Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,373
1,839
143
پھپھو اس سے مل کر بہت خوش ہوئی تھیں۔ انکی بھی عمر ڈھل گئی تھی لیکن انہوں نے ان باپ بیٹی کا سارا سامان خود سیٹ کیا اور چارپائیوں پہ چادریں تک خود لگا کر دیں۔
ارے باجی کیوں تکلیف کرتی ہیں، رہنے دیں، ارے۔۔ ابو لاکھ منع کرتے رہے لیکن وہ بھی مہمانداری پوری کرکے مانیں۔
کھانا اگرچہ سادہ سا تھا۔ اور موسم بھی نہایت گرم۔ لیکن یہ پھپھو کا خلوص تھا یہ سفر کی بے تحاشا تھکن کہ وہ چارپائی پہ لیٹتے ہی نیند کی وادی میں کھوگئے۔

پھپھا چارپائیاں گھسیٹ کر صحن میں لے آئے تھے اسکی اور پھپھو کی چارپائی ایکطرف اور اپنی اور ابو کی ایکطرف لگا دی تھیں۔
انکے ساتھ ہی وہ میاں بیوی بھی قیلولہ کرنے لیٹ گئے۔

شام ڈھلے آرام کرکے وہ اٹھی تو ابو اور پھپھا زرا دور چارپائی پہ بیٹھے کسی بارے میں باتیں کررہے تھے۔
اس نے لیٹے لیٹے کان دھرا۔

ارے نہیں بھائی صاحب، یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا۔ ہر مہینے دو دفعہ چکر لگاؤنگا میں۔ ہاں ہاں۔ وہ مجھے بہت عزیز ہے۔ لیکن دراصل وہاں کا ماحول اچھا نہیں ہے۔ شہر ہے وہ۔ میں گھر سے باہر رہتا ہوں۔ اسکی سوتیلی ماں اس سے جلن رکھتی ہے۔ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہیں اسکو نقصان نہ پہنچادے۔ اور اسکول کا ماحول بھی سنا ہے بہت بگڑ گیا ہے۔ میں بے پرواہ نہیں ہوں اس سے۔ آپ لوگوں کیساتھ رہے گی تو ٹھیک رہے گی یہ۔ ابو نے لچھے دار بات بنا کر پھپھا کو ماموں بنادیا تھا۔
ہاں، بس کیونکہ ہم تو بوڑھے میاں بیوی ہیں۔ ہم تو جان لٹادیں گے بٹیا پہ۔ لیکن اس واسطے کہے رہا کہ تم بھی ابا کا پیار دو اسکو۔ پھپھا نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
خیر پھپھا تھے نہایت ہی نیک اور شریف انسان۔ وہ بھی انکو باپ برابر عزت دینے والی تھی۔

اور اسکول کی جہاں تک بات ہے تو اپنے گاؤں کے ماسٹر صاحب انتہائی شریف اور نیک ہیں۔ گاؤں بھر کے بچے پڑھاتے ہیں وہ۔
یہ بھی پڑھ لے گی موئی۔ پھپھا کی مسلسل آواز آرہی تھی۔
اور وہ گھر کا کام بھی اپنے گھر بلا کر کرواتا ہے۔ دسویں کے امتحان کیلئے شہر لیجاؤ تو…

ارے نہیں بھائی صاحب، بس ہوگئی دسویں گیارھویں۔ ابو نے انکی بات کاٹتے ہوئے کہا تو اسکو یوں لگا جیسے اسکے دل پہ چھریاں سی چل گئی ہوں۔ انکو بوجھ لگنے لگی ہوں میں۔ ابو کیسے ہوگئے اچانک۔ اس سے اچھا تھا میں سوئی رہتی۔ لیکن پھر انکا چہرہ کیسے سامنے آتا۔
اب کروں کیا؟؟؟ اس نے بے بسی سے سوچا۔

ارے نہیں بھائی۔ تعلیم ضروری ہے۔ اسکو امتحان دلوا دیں گے شہر سے ہی۔ اور پڑھائی ضرور کروائیں گے۔ پھپھا نے ابو کی تردید کی۔

اس نے سنا، ابو کہ رہے تھے: بس اسکو ادھر ہی کچھ پڑھا کر اور قرآن کی تعلیم دینی ہے۔
اور بس بیاہ کی تیاری کرنی ہوگی اسکے۔
ہنہ، بیاہ بیاہ. خود بھی بیاہ رچالیا اور میرا بھی بیاہ۔ اسنے نفرت سے سوچا۔
چند لمحوں قبل جس شخص کی انگلی پکڑ کر وہ ریل سے اتری تھی وہی اسکو درگور کرنے والا کوئی بدو لگ رہا تھا۔ جو اس گاؤں میں اسکے لئے گڑھا تیار کررہا ہو۔ اور وہ بس اسمیں گرائی جانے کو تیار ہی بیٹھی ہو۔
وہ چپ چاپ آنکھیں موندتی ہوئی اٹھی تو وہ لوگ ایکدم چونک کر چپ ہوگئے۔

ہاں بیٹا اٹھ گئیں؟؟ ابو نے ملائمت سے اس سے پوچھا۔
اس نے کچھ جواب دیے بنا ہاں میں سر ہلا دیا۔
جاؤ پھپھو چائے دے رہی ہیں لے آؤ۔ وہ کھڑی تو تھی ہی، اونٹ کیطرح ڈگ بھرتی آگے بڑھتی چلی گئی۔
لمبا سا صحن اور درمیان میں لگا نیم کا درخت۔
لال اینٹوں کا مکان جسمیں دو کمرے برابر برابر اور مکان کی باہر کی جانب کو ایک کمرہ مہمانوں کیلئے تھا۔ صحن میں ایک کونے بیت الخلاء اور ایکطرف ایک بکری بندھی ہوئی تھی۔​
 
.
Moderator
2,373
1,839
143
اس نے مکان کا بھرپور جائزہ لیا۔ ایسا تو کہانیوں میں پڑھا تھا۔ اس نے معصومیت سے سوچا۔
پھپھو کھلی چھت کے کچن میں بیٹھی چائے بنا رہی تھیں۔ گیس کا چولہا تھا لیکن سب کچھ لال اینٹوں کا بنا ہوا ایسا لگ رہا تھا کہ ہزاروں سال پرانے کسی قلعے کا کھنڈر ہو۔
لو۔ چائے دے آؤ ان لوگوں کو۔ انہوں نے چار پیالیوں میں چائے نکالی اور ایک ٹرے میں اسکو پکڑا دی۔

رات کا کھانا جلدی کھا کر وہ لوگ سونے لیٹ گئے۔
عشاء کے فوراً بعد اسکو سونے کی عادت نہیں تھی۔
لہذا وہ تارے گننے لگی۔
ہاں کل چلنا میرے ساتھ صبح۔ کہو تو وردہ کو بھی لے چلنا۔ یہ دیکھ بھی لے گی۔اچھا اسکول ہے۔ ماسٹرصاحب اچھے آدمی ہیں۔ پھپھا نے کہا تھا۔
نجانے کب سوچوں کے پہاڑ کھڑے کرتی اور تاروں کی نقل و حرکت پہ غور و فکر کرتی وہ عالمِ خواب کے سفر پہ روانہ ہوگئی۔

***

بیٹا کمیل، یہاں آؤ۔ کیا کررہے تھے کل؟؟؟ میرے گھر پہ پتھر مار کر بھاگے تھے؟؟؟ میں نے تو دیکھا ہی نہیں تھا۔ یہاں آؤ۔
کمیل کا رنگ فق ہوگیا۔ ناچار اپنے کیے کی سزا بھگتنے آگے بڑھ گیا۔
اس سے پہلے کے ماسٹرجی اسکو پکڑ کر اپنی رانوں میں دبا کر دھنائی اسٹارٹ کرتے، ایک زور دار سلام کی آواز آئی۔
ماسٹر جی نے چونک کر نظر اٹھائی اور آنے والے کے استقبال کو اٹھ کھڑے ہوئے۔

سائیں وعلیکم السلام۔ کیا حال ہے؟؟؟ ماسٹرجی نے پھپھا سے گلے ملتے ہوئے کہا۔
بس ماسٹر جی خیریت ہے۔ یہ میرے بھائی ہیں۔ شہر سے آئے ہیں۔
اچھا اچھا۔ ماسٹر جی نے ابو کی طرف دیکھا۔
انکی بیٹی ہے یہ وردہ۔ دسویں میں پڑھتی ہے۔

اچھا اچھا۔ ماسٹر جی کی آنکھوں میں اسکو الجھن سی نظر آئی۔ جیسے وہ کہنا چاہتے ہوں کہ اسکو یہاں کیوں لے آئے؟؟؟
اسنے اردگرد نگاہ ڈالی۔
اسکول بھی لال اینٹوں کا قدیم کھنڈر سا تھا۔ دو منزلہ عمارت جس میں باہر برآمدہ تھا اور لائن سے کلاسیں تھیں۔ سامنے کھیل کا میدان تھا۔
ایسا لگتا تھا جیسے یہ کبھی گورنمنٹ اسکول رہا ہوگا۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,373
1,839
143

پانچویں قسط

وہ ایک لمحہ پلکیں جھپکاتی سانولی لڑکی کو دیکھ کر ساکت رہ گیا۔
معمولی شکل صورت لیکن چہرے پہ بلا کی معصومیت، باپ کی شکل پہ بیزاری نمایاں اور پھپھا باپ سا شفیق، گویا مدعی سست گواہ چست والی بات تھی۔
اس نے بمشکل خود پہ قابو پایا۔
ٹھیک ہے سرجی۔ لیکن اسکو نویں دوبارہ پڑھنا ہوگی۔ یہاں آرٹس میں میٹرک کرایا جاتا اے۔ ماسٹر جی نے سر کھجاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
لیکن میری لڑکی سائینس میں...
ہاں ہاں ٹھیک ہے ماسٹر جی۔ کل سے آجائے گی یہ اسکول۔
پھپھا نے کہنا چاہا ہی تھا کہ ابو نے انکا ہاتھ دبادیا اور بات مکمل کرکے داخلہ ڈن کردیا۔
جی ٹھیک ہے۔ ویسے اپنے رام لال اور سجن بھی اب نویں کی پڑھائی پڑھ رہے ہیں۔
ماسٹر جی نے کہا تو انکی طرف تکتے رام لال اعر سجن کی گردنیں اونچی ہوگئیں۔
چلو ٹھیک ہے ماسٹر جی۔ کل سے یا ایک دو دن میں بٹیا اسکول آجائے گی۔ اب چلتے ہیں ہم۔ پھپھا نے ماسٹرجی سےمسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا اور باہر نکل آئے۔
ارے کیا ضرورت تھی اتنی جلدی مچانے کی؟؟؟ میں بات کررہا تھا نا، آرٹس میں کروانے سے کیا فائدہ میٹرک؟؟؟ ماسٹرجی سے بات کرکے کوئی راستہ۔
ارے کیا راستہ بھائی صاحب؟؟ بلاوجہ کا سر درد ہے سائینس میں لکھنا پڑھنا اسکے لئے، آگے جاکر کونسا سائینسدان بننا ہے۔ وہی گھر چلانا ہے۔
ابو نے ایک بار پھر پھپھا کی بات کاٹ دی۔
بلکہ میرے مطابق تو آپکو یہ بھی نہیں پڑھوانا چاہئیے تھا۔ آپ ہی ضد کررہے ہیں۔
چلو بہرحال میری ضد کا کچھ پاس تو رکھا تم نے۔ پھپھا مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔ اور وہ دونوں لہجوں کو بخوبی نوٹس کرتے ہوئے تھکے تھکے قدم اٹھا رہی تھی۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,839
143
واہ رام لال۔ یہ تو سہی ہوگیا۔ ویسے یہ چھوری کون ہے؟؟؟ سنا ہے ان انکل جی کے گھر آئی ہے رہنے کو۔ لیکن اب لگتا ہے یہ یہیں رہے گی۔ سندر ہے نا۔ سجن نے رام لال کو پڑھتے ہوئے کہنی ماری۔
ارے اپن کو کیا۔۔ مسلی کہیں کی۔ رام لال نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔
پھر بھی،، کوئی سہیلی تو ملے گی سالے۔ مسلم تو میں بھی ہوں۔ لیکن ہوں تیرا دوست۔
تیری بات الگ ہے سجن۔ لیکن یہ مجھے بالکل پسند نہ آوے۔ میں اس سے بالکل بات نہ کرونگا، گندی کہیں کی۔
کیا باتیں چل رہیں بیٹا سجن؟؟؟ یہاں آؤ تم۔ ماسٹر جی نے چنگھاڑ کر سجن کو آواز دی تو ان دونوں کا خون خشک ہوگیا۔ دونوں با آواز بلند سبق دہرانے لگے۔

***

پر ابو کتابیں؟؟؟ اس نے گھر پہنچتے ہی سوال کیا۔
ابھی تو ان دو بچوں کیساتھ پڑھائی اسٹارٹ کرو۔ کچھ تو کتابیں تمہارے پاس ہونگی، اکا دکا میں بھجوا دونگا۔
وہ چپ ہوگئی۔
دوپہر ڈھلے اسکو پھپھی اصرار کرکے ماسٹر جی کے گھر لے گئیں۔
میرے شوہر کے کزن ہیں۔ انکی چھوری ہے۔ وہ اسکے بارے میں ماسٹر جی کی اماں کو بتانے لگیں۔
اے تو اسکا باپ اٹھتی جوانی میں یوں کاہے کو چھوڑ گیا ادھر؟؟؟
ارے بس اس نے شادی جو کرلی، خیر اب یہ میرے گھر رہے گی۔ پھپھی نے کوکھلا سا جواب دیکر بات گھمادی۔
اسکو لائی ہوں آج یہاں۔ ماسٹرجی کے پاس پڑھوانا ہے اسکو۔
اچھا بٹھا دے یہیں۔ وہ موا تو سویا پڑا ہے۔ بچے ابھی آئیں گے تو جاگے گا۔ ماسٹر جی کی اماں نے لاپرواہی سے کہا اور انکے لئے باورچی خانے میں جاکر کچھ کھٹ پٹ کرنے لگیں۔
ذرا سی دیر بعد سب سے پہلے ہمیشہ کی طرح رام لال آیا۔ اور پلنگ پہ بیٹھ کر ماسٹر جی کو کھانا کھاتا تکتا رہا۔
یہ مسلی بھی ٹیوشن پڑھے گی، ہنہہ۔ میں تو کبھی اسکے ساتھ نہ بیٹھوں گا۔ اس نے نفرت سے سوچا۔
ماں نے ہزار دفعہ کہا ہے کہ ان مسلوں نے ہم پہ ہزار سال پہلے بھی ظلم کیا تھا۔ اور اب بھی ظلم کرتے ہیں۔
یہ بھی ویسی ہی ہوگی۔

ریاضی نکالو۔ کیا نام ہے تمہارا؟؟؟
وددہ، میں بکس کل لاؤنگی۔ اسنے مختصر جواب دیا۔
تو پڑھنے بھی کل آجاتیں۔
سجن اسکو کتاب میں دکھاؤ اپنی۔ ماسٹر جی کے چہرے پہ ناگواری کے اثرات آگئے۔
وہ، وہ سرجی۔ سجن ہکلایا۔
یہ، یہ۔ کیا بیٹا جی؟؟؟ یعنی کہ نہیں لائے کتاب تم؟؟
ماسٹر جی دہاڑے۔
سرجی وہ اسکول میں رہ.. گگ گئی تھی۔ سجن نے ہلکاتے ہوئے بمشکل جملہ پورا کیا۔​
 
.
Moderator
2,373
1,839
143
چلو مرغا بن جاؤ۔ آج اس بھول کا علاج کرتے ہیں۔ سجن مرغا بنا تو ماسٹر جی نے بلا توقف اسکی کمر پہ دو گھونسے اور ایک تھپڑ جڑ دیا۔ سجن نے جواب میں فلک شگاف نعرہ لگایا اور وردہ کانپ کر رہ گئی۔
اسکے اسکول میں تو مار کم کم پڑتی تھی۔ جسکو وہ بے انتہا بے عزتی خیال کرتی تھی۔ اور یہاں، یہاں تو کہانیوں کیطرح ماسٹر جی سجن کی دھلائہ کررہے تھے۔
کیا میری زندگی کہانیوں کی طرح ہوجائے گی۔ اب کیا ہوگا۔ اسکو سوچ کر ہی غش آگیا۔
کیا ہوا چھوری؟؟؟ آواز دے رہا ہوں تم کو۔ ماسٹر جی نے اسکا کاندھا پکڑ کر ہلایا تو اسکو ہوش آیا۔ وہ ایکدم سہم کر رہ گئی۔
ماسٹرجی اور بچے اسکا یہ انداز دیکھ کر ہنس پڑے۔
یہ میسنی تو اتنی بزدل ہے۔ میں بلاوجہ اس کو ظالم سمجھ رہا تھا۔ رام لال نے سوچا۔ لیکن ہے تو وہی ماسٹرجی کیطرح مسلی۔
بیٹا رام لال، بہن کو ساتھ کتاب میں دکھاؤ۔ ماسٹر جی نے کہا تو رام لال ہکا بکا رہ گیا۔
نن نہیں سرجی۔ وہ۔ وہ۔ رام لال کے منہ سے نہیں کے الفاظ کے بعد وجہ نہیں نکل رہی تھی۔
کیا نہیں نہیں؟؟؟ کتاب پھاڑ دے گی کیا وہ؟؟؟ کل لے آئے گی۔
اب دکھاؤ شرافت سے یا... یا کے بعد کے الفاظ نکلنے سے پہلے ہی رام لال نے کتاب وردہ کے آگے کردی۔

ہاں۔ ساباس۔ تو کل کے سبق میں جو فارمولا تھا...

ماسٹر جی کافی دیر پڑھانے کے بعد اب یاد کرنے کا کام حوالے کرکے کمرے سے باہر آئے۔
وہ چپ چاپ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
منحوس لڑکی۔ لگتا ہے بالکل جاہل ہے۔ یاد کرنے کا کہا تو ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
رام لال کو بلاوجہ اس پہ غصہ آرہا تھا۔
اس نے کتاب اسکے آگے سے ہٹا کر بند کردی اور کاپی پہ اترا ہوا کام رٹا لگانے لگا۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,839
143
سورج چھپنے سے پہلے ہی ماسٹر جی نے چھٹی دی اور وہ پھپھو کیساتھ گھر لوٹ آئی۔
کیسا لگا ٹیوشن؟؟؟ ابو نے اس سے پوچھا تو وہ بے دلی سے مسکرا دی۔
بس ٹھیک ہی تھا۔ کتابیں لینی ہیں بس مجھے۔
ہاں ہاں۔ اسکی فکر نہ کرو۔ ابو نے اسکو راضی ہوتا دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔
ایسا ہے کہ کل کی میری ٹکٹ ہے۔ تو کل چلا جاؤنگا میں۔ انہوں نے آہستہ سے کہا۔ جیسے وہ کل کچھ چوری کرنے والے ہوں۔
لیکن اگر آپ،، تھوڑا رک جاتے۔ اسکو اپنے الفاظ پی یقین نہیں تھا۔
ارے وہ تمہاری امی،،،، میرا مطلب ہے شازیہ اکیلی ہوگی نا۔ وہاں کون بیٹھا ہے اسکے پاس۔
انہوں نے دلیل دی۔
تو میرے پاس کون بیٹھا ہے ابو؟؟؟ اس نے ایسے انداز سے کہا کہ وہ چپ ہو کر رہ گئے۔
ارے میں اور تمہاری پھپھو ہیں نا تمہارے پاس۔ پھپھا اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر بولے۔ ابو نے بھی تائید میں سر ہلایا۔
تو اسطرح تو آپکی بیوی کے پاس بھی تایا تائی ہیں۔ انکے بچے بھی۔ وہ کونسی اکیلی ہیں۔ اسکا لہجہ بات مکمل کرتے کرتے سرد ہوچلا تھا۔
ارے بحث نہ کرو اب۔ ٹکٹ کینسل نہیں کروا سکتا میں۔ بس کل چلا جاؤنگا۔ آجاؤنگا دو ہفتے بعد چند دن رہنے کیلئے۔ اور آتا رہونگا۔ ایسے بچوں کی طرح ضد کرو گی تو تنگی محسوس کروں گا میں۔ انہوں نے تنک کر جواب دیا۔
تنگی ہی تو محسوس کرنے لگے تھے آپ ابو۔ ورنہ میں یہاں نہ ہوتی۔ وہ کہ کر اٹھی اور چپ چاپ صحن سے اندر کمرے میں آکر چارپائی پہ اوندھی دراز ہوگئی۔
اگلی صبح وہ بے جان سی ہتھیلی ہلا ہلا کر زرد چہرے اور پتھرائی بے خواب آنکھوں کیساتھ اسٹیشن پہ کھڑی انکو الوداع کہ رہی تھی۔ٹرین کی وسل کے بعد جب تک آخری ڈبہ بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوگیا وہ وہیں بت بنی کھڑی رہی۔
چلو بٹیا اب۔ یہاں کب تک کھڑی رہو گی۔ پھپھا نے شفقت سے کہا تو وہ انکو خالی نظروں سے تکنے لگی۔
ابو چلے گئے۔ مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر۔ اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا تو پھپھا کا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ انکا بس نہیں چلا ورنہ دور تارے کی شکل اختیار کرچکی ٹرین کو دوڑ کر روک لیتے اور وردہ کے باپ کے سینے پہ ہاتھ مار کر کہتے کہ "بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں."
اور انکو بوجھ سمجھ کر گھر سے رخصت کرنے والے خدا کی رحمت سے ہمیشہ نامراد رہتے ہیں۔
لیکن یہ سب باتیں چونکہ چناں کہ کے گرداب میں کہیں دفن ہوگئیں۔ چونکہ وہ ایسا نہیں کرسکتے تھے اسلئے نہیں کرسکے۔
چونکہ ٹرین نکل گئی تھی اسلئے اب وردہ کو انکے گھر جانا تھا۔ اگرچہ وہ خوش تھے کہ بے اولادی کی نحوست اور آزمائش ختم کرکے اللہ میاں نے ایک سعید رحمت انکے گھر میں اتار دی بلکہ انکے بڑھاپے کا سہارا بننے والی ایک بالغ بیٹی کو انکے آشیانے کی روشن قندیل اور گھر کا ستون بنا کر بھیج دیا تھا۔

وہ اسکو سمجھاتے بجھاتے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,373
1,839
143
"چھٹی قسط"

چھوڑ تو آیا بیٹی کو، لیکن اب ہوگا کیا اسکا؟؟؟ کہیں مجھ سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی۔ عمران صاحب نے سیٹ پہ بیٹھے بیٹھے خود کلامی کی۔
نہیں لیکن اسکے لئے یہی مناسب تھا۔ کہیں اسکی اپنی سوتیلی ماں سے لڑائی ہوجاتی تو خواہ مخواہ فتنہ کھڑا ہوتا۔
اب تک تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ انکے اندر سے جیسے کسی نے جواب دیا۔
ارے نہ ہوا تو کیا؟؟؟ ہو تو سکتا تھا نا۔۔ انہوں نے پھر خود کو تسلی دینا چاہا۔
ہاں لیکن ایک وہم کے پیچھے اپنی بیٹی کو غیروں میں چھوڑ آئے؟؟ ضمیر بھی آج ارسطو بنا ہوا تھا۔
آخر کو تمہارا ہی خون ہے وہ.. ضمیر نے مزید کچوکا لگایا۔
وہ چپ ہوکر ٹرین کی چھت کو تکنے لگے۔ اے سی کمپارٹمنٹ کی خنک ہوا ماحول کو پر اسرار بنا رہی تھی۔ کھڑکی میں گھورا تو باہر گرمی ہورہی تھی۔
آگ کی برسات میں وہ ٹرین کی چھت کیوجہ سے سرد ہوا کے مزے لوٹ رہے تھے۔
لیکن اپنی بیٹی کو اپنی چھاؤں سے ہٹا کر بے آسرا زمانے کی کڑی دھوپ میں اکیلا چھوڑ آئے تھے۔
اور وہ آبلہ پا انکو جاتا دیکھتی رہ گئی تھی۔
احساس کے بوجھ تلے دبے عمران صاحب انہی سوچوں میں گم چپ چاپ برتھ پہ لیٹے اور نیند کی آغوش میں دراز ہوگئے۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,839
143
وہ پھپھا کیساتھ بے تکان پیدل چلی جارہی تھی۔ اسکو ایسا لگ رہا تھا جیسے اب یہ سفر کبھی مکمل ہی نہیں ہوگا۔ ہر قدم من من بھر کا ہورہا تھا۔ لیکن اسکو اس پرخار وادی سے گزرنا تھا۔ اس جنگل کے بھیڑیوں سے نمٹنا تھا۔ جہاں ایسی پائی جانے والی لڑکیاں تر نوالہ ثابت ہوتی ہیں۔
رکو ذرا۔ کچھ کھا پی لیتے ہیں۔ پھپھا ایک ڈھابے پہ رک گئے۔
نہیں پھپھا، میں تو گھر جا کر ہی کچھ کھاؤنگی۔
ارے کھالو۔ سارے گاؤں کے لوگ یہیں کھالیتے ہیں اسٹیشن سے آتے جاتے۔ پھپھا کے اصرار پہ وہ طیٹھ گئی۔
ہاں دو شربت لانا۔ اور دو سموسے۔ انہوں نے بیرے کو بتایا اور اسکی طرف دیکھنے لگے۔
مجھے پتا ہے تم بہت اداس ہو۔ اور اس سب سے اداس تو میں بھی ہوں بیٹا۔ میں اور تمہاری پھپھی پہلے بھی اکیلے رہتے تھے۔ آگے بھی رہ لیتے۔
لیکن میری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے گھر تم آئیں۔ اور تم ہمارے ساتھ رہنے لگیں۔
تمہارے ابو تم سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ لیکن انکی بھی مجبوریاں ہیں بیٹا۔
تم وہاں رہ کر بہت اکیلی...
بس پھپھا...
پھپھا ابھی اتنا ہی کہ پائے تھے کہ اس نے انکی بات کاٹ دی.
ابو کی فضول حمایت مت کیجئے۔ وہ میرے اس گھر میں وجود سے ہی بیزار تھے۔ انہوں نے مجھ سے چھت چھین لی۔ وہ امی کی زندگی میں ہی مجھ سے بے زار ہوگئے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اب میں انکے گلے کا طوق بن جاؤنگی۔ اور انکی ترقی اور دوسری شادی کی راہ میں رکاوٹ بن جاؤنگی۔

پھپھا حیرانگی سے اسکی شکل دیکھنے لگے۔ اب تک باپ کے سامنے نگاہ نیچی رکھنے والی لڑکی ایکدم چلا اٹھی تھی۔
انہوں نے اسکو بھڑاس نکالنے دی اور چپ ہونے کے بعد اسکو لیکر گھر کی جانب چل دیے۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,839
143
کیا رام لال؟؟؟ چھوری سے یاری لگالی تو نے؟؟ اب تو مجھے گھاس تک نہیں ڈالے گا۔ سجن نے بستے سے کتاب نکالتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ سے اسکو دیکھا تو رام لال کی جان جل کر رہ گئی۔
کوئی یاری نہیں لگائی۔ تو جاکر خود مرغا بن گیا تھا نا۔ تو اس چڑیل کو کتاب دکھانی پڑی۔رام لال نے دانت پیسے۔
خیر، جانے دے۔ ویسے سندر ہے نا۔ سجن نے اسکو آنکھ ماری۔
ارے خاک سندر، تو ہی دوستی کرلے اس چیل جیسی ناک والی سے۔ میں تو کبھی منہ نہ لگاؤنگا۔
تم دونوں پھر لگ گئے باتوں میں؟؟ ماسٹرجی نے چیخ کر کہا تو دونوں کی روح کانپ گئی۔
رام لال تم وہاں سے اٹھو اور یہاں بیٹھو۔ رام لال چپ چاپ اٹھا اور ماسٹر جی کی بغل والی جگہ پہ بیٹھ گیا۔
چھٹی کے بعد وہ باہر نکلا تو سجن وہاں نہیں تھا۔ اس نے ادھر ادھر لاکھ ڈھونڈا لیکن مایوسی ہوئی۔
اچانک اسکو سجن کی آواز آئی۔
رام لال!! سجن نے اسکو ہلکے سے پکارا تھا۔ اس نے جلدی سے آواز کی سمت نگاہ دوڑائی۔ سجن ماسٹر جی کی سائیکل کے پاس کھڑا تھا۔
کیا کررہا ہے گدھے؟؟ اس نے غصہ کیا۔
ارے اپنے ماسٹرجی سے کل کی بے عزتی کا بدلہ لے رہا ہوں۔ مرغا بنایا تھا نا۔ ادھر آ۔ سجن نے ایسے رزداری سے کہا جیسے وہ اسکو کسی شاہ کا خزانہ لوٹنے کیلئے بلا رہا ہو۔
ہوا؟؟ ھھھھ ہوا نکالنا کافی نہیں ہے۔ اسکی سائیکل کی سیٹ بھی نکال دیتے ہیں۔ رام لال نے تجویز دی۔

ارے کیسے نکالے گا احمق؟؟ ماسٹر جی آتے ہی ہونگے۔ سجن نے جھڑکا۔
اچھا تو پھر یہ لے۔ اس نے جلدی سے پاس پڑا گوبر اٹھا کر سائیکل کی سیٹ پہ چھاپ دیا اور شیطانی ہنسی ہنسنے لگا۔
ہاں یہ سہی ہے۔ اب تیری گاؤ ماتا کا پرساد ماسٹرجی کی رکشا کرے گا۔ میری شبھ کامنائیں ماسٹرجی کیساتھ ہیں۔ سجن نے ہنستے ہوئے کہا اور دونوں دبے قدموں جلدی جلدی گھر کیطرف چل دیے۔

***
 
.
Moderator
2,373
1,839
143
بیٹا رام لال اور سجن۔ ماسٹر جی نے انکو ٹیوشن میں بیٹھے بیٹھے اچانک پکارا تو دونوں کے دل دہل۔کر رہ گئے۔
جی ماسٹر جی۔ دونوں بیک وقت پکارے۔

بیٹا آج ہماری سائیکل کی کسی نے ہوا نکال دی۔ہمیں پیدل گھر آنا پڑا۔
دونوں کے چہروں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ ماسٹرجی اصل بات دبا گئے تھے۔
ہم نے تمکو لطیفہ نہیں سنایا۔ تم دونوں بڑے بچے ہو، یہ بتاؤ کہ کیوں کیا یہ؟؟؟ ماسٹر جی نے جھلائے لہجے میں پوچھا۔
نہیں نہیں ماسٹرجی میں نے ہوا نہیں نکالی.. وہ تو..
رام لال نے کہتے کہتے نگاہ اٹھائی تو وردہ دروازے سے اندر داخل ہورہی تھی۔
اسکی نگاہ اسی پہ جم کر رہ گئی۔
کیا وہ تو؟؟؟ اس چھوری نے نکالی ہے یعنی؟؟ لیکن وہ تو سکول آئی ہی نہیں تھی آج۔ ماسٹر جی نے تعجب خیز نگاہوں سے رام لال کو گھورا۔
ارے نہیں ماسٹرجی یہ کہ رہا ہے کہ وہ تو بالکل ٹھیک تھی جب ہم اسکول سے نکلے تھے۔ سجن نے جلدی جلدی جواب نمٹایا۔
سرجی کوئی چھوٹی جماعت کا بچہ نکال گیا ہوگا ہوا، آپ ہم پر غصہ کررہے ہو۔ رام لال نے منہ بسورا تو ماسٹر جی سوچ میں پڑگئے۔
خیر جس دن دیکھ لیا کسی کو ہاتھ توڑ دیں گے اس پگلے کا۔ یہ کہ کر وہ وردہ کیطرف متوجہ ہوگئے۔
آگئیں آپ؟؟؟ اتنی جلدی کیوں آگئیں؟؟؟

اب دیکھیو تیری جل پری کی کلاس ہوگی۔ سجن نے رام لال کے کان میں کہا تو اسکو اور تپ چڑھ گئی۔

پری ہوگی تیری۔ وہ غصے میں بڑبڑایا تو ماسٹرجی نے سن لیا۔

کون بولا؟؟؟ کون بولا؟؟؟ وہ چلَائے۔
میں نے کہا کون تھا وہ بدتمیز؟؟ سب کو سانپ سونگھ گیا۔
ماسٹرجی جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے پھر وردہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔
تو کہاں تھیں تم؟؟؟ پورے آدھے گھنٹے لیٹ۔ انہوں نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔
جج جی وہ سر، وہ۔
پہلی بات ہم تمہارا سر نہیں ہیں۔ انکے انداز پہ رام لال کھل کھلا کر ہنس پڑا۔
دیکھو رام لال ابھی تمہاری گدی لال کردیں گے۔ سمجھے بیٹا۔ چپکے رہو تم ذرا۔
انہوں نے منہ گھمائے بنا رام لال کو سیٹ کیا۔
اب بولو۔ تم نے تو اٹک اٹک کر اور دس منٹ کھا لیے۔

وہ، وہ ابو ماسٹرجی گھر گئے تھے صبح تو... اس نے گھبرا کر بات الٹی بول دی۔

الٹا سیدھا بول رہی ہے اب۔ ماسٹر جی نے ہاتھ ماتھے پہ مارا۔
بہرحال پہلی غلطی پہ نا ہم بیٹا بہت سزا دیتے ہیں۔ شہر نہیں ہے یہ، یاد رکھنا یہاں سزا بھی ملتی ہے۔ انہوں نے اسکو گھرکا اور آئیندہ پیش آنے والے واقعات کی ایک جھلکی دکھا دی۔
وردہ کے ذہن میں فلمی سین کی طرح بچپن میں پڑھی اور سنی ہوئی سبھی کہانیوں کے خاکے گھومنے لگے جن میں گاؤں کا ٹیچر ایک ظالم و جابر انسان ہوتا ہے جو کسی بچے کی ٹانگ کسی کا ہاتھ توڑ دیتا ہے۔
وہ چپ سادھے جلدی جلدی کتابیں نکالنے لگی۔

***
 

Top