Adultery شومئ قسمت (Completed)

.
Moderator
2,363
1,818
143
ارے ارے خدیجہ بس کرو۔ ایسا بھی نہیں کچھ ہونے والا۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔ سبین آپا سے اب ماحول سنبھالا نہیں جارہا تھا۔
اچھا سنو تو! ارے ہوسکتا ہے اس لڑکی نے یہ سب چھوڑ دیا ہو بھئی۔ خدیجہ تم بچوں کیطرح ٹسوے بہانے لگیں۔
سبین آپا اپنی سہیلی کو سنبھالنے لگیں اور دوسری طرف کھڑی بہو منہ بنا کر سوچنے لگی کہ اماں اگر اپنا سرکس ختم کریں تو مزید اسٹوری سننے کو ملے۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
جی بس یہ سب سامان یہیں ڈھانک دیجئے۔ ارے کپڑے برتن دھلے ہوئے تو ہیں۔ سمیٹ لیتے ہیں۔ اسکے بعد بس ابھی تو اندر کمرے میں بند کردیجئے۔
نوشی ماں کیساتھ جلدی جلدی گھر سمیٹ کر اندر کے کمرے میں ڈمپ کروانے لگی۔
جلد ہی ضروری سامان پیک کرکے اورباقی سامان اندر کمرے میں سیٹ کرکے وہ لوگ واپسی کیلئے مڑے۔
چلو کھانا کھالیتے ہیں یہاں۔ فراز نے ریسٹورنٹ دیکھ کر گاڑی گھمادی۔

ارے بیٹا کیوں تکلیف کرتے ہو، یہ بنادے گی نا گھر جاکر کھانا۔ اور مجھے بھی بھوک نہیں ہے ایسی۔ نسرین نے اسے ٹالنا چاہا لیکن وہ نہیں نہیں کرکے چپ ہوگیا۔

وہ لوگ کھانا کھا کر ہنستے مسکراتے باہر نکلے تھے۔ لیکن انکو خبر نہ تھی کہ انکے پیچھے گھر میں ایک قیامت برپا ہو چکی تھی۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
ہاں بس، پہلے فراز سے بات کرو۔ اور دیکھو وہ کیا کہتا ہے۔

ارے کہنا کیا ہے سبین۔ میں تو کہونگی کہ لعنت بھیجو اس طوائف پہ۔ نجانے پیدا ہونے والا بچہ بھی اپنا ہوگا یا نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی دعویدار ہی نکل آئے اس بچے کا۔
سو مفت میں ایک ٹھپہ اور لگے گا۔
میں سائرہ کو بلالیتی ہوں۔

ارے نہیں نہیں خدیجہ۔ اس سب کی ضرورت نہیں ہے بیوقوفی مت کرو۔ سبین آپا نے بہتیری کوشش کی لیکن وہ خدیجہ بیگم ہی کیا جو مان جاتیں۔ اب تو نوشی انکو ایک ڈائن کے روپ میں دکھائی دے رہی تھی جو انکے گھر میں پیر پسارے پڑی تھی اور غیر محسوس طریقے سے قدم جمارہی تھی۔

انہوں نے فون کرکے سائرہ کو بلالیا تھا۔
بڑی بہو اسکے آنے سے قبل ہی ہمدرد بن کر ساس کے آسو پونچھنے کے بہانے سبین آپا کے نہ چاہتے ہوئے بھی شریک محفل ہوچکی تھی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
(آخری قسط)

ہاں تو اب بتائیں کیا ہوگیا ایسا؟؟؟
سائرہ پھولے سانس کیساتھ گویا ہوئی۔

انہوں نے جلدی جلدی اسکو ساری بات بتائی اور وہ بھی ماں کیطرح سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔

امی نوشین کے بارے میں تو میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ لیکن سامنے بھی کوئی ایرا غیرا نہیں سبین آپا کھڑی ہیں۔
اسلئے ایسا ہی ہوا ہوگا۔ لیکن اب یہی بہتر ہے کہ فراز کو بتایا جائے۔ اس سے بات کی جائے۔

آج میں یہیں رک جاتی ہوں۔ پھر اس کی خبر لیں گے۔
ہاں چلو۔ تمہیں تکلیف نہ کوئی۔ خدیجہ نے اسکی ایمرجنسی آمد کیوجہ سے تشویش کا اظہار کیا۔

نہیں حامد کیلئے سالن بنا رکھا ہے۔ کھانا کھلا کر آئی ہوں اور رات کیلئے کچھ کرلیں گے وہ۔
اب سبین آپا سے مزید بات کرکے انہوں نے انکو رخصت کیا اور مورچہ سنبھال کر بیٹھ گئے۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
دروازے پہ دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا تو فراز سائرہ کی شکل دیکھ کر حیران رہ گیا۔

ارے تمم؟؟؟ کیسے آگئیں؟؟
ہاں میں ایک کام سے آگئی۔ ارے آنٹی کو لائے ہو۔ السلام علیکم آنٹی۔
اسنے نہ چاہتے ہوئے بھی نسرین کو گلے لگا کر ہاتھ ملایا۔

واہ دیکھو نوشین کو ، یہ اپنی اماں کو بھی یہیں سیٹ کروانے کے چکر میں ہے۔ سائرہ نے نفرت سے سوچا اور اسکے ذہن میں نوشی کی بھولپن کی تصویر کی جگہ ایک عیار طوائف کا چہرہ بس گیا۔

نوشین اور فراز سامان اٹھائے کسی بھی بات سے بے نیاز اندر داخل ہوئے۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ گھر کے در و دیوار اجنبی سے ہیں۔
ہر چیز جیسے اسکو گھور رہی ہو۔
نچلی چوکھٹ پہ کھڑی جٹھانی عجیب سی نگاہوں سے اسکو دیکھ رہی تھی۔ جیسے کہ رہی ہو " گیم اوور"۔

وہ اماں کو سہارا دیکر اوپر لائی، فریج سے پانی نکال کر دیا۔ شرمسار ، گنگ سی لڑکی کے گھر بیٹھی نسرین کیا بولتی۔ خواہشات تو اسکی نجانے کس زمانے میں مرچکی تھیں، اب تو ضروریات کا بھی حوصلہ ختم ہوگیا تھا۔
وہ چپ چاپ بیٹھی اپنی بیٹی کے اچھے سسرال کو دعا دینے لگی۔
اچانک خدیجہ بیگم کیطرف سے فراز کا بلاوا آگیا۔
وہ نیچے کیطرف لپکا تو نجانے کیوں نوشی نے اسکو روک لیا۔

ارے کیا ہوا جان، آرہا ہوں نا ابھی۔

نہیں فراز، مجھے ڈر سال لگ رہا ہے نجانے کیوں، آپ انکو کہ دیں کہ بعد میں آؤنگا۔
ارے کچھ نہیں ہے ایسا۔ ابھی آجاؤنگا میں۔
وہ اٹھ کر چلا گیا۔ اورنوشی ہولتے دل کیساتھ اماں کے پاس ڈھے گئی۔

آؤ فراز میاں۔ ذرا آپ سے بھی کچھ باتیں کریں۔ خدیجہ بیگم طنزیہ انداز میں بولیں۔

جی کیجئے کیا باتیں کرنی ہیں۔

گھر بسانے کے چکر میں سانپ پال لئے ہیں ہمارے برخوردار نے، ایسی بھی کیا آفت آگئی تھی میاں؟؟؟ انہوں نے کاٹ کھانے والی نگاہوں سے اسکو گھورا۔

کیا ہوا اب بتا بھی دیں۔
وہ کچھ جھنجھلا کر بولا۔
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
یہی کہ جس طوائف کو تم نے گھر لاکر بسا دیا ہے اسکو اسی طرح اب واپس بھی دفع کردو۔ وہ زور سے چلّائیں۔
کیا؟؟؟ کک…کس نے کہ دیا آپ سے... یہ... یہ سب۔ فراز ایکدم بوکھلا سا گیا۔

یہ سب چھوڑو یہ بتاؤ کہ یہ مل کیسے گئی تمکو؟؟ اتنی گھٹیا نظر ہوگی تمہاری یہ تو ہمیں احساس بھی نہیں تھا۔
ایک بازاری عورت کو یہاں ہمارے حلالی گھر میں لا بٹھاؤ گے یہ سوچا بھی نہیں تھا میں نے۔ خدیجہ بیگم کا مارے غصے کے چہرہ سرخ تھا۔ سائرہ اور بڑی بہو کونے میں کھڑی تھیں۔

ان سب کو بھی بتادیا یعنی آپ نے۔ کم سے کم آہستہ تو بول لیں۔ فراز کی منمنائی آواز ابھری۔ پھر اسنے اٹھ کر جھٹ سے دروازہ بند کردیا۔

ہوا کیا ہے؟؟؟ مجھے تفصیل بتائے گا کوئی؟؟ تاکہ میں کچھ جواب دے سکوں؟؟؟ فراز نے ہمت جمع کرکے زبان کھولی۔

اسکے چہرے پہ ایک رنگ آرہا تھا تو دوسرا جارہا تھا۔

آج سبین آئی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسکے لڑکے کا کوئی دوست میجر ہے۔ شادی شدہ اور طوائفوں کا شوقین۔ انکے اس منحوس سے بھی تعلقات تھے۔

ایک سیکنڈ امی، ابھی اسکا فیصلہ نہیں ہوا کہ وہ کیا ہے۔ اگر ثابت ہوگیا کہ وہ برے کردار کی ہے تو جو جی میں آئے کہیے گا۔ فراز نے انکی بات کاٹ کر انکو روک دیا۔

اچھاااا، تو میاں آپکی لاڈلی سے انکے مراسم تھے یوں کہ لیجئے۔ خدیجہ بیگم نے ایک اور نشتر مارا۔
لیکن یہ سب ہمکو پتہ کیوں نہیں چلا؟؟
کیا کمی کردی تھی ہم نے تمہارے ساتھ؟؟؟ پڑھایا لکھایا باہر بھیجا، تمہارے باپ کے مرنے کے بعد کی تنگی برداشت کی لیکن زبان نہ کھولی۔
تم نے باہر کیا رنگ رلیاں منائیں ان سے ہمارا لین دینا نہیں ہے لیکن اسطرح خاندان میں ناک کٹوانا ہم سے برداشت نہیں ہوگا۔
خدیجہ بیگم کی آواز اتنی اونچی ہوئی کہ اوپر والی منزل تک پہنچ گئی۔

یہ ، یہ لوگ کیا جھگڑ رہے ہیں نوشی؟؟؟ اماں نے اس سے پوچھا۔

ارے کچھ نہیں اماں، میری ساس اپنے بیٹے کو ڈانٹ رہی ہونگی، دیکھ کر آتی ہوں۔ یہ کہ کر وہ اٹھی اور زینے پہ آکر چپ چاپ کان لگایا ہی تھا کہ اسکے کانوں میں زہر گھولتے الفاظ ٹکرائے "لیکن یہ بتاؤ فراز میاں کہ تم کیسے کوٹھے کا مال اٹھا لائے؟؟؟ گئے تھے نا "کوٹھا یاترا" پہ.

اور اسکا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔
اسکو ایسا لگا جیسے اسکو کسی نے سر بازار برہنہ کرکے کھڑا کردیا ہو۔

ایکطرف اسکی حقیقت کھل گئی تھی اور دوسری طرف اسکی اماں یعنی نسرین بھی بدقسمتی سے اسی گھر میں موجود تھی۔
ایک لمحے کو نوشین کو سر گھومتا محسوس ہوا لیکن اگلے لمحے اس نے اس جہنم میں قد م رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔
جب بات کھل ہی گئی ہے تو کیوں نہ سبھی سے دو دو ہاتھ کرلئے جائیں۔
وہ چپ چاپ سیڑھیاں اتر کر نیچے جا پہنچی۔
سبھی اسکو اچانک دیکھ کر گنگ رہ گئے۔ جیسے انمیں سانس کا گزر ہی نہ ہو۔
وہ سلام کرکے ایک طرف کھڑی ہوگئی۔
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
ہاں، کوئی کام تھا کیا؟؟؟ خدیجہ بیگم نے سوالیہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا۔
جی ، کام تو بہت اہم ہے۔ کچھ آواز سنی تھی آپکی، سوچا اپنی کچھ وضاحت کردوں۔ اس نے انہی کے انداز میں ترکی بہ ترکی جواب دیا تو خدیجہ بیگم پہلو بدل کر رہ گئیں۔

ہاں، بیٹھ جائیے۔ آئیے۔ سنا ہے بہت اچھی مشہوری ہے آپکی۔ کیسے پھنسا لیا آپ نے میرے بیٹے کو؟؟؟ خدیجہ بیگم نے اس پہ حملہ کیا۔

ہنہہہہ، رکیے، آپکا بیٹا خود ہمارے خانے پہ منہ مارنے آیا تھا بی بی جی، اتنی اوور مت ہوں۔ اس سے پوچھئیے کہ اتنے معزز خاندان کا فرد ایک کوٹھے پہ کیا کررہا تھا؟؟؟

سائرہ جاکر اسکی ماں کو بھی بلا لاؤ۔وہ بھی تو دیکھے اپنی پاکیزہ بیٹی کی کرامات اور پاکدامنی۔ خدیجہ بیگم کے کہنے پہ سائرہ نسرین کو بھی بلا لائی۔
اسکا رنگ بھی یہ باتیں سن کر فق ہوگیا۔

نہیں بہن آپکو غلط بات کہ دی کسی نے، میری بیٹی کو ہم نے بہت مان سے رکھا ہے۔ قدرت نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ....
کہ ہماری پیاری بیٹی کوٹھے کی ملکہ بن گئی، ہیں نا۔ اور فاحشہ بن کر کمائی سینٹر کھول کر بیٹھ گئی۔
یہی کہنا چاہتی ہیں نا آپ۔خدیجہ بیگم نے اسکی بات کاٹ کر جملہ مکمل کیا۔
ہرگز نہیں، میری بیٹی پہ اتنا بیہودہ الزام لگاتے ہوئے خدا سے ڈرنا چاہئیے۔ غریب ہیں لیکن جسم فروش نہیں ہیں ہم۔ نسرین کو شدید غصہ آگیا تھا۔
بتا دو بھئی اپنی اماں کو۔ کتنی پاکیزہ ہو تم۔ کوٹھے کہ لائق فائق ناچنے والی پارو بیگم۔
نوشی نام کی ہیروئن کتنی مشہور ہے، سب بتا چکی ہے مجھے سبین۔ اسکے بعد تفصیل سے نسرین کو "سبین رپورٹ" پہ بریفنگ دی گئی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔

بس بس زیادہ ڈرامے بازی کی ضرورت نہیں ہے۔
اور تم۔ اپنی ماں کو بھی جھوٹ بولا کہ فیکٹری ورکر ہو۔ اور میرے بیٹے کو کیا بول کر پھنسا لیا تھا؟؟؟ بتانا ذرا پاکیزہ بیگم؟؟؟ خدیجہ بیگم مسلسل طنز کے تیر چلا رہی تھیں۔
میں نے جو کیا ، اپنی اور اپنے ماں باپ کی زندگی بچانے کیلئے کیا۔
میں فیکٹری ورکر تھی لیکن مجھے پھانسا گیا تھا۔ یہ سب کیسے بتاتی سب کو۔
باپ مررہا تھا۔ ماں الگ بیمار تھی۔ چپ چاپ دنیا کے ہتھے چڑھ گئی۔

اور دوسری بات یہ ہیکہ میں نے کوئی نہیں پھانسا اسکو۔ آپ کونسا اسکی اتنی جلدی شادی کرنے والی تھیں، اسی نے میرے ساتھ نیکی کرکے ....
واہ واہ، ایسی نیکیاں میری اولاد نہیں کرتی۔ تم جیسی نیچ عورتوں کا کام یہی ہوتا ہے۔کسی بھی معصوم مرد کو پھنسا کر شادی کرلینا پھر لوٹ کر بھاگ جانا۔ دیکھو تو ذرا کیسے گز بھر کی زبان نکل آئی ہے منحوس کی۔

ہاں، ہوں طوائف، ہوں میں۔ ابھی تو آپ نے گالیاں نہیں سنیں میری۔ اور ایک طوائف جو اچھی زندگی سے نکل کر طوائف بنی تھی اسکو دوبارہ اچھی زندگی کیطرف آنے سے روکنے والا کوئی مرد نہیں ایک عورت ہی ہے۔
حالانکہ طوائف مرد بناتا ہے۔ لیکن اسکو عروج عورت عطا کرتی ہے۔ ساس کی شکل میں، کوٹھے والی کی شکل میں، اور بھی بیشمار شکلوں میں۔
وہ بے اختیار بولتی چلی گئی۔
نہیں، میری بیٹی کوئی طوائف نہیں ہے۔ اگر آپکو اس کی کسی بات کا پتہ چل گیا تھا تو کونسا اس نھ اب آپکے گھر سے نکلنا تھا جو اتنا ڈھنڈورا پیٹ کر اسکا گھر برباد کرنے پہ تلی کوئی ہیں آپ؟؟؟
نسرین نے سسکتے لہجے میں کہا۔

ہنہہہ،بہت خوب۔ اور آپ جیسی ماؤوں کو تو سلام پیش کرنا چاہئیے جو بدن فروشی کی کمائی کھا کر پل رہی تھیں اور اب اپنی بیٹی کو ڈیفینڈ کرنے کیلئے بہانے ترلے شروع کردیے ہیں۔ سائرہ نے بھی ماں کی شہ پہ اب زبان کھولی تھی۔

تم کیوں منہ بند کرکے بیٹھ گئے ہو؟؟؟ زنخے ہو کیا؟؟؟ تمہاری بیوی کو سب کے سامنے گالیاں پڑ ررہی ہیں اور تم چپ بیٹھے ہو؟؟؟ اسنے فراز کو چنگھاڑ کر کہا جو کب سے کونے میں دبکا بیٹھا تھا۔

اسی دم خدیجہ بیگم کا کنٹرول ہی ختم ہوگیا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھیں اور ایک زناٹے دار تھپڑ نوشین کے گال پہ جمادیا۔ وہ لڑکھڑائی اور پھر گال تھام کر آنسوؤں سے رونے لگی۔
سائرہ بھی ہکا بکا کھڑی ماں کو تکنے لگی۔ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ انکا ضبط اتنا نازک ثابت ہوگا۔
فراز کے بھی یہ دیکھ کر چھکے چھوٹ گئے۔
دوسری طرف خدیجہ بیگم کی چنگھاڑتی آواز اسکے کانوں میں پڑی:
سن لیا نا؟؟؟ ایسی ہوتی ہیں وہ عورتیں جنکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سانپ کا کام کاٹنا ہی ہے چاہے اسکو چلوؤں سے دودھ پلایا ہو۔
نکال باہر کرو اسکو فراز۔ دفع کردو اسکو۔ وہ بھرپور قوت سے چلا رہی تھیں۔

فراز نے ایک نظر نوشین پہ ڈالی تو اسکے سامنے اسکا چند ماہ پرانا ڈرا سہما چہرہ گھوم گیا۔
چہرے پہ تھپڑوں کے نشانات، نشے میں چور بدن، بظاہر چمکیلا مگر کانٹوں کے لباس سے بھی زیادہ تکلیف دہ پیرہن۔
اور آج وہ اسی صورتحال سے دوچار اسکے سامنے کھڑی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔

کیوں بت بنے کھڑے ہو جاہل انسان۔ نکالو اسکو. اور آپ بھی رخصت ہوجائیے یہاں سے اب۔ خدیجہ بیگم نے نسرین کے سراپے پہ ایک نظر ڈال کر کہا۔
اپنے بیٹے کی کسی انسانو​
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
اپنے بیٹے کی کسی انسانوں والے گھر میں شادی کرلونگی میں۔ اسکو کمی نہیں ہے لڑکیوں کی۔ اتنی اوقات نہیں گری ہماری کہ طوائفیں ہماری نسلوں کی مائیں بنیں۔

اب فراز کی ہمت جواب دے رہی تھی، اسنے اٹھ کر نوشی کی کلائی تھامی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
کیا ہوا چھوڑو مجھے، ایک طوائف ہوں نا میں،، چھوڑو میرا ہاتھ۔ ہٹو پیچھے... نوشی اس کے سامنے ناکام سا احتجاج کرتی رہ گئی۔ جب اسنے زیادہ ہی ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو فرازنے اسکو کھینچ کو گود میں لیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگیا۔
نسرین ان بھیڑیوں میں گھری گم صم سی بیٹھی رہ گئی۔

یہ لیں پانی، آپکو ہارٹ پین بھی رہتا ہے نا۔ جو ہونا تھا ہوچکا۔ سائرہ نے اسکو پانی کا گلاس تھمایا۔
اس نے چپ چاپ گلاس لیا اور پینے لگی۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
اپنے بیٹے کی کسی انسانوں والے گھر میں شادی کرلونگی میں۔ اسکو کمی نہیں ہے لڑکیوں کی۔ اتنی اوقات نہیں گری ہماری کہ طوائفیں ہماری نسلوں کی مائیں بنیں۔

اب فراز کی ہمت جواب دے رہی تھی، اسنے اٹھ کر نوشی کی کلائی تھامی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
کیا ہوا چھوڑو مجھے، ایک طوائف ہوں نا میں،، چھوڑو میرا ہاتھ۔ ہٹو پیچھے... نوشی اس کے سامنے ناکام سا احتجاج کرتی رہ گئی۔ جب اسنے زیادہ ہی ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو فرازنے اسکو کھینچ کو گود میں لیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگیا۔
نسرین ان بھیڑیوں میں گھری گم صم سی بیٹھی رہ گئی۔

یہ لیں پانی، آپکو ہارٹ پین بھی رہتا ہے نا۔ جو ہونا تھا ہوچکا۔ سائرہ نے اسکو پانی کا گلاس تھمایا۔
اس نے چپ چاپ گلاس لیا اور پینے لگی۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,818
143
دیکھو نوشی، میں اپنی ماں کے سامنے ایک بھی لفظ نہیں بول سکتا تھا۔ انکو پورے خاندان میں اب مرکزی پوزیشن حاصل ہے۔ میں اگرچہ باہر ہوتا ہوں لیکن فیملی کے بغیر میں کچھ بھی نہیں ہوں۔

ہاں تو یہ سب تمکو پہلے سوچنا چاہئیے تھا نا۔ کیوں مجھے سبز باغ دکھائے تم نے؟؟؟
جب حفاظت نہیں کرسکتے تھے تو یہ کیچڑ سے کنول نکال کر اپنے تالاب میں کیوں لائے تم؟؟؟ وہ دوبارہ سسکیاں بھرنے لگی۔

اسوقت دوسری پوزیشن تھی اور اب دوسری ہے نوشی، میرے خیال میں وہ بات کھل نہیں سکتی تھی۔ لیکن اس میجر نے ساری بات کھول دی۔
اب میں کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔ وہ سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔

کرنا کیا ہے۔ جو تمہاری امی نے کہا ہے وہی کرو گے نا۔ دھکے دیکر نکال دینا مجھے۔ اسنے "دھکے" پہ زور دیتے ہوئے کہا۔

ایسا کس نے کہ دیا تم سے؟؟؟ باعزت طریقے سے لایا تھا کوئی بھگا کر نہیں لایا تمکو۔ فراز کی آواز رندھ گئی۔

تمہاری امی نے یہ سب کیوں کیا؟؟؟ وہ چپ چاپ پوچھ گچھ بھی کرسکتی تھیں۔ اب کیا ہوگا؟؟؟

تم فکر مت کرو۔ میں ن سے بات کرتا ہوں۔ تھوڑا وقت لگے گا اسمیں. وہ تمکو رکھ لیں گی۔ فراز کی یہ حالت تھی جیسے اسکو خود اپنے الفاظ پہ بھروسہ نہ رہا ہو۔

نہیں فراز، میں کسی کی رکھیل نہیں ہوں جو اسطرح دب کر رہوں۔ مجھے کسی کا احسان مند ہوکر نہیں رہنا۔
تم اپنی دنیا میں خوش رہو۔ میں نے کہا بھی تھا کہ میں تمہارے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہوپاؤنگی۔
ایک طوائف گھر بسا تو لیتی ہے لیکن اسکو مکمل گھر نہیں کرپاتی۔
جبکہ ایک دلال ایک نیک ایرت مرد بنتے دو گھنٹء سے بھی کم لگاتا ہے۔ وہ اسکے بعد باعزت طریقے سے رشوت اور ہیرا پھیری کرکے حرام کھاتا ہے۔ اور عورت اپنی عفت بیچ کر بھی مرد کی نگاہ میں ایک ننگے جسم سے زیادہ عزت کی حقدار نہیں ہوتی۔
مسٹر فراز، مرد و عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں۔ لیکن مادیات کے اس جنجال پورے میں انسانوں کی قدر ایسی گری ہے کہ عورت کو اپنا جسم بیچنا پڑرہا ہے۔
فروخت کار اپنا قیمتی ترین سرمایہ بیچ کر بھی قصور وار ہے اور خریدار ایک گھٹیا ترین چیز دیکر بھی فوج میں افسر ہے۔ اور اس طوائف باز کو تمہاری ساس برا شاید نہ سمجھیں، تم نے جو میرے ساتھ ہوٹل میں رات گزاری وہ بھی انکو نہ کھلے، لیکن میری توبہ پہ انکو اعتراضات ہیں تو ہاں!!!!
میں طوائف تھی۔۔۔ میں طوائف ہوں اور رہونگی۔

ایسا تو مت کہو نوشی۔ فراز نے اسکو کندھے سے پکڑنے کی کوشش کی تو وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔

نہیں فراز، دور ہوجاؤ۔ مجھے مت چھونا۔ اب پیسے لونگی چھونے کے۔ نوشی پہ ایک دیوانگی سی طاری تھی۔
ارے ارے نوشی، ہوش میں آؤ۔ فراز نے اسکو پکڑ کر جھنجھوڑا۔

اچھا۔ میں ہوش میں آگئی۔ لیکن پلیز مجھے چھوڑ دو۔ تم مجھے کچھ دو یا نہ دو۔ مجھے اس سے کچب مطلب نہیں ہے۔مہر بھی رکھ لو۔ اور کچھ بھی لینا چاہو تو لے لو​
 

Top