Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,376
1,840
143
چل رام لال اٹھ، آگیا گاؤں۔ سجن نے اسکو ٹہوکا دیا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔
بریک کی آواز آئی اور وہ دونوں جلدی جلدی بس سے اتر گئے۔
رام لال نے ایک فاتحانہ نگاہ سامان کے شاپر پہ ڈالی اور پھر سجن کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
چل چل جلدی کر تیرے گھر چلتے ہیں رامو۔ یہ بنا کر پھر تھوڑا سوئیں گے اور پھر ٹیوشن جائیں گے۔ سجن نے کہا اور دونوں دھوپ میں ماتھے پونچھتے تیز قدموں رام لال کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔

***

رومال لینے آئے ہو نا ، یہ پکڑو اور چلتے بنو۔ زیادہ ہوشیاری مت مارنا۔ شنکتلا نے اسکے ہاتھ میں رومال پکڑایا اور چارپائی سے اٹھنے لگی۔

ایسے کیسے؟؟؟ ابھی تو کچھ کہا نہیں۔ اس نے شنکتلا کی کلائی پکڑ کر واپس بٹھا لیا۔
کل ہوگیا تھا نا۔ اب نہیں۔ وہ سنجیدگی سے بولی۔
ویسے بھی رام لال آتا ہی ہوگا اور مجھے کھانا بھی بنانا ہے۔
نہیں جو بھی ہوجائے تمکو بات ماننا ہوگی۔ یہ کہتے ہوئے اسنے شنکتلا کی اوڑھنی ایکطرف پھینکی اور جھپٹ کر اسکو چارپائی پہ گرا لیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ اسکی بانہوں میں سمٹی چارد میں لپٹی لیٹی تھی۔ وہ چپ چاپ اٹھا، کپڑے پہن کر رومال اٹھایا ، اسکے سرہانے دو نیلے نوٹ رکھے اور چلتا بنا۔ شنکتلا کے منہ سے دو تین گالیاں نکلیں۔ اس نے نوٹ اٹھائے اور چادر میں لپٹے لپٹے ہی تن ڈھانک لیا۔
پھر اٹھ کر ہانڈی میں تیل ڈال کر پیاز چھیلنے بیٹھ گئی۔
نجانے کیوں اب تک نہیں آیا یہ رامو۔ کھانا بھی کھایا ہوگا کہ نہیں۔ اوپر سے یہ کتا کہیں کا۔ دن کے وقت بھی نازل ہوگیا تھا۔ اس نے بازو سے پیاز کے آنسو پونچھے۔
اب جلدی سالن بناؤں۔ کمر میں بھی درد ہوگیا۔ تین نوٹ تو مل گئے۔ کل یہی اولاد میری چتا کو آگ بھی جھاڑیوں سے یا گھاس پھوس اور کچرے کی دے ڈالے گی جسکے لئے آج منہ کالا کروالیا۔ اس نے جلدی سے نوٹ الماری میں رکھے اور کمر پکڑ کر ہانڈی بھوننے پاس پڑی چوکی پہ بیٹھ گئی۔

یار سجناں ، تیرے گھر چلتے ہیں۔ رامو نے اچانک مڑ کر کہا تو سجن حیران رہ گیا۔ لیکن تیرے گھر جانے میں کیا یے ویرو؟؟؟
یار پتہ نہیں، لیکن ایسے ہی۔ تیری ماں سالن اچھا بناتی ہے۔ چل نا اب ویسے بھی تیرا گھر پہلے پڑے گا۔
رام لال نے کہا اور دائیں طرف کو مڑ گیا۔
جلد ہی وہ دونوں سجن کے گھر بیٹھے تھے۔
کارڈ پہ تو رامو تو ہی لکھ، تیری دوست ہے نا۔
لیکن سجن رائٹنگ تیری اچھی ہے زیادہ۔ رام لال منمنایا۔
لیکن دوست، محبت رائیٹنگ سے نہیں اس ہاتھ سے ہوتی ہے۔
لیکن اسکو تو ہاتھ سے بھی نہیں ہے۔ رام لال نے منہ بنایا۔
چپ چاپ لکھ دے۔ سجن نے آنکھیں دکھائیں تو اس نے مارکر اٹھا لیا۔
فٹا فٹ اس نے دو چار جملے اور اپنا اور وردہ کا نام لکھ کر اسکے اردگرد دل کھینچ دیا۔
واہ، کیا بنا ہے۔ سجن نے کارڈ کے پیچھے رام لال کی تصویر گوند سے چپکائی اور کارڈ کو لال ربن سے باندھ دیا۔
واہ سجناں یہ تو عمدہ ہوگیا۔ رام لال نے جذباتی ہوکر کارڈ کو چوما اور پھولدار شیٹ سے اسکو پیک کردیا۔
اب کھانا کھالو!!! کیا بنانے لگ گئے ہو؟؟؟ سجن کی ماں نے آواز لگائی تو دونوں جلدی سے صحن میں جا بیٹھے

واہ موسی، کھانا بنانا کوئی تم سے سیکھے۔ کیا دال بناتی ہو۔ رام لال نے پیٹ پہ ہاتھ پھیرا۔سن سجن، میں گھر نکلتا ہوں۔ بستہ بھی گھر پہ ہے اور ماں کو فکر بھی ہورہی ہوگی۔ جلدی سے گفٹ بنوا لے۔
ارے رک جا، بستہ لینے چلیں گے ساتھ میں۔ سجن اور اسکی ماں نے روکنا چاہا لیکن وہ ان سے معذرت کرکے بھاگ آیا۔
وہ گھر پہنچا تو شنکتلا ہائے ہائے کرتی ہانڈی تیار کرچکی تھی۔
وہ بڑی مشکل سے دروازے تک پہنچی اور دروازہ کھولتے ہی اس سے لپٹ کر رو دی۔

افف ماں، کیا ہوا تمکو؟؟ صبح تو ٹھیک تھیں ایسی طبیعت کیسے ہوگئی؟؟؟ رام لال بہت پریشان ہوگیا۔
وہ چپ چاپ بس اسکو پیار کرتی رہی۔

مجھے بس تھکن ہوگئی تھی بیٹا۔ تو کیسا ہے؟؟ کھانا کھایا کیا؟؟؟ اس نے رام لال کے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
ہاں ماں، سجن کی ماں نے روک لیا تھا۔ وہاں کھایا۔

اچھا۔ سوجا۔ پھر پڑھنے جانا ہوگا۔ ماسٹرجی سے بولا تھا چھٹی کا؟؟
ارے نہیں ماں، وہ تو بھول گیا۔ اب کیا ہوگا۔ اس نے پریشان ہوکر ماں کی طرف دیکھا۔

تو چھوڑ میں نے کہ دیا تھا۔ شنکتلا مسکرائی۔

لیکن تت تم نے کب؟؟ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
ارے بس ، میں ساڑھی لینے گئی تھی سنجو کی دکان پہ تو اسکول سے ہوتی ہوئی واپس آگئی۔
بات کرلی تھی ماسٹرجی سے۔
رام لال کے چہرے پہ اطمیان آگیا، اس نے سر تکیے پہ رکھا اور آنکھیں بند کرلیں
شنکتلا مڑی اور کمرے سے نکل گئی۔ نکلتے نکلتے رام لال کو "کتا کہیں کا" سنائی دیا۔
اس نے چونک کر آنکھ کھولی۔ ماں تم نے کچھ کہا کیا؟؟
ارے نہیں ، نہیں تو۔ شنکتلا ایکدم ڈر گئی۔

کتا کہیں کا کہا کیا؟؟ رام لال نے دہرایا۔

ارے ہاں وہ کوے کو کہا ہے۔ سامنے بیٹھا کبوتروں کو تنگ کررہا ہے نا۔ تو سوجا۔
رام لال نے کندھے اچکا کر دوبارہ آنکھیں موند لیں۔

 
.
Moderator
2,376
1,840
143
آج وہ ایک بار پھر ٹیوشن لیٹ پہنچی تھی۔
آج تو شہزادی حد سے زیادہ ہی لیٹ ہوگئی ، حد سے بڑھ رہی ہو اب نرمی کا فائدہ اٹھانے لگی ہو۔ ماسٹرجی نے اسکو گھور کر دیکھا تو وہ لرز گئی۔
اب بیٹھو، جلدی آیا کرو۔ نقصان ہوتا ہے نا چلو شاباش۔ ماسٹرجی نے اسکو ڈرا ہوا دیکھ کر لہجہ بدل لیا۔
وہ گہری سانس لیکر بیٹھ گئی۔
چلو نکالو سبق، ماسٹر جی اسکی کتابیں نکلوا کر رام لال کی طرف سے منہ موڑ کر بیٹھے، وہ چپکے سے وردہ کے بستے کی طرف سے کھسک گیا۔
جیسے ہی وہ ذرا سی کاپی میں جھکی ، رام لال نے کارڈ اسکے بستے میں ڈال دیا۔

تھوڑی دیر بعد وردہ نے دوسری کتاب نکالنے کیلئے بستے میں جھانکا تو کارڈ دیکھ کر پہلے تو اسکو حیرت ہوئی۔ پھر اس پہ رام لال کا نام دیکھ کر آگ بگولا ہوگئی۔
اس منحوس کو چھوڑ کر غلطی کی تھی نجانے کیا لکھا ہو۔
دوسری طرف رام لال کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
وہ کبھی کتاب میں دیکھتا پھر تیزی سے کاپی پہ انک پین چلانے لگتا جیسے بہت اہم کام کررہا ہو۔ حالانکہ اسکی ساری توجہ وردہ کی طرف تھی۔
وردہ ایک دم سپاٹ چہرہ لئے گھومی اور کارڈ ماسٹرجی کے سامنے کردیا۔

مارا گیا۔ رام لال کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

یہ، یہ کیا ہے؟؟؟ کہاں سے ملا؟؟ماسٹر جی کے منہ سے نکلا۔ انہوں نے جلدی سے کارڈ لیکر پڑھا اور رام لال کی طرف دیکھنے لگے۔
سر یہ میرے بیگ سے نکلا ہے ابھی۔ وردہ انہی کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔

بیٹا رام لال!! کیا چل رہا ہے یہ سب؟؟ اسلئے اسکول ٹیوشن آتے ہو؟؟ یہ بدتمیزی کرنے؟؟؟ ادھر آؤ۔ انہوں نے رام لال کو اپنی طرف کھینچ کر ایک زور دار تھپڑ اسکے گال پہ رسید کردیا۔
رام لال کیساتھ وردہ بھی ایک لمحے کو دنگ رہ گئی۔
یہاں مرغا بن... ماسٹرجی نے اگلی سزا تجویز کی۔

سر سوری، آئیندہ نہیں... رام لال نے کچھ کہنا چاہا لیکن ماسٹر جی نے اسکو جھڑک کر چپ کرادیا: چپ کر اور بن مرغا۔ آئیندہ نہیں کا بچہ۔
رام لال چپ چاپ گال سہلاتا ہوا مرغا بن گیا۔ وہ بچوں میں بھی سب سے ذہین اور باصلاحیت تھا اور ماسٹرجی کی نظر میں بھی ایک ڈیسینٹ اور اچھا لڑکا۔
وہ بھی حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے۔ لیکن پھر وردہ کی کہانی میں رام لال جیسا چوزہ راہ کا روڑہ بن سکتا تھا اسلئے انہوں نے سبق سکھا دینے کا فیصلہ کیا۔
منے جاکر اندر سے چھڑی اٹھا لاؤ۔ انہوں نے ایک چھوٹے بچے سے کہا اور چھڑی منگوا کر رام لال کو سوت دیا۔
وہ کولہے سہلاتا سسکتا ہوا بیٹھ گیا۔ کارڈ واپس اسکو دیدیا گیا اور کچھ دیر بعد ٹیوشن کی چھٹی بھی ہوگئی۔
وردہ بھی بیگ سمیٹنے لگی تھی کہ ماسٹر جی کی آواز سن کر چونک گئی۔
تمہاری چھٹی بند ہے!!!

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
"دسویں قسط"

سجن!!! رام لال نے اسکو اچانک پیچھے سے پکارا تو وہ چونک کر مڑا۔
بول کیا ہوا؟؟؟
یار مجھے عجیب سا لگ رہا ہے۔ ماسٹر نے وردہ کو روک لیا اپنے گھر پہ۔ تو،،

تو کیا؟؟؟ سجن نے اسکی بات کاٹی۔ کتنا ذلیل کروایا اس نے تجھکو۔ مار پڑوائی۔ دفع کر اسکو اور ماسٹر کو۔ سجن بے دلی سے چل پڑا۔
ارے لیکن ہم اسکو ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔ وہ ماسٹر اسکو نقصان نہ پہنچا دے۔
تو اکیلا جارہا ہے تو جا، میں ہرگز نہ جاؤنگا۔ سجن منہ موڑ کر کھڑا رہا۔
ٹھیک ہے میں ہی جاتا ہوں، رام لال اپنی بات پہ بضد واپس گھوما اور ماسٹر جی کے گھر کی جانب چل دیا۔ مجبوراً سجن کو بھی قدم اٹھانے پڑے۔

***

ممی تمہاری ہیں نہیں، پاپا بھی سمجھو مر ہی گئے۔ کیا کرو گی ان بڈھا بڑھیا کیساتھ۔ ماسٹر جی اسکے قریب بیٹھتے ہوئے عجیب سے انداز میں بولے تو وہ ایک طرف کو سمٹ گئی۔
سس سر آپ،، آپ کہنا کیا چاہتے...

کہنا یہی چاہتے ہیں کہ بہت پسند آگئی ہو تم.. بلاوجہ جان ہلکان کررہی ہو ڈر ڈر کے۔ اب کیا ہے آجایا کرو کبھی کبھی گھر پہ۔ تم تو بات ہی نہیں کرتیں ہم سے۔ ماسٹر جی نے فرش کو گھورتے ہوئے مدعا کہا۔
وہ گنگ زبان لئے خشک حلق میں تھوک اتارتی انکو تکتی رہ گئی۔
اب دیکھو نا، تمہیں بھی تو باتیں کرنے والا کوئی ملتا نہیں ہوگا۔ نہیں مطلب کون ہے جس سے تم دل کی بات کرو گی؟؟
ماسٹر جی نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھا تو ایسا لگا جیسے کسی ریچھ کے ہاتھ پہ کسی ننھے بچے کا ہاتھ دھرا ہو۔

کتنا نازک ہاتھ ہے۔ سچ میں تم بہت سندر ہو۔ وہ شرما کر نیچے دیکھنے لگی۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
ہمارے پاس کوئی نہیں ہے ایسا۔ بہت چڑچڑا پن ہے اس جگہ۔ ویرانی ہے۔ ماسٹر جی نے سینے پہ ہاتھ مسلتے ہوئے اسکو دیکھا۔

سس سر، مم مجھے کچھ کرنا نہیں آتا۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ اسکی شکل رونے جیسی ہوگئی تھی۔ منہ سرخ ٹماٹر اور پیشانی سے پسینہ بہ کر ناک پہ ٹپک رہا تھا۔
لو، اتنا گھبرا رہی ہو۔ تمکو نقصان نہیں پہنچائیں گے ہم۔ دوستی میں کوئی نقصان پہنچاتا ہے کیا۔
جب تم آئی تھیں تو ہمیں لگا تھا تنہائی ختم ہونے والی ہے۔ لیکن تم اتنے بچوں والے دماغ کی ہو، اس دن اسکول میں بھی رونے لگ گئی تھیں۔
بہرحال اچھا نہیں لگ رہا تو ٹھیک ہے چلی جاؤ گھر۔
ماسٹر جی اسکا ہاتھ ایکطرف رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
وہ بھی جھکی جھکی نظر کیساتھ اٹھ گئی۔ ماسٹر جی ہاتھ جھاڑتے کمرے سے نکلنے ہی لگے تھے کہ اسکی آواز نے انکے پاؤں جکڑلئے۔
سر، آئی ایم سوری۔ اس دن میں اسکول سے چلی گئی اور آج بھی..

نہیں نہیں تم جاؤ۔ ایسے اکیلے ہی رہ لونگا میں۔ ویسے بھی مجھے تم سے اتنی ہمدردی نہیں کرنی چاہئیے تھی۔ انہوں نے مصنوعی ناراضگی کا مظاہرہ کیا۔
سوری سر۔ میں بس بہت پریشان رہتی ہوں۔ تو ہر ایک سے ڈر لگتا ہے مجھے۔ رات کو بھی بار بار جاگتی رہتی ہوں۔ اور کسی سے کچھ کہ بھی نہیں پاتی۔

اب مجھے نہیں سننی بے بی۔ اب تمکو جانا ہی ہوگا۔
ماسٹر جی ماننے پہ تیار نہ ہوئے تو اس نے آگے بڑھ کر انکا ہاتھ تھام لیا۔ وہ حیران ہوکر مڑے۔
سامنے وردہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔

سوری۔ اب تو مان جائیے سر۔ ماسٹر جی نے مسکرا کر اسکو دیکھا۔ اسی لئے تو تم اتنی اچھی لگتی ہو۔ یہ کہ کر انہوں نے اسکو بازوؤں سے پکڑلیا۔
وہ یکدم گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹی اور دیوار سے سہارا لیکر کھڑی ہوگئی۔
سس سر، یہ کیا کررہے ہیں۔ اس نے کچھ کہنا چاہا تو ماسٹر جی نے اسکے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ کر اپنے آپکو اسکے بالکل نزدیک کرلیا۔ وردہ نے چاہا کہ انکے ہاتھ پہ کاٹ کر جان بچا لے۔ لیکن نجانے کونسی طاقت تھی جو اسکو اس پہ آمادہ نہ کرسکی۔ شاید ماسٹر جی کی لچھے دار باتیں۔۔ یا پھر اسکی قسمت۔ جو بھی تھا بہر حال وہ زخمی ہرنی کیطرح فقط ماسٹر جی کے خود سے چمٹتے لمس کو محسوس کرتے ہوئے انکی سانسوں کی گرمی سے پگھلنے سی لگی۔ وہ اس سے کچھ اونچے تھے اسلئے انکو کچھ جھکنا پڑا تھا۔ انہوں نے اپنا ہاتھ اسکے منہ سے ہٹا کر منہ قریب لانا چاہا تو وہ منہ پھیر کر کھڑی ہوگئی۔

اونہہ، ادھر کرو منہ انہوں نے اسکے کان میں کہا اور منہ اپنی طرف گھما لیا۔ وردہ کی آنکھیں بند تھیں اور جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔ دوپٹہ اسکے پاؤں میں گرگیا تھا اور ماسٹرجی کے بائیں ہاتھ میں اسکا دایاں ہاتھ تھا۔ جبکہ بائیں ہاتھ سے اس نے ماسٹرجی کا دایاں ہاتھ پکڑ رکھا تھا جو اسکے شانے پہ دھرا تھا۔
جتنی دیر میں ماسٹر جی نے اسکا منہ اپنی طرف گھمایا ، دروازہ چوتھی بار پیٹا جاچکا تھا۔
ماسٹر جی نے ایک نگاہ اس پہ ڈالی اور دانت پیستے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ وردہ نے جلدی سے دوپٹہ سر پہ لیا اور اپنی جگہ کی طرف بڑھی ہی تھی کہ رام لال دوڑتا ہوا اندر داخل ہوا۔ اسکے دائیں ہاتھ میں ٹارچ تھی۔
کمرے میں سورج ڈوب جانے کی وجہ سے اندھیرا ہوچکا تھا۔
اس نے ٹارچ وردہ پہ ڈالی۔

تمہاری چھٹی بند ہوئی اچھا ہوا بہت۔ وہ مصنوعی ہنسی ہنسا۔
نہیں سرجی۔ اردو کی کاپی یہاں نہیں ہے۔ سوری میں جارہا ہوں۔ اسکی چھٹی بند ہی رکھنا۔ رام لال نے مسکراتے ہوئے دروازے پہ کھڑے ماسٹر جی کو دیکھا۔
ہاں تو کاہے تنگ کرنے کو پہنچ گئے؟؟؟ خیر سنو۔ وررہ کو گھر چھوڑ دینا۔ ہم جا ہی رہے تھے چھوڑنے کو لیکن...
ارے نہیں ماسٹرجی، اس نے اتنا پٹوایا ہے ہمکو۔ ہم نا چھوڑیں گے۔ رام لال نے اپنی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرا۔
جاتے ہو یا دوبارہ بنائیں مرغا۔
ماسٹرجی نے اسکو گھورا ہی تھا کہ وہ چپ چاپ وردہ کا بستہ اٹھا کر باہر نکل گیا۔

سنو!! آئیں گے تمہارے گھر کبھی۔ اتنی معصومیت کبھی دیکھی نہیں ہے ہم نے۔ ماسٹرجی نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ پہ رکھ کر کہا۔
وہ ناسمجھی میں سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی۔

رام لال کو تھوڑی دور چل کر سجن بھی مل گیا۔

تم دونوں گھر نہیں گئے تھے؟؟؟ وردہ نے انکے بستے دیکھ کر سوال کیا۔
تمہاری چھٹی جو بند تھی۔ اس سے رہا ہی نہیں جا رہا تھا۔ سجن نے رام لال کی طرف شرارت سے دیکھا۔

ارے جا!! اس نے مار پڑوائی ہمکو۔ پہلی بار اتنی بے عزتی ہوئی۔ ماسٹر جی نے چھڑی سے مارا۔ مرغا بنا کر۔ رام لال منہ بنا کر آسمان تکتے ہوئے چلنے لگا۔

سوری رام لال۔ لیکن یہ کوئی طریقہ نہی ہوتا جو تم نے کیا۔ اس نے آہستگی سے زبان ہلائی۔

یہ بھی کوئی طریقہ نہیں ہوتا جو ہم نے اب کیا ماسٹرجی کے گھر میں گھس کر چھٹی کروا لی تمہاری۔ وہ چیخا۔

وہ حیران سی اسکو دیکھنے لگی۔
لیکن تم نے تو اسوقت منع..

ہاں تاکہ ماسٹرجی کو شک نہ ہو... بہرحال گھر آگیا تمہارا۔ ہم جارہے ہیں۔ چل سجن، وہ مڑا ہی تھا کہ وردہ کی آواز نے اسکے قدم روک لئے۔

رام لال!! رام​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
رام لال!! رام لال نے گردن گھمائی۔
اپنا خیال رکھنا۔ وردہ نے مسکرا کر کہا اور دروازہ بند کرلیا۔

***

کہاں رہ گئی تھیں تم؟؟؟ پھپھا تمکو لینے آنے ہی والے تھے۔ سورج کب کا چھپ چکا ہے۔ پھپھو نے اسکو ڈانٹا۔
اور ماسٹرجی کے گھر تو لائٹ بھی نہیں ہے۔ وہاں کیا کررہی تھیں؟؟
وہ وہ ماسٹرجی نے۔۔
وہ چھٹی بند کا کہتے کہتے رک گئی۔
کیا ماسٹرجی نے؟؟ پھپھو نے اسکو غور سے دیکھا۔

انہوں نے روک لیا تھا۔ کچھ سبق رہ گیا تھا یاد کرکے سنانے کا تو۔ اس نے بات گھما کر پھپھو کو خاموچ کرادیا اور خود بستر پہ لیٹ کر ماسٹرجی کی باتوں کے بارے میں سوچنے لگی۔
کیا وہ سچ میں مجھ سے محبت کرتے ہیں؟؟؟ ہوسکتا ہے وہ میرا خیال رکھیں۔ جو پاپا نے نہیں رکھا۔ لیکن انکی اس عورت سے بھی کچھ دوستی تھی جو اسکول آئی تھی۔
انہوں نے مجھے کتنے عجیب طرح فورس کیا گھر پہ۔
وہ خود سے الجھنے لگی۔ ایک سوچ اکیلا پن مٹانے کی تھی اور دوسری ماسٹرجی سے نفرت کی۔ کبھی محبت کو ترسی ہوئی لڑکی کی روح جاگ جاتی اور کبھی خود کے تحفظ کی فکر دامن گیر ہوکر اسکو روک دیتی۔
آخر کون ہے میرا؟؟؟ اس گاؤں میں۔ اکیلے رہنے سے اچھا ماسٹرجی سے باتیں شئیر کرلیا کروں۔ ویسے بھی وہ کھا تھوڑی جائیں گے۔ اس نے مسکرا کر سوچا اور لائٹ بجھا دی۔

***

چل چل رام لال جلدی ہوا نکال۔ ماسٹرجی آتے ہی ہونگے۔ سجن نے اسکو جلدی کا کہا اور خود جلدی سے کھڑکی پہ جاکر راہداری کو تکنے لگا۔
چل ہوگیا۔ رام لال نے اسکو پکارا اور دونوں باری باری دیوار پھاند کر اسکول کے باہر کود گئے۔ چل اب جھاڑیوں میں چھپ کر دیکھتے ہیں۔
انکو جھاڑیوں میں بیٹھے کافی دیر گزر گئی۔
یار سجن مجھے گڑبڑ لگ رہی ہے۔ وہ چھوری بھی نی نکلی اب تک۔ چل اسکول کے اندر۔ رام لال جھاڑی میں سے نکل کر اندر کی طرف دوڑا تو سجن کو بھی اسکا ساتھ دینا پڑا۔
انہوں نے جاکر کلاس کی مغربی جانب کی کھڑکی سے کان لگا لئے۔
کیا چل رہا ہے رامو؟؟؟ سجن نے سرگوشی کی۔
شش، بتاتا ہوں۔
رامو آہستہ سے آگے بڑھا اور کھڑکی سے اندر جھانکا۔
اندر کرسیوں پہ ٹیبل کے پاس ماسٹرجی اور وردہ بیٹھے تھے۔ اسکے دونوں ہاتھ ماسٹرجی کے ہاتھوں میں تھے۔
رامو نے سننے کی کوشش کی۔
اور وہ عورت جو اس دن آئی تھی۔ اسکا کیا رشتہ ہے تم سے؟؟؟
ابھی سے تم تم؟؟؟ یہ ماسٹرجی کی آواز تھی۔

ہاں تو دوستوں میں تم تم ہی ہوتا ہے نا۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
اب جواب بھی دو۔ اس نے ایک ہاتھ چھڑا کر بال سمیٹے۔
اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ہمارا۔ بس ایسے ہی طبیعت مزاج پوچھ رہے تھے۔
اور ار
گر کچھ تعلق نکلا تو؟؟؟
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
تو جان لے لینا ہماری۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اسکو اپنی طرف کھینچا۔ وردہ لڑھکھڑائی اور پھر اسنے ہاتھ کرسی پہ رکھ کر خود کو ماسٹرجی پہ گرنے سے بچایا۔ البتہ وہ ان پہ جھک ضرور گئی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتے کھڑکی سے ایک پتھر آکر ماسٹرجی کے کندھے پہ لگا۔
ارے رک، ارے کون ہے؟؟ کون ہے وہاں؟؟ وہ کندھا سہلاتے ادھر دیکھنے لگے۔
کافی دیر کی خاموشی کے بعد وہ چپ چاپ اٹھ کر باہر نکلے تو سائکل کی ہوا پھر نکلی ہوئی تھی۔
ایک دن یہ ہاتھ لگ جائے ہوا نکالنے والا۔ ماسٹرجی نے دانت پیسے لیکن پھر ایک خیال کے آنے سے انکے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔

وہ دیکھ رام لال۔ وہ آرہے ہیں ہیرو ہیروئن۔ کاش کیمرہ ہوتا اپنے پاس۔ انکی تصویریں نکال کر لگوادیتا چوک پہ۔ ویسے کیا چل رہا تھا کلاس میں؟؟ تو آیا تھا تو سناٹے میں کیوں تھا؟؟؟سجن مسلسل بول رہا تھا جبکہ رام لال ہونٹ سی کر بس سائیکل کیساتھ چلتے دو جسموں کو تک رہا تھا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ ماسٹرجی کا سر دو پتھروں میں کچل دے۔ اور کلاس والی حرکت پہ وردہ کو دو تھپڑ کس کر لگائے۔ وہ دونوں باتیں کرتے ہنستے انکی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ اسکے بعد سجن بھی اسکو گھسیٹ کر اسکے گھر لے گیا۔

***

اسکے گھر پہنچتے ہی پھپھو اسکی منتظر تھیں۔ تمہارے ابو کا فون آیا ہوا ہے۔ انہوں نے اسکول کی چھٹی کے وقت ہی فون کیا تاکہ بات ہوجائے تم سے۔ لو بات کرو۔ انہوں نے بن کہے ہی فون اسکے کان سے لگا دیا۔
ہیلو۔ اس نے بیزاری سے کہا۔
ہیلو کیسی ہو وردہ؟؟ کیسی طبیعت ہے؟؟
جی بس ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟؟ بیزاری اب بھی برقرار تھی۔
میں بھی ٹھیک ہوں۔ تمہیں کسی چیز کی کمی تو نہیں ہے؟؟ بھائی صاحب کہ رہے تھے کہ تم نے سائیکل کا کہا تھا۔
نن نہیں سائیکل کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بعد میں بات کرونگی تھکی ہوئی آئی ہوں۔
سنو تو وردہ!! وہ میں کہ رہا تھا کہ اس مہینے میں نہیں آسکونگا۔ کچھ ضروری کام ہے، شازیہ کی طبیعت خراب ہے۔ اوکے ابو کوئی بات نہیں۔ پھر کبھی آجائیے گا۔ اس نے فون پھپھو کو دیا اور بستہ ایک طرف رکھ کر اندر چلتی چلی گئی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ میں اب بھی انکا ویسے ہی انتظار کررہی ہوں۔ اب ماسٹرجی ہی سہی، یا کوئی بھی دوسرا جو میرا خیال رکھ سکے۔ وہ بستر پہ لیٹی خلاؤں میں گھورنے لگی۔

***

پاپا کا فون آیا تھا، مہینے کے آخر میں آنے کا کہ رہے تھے۔ اسکول سے واپسی پہ اس نے ماسٹرجی کیساتھ چلتے ہوئے کہا۔
ہاں تو پھر کیا ہوا؟؟؟
شاید وہ شہر لے جائیں مجھے۔ وہ آہستہ سے بولی۔
اگر لیجانا ہوتا تو لاتے کیوں یہاں۔ ہیں؟؟
مجھے نہیں پتہ۔ آپکو تو بس الٹا سیدھا ہی سوجھتا ہے۔
دیکھ سالی کو۔ کیسے اس منحوس شکل والے کیساتھ گھوم رہی ہے۔ جھاڑیوں میں چھپے رام لال نے جھلا کر کہا۔
ہاں۔ اسکو ماسٹرجی سے بدبو نہیں آتی۔ مجھے تو گھن آتی ہے۔
ارے نیچے ہو۔ یہ کہتے ہوئے سجن نے اسکا سر پکڑ کر خود کو اور اسکو پیچھے گرا لیا۔
انکے گرنے کی آواز پہ وردہ نے چونک کر جھاڑی کی طرف دیکھا۔
کوئی چوہا یا نیولا ہوگا۔ اس طرف آجاؤ تم۔ ماسٹرجی نے اسکو اپنی دوسری سائیڈ کرلیا۔
ممی بھی چلی گئیں، پاپا نے بھی چھوڑ دیا۔ اور کوئی بھی ملا تو آپ جیسا۔ اس نے منہ بنا کر ماسٹرجی کو دیکھا تو وہ ہنس پڑے۔
اتنی تم خوبصورت ہو۔ نجانے پاپا کیوں چھوڑ گئے۔
اب میں تو پاپا ہوں نہیں۔
تو پھر، پھر کیا ہو؟؟ اس نے انکی آنکھوں میں جھانکا۔
ہم، ہمم کیا ہیں یہ تم ہی جانتی ہوگی اب۔ سر تو رہے نہیں۔ ماسٹرجی نظریں چراتے ہوئے بولے۔

تو؟؟؟ تو کیا ہو؟؟ جانو ہو میرے؟؟ میرے کہتے ہوئے اسکے منہ سے قہقہہ نکل گیا۔

چلو گھر آگیا تمہارا۔ ماسٹرجی نے اسکو اسکا بستہ دیا۔ وہ جانے لگی تو انہوں نے اسکو پکارا۔

سنو!! اس نے انکی طرف دیکھا۔ ہمارا تو پتہ نہیں البتہ تم جان ہو ہماری۔ وہ ہنستی ہوئی گھر میں گھس گئی۔

***
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
وہ رات کو کھانے کے بعد چھت پہ ٹہل رہی تھی کہ دور کوئی سایہ دکھائی پڑا۔
کون ہوسکتا ہے یہ؟؟؟
سایہ رفتہ رفتہ قریب آیا تو اسکو پہچاننے میں دیر نہ لگی۔
ارے یہ کہاں جارہے ہیں۔ اس نے جلدی سے کچھ سوچا اور چپ چاپ نیچے اتر آئی۔
اس نے پھپھو پھپھا کے کمرے میں جھانکا۔ دونوں گہری نیند سو رہے تھے۔
وہ دوپٹہ منہ پہ لپیٹ کر آہستگی سے مرکزی دروازہ کھول کر باہر آئی اور پتھر رکھ کر دروازہ بند ہونے سے روک دیا۔ سایہ اب بہت دور حرکت کررہا تھا۔ وہ دبے قدموں تیزی سے اس طرف چل دی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں شکریہ
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
باقی کا حصہ کل پوسٹ ہو جائے، کہانی بلکل مکمل ہے، پڑھیں اور کمنٹ ضرور کریں
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
گیارھویں قسط"

سایہ سیدھا چلتا ہوا دائیں گلی میں مڑگیا۔ اس نے مڑتے وقت اپنے پیچھے دیکھا۔ لیکن پھر مطمئن ہوکر آگے کو چل دیا۔ وہ چند لمحے سانس روک کر جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھی رہی پھر تیز قدموں سے چلتی ہوئی سایے کے پیچھے ہو لی۔ سایہ جلد ہی رام لال کے گھر کے سامنے جاکر رک گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر چلا گیا۔
جب وردہ کو اطمینان ہوگیا کہ وہ اب اندر جا چکا تو وہ قریبی جھاڑی سے نکل آئی۔
آسمان پہ چاند اگرچہ آدھا ہوچکا تھا لیکن اسکی روشنی اتنی واضح تھی کہ دور تک دیکھا جاسکتا تھا۔ البتہ شکل اور صورت سمجھنے میں دشواری بہرحال ہونی ہی تھی۔ وہ دبے قدموں کسی شکاری کی مانند دروازے سے جالگی۔ لوہے کے زنگ آلود دروازے کی جھری میں جھانکنے پہ سامنے ہی صحن میں دو چارپائیاں دکھائی دیں۔ ایک پہ رام لال ترچھا لیٹا سورہا تھا۔ وہ جھانکتے ہوئے ذرا سی سرک کر دروازے کی دوسری جھری پہ پہنچ گئی۔ اندرونی کمرے میں ایک میز جیسی چیز پہ چراغ جل رہا تھا۔ اسکی لو کی روشنی میں دو سایے حرکت کرتے سے محسوس ہوئے۔ وہ دم سادھے انکو تکتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد ہلچل تھم کر رک چکی تھی۔ وردہ کو ایسا لگا جیسے اسکو کسی نے اونچی پہاڑی سے دھکا دیدیا ہو۔
وہ مرے مرے قدموں سے واپس ہو ہی رہی تھی کہ قدموں کی آواز نے اسکو بدحواس کردیا۔

اب کیا کروں؟؟؟ اگر ماسٹرجی نے مجھے دیکھ لیا اور وہ نشے میں ہوئے تو؟؟؟ یہ سوچ کر ہی اسکے جسم میں جھرجھری پیدا ہوگئی۔ اور وہ بنا سوچے سمجھے دوڑ پڑی۔
اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور کوئی نکل کر ایکطرف کو دوڑا۔ جلد ہی تھوڑی دیر پہلے اس گھر میں داخل ہونے والا اجنبی سائیکل پہ اسکے پیچھے آرہا تھا۔​
 

Top