Adultery شومئ قسمت (Completed)

.
Moderator
2,376
1,840
143
بہرحال میں تمہیں افسردہ نہیں کرنا چاہتا نوشین۔ اسنے نوشی کا ہاتھ دھیرے سے اپنے ہاتھ میں لیا اور دھیرے سے بولا: نوشین تمہارے درد کے دن ختم ہونے والے ہیں۔

کیوں کیا تمہارے ہتھیار کو زنگ لگ گیا ہے؟؟؟؟ وہ بیڈ پر نیم دراز ہو کر طنزیہ انداز میں ہنسی۔

ایسا بھی نہیں ہے۔ حالات کے درد کی بات کر رہا ہوں۔ جسمانی درد تو ہر ایک کو لگا ہوتا ہے۔

وہ کیوں کر ختم ہونے لگا۔

واہ واہ تم تو مکمل مرد لگ رہے ہو بھئی۔ ہم تو مذاق ہی سمجھے تھے۔

کیوں؟؟؟ میں شکل صورت سے انار کلی لگتا ہوں کیا؟؟؟؟ وہ بھنا کر بولا۔

ارے نہیں۔ تم تو گلاب لگتے ہو میاں۔

یہ کہ کر وہ آگے بڑھی اور فراز کے گلے میں بانہیں ڈال کر بیڈ سے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔

مجھے یہ سب کھیل لگتا ہے فراز…

کوئی بدن چوم لے… کوئی گود میں بٹھائے… بدن سے کھیلے…مزے لے… درد دے… چٹکیاں نوچے… فحش کاری کرے یا جو دل میں آئے…ہم پر اب کچھ اثر نہیں ہوتا۔ آپ بھی لطف فرما سکتے ہیں۔

ترس تو آتا ہے لیکن کیا کروں اتنی پیاری ہو تم کہ کیا کہاجائے۔
بندہ اپنا کنٹرول کھو دیتا ہے یہ کہتے ہوئے اس نے اس کے گلے کا بوسہ لیا اور کرسی سے اٹھ کر اس کے برابر میں جا کر بیٹھ گیا…

اتنا سلو کیوں کر رہے ہو جلدی کرو نا…

وہ بالآخر اسکی سست روی اور شرم کو دیکھ کر بے قرار ہو گئی۔

تمہارے احترام میں کچھ کر نہیں پا رہا۔

یہ کہتے ہوئے فراز نے محسوس کیا کہ اسکی آواز لرز رہی ہے۔ اور اسکی ٹانگیں ہلکے ہلکے کانپ رہی ہیں۔ اسکو ایسا لگا جیسے وہ چھوٹا سا بچہ ہو۔

اچھا تو سائیڈ پر رکھو شرم و حیا اور اس فضول قسم کے تھکے ہوئے احترام کو…

ڈانس دیکھو گے میرا؟؟؟

اچھا دیکھو۔ وہ اٹھی اور بیڈ کے سامنے تھرکنے لگی۔ اس کے بعد اس نے ناز سے آگے بڑھ کر فراز کے کوٹ کے بٹن کھولے کوٹ اتار کر سائیڈ پر رکھا۔ اسکے بعد شرٹ اور ٹائی اتاری۔ رفتہ رفتہ اختصار ملبوس کا سلسلہ دراز ہوا۔

پیار کے رنگوں کی ملاوٹ کا یہ شاذ قانون محبت کے ان گنت سایوں میں پروان چڑھنے لگا۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
پیار کے رنگوں کی ملاوٹ کا یہ شاذ قانون محبت کے ان گنت سایوں میں پروان چڑھنے لگا۔

ماحول اور جگہ بدل گئی تھی۔ منظر وہی تھا۔ میجر کی جگہ فراز ، اور کوٹھے کی جگہ ہوٹل۔ وہی سسکیاں لیتی مچلتی نوشی اور اسکا چھلنی بدن۔ گناہِ پر لذت سے فراغت کے بعد ستر پوشی کرکے وہ تھوڑی دیر گم سم لیٹے رہے۔ اس کے بعد وہ اٹھی اور باتھ روم گئی۔

اتنی دیر میں فراز نے کھانا کمرے میں منگالیا۔
ارے واہ۔ لیکن مجھے بھوک نہیں ہے۔ وہ ٹشو سے منہ پونچھتی ہوئی بولی۔

کھالو نا۔ وہ ناز برداری کے انداز میں اس کو کھانے کا کہنے لگا۔

اچھا تم کہتے ہو تو کھالیتی ہوں کچھ۔ وہ مجبوراً بیٹھی اور دو چار لقمے لیکر اٹھ گئی۔
اب بھی آدھی رات باقی ہے نوشین۔ کیا کریں۔

کرنا کیا ہے آؤ کشتی لڑتے ہیں۔ وہ کھلکھلائی اور فراز پہ چڑھ دوڑی۔

چند ساعتوں بعد وہ بے دم بیڈ پہ پڑے تھے۔

سنو نوشی.!!

بولو۔

شادی کرو گی مجھ سے؟؟؟ وہ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا۔

شادی مجھے مذاق لگتی ہے۔ ایک ایسی عورت جو فقیر ہے۔ہزار لوگ اس کے جسم سے کھیل چکے ہیں۔ کیا ایسی عورت کو تم قبول کرو گے؟؟؟

ہاں کروں گا. اور دل میں جگہ دیکر رکھونگا بھی۔

دیکھو یہ جذباتیت ہے۔ کل تم مجھے گھر سے نکال دو گے تو میں کیا کرونگی۔

اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی تمہارے گھر والے ہمیشہ مجھ سے نفرت ہی کریں گے۔

انہیں لگے گا کہ تم مجھے کسی گٹر سے اٹھا کر لائے ہو۔

انہیں کون بتائے گا؟؟؟ کیسے پتہ چلے گا۔

چھوٹےبچے ہو کیا؟؟؟

انہیں پتہ نہ بھی لگا تب بھی وہ میری غربت دیکھ کر ہی مجھے حقیر سمجھیں گے۔

اور مجھ سے طعنہ کبھی برداشت نہیں ہوتا۔ ایسا نہ ہو کہ میرے پاس واپس پلٹنے کا راستہ بھی ختم ہوجائے۔

بہرحال ابھی تو میں دو مہینے یہیں پر ہوں۔گھر والوں سے بات نہیں کی ہے۔ یہ تو میرا ذاتی خیال تھا جو تمہیں بتا دیا۔

نہیں فراز جب تک میں نے ماں باپ زندہ ہیں میں شادی نہیں کر سکتی۔ کیونکہ کوئی ان کو رکھنے پر کوئی رضامندی ہوگا۔ اور وہ میرے بغیر اکیلے نہیں رہ سکتے ہیں۔

میں گھر پر بات کروں گا اور جلد ہی بتاؤں گا۔

تھوڑی دیر اور یونہی گزر گئی۔

بالآخر فراز کی آواز نے سکوت توڑا۔

اٹھو فجر ہونے کو ہے۔میں تمھیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ وہ جمائی لیتے ہوئے بولا۔

تھوڑی دیر اور بیٹھ جاؤ۔جب تک کوئی بیکری کھل جائے۔تو ناشتہ لیکر ہی گھر جاؤنگی۔
وہ چپ چاپ بیٹھ گیا۔ اذانوں کے تھوڑی دیربعد ہوٹل سے نکلے اور گاڑی چاند نگری کی طرف چل پڑی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
(آٹھویں قسط)

واپسی پر گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔فراز چپ چاپ اترا، ناشتہ لیا۔ کچھ چیزیں نوشی کو پکڑائیں اور اس کو گھر ڈراپ کر دیا۔

---***---

آگئے نا تم رنگ رلیاں منا کر۔ فراز کی امی آج کافی غصے میں تھیں۔

بتا کر تو کیا تھا آپ کو۔ وہ بیزاری سے کوٹ ایک طرف ڈال کر کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔

بیٹا!! انہوں نے اسکو پیچھے سے پکارا۔

جی بولیں۔ وہ اپنے کمرے کی طرف رخ کئے ہوئے گویا ہوا۔

ہمیں آج شائستہ کی طرف جانا ہے، اس نے اپنی بیٹی کے لئے تمہارا رشتہ بھیجا تھا

مجھے ابھی کوئی شادی نہیں کرنی۔ وہ چنچنا کر بولا۔

ہئیں؟؟؟ تمہیں تو بلایا ہی شادی کرنے کے لئے تھا!! اگر شادی نہیں کرنی تھی تو کیا ہزاروں روپیہ خرچ کرکے یہاں گھومنے کے لیے آئے ہو؟؟؟؟ عجیب ڈرامہ بنا رکھا ہے تم نے۔ انہوں نے اس کو کھری کھری سنا دیں۔

بعد میں بات کرونگا۔ بہت تھکا ہوا ہوں ابھی۔

یہ کہہ کر وہ کمرے میں داخل ہوا اور دھڑ سے دروازہ بند کر دیا۔ خدیجہ بیگم نم آنکھوں سے واپسی کے لئے مڑگئیں۔

حد ہوگئی ہے جس کو دیکھو بس حکم چلاتا رہتا ہے۔ شادی مجھے کرنی ہے تو فیصلہ بھی میرا ہی ہوگا نا۔

وہ کپڑے بدلتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔

بس میں نے سوچ لیا ہے… نوشین مجھے اچھی لگی ہے اور ہاں مجھے اس سے کر لینی چاہئے… اس نے ایک لمحے کو سوچا۔
لیکن امی نہیں مانیں گی نا۔

چلو اگر وہ اسٹینڈ لیول کا کہیں گی تو غریبی تو ہم پر پہ بھی آ سکتی ہے۔ اور نوشین اگر انٹر ہے تو مجھے کونسا اس سے کلینک کھلوانا ہے یا بلڈنگ بنوانی ہے!!

انہی سوچوں میں گم سم وہ بستر پر اوندھا گر گیا۔

---***---
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
وہ گھر میں داخل ہوئی تو ماں نے شاپر دیکھ کر اسکو تیز نگاہوں سے گھورا۔
آج پھر مل گیا ہوگا نا خدیجہ کا لڑکا۔
ہیں نا۔

تو نہیں مل سکتا کیا؟؟؟ وہ زہریلے انداز میں مسکرائی۔

میں پوچھتی ہوں کون ہے ایسا تیرا آشنا جو روزانہ انڈے بسکٹ لادیتا ہے؟؟

کل کو کچھ ہوگیا تو ہمارے پاس مال تو ہے نہیں۔ ذلت کا ٹھپہ اور لگوا دینا تو۔

وہ تو کب کا لگ چکا ہے۔ وہ بڑبڑائی۔

اب کیا بک رہی ہے منہ ہی منہ میں میسنی؟؟
چل جا منہ دھوکر آ۔ ایک تو لڑکی ذات بھی عذاب ہے۔
سمجھاؤ تو نواب زادی کو برا لگتا ہے۔ نہ سمجھاؤ تو روزانہ انڈے اٹھائے چلی آئیں گی۔

اری کیوں چلا رہی ہے میری بیٹی پہ؟؟
یہ سکندر تھا جو کمرےمیں نسرین کی آواز سن کر جاگ اٹھا تھا۔

تم چپ رہو، اب بیٹی کے بعد تم بھی کچھ الٹا سیدھا نہ سن لینا مجھ سے۔ وہ جلے کٹے انداز میں روٹی بیلتی رہی۔
اب آواز نہ نکالیو۔ گلی کے کتے کیطرح شور کرکرکے جگا دیتی ہے مجھے۔ سکندر چیخ چلا کر کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔

ہاں خود تو جیسے گہری نیند سورہے تھے نا۔ میلے بستر پہ پڑے پڑے جسم میں زخم ہونے کو آئے ہیں لیکن مر نہ جائیں گے اگر اٹھ کر چل پھر لیں۔ توپوں کا رخ اب سکندر کی جانب ہوگیا تھا۔

اففف اماں ایک تو تمہاری مشین ہر وقت چلتی رہتی ہے۔ کبھی تو بس بھی کرجایا کرو۔ ابا کو خون دینا پڑا تو ڈاکٹر کہے گا بڑھیا کا سارا خون جل چکا ہے یہ نہیں چل سکتا۔

نوشین باتھ روم سے نکل کر گیلے بال تولیے میں لپیٹتے ہوئے ہنسی۔

بکواس نہ کر مجھ سے۔ ورنہ چمٹا پھینک کر ماردونگی۔ کمینی کہیں کی۔ اماں چوکی پہ بیٹھی روٹی بناتی رہی۔

اچھا۔ اور اگر مجھے لگنے کے بجائے دیوار پہ لگا تو ابا کی نیند خراب ہوجائے گی۔ پھر وہ تمکو صلواتیں سنائیں گے کہ طبیعت سیٹ کردیں گے۔ وہ ہنسے جارہی تھی اور نسرین کا پارہ چڑھ رہا تھا۔

دیکھ نوشی شرافت کیساتھ ناشتہ کرلے ورنہ مجھ سے مار کھائے گی تو۔ چل ادھر بیٹھ چوکی پہ۔ ماں نے غصے سے کھاجانے والی نگاہوں سے اسکو گھورا اور وہ ہنستی ہوئی چوکی پہ بیٹھ گئی۔
کل میں نے تیرے باپ سے بات کی تھی۔ انکی نوکری جہاں تھی وہاں ایک بندے پہ انکا کچھ قرضہ تھا۔ وہ اگر واپس مل جائے اور تو بھی کچھ قرضہ لے سکے تو تیرا گھر بھی بس جائے گا۔ وہ آہستگی سے بولی۔

مجھے گھر نہیں بسانا اماں۔ میں تم لوگوں کیساتھ ہی رہونگی یہاں۔ وہ نوالہ لیتے ہوئے بیزاری سے بولی۔

نہیں بھئی۔ تیرا باپ کئے دن کا مہمان ہے جو تو یہاں پڑی رہے گی؟؟؟
آج رات بھی اسکو کئی بار خون کی الٹی ہوئی تھی۔ ٹب بھر گیا تھا چھوٹا والا۔ ساری رات نہ خود سویا نہ مجھے سونے دیا۔ ہر پانچ منٹ بعد آواز آجاتی نسرین ادھر آ۔ مجھے کچھ ہورہا ہے۔ اور بیچارے کی بری حالت تو الگ ، بدبو اور اندھیرے نے اور مت مار دی تھی۔ اللہ ہی جانے اپنی مصلحتیں۔ لیکن ہم تو کئی برس سے بنا کسی خیر کے بس جیے جارہے ہیں۔ اس سے تو موت بہتر ہے۔ ہمیں وہی دیدے خدا۔
بولتے بولتے نسرین کی آواز رندھ گئی اور وہ سسک اٹھی۔


---***---
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
سرِ شام فراز بیدار ہوا تو کمرے سے اتر کر نیچے کے گھر میں چلا آیا۔

امی کچن کے دروازے پہ کھڑی تھیں۔ کیسی طبیعت ہے آپکی؟؟؟ اسنے انکا ہاتھ محبت سے تھام کر پوچھا۔

وہ چپ چاپ دوسری طرف منہ کرکے کھڑی رہیں۔

کیا ہوا؟؟ بولیں۔

تمہیں تو نہ ماں کا خیال ہے نہ مرے ہوئے باپ کا۔ تم تو کسی کو بھی کبھی بھی جھڑک دوگے۔ اب ہمیں سوچنا پڑا کرے گا کہ لاٹ صاحب کے سامنے کیا کہیں کیا نہ کہیں۔

وہ دوسری طرف منہ کرکے بولتی چلی گئیں۔

آپ بھی تو کسی بھی وقت بے موقعہ کی بات لیکر آجاتی ہیں۔

اسوقت میں تھکا ہوا تھا اور آپ جھاڑنے لگیں۔ یہ بھی نہیں پوچھا کہ ناشتہ کرو گے یا نہیں۔

ہاں تو بے موقعہ کیا؟؟؟ روز رات کو باہر گھومتے ہو جیسے یہ بھی دبئی ہو نا۔ ارے یہاں دن کو بھی لوگ لٹ جاتے ہیں!!! راتیں تو بڑی خون آشام ہیں اس شہرِ قائد کی۔

اور میری شادی کا کیا فکر جاگا تھا آپکو اسوقت؟؟ وہ منہ بنا کر بولا۔

وہ تیز نظروں سے اسکو گھور کر رہ گئیں۔

اچھا اب دفع کریں سب کچھ۔ ناشتہ تو کیا نہیں ، چائے پی لیں۔ بڑی بہو نے درمیان میں آکر سیز فائر کرایا اور اماں بیٹا چائے کی میز کی جانب چل دیے۔

اب تمہارے جانے میں کتنا وقت ہوگا فراز؟؟؟ اماں نے اس سے سوال کیا۔ وہ روزانہ اس سے ایک دو مرتبہ پوچھ لیا کرتی تھیں۔ جیسے اس سوال جواب سے اسکے ایام بڑھ جائیں گے۔

دو ماہ رہ گئے ہونگے۔ اسنے ہمیشہ کیطرح جواب دیا۔

اب سن منحوس، شائستہ کے گھر جانا ہے۔ اسکی لڑکی نے ایم اے کر رکھا ہے۔ اسکو دو سال پہلے دیکھا تھا میں نے۔ اچھے ناک نقشے کی ہے اور با ادب بھی۔

ہنہہہ۔ شائستہ خالہ کی لڑکی آپ میرے سر ڈالنا چاہتی ہیں۔ کل تک تو خود ہی اسکو نکٹی اور کوڑھ مغز نجانے کیا کیا کہتی تھیں آپ۔

ارے پگلے وہ نہیں وہ تو شاہین کی لڑکی ہے۔ شائستہ وہ جوہر کالونی میں جو رہتی تھی پہلے۔ جنکا اسکول ہے۔ خدیجہ بیگم سر پہ ہاتھ مار کر بولیں۔

بہرحال اماں۔ میں نے آپ سے کہنا تھا۔ اسنے چائے کی چسکی بھرتے ہوئے ادھورا جملہ چھوڑا۔

کیا کہنا تھا لاڈلے نواب نے؟؟

یہی کہ سکندر صاحب کی بیٹی نوشین کو دیکھ آئیں آپ جاکر۔ وہ بھی مناسب ہے۔

ارے ان پہ فراڈ کا الزام لگا تھا۔ کئی سال جیل کی ہوا کھا کر آئے ہیں وہ۔ انہوں نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔

ہمیں اس لڑکی سے مطلب ہونا چاہئیے۔ اسکا باپ رخصت ہوکر اس گھر میں نہیں آرہا۔ وہ چڑ کر بولا۔

ہاں تو یہ تو بتاؤ ذرا کہ وہ لوگ کس اسٹیٹس کے مالک ہیں؟؟؟اب کرتے کیا ہیں تمہارے ہونے والے سسر صاحب؟؟ وہ آج اس قضیے کو نمٹانے کے موڈ میں تھیں۔

وہ لوگ فقیر اسٹیٹس کے ہیں۔ ماسی برادری کے محلے میں رہتے ہیں۔ لڑکی فیکٹری ورکر ہے۔ روزانہ کی دیہاڑی پہ کام کرتی ہے۔

مجھے ایک دو دفعہ ملی ہے فیکٹری سے واپس آتے ہوئے۔ اور میں یعنی ایک مزدور، جاہل اور ان پڑھ باپ کا یتیم، مزدور، نودولتیا لڑکا اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ مجھے اس کام کے کرنے کی اجازت دیں گی؟؟؟؟

وہ عجیب سے انداز میں ہاتھ نچا نچا کر انہی کے انداز میں بولا۔

فراز تم لمیٹس کراس نہیں کرنے لگے ہو؟؟ باپ کا تذکرہ بھی اچھے الفاظ میں نہیں کرسکتے تم؟؟؟

میں صرف یہ بتانا چاہتا…
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
ہاں ہاں یہ بتانا چاہتے ہو نا کہ جیسے دوسرے بے عزت لوگ ہیں ویسے ہی میرا باپ بھی بے عزت تھا۔ جاہل مزدور اور جو دل میں آئے میں اسکو اعزازات دیتا رہونگا۔ یہی کہنا چاہتے ہو نا۔ انکی آنکھیں بھر آئیں۔

افففف!!! اب یہ کس نے کہ دیا۔ بات پوری سن لیا کریں پہلے۔ ہمارا اسٹیٹس بھی تو کچھ نہیں تھا نا جب آپکی پاپا سے شادی ہوئی تھی۔ آپ ان سے زیادہ تعلیم یافتہ تھیں۔ ہمیں گھر پہ ٹیوشن پڑھا کر آپ نے گھر چلایا۔ اسکول میں ٹیچر کی پھر کالج میں لیکچرار کی نوکری کی آپ نے بھی امی۔ تو نوشین کیوں فیکٹری ورکر نہیں ہوسکتی۔ وہ جذباتی انداز میں بولا۔

جو میں نے کہ دیا سو کہ دیا فراز میاں۔ اسکے بعد کوئی بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے اسکا ہاتھ جھٹکا اور اپنے کمرے کیطرف بڑھ گئیں۔

ٹھیک ہے امی۔ پھر میں بھی اسی ہفتے کی فلائٹ سے واپس جارہا ہوں۔ نہیں کرنی مجھے شادی۔ وہیں دبئی میں گند بلا میں پڑا رہونگا نا تو آپ لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

فراز...!!!

وہ بڑبڑاتا چیختا سیڑھیاں چڑھنے کو بڑھا ہی تھا کہ ماں کی آواز نے اسکے قدم روک لئے۔

جی، کہئیے۔ وہ ذرا سا پشیمان ہوکر واپس مڑا۔

دلہن چاہئیے ہمارے بیٹے کو؟؟؟ ٹھیک ہے۔ مجھے لیکر چلنا انکے گھر۔ خدیجہ بیگم سے پیار سے کہا اور وہ حیرت سے کھلا منہ لیکر بس ہاں میں سر ہلاتا ہی رہ گیا۔

خدیجہ خاتون نے آج تک اپنا کوئی فیصلہ تبدیل نہیں کیا تھا۔ نا کا مطلب نا ہی ہوتا تھا۔ لیکن آج کا یہ فیصلہ حیران کن تھا۔

اسکا دل چاہا کہ خوشی سے اچھل کود کرے۔ نعرے لگائے اور ناگن ڈانس ہی کرڈالے۔ تاہم خود پہ کنٹرول کیے اسنے ہنسی دبا کر اچھا کے الفاظ ادا کرنے چاہے۔ لیکن آواز حلق میں کہیں گم ہوکر رہ گئی۔

بولو۔ٹھیک ہے نا۔

اسنے کوشش کرکے پھر آواز نکالنا چاہا لیکن زبان جیسے حلق سے چپک گئی تھی۔

ارے اب بول بھی دے مردود۔ خدیجہ خاتون کا پارہ ایک بار پھر چڑھنے لگا۔

اب کی بار فراز نے پورے حلق کا زور لگا کر آواز نکالنا چاہا تو ایکدم اسکے منہ سے زور دار چیخ نکلی۔

اچھاااااا……

خدیجہ خاتون ایکدم ڈر گئیں اور سہم کر پیچھے ہٹیں۔ اور پھر انہوں نے اسکی طرف ایسے حیرت سے دیکھا جیسے اسکا منہ کسی اور مخلوق جیسا بن گیا ہو۔

اسنے شرمندہ سا ہوکر ادھر ادھر دیکھا۔ بھابھی دیوار کی اوٹ میں کھڑی صورتحال سمجھ کر منہ میں دوپٹے کا پلو لیے ہنسی کے مارے سرخ ٹماٹر ہوئی جارہی تھیں۔

وہ فوراً سیڑھیاں پھلانگتا اوپر اپنے کمرے کیطرف دوڑ گیا۔

---***----
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
ہاں بھئی آگئی مجے مار کے۔ میڈم نے اسکے داخل ہوتے ہی ایک زوردار قہقہہ لگا کر طنز مارا۔

ہاں۔ آگئی۔ میری جگہ تم بستر گرم کرلیتیں نا۔ مجے اڑا لیتیں۔ اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

چپ کر کمین نسل۔ تیرا شیطان آیا تھا کل۔ بہت چڑھی ہوئی تھی اسکو۔ میں نے کہا چھٹی پہ ہے تو بھڑک گیا۔ کہنے لگا کہ اگلے دن کہیں گئی تو اچھا نہ ہوگا۔ آج آئے گا وہ۔
کونسا جادو کردیا ہے تو نے؟؟؟

وہ جواب میں مسکرائی اور سائیڈ سے ذرا سی کرتی اٹھادی۔

میڈم سمیت ایک دو عورتوں کے ہنسی کے فوارے چھوٹنے لگے۔

اب اسکو کوٹھے پہ چار گھنٹے ہونے کو آئے تھے۔ نہ آج کوئی رقص کی محفل تھی اور نہ ہی کوئی خاص گاہک ملا تھا۔ دو تین اوباش قسم کے لوگوں کو اس نے جھانسہ دیکر پانچ پانچ منٹ میں فارغ کردیا تھا۔ کچھ پیسے مانگ کر لے لئے تھے اور اب بیٹھی مکھیاں مار رہی تھی۔

نجانے یہ میجر کون ہے میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔ اسکو تو فوجی لڑکیاں مل سکتی ہیں۔ یہ بھی کسی کسبی کی اولاد ہوگا۔ اسنے نفرت سے سوچا۔

یہی سوچتے اور میجر کو گالیاں بکتی وہ جھروکے پہ جا کھڑی ہوئی۔

نیچے سے شبنم کا میاں گزر رہا تھا۔ شبنم اسی گلی کی مشہور رقاصہ تھی۔ اسکا شوہر اسکو کسی آرٹسٹ کے گھر سے بیاہ کر لایا تھا۔ اور نکھٹو ہونے کے بسبب اس بازار میں لا بٹھایا تھا۔

ایک دو بار کی ضد انا اور خودداری کا خول کیا چٹخا شبنم اس بازار کی نامور رقاصہ بن کر رہ گئی تھی۔
اسکا شوہر بس اس حد تک اسکا شوہر تھا کہ رات کے بارہ ایک بجے آکر پیسے سمیٹ کر گھر لیجاتا تھا۔ فجر سے ذرا پہلے چوٹیں سہلاتی شبنم آکر رزق کی تقسیم اپنے اصولوں کے مطابق کرلیا کرتی تھی۔

اچانک شبنم کے میاں نے نگاہ اٹھا کر نوشی کو دیکھا۔ ہائے جانمم۔ لو یو۔ وہ شیطانی مسکراہٹ کیساتھ چلایا۔

چل غرق ہو سؤر کہیں کا۔بیوی کا دلال۔ وہ مارے غضب کے آگ بگولہ ہوگئی۔ شبنم کا شوہر فوراً سر جھکا کر رفو چکر ہوگیا ورنہ وہ اسکو چند مغلظات بک ہی دیتی۔

(جاری ہے۔)​
 

Top