Adultery شومئ قسمت (Completed)

.
Moderator
2,376
1,840
143
اچانک وہ کال کاٹ کر مڑا۔

چلو نوشین.!! ہوٹل تو بک ہے۔ میڈم سے بات کرلیتا ہوں تمہاری۔

کال پہ بات کرتی ہے وہ۔ رمضان کروادیگا بات۔ وہ اپنی جگہ بیٹھی تھی۔
ذہن میں بڑا سا موبائل گھوم رہا تھا اور یہ سوچ کہ میڈم مانے گی نہیں۔

پچھلے دنوں ہی ایک طوائف کو اسی طرح کوئی لے گیا تھا اور پھر اسکے فرارکی اطلاع ملی تھی۔

وہ الگ بات تھی کہ کچھ دن بعد اسکی لاش ایک ندی کنارے بہتی پائی گئی تھی۔

کیا سوچ رہی ہو؟؟؟ چلو بھی اب۔ اٹھو۔

فراز نے اسکو کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا تب اسکو کچھ احساس ہوا۔

کیا ہوا؟؟؟بات کرو نامیڈم سے۔ وہ بوکھلائے لہجے میں بولی۔

بات کرلی ہے میں نے۔ اب اٹھو اور کوئی اچھا سا جوڑا نہیں ہے کیا؟؟؟ وہ پہن لو۔ اورچلو۔

اچھا۔ وہ گم صم سی اٹھی۔ ایکطرف ایک خوشی سی تھی کہ آج کسی طرح کی اخلاقی گراوٹ کا ڈر نہیں تھا اور دوسری طرف فراز سے ملنے کی بھی یک گونہ خوشی سی تھی۔

سچ کہا ہے کسی نے کہ عورت چاہے جس عمر میں بھی ہو اسکے اندر چاہنے اور چاہے جانے کے جذبات کا تلاطم کسی نہ کسی صورت جوش مارتا ضرور ہے۔

وہ چپ چاپ اٹھی۔ الماری کھول کرکپڑے نکالے اور اندر کیطرف بڑھی۔

ارے کہاں چلیں۔ فراز نے یکدم اسکا بازو پکڑ لیا۔

تم ہی نے تو کہا کپڑے بدلو۔

ہاں تو بدلو نا…تت تو کیا یہیں بدل لوں؟؟؟ وہ ہکلائی۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
ہاں تو اب پردہ کرنے لگ جانا۔ وہ شرارت سے مسکرایا۔

اچھا لو۔ جاگ گئی نا مردانگی۔اس نے گلے سے دوپٹہ ایکطرف اچھالا اور کرتی کی آستین نکالنے لگی۔

اسی دم فراز نے آستین پکڑ کر اسکو روک دیا۔

ارے ارے بس۔ مذاق کررہا تھا۔ جاؤ اندر جاکر بدلو۔

نہیں نا دیکھ لو۔ ساری رات انٹرویو ہی تو نہیں کروگے نا۔ اب پانچ چھ ہزار لگا کر ایک بازاری عورت سے اسکے حالات ہی تو نہیں پوچھے جاتے۔ وہ طنز میں مسکرائی۔

ہاں رات بھر جو ہونا ہے وہ تو ہوٹل میں ہونا ہے نا۔ یہاں دیکھ بھال کر کیا کرنا۔ فراز یکدم قہقہہ مار کر ہنسا۔

اچھا اب جلدی کرو دیر ہورہی ہے۔

وہ جلدی سے منہ دھو کر باہر نکلی۔ کپڑے بدل کر نئے کپڑے پہنے۔ گہرے گیروے رنگ کی قمیص، چوڑی دار پاجامہ اور اسی رنگ کا ریشمی دوپٹہ۔ اسکے کھلتے ہوئے رنگ پہ گہرے رنگ کے لباس بہت اچھے لگتے تھے۔

وہ فراز کو دیکھ کر لٹ چہرے پہ ڈال کر شانِ بے نیازی سے مسکرائی۔

اور فراز کو ایسا لگا جیسے اس پہ بجلیاں سی گرگئی ہوں۔

اسنے سینکڑوں لمس کا لطف لیا تھا۔ دبئی میں ہر قسم کی لڑکی اسکے پہلو سے گزری تھی۔ فرنگی۔ ایشیائی۔ ہندوستانی۔ لیکن آج اسے ایسا لگا تھا گویا وہ آج پہلی باد کسی عورت کیساتھ کہیں جارہا تھا۔

امی شادی شادی کی تکرار کرکے اس پہ اثر انداز،نہیں ہوسکی تھیں لیکن نوشین کی چند لمحوں کی قربت اسکے دل پہ ایک گھاؤ سا لگا گئی تھی۔

وہ چپ چاپ مکان سے باہر نکلا۔ نوشی بھی اسکے پیچھے پیچھے نکلی۔

آج وہ کئی مہینوں بعد اسوقت مکان سے باہر گلی میں نکلی تھی۔

جب وہ یہاں آتی تھی تو مغرب کے فوراً بعد ملگجا اندھیرا ہوتا تھا۔

گلی سنسان ہی پڑی ہوتی تھی۔ بس اکا دکا لوگوں کی چلت پھرت ہوتی تھی۔ دو قدم چل کر ہی اسکو یوں لگا جیسے وہ انسانوں کے سمندر میں قدم رکھنے والی ہے۔
بے انتہا رش کا ماحول۔ لوگ ایک دوسرے کیطرف دیکھے بنا اپنے اپنے کام سے ادھر سے ادھر ہورہے تھے۔گماشتے کھولیوں کے باہر ٹہلتے فقرے کس رہے تھے۔

وہ دونوں ابھی گلی کے کونے پہ پہنچے ہی تھے کہ ایک لمبا چوڑا سا آدمی گلی میں داخل ہوا۔ نوشی اسکو دیکھتے ہی جیسے پگھل سی گئی۔ اسکو ایسا محسوس ہوا جیسے اسکو خون نچڑ گیا ہے۔ یا روح بس دو آنکھوں میں سمٹ آئی ہے۔ اسنے گھبرا کر آگے چلتے ہوئے فرازکا ہاتھ پکڑ لیا۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
کک کیا ہوا؟؟؟ وہ بھی ایکدم بوکھلا گیا۔

وہ چپ چاپ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو خوفزدہ نگاہوں سے گھورنے لگی۔
ارے کیا ہوا چلتی رہو نا۔۔ رش میں دھکے لگ رہے ہیں،، اففف چلو بھی اب۔ وہ لڑکھڑا کر الجھنے کے سے انداز میں بولا۔ لیکن نوشین کی تو جان ہی نکل گئی تھی۔ اسکو ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی گلی میں گھسنے والا شخص بھیڑ کے بیچ میں سے اسکو اٹھا کر بغل میں دبائے گا اور کہیں لیجا کر ذبح کردے گا۔

وہ وہی میجر تھا جو اسکو پہچان نہیں پایا تھا۔ وگرنہ اسکے چہرے کے تاثرات ضرور بدل جانے تھے۔ لیکن میجر اس سے بے پرواہ تھا اور رش میں پھنسا ہوا آہستہ آہستہ سرک رہا تھا۔ نوشین نے منہ پہ اوڑھا ہوا دوپٹے کا آنچل اور کس لیا۔
وہ چپ چاپ آگے بڑھتی رہی۔ میجر ادھر ادھر نگاہ دوڑاتا اسکے بالکل قریب سے گزرگیا۔ اسکا ایک لمحے کو سانس اٹکا اور بحال ہوگیا۔
گلی سے نکل کر وہ گاڑی کیطرف آئے۔

تمہیں گلی کے بیچ وبیچ اچانک کیا ہوگیا تھا؟؟؟ فراز اب بھی اسکی جسمانی کپکپاہٹ سے حیران تھا۔

ممم مجھے کچھ… کچھ نہیں ہوا تھا۔

بتاؤ کیا ہوا تھا۔ میں کچھ بھی نہیں کہونگا۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اسکو دیکھےبنا بولا۔

ارے کیا بتاؤں ، ایک بندہ ہے۔ اکثر آتا جاتا رہتا ہے۔ وہ نظر آگیا تھا۔ اسکو دیکھ کر ڈرگئی تھی بس۔

کیوں؟؟ مجھے بھی تو حق ہے نا مکمل۔ وہ بھی گاہک اور میں بھی۔

ہاں لیکن بس ویسے ہی۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ مجھے لے نہ جائے واپس۔ فوجی ہے وہ۔ وہ اب بھی ہلکے کپکپا رہی تھی۔

اوہ۔ اچھا اور میں جیسے پرچون کی دکان کا چھوٹا ہوں۔ وہ یکدم چڑ گیا۔

ارے نہیں نا۔ وہ بہت بے شرم انسان ہے۔ اسنے مجھے ایک دو دفعہ مارا بھی تھا۔

بہر حال ابھی تو وہ گیا نا۔ اب ریلیکس رہو۔ اچھا رکو ایک منٹ۔

وہ ایک دکان کے آگے رکا اور دو جوس لے آیا۔

یہ لو۔ اسنے جوس اسکی طرف بڑھایا۔ چند لمحوں بعد گاڑی ایک بڑی سی عمارت کے ایکطرف رکی۔

باوردی اہلکار نے انکا استقبال کیا اور فراز نے گاڑی ایکطرف بنے خوبصورت اسٹینڈ پہ پارک کردی۔

وہ جیسے ہی گاڑی سے اتری تو اسکو ایسا لگا جیسے وہ خواب دیکھ رہی ہو۔ اسنے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل پہنچ جائے گی۔

اسکے خواب بھی دو وقت بنا محنت کی روٹی تک محدود ہوتے تھے۔

کیا ہوا نوشین۔ چلو نا آگے۔ جم گئیں کیا؟؟؟ فراز نے ہنستے ہوئے اسکو کہنی ماری اور وہ شرمندہ سی آگے بڑھ گئی۔

نہیں میں اس مورت کو دیکھنے لگی تھی۔ اسنے ایک جانب بنے فوارے پہ لگے مجسمے کیطرف اشارہ کیا۔

مورت؟؟؟ وہ کیا ہوتا ہے؟؟؟ اچھا وہ۔۔ وہ مورت ہے۔ اچھا اچھا۔ وہ اور زور سے ہنسا۔

آپ یہاں مورت نہ دیکھئیے نا۔ ہمیں دیکھئیے۔ باخدا قیامت کا سماں ہوتا ہے جب تم ناز سے آنکھ دبا کر دیکھتی ہو۔ وہ اندازِ دلربائی سے اسکاہاتھ دبا کر بولا۔

ہاں اور میں کرایے کے کپڑے پہن کر ایکدم مست ناچ دکھاتی ہوئی بالکل جنگلی مورنی لگتی ہوں۔ وہ جل کر بولی۔

افف۔ اچھا چھوڑو۔ رکو ذرا میں آیا​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
وہ جلدی سے اسکا ہاتھ چھوڑ کر آگے بڑھا۔ اور ریسپیشن پہ کچھ کھسر پھسر کرنے لگا۔

نوشین نے آس پاس نگاہ ڈالی۔ سارا ماحول ایک دھیمی روشنی اور ٹھنڈک میں بسا ہوا تھا۔ چمکیلا فرش ، خوبصورت لائیٹنگ. دیواروں پہ دلفریب پینٹنگز ، چھت سے لٹکتے فانوس۔ اور بہت سی ایسی چیزیں جو وہ اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھ رہی تھی۔

اگر چہ وہ لوگ بھی امیر رہ چکے تھے۔لیکن اس معیار کا ہوٹل اسنے پہلی ہی بار دیکھا تھا۔

وہ ترچھی ترچھی نگاہوں سے ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگی۔
اتنے میں فراز آگیا۔ اب چلو۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر ایکطرف کو بڑھا اور لفٹ میں سوار ہوگیا۔

نوشین تم کچھ بول کیوں نہیں رہیں؟؟؟

ایک دو دفعہ مذاق کیا کرلیا تم چپ ہی ہوگئیں۔ میں تو سکون کیلئے یہاں لایا ہوں نا۔ پریشان مت ہو۔ وہ اسکو عجیب پریشان سی کیفیت کا شکار دیکھ کر تسلی دینے لگا۔

یار فراز میرا تو دل چاہ رہا ہے اسی لفٹ میں کرسی ڈال کر بیٹھ جاؤں۔ کتنی اچھی ہے نا یہ۔ وہ یہ کہ کر لفٹ کی دیوار کو چھونے لگی۔

ھاھاھاھا۔ واقعی یہ بہت اچھی ہے۔ لیکن ہوٹل کا کمرہ اس سے بھی اچھا ہے۔ اسلئے تم وہاں کرسی ڈال لینا۔ وہ لفٹ کا دروازہ کھول لر باہر نکلا اور اسکو لیکر مطلوبہ کمرے کی جانب بڑھا۔

واااااہ۔ یہ کمرہ کتنا پیارا ہے۔ لائٹ جلتے ہی اسکے منہ سے بے اختیار نکلا۔ کتنا کرایہ ہے اسکا؟؟؟ وہ پلکیں جھپکائے بنا ایک ایک چیز کو آہستگی سے چھو رہی تھی۔

ہممم۔بیٹھو۔
اور تھوڑا سکون سے بتاؤ اب۔

وہ بیڈ پر بیٹھی اورفرازاسکے سامنے کرسی لیکر بیٹھ گیا۔

اصل میں میں کالج کے بعد یونیورسٹی جانا چاہتی تھی۔ اور ہمارے حالات بھی اس قابل تھے۔ پاپا کی اچھی جاب تھی۔ لیکن وہ ایک فراڈ کیس میں الجھ گئے تھے۔
کسی کلرک نے بوگس فائل بنا کر پیسوں کا غبن کیا تھا۔ لیکن پاپا کو اسمیں پھنسا دیا گیا اور نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ انہوں نے عدالت میں کیس کیا۔ لیکن وہاں سے بھی کوئی خاطر جواب نہیں مل رہا تھا۔

پھر قرضہ بھی چڑھ گیا تھا۔ تو یونیورسٹی کا خیال بھی پر لگا کر اڑ گیا اور کھانے پینے کے لالے پڑگئے۔

جب تک فیصلہ ہوا ہماری حالت کافی خراب تھی۔ پولیس تنگ کرنے لگی تھی۔ اور ہم کرائے کے مکان سے نکل کر اس جگہ آ پہنچے۔

ایک دن پاپا کو پولیس والے اٹھا کر لے گئے۔ ہم نے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔بہت کوششیں کیں لیکن کچھ بھی پتہ نہیں چلا۔

بالآخر تھک کر بیٹھ گئے۔ ممی پچھلے حالات سے بلڈ پریشر کی مریض ہوگئی تھیں۔ بس ہر وقت روتی تھیں۔ اب پاپا کی اسطرح گمشدگی تو برداشت سے ہی باہر تھی۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ دنیا اتنی اندھیر کیوں ہوگئی ہے۔ یا ہم اس دنیا پہ کسی اور دنیا سے گرگئے ہیں۔

نہ کوئی اپنا ساتھ دینے کو تیار تھا نہ کوئی غیر اپنا رہا تھا۔ ہم ماں بیٹی چپ چاپ گھر میں دو دن پڑے رہے۔ پھر اماں کو بمشکل بہلا سنا کر تیار کیا اور انہوں نے ایک کوٹھی میں کام کرنا شروع کردیا۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
(ساتویں قسط)

اماں شام کو کام سے واپس آتی تھیں اور میں گھر پہ اکیلی رہتی تھی۔
ایکدن ابا کے ایک دوست ملنے آئے۔ میں گھر پہ اکیلی تھی۔ انہیں ہمارے ان حالات کا بہت افسوس ہوا۔
انہوں نے مجھے کچھ پیسے دیئے اور کام دلوانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب شام کو اماں گھر پر آئی تو میں نے ان کو اس بارے میں بتایا۔
اگلے دن وہ صاحب شام کو ہمارے گھر آئے۔
انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے ایک فیکٹری میں نوکری دلوادیں گے۔ کوئی گارمنٹس فیکٹری تھی جس میں میں نے اگلے دو دن بعد کام کرنا شروع کردیا۔ ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی مل گئی۔
ہم نے راشن سبزی والے کا قرض ادا کیا اور جو تھوڑی بہت رقم بچی وہ گھر میں رکھ لی۔
ہم خوش تھے کہ شاید حالات تبدیل ہونے کی نوید سن چکے ہیں۔ ان صاحب کی شکل میں ہمیں روشنی کی کرن نظر آئی تھی۔
ابا کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔
پتا چل بھی جاتا تو کونسا ہم انہیں قانون سے چھڑوا لیتے۔ روٹی مل گئی تھی اس پر خدا کا شکر ادا کیا۔ اور گزر بسر اچھی ہونے لگی...​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
میں نے ماں کو کام سے روک دیا اور اب میں صبح جا کر شام کو گھر لوٹنے لگی۔

ایک دن فیکٹری کے مالک نے مجھ سے کہا کہ تمہاری آواز بہت اچھی ہے اگر تم سنگر بننا چاھو تو ہماری کلائنٹ لڑکیوں کو سنگنگ کی تربیت دیتی ہیں۔
میں نے تو صاف انکار کردیا۔
میں نے ان سے کہا کہ میں فیکٹری میں کام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرنا چاہتی پہلے تو انہوں نے سمجھایا پھر دھمکی پر اتر آئے۔

وہ چاہتے تھے کہ میں گانا گاؤں۔ لیکن میں نے انکار کردیا تو انہوں نے ایک لسٹ اٹھا کر میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ یہ یہ اخراجات میں نے تم لوگوں پہ کیے ہیں، انکے پیسہ ادا کرو۔

اور جو تنخواہ ایڈوانس دی گئی تھی وہ واپس کرنی ہوگی۔ کیونکہ وہ میری جیب سے دی گئی تھی۔
میرے تو ہوش اڑ گئے۔ پیسے اگرچہ 10000 ہی تھے، لیکن ھم کوڑی کوڑی کو محتاج تھے اور فی الفور رقم ادا نہیں کرسکتے تھے۔

مجبور ہوکر میں نے سوچا کہ چلو گانا ہی تو ہے۔ اور کونسا کوئی گرا پڑا کام ہے۔ میں فلمی سنگر بن جاؤنگی۔
ذہن گلوکاروں کیطرف گیا اور میں نے انکی بات مان کر حامی بھر لی۔

اور ایک لڑکی کے ساتھ میڈم کے گھر گئی۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ بہت اچھے طریقے سے ملی اور ایک ٹیچر پوائنٹ کر دیا۔

میں بہت حیران تھی کہ وہ مجھے فری میں گانا گانے کی ٹیپس دینے لگا۔آہستہ آہستہ ہلکے پھلکے ریاض اور راگوں سے شروع کر کے اس نے مجھے مشکل راگ گانا سکھایا۔ اس دوران مجھے فیکٹری سے چھٹی ملی اور میں دن بھر میڈم کے گھر رہنے لگی۔
مہینے کے آخر میں ایک اور تنخواہ ایڈوانس مل گئی اور اس دوران میں نے دو محفلوں میں گانا بھی گایا اس کے بعد کسی اور طریقے سے میڈم نے مجھے ناچ پر ابھارا اور میں اس کی چکنی چپڑی باتوں میں الجھ کر ناچنے پر آمادہ ہوگئی۔

تو تم فیکٹری میں کام نہیں کرتی تھیں؟؟؟؟ فراز نے کافی دیر طعد لب ہلائے۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
فیکٹری تو بس ایک بہانہ تھی مجھے گندگی کے دلدل میں پھنسانے کا،، وہ شخص جو ہم سے ملنے آیا تھا وہ بھی ایک ہرکارہ تھا۔
فیکٹری کا مالک دوسرا ہرکارہ تھا۔ جبکہ اصل میڈم تھی۔
وہ سب کو برابر کا حصہ دے رہی تھی۔ ناچ سیکھنے کے بعد مجھے فیکٹری سے نکال دیا گیا۔
اور اس کے بعد مختلف طریقوں سے بلیک میل کر کے وڈیوز بنا کر اور فحش تصویریں لے کر بالآخر مجھے درد کے بستر پر گھسیٹ ہی دیا گیا۔ اور میں نے ہزار اندیشوں کروڑ سسکیوں اور آہوں کے بیچ اپنا جسم بیچ ڈالا۔

تمہارا دل اس سے متنفر نہ ہوا؟؟؟؟ فراز نے سوال کیا.

کیوں نہیں، لیکن یہ ماحول ایسا ہے کہ جب کسی نہ کسی طرح کوئی آدمی یہاں قدم رکھ لیتا ہے تو پھر وہ اس کے بغیر کمی سے محسوس کرتا ہے۔

اچھا تم نے کچھ راگ بھی سیکھے ہیں؟؟

صرف ایک راگ جس کا کوئی نام نہیں ہے. اور وہ اصلی راگ گانے والیاں تو مر کھپ گئیں۔

میڈم نے تمہیں کیا دیا؟؟؟؟

مجھے اور میری ماں کو کپڑا روٹی۔

تم نے اس کو کیا دیا؟؟؟

میں نے اور نیلم نے اس کو ایک سال میں ایک بلڈنگ خریدوا دی۔

نیلم کون ہے؟؟
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
میری ہی طرح کی کہانی ہے اسکی۔ اسی بازار میں ہے۔

تمہارے ابا کیسے واپس آئے؟؟

بس ایک دن ہم رات کو سو رہے تھے کہ ایک گاڑی آ کر رکی۔ انکو گھر کے دروازے پر چھوڑ کر غائب ہو گئی۔ ابا کی حالت خراب تھی۔

تقریبا ڈیڑھ ماہ سے ایک ہی جوڑے میں رہ رہ کر وہ پاگل سے ہوگئے تھے۔ انہیں کئی بیماریاں ہو گئی تھیں۔
میں نے قرضہ لے کر ان کا علاج کرایا۔ اس کے بعد وہ بالکل گھر کے ہو کر رہ گئے اور آہستہ آہستہ مزید بیماریوں میں گھرتے چلے گئے اور کچھ دن پہلے پتہ چلا ہے خون کا کینسر ھے انکو۔

اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے جنہیں وہ ہتھیلیوں سے صاف کرنے لگی۔ خیر کوئی بات نہیں غریب کو مر جانا چاہیے ورنہ اسکی بیٹی کو جسم فروشی کرنی پڑتی ہے۔

فراز گم سم بیٹھا اس کی باتیں سن رہا تھا۔ جیسے اسکے بدن میں روح ہی نہ ہو۔

اب تو خدا کے فضل سے اچھے دن گزر رہے ہیں۔

خدا کا فضل؟؟؟

تو آپ کو اس پر تعجب ہے؟؟

خدا کا فضل نہ ہو تو ہمارے لئے کوئی ٹھکانا نہیں...

ہر کوئی طوائف پکارتا ہے حیوان سمجھ کر دھتکارتا ہے۔ ہماری عزت کے محبت صرف بستر تک ہے اس کے علاوہ کوئی عزت نہیں۔

تو تم چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟؟؟

ہم تیار ہیں لیکن جائیں کہاں؟؟
اور قبولے کون؟؟
لوگ کھیلتے ہیں بیاہتے نہیں۔ کئی دفعہ قانونی لوگوں نے کوٹھے اٹھانے پر شور کیا ہے لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے۔ جواٹھانے والے ہیں وہ راتوں کو چوری چھپے آتے ہیں۔ جو شور مچاتے ہیں وہ اس لئے کہ انگور کھٹے ہیں۔

پھر بھی تم بیاہ کر لو بیاہ کیوں نہیں کرتیں؟؟

مجھ سے ، میرے جسم سے تو بیاہ کرنے والے کئی ہیں۔ نہ بھی ہو تو پیدا ہوسکتے ہیں، لیکن میرے بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔ مجھے اس میجر کی آنکھوں میں بھی بیاہ کی چاہت نظر آئی تھی لیکن میرے بیمار باپ کا سنتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ لات مارنے کے چکروں میں ہے۔ آخری الفاظ کہتے ہوئے اس نے ایک زور کا قہقہہ لگایا۔
 

Top