پڑی ہوئی تھی سامنے ہی چند صوفے دھرے تھے جن کے آگے شیشے کی تپائی تھی کمرے میں لائٹ کی روشنی پھیلی ہوئی تھی رفعت وارڈروب کے سامنے کھڑی اس کے پٹ کھولے کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔
ریحان کی نگاہیں اس پہ ٹھہر گئیں وہ سرخ شرٹ اور سفید پاجامے میں تھی۔۔۔
ریشمی بالوں کی چوٹی کمر پہ کنڈلی مارے ہوئے تھی فٹنگ کی دیدہ زیب شرٹ نے اس کی موزوں کمر کو تھام رکھا تھا اور صحتمند کولہے پاجامے کی سختیوں سے کسمسارہے تھے جیسے احتجاج کر رہے ہوں ریحان کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں۔۔
دروازے کو آہستہ سے بند کرتا وہ اس کی طرف آیا اور عقب میں آن کھڑا ہوا آہٹ پہ رفعت ہلکی سی چونکی پلٹ کر اسے دیکھا آنکھیں پھیل گئی تھیں اسے یوں روبرو دیکھ کر۔۔۔
کیا کر رہی ہو یہاں؟ ریحان نے خمار آلود نگاہوں سے اسے دیکھا
کک کچھ نہیں۔۔۔ رفعت ہکلا کر رہ گئی۔۔۔ تم کیوں آئے ہو یہاں؟ اس سے پوچھا
ویسے ہی۔۔۔۔وہ اس کے قریب ہوا۔۔ تمھیں اوپر آتے دیکھا تو میں بھی آگیا۔۔۔ اس کی آواز بھاری ہو رہی تھی۔
میں تو یہ شال لینے آئی تھی اب نیچے جاتی ہوں۔۔۔ رفعت نے کانپتے ہاتھوں سے ایک شال نکالی نا جانے کیوں ریحان کی موجودگی اس پہ اثر انداز ہو رہی تھی گلہ سوکھنے لگا تھا۔
نہیں۔۔۔ ریحان نے شال اس کے ہاتھ سے لے لی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد چلی جانا۔۔۔ اس نے جیسے سرگوشی کی تھی پھر بازو رفعت کی کمر کے گرد لپیٹ کر اسے قریب کر لیا۔۔
ریحان۔۔۔ رفعت نے لرزتی آواز میں اسے پکارا مگر ریحان نے سنا نہیں اسے پیچھے سے پکڑ کر مسہری پہ لٹا دیا اور خود اس کے اوپر آگیا۔
وہ اوندھے منہ نرم مسہری میں دھنسی ہوئی کسمسا رہی تھی ریحان کی گرم سانسیں اس کی برہنہ گردن کو چھو رہی تھیں۔
ریحان نے تپتے ہوئے ہونٹ عقب سے اس کی دودھیا گردن پہ رکھے پھر قمیض اوپر کردی۔۔۔ اس کی دودھ کی طرح گوری کمر نمودار ہوئی تھی۔
ریحان کے ہونٹ بیتابی سے اس کے عقبی بدن پہ رینگنے لگے۔۔۔ اس کے ذائقوں سے آشنا ہونے لگے رفعت آنکھیں شدت سے بند کر گئی سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی تھی۔
ریحان نہیں پلیزززز۔۔۔۔وہ کراہی اس کی وحشت کے سامنے بے بس ہونے لگی۔
ریحان نے اپنے ہونٹ اس کی کمر کے خم پہ رکھے پھر پاجامے کے بند کھولنے لگا۔۔
نہیں۔۔۔ رفعت اس کے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ کے بولی مگر اس نے رفعت کے ہاتھ ہٹا دئیے دوسرے ہی لمحے وہ اس کا پاجامہ گھٹنوں تک سرکا چکا تھا۔
دل تھم سا گیا رفعت کا خوبصورت بدن اس کے سامنے عیاں ہوا تھا صحت مند کولہے لباس کی قید سے آزاد ہوئے تھے۔
ریحان کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی سی محسوس ہوئیں وہ سرخ رنگ کا انڈر وئیر پہنے ہوئے تھی جس نے اس کے خوبصورت بدن کو سختی سے سمیٹ رکھا تھا۔
اس نے رفعت کو نرمی سے چھوا وہ کسمسائی تھی ہونٹوں سے مدھم سسکی نکلی۔
ریحان نے آہستہ سے اس کا رخ اپنی طرف کیا پھر انڈر وئیر بھی اتار دیا۔
ریحان کا دل شدتوں سے دھڑکا نگاہیں اس کے جوان بدن کے درمیانی حصے پہ جارکی تھیں اس کے خوبصورت جسم پہ ہلکے بال تھے اور اس کےنچلے بدن کے گداز ہونٹ نظر آرہے تھے۔
ریحان نے اس کی نچلے بدن کو چھوا وہ کراہی ضبط کے بندھ ٹوٹنے لگے تھے اس نے اپنے اور اس کے کپڑے الگ کئے اور نرمی سے اس پہ سوار ہو گیا۔
آہ۔۔۔۔۔ رفعت کے ہونٹوں سے طویل کراہ نکلی ریحان نے اس کے ہونٹوں کو اپنے لبوں میں جکڑ لیا وہ لرز رہی تھی مچل رہی تھی لبوں سے رہ رہ کر کراہیں نکل رہی تھیں۔۔
نچلی منزل سے آتی مدھم آوازیں ان کی سماعتوں تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہی تھیں وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوچکے تھے۔
رفعت نے بازو سختی سے اس کی گردن میں حمائل کرکے بے اختیار اس کی گردن پہ دانت گاڑ دئیے وہ بہک رہی تھی۔
وہ اسے اک انجانی آگ میں جلا رہا تھا اس کے پور پور کو اپنی وحشت سے جھلسا رہا تھا۔کمرے کے درو دیوار دم سادھے انھیں دیکھ رہے تھے وہ بڑی دیر ایک دوسرے کی بانہوں میں سلگتے رہے۔۔کمرے میں بہکی بہکی سانسوں کی آہٹ رچی ہوئی تھی۔
+-------++++
رات کے دو بج رہے تھے شب نیلے آسمان تلے بھیگ رہی تھی ہر شے پہ اندھیرے کا غلاف چھایا ہوا تھا۔
سلیمان گھر کی چھت پہ ٹہل رہا تھا فون وہ فون کان سے لگائے دھیمی آواز میں کال پہ بات کر رہا تھا ہونٹوں پہ مسکراہٹ دوڑ تھی۔
ریچل نے کال کی تھی اور وہ اسی سے بات کرنے کے لئے بستر چھوڑ کر اوپر آیا تھا۔۔ ریچل اس کی محبوبہ تھی جس کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا وہ قریب چھ مہینے پہلے ملے تھے اور وہ اس کی زلفوں کے جال میں گرفتار ہوا تھا سبک اندام اور چنچل سی ریچل اسے بھا گئی تھی۔
ہفتے کی ہر رات اس کے ساتھ سیاہ ہو کر صبح میں بدلتی تھی تنخواہ کا بڑا حصہ بھی اس کے ناز اٹھانے میں صرف ہو جاتا تھا بدلے میں وہ اس کا "دل بہلا" دیتی تھی۔
الوداعی جملوں کے تبادلے کے بعد وہ نیچے اترنے لگا اور بیڈ روم میں آگیا رفعت کروٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی اس نے اک نخوت بھری نگاہ اس پہ ڈالی اور اس کی طرف پشت کرکے لیٹ گیا۔
رفعت میں اس کی دلچسپی نا ہونے کے برابر رہ گئی تھی وہ خوبصورت تھی مگر جو بات ریچل میں تھی وہ رفعت میں کہاں تھی ریچل کو دل لبھانے کے سارے گر آتے تھے اس نے سوچا اور مسکرایا آج مہندی کی تقریب تھی ندا کی شادی کرواکے وہ جلد ازجلد مسقط روانہ ہونا چاہتا تھا۔
ان لمحوں میں وہ بھول گیا تھا کہ ہر رشتے کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنھیں اگر پورا نا کیا جائے تو رشتوں میں دراڑیں آجاتی ہیں چور راستے نمودار ہوجاتے ہیں۔۔۔۔
رشتوں کے شجر کو اگر محبت کے پانی سے سینچا جائے تب ہی وہ پھلتا پھولتا ہے رشتوں میں بگاڑ کا بڑا سبب نا مناسب روئیے ہی ہوتے ہیں۔
کیسا لگا یہ ناول آپ کو سب کمنٹس میں بتائیں
+---------+++
ختم شد
 
Newbie
12
13
3
اوہ، . افسوس ، ناول کا اختتام پڑھ کر ایسا لگا جیسے کہ اسے جلد بازی میں سمیٹ دیا گیا ہو، بہرحال ایک رائٹر ہی اپنی تخلیق کے بارے میں بہتر جان سکتا ہے،
ایک عام سے معاشرتی مسئلے کی بھرپور انداز میں عکاسی کی گئی ہے، حضرت انسانے کو بہکانے کا موقع شیطان کو خود انسان ہی مہیا کرتا ہے، بیویوں کے جسمانی حقوق پورے نا کرنا اور وہ بھی ایسی بیوی کے جو جوانی کے اس ابتدائ حصے میں ہو جہاں نفسانی جذبات بھرپور خراج چاہتے ہوں، انکو اسطرح سلگتے تپتے جذبوں کیساتھ تنہا چھوڑ دینا انھیں گناہگار بنانے کے علاوہ کئی مزید سماجی مسئلوں کو جنم دیتا ہے، بہرحال یہ ایک بہترین تحریر تھی اور آئندہ بھی ایسی تحاریر کی توقع ہے جو ہمارے ایسے مسائل کی عکاس ہوں جنھیں مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔۔
میری طرف سے رائٹر کو مبارکباد
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
اوہ، . افسوس ، ناول کا اختتام پڑھ کر ایسا لگا جیسے کہ اسے جلد بازی میں سمیٹ دیا گیا ہو، بہرحال ایک رائٹر ہی اپنی تخلیق کے بارے میں بہتر جان سکتا ہے،
ایک عام سے معاشرتی مسئلے کی بھرپور انداز میں عکاسی کی گئی ہے، حضرت انسانے کو بہکانے کا موقع شیطان کو خود انسان ہی مہیا کرتا ہے، بیویوں کے جسمانی حقوق پورے نا کرنا اور وہ بھی ایسی بیوی کے جو جوانی کے اس ابتدائ حصے میں ہو جہاں نفسانی جذبات بھرپور خراج چاہتے ہوں، انکو اسطرح سلگتے تپتے جذبوں کیساتھ تنہا چھوڑ دینا انھیں گناہگار بنانے کے علاوہ کئی مزید سماجی مسئلوں کو جنم دیتا ہے، بہرحال یہ ایک بہترین تحریر تھی اور آئندہ بھی ایسی تحاریر کی توقع ہے جو ہمارے ایسے مسائل کی عکاس ہوں جنھیں مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔۔
میری طرف سے رائٹر کو مبارکباد
مذید ایسے ناول پڑھنے کے لیے ادرو سیکشن چیک کریں، اس میں اور بھی بہترین ناول موجود ہیں ، شکریہ ،
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
اوہ، . افسوس ، ناول کا اختتام پڑھ کر ایسا لگا جیسے کہ اسے جلد بازی میں سمیٹ دیا گیا ہو، بہرحال ایک رائٹر ہی اپنی تخلیق کے بارے میں بہتر جان سکتا ہے،
ایک عام سے معاشرتی مسئلے کی بھرپور انداز میں عکاسی کی گئی ہے، حضرت انسانے کو بہکانے کا موقع شیطان کو خود انسان ہی مہیا کرتا ہے، بیویوں کے جسمانی حقوق پورے نا کرنا اور وہ بھی ایسی بیوی کے جو جوانی کے اس ابتدائ حصے میں ہو جہاں نفسانی جذبات بھرپور خراج چاہتے ہوں، انکو اسطرح سلگتے تپتے جذبوں کیساتھ تنہا چھوڑ دینا انھیں گناہگار بنانے کے علاوہ کئی مزید سماجی مسئلوں کو جنم دیتا ہے، بہرحال یہ ایک بہترین تحریر تھی اور آئندہ بھی ایسی تحاریر کی توقع ہے جو ہمارے ایسے مسائل کی عکاس ہوں جنھیں مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔۔
میری طرف سے رائٹر کو مبارکباد
 
Newbie
12
13
3
جی میں نے پڑھے ہیں سب بہت اچھے ہیں۔ خاص طور پر شومئی قسمت اور دربدر لاجواب ہیں۔۔ دربدر کے پلاٹ پر تو انڈیا میں ایک مووی بھی بنائی گئی تھی جسکا نام ابھی ذہن میں نہیں ہے ۔ اس میں نواز الدین نے ماسٹر کا کردار نبھایا تھا
 
Newbie
4
2
3
Story waqayi bahot achi h bt khtam bahot jaldi kr di apne
Aisa lagta h jaise ki adhuri hi chhod di ho
Ise or bhi badhaya ja sakta h
Waise ap writer ho ap behtar samjhte h
 

Top