Adultery شومئ قسمت (Completed)

.
Moderator
2,363
1,827
143
(بارھویں قسط)

لیکن ایسا بھی کیا؟؟؟ امریکہ جارہی ہے کیا؟؟؟ میڈم کا لہجہ بدل کر طنزیہ سا ہوگیا۔
نہیں، بس بہت ہوگیا۔ ایسا لگتا ہے یہ گند کھا کر ہی میرا باپ مرا ہے۔ اسکا علاج اسی لئے نہیں ہوسکا۔
نوشی آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔

سب بکواس ہے، اس دنیا نے کچھ نہیں دینا تجھے۔ جذباتی ہونے کی بجائے کچھ اور سوچ، اب تو فاحشہ ہے۔ اور فاحشہ کی نہ سوچ ہوتی ہے نہ حرمت۔ نہ انا ہوتی ہے اور ضمیر۔ بس جسم ہوتا ہے جو گوشت کے بھاؤ بکتا ہے۔ میڈم پہلی بار اپنی رو میں بہتی چلی گئی۔ اور وہ سوچنے لگی کہ میڈم بھی لفاظی کا ہنر رکھتی ہے۔

ہاں وہ عورت جسکی شرم حیا اور ضمیر لوگ جال میں پھانس کر چھین لیتے ہیں اور اسکو جیتے جی مار کر گاڑ آتے ہیں کسی کوٹھے میں۔ اسنے نفرت آمیز نگاہوں سے میڈم کو گھورا۔

یہاں نہ آتی تو اسی فیکٹری میں کسی مینیجر یا اگزیکٹو کے دست مبارک کی انگشتری بن جاتی چندا۔ یہاں آکر جو کپڑا لتا مل گیا نا وہاں یہ چیتھڑے بھی نہ ملتے۔
بس بہت ہوگیا، میں یہ چھوڑ رہی ہوں۔ مجھے نہیں کرنا یہ اب۔ پلیز تم مجھے بھول جاؤ اب۔ وہ رونے والے انداز میں ہاتھ جوڑ کر بولی۔

چل چل، زیادہ ڈرامے نہ کر۔ ہاتھ نیچے کر۔ یہ بتا کرے گی کیا یہاں سے نکل کر؟؟ میڈم نے اسکے ہاتھ پکڑ کر نیچے کیے اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب کرلیا۔

لیکن وہ بات تمکو بری نہ لگے۔ بتا تو دوں۔ وہ منمنائی۔

کیوں اپنا کوٹھا کھول رہی ہے کیا؟؟؟ تیرے بس کی بات نہیں ہے جانو۔ میڈم نے پھر طنز سے اس پہ فقرہ کسا۔

نہیں، شادی کرونگی میں۔ نوشی نے مزید آہستہ لہجہ کرکے کان میں کہا۔ اور میڈم کے منہ سے ایک زوردار قہقہہ ابل پڑا۔

واہ واہ، واہ واہ۔ جتنا تجھے بیوقوف سمجھا تھا اس سے دوسو گنا زیادہ احمق نکلی رے تو۔
کس باولے کے خواب کو سچ کرنے جارہی ہے؟؟؟

کیوں ایسا کیا ہوگیا جو تمکو ہنسی کا دورہ ہورہا ہے؟؟؟ نوشی جل بھن کر بولی۔

بہت دیکھی ہیں ایسی جل پریاں۔ جنکو من چلے بیاہ کر تو لیجاتے ہیں لیکن پھر طعنوں اور گالیوں کے زیر سایہ سسک سسک کر رہتی ہیں یا واپس بھاگ کر آجاتی ہیں۔

عورت شرافت چاہتی ہے بی بی۔ وہ جب مرد کی ہوجائے تو کسی اور کا طعنہ اسکو موت سے زیادہ دردناک لگتا ہے۔

لیکن وہ لڑکا جاننے والا ہے۔ میں اسکو پہلے سے جانتی ہوں۔ تجھے ویسے بھی کیا۔ میں واپس نہیں آؤنگی۔ مر کھپ گئی تب بھی کسی کا نام لیکر دفنائی جاؤنگی۔ طوائف بن کر مرنا بھی منظور نہیں مجھے۔

میں تو سمجھا رہی ہوں تجھے۔ وقتی شوق ہے تیرا گھر بسانے کا۔ یہیں رہ اور میں تجھے دو لڑکیاں دیکر مکان بنوا دونگی۔ عیش کرنا۔
میڈم نے اسکو لالچ دینا چاہا۔
لیکن وہ اپنے ذہن میں فراز کو بسا ہی چکی تھی اور اب کسی کے لئے بدن فروخت کرنا دوبھر تو کیا ناممکن ہوچکا تھا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
خدیجہ بیگم اور سائرہ رات کے وقت بیڈ پر بیٹھی باتیں کررہی تھیں۔

ہاں، لڑکی تو مناسب ہے،دیکھی بھالی بھی ہے۔ لیکن یہ غریب لڑکیاں بڑی لالچی ہوتی ہیں۔ خدیجہ بیگم نے اپنے شبہے کا اظہار کیا۔

لیکن امی میں تو اسکو لڑکپن سے جانتی ہوں۔ اچھی طبیعت کی لڑکی ہے. سائرہ نے صفائی دی۔ وہ چاہتی تھی کہ بغیر مزید کھود کرید کر کیڑے نکالنے سے بہتر ہے شادی کردی جائے۔
تاکہ مزید کسی نکتے کو نکال کر امی کو ضد بحث کا موقعہ نہ مل سکے۔

اور خدیجہ بیگم بھی اگرچہ یہی چاہتی تھیں کہ انکے بیٹے کا گھر بس جائے، کیونکہ وہ کافی عرصے سے شادی کرنے پہ راضی نہیں تھا۔ کچھ تو اسکے باہر رہنے کی مجبوری تھی اور کچھ اسکی تنہائی پسندی۔

لیکن وہ اس لڑکی کے گھر والوں سے واقف ہوتے ہوئے بھی اسکی غربت اور نوکری کرنےکیوجہ سے خاندانی ناک اور غرور کی پرت کو دماغ سے اتارنے میں ناکام تھیں۔

جبکہ فراز بھی اگرچہ اپنی شادی کو لیکر اس بار تھوڑا قائل ہوا تھا اور سنجیدگی سے اس بابت سوچ رہا تھا لیکن وہ کنفیوز تھا کہ یہ شادی ایک غریب لڑکی کی مدد ہے یہ اپنا گھر بسانا۔
ایک طوائف کو گندگی سے نکال کر پناہ دینا ہے یا اپنی اولاد کی اخلاقی تباہی کیلئے گڑھا کھودنا۔ ایک گرتے ہوئے مکان کا ستون بننا ہے یا اپنے خاندان میں ایک پیشہ ور عورت کو داخل کرکے نام اور عزت کو بٹہ لگانا۔
ان تمام سوچوں میں غلطاں و پیچاں وہ چپ تھا۔ کسی کو نوشی کے حالیہ کریکٹر کے بارے میں بتا بھی نہیں سکتا تھا۔
کیونکہ جو فیملی ایک لڑکی کی غربت اور اسکے باپ پر الزام ہونے کیوجہ سے اسکو منحوس ٹھہرانے کو تیار بیٹھی تھی اگر اسکے طوائف ہونے کا سن لیتی تو الٹا فراز کی شامت آجانی تھی۔

ادھر نوشی بھی اس شش و پنج میں تھی کہ کوئی گھرانہ ایک پیشہ ور کو دھوکے میں قبول کر تو لے گا لیکن اگر بات کھل گئی تو کیا ہوگا؟؟؟

اور اگر بات نہ کھلی تو اسکو ساری زندگی فراز کے زیر نگیں رہنا پڑے گا۔ اسکا احسان مان کر۔ یا اسکی باندی بن کر۔

اگر فراز نے اسکو بلیک میل کیا؟؟؟ یا اسکی بیوہ ماں کے رکھنے کے بارے میں طعنہ زنی کی تو کیا وہ برداشت کرپائے گی؟؟؟

اور فی الوقت بھی اسکو میڈم اور اس کمینے میجر کی سنگدلی کا سامنا کرنا تھا۔ میڈم اسکو سر بازار واپس لانے کیلئے کوئی بھی گری پڑی حرکت کرنے میں عار محسوس نہ کرتی۔ چاہے وہ اسکا بھید کھول کر ہو یا کسی طرح اسکو بلیک میل کرکے ہو۔

میجر کے گھر سے وہ دو دن پہلے آگئی تھی۔ اگرچہ میڈم نے اس سے بات کی ہوگی لیکن وہ باولے کتے کی مانند بھونکتا کاٹتا پھر رہا ہوگا یہ بات نوشی اچھی طرح جانتی تھی۔

تیسرا زاویہ نگاہ اسکا خالص طوائف والا تھا۔ اور وہ یہ کہ طوائف کسی کی ملکیت خاصہ نہیں ہوا کرتی۔ وہ مفاد عامہ کی خاطر تخلیق کیا جانے والا ایک مادہ ہے۔ جس کے خمیر میں ہی مال چوسنا ودیعت ہے۔ وہ لوگوں کو عصمت فروخت کرتی اور بدلے میں مال لیتی ہے۔ مرد جو بھی کہے لیکن طوائف اس پہ مہربانی اور سخاوت میں درجہ اور فوقیت لے ہی جاتی ہے۔ وگرنہ مال کی مال کے بدلے تجارت کی سنت جاری ہے۔ مرد عورت دونوں یہ بیع و شریٰ کرتے آئے ہیں۔ البتہ عصمت کی فروخت میں عورت یکطرفہ نثار ہے۔ مرد نے ہوشمندی سے قکام لیتے ہوئے اسکا بدل سونا چاندی کو ٹھہرا دیا ہے۔ کاش اسکو بھی عصمت کے بدلے عصمت دینا پڑجاتی تو طوائف کا کاروبار جو در حقیقت مرد کا تیار کردہ ہے،ماند پڑنے کا واضح امکان تھا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
ٹھیک ہے سر، میں مانتی ہوں کہ ہماری سروس میں گھٹیا پن پایا گیا۔ اسکو یہ حرکت نہیں کرنی چاہئیے تھی۔ لیکن اس ایمرجنسی میں یہ ساری باتیں ماند پڑ ہی جاتی ہیں۔ دماغ کام چھوڑ گیا تو چلی آئی وہ۔

اور آپ سے بھی غلطی ہوئی۔ آپ نے اسکو دوسروں کیلئے سروس گرل بنایا جو کہ ایگریمنٹ کا حصہ نہیں تھا۔میجر لال پیلا ہوکر میڈم کے گھر جا پہنچا تھا اور خوب برسا تھا۔ اور اب میڈم اسکو پہلے ٹھنڈا کرنے کے بعد ٹھنڈی چوٹ دے رہی تھی۔ نوشی سے اسنے اگرچہ اپنا پیسہ وصول لیا تھا لیکن اسکو قرار نہیں آیا تھا کیونکہ وہ دس دن سے پہلے ہی چلی آئی تھی۔

القصہ میڈم نے اسکو ٹھنڈا کرکے بھیجا اور نوشی کو اطلاع کرکے مطمئن کردیا تھا۔ لیکن میجر کے شیطانی دماغ میں کچھ چل رہا تھا۔
وہ میڈم کے گھر سے نکل کر سیدھا اپنے دوست راجو کے پاس گیا۔

پرویز عرف راجو، وہی شخص جسکو بنگلے پہ مہمانوں کو لانے اور نوشی کے ذریعے ٹریٹ کروانے کی ذمے داری دی گئی تھی۔

ہاں تو کیا بنا مسٹر؟؟؟ منہ بھی لٹکا لیا؟؟ راجو نے قہقہہ مارا۔

اور کیا کیا لٹکا ہوا ہے بے منہ کے سوا؟؟؟ کبھی باز بھی آجایا کر۔ میجر کا منہ بنا ہوا تھا۔

اچھا بتا کیا بات ہوئی اس بڑھیا سے؟؟؟
کچھ نہیں بس اپنی جنگلی بلی کی سفارش اور وکالت کررہی تھی۔ میجر نے مختصر جواب دیا۔

کیا وکالت؟؟؟ راجو نے تجسس سے اسکی طرف دیکھا۔

یار اسکا باپ مرگیا تھا، اسوجہ سے وہ گھر چلی گئی تھی اپنے اس دن۔
کہ رہی تھی بڑھیا کہ کسی اور موقعے پہ نقصان پورا کردے گی۔ میجر نے بیزاری سے کہا۔

اوہ، اچھا۔ خیر باپ مرگیا تھا تو تجھے بھیج دینا چاہئیے تھا۔ جانا تو بنتا تھا۔ راجو کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
ابے تو اسکا باپ مرگیا تو کیا ہمارا نقصان کروائے گی؟؟؟ ویسے بھی کینسر کا مریض تھا مرنا تو تھا نا۔ خیر یہ سیگریٹ ادھر دے۔ میجر نے اسکے ہاتھ سے ڈبی لی اور جیب میں لائیٹر ٹٹولنے لگا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
خدیجہ بیگم اسی ہفتے میں کئی چکر نوشی کے گھر کے لگا چکی تھیں۔ نوشی کو بھی جیسے ہی اس لعنت سے چھٹکارا ملا تھا اسنے گھر اور ماں کو سنبھال لیا تھا۔ فراز نے چپ چاپ پیسے وغیرہ دیکر کچھ جوڑوں اور گھر کے کچھ سامان کا اہتمام کردیا تھا۔
اور یوں انکا کھنڈر کسی کے پدھارنے کے قابل ہوگیا تھا۔

اگرچہ مجموعی طور پہ گھر اب بھی کوئی موئن جو دڑو کا جھونپڑا لگتا تھا تاہم فراز کے بقول ان ماں بیٹی کو اب اسمیں رہنا ہی نہیں تھا تو یہ سب توجہ کے لائق نہیں رہا تھا۔

سائرہ تو اس سے بے پناہ محبت اور چاہت سے ملی تھی۔ اور اسکے گھر پہ دھیان دیے بنا اسنے اس سے گلے لگ کر آنسو بہانے سے لیکر بچپن اور لڑکپن کی یادوں کو اسی بوسیدہ صحن میں چوکی پہ بیٹھ کر تازہ کیا تھا۔

لیکن نوشی کو خدیجہ بیگم کی آنکھوں میں حقارت کا ایک رنگ سا اترا ہوا دکھائی دیا تھا۔ جسکو وہ بیٹے کی پسند اور بیٹی کی گرمجوشی کے باعث دبا رہی تھیں۔

نہیں بس ہم شادی کی کوئی بھی رسم ادا کیے بغیر ہی نکاح اور رخصتی کریں گے۔ البتہ ولیمہ ہماری طرف سے ہوگا۔ اسمیں ہماری مرضی جو کرنا چاہیں۔ سائرہ نے نوچی کے گھر سے واپسی پہ فیصلہ سنایا۔

لیکن خاندان والے کیا کہیں گے کہ بارات بھی بلائے بنا چوروں کیطرح لے گئے لڑکی کو۔ خدیجہ بیگم نے اسکو ٹوکا۔

ہاں تو آپ کیا چاہتی ہیں وہ اپنا گھر فروخت کرکے اپنی بیٹی کو بیاہیں۔
فراز بھی بیچ میں بول پڑا۔

تم چاپ چاپ گاڑی اور سڑک پہ دھیان دو۔
خدیجہ بیگم تلملا کر رہ گئیں۔

لیکن امی یہ وہی خاندان ہے جس نے ایک عرصے تک فراز سے نہ اسکی تعلیم کا پوچھا تھا نہ ہی یہ بات کہ اسکی شادی کا کیا بنے گا؟؟؟ اسوقت یہ دبئی میں گدھا مزدور کرکے خاندان کو سنبھالا دے رہا تھا۔

لیکن ہم معاشرے کی ایک روایت توڑ کر غریب بھک منگا ٹائپ گھرانہ اپنے ساتھ چپکا رہے ہیں۔ اب اتنا ہی کافی ہے۔ مزید مزاحیہ حرکتوں کی کم از کم میں تو قائل نہیں ہوں۔ خدیجہ بیگم نے نخوت سے ناک چڑائی۔

ہاں، یہ نام نہاد سوسائیٹی جیسے آپکو ایوارڈ سے نواز دے گی نا اسٹینڈرڈ مینٹین رکھنے پہ۔ رکھ لیجئے اپنا اسٹینڈرڈ اپنے پاس۔ میں چلا جاتا ہوں دبئی واپس۔
فراز غصے میں چلایا۔

ارے تم تو چپ رہو۔ اول فول بولتے ہو بس۔ سائرہ نے اسکو چپ کرایا اور پھر کسی نہ کسی طرح کرکے گھر پہنچنے سے پہلے ہی خدیجہ بیگم اس سادہ سی بارات پہ راضی ہوئیں۔
گھر کو بہت بہترین طریقے سے سجایا گیا تھا۔ آج بارات کو نوشی کو لیکر فراز کے گھر آنا تھا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
نوشی نے اپنی ایک کوٹھے کی سہیلی شبنم عرف شبو کو بلایا تھا۔ میک اپ اور مختلف چھوٹے کام اسکے حوالے تھے۔

واہ نوشی، آج تو ایکدم پٹاخہ لگ رہی ہے۔ شبو نے ہنس کر اسکی ران پہ ہاتھ مارا۔

آج یہ مت بول پٹاخہ وٹاخہ۔ میں اب کوئی کسبی نہیں ہوں کہ پٹاخہ لگوں گی۔ اسنے منہ بنا کر اسکا ہاتھ ہٹایا۔

چل دفع ہو۔ میک اپ کروا اب۔ آج کا میک اپ حق حلال کا ہے لیکن اسکے بعد پیسہ نہیں ملنے کا بیگم۔ شبو نے پھر پھلجڑی چھوڑی۔
ہاں لیکن اس میں سکون ہے۔ گالی نہیں، طعنہ زنی اور شرمساری نہیں ہے۔ میرا مان ہے اسمیں۔ رشتہ ہے۔ گھر ہے۔ چھپانا نہیں ہے۔ تحفظ اور وہ سب کچھ جسکا میں خواب دیکھ سکتی تھی۔

شبو، آج وہ خوف نہیں ہے مجھے، خود سے گھن نہیں آرہی، دیکھو کتنا سکون ہے۔ خوشی بھی۔ ایک نئی زندگی ملی ہے مجھے فراز کی شکل میں۔ اپنا گھر۔ اپنا شوہر۔ کیا ہوتا ہے یہ سب یہ ملنے کے بعد پتہ چلتا ہے۔
بستر اباد کرکے پیسہ جمع کرلینا گھٹیا ترین کام تو ہے لیکن شادی کے برابر ہر گز نہیں۔
کہاں جسم فروشی کرنا اور کہاں جسمانی تحفظ لیکر کسی کی عفت اور کسی کی ماں کا مقدس مقام حاصل کرنا۔
وہ جذباتی انداز میں بولتی چلی گئی۔

شبو نے پہلے تو حیران ہو کر اسکو دیکھا پھر چپ چاپ میک اپ کتنے لگی۔
اسنے ادا سے میک اپ کروایا۔ لیکن آج کے میک اپ میں ایک خوشی تھی۔ ناز تھا۔ کسی بے رحم ہاتھ کا ممکنہ لمس آج اسکو خوفزدہ نہیں کررہا تھا۔ آج تیار ہوتے اور لہنگا پہنتے وقت وہ سرور اور خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھی۔

نجانے کس نیکی کا صلہ ہوگا کہ میری اتنی اچھی اور نیک جگہ شادی ہوگئی۔

ورنہ بربادی کے اس گڑھے سے نکلنے میں چار جنم لگ جاتے۔ اسنے سوچا تو ایک آنسو ڈھلک کر گال پہ بہ گیا۔
ارے رونے کیوں لگی؟؟؟ اب میک اپ کا ستیا ناس کرے گی کلموہی۔ نسرین نے اسکو ڈانٹا۔
کک کچھ نہیں۔ ایسے ہی۔ اسنے جلدی سے ٹشو سے آنسو پونچھا۔

خوشی کا آنسو ہے میڈم کا۔ آخر کو شوہر جو اتنا سمارٹ ملا ہے۔ فلمی ہیرو کے ٹائپ کا۔ شبو نے اسکو چھیڑا تو وہ مسکرا دی۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
ارے جلدی کرو کیا کرنے لگ گئے تم لوگ؟؟؟ فراز سب سے پہلے ہی تیار ہوکر بیٹھ گیا تھا اور اب جلدی جلدی کی مشین بنا ہوا تھا۔

ارے کر ہی رہے ہیں جلدی۔ تم دماغ خراب کرنے کی بجائے منہ بند کرکے بیٹھ جاؤ۔
خدیجہ بیگم نے اسکو کرسی پہ بٹھاتے ہوئے جھڑکا۔

تھوڑی ہی دیر میں سب لوگ جلدی جلدی گاڑی میں سوار ہوئے اور تین گاڑیوں کا یہ چھوٹا سا قافلہ نوشی کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔

بارات کے آنے جانے کا دورانیہ صرف اتنا تھا کہ خاندان کے لوگ نوشی کا گھر دیکھ کر یا تو مسکرا پائے یا پھر ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھ کر آنکھ دبا کر رہ گئے۔

خدیجہ بیگم کی امید سے کہیں بڑھکر گھر کی درستی میں اضافہ ہوگیا تھا اور یہ سب کچھ فراز کی ہی مہربانی تھی۔ اسنے مہمانوں کے بیٹھنے سے لیکر کچھ ہلکی پھلیی مہمانی تک کا انتظام نسرین کو پیسے دیکر کردیا تھا اور نوشی کو کہلوادیا تھا کہ سکندر کا کوئی دوست یہ پیسے دے گیا تھا۔

نوشی کیطرف سے اسکی دو چار سہیلیاں، نسرین کی ایک منہ بولی بہن، دو چار پڑوسنیں اور خدا کی ذات تھی۔

کچھ خاطر تواضع کے بعد مہمان رخصت ہوئے۔ نوشی فراز کیساتھ نسرین کی بے شمار دعاؤں اور سسکیوں کے سائے میں رخصت ہوئی اور نسرین کو بعد میں لیجانے کا چپ وعدہ کرگئی۔

آج نسرین کو گھر بالکل ویران کھنڈر لگ تھا۔ جیسے ایک بہت بڑی سی قبر ہو۔ جسمیں اس پہ لاکھوں سانپ بچھو لپٹے ہوئے ہوں۔
فراز کیلئے اسکے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں۔ اس نوجوان نے گویا اسکو خرید لیا تھا۔
اسکو بیٹی کا گھر بس جانے کی خوشی تھی اور یہ خوشی اسکی تنہائی پہ غالب تھی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
(تیرھویں قسط)

رات گیارہ بجے وہ اپنے سجے سجائے حجلہ عروسی میں پہنچ چکی تھی۔
آج گلاب کے پھول بہت اچھے لگ رہے تھے۔ نوشی کو ایسا لگا جیسے وہ خواب دیکھ رہی ہو۔ اسنے بے یقینی سے ساتھ کھڑی سائرہ کو دیکھا تو وہ بے ساختہ ہنس دی۔

کیا ہوا نوشین؟؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟ ابھی تو تمہیں ہمارا فراز نامی گوبھی کا پھول بھی دیکھنا ہوگا۔
وہ قہقہہ مار کر ہنسی اور پھر ماں کے گھورنے پہ چپ ہوگئی۔

نوشی چپ چاپ لہنگا سمیٹتی شرماتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔

آج اسکا دل چاہا کہ اسکا شوہر اندر آئے تو وہ اسکے لئے گانا گائے۔ ناچے۔ لہنگا گھما کر ، ادائیں دکھا کر اسکا دل جیتے اور پھول اٹھا اٹھا کر اس سے کھیلے۔ اپنے مجازی خدا پہ واری صدقے ہوئی جائے۔
اسی کی کاوش تھی جو وہ آج اس عزتوں بھرے بستر پہ بیٹھی نگاہوں کا مرکز تھی۔ اور خوشیوں بھری زندگی کی شروعات کررہی تھی۔

ذرا سی دیر بعد قدموں کی ہلی سی آہٹ کیساتب اسنے مخصوص کھنکھار کی آواز سنی۔ پہلے تو سیدھے اندر گھسے آتے تھے لوگ۔ آج کسی نے انتباہ کرکے آنے کی اجازت لی تو اسکو ایسا لگا جیسے وہ جنت کی حور بنی کسی عالیشان محل میں ملکہ بنی بیٹھی ہے۔

فراز اندر داخل ہوا تو اسنے اس پہ ایک بھرپور نگاہ ڈالی۔
سفید شیروانی میں ملبوس، باریک ہئیر کٹ، فرینچ بنا کر وہ کسی ریاست کا راجکمار معلوم ہوتا تھا۔

ایک سائیڈ پہ کھسے اتار کر وہ اسکے برابر میں آبیٹھا۔
وہ سمٹ کر رہ گئی۔ لیکن آج کوئی خوف نہیں تھا۔ ایک سرور تھا جو دل و دماغ پہ چھا رہا تھا۔
فراز نے آہستگی سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور گھونگھٹ اٹھایا۔

نوشی!! آج تو تم حد سے زیادہ پیاری لگ رہی ہو۔ فراز نے اسکا گھونگھٹ سرکایا تو وہ شرما گئی۔

بچپن سے سوچا تھا میری دلہن پری جیسی ہوگی۔ آج پتہ چلا کہ پریوں سے خوبصورت بھی ہوسکتی ہے۔

ارے کچھ بولو بھی اب، کاہے جان نکال رہی ہو ہماری۔
وہ اسکے قریب ہوا اور چمٹ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔

کیا کہوں، اب تو تمہاری ہوں۔ اور تم میرے۔ ساری زندگی تمہاری خدمت کروں تب بھی کم ہے جو تم نے...
وہ کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ فراز نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔
میں نے کچھ نہیں جانم، سب اسکی طرف سے ہوا ہے۔ اسنے آسمان کیطرف انگلی اٹھائی تو وہ ہاں میں سر ہلا کر رہ گئی۔
 

Top