Adultery شومئ قسمت (Completed)

.
Moderator
2,363
1,824
143
میں پرسکون ہوکر یہ شادی توڑ رہی ہوں۔ کیونکہ میں طعنوں اور شکی نگاہوں کے زیر سایہ زندگی نہہں گزار سکتی۔
اور اس سب کی ذمے دار تمہاری امی ہیں۔
کاش وہ چپ رہ جاتیں فراز۔ کاش!!!
اسنے کاش اتنے درد بھرے لہجے میں کہا کہ فراز کو لگا کہ ابھی آسمان سے کوئی تارہ ٹوٹ کر گرے گا اور پورا گھر جل کر بھسم ہوجائے گا۔
وہ بت بنا اسکی بات سنتا رہا۔
اور تمہاری بہن،،، میری سہیلی۔ اسنے میری بوڑھی ماں کو طعنہ دیا۔۔۔ میرے طوائف ہونے کا طعنہ میری ماں کو ملے فراز،،، اور تمہارے عیاش ہونے کا طعنہ تمہاری امی کو کجا، ان سے بلکہ تم سے کسی کو شکوہ بھی نہ ہو۔
تو اس سے بہتر یہ کہ ہم جدا ہوجائیں۔
اپنی اپنی راہ لیں۔ پسند کرو تو کچھ نواز دینا۔
یہی سمجھونگی کہ نواب صاحب نے ادنیٰ سی رکھیل کو کچھ دن رکھ کر نوازدیا۔
بس بھی کرو نوشی۔ قتل کردو اس سے اچھا ہے مجھکو۔ فراز اس سے لپٹ کر ہچکیوں سے رونے لگا۔
سائرہ بھی چپ چاپ دروازے پہ آکھڑی ہوئی تھی لیکن یہ منظر دیکھ کر وہ چوکھٹ کے پیچھے ہوگئی۔

بس کرو ، یہ ساتھ اب نہیں رہا جان، اب تم پہ کسی بھی طوائف کا سایہ نہیں رہا۔ وہ اسکا گال چومتے ہوئے بولی۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
دو دن مزید وہاں رہنے کے بعد بھی حالات میں کچھ بدلاؤ نہیں آیا تھا۔
ایکطرف خدیجہ بیگم کی ضد تھی کہ فراز نوشی کو چھوڑ دے۔ اور دوسری طرف نوشی نے یہ شرط رکھ دی تھی کہ خدیجہ بیگم علی الاعلان معافی مانگیں گی اور وہ انکو یہ بتائے گی کہ فراز اور وہ شادج سے پہلے بھی ایک مرتبہ ہوٹل میں شب باشی کرچکے ہیں۔

دو دن مزید بات چیت رہی۔سبین آپا کو بھی شریک محفل کیا گیا۔
نوشی نے مکمل اقرارِ جرم کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اسکا فراز سے شادی کے بعد خون کا آخری قطرہ بھی اسکی عزت پہ قربان کرنے کا عہد تھا لیکن وہ اپنے اور اپنی ماں کے دامن پہ لگا یہ داغ برداشت نہیں کرپائے گی بجز اسکے کہ خدیجہ بیگم علی الاعلان معافی مانگیں۔ اسنے میجر کے عزائم کے بارے میں ان سب کو بتایا۔ اور اپنے اور فراز کے ملنے سے لیکر اب تک کی سب تفصیل بھی۔
سبھی کو امید تھی کہ مسئلہ سلجھ جائے گا لیکن خدیجہ بیگم نے معافی سے انکار کردیا اور نوشی معافی پہ اڑ گئی۔

آخر کار اس بات پہ ہی اتفاق ہوا کہ یہ رشتہ ختم ہوجانا چاہئیے۔ اور یوں بہن، ماں، بھابھی اور سبین آنٹی کی دعاؤں کے بھروسے پہ بے آسرا ماں بیٹی کو اسی ویران جھونپڑے نما گھر بھیج دیا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
تین دن ہوچکے ہیں۔ نوشی کو فرازکیطرف سے کچھ سونا، نقدی اور کچھ کپڑے ملے ہیں۔
شادی کیلئے لیا گیا چھوٹا سامان، ڈنر سیٹ اور تحفے بھی فراز نے نوشی کو دے دیے ہیں۔
کھانا اسی نے لاکر دیا ہے۔
پانچویں دن نوشی نے گھر سے باہر قدم رکھا۔
نسرین نے اسکو نہ روکا تو اسکو خود بھی حیرت کا جھٹکا لگا۔
خیر مغرب ہوتے ہوتے وہ اپنے پرانے مسکن پہ پہنچ چکی تھی۔
سب وہی دیکھا دیکھا منظر۔ وہی ہنسی ٹھٹھولے، وہی گرم بازاری، دھوئیں کے اٹھتے مرغولے۔
وہ چپ چاپ کھسکتی ، کسی کی نگاہ اور کسی کا ہاتھ برداشت کرتی اور گالیاں بکتی پرانی عادت کے مطابق میڈم کے کوٹھے پہ جا پہنچی۔

کک کیا، ،،،، کون ؟؟؟ میرا مطلب نوشی کیا ہوا چندا؟؟؟ میڈم کے تو اسکو دیکھتے ہی ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے۔
ارے چھوڑو بس۔ سمجھو بڑا کنٹریکٹ ملا تھا۔ اسنے ایک غلیظ سی گالی لڑھکاتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔

تو رو کیوں رہی ہے؟؟؟ ابے چھوڑ نا۔ اس نے میڈم کے چہرے سے آنسو صاف کرتے ہوئےکہا۔
دیکھ یہ لہنگے لائی ہوں۔ دو ہیں جو پسند آجائے تو رکھ لے۔ ساتھ میں کرتی اپنے لئے جوڑ لینا۔
اسنے تھیلا میڈم کے سامنے الٹ دیا۔

چائے پانی کرکے میڈم نے اسکو بتایا کہ میجر اسکا پتہ پوچھ رہا تھا لیکن اس نے منع کردیا۔
اچھا۔ اس کو بلا چل آج۔ نوشی نے آنکھ دبائی۔
آج دھندے کا اسٹارٹ اسی سے لونگی۔ وہ سیگرٹ کا کش لگاتے ہوئے بولی۔
کچھ گھنٹے بعد وہ میجر کے روبرو تھی۔
ہاں بے بھگوڑی، آگئی نا واپس میرے چنگل میں۔ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
ہاں آگئی۔ اور اس بار میں بہت کچھ کرکے آئی ہوں۔ علی الاعلان طوائف ہوں اب۔ اور اب تجھ سے ڈر بھی نہیں لگتا۔
چاہےتو بنگلے پہ رکھے۔ چلے گا کیا؟ اس نے اسکودیکھ کر آنکھ ماری تو وہ ہل کر رہ گیا۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
بیس سال گزر چکے ہیں۔ نسرین کا عرصہ ہوا انتقال ہوچکا ہے۔

میڈم بھی دنیا سے رخصت ہوچکی ہے۔ غازی بابا کے مزار کی مشرقی جانب ایک قدیم قبرستان میں ایک نامی طوائف "نیلم رانی" کی پائینتی روبینہ عرف میڈم کی آرامگاہ ہے۔

نوشی اب میڈم کہلاتی ہے۔ اسکے انڈر میں چار لڑکیاں ہیں۔ اسکے چہرے پہ جا بجا زمانہ تحریر ہے۔ اسمیں نائکہ کی سینہ زوری ہے۔ مدخولہ کا بے دھڑک پنا ہے۔ طوائف کی عیاری ہے۔ یہی اسکا گھر بار ہے۔ اسکا بھی اب بنگلہ ہے۔ کچھ میڈم نے نام کردیا تھا۔ کچھ کما لیا۔ سیٹھ لوگ اسکے یہاں ناچ دیکھنے اور مال نچھاور کرنے آتے ہیں۔

استاد اور ماہر طبلہ نواز سے لیکر بینڈ باجا، ہارمونیم، سازندے سبھی اسکے در پہ پڑے رہتے ہیں۔

میجر اب بھی اسکے لمس کو امرت کا دھارا گردانتا ہے۔ وہ بھی اسکو "لاڈلا گاہک گردانتے ہوئے کبھی کبھار خلوت میں بدن مہیا کردیتی ہے۔
اسکی قیمت پورے ہفتے کی کمائی کے برابر ہوجاتی ہے۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
بیس سال گزر چکے ہیں۔ نسرین کا عرصہ ہوا انتقال ہوچکا ہے۔

میڈم بھی دنیا سے رخصت ہوچکی ہے۔ غازی بابا کے مزار کی مشرقی جانب ایک قدیم قبرستان میں ایک نامی طوائف "نیلم رانی" کی پائینتی روبینہ عرف میڈم کی آرامگاہ ہے۔

نوشی اب میڈم کہلاتی ہے۔ اسکے انڈر میں چار لڑکیاں ہیں۔ اسکے چہرے پہ جا بجا زمانہ تحریر ہے۔ اسمیں نائکہ کی سینہ زوری ہے۔ مدخولہ کا بے دھڑک پنا ہے۔ طوائف کی عیاری ہے۔ یہی اسکا گھر بار ہے۔ اسکا بھی اب بنگلہ ہے۔ کچھ میڈم نے نام کردیا تھا۔ کچھ کما لیا۔ سیٹھ لوگ اسکے یہاں ناچ دیکھنے اور مال نچھاور کرنے آتے ہیں۔

استاد اور ماہر طبلہ نواز سے لیکر بینڈ باجا، ہارمونیم، سازندے سبھی اسکے در پہ پڑے رہتے ہیں۔

میجر اب بھی اسکے لمس کو امرت کا دھارا گردانتا ہے۔ وہ بھی اسکو "لاڈلا گاہک گردانتے ہوئے کبھی کبھار خلوت میں بدن مہیا کردیتی ہے۔
اسکی قیمت پورے ہفتے کی کمائی کے برابر ہوجاتی ہے۔

---***---
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
کل اسکے پاس ایک نئی ہرنی آئی تھی۔
نوشی کو وہ جانی پہچانی لگی۔ پوش ایریا کی پڑھی لکھی لڑکی لگتی تھی۔ چہرہ شناسا سا تھا۔

کون ہے رے تو؟؟؟ اسنے سیگریٹ منہ میں دباتے ہوئے پوچھا۔

میں.... میں بے گھر ہوں۔لڑکی گڑ بڑا گئی۔

یہ نہیں پوچھا کہ گھر ہے کہ بے گھر؟؟؟ کہاں رہتی تھی؟؟

جوہر کالونی۔ لڑکی نے مختصر جواب دیا۔
سچ بتا گھر سے بھاگی ہے نا؟؟ اسنے لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔
نن نہیں۔ نہیں۔ لڑکی مزید گھبرا گئی۔
سچ بتاتی ہے یا … اسنے مارنے کو ہاتھ بلند کیا تو لڑکی نے مارے خوف کے آنکھیں بند کرلیں۔

ہاں... جی... جی۔ اٹکتے الفاظ میں جواب ملا۔

نوشی کا شک گہرا ہورہا تھا۔
فراز کی لڑکی ہو تم، ہیں نا۔ اسنھ کڑک کر کہا۔

ہہ... ہاں... میرے پاپا ہیں وہ۔ لڑکی کا رنگ سفید پڑ رہا تھا۔

ڈرو مت چندا۔ کچھ نہیں کہونگی۔ کیوں بھاگ کر اپنی سوتیلی ماں کے پاس آگئیں تم۔

کک کیا مطلب؟؟؟ آاا.. آپ.. آپ.. لڑکی ہکلائی۔

ہاں میں۔ انکی پہلی بیوی۔
چھوڑو اسکو ، یہ بتاؤ کتنے دن ہوگئے؟؟؟ اسنے لڑکی کے بدلتے تاثرات کو نظر انداز کیا۔

کل ہی نکلی تھی میں۔ لڑکی نے آہستگی سے جواب دیا۔

چلو گھر۔ میں بات کرلونگی۔ اسنے محبت سے لڑکی کی ہتھیلی چومی جو برف کی طرح ٹھنڈی پڑ رہی تھی۔

نن نہیں،پاپا مار ڈالیں گے۔ وہ سسکنے لگی۔

کچھ نہیں ہوگا میری جان۔ تم میرے ساتھ چلو۔ میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔ تمہارے پاپا کی بھی سہی سے خبر لونگی۔ چلو تم۔
اسنے لڑکی کو گلے لگایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسکو روتا دیکھ کر نوشی کو اپنی جوانی یاد آگئی۔ وہ بھی پہلے پہل اتنی ہی ڈری ہوئی تھی۔ لیکن وہ اس ننھی تتلی کو مسلا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ اسکو اپنے جسم پہ لگتے ہوئے وہ ہوس ناک ناخن، تھپڑ یاد آنے لگے۔
وہ لڑکی کو لیکر باہر نکلی۔ سامنے ڈرائیور کھڑا تھا۔ اسکو دیکھتے ہی مودبانہ سلام کرکے اس نے گاڑی گھمائی۔
تھوڑی دیر میں وہ فراز کے گھر کے دروازے پہ تھی۔
وہ اپنی بیٹی کو یوں اچانک دیکھ کر اچھل گیا۔
کہاں چلی گئی تھیں ماہ رخ۔ اسکا لہجہ بے حد ٹوٹا ہوا تھا۔ جیسے سزائے موت کا قیدی ہوتا ہے۔

یہ لو فراز تمہاری امانت لائی ہوں۔ شاید تمہیں اب تک پھول سنبھالنے نہیں آئے۔ یا پھر مکافات عمل ہے یہ۔
اسنے یہ کہتے ہوئے چہرے سے دوپٹے کا پلو ہٹا دیا۔
فراز اسکو دیکھ کر بہت زور سے اچھلا۔ اسکے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔
 
.
Moderator
2,363
1,824
143
نوشی تت تم... ہاں میں، بیٹی کو سنبھال کر رکھنا۔ اب میں کچھ الٹا سیدھا نہ سنوں۔ اسکے پاس نمبر ہے میرا۔ ایک کال کرے گی اور تمہاری خبر لے لی جائے گی۔ وہ تحکمانہ لہجے میں کہ کر مڑنے لگی۔

اندر آجاؤ جانم۔ آؤ تو سہی، تمہارے بعد عذاب الٰہی کا در کھل گیا تھا ہم پہ۔ فراز لجاجت سے کہنے لگا۔

ایک بار جب کہیں در بند ہوجائے نا فراز، تو نوشی وہاں دوبارہ داخل نہیں ہوتی۔ بس اپنی عزت سنبھالو۔ اور اسکا بے حد خیال رکھنا۔
خدا حافظ۔
مڑے بغیر یہ کہ کر وہ تیز قدموں سے گاڑی میں بیٹھی اور چلی گئی۔

اس نے آج ایک نسل کو طوائف بننے سے بچا کر فراز پہ احسان کردیا تھا۔
اور اسکے احسانات کا بدلہ بھی چکا دیا تھا۔

اسکی گاڑی اوجھل ہورہی تھی اور فراز اپنی بیٹی کو سینے سے چمٹائے سوچ رہا تھا کہ کاش وہ نوشی کو گھر سے بے دخل نہ کرتا تو آج اسکی بیٹی یوں منہ پہ کالک نہ مل دیتی۔

سچ ہے کہ بے گناہ پہ ظلم بڑا بھاری پڑتا ہے۔

ختم شد۔​
 

Top