Adultery شومئ قسمت (Completed)

.
Moderator
2,363
1,827
143
شومئی قسمت

====================================

[پہلی قسط]

شہر کی رونق بجھتے ہی پرانی سبزی گلی کا پچھلا محلہ آباد ہونے لگا ہے۔
چھوٹے چھوٹے کھولی نما مکانات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔
ایک گلی سی شہید غازی بابا کے مزار سے ہوتی ہوئی قیصر مسجد تک جاتی ہے۔ اسمیں بہت سے مکانات ہیں۔
یہ محلہ طوائف خانہ ، ہیرا مارکیٹ وغیرہ بھی کہلاتا ہے۔

ملک بھر سے بھاگی ہوئی، لاوارث ، مغوی لڑکیوں اور بھوکے خاندان کا پیٹ پالتی بیوہ ماں کیلئے ایک روزگار، ایک کمپنی۔

مزار کی پچھلی جانب کچھ خاندانی کنچنوں اور ان مکانات کے ناخداؤں کے حویلی نما بنگلے ہیں۔

سرکار کی ناک کے نیچے پلتا یہ چکلہ سرکاری افسران کو دعوتِ فکر کم اوع دعوتِ گناہ زیادہ دیتا ہے۔
اور وہ ثانی الذکر پہ لبیک کہنا نیکی جانتے ہیں۔

دن بھر یہاں ویرانی اور مردگی سی چھائی رہتی ہے۔ جیسے کوئی آباد ہی نہ ہو.
لیکن جونہی شب اپنے بازو پھیلائے فرزندانِ ملت کو اپنی بانہوں میں سلاتی ہے، یہ گلی روشن اور اسکے کردار جاگ اٹھتے ہیں۔

شہر بھر کےامیر زادے نفسانی بھوک مٹانے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ مالِ مفت کا بے دردی سے ضیاع کرتے ہوئے ایک رات کی دلہن کو بیاہ کر گھر یا ہوٹل بھی لیجاتے ہیں۔ اور کچھ یہیں قصہ تمام کرنا عافیت سمجھتے ہیں۔

جتنا گڑ ڈالیے اتنا میٹھا ہوگا…

نئی نویلی کاریں اپنے سواروں کولیکر رات بھر اس گلی کا گشت کرتی رہتی ہیں اور صبح خدا کے منادی کی پہلی ندا سے بھی پہلے منہ چھپاتے شریف زادے اپنے اپنے آشیانوں کو لوٹ جاتے ہیں۔

اور پیچھے چند مڑے تڑے نوٹ، مسلی گلاب کی کلیاں، نوچے ہوئے بدن، خشک آنسو، ویران نگاہیں، تھکی ہوئی عورت، بلکہ عورت کے نام پہ ایک دھبہ، ایک کلنک کا ٹیکہ، ایک مزدور، ایک فاحشہ، ایک ناسور، ایک مشین، ایک پیشہ، اور ایک عورت۔ صرف ایک عورت______
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
سنا ہے یہ "حوا کی لڑکی" کی منڈی ہے... یہاں جسم بکتا ہے... جب شہر سوجاتا ہے تو کوٹھا جاگتا ہے.. ہر طرف امیر زادوں کی لڑی ہے۔ دلالوں کی چیخیں، سیگرٹ کے ہوا میں اٹھتے مرغولے، لیچڑ گانوں کی آوازیں اور تھرکتے بدن... گوشت ہی گوشت... بوڑھا،جوان، زور آور، کمزور، گورا،سیاہ، ہر طرح کا گوشت۔
پسند کیجئے اور دام دیجئے ، گوشت چند گھڑی آپکا ہوا...

مردہ بدن جنکی روح مرچکی ہے... وہ عورت نہیں دکان ہے۔ گوشت کی دکان... جسکے ہر عضو کی قیمت ہے... گاہکوں کی من پسند دکان... ہر امیر کی دسترس میں... ہر ایک کی داستان ہے...ماں باپ کی لاڈو کھلونوں سے کھیل کر ردائے عفت اوڑھنے کے بجائے عصمت بیچ کر ننگی گالی کیونکر بنی، اسکے لئے ہر ایک کی اپنی داستان ہے.. ہر عورت ایک کہانی ہے. ایک طعنہ ہے، ایک گالی، ایک زخم، ایک درد، صدمہ... القصہ ہر عورت ایک عورت ہے____

پیر غازی شہید کے مزار کے مشرقی جانب تین مکان چھوڑ کر چوتھے مکان میں آباد لڑکی کیطرف چلتے ہیں۔
یہ صائمہ عرف نوشین عرف نوشی ہے... غضب کی نازنیں اور نازک اندام، راگ پر قابو نہیں البتہ گاتی غضب کا ہے۔ آواز میں لوچ ہے۔ لیکن ناپختگی...
مرنے والے اسکے صوتی اتار چڑھاؤ کی بجائے جسمانی اتار چڑھاؤ کی منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں...

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
پورے پندرہ سو۔ اس سے ایک روپیہ کم نہ ہوگا۔ یہ بھی آپکے لئے ہے سر جی۔ آپ ہمارے پرانے قدر دان ہیں۔ اور سرکار بھی۔ اسلئے خدمت ہی سمجھئیے اسکو بھی، مال بھی تو مرجی کا دے رہا ہوں۔ رمضان نے مکروہ سی ہنسی اڑائی۔

چل مرجا، پندرہ سو میں لیکن مجا نہ آیا نا تو...

سرجی کیسی بات کرتے ہیں؟؟؟ پہلے کبھی شکایت نہیں کی آپ نے۔ اس بار بھی نہیں ہوگی۔ الّا یہ کہ آپ تھک گئے ہوں تو الگ بات ہے۔ اس نے آنکھ دبا کر ایک غلیظ اشارہ کیا اور گاہک اسکو لعنت دیکر اندر چلا گیا۔

سنا ہے بہت اچھا ناچتی ہے تو۔ لیکن پہلے گانا سنانا ہوگا۔
اسنے مسکرا کر نگاہ پاس بیٹھی نوشی پہ ڈالی..
پندرہ سو دیتے تو جان جا رہی تھی محترم کی۔ اور شوق نوابوں والے پال رکھے ہیں،سیدھا کشتی لڑو اور ازار سنبھالو۔ وہ حقارت سے بولی۔

اچھا، بڑے نخرے ہیں تیرے، چل تو جانتی نہیں ہے مجھے۔ بول کیا لے گی ناچنے گانے کا۔

دو دو سو بڑھا دو اور گاتے وقت پسند آنے کی بخشش الگ سمجھو۔ وہ آنکھ مار کے مسکرائی۔

ہائے تیری ادائے دلبری، چل شروع کر۔

اسنے راگ اٹھایا، پھر ناچنا شروع کیا۔ نوٹ برستے رہے۔ پھر لباس کا تسلسل سے اختصار ہوا۔
تاآنکہ لباس معدوم اور نظریں وحشت ناک ہوگئیں۔ بستر آباد ہوا۔ دس منٹ بمشکل سسکتا، آہیں بھرتا اور من میں پیسہ آنے کی خوشی لیکر بمشکل دل کو سنبھالتا نازک بدن درنگی کے ایک بت کے بوجھ کو اٹھائے تادیر جرمِ التذاذ کا مرتکب رہا....
ہنہہہہ۔ بس ہوگئی؟؟؟؟ اتنی سی مردانگی کیلئے اتنے پاپڑ بیلے تھے آپ نے۔ وہ حقارت سے زخمی ہنسی لیے بولی۔

اچھا تو سسکیاں کیوں بھرہی تھی؟؟؟ تیرے دلال کو بولونگا چڑیا بہت بولتی ہے۔
ارے نہیں صاحب، بہت کمینہ ہے وہ۔ آپ اسکو کچھ مت بولنا۔ مجھے ایک پائی نہیں دیگا وہ۔ وہ ایکدم تڑپ گئی تھی۔

ھاھاھاھا، ٹھیک ہے۔

صاحب ایک احسان کردو۔ ابا بہت بیمار ہے۔ اگر دوسو روپے دیدو تو دوا کے ساتھ دودھ لیجاؤنگی گھر۔ دیدو نا پلیز۔

چل ہٹ گھٹیا مرد کی اولاد۔ زیادہ فری مت ہو اب۔ اسنے ایک ٹھوکر قدموں میں بیٹھی نوشی کو لگائی۔

صاحب پلیز دیدو نا۔ آپکی پہلے دی ہوئی ساری کمائی میں سے مجھے صرف کھانا خریدنے کے پیسے ملیں گے۔ باقی دلال کا ہے۔ پلیز ابا مررہا ہے دیدو نا۔ وہ اب رونے لگی تھی...

اففف بند کر ڈرامہ۔ پکڑ دوسو روپے۔

صاحب دلال کو کچھ مت بتانا۔ وہ مجھ سے چھین لے گا۔
وہ جلدی سے آنسو پونچھ کر، حلیہ درست کرکے فیس پاؤڈر تھوپ کر نئے شکاری کا انتظار کرنے لگی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
[دوسری قسط]

گلی اندھیری تھی۔ غیر قانونی آبادی میں کچھ کچے پکے مکانات بنا کر کچھ اجسام زندگی بسر کررہے تھے۔ کوئی گلی میں آہستہ آہستہ داخل ہوا۔تھکی چال اور لڑکھڑاتے قدم آنے والے کی حالتِ زار پہ مکمل دلالت کررہے تھے۔
ملگجا سیاہ لبادہ اور پرانی سی چپل۔ ایک ہاتھ میں شاپر جھول رہا تھا۔
نقاب پوش ایک دروازے کے سامنے رکا اور دستک دی۔ پہلی ہی دستک پہ دروازہ کھلا اور ایک بوڑھی عورت نے آنے والے کا یوں اسقبال کیا جیسے وہ برسوں سے اسی کی منتظر تھی۔

آگئی میری بچی!!! ماں نے اسکا ماتھا چوم کر اسکو اندر کیاب اور دروازہ بند کرلیا۔

ساٹھ گز کا ایک بڑے دڑبے نما گھر جسمیں تین نفوس سانسیں گن رہے تھے۔
دو چھوٹے کمرے، ایک صحن۔ اسی میں ایکطرف چولہا اور سلیب لگی ہوئی تھی۔ ایکطرف کو کونے میں غسلخانہ تھا. جسکے لیے دروازہ دستیاب نہ تھا۔ البتہ اسکا رخ دیوار کیطرف تھا اور ایک بھاری پردہ ڈال دیا گیا تھا۔ نہ جانے غربت تھی کہ نحوست، ہر چیز پہ موت کا سا سناٹا طاری تھا۔ ہر چیز رنجیدہ تھی۔ پلستر شدہ بے رنگ دیواریں، جگہ جگہ سے ادھڑا فرش، بیمار مکین اور تماشائی فلک...
ایسے مواقع پہ قسمت بھی رضائی اوڑھ کر کروٹ بدل لیتی ہے. اورغریب کے پلے آہوں،سسکیوں اور وظیفے دعاؤوں کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا چندا؟؟؟

ہاں ماں میں ٹھیک ہوں، تھک گئی ہوں… کھانا دیدو بس جلدی سے۔ ہاں جان تو اندر بیٹھ میں ابھی لائی۔ اسنے برقعہ اتار کر ایکطرف پھینکا۔ اور غسل خانے کیطرف بڑھی۔ غسل خانہ کیا تھا کمرے سے باہر نکل کر صحن کے ایکطرف کونے میں چھ×چھ فٹ کا ایک چوکور دڑبہ۔ جس پہ دروازے کی جگہ ایک بھاری پردہ لٹک رہا تھا۔ پچھلے ماہ میڈم کے ہاتھ پاؤں جوڑے تھے اور ایک شادی کے فنکشن میں ناچی تھی تب جا کر ابا کیلئے کموڈ لگوایا تھا۔ تاہم فرش تو سارے گھر کا ہی غریب کے دل کیطرح ادھڑا ہوا تھا۔غریب کی یہی بات اچھی ہے۔ اندر باہر سے ایک جیسا ہوتا ہے۔ بدحال اور بد ظن…
غسل خانے میں کھڑے لباس اتارتے ہوئے وہ ایک لمحے کو جھجک سی گئی۔ پردے کیطرف دیکھا۔ اور پھر خود پہ ہی ہنس دی۔ رات بھر معریٰ بدن کیساتھ مردوں کے سینے پہ مونگ دلتی فاحشہ گھر کے غسلخانے میں ماں باپ کی ننھی نوشی بنی کھڑی تھی۔ وہی نوشی جس نے نو سال کی عمر سے بڑی چادر لینا شروع کردی تھی۔ چار دیواری سے باہر وہ ایک بدن فروش تھی۔ ایک گویا تھی۔ لذت کا سامان تھی۔ گوشت مارکیٹ تھی۔ ایک طوئف تھی. لیکن اس کچے مکان میں وہ ایک بیٹی تھی۔ ننھی نوشی تھی۔ نازک لاڈلی بیٹی جسکے نخرے اور فرمائشیں اسکے سینے میں ہی دم توڑ گئی تھیں۔ وہ مرچکی تھی محض بدن رہ گیا تھا۔ عذاب سہنے کو۔ یا آدم زاد کو مزے دینے کو…
اس نے بدن پہ ایک نگاہ ڈالی۔ ہر طرف سے اسکو ایک لمس۔ ایک دباؤ اور بوجھ سا محسوس ہوا۔ کسی کے پکڑنے کا نشان۔ کہیں تھپڑ لگادیا تھا کسی نے۔ کوئی بدن چوم گیا تھا تو کسی نے کاٹ ہی لیا تھا۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
بالٹی نل کے نیچے رکھے پانی بھرنے کے انتظار میں کھڑی وہ دیر تک ان نادیدہ زخموں کو دیکھتی ، محسوس کرتی اور حتجاج کرتے بدن کو سہلا کر چپ کراتی رہی۔
اسنے سامنے لگے آئینے پہ نگاہ ڈالی۔
ٹوٹے آئینے میں شکل اور بھی پژمردہ سی لگ رہی تھی اور شکستہ بھی۔ اسے لگا جیسے اسکے چہرے پہ بے شمار لب رقص کررہے ہوں۔ بدن کے ہر حصے پہ کسی بھیڑئیے کا لمس نقش تھا۔ کسی نے نرمی سے۔ کسی نے سختی سے۔ کسی نے مار کر اور کسی نے کاٹ کر اپنی چھاپ چھوڑنے کی کوشش کی تھی۔
وہ چپ چاپ مگ بھر کر اپنے اوپر انڈیلنے لگی۔
جلدی نکل آ۔ روٹی بنانے کا کہ کر اندر گھس گئی ہے۔ ماں اس پہ غصہ کررہی تھی۔
غسل کرکے وہ باہر آئی تو سورج کی کرنیں صحن میں پھیل رہی تھیں۔
اب بیٹھ ادھر ہی۔ ماں نے پاس پڑی چوکی پہ اسکو بٹھایا اور کھانا سامنے رکھ دیا۔
نوشی تجھے کتنی بار کہوں بیٹا یہ نائٹ ڈیوٹی ٹھیک نہیں ہے۔زمانہ خراب ہے چاند۔ کوئی دن کی نوکری کرلے۔اسکی آواز بھرا گئی۔
ساری رات تیرے انتظار میں آنکھوں میں کٹ جاتی ہے میری۔ اور دن بھر تیرے بیمار باپ کے کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔
تیری صحت الگ گررہی ہے۔
وہ چپ چاپ کھانا کھاتی فرش،کو تکتی رہی۔
تو دن کا کام نہیں پکڑ سکتی؟؟؟

ماں رات والا مالک نہیں مانے گا۔ اس دن بھی دھمکایا تھا اسنے۔ وہ سسک پڑی۔ کہا تھا کہ کام چھوڑا تو اٹھوا لے گا۔

ہائے اللہ تباہ ہو وہ نامراد۔میری پاک بیٹی پہ بری نگاہ ڈالتا ہے۔
اسکی بلائیں لیتی ماں اس بات سے قطعاً بے خبر تھی کہ رات والی فیکٹری در اصل کیا ہے۔ اور اسکی نوشی اب پاکباز نہیں رہی۔ بلکہ اب وہ بازار کا سب سے انمول اور لشکارے مارتا بدن ہے۔ وہ میڈم کی کمائی کا سب سے مضبوط پتہ ہے۔ گاہکوں کا دل اسمیں اٹکا رہتا ہے۔ اور امیر زادے اسکی سانسوں کے فریفتہ ہیں…

ماں کو اچانک جیسے کچھ یاد آیا۔ اسنے ایکطرف ڈھکی پلیٹ اٹھائی۔
یہ لے پڑوس سے نیاز آئی تھی چاول کی۔ تیرے لئے رکھ دیے تھے میں نے۔
اچھا، یہ بتاؤ ابا کا کیا بنا؟؟؟ کل سرکاری ہسپتال میں دکھایا تھا نا تم نے۔
ہاں ڈاکٹر تو جھوٹ بول کر لوٹتے ہیں بس۔ تو کھانا کھا بیٹا۔​
 

Top