Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,363
1,827
143
""دربدر"" (پہلی قسط)مسلسل چلتی ٹرین کی رفتار اب آہستہ ہونے لگی تھی۔دور کہیں مشرق بعید سے سر نکالتا آفتاب دھیمی سی کرن دکھا کر ظلمتوں کیخلاف جنگ کا آغاز کررہا تھا۔وہ آنکھیں ملتی برتھ پہ سے اٹھی اور ایک نظر ابو پہ ڈالی۔ وہ بےخبر سے نیند کی وادی کی سیر کررہے تھے۔اس نے اٹھ کر ایک نظر کھڑکی پہ ڈالی۔ ٹرین ریت کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں اور میدانوں کو پیچھے چھوڑتی درمیانی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔خشک میدان، سیم زدہ زمینیں، کہیں کہیں بارش کا جمع شدہ سڑاند مارتا پانی... اور پھٹی ہوئی کریک زدہ زمین۔دور دور تک نہ کوئی ہریالی نہ جاذبیت۔ بالکل میری قسمت کیطرح، نہ نگاہ کو بھائے نہ دل کو۔ اور گرمی بھی اوپر سے۔اسنے بڑھتی گرمی کو محسوس کرکے بیزاری سے سوچا۔ ٹرین کی رفتار اب بتدریج کم ہورہی تھی۔چلو اچھا ہوا ٹرین رک رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ ابو جاگیں میں کچھ لے لوں۔ اسنے سوچا اور ٹرین کے دروازے کیطرف بڑھ گئی۔ٹرین سے اترتے ہی ایک ہوا کا جھونکا اسکو چھوکر گزرا تو اسکے کانوں میں ایک غصیلی نسوانی آواز گونج گئی۔دوپٹہ سنبھالو اپنا۔ ہوا کے ساتھ ساتھ گھومتا رہتا ہے۔ امی ہوتیں تو یہی کہتیں، وہ اداس سی مسکراہٹ لبوں پہ سجائے دوپٹہ ٹھیک کرکے آگے بڑھ گئی۔کچھ اول جلول چیزیں سمیٹ کر وہ پھر سے ٹرین میں آبیٹھی۔ ابو اب تک بے سدھ سورہے تھے۔ اس نے برتھ کے کونے پہ بیٹھ کر چپس کا پیک کھولا ہی تھا کہ ابو کی آنکھ کھل گئی۔ارے یہ، یہ کہاں سے آیا؟؟؟ انہوں نے حیرانی سے اسکو دیکھا۔وہ ، وہ میں، وہ... اسکے حلق میں جیسے الفاظ اٹک کر رہ گئے۔ کیا وہ وہ؟؟ ٹرین سے اتری تھیں نا؟؟؟ انکی آواز قدرے بلند ہوگئی۔ سامنے والی برتھوں پہ موجود فیملی نے بھی کن اکھیوں سے انکو گھورنا شروع کردیا۔نہیں ابو، وہ آیا تھا پھیری والا اندر۔ اس سے..... اتنا بول کر اسکی آواز رندھ گئی۔بہرحال، کہیں جانا مت۔ ادھر ہی بیٹھو۔ اور کسی سے کچھ بھی مت لینا۔ انہوں نے ادھر ادھر کا ماحول محسوس کرکے آواز پست کی اور واپس منہ موڑ کر لیٹ گئے۔وہ چپ چاپ کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے چپس چبانے لگی۔ٹرین اب دوبارہ چل پڑی تھی۔ ذرا دیر میں سورج سر پہ تھا۔ اور دونوں طرف ریت کے ڈھیر پیچھے چھوڑتی ٹرین اپنی منزل کی جاب رواں تھی۔پتہ نہیں اب میں گھر واپس بھی جا سکوں گی یا نہیں۔ کیا ہوگا میرا....اس کے یہ سوچنے کیساتھ ہی اسکو اپنی گھریلو زندگی یاد آگئی۔پھر اپنا بچپن اور دادی کا امی کیساتھ رویہ۔ وہ ان مناظر میں جیسے کھو کر رہ گئی۔ ***ہاں بڑا تیر مارا ہے نا تو نے۔ ایک ایسی بیٹی کو پیدا کیا ہے جس نے تجھے ہی ناکارہ کردیا۔ منحوس تو ہے ہی، پھوہڑ بھی ہے۔ جیسی ماں ویسی بیٹی۔ دادی نے اسکو ایک تھپڑ مارنے کے بعد چلا کر کہا تھا۔جرم اتنا ہی تو تھا کہ کانچ کا نیا گلاس اسکے ہاتھ سے گرگیا تھا۔ ہاں لیکن وہ دادی خود جاکر لائی تھیں اسلئے انکو غصہ آگیا۔وہ گال سہلاتی سسکیاں بھرتی پردے کے پیچھے چھپ گئی۔ امی کانچ کے ٹکڑے سمیٹنےلگیں اور ننھی وردہ نجانے کب روتے روتے بیٹھی اور سوگئی۔ صفائی کرکے امی آئیں اور اسکو اٹھا کر بیڈ پہ لٹا دیا۔ ***سنیں! وردہ کے اسکول سے لیٹر آیا ہے۔ فیس جمع نہیں کروائی آپ نے اور فائن لگ گیا۔ آج اسکو کھڑا کرکے ذلیل کیا ہے مس نے۔ امی نے ابو سے احتجاج کیا۔ وہ مڑے اور ایک غصیلی نگاہ اس پہ ڈالی۔ وہ سہم کر رہ گئی۔ابو چلا کر بولے: منحوس لڑکی، پڑھتی وڑتی بھی کچھ نہیں اور خرچے الگ ہیں اسکے۔ کہا بھی ہے لڑکی کو مت پڑھاؤ۔کیوں نہیں پڑھاؤ۔ اپنی بہن کو تو ڈاکٹر بنایا تھا آپ لوگوں نے۔ میری بیٹی نہ پڑھے۔ امی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ہاں تو میری بہن کے چار بھائی تھے۔ اور اسکا ایک بھی نہیں۔ پتہ نہیں کس گھڑی کی پیداوار ہے کمبخت۔اور تمہیں بھی تو بیمار بن کر رہنے کا شوق چڑھا رہتا ہے۔ بس ماں کی دوا لاؤ اور بیٹی کی فیسیں جمع کرواؤ۔ اور دونوں کسی کام کی نہیں۔ منحوس نسل۔ وہ غصے میں بکتے جھکتے باہر نکلنے لگے۔اس نے دروازے کے سامنے آکر کچھ کہنا چاہا تو ابو اسکو ہلکا سا دھکا دیکر باہر نکل گئے۔ وہ خشک آنکھیں لئے سوالیہ نظروں سے ماں کو گھورتی رہ گئی۔وردہ کو چھٹی جماعت میں آکر پتہ چلا کہ اسکو منحوس کیوں کہا جاتا ہے۔ اسکو تو شاید پتہ نہ چلتا لیکن بھلا ہو ارشد چچا کی بیٹی کا جو بارھویں میں تھی۔ اس نے جب وردہ کو ساری بات بتائی تو وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکو تکنے لگی۔تو سونیا اسمیں میرا کیا قصور ہوا بھلا۔ وہ رندھی ہوئی آواز میں اتنا کہ کر چپ ہوگئی۔انہی حالات میں وردہ اسکول جاتی رہی۔ امی کی ناک کا آپریشن ہوا تھا اسلئے پانی کے سارے کام اب اسکے ذمے لگ گئے تھے۔ کچھ تائی میلا رہ جاتا تھا۔کبھی استری ہوئی تو ٹھیک ورنہ میلا پہن کر چلی گئی۔ کیا ہوا جو کھڑا ہونا پڑجاتا تھا۔ یا مس بھری کلاس میں باتیں سنادیتی تھیں۔ پیریڈ کے بعد باتھ روم میں جاکر رو کر دل ہلکا کر کے واپس سیٹ پہ آکر بیٹھ جاتی تھی۔جس دن سے سونیا نے اسکو "منحوس" کی اصلیت بتائی تھی اسی دن سےاسکو دادی سے یک گونہ نفرت سی محسوس ہونے لگی تھی۔ کبھی کبھار انکی گالی سن کر اسکے منہ سے بددعا بھی نکل جاتی تھی۔ شاید اسکا اثر ہی ظاہر ہوا کہ فٹ فاٹ دادی ایک دن ایسی سوئیں کہ پھر سوتی ہی رہ گئیں۔بظاہر اسکو بھی دوسروں کی طرح بہت صدمہ ہوا لیکن سبھی کا صدمہ جھوٹا تھا۔اولاد ماں کے جانے کے بعد پراپرٹی کے جھمیلوں میں دست و گریباں ہونے کا پلان لئے بیٹھی تھی اور وردہ عمران ایک گھریلو حریف کے مرنے پہ ہلکی سی خوشی دبائے بیٹھی تھی۔اب ایک منحوس کہنے والا بلکہ اسکو منحوس کہنے کی ابتداء کرنے والی دادی نہیں رہی تھیں۔ شاید اب اسکی نحوست ختم ہوجائے۔ یا پھر ابو کو بھی مرنا ہی پڑے گا۔ وہ میت کے سرہانے بیٹھی یہ سوچ کر جھرجھری لیکر رہ گئی۔ سچ میں وہ کتنی منحوس تھی_____
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
(دوسری قسط)

دادی کو گزرے ابھی چھ مہینے نہیں ہوئے تھے کہ امی بالکل ہی بستر سے لگ گئیں۔ انکے سر پہ ہر وقت ایک بوجھ سا رہنے لگا تھا۔ بسا اوقات نیم بیہوشی کی کیفیت ہوتی اور کبھی شدید درد سے تشنج جیسی حالت ہوجاتی۔ ڈاکٹر نے چشمے کا نمبر بڑھا کر ساڑھے سات کردیا تھا۔ پھپھو آکر دادی کا سارا سامان اپنے بھائیوں کی اجازت و خوشی سے اپنے گھر لے گئی تھیں۔ سامان میں زیورات، کچھ نقدی، قیمتی جوڑے اور دینے دلانے کی مختلف چیزیں شامل تھیں۔ جب دادی زندہ تھیں تو کافی شور شرابا دن بھر رہتا تھا۔ اور اب،، اب تو گھر بالکل اجاڑ ہوکر رہ گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ساری رونق دادی ہی کے دم سے تھی۔ ارے نہیں لیکن وہ تو گالیوں اور شور کی شوقین تھیں۔ اس نے سر کو جھٹکا۔ پھر ایسا کیا تھا کہ دادی کے مرتے ہی گھر ویرانہ لگنے لگا تھا۔
ابو آفس سے آنے کے بعد پہلے معمول کے مطابق امی پہ چیختے چلاتے۔ اسکے بعد کھانا کھا کر وہ دونوں بیڈ روم میں چلے جاتے اور وردہ لاؤنج میں بیٹھی خواب بنتی رہتی۔ شام کو ابو اپنی ایجنسی پہ چلے جاتے اور وہ امی کی ہدایات کے مطابق برتن دھونے اور گھر سمیٹنے میں لگ جاتی۔

ارے منحوس لڑکی۔ کیا کیا کمبختیاں مچائے دیتی ہے۔ یہ سالن جلنے کی کیوں آرہی ہے؟؟؟ امی پلنگ پہ لیٹی چلا رہی تھیں اور وہ انکو کیسے سمجھاتی کہ برتن دھوتے ہوئے کانچ کا گلاس ٹوٹ کر اسکے ہاتھ میں چبھ گیا تھا۔ جسکا خون روکنے کے چکر میں براؤن ہوتی پیاز کوئلہ بن گئی تھی۔
اب دادی گئی تھیں تو انکا مکمل مشن امی نے سنبھال لیا تھا۔
ابو امی سے لڑتے تھے اور وہ اس کو برا بھلا کہتی تھیں۔ اور وہ خود، اسکا کام بس سننا ہی رہ گیا تھا۔ گھر پہ بھی اور اسکول میں بھی۔
اور وہ دن، وہ دن بھی کتنا افسردہ تھا جب اسکول میں فائنل ایگزام کے رزلٹ اناؤنس ہونے کی تقریب تھی۔ انتظامیہ کے لاکھ بار نوٹس بھیجنے کے باوجود امی نے طبیعت کا عذر کرلیا تھا اور ابو کی کوئی پرسنل میٹنگ آڑے آگئی تھی۔ وہ اس رات مایوس ہوکر ایسی سوئی کہ یونی فارم پھر میلا رہ گیا۔ اور وہ وہی یونی فارم پہن کر اسکول پہنچ گئی تھی۔ میڈم نے اسے ایک بار پھر ذلیل کیا ہی تھا لیکن آج سارا اسکول تماشائی تھا۔
ابھی وہ سہی سے آنسو پونچھ بھی نہیں پائی تھی کہ اسکا نام سیکنڈ پوزیشن کیلئے پکارا گیا۔ دو لڑکیوں نے آگے بڑھ کر اسکو بتایا تو وہ آستینیں آنکھوں پہ ملتی بے دلی کیساتھ شیلڈ تھامے واپس آکر بیٹھ گئی۔
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
ارے واہ، سیکنڈ آئی ہو۔ ماشاءاللہ۔ لیکن کیا فائدہ، چار نمبر سے فرسٹ سے رہ گئیں۔ کہا بھی تھا کہ محنت سے پڑھ لو۔ لیکن صاحبزادگی کا جن جو سر پہ سوار رہتا ہے۔ ماں باپ کو دشمن سمجھتی ہیں یہ۔ امی کے الفاظ تھے یا آگ کے انگارے۔ جو سیدھے اسکے دل پہ گرے۔
میڈم کی باتیں ہی کچھ کم نہیں تھیں جو گھر میں بھی۔ وہ اپنے کمرے میں آکر بے تحاشا روئی تھی۔ لوگ اپنی اولاد کی خوشی پہ جان دیتے ہیں اور ایک میرے ماں باپ۔ ابھی ابو بھی آکر لیکچر دیں گے۔
خیر۔ اس نے چپ چاپ رپورٹ کارڈ الماری میں رکھی اور بکھرے کمرے کی صفائی میں جت گئی۔

امی کی طبیعت بھی بس دن بدن بگڑی تھی۔ ابو کو ہسپتالوں سے نفرت تھی۔ انکے کہنے کے مطابق امی کو بس امراض کا وہم ہی تھا۔ جسکو وہ بڑھا رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ وہم بڑھتا چلا گیا اور امی موت کے منہ میں گرتی رہیں۔
محلے کے سبھی ڈاکٹروں نے اپنے اپنے نسخے آزمالئے لیکن وہ مرض ہی کیا جو ٹھیک ہوجاتا۔ سبھی نے نفسیاتی بیماری بتلایا اور یوں معاملہ دم درود کیطرف مڑگیا۔ ڈاکٹری ٹیسٹ کے بغیر ہی پیری مریدی چل پڑی۔ پہلے ایک بابا آیا پھر دوسرا۔ پھر کسی نے مزار پہ جانے کا مشورہ دیا۔ امی نے اسکو چپ چاپ راضی کیا اور ایک دن اسکول سے چھٹی کرکے وہ امی کو رکشے میں لیکر ہسپتال ہو آئی۔ الغرض سبھی طرح کے دم درود کروالیے گئے لیکن نتیجہ وہی صفر بٹا صفر۔
اور ادھر ادھر جانے کیوجہ سے اسکے اسکول کی چھٹیاں الگ ہورہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے گھر پہ جادو کردیا ہو۔
ابو صبح کے نکلے شام کو گھر آتے تھے۔ سارا دن امی بستر پہ پڑی کراہتی تھیں اور وردہ اسکول کے بعد گھر میں لاوارث گھومتی تھی۔ گھر پھیلا پڑا رہتا تھا اور کھانا کچھ بھی نہیں۔ البتہ برتن وہ دھو لیتی تھی۔ پھر ہوم ورک کرکے الٹا سیدھا کھانا بنا لیتی تھی اور وہی کھا بھی لیتی تھی۔امی کو کبھی سویاں تو کبھی نوڈلز بنا کر لیٹے لیٹے ہی کھلا دیتی۔ کبھی وہ خود کھالیتیں۔ اب تو وہ نماز بھی لیٹ کر پڑھتی تھیں۔ اور باتھ روم بھی اسکے سہارے سے جانے لگی تھیں۔ ابو اپنے ساتھ رات کا کھانا لے آتے تھے اور کھا پی کر سویا جاتا تھا۔
ابو آتے تو وہی لڑائی جھگڑا، ڈاکٹر کی دہائی اور دوائیوں کے انبار میں پھنسی بے جان لاش بنی ماں۔

اب تو انجانے میں دل ہی دل میں اسکو امی کی موت کی دعا کا خیال آنے لگا تھا جسکو وہ فوراً جھٹک کر توبہ پڑھتی۔ تاہم یہ ایک حقیقت تھی۔ ایک دن تائی نے بھی کہ دیا تھا کہ بس بھائی صاحب اب تو اللہ آسانی دے، بچاری بڑی تکلیف میں ہے۔ اور اسکا دل چاہا کہ تائی کا گلا گھونٹ کر سب سے پہلے انکی مشکل آسان کردے۔
حالات یونہی چلتے رہے تاآنکہ عزرائیل نے بالآخر اپوائنٹمنٹ دے ہی دیا۔ ایک رات اچانک امی کی طبیعت بگڑی۔ ایسا لگتا تھا جیسے انکا سر مارے درد کے پھٹ جائے گا۔پہلے تو کسی نے توجہ نہ دی۔ جب انہوں نے چیخ و پکار کی تو ابو نے پہلے تو نیند خراب کرنے پہ انکو ڈانٹا۔ پھر دم کیا ہوا بارش کا پانی گلاس بھر کر دیا۔ اسکے بعد چار پھکیاں۔ لیکن اس دن نجانے کونسا طاغوت امی پہ مسلط تھا کہ رحمانی کلام کا اثر تو کجا انکی چیخوں میں اضافہ ہوگیا اور آس پاس کے پڑوسی نکل آئے۔چارو ناچار ابو نے ایمبولینس منگوائی اور ہسپتال لیکر دوڑے۔بڑی تائی کو فوراً بخار ہوگیا اسلئے وہ ساتھ نہیں جاسکیں۔ بیچ والی تائی بھی نیند کی گولی لیکر سوئی تھیں اور چھوٹی تائی شہر کے دوسرے کنارے سے کیسے آتیں۔ انکو ہیلی کاپٹر چاہئیے تھا۔ اسلئے وہ اور ابو ہی امی کو لیکر ہسپتال پہنچ گئے۔

ڈاکٹر نے پہلے تواتنی تاخیر کرنے پہ ابو کی بری طرح عزت افزائی کی۔ اور پھر بھاگم بھاگ ایمرجنسی میں امی کو لے جایا گیا۔
ایمرجینسی میں داخلہ۔ سی ٹی اسکین اور پھر ٹیومر۔ اسنے جیسے ایک بھیانک خواب میں یہ سب دیکھا یا پھر مدہوشی کے عالم میں کچھ آوازیں اسکے کان میں پڑی تھیں۔
وہ رات اس نے دو فٹ چوڑی بنچ پہ بیٹھے گزاری تھی۔ اگلی صبح آپریشن تھا۔ ابو ساری رات چپ چاپ خالی آنکھوں کیساتھ بیٹھے رہے۔ وہ ہر ایک سے یہی کہ رہے تھے کہ ارے ہم تو یہی سمجھے تھے کہ وہم ہوگیا ہے اسکو۔ ہمیں کیا پتہ تھا ایسا ہوگا۔
اور اسکے دل میں آتا کہ اٹھ کر کہے کہ ہاں تم تو ولی ہو نا کہ اندر تک دیکھ کر پتا لگا لیا کہ بیماری ہے یا وہم۔ تم ہی میری ماں کو اس حال تک پہنچانے والے ہو۔
خیر رات اسی ادھیڑ بن میں کٹنے کے بعد قربانی کا وقت آگیا۔ سرجن اپنی ٹیم کے ہمراہ پہنچ گیا تھا۔ امی کو اسٹریچر پہ ڈال کر کاٹ پیٹ کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ جانے سے پہلے انکی شوہر اور بیٹی سے الوداعی ملاقات کروائی گئی۔ ابو سے ڈاکٹر نے پہلے ہی ایک پرچے پہ سائن لے لیے تھے جسکے مطابق مریض کی موت کی صورت کوئی ذمے دار نہ تھا۔ ابو نے اسکو بتایا تھا تو اسکے لاشعور میں موت سماگئی تھی۔ اور اب امی کو تھیٹر میں جاتا دیکھ کر اس سے برداشت نہ ہوا۔ اس نے ایک نگاہ ان پہ ڈالی۔ وہ بالکل بے جان لاش مع​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
معلوم ہورہی تھیں۔ آنکھوں کی پتلیاں ایک جگہ اٹک گئی تھیں۔ ہونٹ سیاہ اور خشک پڑ رہے تھے۔ پیشانی موت سے پہلے ہی بیٹھ گئی تھی۔ اور ہاتھ پیلے اور بے جان تھے۔ امی نے نجانے کہاں سے قوت جمع کرکے اسکو دیکھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ انکی بھی آنکھوں سے دو آنسو نکل کر کنپٹی پہ بہ گئے۔ اس نے انکا ہاتھ اٹھا کر پہلے اپنے سر پہ رکھا جیسے وہ اسکول جانے سے پہلے ااکے سر پہ ہاتھ رکھ کر دعا دیتی تھیں۔ اور پھر چوم کر واپس اسٹریچر پہ رکھ دیا۔ انکا ہاتھ بالکل برف ہورہا تھا۔ جیسے اسمیں جان ہی نہ ہو۔ کہیں امی؟؟؟ اسنے گھبرا کر سوچا۔ ارے نہیں لیکن ابھی تو انکی آنکھ سے آنسو نکلا ہے، زندہ ہیں وہ۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔ اسی حالت میں ایک منٹ گزرا اور پھر نرس اسٹریچر گھسیٹتی آپریشن روم میں چلی گئی۔
ساڑھے تین چار گھنٹے بعد انکو یہ خبر سنائی گئی کہ ابھی حالت خطرے سے باہر نہیں ہے۔ امی کو ہوش نہیں آیا تھا اور اس آپریشن کے بعد کومہ، اندھا پن پاگل پن یا موت جیسا کچھ بھی ممکن تھا۔ موت سب سے ہلکا نقصان ہوگا۔ اس نے پھر لاشعوری طور پہ سوچا اور پھر خود کو کوس کر رہ گئی۔
دوپہر کو بڑی تائی بھی آگئی تھیں۔ شکر ہے کہ وہ سوپ لائی تھیں اور کچھ بسکٹ کیک۔ لیکن آج بھکڑ وردہ کی بھوک مر گئی تھی۔ یا اسکے کھانے پینے کے تمام حواس مختل ہوگئے تھے۔ وہ بھی امی کیساتھ ہی بیہوشی کی دنیا کی سیر کررہی تھی۔
شام ہوگئی لیکن امی کو ہوش نہیں آیا۔ صحت میں ترقی کے بجائے تنزلی یہ ہوئی کہ امی کو وینٹی لیٹر پہ پہنچا دیا گیا۔
اور اسکو اپنے لاشعور پہ آہستہ آہستہ یقین آنے لگا۔
بالآخر وہی ہوا جسکا امکان اور خوف تھا۔
اب اٹینڈنٹ کی ذمے داری پھپھو اور تائی نے سنبھالی اور وردہ کو گھر بھیج دیا گیا۔ اسکول میں اطلاع کردی گئی تھی۔ لیکن پھر بھی اسکو اسٹاف روم میں بلا کر ذلیل کرنا میڈم نے اپنا لازمی حق سمجھا۔ انکے خیال میں بغیر ایپلیکیشن دیے چھٹی کرنا ایک سرکشی پہ مبنی حرکت تھی جسکا ماں کی طبیعت سے تعلق نہیں تھا۔
اس نے انکے سامنے کان پکڑ کر معافی مانگی تب جاکر اسکو کلاس میں بیٹھنے کا اذن ملا تھا۔
اسکول میں تو کیا دل لگتا اسکا تو سارا جہاں اسی اسٹریچر کے گرد آباد تھا جہاں اسکی جنت اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑ رہی تھی۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
وہ بار بار ابو سے ہسپتال جانے کا کہتی اور ابو اسکول کا اور اسکی طبیعت کا بہانہ کرکے اسکو روک دیتے۔ ویسے بھی رونے چلانے کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ وہاں تو اب کچھ اور بچا ہی نہیں تھا۔
دو دن مزید وینٹی لیٹر کا مصنوعی جہاں آباد کرنے کے بعد امی کو دوبارہ اسٹریچر پہ لادا گیا اور ناک منہ میں روئی ٹھونس کر ابو سے معذرت کرلی گئی۔
اس دن وہ بالکل چپ تھی۔ گہرے سناٹے میں، اتنی خاموش جیسے جنگل میں رات کا آخری پہر۔
رات تین بجے انتقال ہوا تھا اور سات بجے صبح میت گھر کے دروازے پہ رکھی تھی۔
خدا معلوم کب کس نے نہلایا دھلایا اور کفن دیا۔ وردہ کے ذہن میں تو بس وہ برف جیسی زرد کلائی اور بے نور آنکھوں میں جھلملاتے اور بہتے دو آنسو رہ گئے تھے۔
نجانے کس کس نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا تھا لیکن وہ دستِ شفقت جو اس نے امی کا ہاتھ خود اٹھا کر سر پہ لیا تھا۔ اسکے برابر اب کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔
بن ٹھن کر آئے ہوئے سبھی خاندان کے لوگوں نے افسوس کم کیا اور پھیلے ہوئے گھر اور گندے پڑے کچن سے ابکائیاں زیادہ لیں۔
اسکو تو خیر اتنا احساس ہی نہیں تھا کہ اب امی کو دفنایا جائے گا۔ وہ تو بس چارپائی کے پائے سے لگی چپ سادھے خلا میں گھور رہی تھی۔
اٹھو وردہ۔ مرد آگئے ہیں جنازہ اٹھانے۔ اٹھو۔ تائی نے اسکو بار بار کہا لیکن وہ نہ ہلی۔ جیسے بہری ہوگئی ہو یا پھر پتھر کی بن گئی ہو۔
ارے ایسے نہیں، اسکو اٹھانا پڑے گا۔ پھپھو نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھانا چاہا تو وہ بچے کیطرح مچل گئی۔ کہاں؟؟؟ کہاں جاؤں؟؟؟ مجھے نہیں جانا کہیں۔ وہ زور سے چلائی۔
اٹھو بیٹا۔ امی کو تکلیف ہوگی نا۔ جانے دو انکو۔ تائی نے اسکو سینے سے لگا کر سمجھایا تو وہ پہلے تو بپھری پھر آہستہ سے "اچھا" کہ کر ان سے لپٹ گئی۔

ذرا دیر بعد رخسانہ بی بی کو منوں مٹی تلے اسکی بیٹی کی آہوں اور سسکیوں تلے چھپایا جا چکا تھا۔
بلکہ گویا اسکی بیٹی کی سبھی خواہشات اور خوشیاں اسکے ساتھ ہی دفن کردی گئی تھیں۔

دفنا کر واپس آئے مہمانوں نے خوش گپیاں کرتے ہوئے چاول اڑائے اور چلتے بنے۔ گھر ایک بڑی سی قبر بن گیا۔ جسمیں وہ اور ابو دفن تھے۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
(تیسری قسط)

یوں لگتا تھا جیسے دادی نے امی کو خط بھیج کر بلوا لیا ہو۔ یا بس اچانک سے وہ وردہ اور اپنے شوہر کو درد اور تنہائی کی اندوہناک کھائی میں دھکا دیکر چلی گئی ہوں۔
وہ جیسی بھی تھیں، بیمار تھیں یا غصیلی، لیکن وہ جب بھی اسکول سے میڈم کی باتیں سن کر گھر آکر رونے لگتی تو اسکو چمکار کر سر پہ ہاتھ پھیرتی تھیں۔ اور ہر دفعہ وعدہ بھی کرتیں کہ "چل منی رو مت، میں خود خیال رکھونگی تیری چیزوں کا۔
اب یہ کرنے والا کون تھا۔ سوئم اور چہلم تک لوگ بن ماں کی بچی اور اسکی ماں کو بھول کر اپنی رنگ رلیوں میں لگ چکے تھے۔
اور وردہ کیلئے بس سیاہ راتوں کی بے خوابیاں رہ گئی تھیں۔ امی کی موت نے لمحے بھر کا قرار بھی چھین لیا تھا۔ دل اتنا بوجھل رہتا تھا کہ اگر کوئی چھو بھی دیتا تو وہ پھوٹ کر رو پڑتی۔ رات بھر اشکوں سے تکیہ بھگوتی رہتی اور آخری پہر ذرا آنکھ لگا کر پھر اٹھ جاتی۔ حسب عادت ابو کیلئے چائے بناتی اور رات کی روٹی سالن گرم کرکے انکو دیتی۔ خود بھی کچھ حلق سےاتار کے اسکول کیلئے تیار ہوتی۔ امی کے بعد اتنی تبدیلی ضرور آئی تھی کہ یونی فارم کا اب وہ خیال رکھنے لگی تھی۔ اب میڈم کی باتیں سہنے کا اسمیں دم نہیں رہا تھا۔ اور ابو نے ایک نیا یونی فارم بھی بنوا دیا تھا۔
وہ اب باہر سے جلد ہی گھر آجاتے تھے۔ بہت تھکے ہارے سے لگتے تھے۔ آکر بس ایسے سوتے کہ مغرب کے بعد جاگتے۔ وہ انکو چائے دیتی اور پھر وہ اپنی ٹریول ایجنسی پہ چلے جاتے۔ وردہ تائی کے گھر چلی جاتی۔ تائی کو بھی اسکا روز چلے آنا زہر سا لگنے لگا تھا۔ انکے بچے کبھی اس پہ کوئی فقرہ کس دیتے تھے۔ وہ کچھ بولنا چاہتی تو تائی ڈپٹ کر اسی کو چپ کرادیتیں۔ امی مجھے بھیڑیوں کے درمیان چھوڑ گئیں، دیکھنا میں بہت لڑونگی ان سے اوپر جاکر۔ وہ آنسو پی کر چپ رہ جاتی۔
ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔ تائی کے لڑکے نے اسکو گالی بک دی اور اس نے پلٹ کر اسکو تھپڑ دے مارا۔ تائی نے چیخ کر آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ وہ فوراً اٹھی اور اپنے گھر آگئی۔ امی کے پلنگ پہ پڑی چادر غصے سے بگاڑ دی۔ تکیہ اٹھا کر پھینکا اور زور زور سے رونے لگی۔ جب ابو آئے تو وہ ان پہ بھی برس پڑی۔

بس مجھے کچھ نہیں پتہ۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لیکر جایا کریں آپ۔ وہ سسکیاں لیتے ہوئے بولی۔
کہیں جانا تو نہیں ہوتا لیکن بیٹا تم اس دکان پہ بیٹھ کر کیا کرو گی۔ تھوڑا برداشت کرلیا کرو۔ گالی چپک تھوڑی جاتی ہے۔ انہوں نے اسکو سمجھانا چاہا۔
بالآخر اسی کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ لیکن اب وہ اپنے ہی گھر میں پڑی رہتی۔ جب ابو آتے تو انکے ساتھ کھانا کھا کر پھر سے اپنے کمرے میں بند ہوجاتی۔
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
وردہ۔ ابو نے ناشتہ کرتے ہوئے اسکو پکارا۔
ہممم۔
مجھے آج ایک جگہ جانا ہے آفس سے۔ رات وہیں رہونگا۔انہوں نے بات پوری کرتے ہوئے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔
اچھا۔ اسنے پھر مختصر جواب دیا۔
تم اپنی تائی کے گھر رک جانا، میں ان سے بات کرلونگا۔ انہوں نے جھجھکتے ہوئے مدعا بیان کیا۔
میں نہیں رہونگی وہاں ایک لمحہ بھی۔ آپکو جہاں جانا ہے جائیں۔ مجھ سے مری ہوئی ماں کی گالی نہیں کھائی جاتی۔ وہ پھر سے رونے کے قریب ہوئی تو ابو چپ ہوگئے۔
اچھا۔ جیسے مرضی تمہاری۔ اکیلے گھر میں ڈرو گی تم۔ انہوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے بھی اسکو متنبہ کیا۔
اکیلی ہی تو ہوں میں۔
بلاوجہ کی ضد کرتی ہو۔ کسی کی گالی چپک جاتی ہے کیا؟؟؟ چلی جانا انکے گھر۔
اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ ابو اسکو اسکول چھوڑتے ہوئے آفس چلے گئے۔

***

وردہ!! فائلوں میں گھسے ابو نے اسکو پکارا تو وہ چونک کر مڑی۔
جی بولیں۔
بیٹھو یہاں سامنے میرے۔ انہوں نے عینک اتار کر ایک طرف رکھی اور فائل بند کرکے اسکی طرف دیکھنے لگے۔
وہ کرسی کھسکا کر سامنے بیٹھ گئی۔
دیکھو وردہ، تم اکیلی رہتی ہو۔ میں بھی آفس اور ٹریول ایجنسی میں لگا رہتا ہوں۔ کھانا بنانا اور کپڑے دھونا سینکڑوں کام ہوتے ہیں...
وہ کہتے کہتے اچانک رک گئے۔

تو کیا ہوا؟؟؟ اس نے سوالیہ نگاہوں سے انکو گھورا۔

تو یہ کہ تم ابھی نائن کلاس میں گئی ہو۔ پڑھائی ہارڈ ہوجائے گی۔ اس گھر کو ایک عورت...
تو کیا آپ ایک عورت لاکر مجھے اسکے ہاتھوں مروانا چاہتے ہیں ابو؟؟؟ اس نے انکی بات کاٹ کر کہا۔
پاگل ہوگئی ہو کیا؟؟؟ وہ کیوں مارے گی تمہیں؟ سوتیلے ہونے کا مطلب کہانیوں والا تو ہرگز نہیں ہوتا۔
لیکن ہم دو ہی تو افراد ہیں۔ کپڑوں کیلئے لانڈری والے کو بول دیں۔ کھانا بھی ہوجایا کرے گا کچھ نہ کچھ۔ اس نے دلائل کا بند باندھنے کی بہتیری کوشش کی لیکن پھر بھی اگلے پانچویں دن اس سے کوئی سات آٹھ سال بڑی سوتیلی ماں اسکی ماں کے بیڈ پہ براجمان تھی۔
وہ ایک دبلی سی گندمی رنگت کی لڑکی تھی. چوڑا ماتھا، لمبے ہلکے گھنگریالے بال اور درمیانے قد والی مناسب قبول صورت۔
ابو نے بس اتنا بتایا کہ انکے کسی دوست کی بیٹی ہے اور اسکو شادی کے ایک مہینے بعد طلاق ہوگئی تھی۔
اس کو بھی سہارے کی ضرورت تھی اور انکو بھی۔ اسلئے یہ شادی سادگی سے انجام پاگئی۔

وہ وردہ سے اچھی طرح ملی لیکن سوتیلی ماں کا کردار کہانیوں اور لوگوں سے پڑھ سن کر اسکے دل و دماغ پہ اتنا راسخ ہوچکا تھا کہ وہ اب اپنے کمرے سے نکلنا ہی بھول گئی تھی۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
ابو کو اس پہ پہلے تو تشویش ہوئی لیکن پھر انہوں نے فساد سے بچاؤ کا از خود بہانہ سمجھتے ہوئے اسکو قبول کرلیا۔
اب تو دو دو دن ہوجاتے تھے لیکن وہ ابو سے بات نہین کرپاتی تھی۔
رات کو انکا کمرہ لاک ہوتا تھا۔ دن کو وہ قیلولہ کرتے وقت بھی کمرہ بند ہوجاتے تھے۔
ناشتے کے وقت سوتیلی سر پہ موجود۔ رات کا کھانا وردہ پہلے کھالیتی تھی اور ابو بعد میں آکر بیگم کیساتھ کھاتے تھے۔ وہ کرتی بھی تو کیا۔
نئی دلہن شازیہ بھی اسکے اس رویے سے اندر ہی اندر کڑھ رہی تھی۔
اسکو یہ تو سکون تھا کہ کچھ ہنگامہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ لڑکی بعد میں کچھ نہ کچھ ضرور گل کھلائے گی۔ اسکا کچھ انتظام ہو ہی جانا چاہئیے۔

سنئیے۔ وہ انکے برابر میں لیٹ کر بال سہلا رہی تھی۔
ہمم۔
آپ اپنی بیٹی کو کہیں رشتے داروں کے ہاں چھوڑ دیں اگر۔
لیکن کیوں؟؟؟ تمہیں اس سے کیا پریشانی ہے؟؟؟ انہوں نے تنک کر کہا۔
پریشانی تو نہیں لیکن بس اسکا ایٹی ٹیوڈ اچھا نہیں ہے۔ اگر اسکو اس گھر میں رہنا ہے تو میری بات مان کر رہنا ہوگا۔ یہ کیا کہ جب دل چاہا اٹھی اور الگ تھلگ جانوروں کی سی زندگی۔
ابو چپ ہوگئے۔
اسوقت تو بات آئی گئی ہوگئی لیکن دن رات کی ایک ہی رٹ اور پیار محبت میں لپٹا ہوا زہر کا تیر بالآخر اثر کرنے ہی لگا۔
پہلے پہل تو ابو نے اسکو سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب وہ بالکل ہی نہ مانی تو اسکو ہٹ دھرم قرار دیکر فتنے سے بچاتے ہوئے اسکو بڑی پھپھو جو ابو کی چچا زاد بہن تھیں کے گھر چھوڑنے کا فیصلہ ہوا۔
ارے نہیں، میں ہر مہینے دو دن آکر رہا کرونگا۔ پھر بڑی پھپھو کا اپنا گھر ہے۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں، وہاں اسکول بھی ہے۔
ابو اسکو خام تسلیاں دے رہے تھے۔

اٹھو، یہ کھانا لایا ہوں۔ کہاں گم ہوجاتی ہو۔
اس نے چونک کر سر اٹھایا تو ابو دو پلاسٹک کی ٹرے میں بریانی لیے کھڑے تھے۔
یہ ابھی ٹرین رکی تو لی ہیں، جلدی سے کھا لو۔ انہوں نے ایک ٹرے اسکی طرف بڑھا دی۔
وہ چپ چاپ چاول کھانے لگی۔
کھانا کھا کر اس نے ایک نظر تیزی سے پچھلی جانب دوڑتے ریتیلے میدانوں کی طرف دیکھا۔ اب سورج ایک سایہ مغرب کیطرف کھنچ چکا تھا۔
دور تک ریت کے ٹیلے چمک رہے تھے۔ کہیں کہیں اگی پیلی گھاس، کہیں کجھور کے درخت۔ اور کہیں خود رو گھاس پھوس۔
میدانوں میں جمع ہوتا بارش کا پانی گڑھوں میں کھڑا تھا۔
کاش مجھے اتنی ہمت ہوتی کہ چلتی ٹرین سے کود جاتی۔ ان میدانوں میں، جہاں کوئی مجھے نہ دیکھ سکتا نہ مل سکتا۔ اکیلے زندگی گزاردیتی گم نامی میں۔ اس نے کرب سے سوچا۔
میری کلاس فیلوز، سونیا، زینب، کلثوم سب کتنی اداس تھیں۔ مجھے تو اس دن انکی دوستی کا پتہ چلا۔ ویسے تو سب مذاق ہی اڑاتے تھے لیکن،، لیکن اس دن واقعی اداس ہی تھے سب۔
چلو اچھا ہوا کسی دن تو میں نے انکی محبت محسوس کی۔
اس نے سوچتے سوچتے برتھ کھولی اور اس پہ لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
اٹھو، وردہ!!! ہمارا اسٹیشن آنے والا ہے۔ ابو نے اسکو جگایا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
مغرب کی اذانیں ہونے ہی والی تھیں۔ اسنے ادھر ادھر دیکھا۔ ٹرین آہستہ آہستہ سلو ہورہی تھی۔ اس نے اپنے بیگ ایکطرف کیے اور سیٹ پہ دوپٹہ سہی کرکے بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد سیٹی کی آواز آئی اور ابو اسکا ہاتھ تھام کر بیگ پکڑے نیچے اتر گئے۔
اسٹیشن کیا تھا کسی پرانے زمانے کا کھنڈر لگتا تھا۔ لال اینٹوں سے بنا اسٹیشن جسکی بہت عرصے سے مرمت نہیں کی گئی تھی۔
نہ کوئی دکان تھی اور نہ ریڑھی۔ اکا دکا چھابڑی والے کھڑے گلا سکھا رہے تھے۔
وہ دونوں سامان گھسیٹتے ایک طرف کو بڑھے تو ایک بوڑھا آدمی انکی طرف لپک کر آیا۔ ابو اس کے گلے لگ گئے۔ اس نے بھی بوڑھے کو سلام کیا۔
ارے واہ اتنی بڑی ہوگئی وردہ۔ تم لائے ہی نہیں نا ملوانے، غفلت ہے تمہاری۔ بوڑھے نے مصنوعی ناراضگی سے ابو کو دیکھا اور وہ مسکرا کر رہ گئے۔
وردہ یہ پھپھا ہیں!!! نوفل پھپھا!!! جن سے تم بچپن میں ملی ہوگی۔
بس بھائی صاحب۔ امی کی بیماری اور وفات پھر بیوی کی موت۔ ان سب میں کہاں موقعہ ملا۔ اس سے پہلے کے حالات بھی آپ جانتے ہی ہیں۔
چلیں گھر جاکر ہی تفصیل ہوگی۔ سفر نے تھکادیا ہے ہمیں۔
ہاں ہاں چلو. وہ سامنے ٹیکسی پکڑ لیں گے۔ پھپھا نے انکے ہاتھوں سے بیگ لینا چاہے لیکن ابو نے منع کردیا تو وہ خالی ہاتھ جھلاتے ساتھ ہولیے۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
(چوتھی قسط)

جلدی اندر آکر کھانا کھا لے۔ کب سے پڑی ہے روٹی۔ سوکھ رہی اور تو ادھر منہ کی کھال چھیل رہا۔ ماں کے مسلسل کوسنے سن کر اس نے ہینڈ پمپ پر سے ہاتھ ہٹایا اور اس سے گرتا پانی منہ پہ مار کر اٹھ کھڑا ہوا۔
بالوں کو پانی چپڑ کر پف نکالا اور ادا سے چلتا ہوا کمرے کی طرف بڑھا۔
جلدی مرجا ادھر۔ اب یہ ناز دکھائے گا اور آج بھی بچے واپس بھگا کر سوجائے گا۔ بچارے دھوپ ڈھلے سے باہر کھڑے کھڑے سورج چھپنے تک انتظار کرتے ہیں اور یہ صاحب مستیوں میں لگے ہیں۔ دیکھ وہ آگیا رام لال۔
ماسٹر رحیم الدین نے ایک نظر اٹھا کر رام لال کو دیکھا۔
آٹھ سالہ رام لال نارنجی کرتی اور مٹیالے سے رنگ کی جینز میں کھڑا تھا۔
بیٹا رام لال باقی کے بچے نہیں آئے؟؟؟؟ اسنے جھینپ مٹاتے ہوئے جلدی سے تولیے سے منہ پونچھا اور رسی پہ لٹکی ٹی شرٹ اتار کر پہن لی۔
نہیں ماسٹر جی۔ رام لال نے مختصر جواب دیا۔ اس کو بھی اب یہ سب دیکھنے کی عادت ہوگئی تھی۔ وہ چپ چاپ آگے بڑھا اور صحن میں رکھی چارپائی ماسٹر جی کے کھانا کھانے تک چارپائی پہ بیٹھ کر انکو تکتا رہا۔
لو کھا لو تم بھی۔ ماسٹر جی نے اسکو بہتیری دفعہ کہا لیکن وہ کہاں کھاتا۔ یہ بجی نہ کہ سکا کہ ہم مسلمانوں کا نہیں کھاتے۔ بس چپکا ہوکر انکاری رہا۔
ارے وہ نہیں کھائے گا۔ کیوں زبرجستی پیچھے پڑا ہے۔ آخر اماں کے چنگھاڑنے پہ رام لال کی جان چھوٹی اور اس نے سکھ کا سانس لیا۔ ابھی ماسٹر جی کا کھانا ختم ہوا ہی تھا کہ باقی بچے بھی پہنچ گئے۔
کیوں بیٹا زینب؟؟؟ اتنی دیر سے کیوں آئیں؟؟ اور تم غلام رحیم؟؟؟ کیا آج پھر پیساب کردیا تھا ہیں؟؟ غلام رحیم کھسیانا ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
ماں کا غصہ بچوں پہ اتار کر وہ انکو لیکر اندر کے کمرے میں بیٹھ گیا اور صبح اسکول میں اپنا ہی پڑھایا ہوا ہوم ورک کروانے لگا۔

***
 

Top