Adultery شومئ قسمت (Completed)

.
Moderator
2,376
1,840
143
ہو کے افسردہ مری شومیٔ تقدیر نہ دیکھ
اپنے پیروں میں مرے پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
[پانچویں قسط]

وہ مڑی اور کار کے دروازے میں جھانکا۔ خودکار شیشہ نیچے ہوگیا۔

اوہ فراز ، تم گئے کیوں نہیں تھے؟؟؟

وہ میں نے سوچا تمہیں ڈراپ کردونگا۔ گلیاں اندھیری ہیں۔

ارے کچھ نہیں ہوتا۔ میں تو روز یہیں سے جاتی ہوں۔ اب ڈر نہیں لگتا مجھے۔ وہ ہنسی۔

کیوں نہیں ہوتا کچھ۔ کوئی بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

اور کتنا نقصان پہنچے گا مجھے؟؟؟
سب کچھ تو تباہ ہوگیا میرا۔ وہ افسردگی سے بولی۔

اور انکل کی دکان کا کیا بنا۔

بس دو چار دفعہ ڈاکا پڑا تھا۔ اسکے بعد دکان خالی کردی ہم نے۔ مکان بھی قرضوں میں بک گیا تھا۔

گاڑی دوبارہ چل پڑی۔ نوشی اسکو بتاتی رہی اور جلد ہی وہ اس کچی آبادی میں واقع اسکے گھر پہ جا رکے۔

سنو نوشین۔ یہ لے جاؤ گھر۔ فراز نے شاپر اسکی طرف بڑھایا۔

نہیں۔ امی نے کھانا بنا کر رکھا ہوگا۔ وہ ہچکچائی۔

ارے لے لو۔ یہ بھی کھالینا۔ اب کیا اتنے پرانے تعلق کا اتنا بھی حق نہیں ہوگا؟؟؟
لے لو چلو۔ وہ اپنائیت سے بولا تو نوشی سے انکار نہ کیا گیا۔ ویسے بھی بھوک جوبن پہ ہو تو کھانے سے انکار کون کرتا ہے۔اور گھر میں بھی کونسے مرغ متنجن تیار رکھے تھے۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
شاپر لیکر وہ گاڑی سے اتری۔ سنو فراز!! یہ نمبر ہے میڈم کا۔ اس پہ بات کرکے آج رات کی بکنگ کرلینا۔ اسنے اسکو وزیٹنگ کارڈ تھمایا جس پہ ڈیکوریشن آئیٹمز بنے ہوئے تھے۔ میڈم ڈیکوریشن کے سائیڈ بزنس کی آڑ میں دھندا کررہی تھی۔

کار کےجانے کے بعد وہ گھر میں داخل ہوئی۔

ماں روٹی مت بنانا۔ یہ لائی ہوں سلائس۔ انڈے بھی۔ اسنے شاپر ماں کیطرف بڑھایا۔

اری کیوں اتنا خرچہ کردیا۔ مزے لگ رہے ہیں تجھے؟؟؟ دیکھ نہی رہی باپ کا خرچہ؟؟؟ رات کا سالن پڑا ہے تب بھی انڈے لے آئی۔ اور یہ کیا کیک بسکٹ بھی؟؟؟ مروائے گی کیا ہمیں؟؟

افففف ماں تم تو بس شروع ہوجاتی ہو۔ سر نے گفٹ کیا ہے یہ مجھے، کل اچھا کام کیا تھا نا میں نے اسلئے۔ میں تھوڑی خرید کر لائی ہوں۔

اچھا۔ تجھ پہ کیوں مہربانی ہوگئی، آئیندہ کسی سے کوئی گفٹ وفٹ مت لینا سمجھی؟؟

اچھا نا۔اب تو بنا دو انڈا،جلدی کرو۔ یہ کہ کر وہ غسل خانے کیطرف بڑھ گئی۔

فراز نے کار اسکے گھر کیطرف سے موڑ تو لی تھی لیکن اسکا دماغ مسلسل نوشی میں ہی اٹکا ہوا تھا۔
ایک لڑکی جو میری بہن کیساتھ انٹر میں پڑھتی تھی۔ پانچ چھ سال پہلے ہی کی تو بات تھی۔ کتنی ہنس مکھ تھی نوشین۔
وہ مسلسل سوچوں میں گم تھا۔
ہنستی کھیلتی ماں باپ کی اکلوتی کھلنڈری سی نوشی... اب ایک سنجیدہ عورت لگنے لگی تھی۔ جسکی پیشانی پہ پوراافسانہء حیات تحریر تھا۔

اچانک اسکو ایک خیال آیا اور اسنےہاں میں سر ہلاتے ہوئے گاڑی اپنے گھر کیطرف گھمادی۔

فراز کا گھرانہ پہلے پانچ نفوس پہ مشتمل تھا۔ ماں باپ اور انکے تین بچے۔ شیراز ، فراز اور سائرہ۔

فراز دبئی چلا گیا تھا اور اب تقریباً چھ سال بعد ایک ہفتہ قبل لوٹا تھا۔ اسکو بھی ماں نے زبردستی شادی کرنے کیلئے بلالیا تھا۔
سائرہ اپنے گھر کی ہوگئی تھی اور شیراز نے بھی گھر بسا لیا تھا۔
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
باپ کا دو سال پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ وہ جب سے آیا تھا، دوستوں میں گھوم پھر رہا تھا۔ ایک آدھ پروگرام خاندان میں بھی ہوا تھا۔ اور ایک پکنک فیملی کیساتھ ہوئی تھی۔

کل اسکو جوانی کا جوش چڑھا تو گھر واپسی کے بجائے رات کے آخری پہر اس بدنام بازار کی کانب چلا گیا تھا۔

السلام علیکم۔ امی کیسی ہیں آپ؟؟؟

فراز آتے ہی سامان اپنی بھابھی کو دیکر ماں کے کمرے میں داخل ہوا۔وہ اپنی کرسی پہ بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھیں۔

وعلیکم السلام۔ بیٹا ٹھیک ہوں۔ تمہیں کوئی کام ہے کیا؟؟؟ تقریباً ایک ہفتے بعد بیٹے کی یوں اچانک کمرے میں آمد پہ وہ سراپا حیرت بنی اسکو تک رہی تھیں۔

نہیں امی ،مجھ کیا کام ہوگا۔ بس یونہی طبیعت پوچھنے آگیا۔ وہ کرسی گھسیٹ کر انکے برابر میں بیٹھ گیا۔

بس ٹھیک ہی ہے طبیعت۔ تمہیں تو خیال ہی نہیں ہے ماں کا۔ رات بھر نجانے کہاں مٹر گشتی کرتے رہتے ہو۔

ماں دوستوں کیساتھ تھا۔ ابھی لوٹا تو ناشتہ بھی لے آیا۔

اچھا شیراز تو آفس چلا جاتا ہے۔ اپنی بھابھی کو بول دو بنا دیگی تمہارے لئے. میں نے بھی ناشتہ فجر کے بعد کرلیا تھا۔

نوشی کو دیکھ کر اسکو پہلی بار اپنی بوڑھی ماں کا احساس ہوا تھا اور وہ سیدھا انکی خبر گیری کو انکے کمرے میں آگیا تھا۔

جس بازار میں ہوس، ضرورت یا پھر عادت پوری کرنے گیا تھا وہاں سے ایک نیا سبق لیکر لوٹا تھا۔

وہاں اسکو نوشی مل گئی تھی۔
جوش تو بیٹھ گیا البتہ اسکی خستہ حالی نے فراز کا دل کرچیوں میں بکھیر دیا تھا۔ اسکے باپ کی بیماری کا سن کر اسکو اپنی ماں کا خیال آیا جو اسکی راہ پچھلے کئی سال سے تک رہی تھی۔

چناچہ وہ ناشتہ لیکر سیدھا گھر آیا اور ماں کے پاس آگیا تھا۔ یہ نوشی نے پہلا سبق اسکو محبت کا پڑھا دیا تھا۔

اچھا ماں۔ میں ناشتہ کرکے سؤونگا۔ آپ مجھے دوپہر دو بجے جگادیجئے گا ایک جگہ جانا ہے مجھے ضروری کام سے۔ وہ ماں کا ہاتھ محبت سے تھام کر اٹھا۔

اچھا۔ کوئی چیز چاہئیے ہو تو آواز دے دینا۔

اسنے کمرے میں آکر کپڑے بدلے، ناشتہ کیا اور سونے لیٹ گیا۔

بستر پر بھی وہ نوشین کے بارے میں سوچتا رہا اور رات کے لئے منصوبہ بناتا رہا۔ ذرا دیر میں نیند اس پہ غالب آئی اور وہ بے سدھ ہوکر سوگیا۔

---***---
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
نوشی، کیا بات ہے بہت گم صم ہے تو... ناشتہ کرتے ہوئے ماں نے اسکو چپ دیکھ کر پوچھا۔

نہیں تو۔ بس ایسے ہی۔

کچھ پریشان ہے کیا؟؟؟ ماں اسکی پریشانی کی کیفیت کو سمجھ گئی تھی اور اب خود ہول رہی تھی۔

ماں ، آج فراز ملا تھا۔ سائرہ کا بھائی۔

اوہ اچھا وہ کہاں ملا؟؟؟

میں کام سے واپس آرہی تھی تب ملا۔ اسی نے سامان دلا دیا۔ میں نے تو منع کیا تھا لیکن مانا ہی نہیں۔ کہ رہا تھا کہ انکل آنٹی کو سلام کہنا۔

اچھا۔ اور کام سہی چل رہا ہے تیرا۔

ہاں ماں کام تو اچھا چل رہا ہے۔ اب سور رہی ہوں میں۔ وقت پہ اٹھا دینا۔ اتنا کہ کر وہ کمرے کیطرف بڑھ گئی۔

خواب میں بھی وہ نجانے کیا کیا ماضی کے مناظر دیکھ رہا تھا۔ کہیں وہ ، نوشی اور سائرہ کسی جگہ گول گپے کھاتے دکھائی دیتے تو کہیں سائرہ نوشی کیساتھ کسی بک اسٹال پہ نظر آتی۔ کہیں کالج یونیفارم میں کھڑی مسکراتی نوشین اور اسکے ساتھ اسکی بہن سائرہ۔

اسطرح دن گزر گیا۔ سورج چھپنے کے وقت امی نے اسکو جگایا تو وہ آنکھیں ملتا اٹھ بیٹھا۔

آپ خود کیوں آگئیں اوپر؟؟؟ بھائی کو بول دیا ہوتا۔

بس میں نے سوچا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہوگی۔ اسلئے چائے بنا کر لائی ہوں۔

مجھے آج بھی ایک جگہ جانا ہے۔ شاید رات دیر سے آؤں۔ اسنےچائے کا کپ پکڑا اور جلدی جلدی چند چسکیاں لیکر باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔

تیار ہوا تو یاد آیا کہ نوشی نے کارڈ بھی دیا تھا۔

افففف کارڈ کہاں گیا۔ وہ یکدم پریشان ہوگیا۔ سادے کپڑے ٹٹولے۔ ہر ہر جیب جھانکی لیکن کارڈ نہ ملنا تھا نہ ملا۔

چلو وہیں جاکر بات کرونگا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا کمرے سے نکال اور جلدی سے پورچ کیطرف بڑھا۔

چند منٹ بعد وہ کار میں بیٹھا مزار شریف کی جانب میں بنے کوٹھوں کی جانب اڑا جارہا تھا۔

فراز دبئی میں رہ کر رنگین شاموں کا عادی ہوچکا تھا۔ جب وطن لوٹا تو اسکو چند دن بعد اسی چیز کی چاہت ہوئی۔ ایک پرانے دوست کے کہنے پہ وہ اس بازار کیطرف چلا آیا تھا۔ ویسی تفریح تو نہ مل سکی تھی تاہم کچھ نہ کچھ پیسہ اڑانے کا مصرف مل ہی گیا تھا۔

ذرا سی دیر میں وہ غازی بابا کے مزار کے پاس پہنچ گیا۔ کار سے اترا اور سیدھا تنگ گلی کیطرف بڑھا​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
ذرا سی دیر میں وہ غازی بابا کے مزار کے پاس پہنچ گیا۔ کار سے اترا اور سیدھا تنگ گلی کیطرف بڑھا۔

بازار میں آج رونق کچھ کم دکھائی دے رہی تھی۔ زیادہ تر بازاری لوگ، دلال اور اوباش قسم کے نوجوان ادھر سے ادھر چیختے چلاتے ، آوازیں کستے اور گالیاں لڑھکاتے گھوم رہے تھے۔

وہ بچتا بچاتا سمٹ سمٹ کر آگے بڑھتا گیا اور نوشین کے مکان پہ پہنچ ہی گیا۔

جی بابو جی۔ ون نائیٹ اسٹے۔ ہالف نائٹ۔ یا پر آر۔ رمضان نے اپنے مخصوص انداز میں اسکو پیکج بتایا۔

فل نائٹ اسٹے۔ اسنے مختصر جواب دیا۔

چھ ہزار۔

چھ تو بہت زیادہ ہیں۔ وہ منمنایا۔

بابو جی بازار میں ویسے ہی مندی ہے۔ فقیر قسم کے لوگ بھر گئے ہیں۔

میں تو چار سے ایک روپیہ اوپر نہیں دونگا۔ لینا ہے تو ٹھیک ہے۔ یہ کہ کر وہ جانے کو مڑا۔

رکو تو صاب جی۔ بات تو سنو۔

کیا ہوا؟؟؟ اسنے پیچھے مڑے بغیر کہا۔

لاؤ رکھو چار ہی۔ رمضان نے منہ بنا کر ہتھیلی پھیلا دی۔
ایک منٹ میں میڈم کو بول دوں۔ یہیں رکو۔

یہ کہ کر رمضان اندر گم ہوگیا۔

فراز نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا۔ یہ کھولی دوسری کھولیوں سے بڑی تھی۔ صرف گراؤنڈ فلور ہی بنا ہوا تھا۔ باہر سے کوئی گھر معلوم ہوتا تھا۔

اتنے میں رمضان نمودار ہوا اور اسکو اشارہ کردیا۔

وہ اندر گیا تو نوشین بیڈ پر ہی بیٹھی تھی۔ وہ اسکو دیکھتے ہی کھل اٹھی۔

(جاری ہے۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
(چھٹی قسط)

کیسی ہو نوشین؟؟ کچھ کھایا شام سے؟؟ وہ مسکرایا۔

ہاں، ابھی کام پہ بیٹھنے سے پہلے ہم نے منگوایا تھا۔ کل کے پیسے بھی کچھ بچے ہوئے تھے۔

عام طور پہ کھانا مغرب سے پہلے ہی کھالیتی ہوں۔ اسکے بعد ہضم ہوتے ہوتے فجر ہوجاتی ہے۔ اس نے اٹھلاتے ہوئے تفصیل دی۔

اب ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟؟ کھاؤگے کیا؟؟؟

یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم چپ چاپ تھیں۔ ایکدم چلتی قینچی کیسے بن گئیں۔ وہ اسکو گھورتے ہوئے بولا۔

تب میں گھریلو تھی اور اب میں بازار میں ہوں۔ بزنس وومین۔ کہتے ہیں نا انگریزی میں۔ اسنے ایک گالی لڑھکاتے ہوئے دانت نکالے۔

یہ ساڑھیاں کہاں سے لیتی ہو؟؟؟ فراز نے اسکی ریشمی ساڑھی کی بابت پوچھا۔
ریشمی سرخ ساڑھی ، اوپر تلے چمکیلا گوٹا کناری کا بھاری کام۔ بنارسی کڑھائی ، عمدہ لیس ، بھڑکتا شوخ رنگ اور اسمیں سے جھلکتا سرخی مائل ہی سفید گورا بدن۔ وہ تماش بینوں کیلئے قاتل، جوہری کیلئے گوہرِ نایاب اور گنہگاروں کیلئے حورِ ارم سے کم نہ تھی۔

ہاتھ پہنچوں تک مہندی کے نازک کام میں رنگے ہوئے اور چھنگلی میں ایک نازک سی رِنگ۔ گلے میں سرخ یاقوت کا ننھا سا لاکٹ اور چین۔ اسی میچنگ کے بُندے

جو دیکھتا تھا دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔

اب بیٹھو بھی یہاں۔ کھڑے کھڑے منہ کھول کر کب تک تاڑو گے۔ وہ مسلسل اسکی ہنسی اڑاتے ہوئے کھلکھلا رہی تھی۔

نوشین ، آج تمہیں خوش دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔

کام کا آغاز ہے پگلے ،پہلے گاہک کو ایسی ہی ہنستی کھکھلاتی نوشی ملتی ہے۔ اور تم تو اپنے ہی ہو۔

اچھا۔ اور اگر میرے اندر سے پرایا کوئی جھانکنے لگا؟؟؟ وہ شرارت کے انداز میں بولا۔

تب بھی اس دکان پہ دولت تو لٹوا ہی چکے ہو۔ عقل بھی کھو بیٹھو گے۔ نوشی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

اچھا چھوڑو یہ سب۔ یہ بتاؤ کہ یہیں رہیں یا کہیں اور چلیں۔

کہیں اور کہاں؟؟؟ میڈم جانے بھی دےگی مجھے۔ پتہ نہیں۔ وہ پریشان سی ہوگئی تھی۔

کیوں نہیں؟؟ پیسے سے غرض ہے اسکو۔ وہ میں دیدونگا۔

اکیلے پن میں سکون سے وقت کٹ جائے گا۔ میرا ایک دوست ہوٹل مینیجر ہے میں اس سے بات کرتا ہوں۔

فراز نے یہ کہ کر جیب سے موبائل نما ڈبہ یا بڑا سا ڈبہ نما موبائل نکالا اور وہ تو اسکو گھورتی ہی رہ گئی۔

اگر رات کو اسکو کچھ کھلا پلا کر یہی چرالوں تو؟؟؟ دس بارہ ہزار کا بک جائے گا۔

اسکے ذہن میں لا شعوری سوچ نے جنم لیا۔ جسکو وہ جھٹک کر فراز کی جانب متوجہ ہوگئی۔ وہ کسی سے ہوٹل کنفرم کررہا تھا۔
 

Top