Adultery شومئ قسمت (Completed)

.
Moderator
2,376
1,840
143
ارے تو بتاؤ نا۔ وہ تنک کر بولی۔

خون کا کینسر بتایا ہے۔ ماں کے جیسے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔
کیا؟؟؟؟ وہ یکدم اچھل کر رہ گئی۔

ایسا ہی ہے بیٹا۔ دو ماہ کا وقت دیا ہے ڈاکٹر نے۔

کیا مطلب دو ماہ کا وقت؟؟؟ اسنے نظر اٹھا کر ماں کے جھریوں زدہ چہرے کو دیکھا۔

ماں بولو نا رو کیوں رہی ہو تم؟؟؟ وہ کھانا چھوڑ کر ماں کے پاس چلی آئی۔

مرنے کیلئے۔دو ماہ کا مہمان ہے تیرا بابا۔ ماں اسکو سینے سے چمٹا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

نوشی کو ایسا محسوس ہوا کہ دنیا رنج و الم سے بھرا ایک ٹوکرا ہے جو اسکے سر پہ رکھ دیا گیا ہے۔

رات بھر کی وحشتناک اور درد ناک حرکتیں ، تعفن زدہ ماحول ، جسم سے اٹھتی ٹیسیں اوچھے فقرے اور ننگی گالیاں جس نوشی کو توڑ نہیں سکے تھے وہ باپ کے کینسر کا سنتے ہی ڈھے گئی۔

اچانک اسکا سر گھومنے لگا۔ اسنے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنا چاہا لیکن اندھیرا تھا کہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔

اور وہ اچانک ماں کی گود مہں جھول گئی…

نوشی... نوشی اٹھ۔ کیا ہوا تجھے؟؟؟؟

نسرین کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ جلدی سے اٹھی ، اسکو چت فرش پہ ڈالا اور نل میں سے پانی نکال کر منہ پہ چھینٹے مارے۔ ذرا دیر بعد اسنے آنکھیں کھولیں۔

کیا ہوگیا تجھے میری جان؟؟؟ نسرین مسلسل روئے جارہی تھی۔

مجھے کیا ہوا تھا ماں؟؟؟ وہ اب بھی مکمل حواس میں نہیں تھی۔
مجھے تو سب دھندلا لگ رہا ہے۔ سب ہل رہا ہے۔ تم بھی ہل رہی ہو ماں۔

جا تو سو جا جاکر۔
نسرین نے اسکو سہارا دیا اور اندر لے گئی۔ فرش پہ ایک لمبی سی رضائی بچھی تھی۔ ایکطرف سکندر سو رہا تھا۔ دوسری طرف وہ لیٹ گئی۔
جلدی سے سوجا۔ شام کو کام پہ بھی جانا ہوگا نا تجھے۔ ماں نے اسکا ماتھا چوما اور کمرے سے باہر نکل گئ۔

اسنے چپ چاپ ادھر ادھر دیکھا۔ باپ بے سدھ سویا پڑا تھا۔
انسان کیا تھا ہڈیوں کا ڈھانچہ سا تھا جس پہ کھال منڈی ہوئی تھی۔

کمرے کی کل کائنات فرش پہ موجود رضائی۔ تین چار ہاتھ کے بنے میلے سے تکیے۔ ایکطرف رکھا ٹوٹا سنگھار میز۔ چھت سے ٹنگا پنکھا۔

دائیں طرف رکھی الماری جو اسکو کوٹھے والی میڈم نے بخش دی تھی۔ اور ایک چھوٹا سا ٹی وی جو کسی امیر شخص کیطرف سے عنایت ہوگئی تھی۔

نجانے خدا غریبوں کو ہی بیماری کیوں دیتا ہے۔ یہ امیر لوگ ہمارے جسم سے کھیل کر مرتے کیوں نہیں ہیں۔ انکو کینسر کیوں نہین ہوتا۔ وہ بے آواز خدا سے شکوہ کررہی تھی. آنسو تھے کہ خشک ہوکر رہ گئے تھے۔

انہی سوچوں میں گم خود سے یا خدا سے لڑتی نجانے کب وہ نیند کی آغوش میں گم ہوگئی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
[تیسری قسط]

آج وہ بازار میں آ تو گئی تھی لیکن ذہن نجانے کہاں کھویا ہوا تھا…ایک ہی فقرہ دماغ میں بار بار گھوم رہا تھا… تیرا باپ ساٹھ دن کا مہمان ہے…

چل اٹھ میک اپ کر…!!
نوابزادی ایسے بیٹھی ہے جیسے باپ کی میت میں آئی ہو.! یہ میڈم تھی جو ان دس کھولیوں کی منتظمہ تھی جن میں مختلف طوائفیں فروکش تھیں۔
نوشی بھی ان میں سے ایک تھی۔ دل ہی میں سسکتی غم پیتی بمشکل تمام وہ اٹھی، تیار ہوئی۔ جونہی وہ کھولی کے برآمدے میں آئی تو میڈم اس کی منتظر تھی۔ وااہ ایک دم دھماکہ لگ رہی ہے میری جان۔ وہ اسکے گال کھینچتے ہوئے بولی۔

اسی لئے تو تیری مانگ بڑھتی جارہی ہے بازار میں۔ پرسوں والا بندہ میجر تھا فوج میں۔ کہہ رہا تھا چڑیا بولتی بہت ہے۔ لیکن کراہتے سمے بہت حسین لگتی ہے۔
میڈم زہریلے انداز میں ہنس رہی تھی۔ اور اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ گویا بھرے بازار میں وہ برہنہ کھڑی ہو۔

وہ طوائف تھی لیکن انسانیت جذبات رکھتی تھی۔ بالآخر وہ ایک عورت تھی۔ اگرچہ زمانے نے اس میں سے عورت کی تمام خصوصیات نکال لی تھی تاہم وہ اب بھی عورت ہی تھی۔ الفاظ کا نشتر سیدھا روح پر لگتا ہے اور اس لمحے طوائف میں مری ہوئی عورت بھی زندہ ہو جاتی ہے۔روح کے کھرنڈ کو کریدنے سے لہو کے جو ذرات ابھرتے ہیں ان میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ ایک ماں، بہن، بیوی، بیٹی۔انہی خیالوں میں گم وہ جھروکے پر آ کھڑی ہوئی۔ باہر بازار میں رونق بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر طرف شور برپا تھا۔تماشائی تھے کہ گویا پل پڑے تھے۔ نسوانی قہقہہ، تماشائیوں کی آوازیں ،جھروکوں کے سامنے بھیڑ ہی بھیڑ، کہیں گالی۔ کہیں طنز۔ کہیں قہقہے۔ کہیں تضحیک۔ کہیں پھبتی۔ کہیں فلمی شعر۔ کہیں فلمی فقرہ۔

ایک آرہا ہے ایک جا رہا ہے۔ چند سواریاں سینکڑوں سوار۔

ہر دریچے کے باہر گماشتہ کھڑا ہے۔ سودا ہو چکا ہوتا ہے تو اندر جانے کا اذن ہوتا ہے۔ کنڈی لگتی ہے۔ گانا سننا ہو تو الگ سے قیمت ادا کریں۔ ناچ دیکھنے کی الگ قیمت ہے۔ ورنہ بدنی حرارت حاصل کریں۔ ناز نیں بدن قیمت کے حساب سے میسر ہوتا ہے۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
بے لباسی سے لے کر واپس بیلٹ اور ازار بند باندھنے تک کے درمیانی لمحات عبرت انگیز، فرحت آمیز، بے بس، لالچی، رنگین، بے درد، آہوں اور سسکیوں کا مرکب، لمس کے احساسات سے مالا مال اور گھناؤنے کارنامے کا عین شباب ہوتے ہیں۔

متضاد صفات و حالات کا بیک وقت جمع ہونا طوائف کے بستر کی ایک ادنی خصوصیت ہے۔

یکایک رمضان کی آواز نے سکوت توڑ کر اس کو جھنجوڑا…

کوئی پنچھی سامنے کھڑا سودے بازی کر رہا تھا۔وہ تقریبا 35 سالہ ایک کڑیل جوان تھا بڑی مونچھیں چہرہ سپاٹ لمبا قد ہٹا کٹا بدن نیلی جینز چست شارٹ گلے میں سونے کی باریک چین گھنگریالے بال۔ ایک لمحے کو وہاں سے دیکھتی رہ گئی اور پھر نظریں پھیر کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ آدمی نے کھڑکی میں کھڑی نوشی کو دیکھا اور فرط جذبات سے آنکھ دبائی۔ وہ بے تاثر کھڑی رہی...

رمضان نے پانچ پانچ سو کے تین یا چار نوٹ اس سے وصول کیے اور وہ دروازہ کھول کر اندر آ گیا۔
وہ وہی میجر تھا جس کا تذکرہ میڈم کر رہی تھی۔

دیکھو آج بھی ہم سے رہا نہیں گیا، چلے آئے تمہاری محفل میں.!

آئیے کیا شغل پسند کریں گے گانا ناچ یا..؟ وہ بیزاری سے بولی۔

یا کے بعد والا کام ہی پسند کروں گا۔ چل ادھر گھوم اور نخرے بعد میں کرتی رہنا.!

اس نےنوشی کا بازو پکڑ کر جھٹکا دیا اور وہ چشم زدن میں اپنی ہی جھونک میں اسکی گود میں جاگری۔

اس اچانک افتاد پر وہ گھبرا سی گئی خوف زدہ آنکھوں سے جوان کی طرف دیکھا جو کہ وحشیانہ نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا۔

کیا ہوا میری چنچل پری؟؟ ڈر گئی کیا؟؟؟؟ وہ مسکرایا۔
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
جو بھی کرنا ہے کرو لیکن تمیز سے... اس نے اپنے آپ کو چھڑا لیا اور پلنگ پر بیٹھ گئی۔

آہ،، تیرے نخرے سننے نہیں آیا۔ جلدی کپڑے اتار دیے ورنہ مجھے پھاڑ کر اتارنے پڑیں گے۔ اس کا لہجہ قدم کرخت ہو گیا تھا۔

نوشی کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ اسکو آج اپنے اوپر بالکل قابو نہیں رہا تھا۔ اسنے عجیب سی نظروں سے میجر کو دیکھا۔ جو اب غصے سے اسکو گھور رہا تھا۔
چارو ناچار اسنے آہستگی سے کمر بند کھول کر لہنگا اتار کر سائیڈ پہ رکھا۔ اور اندر پہنا چوڑی دار پاجامہ اتارنے لگی۔

پھر کرتی کی باری آئی اور آنکھوں کو خیرہ کرتا اسکا گورا بدنیجر کا دل دلبھانے لگا۔

میجر بت بنا اسکو تک رہا تھا۔

اور وہ بالکل کھوئی ہوئی سی تھی۔ اذیت سے اور باپ کی پریشانی کی ملی جلی کیفیت کیوجہ سے آنکھیں آنسؤوں سے بھر گئی تھیں۔ اور وہ پھٹ پڑنے کو تھی۔

کیا ہوا رانی؟؟؟ اس دن درد بہت ہوا تھا کیا جو آج آنسو بھر لیے آنکھوں میں؟؟ وہ ہنسا۔

نہیں۔ اب درد نہیں ہوتا مجھے۔ وہ آنسو کلائی کی ہشت پہ پونچھتے ہوئے بولی۔

تو پھر رو کیوں رہی ہے میری جان؟ دو منٹ برداشت کرلینا۔ موت نہیں آئے گی تجھے۔ اس نے نوشی کے گالوں کو بھینچتے ہوئے کہا اور پھر کمر سے پکڑ کر اسکو پہلو میں کھینچ لیا۔

آپ اپنا کام کرو۔ مجھ بے جان کے آنسو کی کیا قیمت...

ایسے مزہ نہی آئے گا نا۔ تو آوازیں نہیں نکالے گی۔ وہ اب بھی مذاق اڑانے کے موڈ میں تھا…

اسنے کراہیت کے باوجود اسکے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ جمائے اور چوسنے لگی۔

اس کی حدت سے نوشی کا بدن کانپ رہا تھا۔ اسکو ایسا لگ رہا تھا جیسے اب وہ پگھل جائے گی۔

میجر اسکا سینہ بند اتار کے بدن کو چومنے لگا۔

باوجود کم خوراک اور کمزور صحت کے وہ ایک حسین اور فربہ بدن کی مالک تھی۔ رنگت صاف اور بڑی آنکھیں۔
گورے بدن پہ میجر نے ایک چانٹا لگایا تو سرخ رنگ کا ایک نشان سا بن گیا اور اسکے منہ سے ایک کراہ نکل کر رہ گئی۔ وہ اسکو مسلسل ہلکے تھپڑ لگا کر اور چٹکیاں لیکر سسکنے پہ مجبور کررہا تھا. اور اس سے اسکے سرور میں اور اضافہ ہورہا تھا۔

وہ بے قرار سی اسکے بوجھ تلے گہری سانسیں لے رہی تھی۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
اسکے دونوں ہاتھ میجر کی پشت پہ بندھے تھے۔

ریشمی بیڈ شیٹ انکے ہلنے جلنے کیوجہ سے سکڑ رہی تھی۔ وہ اسکو بے تحاشا چوم رہا تھا اور اسکے جسم کو نوچ رہا تھا۔ وہ ہلکے سے کراہتی اور مچل کر رہ جاتی۔

کچھ دیر کھیلنے کے بعد وہ اٹھا۔ چادر درست کرکے نوشی کو گود میں لیا اور بیڈ پہ چڑھ کر اوپر چادر ڈال لی اور اذیتوں کا ایک نیا باب کھول دیا۔

ذرا سی دیر بعد وہ کھڑی ازار بند باندھ رہی تھی۔

اب بتا کیوں رو رہی تھی؟؟؟

باپ کو خون کا کینسر ہے میرے۔ کچھ دن کا مہمان ہے وہ۔ اسلئے…

ارے تو مرنے دے نا اسکو۔ اپنی زندگی جی۔ ابھی تو تیری بڑی مارکیٹ ہے جانو۔ اسنے یہ کہتے ہوئے نوشی کی ران پہ ہاتھ مارا۔

وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہ گئی۔

آپ پہلے بھی کچھ خاص دیکر نہیں گئے تھے۔ آج تو دے جاؤ۔ آج تو گانا بھی نہی سنا آپ نے۔ نہ ہی ناچ دیکھا۔

وہ اسکو اٹھتا دیکھ کر یکدم لجاجت پہ اتر آئی۔

تو نے آج موڈ خراب کردیا۔ رونے لگی۔ اور سسکیاں بھی مزیدار نہیں تھیں۔ وہ منہ بنا کر بولا۔

اچھا اب نہیں رؤونگی۔ سسکیاں بھی لونگی۔ جو بولو گے کرونگی جیسے بولو گے لیٹ جاؤنگی۔ لیکن پلیز ایک پانچسو کا نوٹ دیدو۔ شاید کچھ دن میں ابا مرجائے۔ پھر مت دینا کبھی۔ اتنا کہ کر وہ سسکیوں سے رونے لگی۔

میجر دم بخود کھڑا اسکو دیکھتا رہ گیا۔ وہی نوشی جو چند پل پہلے مسکراتی بل کھاتی اسکے ساتھ ہم بستری میں شریک کار تھی اب یکدم باپ کی تکلیف کو یاد کرکے بچوں کیطرح بلک رہی تھی۔

دیدو نا صاب۔ قرض ہی دیدو۔ میں بابا کی آخری خدمت کرونگی۔ یہ سارا دھندہ ماں باپ کو پالنے کیلئے کی ہوں میں۔ سب کچھ انہی کیلئے۔

اچھا اچھا ٹسوے مت بہا۔ اسنے پانچ سوکے دو نوٹ نکالے اور اسکی گود میں رکھ دیے۔ وہ پھٹی آنکھوں سے کبھی نوٹوں کو دیکھتی کبھی میجر کو۔ پھر وہ یکدم بیڈ سے اٹھی اور اسکے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ کر چوسنے لگی۔ نجانے یہ ایک بدکار محسن کا شکرانہ تھا یا ایک طوائف کا اظہارِ تشکر۔

---***---
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
اسکے جانے کے بعد نوشی نے بستر کیطرف نگاہ کی۔ چادر شکنوں سے بھرپور تھی۔ ایک کنارے پہ گیلے پن کے اثرات تھے۔

اسنے جلدی سے شکنیں دور کیں۔ اپنا سینہ بند درست کیا پھر کپڑے سنبھال کر کمرہء ملاقات سے باہر آگئی۔

کیا ہوا رے؟؟ بہت اچھل کود کررہا تھا آج کیا تیرا یار جو رونی شکل بنی ہوئی ہے۔ میڈم نے اسکو دیکھتے ہی کہا۔

نہیں آج تو اسکی بینڈ بجائی ہے میں نے۔
آنسو تو بابا کیوجہ سے…

کیا ہوا تیرے باپ کو؟؟

میڈم خون کا کینسر۔

اوہ۔ سنا ہے علاج نہی ہوتا اسکا۔

وہی تو۔ وہ بھی اب کچھ دن کا مہمان ہے. اسی کو یاد کرکے رونے لگی تھی۔ لیکن اسنے مہلت ہی نہیں دی۔ اسی حال میں کپڑے اتارے اور شروع ہوگیا۔

چل اچھا بس کر رام کتھا اور میک اپ ٹھیک کر۔ ابھی رات پڑی ہے۔
اور وہ پھر سے میک اپ ٹھیک کرکے کسی نئے جانور کی بانہوں میں جانے اور اسکے جسم سے کھیلنے کی تیاری کرنے لگی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
[چوتھی قسط]

رات کا آخری پہر تھا۔ بازار آہستہ آہستہ خالی ہورہا تھا۔ بھیڑئیے کلیاں مسل کر نشے میں ڈولتے، گنگناتے، بڑبڑاتے اپنے اپنے ٹھکانوں کیطرف روانہ ہورہے تھے۔

نوشی تھکی ہاری سی کمرے میں ڈھیر سی بنی بیٹھی تھی۔
سر چکرا رہا تھا۔ متلی کی سی کیفیت تھی۔ اور کمر میں سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔

رات اس نے مے نوشی بھی کی تھی جسکے اثرات اسکے کپکپاتے جسم پہ محسوس کیے جاسکتے تھے۔

میڈم اپنا سامان سمیٹ کر پیسے وصول کر اپنے گھر جاچکی تھی۔

دو گلیاں چھوڑ کر چند کوٹھیاں خاندانی کنچنوں کی تھیں۔ انہی میں سے ایک میں میڈم سبینہ اپنے شوہر نما ایک زن مرید کیساتھ فروکش تھی۔ وہ اب نائیکہ ہوچکی تھی اور اپنے زیر نگیں دس لڑکیوں سے کمائی کرواتی تھی۔ رات کے آخری پہر پیسہ جمع کرکے سب میں تقسیم کرتی تھی اور گھر چلی جاتی تھی۔ اسکے جانے کے ذرا دیر بعد کوٹھا بند ہوجاتا تھا۔

آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
اور اب نوشی کو بھی گھر جانا تھا۔ اسکے جانے کے بعد ماسی اور دھوبی کو آنا تھا۔
ماسی کمرے میں بکھری ہوئی گلاب کی پتیاں، مختلف ریپر اور غلاف جو بنی نوع انسان کی کارکردگی پہ شاہد ہوتے تھے، سمیٹ کر جھاڑو دیتی تھی۔ اور دھوبی چادریں لیجاکر ظلمتِ شب کی کارروائی کے نتیجے میں چادروں کی پیشانی پہ لگے داغ دھو کر شام سے پہلے واپس لادیتا تھا۔
سفید چاندنیاں نئی ہوکر بچھ جاتی تھیں۔ اور ان پہ پرانی نوشی برہنہ رقص کو حاضر ہوجاتی تھی۔

آج رات میجر سے لئے ہوئے پیسوں سے اچھا بھلا دھندہ ہوگیا تھا۔ وہ سوچوں میں ان پیسوں کا مصرف ڈھونڈنے لگی۔ بارشوں کا موسم آنے کو ہے اور چھت میں دو سوراخ ہوگئے ہیں۔
سیلنڈر بھی بدلنا ہے۔ کبھی بھی دھماکہ ہوسکتا ہے۔ اف، غریب کی زندگی بھی نا، عذاب ہے پورا۔ وہ بڑبڑائی۔

اچانک اسکی نگاہ اپنے دائیں پاؤں کے انگوٹھے پہ پڑی۔ وہاں خون نکل کر نجانے کب جم بھی گیا تھا۔ شاید ناچتے ہوئے انگوٹھا زخمی ہوا ہو۔ وہ مسکرادی۔

اچانک دروازے پہ دستک ہوئی۔ وہ چونک اٹھی۔ اب تو وقت ختم ہوگیا ہے۔ کون کتا آگیا۔

لیکن،،،اب تو میڈم جا چکی ہے۔ رمضان اور میں ہی مل بانٹ لیں گے۔ اس نے کچھ سوچا اور پھر جھروکے سے باہر جھانکا۔

ایک تقریباً تیس سالہ جوان سا مرد رمضان سے کچھ کہ رہا تھا۔ اور وہ نفی میں سر ہلا رہا تھا۔شاید وہ اسکو میڈم کے جانے کا کہ رہا تھا جسکے بنا دھندہ کرنا منع تھا۔

حد ہے۔ اس منحوس کو یہی وقت ملا ہے۔ سب لوگ مزے کرکے واپس جارہے ہیں اور اسکو آگ لگی ہے میرے جسم سے کھیلنے کی۔ چلو اسکو بھی اچھے سے لوٹے گا رمضان چاچا۔ یہ سوچ کر وہ مسکرا دی۔

بالآخر جوان کے نوٹ دکھانے پہ رمضان مان ہی گیا۔

دیکھو بابو۔ آپ ایکسٹرا دے رہے ہو تو گنجائش نکال رہا ہوں لیکن میڈم کو پتہ چل گیا تو مجھے نکال دے گی۔ رمضان نے اس سے رازداری سے کہا۔

چاچا تم فکر ہی مت کرو۔ کچھ نہیں ہوگا۔ جوان مطمئن تھا۔

ٹھیک ہے جاؤ اندر۔

بے بی منتظر ہے تمہاری۔ رمضان نے مسکرا کر آنکھ ماری۔

---***---
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
نوشی نے جلدی سے میک اپ باکس نکالا۔ لپ اسٹک اور فیس پاؤڈر سے چہرہ ٹھیک کیا۔
اجنبی کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈ پر بے باکانہ انداز میں ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اسکو اچانک آنے والا شخص جانا پہچانا سا لگا۔ جیسے اسنے کبھی اس سے بات کی ہو،، یا کبھی اس کوٹھے کے علاوہ اس سے ملی ہو۔

وہ درمیانے قد کا لمبی ناک اور چوڑی پیشانی والا شخص تھا۔ اسکی آنکھیں بھوری اور بھنوئیں ملی ہوئی تھیں۔ عمر تیس کے آس پاس ہوگی۔ کلین شیو اور کریم کلر کے قمیص شلوار میں ملبوس تھا۔

اس شخص نے بھی نوشین کو غور سے دیکھا۔ پھر یکدم اچھلا۔
اسکی آنکھوں میں غم اور حیرت کے ملے جلے اثرات واضح نظر آئے۔

نو۔۔۔نو۔۔۔ نوشین۔۔۔۔ تممم۔۔۔۔ تم ہی ہو نا؟؟؟؟ وہ بے یقینی کی کیفیت میں بولا۔

کیا ہوا میاں؟؟ کون نوشین؟؟؟ اسنے طنزیہ انداز میں کہنا چاہا۔ لیکن اسکی آواز ایسے نکلی جیسے وہ کنوئیں میں کھڑی ہو۔

سچ بتاؤ تم ہی نوشین ہو نا؟؟؟؟ وہ بےتابانہ انداز میں پوچھ رہا تھا۔

تم مجھے کیسے جانتے ہو؟؟؟ اسنے دبی آواز میں کہا۔

اسکا مطلب مجھے جو اسکی آنکھوں میں شناسائی نظر آئی تھی وہ ٹھیک تھی۔ نوشی نے سوچا۔

تم نوشین ہی ہو نا؟؟؟سلطان مارکیٹ میں رہتے تھے نا تم لوگ؟؟؟

ہاں۔۔ لیکن تم کیسے جانتے ہو؟؟؟اسنے پرانے محلے کا نام سن کر نوجوان کو غور سے دیکھا۔

میں۔۔۔ میں سائرہ کا بھائی ہوں… تم اسکی سہیلی تھیں نا...

ہاں وہی ہوں میں... وہ اداس لہجے میں بولی۔

لیکن یہ سب۔۔۔ یہ سب کیا ہے نوشین؟؟؟ تم ادھر؟؟؟

بسسس۔چپ ہوجاؤ۔ مجھے چھوڑ دو۔ مرگئی وہ نوشین... اور پیٹ بازار میں لاتا ہے...لوگ ایمان بیچ رہے ہیں،،، انصاف ایمان سب بک رہا ہے تو جسم کیوں نہیں بک سکتا؟؟؟
وہ چیخ اٹھی۔

لیکن تمہاری تو منگنی ہوگئی تھی۔۔۔مجھے بتاؤ تو سہی۔ نوجوان نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا۔ وہ مسلسل کانپ رہی تھی۔

ڈرو مت نوشین۔ تمہیں کچھ نہی ہوگا۔

نہیں۔ تم چلے جاؤ یہاں سے۔ جو کرنا ہے کرو میرے ساتھ۔ مجھے پیسے دو اور میرا جسم تمہارا ہوا. اس سے کھیلو۔ اسے تکلیف دو۔ نوچو۔ بس پیسہ دو مجھے۔ میرا بابا کینسر سے مرنے والا ہے۔اسکے لٰئے پیسے دیدو۔ اسکیرات والی کیسٹ دوبارہ چلنے لگی۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
کیا؟؟؟انکل کو کینسر؟؟؟ کہاں ہیں وہ؟؟؟ پلیز بتاؤ نا۔۔۔ میں تمہیں کچھ نہیں کرونگا۔۔ پیسے بھی دونگا۔۔۔ تم بتاؤ تو سہی۔۔۔

نہیں بس تم چپ چاپ کام کرو۔ اور پیسےدیکر جاؤ۔ لاؤ ہاتھ دو۔ نوشی نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اپنے پیٹ سے مسلنے لگی۔

کرو نا۔۔۔ مسلو۔۔اچھا ہے نا۔۔۔ اسنے اسکا دوسرا ہاتھ پکڑا اور اسکو اپنی طرف گھسیٹا۔

نوجوان نے جلدی سے ہاتھ چھڑایا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔

جلدی کرو نا۔ مجھ میں کیا کمی ہے؟؟؟ دیکھو مجھے ناچنا بھی آتا ہے۔
وہ زبردستی تھرکنے کی کوشش کرنے لگی۔

دیکو میں پیاری ہوں نا۔ اچھا لو۔یہ دیکھو۔ یہ کہ کر وہ کرتی اتارنے لگی۔

اررے ارے۔۔ پاگل ہوگئی ہو کیا تممم؟؟؟ نوجوان اس پہ تیزی سے جھپٹا اور اسکو بازؤوں سے پکڑ لیا۔

چھوڑو۔۔۔ چھوڑو مجھے۔ دیکھو کپڑے تو اتارنے دو۔ پھٹ جائیں گے۔ پلیز رکو تو۔

وہ گویا مدہوشی کے عالم میں کسی بچے کی طرح مچل رہی تھی۔

چپ ہوجاؤ۔ ورنہ مجھے زبردستی کرنی پڑے گی۔ بالکل خاموش!! وہ چنگھاڑا۔

نوشی اسکی آواز سن کر ایکدم سہم گئی۔

کیا چاہتے ہو تم؟؟؟

مجھے بتاؤ کیا ہوا تھا؟؟؟ تم اتنی گندی جگہ میں کیسے آگئیں؟؟؟
میں تمہاری مدد کرونگا نوشین۔ اسنے اسکا ہاتھ پکڑا اور دوبارہ اپنے پاس بٹھا لیا۔

تم۔۔۔ تم بہت دیر سے آئے ہو۔۔۔ کیا نام تھا تمہارا؟؟؟

فراز۔

ہاں تو فراز۔۔اب بہت دیر ہوگئی ہے۔۔

ایک قبر ہوں میں۔ کیوں کھولنا چاہتے ہو مجھے تممم۔ دوبارہ زندہ کرکے پھر ماردو گے نا۔

مجھے بتاؤ تو سہی ہوا کیا تھا؟؟؟ وہ اپنی بات پہ اڑا ہوا تھا۔

لیکن میں اسوقت نہیں بتا سکتی میں نشے میں ہوں۔

ایسا کرو اگلی رات تم مجھے بک کرلو۔ تین ہزار تم دیدینا۔باقی میں میڈم سے بات کرلو نگی

میں تمہیں گھر ڈراپ کردوں؟؟؟​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
نہیں میں چلی جاؤنگی۔وہ رمضان ہے نا.. وہ دیکھ لے گا حرامزادہ۔ تم جاؤ،، پریشان مت ہو ہم رات کو ملیں گے۔

ٹھیک ہے ویسے میں فیروز کالونی میں رہتا ہوں۔ یہ کارڈہے میرا.

اسنے ایک خوبصورت سا کارڈ اسکو تھمادیا۔ ہممم... "شیخ فیبرکس". یہ تو وہی دکان ہے نا۔

ہاں تمہیں یاد ہے دیکھو۔ تمہی تو ہر دوسرے دن اجاتی تھیں کوئی تکیہ یا بھالو لینے۔ یا کچھ چینج کرانے۔ یاد ہے نا؟؟؟

جواب میں نوشی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔وہ چپ رونے کی بڑی ماہر تھی۔ آنکھیِ پٹ پٹا کر سامنے والے شخص کو گھورتی تھی اور روتی رہتی تھی۔

اب بس کرو۔۔۔ چپ ہوجاؤ۔۔۔ اور گھر جاؤ۔یہ رکھ لو انکل کیلئے۔ اسنے ہزار ہزار کے دو نوٹ نکال کر اسکے ہاتھ پر رکھ دئیے۔۔

نہیں فراز،،، یہ تم رکھ لو واپس۔اسنے ہاتھ کھینچا۔

نوشین رکھ لو۔۔ ابھی ابھی ضد کرنا نہیں چھوڑا نا تم نے۔ وہ مسکرایا۔

فراز تم آؤ گے نا رات کو... آجانا تم... فراز... اسنے جاتے ہوئےفراز کو پیچھے سے بازو پکڑ کر روک لیا۔

ہاں ہاں آؤنگا۔ تم تسلی سے گھر جاؤ۔۔۔ اسنے محبت سے اسکا آنچل اسکے سر پہ رکھا اور باہر نکل گیا۔

اسکے جانے کے بعد وہ کافی دیر سوچوں میں گم بیٹھی رہی....

کیا فائدہ اب کسی کو بتانے سے،، جب بابا کی نوکری چھوٹی تھی تب فراز کہاں تھا... جب امی گھروں میں کام کرتی تھیں تب کہاں تھا...

میں،، میں کیا تھی...نجانے کیا تھی میں... وہ بے خیالی میں اپنا جسم ٹٹولنے لگی۔

میں نوشی ہوں...وہ نوشین مرگئی اب... میں نئی والی نوشی ہوں... جسم فروش...وہ بڑ بڑاتی ہوئی اٹھی۔

شاپر میں سے عبایا نکال کر رکھا۔ الماری میں سے گھر کے کپڑے نکال کر ریشمی لہنگا اور کرتی اتارا اور گھر کے کپڑے پہنے۔

عبایا اوڑھ کر وہ جلدی سے باہر نکل آئی۔

ابھی فجر کا اندھیرا غائب نہیں ہوا تھا۔

وہ تیز قدم اٹھاتی تنگ گلی سے نکل کر بابا غازی کے مزار کی جانب آئی۔

مزار کیطرف رخ کرکےسلام کیا اور اسی رو میں سڑک کی جناب چل دی۔

زرا فاصلے پہ جاکر وہ سڑک کراس کرنے کیلئے آگے بڑھی ہی تھی کہ ایک سفید کار آکر اسکے برابر میں رکی۔ کار کی لائٹیں روشن تھیں اور اسمیں سےکسی نے اسکا نام لیکر آواز دی تھی۔

(جاری ہے۔)​
 

Top