Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,373
1,838
143
وردہ!! اسکول کی چھٹی کے وقت ماسٹرجی نے اسکو پکارا تو اسکے ساتھ نکلتے رام لال اور سجن نے بھی مڑ کر ماسٹر جی کو دیکھا۔
تم سب وردہ ہو کیا؟؟؟ جاؤ اپنے اپنے گھر۔ اور تم یہاں آؤ۔ ماسٹر جی نے باقی بچوں کو بھگا کر اسکو واپس آنے کا اشارہ کیا۔
جج جی سر۔ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
بیٹھو یہاں۔ انہوں نے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے اسکو سامنے بیٹھنے کا کہا۔ وہ سامنے دری پہ بیٹھ گئی۔

تمہارے بارے میں بتایا تھا نوفل صاحب نے۔ بہت اکیلی ہو تم۔ دکھی بھی رہتی ہو۔ ماسٹرجی اتناکہ کر چپ ہوگئے اور وہ انکے اگلے الفاظ سننے کیلئے تیار ہوگئی۔
اتنا دکھی مت رہا کرو، یہاں کے بچوں سے بات کیا کرو۔ انکو چیزیں دو، شئیر کرو۔ وہ اسکو سمجھانے لگے۔
کبھی اکیلا پن لگے یا بچے تنگ کریں تو گھر آجایا کرو ہمارے۔
اماں بھی اکیلی رہتی ہیں۔ وہ تمہیں پسند کرتی ہیں۔ کل کہ رہی تھیں کہ وہ لڑکی اچھی بہت ہے، لیکن دکھی رہتی ہے۔
ٹھیک ہے سر۔ میں کوشش کرونگی۔ آپکے گھر بھی آؤنگی پھپھو کیساتھ۔
ٹھیک ہے جاؤ تم اب۔ اور یہ رکھ لو۔ انہوں نے اسکو جیب سے دس کا نوٹ نکال کر دیا تو وہ انکی سادگی پہ ہنس دی۔
ارے نہیں سر، میں نہیں لونگی۔ پھپھا ہی لا کر دیتے ہیں سب کچھ۔ اس نے لاکھ انکار کرنا چاہا لیکن ماسٹر جی بضد رہے۔
آخر اسکو لینا ہی پڑا۔
ماسٹر جی کتنے اچھے ہیں۔ میں نے بلاوجہ کھڑوس سمجھا تھا انکو، اس نے گھر لوٹتے ہوئے سوچا۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,373
1,838
143
"ساتویں قسط"

کیا کررہا ہے ماسٹر جی اس چھوکری کیساتھ؟؟؟
گیٹ پہ کھڑے رام لال نے گولا کھاتے سجن سے کہا۔
خدا جانے اپنے کو تو منہ نہیں لگاتی وہ انگلش میم صاحب، کہتی ہے پڑھائی میں ہم زیرو ہیں۔

ارے دفع کر پڑھائی کو، ابھی دیکھ کیا چل رہا؟؟؟
رام لال نے اسکا بازو پکڑ کر گھسیٹا اور اسکول کی پچھلی جانب کی کلاس کی کھڑکی سے جھانکنے لگے۔

رام لال!!! وہ دیکھ، وہ دیکھ.... دس کا نوٹ دے رہا ہے۔
ششش چپ کر۔ دیکھ لیا۔ یہاں تو کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ رام لال نے چپکے سے اسکا ہاتھ پکڑا اور دونوں وہاں سے نکل آئے۔

وردہ نے انکو اسکول کی پچھلی جانب سے دیکھا تو ایکدم ٹھٹھک کر رہ گئی۔
یہ دونوں وہاں کیا کررہے تھے؟؟؟ کہیں انہوں نے؟؟ لیکن سر نے کونسا کچھ کردیا مجھکو۔۔۔ مجھے کیا۔ وہ سر جھٹک کر گھر کی طرف چل دی۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,838
143
یار سجن، ویسے ماسٹر سے اچھا تو میں ہوں۔ رام لال کنکر تالاب میں پھینکتے ہوئے بڑبڑایا تو سجن نے چونک کر اسکو دیکھا۔ اسکی آنکھوں میں حیرت ہی حیرت تھی۔
کیا ہوا ایسے کیوں دکھ رہا ہے؟؟ رام لال شاید اسکی حیرت کو بھانپ گیا تھا۔
وہ، وہ تو کہ رہا تھا کہ مسلی... اور وہ... سجن اٹک کر رہ گیا۔
ارے وہ سب ٹھیک ہے۔ لیکن ماسٹرجی کی عمر دیکھو۔ وہ اس چھوری پہ ہاتھ ڈالتے نظر آرہے مجھے تو۔ رام لال نے رازدارانہ انداز میں کہا۔ جیسے ماسٹرجی پیچھے کھڑے ساری بات سن رہے ہوں۔

ارے نہیں رامو، تجھے شک ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ اسکو کچھ انعام دے رہے ہوں۔ یا ویسے ہی کچھ پیسے۔ جیسے اپن کو اماں دیتی ہیں۔ اسکی اماں بھی نہیں۔ اور ابا یہاں چھوڑ گیا ہے۔ ہمیں ایسا نہیں سوچنا چاہئیے۔ سجن نے اگرچہ اسکی بات کو رد کردیا تھا لیکن اسکا دل بھی ہولے ہولے کھٹکا کررہا تھا۔
اور ویسے بھی، تجھے تو نفرت ہے نا اس سے۔ تو تو بڑا بنتا ہے اسکے سامنے کھڑوس۔ سجن نے اسکو چڑایا۔
ہاں، ہوں تو پر ماسٹرجی کو نہیں آنے دینا میں نے بیچ میں۔ رام لال نے ہاتھ کا آخری کنکر تالاب میں پھینکا اور ہاتھ جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا۔
چل سجن تیرے ہی گھر چلتے ہیں۔ کل تیری ماں کہ رہی تھی گوشت بنائے گی۔
ہاں لیکن تو۔ سجن کہتے رہ گیا۔
ارے چل نا، بس آج موڈ خراب ہے۔ رام لال نے اسکا بازو کھینچا اور اسکے گھر کی طرف لے چلا۔

ویسے سنا ہے ماسٹرجی کی اماں اسکے لئے لڑکی دیکھ رہی ہیں۔ لیکن کوئی مل کر نہ دے انکو۔ کل میری ماں پڑوس والی مائی کو بتا رہی تھی۔ سجن نے اسکو بتایا۔
اچھا، اور لڑکی کیوں نہ ملے ہے۔
اپنے ماسٹرجی دور کہیں سے آئے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جیل سے بھاگے ہوئے ہیں۔ روپ بدل کر یہاں رہتے ہیں۔

روپ مطلب دیوی دیوتا...

ارے یار رامو ہر جگہ دیویوں کو مت گھسیڑا کر۔ سجن نے سر پہ ہاتھ مارا تو رامو شرمندہ ہوگیا۔

اچھا پھر بتا کونسا روپ؟؟

وہی بتا رہا۔ ارے یار مطلب بھیس بدل کر رہتے ادھر۔
اسلئے سب لوگ عزت تو کرتے لیکن لڑکی کوئی نہ دے انکو۔

اچھا، لیکن یہ مسلی پہ ہاتھ کیوں ڈال رہا۔ اسکو نہ ملنی چاہئیے وہ بس۔ رام لال نے نتھنے پھلائے۔

ہاں تو کچھ کر نا۔ اس سے دوستی کرلے۔ سجن نے اسکے دل کی بات بولی۔

نہیں یار۔ مجھے پسند نہیں وہ مسلی کہیں کی۔ اس نے اٹک اٹک کر کہا۔
چل ہٹ. یوں تو مجھ سے بھی نفرت کرنی چاہئیے تجھے۔ میں بھی مسلمان ہوں۔ سجن نے اسکو غور سے دیکھا تو ہ گھبرا گیا۔

ہا، ہاں۔ لیکن مجھے.. مجھے اس سے شرم آتی ہے۔

لے، اسمیں کیسی شرم؟؟؟ کرلے دوستی۔ جاکر اس سے۔ بس تھوڑی بڑی ہے تجھ سے عمر میں۔ لیکن دوست تو بن سکتی ہے نا۔

لیکن اسکو کیسے بتاؤں گا؟؟ رامو ادھر ادھر دیکھتے پتھروں کو ٹھوکر لگاتے چل رہا تھا۔

سوچنے دے، سن ایسا کرتے ہیں پاس والے گاؤں سے چمک والے کارڈ ملتے۔ وہاں سے ایک کارڈ لاکر دوستی لکھ دیو۔ وہ سمجھ جائے گی۔ سجن نے حل پیش کیا۔

لیکن مجھے ابھی کرنا ہے کچھ ٹیوشن میں۔ رام لال نے جلدی مچائی۔

اچھا تو پھررر، فلم کیطرح پھول دیدیو اسکو۔ سجن اسکو دیکھ کر چہکا۔
ارے نہیں۔ پھول نہیں دیا جائے گا مجھ سے۔ رام لال کا چہرہ سرخ ہونے لگا۔
پھر ایسے ہی رہ۔ اور سب کو بتاتا رہ کہ تو اس سگ نفرت کرتا ہے۔
اور دیکھتے رہنا جب ماسٹر کے دل میں بس جائے گی وہ۔ پھر اس سے وہ...
چپ بکواس بند کر.. رام لال نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر ایسے دبایا جیسے اسکے منہ سے الفاظ نکلتے ہی سچ ہوجائیں گے۔
چچا لعل دین کے گھر کی طرف دیکھ گلاب کا پودا لگا ہے۔ جا ایک پھول لیکر آجا۔ رامو نے اسکو دوڑایا اور جلد ہی پھول اسکے ہاتھ میں تھا۔

اب اسکو دوں کیسے؟؟؟ رامو نے ایک نیا سوال کھڑا کردیا۔
اسکو ٹیوشن کے بعد دیدیو۔

یار چپ چاپ نہیں دے سکتا کیا؟؟ رام لال نے پریشان ہوکر اسکی طرف دیکھا۔

اسکو پتہ کیسے چلے گا کہ تو نے دیا ہے۔

یہ بات بھی ہے۔ رام لال نے تائید میں سر ہلایا۔

اچھا چل بستے میں رکھ دیو اسکے موقعہ دیکھ کر۔
سجن فوری حل نکالنے میں تیز تھا۔

چل سہی ہے۔ اگر رکھ سکا تو رکھ دونگا ورنہ ٹیوشن کے بعد سیدھا اسکی ہتھیلی پہ۔ رام لال نے جوشیلے انداز میں کہا۔

اور اسکے بعد اسکی ہتھیلی تیرے گال پہ۔
اور ماسٹرجی کا ڈنڈا تیرے کولہے پہ۔ سجن نے اسی انداز میں کہا اور قہقہے لگاتا اپنے گھر میں گھس گیا۔
اسکے پیچھے رام لال بھی اندر ہوا اور دروازہ بند کرلیا۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,838
143
دروازے پہ مسلسل دستک ہورہی تھی۔ کافی دیر بعد دروازہ کھلا۔
کہاں تھے سب لوگ؟؟ میرا مطلب ہے کہاں تھیں تم؟؟؟
عمران صاحب شازیہ پہ برس پڑے۔
سو رہی تھی۔ اس دوپہر میں آئے ہیں آپ تو بندہ سورہا ہوگا نا۔ سلام دعا کے بغیر ہی برس پڑے۔

عمران صاحب کو شدید جھٹکا لگا۔
حیرت ہے تمہیں میری تھکاوٹ کا احساس نہیں ہے۔ اپنی نیند کی پڑی ہے۔ انکو خود اپنی آواز کسی گہرے کنوئیں میں سے آتی محسوس ہوئی۔

ارے کیا احساس احساس؟؟؟
خود تو مستیاں کرنے رک گئے تھے وہاں۔ اور مجھے احساس دلا رہے ہیں۔ اور سفر کیا ہے آپ نے۔ دلی فتح نہیں کی کوئی۔ شازیہ کی آج پہلی بار زبان کھلی تھی۔ وہ کبھی اس پہ ایک نگاہ ڈالتے کبھی خود کے سراپے پہ۔

میں یہاں سڑ رہی تھی اور یہ وہاں رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ ایک تو بے وقت آئے اوپر سے احساس...
عمران صاحب نے چپ چاپ بیگ کاندھے سے اتارا اور ایک طرف پٹخ کر دوسرے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

اچانک انکو سامنے سے ایک ہیولا آتا دکھائی دیا۔

انہوں نے کچھ سوچے بغیر اسکو پکارا۔ وردہ!!! کہاں رہ گئی تھیں تم۔ میں اتنا تھکا ہوا... وہ دوڑتی ہوئی انکی طرف بڑھی... انہوں نے جلدی سے بانہیں پھیلائیں۔ لیکن ہیولا تو انکے اندر سے گزر سا گیا۔
وہ گھبرا کر پلٹے تو پیچھے کچھ بھی نہیں تھا۔
عمران صاحب آنکھیں صاف کرتے اٹھے اور وردہ کے کمرے میں داخل ہوگئے۔
جیتے جی اپنی بیٹی کو درگور کردینے کا احساس انکو مارے ڈال رہا تھا۔
کھڑکی کھلی تھی اور سامنے سے سہ پہر کی ہلکی دھوپ بیڈ پر پڑ رہی تھی۔
وہ اسکے بستر کی طرف بڑھے۔ آج چادر پہ کوئی شکن نہیں تھی۔اسکا کمرہ پھیلنے کہ شکایت انکو اکثر رہتی تھی۔ اور یہ بھی کہ وہ پاؤں لیکر بیڈ پہ چڑھ جاتی ہے۔ آج چادر مسلی ہوئی نہیں تھی، البتہ ایک ہلکا سا پاؤں کا دھبہ رہ گیا تھا۔ انکے سامنے وردہ کا سہما سا چہرہ گھوم گیا جب وہ اسکو اسطرح بیڈ پہ چڑھنے کیوجہ سے سخت باتیں کہتے اور وہ سہم کر رہ جاتی۔ وہ بے اختیار جھکے اور پاؤں کے اس دھبے کو چوم لیا۔
مسہری پہ ہلکی سی گرد جم گئی تھی۔ ان چار دنوں میں کسی نے اسکو چھوا تک نہیں تھا۔ تکیے کے ایک طرف رسالہ پڑا تھا۔ کوئی ڈائجسٹ تھا۔ اس پہ بھی ہلکی سی دھول جم گئی تھی۔

انہوں نے جھاڑ کر رسالہ کھولا۔ ایک جگہ چند اشعار لکھے تھے۔ جن میں سے ایک دو وردہ نے ٹک لگا کر انڈر لائن کیے تھے۔

لکھا تھا:
*بس جی رہے ہیں اتنا غنیمت ہے اے عدم
کس طرح ہورہی ہے گزر کچھ نہ پوچھیے۔

*بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی۔

عمران صاحب سے رہا نہ گیا۔ انہوں نے آہستہ سے رسالہ واپس رکھا اور کمرے سے نکل آئے۔
ابھی تو بہت پچھتاوا باقی تھا۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,838
143
آج پھر ٹیوشن کو دیر ہورہی تھی۔ پھپھو بھی نا۔ ایک تو دیر سے جگاتی ہیں اوپر سے یہ لسی پیے بنا نکلنے نہیں دیتیں۔ اس نھ جھنجلا کر سر ہلایا۔
اسی لمحے پھپھو اندر داخل ہوئی تھیں۔
یہ گائے کی طرح سر کیوں ہلا رہی ہے؟؟؟ یہ لے لسی پی اور جا جلدی ٹیوشن۔ چارو ناچار اس نے لسی کا گلاس ان سے لیا اور منہ سے لگا کر ایک لمحے کو سوچا۔ نا نا کرکے بحث کرنے کا نہ تو وقت تھا اور نہ پھپھو نے ماننی تھی۔ مرتی کیا نہ کرتی ایک ہی سانس میں لسی حلق میں انڈیل گئی۔
شاباش، چل اب تیار ہوکر نکل جلدی۔ پھپھو نے اسکا منہ دوپٹے کے پلو سے رگڑا اور وہ ایک بار پھر ابکائی لیکر رہ گئی۔
جلدی سے بڑی اوڑھنی میں کفنا کر انہوں نے اسکو بستہ دیا اور وہ تیز قدموں سے چلتی بلکہ تقریباً دوڑتی ماسٹرجی کے گھر کی جانب چل دی۔
پھپھو دور تک دروازے پہ کھڑی اس کو تکتی رہیں یہاں تک کہ وہ بائیں طرف کو مڑ کر گلی میں چلی گئی۔

***

وہ دونوں سجن کے گھر سے نکل کر ماسٹر جی کے گھر کے قریب پہنچے ہی تھے کہ سجن کی نظر چادر میں لپٹی دور سے آتی وردہ پہ پڑی۔

دیکھ آگئی وہ۔ وہ آگئی رامو۔
سجن نے رام لال کا ہاتھ پکڑ کر دبایا۔ اسکی تو ویسے ہی جان حلق میں آگئی تھی اب دل اور دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے کچھ بولنا چاہا لیکن خخ قق کرکے رہ گیا۔
اس نے ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن سجن وردہ کو دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ اسکو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ سجن کا ہاتھ دبا رہا ہے۔
افوہ کمبخت ہاتھ تو چھوڑ!!
ارے ابھی موقعہ ہے، ابھی ہی پھول دیدے اسکو۔ جلدی جا رامو۔
ارے ابھی کیسے دوں۔ مجھ سے نہیں ہورہا۔
ارے دیدے کچھ نہیں بولے گی وہ۔ سجن نے اس پہ دباؤ ڈالا۔
ارے نہیں ابھی نہیں۔ بعد میں، ارے اررررے رک۔ ارے ارے۔
رام لال ارے ارے کہتا رہ گیا اور سجن تو ایسے نہیں مانے گا کہ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر وردہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
وردہ نے چونک کر انکی طرف دیکھا،
کیا ہوا؟؟ اسکا یہ کہنا تھا کہ سجن کی بولتی بھی بند ہوگئی۔
یہ،، وہ یہ،، یہ،، تم سے کچھ کہنا... چاہتا ہے۔ اسنے تھوک نگل کر بمشکل بات پوری کی۔

کیا کہنا ہے اتنا مشکل؟؟؟ وہ اسکے اٹکنے پہ مسکرائی تو رام لال کی جان میں کچھ جان آئی۔

سنو۔ میرا نام رام لال ہے۔

تو کیا ہوا تمہیں؟؟ مجھے پہلے سے پتہ ہے۔ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
یہ تمہارے لئے ہے۔ رام لال نے پھول آگے بڑھا کر اسکو دیا اور ویسے ہی بیٹھ گیا جیسے وہ فلموں میں ہیرو کو دیکھا کرتا تھا۔
وردہ نے پہلے تو حیرت سے اسکو دیکھا پھر غصے اور شرم سے اسکے چہرے پہ سرخی پھیل گئی۔
وہ پھول سمیت آگے بڑھی اور ماسٹر جی کے گھر میں داخل ہوگئی۔
پیچھے پیچھے سجن اور رام لال بھی ہکا بکا گھسے چلے آئے۔ اس نے ایک نظر رام لال پہ ڈالی تو اسکا رنگ اڑا ہوا تھا اور تھر تھر کانپ رہا تھا۔ رام لال اسکی اشارے سے منت سماجت کرنے لگا۔
نجانے ایسی کونسی سزا ملنے کا ڈر تھا کہ اچھا بھلا رام لال پسینے پسینے کھڑا تھا۔ وردہ نے بیگ اتار کر چپ چاپ پھول اندر رکھ لیا۔
رام لال کی سانسیں بحال ہوئیں اور فرطِ جذبات سے اس نے وردہ کو فلائینگ کس کا اشارہ دیدیا۔
وہ پھر سے جل بھن اٹھی۔ لیکن جان بخشی کرچکی تھی اسلئے منہ پھیر کر رہ گئی۔
شکر ہے بچ گئے ورنہ تو مرغا بن کر عزت افزائی ہوتی ۔
رام لال نے پیشانی سے پسینہ پونچھا اور گنگ سا سجن بس ہمم کرکے رہ گیا۔
لیکن اس تجربے سے رام لال کے دل سے مسلی اور بے رحم ہونے کا خیال جاتا رہا تھا۔
اسکی جگہ وردہ کی معصومیت لے رہی تھی۔ اور وہ بھی بچہ ہی تو تھا۔ ذرا سی ہمدردی پہ پھسل جانے والا۔ یہاں تو اسکو وہ پسند بھی آرہی تھی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,373
1,838
143
آٹھویں قسط"

آج کا کانٹا تو فٹ بیٹھ گیا سجناں۔ رام لال نے اسکو گرمجوشی سے دبوچتے ہوئے کہا۔

ہاں ہوا تو سب سہی۔ لیکن ایک بات بتا. سجن نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔

کیا بتاؤں؟؟؟

یہ بتا کہ تیری اماں تو مانے گی نہیں، اسکو کیسے منائے گا تو؟؟ سجن نے ڈرامائی انداز میں کہا۔

مطلب کیا کہنا چاہ رہا ہے تو؟؟ رام لال کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔

ارے یہی کہ تو اس سے شادی کرنا چاہتا ہے نا۔

لل لیکن،،، لیکن... سجن کے اچانک حملے سے وہ بوکھلا گیا اور ہکلانے لگا۔

بس لیکن ویکن چھوڑ یہ سوچ۔ سجن نے اسکو ایسے کہا جیسے ابھی وہ اسکی کنڈلی نکال کر قسمت کا حال بیان کردے گا۔
سب سے پہلے تو چھوری کو اپنی سائیڈ کرنا ہووے گا۔
پھر اس ماسٹر سے اسکو بچانا۔ پھر اپنی اماں کو منانا اور رشتہ بھیجنا۔
مجھے تو ناممکن ہی لگ رہا یے ویرو۔ رام لال نے ہمت ہارتے ہوئے کہا۔
تجھے تو پھول دینا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ دیدیا نا۔ اب سن، بس ہم اب شہر جاکر وہ چمیکلا دوستی کارڈ لائیں گے۔ اور تیری تصویر بھی اتروا لیں گے۔ مست ہیرو والا کارڈ دیو پھر اسکو۔ کیا سمجھا۔ سجن نے اسکے کاندھے پہ ہاتھ مارا اور وہ دانشورانہ انداز میں بس سر ہلا کر رہ گیا۔
گاؤں سے سڑک کی طرف ذرا ہٹ کر ایک تالاب اکثر انکی بیٹھک رہنے لگا تھا۔ بلکہ اب تو جب بھی انکو دیر ہوجاتی تو ان دونوں میں سے کسی کی اماں چیختی چلاتی سب سے پہلے وہیں پہنچتیں۔
لیکن شہر جانے کی اجازت کون دے گا ہمکو؟؟ یہ کہتے ہوئے رام لال نے ایک ننھا سا کنکر اٹھایا اور تالاب میں پھینک دیا۔
تو بس اسی روپے کی جگاڑ کرلیو۔ ماسٹرجی سے کہدیں گے کہ بیمار تھے اور گھر سے اسکول کا کہ کر چلے جائیں گے۔
چل سہی ہے۔ اب سورج ڈوبنے لگا ہے میری ماں آجائے گی جوتا لیکر۔ رام لال نے ہنستے ہوئے کہا اور دونوں ریت کے ٹیلے سے اٹھ کر اپنے اپنے گھر کی طرف چل دیے۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,838
143
ارے رامو پگلا گیا ہے کیا؟؟ رات کے وقت گلک توڑ رہا ہے۔ ارے بتی نہیں ہے، صبح توڑ لیو کمبخت کے پیر میں چبھ گیا تو خون خون ہوجائے گا۔
شنکتلا اسکو بے نقط سنا رہی تھی لیکن وہ بھی بغیر روشنی کے صحن کے کونے میں گلک توڑنے کی کوشش کرتا رہا۔
بالآخر اسکو اٹھنا ہی پڑا۔ یہ لے لالٹین کی روشنی میں کر۔ منحوس اولاد چین نہیں لینے دیتی ذرا سا بھی۔
وہ ہلکا سا مسکرایا اور جلدی سے گلک توڑ کر اسکے ٹکڑے ایک طرف کرکے سکے گننے لگا۔دو سو پچاسی روپے تھے۔
اتنی رقم جسمیں شہر یاترا آرام سکون سے کی جاسکتی تھی۔ وہ نہال ہوکر اٹھا ، نوٹ اور سکے سمیٹ کر جھولی میں اٹھائے اور چارپائی پہ تکیے کے نیچے رکھ کر نیم دراز ہوگیا۔ جلد ہی وہ گہری نیند سوچکا تھا۔
نجانے کیوں رات کو گلک توڑا ہے، کیا کرے گا ان پیسوں کا آخر یہ۔شنکتلا نے کروٹ بدل کر سوچا۔ چلو شکر ہے سو تو گیا۔

ابھی وہ کچھ سوچنے ہی والی تھی کہ دروازے پہ بہت ہلکی سی دستک ہوئی۔
لعنت ہو اس پہ۔ کہا بھی تھا کہ آج طبیعت خراب ہے۔ وہ بڑبڑاتی اٹھی اور دروازے کی جھری میں سے باہر جھانکا۔
باہر چاندنی میں نہایا شخص صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اسکے بالوں کا مخصوص چھجے کیطرح باہر کو نکلا ہوا پف جسکو وہ ادا سے بار بار سمیٹ رہا تھا۔

اب کھول بھی دو جانِ بہار۔ باہر کھڑا ہوا اجنبی زیرِ لب بڑبڑایا۔
اس نے آہستگی سے دروازہ کھولا لیکن چرچراہٹ پیدا ہو ہی گئی۔
کک کون ہے؟؟ کون ہے وہاں؟؟؟ اماں کہاں ہو تم؟؟ نجانے رام لال کیسے جاگ گیا تھا۔
اففف، کمبختی.. باہر کھڑے اجنبی نے سر پیٹ لیا۔
ارے کچھ نہیں بیٹا یونہی دروازہ کھولا تھا۔ مجھے لگا پڑوس والی موسی آئی ہے تیری۔ سوجا کوئی نہیں ہے۔
شنکتلا اسکو تسلی دیتی اسکے سرہانے آ کھڑی ہوئی۔ پھر بیٹھ کر اسکے بال سہلانے لگی۔ جلد ہی وہ دوبارہ پرسکون نیند سو چکا تھا۔
وہ چپ چاپ اٹھی اور اب کی بار نہایت آہستگی سے دروازہ کھولا۔ اب تو رامو جاگ بھی رہا ہوتا تو اسکو پتہ نہ چلتا۔
باہر اجنبی ایک شیطانی مسکراہٹ کیساتھ موجود تھا۔
وہ دبے قدموں بلکہ پاؤں کے انگوٹھوں کے بل چلتا ہوا اندر آیا۔ شنکتلا نے اسی رفتار اور تکنیک سے دروازہ بند کیا اور اسکے پیچھے پیچھے مردہ قدموں سے اندر اندھیرے میں غائب ہوگئی۔

کہا بھی تھا کہ آج مت آنا۔ طبیعت بوجھل ہے۔ وہ اسکے پہلو میں لیٹی سینے پہ جھکی آہستہ آواز میں سرسرا رہی تھی۔
کیا کریں تمہار بن چین نہیں آتا شنکتلا دیوی۔ اور اوپر سے تمہارے بدن سے اٹھتی بھینی بھینی باس ہمیں زندہ نہیں رہنے دیتی۔
رہنے ہی دو۔ سب پتہ ہے کہاں کہاں منہ کالا کرتے ہو تم۔ اس نے اجنبی کے سینے پہ ہاتھ مارا اور وہ مسکرا کر کسمسا دیا۔
راشن بھی بالکل ختم ہوگیا تھا۔ ورنہ لات مار کر بھگا دیتی آج تمکو۔ اب اٹھو اور جاؤ۔ وہ اسکے پہلو سے نکلنے لگی تو اجنبی نے اسکا بازو پکڑ لیا۔
ارے، ارے ابھی سے کہاں۔ صبح چلے جائیں گے ہم۔۔ اس نے زور آزمائی کرنا چاہی۔
نہیں بس بہت ہوگیا رامو اٹھ جائے گا۔ دفع ہوجاؤ اب۔ شنکتلا اس سے ہاتھ چھڑانے لگی۔ اجنبی اسکو جھٹکے سے کھینچا تو وہ دھپ سے اسکے اوپر گرپڑی۔

اماں!!! کیا کررہی ہو اندر؟؟ رام لال ایک بار پھر جاگ گیا تھا۔
کہا تھا نا منحوس انسان، لیکن تیری آگ نہیں بجھتی۔ اس نے کہا تو اجنبی کا خون خشک ہوگیا۔ اسکا منہ جہاں گڑا تھا وہی گڑا رہ گیا۔ شنکتلا جلدی سے اسکا منہ پرے کرکے اٹھی اور بلاؤز ٹھیک کرتی رام لال کے پاس پہنچ گئی۔ چاندنی میں نہایا ہوا صحن اور اسمیں بچھی دو چارپائیاں بالکل کسی بڑے سے گہری نیلی اور مٹیالی جھیل میں چلتی کشتیوں کا منظر بنا رہا تھا۔
رام لال اسکو دیکھتے ہی نیند میں کچھ بڑبڑانے لگا۔ ارے سوجا چندا۔ پیشاب کو اٹھی تھی۔
اس نے رام لال کو تھپکا اور واپس اجنبی کی جانب پلٹی۔ وہ کمرے کی چوکھٹ سے لگا کھڑا تھا۔
اب تو نکل۔ اور یہ ادھر دے۔ اس نے تاریکی میں ہی اجنبی کے ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈی دیکھ کر جھپٹ لی۔ ارے۔ ارے سارے تیرے نہیں ہیں۔ ارے ارے۔ اجنبی نے کچھ کہنا چاہا لیکن رامو کے جاگ جانے کے ڈر سے چپ ہوگیا۔ وہ اسکو لیکر دروازے تک آئی اور جھٹ الوداعی بوسہ لیکر اسکو باہر کیا اور دروازہ بند کردیا۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,838
143
منہ اندھیرے رام لال کی آنکھ کھلی تو وہ اٹھ کر چارپائی پہ بیٹھ گیا۔ اسکی ماں پاس والی چارپائی پہ بے سدھ پڑی سو رہی تھی۔
اس نے ایک نظر ترچھی پڑی شنکتلا پہ ڈالی اور آنکھیں ملتا ہوا دبے قدموں اندر کمرے میں رکھے مٹکے کی جانب بڑھ گیا۔
پانی پیتے ہوئے اچانک اسکی نگاہ فرش پہ پڑی اور اسکو حیرت کا جھٹکا لگا۔
وہ رومال اس نے کہیں دیکھا تھا۔ کہاں دیکھا تھا یہ رومال میں نے۔ ہاتھ کا بنا اور کڑھا ہوا رومال۔ اچانک اسکو ایک اور جھٹکا لگا۔
لیکن،،، لیکن وہ،، نہیں کوئی اور،، لیکن کون؟؟ اور ہمارے گھر کیسے؟؟ اور اگر وہی شخص تب بھی ہمارے گھر کیسے؟؟؟
وہ جھنجلا کر رہ گیا۔
چلو اسکو رکھ لیتا ہوں۔ اس نے رومال اٹھا کر شلوار کے نیفے میں اڑس لیا۔
اتنی دیر میں شنکتلا اٹھ گئی۔ اس نے جلدی سے چائے کا پانی رکھا اور رامو کو دودھ لینے پڑوس میں بھیج دیا۔ وہ دروازے سے نکلا تو شنکتلا کی نگاہ اسکے پیروں پہ پڑی۔ اگر وہ ہونٹ دانتوں میں نہ پکڑتی تو اسکی چیخ نکل جاتی۔ راموں کی شلوار کے نیفے سے ایک رومال نیچے گرا تھا جسکو وہ پہچان گئی تھی۔ یہ رات والے مہمان کی باقیات تھیں۔ رامو دروازے سے باہر نکل چکا تھا۔ وہ آہستگی سے اٹھی اور رومال اٹھا کر واپس آگئی۔
رامو دودھ لیکر واپس لوٹا تو اسکو احساس ہوا کہ رومال نہیں تھا۔
ارے یہ کیا؟؟ رومال کدھر گرگیا؟؟ وہ خود کو کوسنے لگا۔

اماں!!! اس نے اندر داخل ہوتے ہی شنکتلا کو پکارا تو وہ اچھل کر رہ گئی۔
کک کیا ہوا چاند؟؟
اماں وہ، تجھے کیا ہوا؟؟ گھبرائی ہوئی کیوں ہے؟؟؟ رام لال رومال کو بھول کر ایکدم پریشان ہوگیا۔
نن نہیں کچھ نہیں ہوا. تیرا باپ یاد آگیا تھا۔ اس نے فوراً بات کو اپنے فوت شدہ شوہر کی جانب موڑ دیا۔
اچھا یہ دودھ پکڑ۔ اور میں کہ رہا تھا کہ ابھی مجھے یہاں ایک رومال ملا تھا۔ میں نے وہ نیفے میں اڑس لیا تھا۔ لیکن نجانے کہاں گرگیا وہ۔ تم نے دیکھا کیا؟؟؟
اس نے دودھ ماں کو دیتے ہوئے ایک سانس میں سوال کیا۔
ارے نہیں، مجھے کیا پتہ کیسا رومال۔۔۔ کہیں گرا آیا ہوگا تو۔ وہ سر جھٹک کر دودھ کی بالٹی میں سے پتیلی بھر کر چائے چڑھانے میں لگ گئی۔

کہاں جارہا ہے بیٹا؟؟؟ چائے روٹی کا ناشتہ کرتے ہوئے اس نے رام لال سے پوچھا۔
کہیں نہیں اسکول جارہا ہوں۔ رام لال نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
ادھر دیکھ، تیری ماں ہوں میں!!! سچ سچ بتا کہاں جارہا ہے؟؟؟ چل جلدی!!
وہ، وہ ہم اسکول کے بعد باغ سے پھل لینے جائیں گے کجھور کے۔ رام لال نے گڑبڑاتے ہوئے اچانک بہانہ تراشا۔
لیکن ابھی تو کھجور بالکل کچی ہے۔ سچ بتائے گا یا اٹھاؤں جوتی۔ شنکتلا نے آنکھیں دکھائیں تو وہ لائن پہ آگیا۔
لیکن تم ناراض مت ہونا ماں۔ اور منع بھی مت کرنا۔

اچھا بتا نہیں کرونگی منع۔ شنکتلا نے اسکو تسلی دی تو وہ نیچے گھورتے ہوئے بولا:
میں اور سجن برابر والے گاؤں میں تیراکی کا مقابلہ کرنے جارہے ہیں۔ اس نے جھوٹ کو سچ کا لبادہ اوڑگا دیا۔
اور پیسے کہاں لے جا رہا ہے؟؟ شنکتلا نے اسکی چارپائی کے نیچے سے ایک تھیلی نکالی۔
وہ اس مقابلے کی فیس اور کرایہ تانگے کا۔ اور کھانا پینا بھی ہوگا نا میلے میں۔ رام لال نجانے کیسے جھوٹ گھڑ رہا تھا۔ اج اسکو اپنے منہ پہ خود بھی حیرت ہورہی تھی۔
اچھا اپنا خیال رکھیو۔
اور جاتے جاتے ماسٹرجی سے کہ جائیو کہ خالہ بیمار ہے پڑوس کے گاؤں میں تو اماں نے کہلایا ہے کہ آج ہم دونوں بچے چھٹی کرکے وہاں جارہے ہیں۔​
 
.
Moderator
2,373
1,838
143
ٹھیک ہے ماں!! کہ دونگا ماسٹرجی کو۔

شنکتلا نے دوپٹے کے پلو سے اسکا منہ پونچھا اور ماتھا چوم کر اسکو رخصت کیا۔
جلد ہی وہ تالاب کے ٹیلے پہ سجن کے پاس کھڑا تھا۔

چل جلدی کر رامو۔ پیسوں کی تھیلی ادھر دے۔ اس نے گن کر چالیس روپے نکالے اور دونوں شہر جانے والی سڑک پہ کھڑے ہوکر بس کا انتظار کرنے لگے۔

چلو بچہ جلدی کرو!! کنڈیکٹر چلّایا اور دونوں جلدی جلدی بس میں چڑھ گئے۔
سجن، اکیلے ڈر لگ رہا کافی۔ وہ دیکھ سامنے والا آدمی کیسے گھور رہا ہے مجھے۔ رام لال نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
کون مونچھ والا ارے نہیں چپ کر۔ سجن نے ہنستے ہوئے اسکو چپ کروادیا۔

چل اترنے کا وقت قریب آگیا ہے رامو۔ سجن نے اونگھتے رام لال کو جگایا اور اسٹاپ آتے ہی وہ دونوں اتر گئے۔
چل وہ رہی مارکیٹ، رام لال اسکو کنارے کنارے ہاتھ پکڑ کر چلاتا مارکیٹ تک لے گیا۔
شہر کی آبادی اس علاقے سے شروع ہوتی تھی۔ نو آباد لوگ شہر کی وسعتوں میں اضافہ کرتے یہاں تک پہنچے تو ایک بڑا سا سپر اسٹور یہاں کھل گیا۔
سجن اپنے باپ خدا بخش کیساتھ ایک دو بار یہاں آیا تھا۔
انہوں نے دو چار فرینڈ شپ کارڈ، لال ربن، مارکر، اور چمکیلے اسٹیکر لیے۔
یار سجن مجھے تصویر بھی بنوانی ہے۔ رام لال نے اسکو شرارتی نظروں سے دیکھا اور ڈیجیٹل شاپ میں گھس گیا۔
جلد ہی وہ فاتحانہ مسکراہٹ سجائے وہاں سے نکل رہے تھے۔
یار رامو۔ وہ میں بھی کچھ پیسے لایا ہوں تو چاکلیٹ بھی لے لیتے ہیں۔ سجن نے جیب پہ ہاتھ مار کر دو سرخ نوٹ برآمد کرلئے۔
ہاں اسکو چاکلیٹ پسند آئے گی۔ رام لال آنکھیں طند کرکے مسکرایا ہی تھا اسکے منہ پہ ہلکا سا تھپڑ پڑا۔

ابے جا، تیری ہیروئن کیلئے نہیں لے رہا۔ ہم کھائیں گے جانی۔ سجن نے فرطِ محبت سے اسکا گال چوم لیا۔
چند لمحوں بعد وہ واپس گاؤں کی طرف اڑے جارہے تھے۔
(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,373
1,838
143
نویں قسط"

رام لال اور سجن دونوں نے چھٹی کرلی آج۔ بے شرم لڑکے ہیں۔ ماسٹر جی غصے میں بلبلا رہے تھے۔
چلو خیر۔ تم کتاب نکالو ریاضی کی۔ انہوں نے وردہ کو اشارہ کیا اور وہ ڈر کے مارے چپ چاپ کتاب نکالنے لگی۔
ماسٹر جی نے چاک سنبھال لی۔

اب دیکھو ، یہ سوال کا جو پہلا اسٹیپ ہے اسمیں ہم پہلے اسی عدد کو نیچے اتاریں گے اور پھر ان دونوں کو ملٹی پلائے...
لیکن سر پہلے تو بریکٹ کھولیں گے۔ اس نے لقمہ دیا۔

تم چپ رہو، ماسٹر ہم ہیں۔ ماسٹر جی نے اسکو جھڑکا تو وہ منہ بسور کر رہ گئی۔
خود ہی پڑھنا پڑھے گا یہ تو دماغ کھا جائیں گے۔

وہ بورڈ پہ لکھا اتار ہی رہی تھی کہ اچانک اسکی نگاہ دروازے کی جانب اٹھ گئی۔
کسی نے کھنکار کر ماسٹر جی کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
ماسٹر جی نے بھی نگاہ اٹھا کر دیکھا اور زیر لب مسکرا دیے۔پھر اٹھ کر کلاس کے دروازے پہ جا کھڑے ہوئے۔

کیا ہوا؟؟؟ طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟؟ انکی شور میں دبی آواز پہ وردہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ وہ کاغذ پہ پینسل گھمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے انکی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگی۔

عورت کی آواز بھنبھناتی سی محسوس ہورہی تھی۔
جیسے وہ اپنے بچے کی چھٹی لینے آئی ہو۔

بہت شرارت کرتا وہ۔ تم پہ گیا ہے۔ ماسٹر جی کا ہلکا سا قہقہہ سنتے ہی اسکو عجیب سا احساس ہوا۔ پھپھا نے تو کہا تھا بے حد شریف انسان ہیں۔
اسکے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ ایک سین سامنے آگیا۔
جس دن وہ ماسٹر جی کے پاس کلاس میں اکیلی کھڑی تھی۔
کبھی اکیلا پن لگے یا بچے تنگ کریں تو گھر آجایا کرو ہمارے۔ اسوقت بھی وہ ایسے ہی مسکرا رہے تھے۔
اور جب اسکو دس کا نوٹ دیا تھا۔

اس نے سوچوں کو جھٹک کر چور نگاہ سے ماسٹر جی کی طرف دیکھا تو وہ چوکھٹ پہ ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے آہستہ آواز میں کچھ بول رہے تھے۔ اور عورت نیچے نگاہیں کیے کھڑی تھی۔
ماسٹر جی نے بھی اسکی نگاہ کو محسوس کرلیا تھا۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑی چاک اسکی طرف اچھال دی۔ وہ گھبرا کر واپس نیچے دیکھنے لگی۔
اب کی بار اس نے نگاہ اٹھائی تو عورت جا چکی تھی اور ماسٹر جی کرسی پہ بیٹھے کسی بچے کی کاپی چیک کررہے تھے۔
اسکو پہلی بار ان سے گھن سی محسوس ہوئی۔
وہ چپ چاپ اٹھی اور کام چیک کروا کے واپس آکر بیٹھ گئی۔
چھٹی کے بعد وہ نکل ہی رہی تھی کہ ماسٹر جی نے اسکو پکارا۔

وردہ!!!
اسکو ایسا لگا جیسے اسکے پیچھے شیر یا بھیڑیا لگ گیا ہو۔ بادل نخواستہ مڑ کر اس نے انکو دیکھا۔

یس سر۔

یہاں آنا۔ انکے لہجے میں پر اسراریت عیاں تھی۔

وہ ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی انکے پاس پہنچ گئی۔

کیا دیکھ رہی تھیں تم جب وہ آنٹی آئی تھیں ہیں؟؟

کک کچھ نہیں سر، میں تو کچھ بھی نہیں۔ وہ ڈر گئی۔
اچھا۔ ڈر کیوں رہی ہو، کھا تھوڑی جاؤنگا۔ماسٹرجی کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
تمکو کہا بھی تھا کہ گھر آجایا کرو کبھی فری ٹائم میں۔ اکیلی کیا کرتی رہتی ہو نوفل صاحب کے گھر۔ یہ عمر اکیلے رہنے کی نہیں ہوتی۔

وہ چپ کھڑی رہی۔

ویسے بھی اتنی پیاری ہو تم۔ دکھی رہتی ہو اکیلی ہم سے دیکھا نہیں جاتا۔ وہ اسکے قریب ہوئے تو وہ الٹے پاؤں ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔

ارے ڈر کیوں رہی ہو، مار تھوڑی رہے تمکو۔

سر مجھے لیٹ ہورہا ہے ، مجھے جانا چاہئیے۔ اسنے قدرے کرخت لہجے میں کہا اور دوپٹہ سنبھالتی کلاس سے نکل گئی۔
راستے بھر اسکا دماغ بھنا رہا تھا۔ سوچیں ختم اور عقل ماؤف تھی۔ تیز دھوپ میں چلتے ہوئے اسکو محسوس ہوا جیسے سورج بھی اسکی بے بسی پہ ہنس رہا ہو۔ گاؤں کی اونچی نیچی کچی گلی اسکو نگل لینے کیلئے قدم پکڑ رہی ہو۔
جیسے بھری دنیا میں وہ تنہا رہ گئی ہو۔
جیسے تیسے کرکے وہ گھر پہنچی۔ بستہ ایکطرف ڈال کر پانی پیا اور کھانا کھائے بغیر بستر پہ اوندھی گرگئی۔

پھپھو بھی اسکو دیکھ کر گھبرا گئیں۔ کیا ہوا وردہ؟؟؟ کیسی طبیعت ہے؟؟؟ انہوں نے اسکا ماتھا چیک کیا۔ چہرہ سفید کیوں پڑ رہا ہے؟؟؟ کیا ہوا ہے بتاؤ۔
کچھ نہیں پھپھو۔ مجھے سوجانے دیں، کھانا اٹھ کر کھا لونگی۔ پھپھو اسکو چادر دیکر کمرے سے نکل گئیں تو وہ تکیے میں منہ دیکر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
امی کیا گئیں اور میں جہنم میں آکر گر گئی۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا یہ گاؤں اور یہ اسکول۔ اس نء سسکیاں بھرتے ہوئے سوچا۔
یونہی سسکتے ہوئے اسکی آنکھ لگ گئی۔

***
 

Top