- 2,363
- 1,827
- 143
""دربدر"" (پہلی قسط)مسلسل چلتی ٹرین کی رفتار اب آہستہ ہونے لگی تھی۔دور کہیں مشرق بعید سے سر نکالتا آفتاب دھیمی سی کرن دکھا کر ظلمتوں کیخلاف جنگ کا آغاز کررہا تھا۔وہ آنکھیں ملتی برتھ پہ سے اٹھی اور ایک نظر ابو پہ ڈالی۔ وہ بےخبر سے نیند کی وادی کی سیر کررہے تھے۔اس نے اٹھ کر ایک نظر کھڑکی پہ ڈالی۔ ٹرین ریت کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں اور میدانوں کو پیچھے چھوڑتی درمیانی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔خشک میدان، سیم زدہ زمینیں، کہیں کہیں بارش کا جمع شدہ سڑاند مارتا پانی... اور پھٹی ہوئی کریک زدہ زمین۔دور دور تک نہ کوئی ہریالی نہ جاذبیت۔ بالکل میری قسمت کیطرح، نہ نگاہ کو بھائے نہ دل کو۔ اور گرمی بھی اوپر سے۔اسنے بڑھتی گرمی کو محسوس کرکے بیزاری سے سوچا۔ ٹرین کی رفتار اب بتدریج کم ہورہی تھی۔چلو اچھا ہوا ٹرین رک رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ ابو جاگیں میں کچھ لے لوں۔ اسنے سوچا اور ٹرین کے دروازے کیطرف بڑھ گئی۔ٹرین سے اترتے ہی ایک ہوا کا جھونکا اسکو چھوکر گزرا تو اسکے کانوں میں ایک غصیلی نسوانی آواز گونج گئی۔دوپٹہ سنبھالو اپنا۔ ہوا کے ساتھ ساتھ گھومتا رہتا ہے۔ امی ہوتیں تو یہی کہتیں، وہ اداس سی مسکراہٹ لبوں پہ سجائے دوپٹہ ٹھیک کرکے آگے بڑھ گئی۔کچھ اول جلول چیزیں سمیٹ کر وہ پھر سے ٹرین میں آبیٹھی۔ ابو اب تک بے سدھ سورہے تھے۔ اس نے برتھ کے کونے پہ بیٹھ کر چپس کا پیک کھولا ہی تھا کہ ابو کی آنکھ کھل گئی۔ارے یہ، یہ کہاں سے آیا؟؟؟ انہوں نے حیرانی سے اسکو دیکھا۔وہ ، وہ میں، وہ... اسکے حلق میں جیسے الفاظ اٹک کر رہ گئے۔ کیا وہ وہ؟؟ ٹرین سے اتری تھیں نا؟؟؟ انکی آواز قدرے بلند ہوگئی۔ سامنے والی برتھوں پہ موجود فیملی نے بھی کن اکھیوں سے انکو گھورنا شروع کردیا۔نہیں ابو، وہ آیا تھا پھیری والا اندر۔ اس سے..... اتنا بول کر اسکی آواز رندھ گئی۔بہرحال، کہیں جانا مت۔ ادھر ہی بیٹھو۔ اور کسی سے کچھ بھی مت لینا۔ انہوں نے ادھر ادھر کا ماحول محسوس کرکے آواز پست کی اور واپس منہ موڑ کر لیٹ گئے۔وہ چپ چاپ کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے چپس چبانے لگی۔ٹرین اب دوبارہ چل پڑی تھی۔ ذرا دیر میں سورج سر پہ تھا۔ اور دونوں طرف ریت کے ڈھیر پیچھے چھوڑتی ٹرین اپنی منزل کی جاب رواں تھی۔پتہ نہیں اب میں گھر واپس بھی جا سکوں گی یا نہیں۔ کیا ہوگا میرا....اس کے یہ سوچنے کیساتھ ہی اسکو اپنی گھریلو زندگی یاد آگئی۔پھر اپنا بچپن اور دادی کا امی کیساتھ رویہ۔ وہ ان مناظر میں جیسے کھو کر رہ گئی۔ ***ہاں بڑا تیر مارا ہے نا تو نے۔ ایک ایسی بیٹی کو پیدا کیا ہے جس نے تجھے ہی ناکارہ کردیا۔ منحوس تو ہے ہی، پھوہڑ بھی ہے۔ جیسی ماں ویسی بیٹی۔ دادی نے اسکو ایک تھپڑ مارنے کے بعد چلا کر کہا تھا۔جرم اتنا ہی تو تھا کہ کانچ کا نیا گلاس اسکے ہاتھ سے گرگیا تھا۔ ہاں لیکن وہ دادی خود جاکر لائی تھیں اسلئے انکو غصہ آگیا۔وہ گال سہلاتی سسکیاں بھرتی پردے کے پیچھے چھپ گئی۔ امی کانچ کے ٹکڑے سمیٹنےلگیں اور ننھی وردہ نجانے کب روتے روتے بیٹھی اور سوگئی۔ صفائی کرکے امی آئیں اور اسکو اٹھا کر بیڈ پہ لٹا دیا۔ ***سنیں! وردہ کے اسکول سے لیٹر آیا ہے۔ فیس جمع نہیں کروائی آپ نے اور فائن لگ گیا۔ آج اسکو کھڑا کرکے ذلیل کیا ہے مس نے۔ امی نے ابو سے احتجاج کیا۔ وہ مڑے اور ایک غصیلی نگاہ اس پہ ڈالی۔ وہ سہم کر رہ گئی۔ابو چلا کر بولے: منحوس لڑکی، پڑھتی وڑتی بھی کچھ نہیں اور خرچے الگ ہیں اسکے۔ کہا بھی ہے لڑکی کو مت پڑھاؤ۔کیوں نہیں پڑھاؤ۔ اپنی بہن کو تو ڈاکٹر بنایا تھا آپ لوگوں نے۔ میری بیٹی نہ پڑھے۔ امی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ہاں تو میری بہن کے چار بھائی تھے۔ اور اسکا ایک بھی نہیں۔ پتہ نہیں کس گھڑی کی پیداوار ہے کمبخت۔اور تمہیں بھی تو بیمار بن کر رہنے کا شوق چڑھا رہتا ہے۔ بس ماں کی دوا لاؤ اور بیٹی کی فیسیں جمع کرواؤ۔ اور دونوں کسی کام کی نہیں۔ منحوس نسل۔ وہ غصے میں بکتے جھکتے باہر نکلنے لگے۔اس نے دروازے کے سامنے آکر کچھ کہنا چاہا تو ابو اسکو ہلکا سا دھکا دیکر باہر نکل گئے۔ وہ خشک آنکھیں لئے سوالیہ نظروں سے ماں کو گھورتی رہ گئی۔وردہ کو چھٹی جماعت میں آکر پتہ چلا کہ اسکو منحوس کیوں کہا جاتا ہے۔ اسکو تو شاید پتہ نہ چلتا لیکن بھلا ہو ارشد چچا کی بیٹی کا جو بارھویں میں تھی۔ اس نے جب وردہ کو ساری بات بتائی تو وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکو تکنے لگی۔تو سونیا اسمیں میرا کیا قصور ہوا بھلا۔ وہ رندھی ہوئی آواز میں اتنا کہ کر چپ ہوگئی۔انہی حالات میں وردہ اسکول جاتی رہی۔ امی کی ناک کا آپریشن ہوا تھا اسلئے پانی کے سارے کام اب اسکے ذمے لگ گئے تھے۔ کچھ تائی میلا رہ جاتا تھا۔کبھی استری ہوئی تو ٹھیک ورنہ میلا پہن کر چلی گئی۔ کیا ہوا جو کھڑا ہونا پڑجاتا تھا۔ یا مس بھری کلاس میں باتیں سنادیتی تھیں۔ پیریڈ کے بعد باتھ روم میں جاکر رو کر دل ہلکا کر کے واپس سیٹ پہ آکر بیٹھ جاتی تھی۔جس دن سے سونیا نے اسکو "منحوس" کی اصلیت بتائی تھی اسی دن سےاسکو دادی سے یک گونہ نفرت سی محسوس ہونے لگی تھی۔ کبھی کبھار انکی گالی سن کر اسکے منہ سے بددعا بھی نکل جاتی تھی۔ شاید اسکا اثر ہی ظاہر ہوا کہ فٹ فاٹ دادی ایک دن ایسی سوئیں کہ پھر سوتی ہی رہ گئیں۔بظاہر اسکو بھی دوسروں کی طرح بہت صدمہ ہوا لیکن سبھی کا صدمہ جھوٹا تھا۔اولاد ماں کے جانے کے بعد پراپرٹی کے جھمیلوں میں دست و گریباں ہونے کا پلان لئے بیٹھی تھی اور وردہ عمران ایک گھریلو حریف کے مرنے پہ ہلکی سی خوشی دبائے بیٹھی تھی۔اب ایک منحوس کہنے والا بلکہ اسکو منحوس کہنے کی ابتداء کرنے والی دادی نہیں رہی تھیں۔ شاید اب اسکی نحوست ختم ہوجائے۔ یا پھر ابو کو بھی مرنا ہی پڑے گا۔ وہ میت کے سرہانے بیٹھی یہ سوچ کر جھرجھری لیکر رہ گئی۔ سچ میں وہ کتنی منحوس تھی_____