Adultery شومئ قسمت (Completed)

.
Moderator
2,363
1,827
143
او شیطان عورت، تو نے میری بیٹی کو کہاں بھیج دیا خاک چھاننے؟؟
رزق تو گھر پہنچ جاتا ہے،، پھر لڑکی ذات کو کیوں بھیجا؟؟؟ سکندر نوشی کے اسطرح جانے پہ بہت ناراض تھا۔

ہاں تو بہت بارش برس رہی تھی نا پیسے کی تیرے گھر؟؟؟ ایک تو خود بیمار پڑا ہے، لاکھ روپیہ اٹھ چکا ہے، جوان بیٹی کا فکر نہیں اور بس کمانے نہ نکلو۔ وہ زخمی لہجے بولی۔

ہاں تو فکر ہی ہے تبھی کہ رہا ہوں۔ سکندر بھی کہاں چپ رہنے والا تھا۔

خیر اب بڑ بڑ بند کرلو۔ ورنہ منہ سے خون آنے لگے گا۔ اور اٹھ کر نہا لو۔ آج ڈاکٹر کے یہاں بھی چلنا ہے۔
نوشین پیسے دیکر گئی ہے، پیشگی تنخواہ مل گئی تھی اسکو۔

چھوڑ علاج کو، ایسے ہی پڑا رہنے دے مجھے۔ سکندر کراہا۔

ہاں تاکہ میں ایسے ہی مرجاؤں اور بیوی بیٹی دنیا کے سامنے عزت لٹواتی پھریں۔ شرافت سے شام کو چلنا ورنہ میں یہاں سے چلی جاؤنگی۔ اسنے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تو بالآخر سکندر کو ماننا پڑا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
دس منٹ ہی بمشکل گزرے ہونگے کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔
میجر فوراً اٹھ کر گیا اور واپسی پہ اسکے ساتھ دو آدمی اور بھی تھے۔

وہ انکو دیکھ کر گھبرائی پھر اپنے جذبات چھپا کر ٹکر ٹکر انکو دیکھنے لگی۔

دونوں پینٹ اور ٹی شرٹس میں ملبوس تھے۔ ایک لمبا اور دبلا سا تھا۔ ڈھیلی پینٹ اور سرخ ٹی شرٹ۔ آنکھوں میں عجیب وحشت تھی اور چہرہ بالکل بے رونق۔

دوسرا شخص درمیانے قد کا ذرا بھاری بدن کا تھا۔ گنجا سر اور دائیں ہاتھ میں بھاری گھڑے پہنا ہوا تھا۔ چہرے بشرے سے کوئی ریٹائرڈ فوجی لگتا تھا۔

واہ یار پیس تو بڑا اعلیٰ لایا ہے تو، ایکدم ملائی ہے۔ نوارد لمبے شخص نے میجر کا کندھا دبا کر آنکھ ماری۔

تو بھی تو بالکل دجال کا وزیر لگ رہا ہے۔پلید، اور اس کے پیسے لگیں گے جانی۔ پہلے ہی بتا چکا ہوں۔ میجر نے منہ بنایا۔
اچھا، ایک بار پھر بتا دے پیکج ذرا۔
تیسرا شخص بولا۔

بھئی ساری بات ہو تو چکی ہے۔ اب بار بار کیا بتانا۔ پندرہ پندرہ دو گے دونوں۔ اسنے جھنجھلا کر کہا۔

ایک منٹ، میں نے تم سے کنٹریکٹ کیا ہے، یہ دونوں کون ہیں میں نہیں جانتی انکو۔ نوشین سے اب رہا نہ گیا۔

تو چپ کر بے۔ زیادہ ہوشیاری کی ضرورت نہیں ہے۔ دس دن میں اکیلا میں کونسے لڈو کھاؤنگا؟؟ میجر طنز سے مسکرایا۔

جو بھی کرنا چاہتے ہو کرو لیکن میں یہ نہیں کرسکتی۔ وہ اٹھ کر کمرے سے نکلنے ہی لگی تھی کہ میجر نے اسکا بازو پیچھے سے پکڑ کر کھینچا۔

کہاں چلی حسین پری؟؟؟ پیسے کیا پٹاخے چھوڑنے کیلئے دیے تھے؟؟

ہاں تو خرید نہیں لیا کہ ہزار آدمی بلا لو گے۔

نوشین نے احتجاج کرنا چاہا لیکن اس جگہ اسکی کون سنتا۔

میجر نے اسکو دھکا دیا اور وہ ایکطرف کو گرتے گرتے بچی۔

چل شاباش، اچھا سا ناگن ناچ کرکے دکھا۔ بڑے عزت دار مہمان ہیں یہ لوگ۔ بخشش مست والی ملے گی۔ میجر اسکی خوفزدہ حالت سے مزے لیتے ہوئے بولا۔

وہ چپ چاپ سیدھی ہوئی۔ وہ تینوں صوفے پہ جا بیٹھے اور میجر نے اسپیکر پہ گانا چلا دیا۔

اسنے ناچنا شروع کیا تو موٹے آدمی نے مشروب گلاسوں میں نکال لیا اور ناچ سے لطف لیتے ہوئے تینوں لہرانے سے لگے۔

اچانک میجر نے ناچتی نوشی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور صوفے پہ گرا لیا۔

اسنے ہاتھ چھڑا کر کھڑا ہونا چاہا لیکن باقی دو آدمی بھی جیسے اس لمحے کے منتظر تھے۔ انہوں نے اسکو پچھلا دامن کھینچ کر واپس صوفے پہ گرنے پہ مجبور کردیا۔

چھوڑو ، پلیز چھوڑو مجھے۔ اسنے ہاتھ پاؤں چلانے کی کوشش کی۔ لیکن بے سود۔

ان تینوں نے اسکو پکڑ کر ایکطرف کیا اور اس پہ پل پڑے۔

اسنے خود ہی پھٹنے سے بچانے کیلئے لہنگا اتار کر سائیڈ پہ رکھا۔ اور بے لباس ہوکر چپ چاپ ستم سہنے کیلئے لیٹ گئی۔

رات گئے اسکی جان چھوٹی۔ وہ بمشکل انکے نیچے سے نکلی۔

بیڈ کی حالت غیر ہوئی پڑی تھی۔ زائد کپڑے، ٹشو، شراب کی بدبو، گلاس، اور مدہوش ادھ موئے سے پڑے تین درندے۔ آہستہ آہستہ ہمت کرکے وہ اٹھی اور ٹٹول ٹٹول کر کپڑے ڈھونڈ کر پہن پائی۔ اور تقریباً گھسٹ کر باتھ روم گئی۔بدن کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔

وہ خود کو آئینے میں دیکھ کر لرزگئی۔
بکھرے بال، سرخ آنکھیں، منہ اور سینے پہ نوچنے کے سے سرخ نشان اور بدن پہ انگلیاں چھپی ہوئی تھیں۔ دائیں پہلو کسی کچوکے کا نیل سا بن گیا تھا۔

باتھ روم جدید تراش خراش سے آراستہ تھا۔ ایک لمحے کو وہ اپنا درد بھول کر وہ باتھ روم کو تکنے لگی۔

سنہرے ٹائلز، خوبصورت شو لائٹس، اسکو میں ہی ملی تھی یہاں لانے کیلئے، اسنے کراہتے ہوئے حیرت سے سوچا۔

سامنے میجر کی بیوی کا نہانے کا سامان پڑا تھا۔ نجانے کیسے کیسے شیمپو رکھے ہیں کلموہی نے۔ اسنے ایک شیمپو اٹھاکر اسٹیکر پڑھا۔

لندن سے کسی نے بھیجا ہوگا اسکو۔ اسنے اسکو وہیں رکھا اور کپڑے پہن کر باہر آگئی۔ ہوش و حواس اب بھی ٹھکانے پہ نہیں تھے۔ درد کی ٹیسیں مسلسل اٹھ رہی تھیں۔ یہاں سے بھاگ جاؤں؟؟؟ لیکن کیسے۔ فوراً ہی گارڈ یا میجر خود پکڑ لے گا۔ اور پھر جو حشر ہوگا میرا۔وہ سوچ کر ہی کانپ گئی۔

اسکی نظر ایک مرتبہ پھر شیشے میں اپنے چہرے پہ پڑی۔
بے نور سی سہمی خشک آنکھیں۔
آنسو تھے کہ ختم ہوکر آنکھوں میں کہیں گم ہوگئے تھے۔

ایساکچھ اجتماعی طور پہ اسکے ساتھ پہلی بار ہوا تھا۔ کاش کوئی چیز ہوتی جس سے انکو قتل کردیتی یا خود کو مار لیتی۔ اسنے نشے میں مدہوش پڑے تینوں کو دیکھتے ہوئے نفرت سے سوچا۔

یہ بوتل ہی توڑ کر انکا قتل کرنے کا دل کررہا ہے۔
لیکن ابھی نہیں، ابھی کوئی بھی قدم موت کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ جب پیسہ لیا ہے تو کام بھی کرنا ہوگا۔ اسنے کرب سے سوچا اور واپس آکر بیڈ پہ لیٹنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دو بندے واپس لوٹ گئے۔ اسنے میجر کیساتھ بستر انصاف کے اصولوں کے عین مطابق نصف بانٹ لیا۔

پہلی رات گزرچکی ہے۔
نوشی صبح بیدار ہوئی تو میجر باتھ روم میں تھا۔ نہانے کی آواز آرہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ تولیہ گلے میں ڈال کر مسکراتا ہوا باہر نکلا۔
اٹھ​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
اٹھ گئی میری جان۔ اسنے نوشی کو دیکھ کر آکھ دبائی اور وہ نفرت سے ہونٹ سکیڑ کر رہ گئی۔

آئے ہائے یہ ادائیں، یہ دلربا مست شرابی نگاہیں، مری تو جان لیں گی یہ۔ وہ گنگناتا ہوا اسکی طرف بڑھا۔

رات رات کیلئے لائے ہو۔ دن رات چڑھے رہنے کیلئے نہیں، وہ کڑک کر بولی۔

ارے ارے نہیں شہزادی۔ سواری رات کو ہی ہوگی۔ ابھی تو ناشتے کیلئے چل۔

اسنے نوشی کا ہاتھ پکڑ کر اسکو اٹھایا اور ناشتے کے کمرے کیطرف بڑھ گیا۔

---***---

رات کو فراز،اپنے کمرے میں بیڈ پہ بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا…
کتنا عجیب ہوں میں بھی، سائرہ کی سہیلی، جسکو میں صرف سلام دعا کی حد تک جانتا تھا۔ اب کتنی اچھی لگنے لگی ہے وہ مجھے۔

حالانکہ طوائف ہے وہ، پیشہ ور ہے، جسم فروش، دنیا کی حسین لڑکیاں مل سکتی ہیں مجھے، لیکن نجانے کیوں اسی طوائف پہ جان اٹکتی ہے۔

اسنے بے ربط سوچوں کو ترتیب دیکر نتیجہ نکالنے کی کوشش کی اور پھر تھک کر سر جھٹک دیا۔

اچانک ہی کمرے کے دروازے پہ دستک ہوئی۔
اسنے چونک کر نگاہیں اٹھائیں۔ دروازے میں سائرہ کھڑی تھی۔

کیا ہوا چڑیل؟؟؟ سوئی نہیں تمم؟؟؟

ہاں، نیند نہیں آرہی تھی۔منے کو سلا کر سوچا کہ تمہیں جھانک لوں۔ تم کیوں نہیں سوئے قائد اعظم کے بھائی۔ وہ آنکھیں مٹکا کر شرارت سے بولی۔

بس وہی سوچ رہا تھا اسی لڑکی کے بارے میں۔

کس لڑکی کے بارے میں سوچا جارہا ہے؟؟؟

تمہاری سہیلی کا ہی سوچ رہا تھا یار۔

ارے ہاں۔ میں بھی اسی کے بارے میں پوچھنا چاہ رہی تھی۔ کیسے مل گئی وہ تمکو؟؟؟سچ سچ بتانا۔سائرہ نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسے کہا کہ وہ سٹ پٹا کر رہ گیا۔

وہ۔ وہ۔ ایک سپر اسٹور پہ۔

اچھا۔ خیر۔ اچھی لڑکی تھی بیچاری۔ چلو وہ آجائے جاب ٹور سے۔پھر ملنے چلیں گے اسکے گھر۔ وہ اسکا کندھا تھپ تھپا کر اٹھ گئی اور اسکو ایسا لگا جیسے اٹکا ہوا سانس بحال ہوا ہو۔

اسنے جلدی سے شرٹ کی آستین پہ اپنا پسینہ پونچھا اور مطمئن ہوکر تکیہ اونچا کرکے نیم دراز ہوگیا۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
(گیارھویں قسط)

یار نسرین۔ آج طبیعت خراب سی لگ رہی ہے۔ سینے میں بھی درد ہے۔ سکندر نے اکھڑے سے لہجے میں کہا تو نسرین ڈر سی گئی۔

کیا ہوگیا اب تمکو؟؟؟ جھاڑو ایکطرف پھینک کر وہ اسکی طرف لپکی۔ اتنی دیر میں سکندر کو خون کی قے ہوچکی تھی۔

اففف کیا ہوگیا اچانک آپکو۔ اسنے جلدی سے پاس پڑا دوپٹہ اسکے منہ کے آگے لگایا اور ٹب اٹھانے دوڑ پڑی۔

ہائے اللہ، تم ہی کچھ مت کرلینا اپنے آپکو میاں جی....!!!

کہاں تو بیٹی کی یاد میں آنکھیں نم کیے جھاڑو دے رہی تھی اور اب شوہر کی حالت پہ اشکوں کا سیلاب سا امڈنے کو بیتاب نظر آیا۔ لیکن اسکو مضبوط بننا تھا۔ وہ سکندر کو دلاسہ دینے لگی۔ اسکا منہ صاف کراتی کرتہ بدلواتی وہ بیوی کم اور ماں زیادہ لگ رہی تھی۔

سکندر بھی آنکھوں میں آنسو بھر کر مظلومیت بھری نظروں سے اسکو دیکھ رہا تھا۔ اسکے کانپتے ہاتھ پیار سے نسرین کو چھو رہے تھے اور وہ چپ چاپ اکڑوں بیٹھی صفائی میں مگن تھی۔ ابھی وہ صفائی کرکے اٹھی ہی تھی کہ سکندر کی حالت پھر سے خراب ہونے لگی۔

اففف ایک تو نوشی گھر پہ نہیں ہے اور تم یہ حالت بنا کر پڑ گئے ہو،، اب ہسپتال کیسے جائیں گے۔ اسنے پریشان ہوکر ادھر ادھر دیکھا۔

پھر فوراً اسکو پڑوسیوں کا خیال آیا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ صبح کے دس بجے تھے۔ وہ برابر والی عورت کے پاس گئی۔

بہن ذرا اپنے لڑکے سے ٹیکسی کروادو، میرے میاں کی حالت پھر سے خراب ہورہی ہے۔ اسنے ملتجیانہ نگاہوں سے پڑوسن کو دیکھا۔

اچھا، صابر ذرا انکو ٹیکسی لادو۔

اور ذرا دیر بعد ہی وہ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کرسی پہ بیٹھی الٹی گنتی گن رہی تھی۔

نجانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ اب سکندر کو وہ نہیں دیکھ پائے گی۔
اب ڈاکٹر ہاتھ ملتا ہوا باہر آئے گا۔ اس سے معذرت کرلے گا اور اسکا شوہر منوں مٹی تلے سوجائے گا۔

یہ سب سوچ کر نجانے کیوں اسکی آنکھوں سے آنسؤوں کی لڑی بہنے لگی۔

نوشی کو گئے پانچواں دن ہونے کو آیا۔ ایسا بھی کیا پراجیکٹ تھا کہ مرتے باپ کو اکیلا مجھ پہ چھوڑ کر چلی گئی، ناہنجار اولاد۔ اسنے زخمی دل کیساتھ سوچا۔

اب آئے گی تو خوب سناؤنگی۔ اتنی بے حسی کہ دس دن پورے کرنے کے چکر میں ہے کمین کہیں کی۔

شکر ہے نوشی کچھ پیسے دیکر گئی تھی ورنہ سکندر تو بنا علاج کے ہی مرجاتا۔ لیکن پھر بھی نسرین کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اسکو چھوڑ کر کہیں گھوم پھر رہی ہو۔ جوان بیٹی کا سوچ کر ہی اسکا کلیجہ منہ کو آجاتا تھا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
آج اسکو اس بنگلے میں ساتواں دن تھا۔ میجر کے دوست آتے جاتے رہتے تھے۔ میجر نے اپنے لگائے پیسے تقریباً وصول کر ہی لئے تھے۔ آدھے لوگوں کو تو مجرا دکھا کر ہی بھگا دیتا تھا۔ اکا دکا شاہی مہمان جسمانی کھیل کا منہ بولا معاوضہ چکا چکے تھے۔ انکو اس نے نوشی کا بطور اپنی خاص دوست کے کرا کر "مناسب بخشش" اینٹھ لی تھی۔ کچھ پیسے نوشی کو بھی مل جاتے تھے۔ وہ انکو اپنے پرس میں رکھ کر سکھی ہونے کا سپنا ایک درجہ آگے بڑھا دیتی تھی۔اس بنگلے میں آکر اسکا معمول تھوڑا سا سہل ہی ہوگیا تھا۔

دن بھر بوتل چڑھا کر سوئی پڑی رہتی تھی۔ سرشام اٹھتی تھی، کوٹھے کے معمول کیطرح تیار ہوتی تھی اور محفل گرم ہوجاتی تھی۔
یہاں کوٹھے والا ہی ماحول ہے، بس فرق یہ ہے کہ بستر،کھانا اچھا ہے۔ پیسہ بھی مل جاتا ہے۔

اسنے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے سوچا۔
میجر سے اس نے الگ کمرہ لے لیا تھا۔ سامنے سورج غروب ہورہا تھا۔

شادی کر بھی لوں فراز سے تو نجانے اسکے گھر والے مجھے کیا سمجھیں۔ کوئی شناسا بعد میں مل گیا تو پول کھل جائے گی اورر، اور اسکے بعد والے طعنے اور ذلت۔ اس سے اچھا یہی ہے کہ میجر کی داشتہ بن کر ایک چھوٹا سا گھر لے لوں۔بعد کو دو چار لڑکیاں رکھ کر اپنا کام کرلونگی۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
آج اسکو اس بنگلے میں ساتواں دن تھا۔ میجر کے دوست آتے جاتے رہتے تھے۔ میجر نے اپنے لگائے پیسے تقریباً وصول کر ہی لئے تھے۔ آدھے لوگوں کو تو مجرا دکھا کر ہی بھگا دیتا تھا۔ اکا دکا شاہی مہمان جسمانی کھیل کا منہ بولا معاوضہ چکا چکے تھے۔ انکو اس نے نوشی کا بطور اپنی خاص دوست کے کرا کر "مناسب بخشش" اینٹھ لی تھی۔ کچھ پیسے نوشی کو بھی مل جاتے تھے۔ وہ انکو اپنے پرس میں رکھ کر سکھی ہونے کا سپنا ایک درجہ آگے بڑھا دیتی تھی۔اس بنگلے میں آکر اسکا معمول تھوڑا سا سہل ہی ہوگیا تھا۔

دن بھر بوتل چڑھا کر سوئی پڑی رہتی تھی۔ سرشام اٹھتی تھی، کوٹھے کے معمول کیطرح تیار ہوتی تھی اور محفل گرم ہوجاتی تھی۔
یہاں کوٹھے والا ہی ماحول ہے، بس فرق یہ ہے کہ بستر،کھانا اچھا ہے۔ پیسہ بھی مل جاتا ہے۔

اسنے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے سوچا۔
میجر سے اس نے الگ کمرہ لے لیا تھا۔ سامنے سورج غروب ہورہا تھا۔

شادی کر بھی لوں فراز سے تو نجانے اسکے گھر والے مجھے کیا سمجھیں۔ کوئی شناسا بعد میں مل گیا تو پول کھل جائے گی اورر، اور اسکے بعد والے طعنے اور ذلت۔ اس سے اچھا یہی ہے کہ میجر کی داشتہ بن کر ایک چھوٹا سا گھر لے لوں۔بعد کو دو چار لڑکیاں رکھ کر اپنا کام کرلونگی۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
کیا بنا اس لڑکی کے گھر چلنے کا؟؟؟ ان لوگوں سے مل تو لیتے ہیں، لڑکی جب آئے گی تب دوبارہ مل لیں گے۔ خدیجہ بیگم نے فراز کو ناشتے کی میز پر کریدا۔

آں ہاں، ٹھیک ہے۔ جب آپ بولیں مل آئیں گے۔ اسکو جیسے جھٹکا لگا۔

اور نوشی کے جانے کے بعد میں نے اسکے گھر پہ پوچ گچھ بھی نہیں کی،شاید کسی چیز کی ضرورت پڑی ہو، اسکا باپ بھی بیمار تھا۔

اسکے دماغ میں اچانک سوچ ابھری۔ آج اسکے گھر جاکر دیکھونگا۔

دوپہر ہوتے ہی فراز نوشی کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔

ارے یہ کیا تالا؟؟؟ وہ دھک سے رہ گیا۔
فوراً اسنے پڑوس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک لڑکا باہر آیا اور اسکو صورتحال بتائی۔ اب وہ فوراً ہی اس سرکاری ہسپتال کیطرف اڑا جارہا تھا۔

وہ تقریباً بھاگتا ہوا رسیپشن پہ پہنچا اور اسکو مریض کا نام بتا کر وارڈ پوچھا۔

اماں یہ دوائیں اور انجیکشن لے آؤ۔ مریض کی جان خطرے میں ہے۔ اور میری مانو تو گھر لیجاؤ اسکو۔ پہلے بھی ایک بار جواب دے ہی چکے ہیں اسکو۔

ڈاکٹرنے اسکو ایک پرچی پکڑاتے ہوئے کہا۔ اور وہ پلو سے آنسو پونچھتی رہ گئی۔ سارے پیسے تو علاج میں کھا گئے اب کہتے ہیں واپس لیجاؤ۔ نسرین خالی پوٹلی کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی۔

اس دم کوئی تیز قدموں سے چلتا ہوا اسکی طرف آیا۔
نسرین آنٹی؟؟؟ نوجوان نے کچھ سوچتے ہوئے اسکو دیکھا۔

ہاں، کون ہو تم؟؟؟ نسرین کو ایسا لگا جیسے آسمان سے کوئی فرشتہ اسکی مدد کو اتر آیا ہو۔

آپکی بیٹی کی سہیلی کا بھائی ہوں میں۔ انکل کی کیسی طبیعت ہے اب؟؟؟ اس نے نظر انداز کرتے ہوئے مدعا دریافت کیا۔

ہاں بیٹا، یہ پرچی دی ہے ڈاکٹر نے۔
فراز نے اسکے ہاتھ سے پرچی لیکر ایک لمحے نظر ڈالی اور باہر دوڑ گیا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
ہیلو۔۔ ہیلو۔۔۔ ہیلو نوشی،،
ہاں ہیلو۔ یہ تم ہو فراز؟؟؟ کیسے ہو تم؟؟؟ نوشی کی تھکی سی آواز سنائی دی۔

کیا تم سو رہی تھیں؟؟؟

ہاں یار،ابھی دوپہر کا وقت ہے نا۔ سناؤ کیسے فون کیا؟؟؟

وہ تمہارے پاپا۔۔

کیا ہوا انکو؟؟؟ وہ ایکدم بیتاب ہوکر تڑپ اٹھی۔

انکی حالت سیریس ہے کافی۔ تم آسکو تو آجاؤ۔

اوہ۔ اچھا میں پوری کوشش کرونگی آنے کی۔ کہاں ہیں وہ؟؟؟

وہ سول ہسپتال میں ہیں۔ میں تمہارے گھر گیا تھا۔ وہاں سے پتہ چلا کہ وہ ہسپتال گئے ہیں۔ تو میں آیا ہوں ہسپتال۔

اچھا میں آتی ہوں۔ اسنے فون رکھا اور جلدی سے اٹھ کر بیٍ پر بیٹھ گئی۔

میجر نے پیسہ دیا تو حساب بھی پورا لے گا۔ کمینہ انسان ہے وہ۔ کیا کروں اب؟؟؟ وہ خلاؤں میں گھورنے لگی۔

بھاگ جاؤں؟؟ نہیں بھاگی تو جان بھی جاسکتی ہے۔
نکلنے کی کوشش کروں؟؟؟
اسکا فائدہ نہیں ہوگا۔

چلو باہر نکلتی ہوں۔ اور فراز کو بتادونگی ساری بات۔ اسنے خود کو دلاسہ دیا اور آہستہ سے کمرے سے نکل کر ادھر ادھر جھانکا۔ گول کوریڈور اندھیرے کی چادر اوڑھے سناٹے کی تصویر بنا ہوا تھا۔ جیسے کوئی وہاں مدتوں سے گزرا نہ ہو۔ بیزاری کی انتہا تھی یا سچ ہی تھا کہ نوشی کو اس در و دیوار سے اب نحوست سی ٹپکتی محسوس ہوئی۔ وہ دو قدم آگے بڑھی ہی تھی کہ دھک سے رہ گئی، میجر کے کمرے کا دروازہ کھلا پڑا تھا۔ وہ دھڑکتے دل کیساتھ آگے بڑھی۔

راہداری میں اسکے قدموں کی چاپ سے لیکر دل کی دھڑکن تک صاف سنی جاسکتی تھی۔ یا اسکو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ تمام کائنات مجسم کان بن کر اسکو سن رہی ہو۔ یا تمام دنیا اسکی بے بسی کی تماش بین ہو۔

دبے قدموں وہ آگے بڑھتی رہی۔ کمرے کے کھلے دروازے سے زیرو بلب کی روشنی باہر آرہی تھی۔
اسنے اندر جھانکا۔ میجر شراب کے نشے میں دھت سورہا تھا۔ دل تو چاہتا ہے یہیں سے جہنم میں پہنچادوں،حرام خور کہیں کا۔ اسکو لعنت دیکر وہ خود کو اور پرس سنبھالتی خاموشی سے راہداری پار کرکے دروازے کیطرف بڑھ گئی۔

مین گیٹ سے نکلنے میں اسکو چند لمحے اور لگے اور بیس منٹ بعد وہ ہسپتال کے احاطے میں کھڑی تھی۔

سامنے ایمرجنسی کے وارڈ سے فراز نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ اسکے چہرے پہ ہوائیاں اڑتی دیکھ کر نوشی کا دل بیٹھنے لگا۔

الٰہی خیر۔
کیا ہوا ابا کیسے ہیں؟؟؟ وہ بے چینی سے بغیر سلام دعا کےاسکا ہاتھ پکڑ کر بولی۔

وہ ٹھیک ہیں۔ تم بیٹھو یہاں پہ، اور یہ لو کچھ کھالو پہلے۔ فراز نے اسکو ایک بنچ پہ بٹھایا اور کچھ بسکٹ اسکی طرف بڑھا دیے۔
چھوڑو اس سب کو، ابا کا بتاؤ۔ نوشی مسلسل بے چینی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔

نوشین صبر کرو۔ وہ اب ہم میں....
کیا؟؟؟؟ مطلب ابا فوت ہوگئے... اسکے منہ سے زور کی چیخ نکلی اور وہ پھوٹ کر رو پڑی۔

فراز چپ چاپ بیٹھا اسکا ہاتھ تھامے اسکو دیکھنے لگا۔
ایسے شخص کو دلاسہ بھی کیا دیا جائے جس سے اسکا سائبان چھن گیا ہو۔

ٹوٹا ہی سہی، کمزور اور دراڑ زدہ سہی، سائبان تو سائبان ہی ہوتا ہے۔
پھر نوشی کو کچھ ہوش نہیں رہا کہ کب اسٹریچرباہر آیا۔ سفیدچادر کرکے کب گھر لیجایا گیا۔ کس نے کفن دفن کیا اور کیسے ہفتہ بھر گزرا۔

خدیجہ خاتون دو دفعہ آئیں۔
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
فراز ان لوگوں کے حالات تو واقعی خراب ہیں۔ انکو ہماری ضرورت ہے اسوقت، انہوں نے اپنے متوفی شوہر کے پرانے تعلقات کا پاس رکھتے ہوئے سکندر کے گھر والوں کی کفالت کا سوچ لیا تھا۔

بس بہن، آج سے تمہاری بیٹی ہماری ہی بیٹی ہے، کل سے یہ گھر میں رہے گی اور خرچہ ہم اٹھائیں گے۔ انہوں نے نسرین کا ہاتھ پکڑ کر ہمدردی جتائی۔

دونوں ماں بیٹی گم صم خلاؤں میں گھورتی رہ گئیں۔ کچھ کام پڑوسیوں نے انجام دیدیے، اور باقی کام فراز نے اپنے سر لے لیے تھے۔
نسرین کو توجیسے ہوش ہی ہفتے بعد آیا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
وہ آج بارہ دن بعد کوٹھے پہ آئی تھی۔ میڈم اسکا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر چونک گئی۔

ابے کہاں غائب تھی میسنی کہیں کی؟؟؟؟

ہم تو سمجھے تجھے کوئی اٹھا کر ہی لے گیا تھا۔

اور وہ میجر بھی آیا تھا تیرا پوچھتا ہوا۔ اسکا کیا اینٹھ لیا؟؟؟ پانچویں چھٹے دن ہی بھاگ آئی تو۔

اسنے سانس لیے بغیر نوشی کو جھاڑ پلادی۔

وہ جواب میں چپ رہی۔ بس آنسؤوں کی پتلی سی لکیر گال پہ بہ گئی۔
ابے کیا ہوا؟؟؟ کچھ بولے گی بھی؟؟؟؟ یا ٹسوے بہاٰے گی بس؟؟؟؟ میڈم جھنجھلا گئی۔

ابا مرگیا میرا۔ اسکے حلق سے گھٹی گھٹی آواز برآمد ہوئی۔

کیا؟؟؟ کب؟؟؟ مجھے کیوں پتہ نہیں چلا۔
ادھر آ، کب فوت ہوا؟؟؟ میڈم یکدم بوکھلا گئی۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب ہوگیا ہے۔

وہ پہلے توشرمندہ ہوئی پھر نوشی کا ہاتھ پکڑ کر ایکطرف بیٹھ گئی۔
کتنے دن گزر گئےرے؟؟؟

دسواں ہے آج۔

کسی چیز کی ضرورت تو نہیں تجھے؟؟؟ تیری ماں کیسی ہے؟؟ اسکو کوئی ضرورت ہو اگر؟؟؟

نہیں بس، کرم ہے مولا کا۔

چل آج کچھ مت کر، اور یہ رکھ لے۔ میڈم نے پانچ ہزار کا نوٹ پرس سے نکال کر اسکے ہاتھ پہ رکھ دیا۔

جا گھر جا تو، اور اگر کوئہ ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔

میجر کو میں سنبھال لونگی۔

پہلے تو نوشی نے حیرت سے دیکھا پھر اسکے گلے لگ کر رونے لگی۔ پاس کھڑی اور بیٹھی دوسری لڑکیاں بھی آبدیدہ ہوگئیں۔
میڈم ایک بات اور ہے۔ رو دھو کر وہ آہستہ سے بولی۔

ہاں بتا کیا بات ہے؟؟؟

میں یہ سب چھوڑنا چاہتی ہوں۔

(جاری ہے۔)​
 

Top