Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,363
1,827
143
شادی کے کچھ دن بعد ماسٹرجی نے اسکول کھلنے کا اعلان مسجد میں کروادیا تھا۔
اگلے دن وہ نہا دھوکر صحن میں آئے تو وردہ چولہے پہ چائے رکھ رہی تھی۔
وہ مسکرا دیے۔ اس نے انکو دیکھ دیکھ کر تین دن میں ہی چولہا جلانا سیکھ لیا تھا۔ چائے ابالنے کے بعد اس نے جھٹ رات کی روٹی گرم کی اور ساس کے کمرے میں لیکر بیٹھ گئی۔ باڑے والے نے ماسٹرجی کی شادی کے اعزاز میں دودھ کیساتھ مکھن بھی فری کردیا تھا اسلئے اب ناشتہ مزیدار ہونے لگا تھا۔ تین دن ہوگئے ہیں۔ میکے نہیں جائے گی؟؟؟ ماسٹرجی نے چائے سڑکتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔
قبر میں کیسے گھسوں۔ وہ آہستہ سے بولی۔ کیسی قبر؟؟؟ میکے جانے کا بول رہے ہیں قبر میں جانے کا نہیں۔
ماں تو مرگئی ہے۔ اب اسکا گھر قبرستان میں ہے نا!! وہ بھی شہر میں، تو قبر میں کیسے گھس جاؤں بولو؟؟
حدد ہے۔ پھپھا کے گھر نہیں جائے گی کیا؟؟؟ ماسٹرجی نے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔
کیوں تھک گئے ہو کیا؟؟؟ اس نے طنزیہ مسکراہٹ سے انکو دیکھا۔
ہاں نا۔ بے چین کردیتی ہو۔ اچھا اب ناشتہ کرو۔ انہوں نے ٹیڑھی آنکھ سے اسکو ماں کی موجودگی جتلائی۔
جلدی سے چائے ختم کرکے ماسٹرجی نے سائیکل۔سنبھالی ہی تھی کہ وردہ کی آواز نے قدم روک لئے۔
ارے رکو. کہاں بھاگے جارہے ہو؟؟؟ ماسٹرجی نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا۔
یہ بٹن بند کرو۔ یہاں آؤ۔ اسنے ماسٹرجی کو جھکا کر گریبان بند کیا اور کنگھی سے تیل چپڑے ہوئے پف کو مزید نکھار دیا۔
اور سنو، واپسی پہ انڈے لانا۔ پڈنگ بناؤنگی آج۔ چلو جاؤ اب، خدا حافظ۔
ماسٹرجی سائیکل لیکر گھر سے نکل گئے۔ اسکول پہنچے تو سب بچے پھول لیکر دروازے پر کھڑے تھے۔ وہ خوشی سے پھول گئے۔ بچوں کی خوشی بھی دیدنی تھی۔ اندر کلاس تک پھول برساتے بچے انکو جلو میں لیکر چلتے رہے۔
کلاس لگنے کے بعد ماسٹرجی کی نگاہ اسی سمت اٹھی پھر جھک گئی۔ وردہ تو اب گھر ہی آگئی تھی انکے۔ یہاں ہوتی تو اچھا لگتا یا؟؟؟ انہوں نے ایک لمحے کو سوچا۔
اور رام لال کی سیٹ بھی خالی پڑی تھی۔ فالتو جذباتی عاشق۔ پڑا ہوگا حوالات میں، سڑجائے گا اندر ہی۔ ابھی تک دھلانی بھی نہیں آتی ہوگی اور چلا ہے باپ سے پنگا لینے۔ ماسٹرجی نے یہ سب سوچتے ہوئے حاضری رجسٹر نکالا اور وردہ کا نام لاٹ دیا۔ اسکے علاوہ رام لال کا نام بھی کاٹ دیا۔ البتہ اپنے نام کے سامنے انکو دستخط کرنے پڑے۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے رام لال اور وردہ شادی کرکے اسکول چھوڑ گئے ہوں۔
ماسٹرجی سر جھٹک کر مڑے اور ریاضی کا سوال تختہ سیاہ پہ اتارنے لگے۔ اب نویں جماعت کا ایک ہی طالبعلم رہ گیا تھا۔ سجن!!
اسکو تو ماسٹرجی ٹیوشن پڑھا کر ہی سبق سمجھا سکتے تھے۔ اسکول آکر وہ کیا کرتا۔
لیکن ہوسکتا ہے رام لال انسان کا بچہ بن کر لوٹے اور اسکول جوائن کرلے۔

سجن کبھی چھٹی نہیں کرتا تھا۔ اسلئے آج بھی موجود تھا۔ یہ الگ بات کہ اسکے خیالات بھی ماسٹرجی کیلئے بہت برے تھے۔ وہ دو تین دفعہ رام لال سے ملا تھا جس کی وجہ سے اسکو ماسٹرجی سے شدید نفرت محسوس ہونے لگی تھی۔
اسکا رام لال کے بنا سانس لینا بھی دوبھر ہوچکا تھا۔
درمیانی چھٹی میں بھی وہ آج کلاس میں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔
بیٹا سجن!! یہاں آؤ۔ ماسٹرجی نے اسکو پکارا۔
جی۔ وہ چونک کر اٹھا اور ماسٹرجی کے پاس چلا گیا۔ کیا بات ہے بریک میں باہر نہیں گئے تم؟؟؟ رات نیند نہیں کی تھی کیا؟؟؟ ماسٹرجی کے لہجے میں حددرجے ملائمت تھی۔
کک کہ تھی سر۔ ایسے ہی سر میں درد تھا۔ اس نھ بہانہ بنا کر جان چھڑانا چاہی۔
میں جانتا ہوں تم اپنے دوست کو یاد کرکے دکھی ہو۔
ایسا ہی ہے نا؟؟؟
اس نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلادیا۔
وہ ایک بیوقوف لڑکا ہے۔ اس نے گاؤں بھر کی ناک کٹوادی ہے۔ اسکی ماں کی پریشانی کا سوچا بھی نہیں اسنے۔ اسکو تھانے میں بند کردیا ہے تاکہ وہ کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کرے۔ ماسٹرجی نے بن بلائی تقریر جھاڑ دی۔
لیکن ماسٹرجی اگر وہ گھر آجائے تو کیا کر لے گا؟؟؟
اب تو آپ وردہ سے شادی کرچکے ہو نا۔ اب وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ سجن نے انکی نیت کو ٹٹولا۔
تم نہیں جانتے جو اغوا کرنے کی کوشش کرسکتا ہے وہ حملہ بھی کرسکتا ہے۔ میں اسکول میں ہوتا ہوں۔ اور وردہ گھر پہ اکیلی ہے۔ رام لال اتنا اچھا بچہ تھا اسکو کیا پڑی تھی مسلم لڑکی کے پیچھے پڑنے کی۔ اپنی بھی عزت تباہ کی اور اپنی ماں کی بھی۔
سجن سے اب برداشت نہ ہوا۔
وہ آپ سے بچانے کیلئے لیکر گیا تھا وردہ کو۔ اغوا نہیں کیا تھا بچایا تھا۔ وہ قدرے چیخ کر بولا تھا۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
زیادہ چیخنے کی ضرورت نہیں ہے سمجھا؟؟ اور مجھ سے بچا سکا؟؟ نہیں نا۔ الٹا خود اندر ہوگیا۔ ویسے بھی وہ شادی کرکے گاؤں میں ہندو مسلم فساد کروادیتا۔
آپ نے کونسا اچھا کام کیا ہے شادی کرکے؟؟؟ فساد تو رامو باہر آکر مچائے گا۔ اور اسکی ذمے داری آپ پہ ہوگی ماسٹرجی۔ سجن کی آواز شدتِ جذبات سے رندھ گئی اور آنکھوں میں تارے جھلملانے لگے۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ رام لال کو بھی نانی یاد آجائے گی حوالات میں۔ ماسٹرجی نے حوالات کے ظلم و ستم کی خیالی تصویر ذہن میں لاتے ہوئے کہا۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
جیپ روڈ کے کنارے رکی اور ایک سایہ اتر کر بستی کی جانب چل دیا۔ تھوڑی دور چل کر وہ ایک گھر کے دروازے پہ دستک دے کر اندر چلا گیا۔
آنے والا شخص انسپکٹر تھا اور گھر تھا شنکتلا کا۔۔
قانون ہمیشہ منہ ہی مارتا رہتا ہے کیا؟؟ وہ اسکے سینے پہ کھیلتے ہوئے بولی۔
قانون موقعہ نہیں جانے دیتا۔ جیسے دیکھ لے میں ادھر ہوں۔
میرے بیٹے کو کب چھوڑو گے؟؟ روز سونے آجاتے ہو لیکن چھوڑ نہیں رہے اسکو۔ اسکا انداز شکوے بھرا تھا۔
اسکو آج چھوڑ دوں، لیکن وہ پاگل ہے بالکل۔ کوئی بیوقوفی کردے گا اور پولیس کی گولی سے مرجائے گا۔ انسپکٹر اسکے جسم پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
ایسا کرسکتے ہو تم دونوں ماں بیٹا کہیں اور چلے جاؤ۔
ہم کہاں جائیں گے؟؟ میرے شوہر کی موت کے بعد یہی مکان ہے ہمارا.
مکان مجھے فروخت کردو تم۔ اور یہاں سے چھ گاؤں دور چھٹے گاؤں جلال نگر میں گھر ہے میرا ایک وہ لے لو۔
ٹھیک ہے منظور ہے۔ میں اسکو وہاں لیجاؤنگی. اور تم سے بھی نجات ملے گی۔ آہ کتنا درد دیتے ہو۔ شنکتلا نے مصنوعی سسکی بھری لیکن انسپکٹر بے سدھ پڑا رہا۔
اونہہ نامرد کہیں کا۔ وہ اسکو منمنائی آواز میں گالی سے نواز کر کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔
اگلے دن انسپکٹر نے تھانے جاتے ہی رام لال کو طلب کیا۔ وہ ناشتہ کرکے چکا تھا۔
انسپکٹر نے ایک کانسٹیبل لیا اور رام لال کو جیپ میں پیچھے بٹھا لیا۔ اسکی آنکھوں پہ کس کر پٹی باندھ دی گئی اور ہاتھ پیچھے کرکے ہتھکڑی میں جکڑ دیے گئے۔
رام لال چپ چاپ خود کو اوپر والے کے حوالے کرکے بیٹھ گیا۔
جیپ سڑک پہ چڑھی اور کافی دور تک چلتے رہنے کے بعد کچے پہ اتر گئی۔
یہ تو جنگل کی طرف کا رخ ہے۔ کہاں لیجارہا ہے یہ مجھے۔ رام لال کے دماغ میں سنسنی کی لہر دوڑ گئ۔
کہیں جعلی مقابلے کا چکر تو نہیں۔ اوپر والے بچالے مجھے۔ اسنے خیال ہی خیال میں خود کو گولی کھاکر گرتا محسوس کیا۔ اسکا سر ایک طرف ڈھلکا اور خون کی ایک لکیر پتھریلی اور بھربھری زمین میں جذب ہونے لگی۔
کچھ دور جاکر جیپ ایک جگہ رک گئی۔ دو سپاہیوں نے اسکو اتارا اور زمین پہ بٹھا دیا۔ اسکی آنکھوں پہ سے پٹی اتاری گئی تو روشنی سے اسکی آنکھیں چندھیانے لگیں۔ جب وہ دیکھنے کے قابل ہوا تو انسپکٹر سامنے پتھر پہ بیٹھا مسکرا رہا تھا۔
جانتا ہے کیوں لایا ہوں ادھر تجھے؟؟؟ انسپکٹر نے ہاتھ میں پکڑے پستول کی نالی کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
مم، مجھے کیوں لائے ہو ادھر؟؟؟ مجھے مارنا مت پلیز۔ وہ گڑگڑایا۔
ہہہہہ۔ پھٹ گئی کیا؟؟ کام تو سارے مرنے والے کرتا ہے اور کہتا ہے مارو نہیں۔ انسپکٹر صورتحال کو انجوائے کرتے ہوئے بولا۔
نہیں صاحب جی۔ میں نے کیا ایسا کیا کردیا؟؟ صرف اسکو بچانے کی کوشش کی ماسٹر سے۔ رام لال کو اپنی موت صاف دکھائی پڑرہی تھی۔
انسپکٹر نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور اسکے قریب آگیا۔
چل گن الٹی گنتی۔ چل دس ، نو۔۔۔ چل شاباش۔
نن نہیں نہیں، گولی مت چلانا۔ گولی مت چلانا۔ رام لال خوف کے مارے تھر تھر کانپنے لگا۔
واہ. یعنی تو پولیس کا حکم نہیں مانے گا۔ میں ایسے ہی ماردیتا ہوں۔ یہ لے۔ تین دو ایک ٹھاہ۔ زور سے گولی چلنے کی آواز آئی اور رام لال ایکطرف کو لڑھک گیا۔
پاس کھڑے دونوں کانسٹیبلوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ دو سیکنڈ بعد رام لال کو بھی احساس ہوا کہ گولی اسکو نہیں لگی ہے۔
اسنے آنکھ کھول کر دیکھا تو پستول کا رخ اوپر کی جانب تھا۔
چاہتے کیا ہو صاحب؟؟؟ اس نے اب ہمت کرکے انسپکٹر سے سوال کیا۔
یہاں لایا کیوں جاتا ہے تجھے پتہ ہے؟؟؟ انسپکٹر آج الگ ہی پنک میں تھا۔
جی مارنے کیئے لایا جاتا ہے۔ لیکن مار تو رہے نہیں ہو۔ کھیل کررہے ہو بس۔
ہاں تو ابھی اتنا ڈر رہا تھا مرنے سے۔ انسپکٹر کھکھلا کر ہنسا۔
ایک شرط پہ جان بخش سکتا ہوں تیری۔ انسپکٹر نے اسکی طرف معنی خیز انداز میں دیکھا۔
کونسی شرط؟؟
یہ شرط کہ تو اپنی ماں کیساتھ یہ گاؤں چھوڑ جائے گا۔ اور اسطرف کا رخ نہیں کرے گا کبھی۔
منظور ہے یا داغ دوں پیٹ میں؟؟؟ اس نے یہ کہتے ہوئے پستول رام لال کے پیٹ میں چبھویا۔
وہ چپ چاپ اسکو دیکھنے لگا۔
جلدی بول۔ ورنہ مار کر سائیڈ پہ پھینک دونگا پتہ بھی نہیں چلے گا۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
منظور ہے مجھے، لیکن کہاں جائیں گے ہم؟؟؟ رام لال کا جواب سن کر انسپکٹر کے چہرے پہ اطمینان آگیا۔
ادھر سے چھٹے گاؤں میں مکان ہے۔ تیری ماں سے بات کرلی ہے میں نے۔
تجھے تھانے سے ہی اپنی ماں کو لیکر اس گھر جانا ہوگا۔ سامان کل پہنچ جائے گا۔
رام لال نے ہاں میں سر ہلادیا۔ انسپکٹر نے اسکو واپس اسی طرح پٹی باندھ کر بٹھایا اور تھانے کیطرف روانہ ہوگیا۔
شام تک رام لال اور شنکتلا مختصر سا سامان لیکر انسپکٹر کے بتائے ہوئے پتے پہ جلال نگر کیطرف بس میں بیٹھے جارہے تھے۔
وہاں اتر کر انہوں نے مکان تلاش کیا۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ جلد ہی مطلوبہ مکان مل گیا۔ یہ انکے مکان سے قدرے بڑا مکان تھا۔ کچھ سامان اس انداز کا پڑا ہوا تھا جیسے یہاں کوئی کبھی کبھی آتا ہو۔ دو کمروں میں الگ الگ چارپائیاں، ایک کمرے میں سنگھار میز، دوسرے میں ایک صوفہ سیٹ۔ کچن کا سامان آجائے گا تو مکان سیٹ اور سندر ہوجائے گا۔ اس گھٹیا مکان کے بدلے ایک درست مکان اور اس منحوس جھگڑے سے بھی نجات۔ تھوڑی سی صفائی سے مکان چمکنے لگا۔ وہ دونوں پہلے ہی تھکے ہوئے تھے۔ شنکتلا نے ساتھ لایا ہوا کھانا نکالا اور کھا کر دونوں بستر پہ ڈھیر ہوگئے۔

***

سرجی یہ آپ نے کیا کردیا؟؟ مجھے تو لگا تھااس کیس کو تگڑا بنا کر پروموسن کا بندوبست کرو گے۔ کانسٹیبل اشرف نے انسپکٹر سے کہا۔
ارے نہیں ، وہ بے قصور ہے۔ اسکو پھنسا نہیں سکتا میں۔ اسکی بیوہ ماں ہے۔
سرجی تو قصور کروا لو۔ پھر آپ بھی اپنا پتہ کھیل لینا اور پروموسن پکی۔
لیکن کیا قصور کروائیں؟؟ وہ تو پہلی ہی دفعہ میں گاؤں چھوڑنے پہ مان گیا تھا۔ ورنہ وہیں مار کر مقابلہ کہ دیتے۔ انسپکٹر نے ماتھا مسلا۔
بس یہ آپ مجھ پہ چھوڑ دو۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ اشرف نے اسکو آنکھ ماری اور باہر نکل گیا۔​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
اگلے دن تمام گھریلو سامان نئے گھر میں شفٹ ہوکر سج چکا تھا۔ انسپکٹر چارپائیاں اٹھا کر لے گیا تھا۔ البتہ سنگھار میز شنکتلا کو دے گیا تھا۔
اور چھوٹا موٹا سامان بھی چھوڑ گیا تھا۔ شنکتلا کیلئے یہ مال غنیمت مل جانابہت خوشی کی بات تھی۔
اگلے دن شنکتلا رات کو کھانا کھا کر صحن میں بیٹھی رام لال سے باتیں کررہی تھی کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔
کون آگیا یہاں؟؟؟ اس نے پریشانی سے رام لال کو دیکھا۔
رک میں دیکھتا ہوں۔ وہ اٹھا تو شنکتلا نے اسکو روک دیا۔
ارے تو دیکھنا تو پڑے گا نا۔ وہ ہاتھ چھڑا کر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
کون؟؟؟؟ اسنے پوچھا۔
رام لال میں سپاہی اشرف۔ باہر سے آنے والی آواز پہچان کر رام لال نے جھٹ دروازہ کھول دیا۔
ارے چاچا کیسے آئے ہو؟؟؟ آؤ اندر.
نہیں تو باہر آجا۔ بھابھی جی ناراض مت ہونا ذرا اس سے کچھ بات کرنی تھی۔ ابھی دو منٹ میں واپس آجائے گا یہ۔ اشرف نے شنکتلا سے کہا اور رام لال کو لیکر نکل آیا۔ وہ تھوڑی دور ایک درخت کے نیچے جاکر کھڑے ہوگئے۔
اب بولو چاچا کیا کہنا ہے تمکو؟؟
غور سے سن۔ تجھے ماسٹر رحیم الدین سے بدلہ لینا ہے کیا؟؟؟ اسی نے تیری فیلڈنگ لگائی تھی۔ اشرف سوالیہ انداز میں بولا تو رام لال کے کان کھڑے ہوگئے۔
لیکن تم یہ کیوں کہ رہے ہو؟؟ اس نے تو اب شادی رچالی وردہ سے۔ اب کیا بدلہ۔ رام لال دکھی ہوکر نیچے دیکھنے لگا۔
تو کیا ہوا؟؟ تو بھی اس سے جینے کا حق چھین لے۔ اسکو اوپر نرک میں پہنچادے تاکہ وردہ اس سے الگ ہوجائے۔ اور پھر اس سے شادی کرلینا۔ صاحب نے یہ مکان اسی لئے دلوایا ہے تم لوگوں کو۔ کہ شک نہ گزرے تم پہ۔ اشرف نے اسکو ساری بات سمجھائی۔

لیکن میں کیسے اسکو ماروں؟؟؟ اگر پکڑا گیا تو پولیس ماردے گی مجھکو۔ رام لال نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
پاگل ہے کیا؟؟؟ اسکے مرنے کے بعد تجھے ایک جگہ چھپا دونگا میں۔ اور پھر واپس اسی جگہ چھوڑ جاؤنگا۔
اچھا اب بتا پستول چلانا آتا ہے کیا؟؟؟
نن نہیں آتا وہ تو۔ رام لال ہکلایا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ اسکو بھی چھوڑ۔ بس کسی دن میں آؤنگا اور چلیں گے۔ خبردار جو کسی کو بتایا۔ ورنہ ماسٹر کی بجائے تیری لاش ملے گی لوگوں کو۔ چل اب نکلتا ہوں۔ اشرف اسکے کندھے پہ تھپکی دیکر چلتا بنا۔
ادھر رام لال کا ذہن بری طرح الجھ کر رہ گیا تھا۔ اشرف نے اسکو ماسٹرجی کے قتل پہ کیوں اکسایا؟؟ آخر ایسا کیا ہے۔
وہ ساری رات سوچوں میں گم رہا۔ صبح شنکتلا اسکو اٹھانے لگی تو وہ پہلگ ہی جاگ رہا تھا۔ کیا ہوا سویا نہیں تھا تو؟؟؟ وہ اسکی سرخ آنکھیں دیکر کر بولی۔
ایسے ہی۔ نیند نہیں آئی۔ تو اپنا کام کر۔ وہ منہ ڈھک کر آنکھیں موند کر لیٹا رہا۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
واہ اشرف پلان تو اچھا ہے۔ انسپکٹر نے اسکی کارگزاری سننے کے بعد ایک گہری مسکراہٹ دکھائی۔ اسکے بعد میری پروموشن پکی۔ وہ مونچھوں پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔
جی بالکل صاحب۔ اب بس اس کو لیکر آنا ہے اور ماسٹر اوپر۔ پھر پروموشن کا گیم بنالینا آپ۔
ہممم ٹھیک ہے۔ انسپکٹر نے ایک گہرا سانس لیا اور چپ ہوگیا۔
دو دن بعد اشرف پھر رات کو رام لال کے گھر آیا ہوا تھا۔
بھابھی اسکو پولیس لیکر جارہی ہے ہمیں کچھ تفتیش کرنی ہے۔
لیکن کیسی تفتیش؟؟ ارے رکو تو سہی۔ شنکتلا کہتی رہ گئی اور اشرف اسکو کچھ اطمینان دلا کر اور کچھ جھڑک کر رام لال کو جیپ میں بٹھا کر روانہ ہوگیا۔
ماسٹرجی کو بلایا جائے گا پہلوانی والے میدان کی طرف۔ تم وہیں رکنا اور جیسے ہی وہ آئے اسکو اوپر پہنچا دینا۔
رام لال ہاں میں سر ہلانے لگا۔ شنکتلا نے انسپکٹر کو کال ملائی تو فون بند تھا۔ وہ چپ ہوکر کونے میں بیٹھ گئی۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
اگر میری شادی ایک برے انسان سے ہوئی تھی تو وہ اچھا کیسے بن گیا؟؟؟ اور اگر اچھے انسان سے ہوئی تھی تو اس نے پہلے برائی کیوں کی؟؟؟ وردہ اکثر اسی بات کو سوچا کرتی تھی۔ لیکن یہ بات بھی سچ تھی کہ اسکے باپ سے زیادہ کئیر ماسٹر رحیم الدین اسکی کررہا تھا۔ کم سے کم اسکو گھر پہ بٹھا کر کھلا رہا تھا۔ ماسٹرجی کی ماں بھی اسکا خیال رکھتی تھی۔ ابتداء میں صبح اٹھ کر ناشتہ بناتے وقت وردہ کو تھوڑی پریشانی ہوئی تھی لیکن اب وہ اس کی بھی عادی ہوگئی تھی۔
اسکو رام لال کا جب بھی خیال آتا وہ اسکو جھٹک دیتی۔ اب شادی کو دوسرا مہینہ ہونے کو آیا تھا۔ اب تک وہ ماسٹرجی کیساتھ ایک مرتبہ ہسپتال ہوکر آچکی تھی۔
ڈاکٹر نے مثبت جواب دیا تھا تو ماسٹرجی کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا تھا۔ وہ بار بار اسکو گلے لگاتے۔ وردہ کو بھی تکلیف میں رہنے کے باوجود ایک عجیب سا فرحت آمیز احساس ہوتا تھا۔ جیسے اسکے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی ہو۔ وہ ایک زندگی کو اپنے اندر پال رہی تھی۔
ایک وقت وہ بھی آیا تھا جب وہ ماسٹرجی کیساتھ اسکو تلف کروانے ہسپتال جا پہنچی تھی۔ لیکن اب وہی چیز اسکے لئے فخر کا باعث تھی۔ دو بولوں کا ہی تو فرق تھا۔
دو بولوں سے پہلے وہ ماسٹرجی سے گھن کھا رہی تھی اور اب کافی حد تک پردہ ہائے نفرت چاک ہوچکے تھے۔
لیکن اکثر وہ رات کو دیر سے آتے تھے۔ اور اسکی وجہ انہوں نے اسکو صاف صاف ایک نووارد ماں بیٹی بتائی تھیں۔
وردہ کا دل کڑھا تھا لیکن ماسٹرجی کی اچھائیاں اس نفرت کو رفتہ رفتہ زائل کررہی تھیں۔ اور رام لال بھی اسکی معلومات کے مطابق اپنی ماں کو لیکر غائب ہوگیا تھا۔ اسلئے اب سب سے بہتر بات سمجھوتہ رہ گئی تھی۔ آج بھی وہ رات کو برتن ڈھک کر اپنے کمرے میں آئی اور چارپائی پہ بیٹھ کر کوئی رسالہ پڑھنے لگی۔
ماسٹرجی کے آنے میں ابھی گھنٹہ بھر پڑا تھا۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
وہ ایک عورت کے گھر جاتا ہے۔ میں تجھے میدان کے پاس اتار کر اسکو لاتا ہوں۔ اشرف نے رام لال کو میدان کے پاس اتارا ایک لمبا سا چاقو پکڑا دیا۔ رام لال ایک لمحے کو ڈر گیا۔ پھر اسکو وردہ، اپنی ماں اور اپنی گرفتاری یاد آگئی۔
کرلے گا نا؟؟؟ اب پیچھے ہٹنے کا سوال نہیں ہے سمجھ گیا؟؟؟ اگر تونے اسکو نہیں مارا تو مجھے مارنا پڑے گا اسکو۔ لیکن پھر تجھے میں بچا نہیں سکونگا۔ اشرف نے کہا تو وہ مضبوطی سے چاقو تھام کر مسکرادیا۔
کیسے نہیں مارونگا اس حرامی کو۔ جاؤ چاچا لیکر آؤ۔
اچھا سن۔ میں تجھے اشارہ دونگا تو اوٹ سے باہر آجانا میں اسکو پکڑلونگا۔ مار کر یہیں سائیڈ پہ ڈال دیں گے۔
ٹھیک ہے۔ وہ زندہ نہیں بچے گا۔
یہ کہتے ہوئے وہ ایک طرف لگے کیکر کی اوٹ میں چھپ گیا۔
اشرف نے جیپ گھمائی اور ایک طرف کو بھگادی۔

ذرا دور جاکر اسکی لائٹیں ایک آدمی پہ پڑیں جو پیدل چلا آرہا تھا۔ اس نے پہچان کر فوراً گاڑی اسکے برابر میں روک دی۔
راہ گیر گھبرا گیا۔ کیا ہوا صاحب؟؟؟ مجھے جانے دو۔ مم میں نے کیا کیا ہے؟؟؟ راہ گیر ڈرتے ڈرتے بولا۔
ارے ماسٹرجی اتنی رات کو کہاں سے آرہے ہیں آپ؟؟؟ آئیے گھر چھوڑ دوں آپکو۔ میں ہوں اشرف۔ ماسٹرجی نے اسکو دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا اور بغیر کچھ کہے گاڑی میں بیٹھ گئے۔
گاڑی میدان کے پاس آکر رک گئی۔ کیا ہوا؟؟؟ گھر تو ابھی دور ہے۔ ماسٹرجی نے اسکی طرف دیکھا۔
لگتا ہے کچھ مسئلہ ہوا ہے۔ ماسٹرجی اترنا ہوگا آپکو ذرا۔ ماسٹرجی نے دروازہ کھولا اور اتر گئے۔
چل اوئے۔ اشرف نے ایک آواز لگائی۔ اس سے پہلے کہ ماسٹرجی سنبھلتے اس نے انکے دونوں ہاتھ پیچھے سے پکڑ لیا۔ ماسٹرجی ہکا بکا ہوکر خود کوچھڑانے کی کوشش کرنے لگے ہی تھے کہ سامنے سے رام لال درخت کی اوٹ سے نکلا۔ ابے ٹھوک سؤر کہیں کے۔ اشرف چلایا۔ رام لال ایک لمحے کو گھبرایا لیکن پھر فوراً سنبھل کر اس نے چاقو ماسٹرجی کی بائیں پسلی کے نیچے سامنے گھونپ دیا۔ ماسٹرجی کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ کیساتھ غلیظ گالی برآمد ہوئی۔
مار مار سالے کو۔ اشرف نے ماسٹر جی کو اور زور سے پکڑا اور رام لال نے جنون میں آکر دو تین مزید وار کرڈالے۔ ماسٹرجی نے اس بار خاص مزاحمت نہ کی۔ پہلے ہی وار میں وہ مکمل ہلکان ہوگئے تھے۔ اشرف نے انکو چھوڑا تو وہ سیدھے زمین پہ گرپڑے۔ رام لال کے ہاتھ سے خون آلود چاقو ایک طرف کو گرگیا۔
وہ پتھر کا بت بنا دم توڑتے ماسٹرجی کو دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کی بات تھی۔ ماسٹرجی کی گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔
چل چل نکلتے ہیں ادھر سے۔ جلدی آ۔ اشرف نے اسکو پکڑ کر کھینچا اور جیپ میں بٹھا کر یہ جا وہ جا ہوگیا۔ رام لال کے ہوش و حواس بالکل مختل ہوگئے تھے۔ اسکو لگ رہا تھا جیسے یہ کوئی ڈراؤنا خواب ہو۔
اشرف اسکو لیکر گاؤں سے باہر ایک مکان پاس رک گیا۔ جیپ انہوں نے ایکطرف کھڑی کی اور اندر چلے گئے۔
اشرف نے اندر جاکر ایک طرف پڑا لالٹین جلایا اور پاس رکھے مٹکے سے ہاتھ منہ دھوئے۔
رام لال اب تک بت بنا ہوا تھا۔ وہ بار بار اپنی خون آلود آستین کو دیکھ رہا تھا۔
چل فٹا فٹ یہ گند دھو لے۔ اشرف کے کہنے پہ اسنے ہاتھ اور کپڑے دھوئے اور کرتا لیکر اشرف کیساتھ چھت پہ چلا گیا۔ اس نے کرتا ایک طرف ڈالا اور چھت پہ پڑی بان کی چارپائی پہ بیٹھ گیا۔
کیا ہوا؟؟؟ بدلہ ہوگیا نا پورا۔ خوش نہیں ہے تو کیا؟؟؟ اشرف نے مسکرا کر اسکو دیکھا۔
لیکن تمکو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟؟؟ اسنے کھوئے کھوئے لہجے میں اشرف کو دیکھا۔ فائدہ نقصان چھوڑ۔ تو یہیں رہنا تھوڑے دن۔ پولیس تیری تلاش میں ادھر ادھر چھاپے مارے گی۔ کچھ دن بعد تجھے محفوظ جگہ چھوڑ آؤنگا۔
یہ یہ کیا کردیا تم نے؟؟؟ اب کیا ہوگا؟؟؟ ماں کو کون بتائے گا؟؟؟ رام لال کی آنکھوں میں خوف امڈ آیا تھا۔
ابھی سب کچھ چھوڑ اور چپ ہوجا۔ ورنہ تجھے بھی مار کر ماسٹر کیساتھ لٹا کر آجاؤنگا۔
اشرف نے یہ کہ کر سیگریٹ نکالی اور اسکو خالی کرنے لگا۔
رام لال چپ بیٹھا تھا۔ اشرف نے سیگریٹ بنائی تو اس نے ہاتھ بڑھا دیا۔
اپنے لئے دوسری بنالو چاچا۔ یہ ادھر دو۔ اشرف نے ایک لمحے کو سوچا پھر سیگریٹ اسکی طرف بڑھا دی۔
چند لمحوں بعد رام لال خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کررہا تھا۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
"دربدر"

"آخری قسط (آخری حصہ)"

کیا ہوا یہ کہاں چلے گئے آخر؟؟؟ لگے ہوئے ہونگے حرام زدگی میں۔ وردہ نے ماسٹرجی کو کوستے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔
نہ نفرت کرنے دیتا ہے یہ شخص نہ محبت۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ اسنے نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں ملتے ہوئے جمائی لی۔
اب سو ہی جاتی ہوں۔ متلی نہ ہونے لگے پھر سے۔ اس نے آہستگی سے کروٹ لی اور آنکھیں موند لیں۔

صبح ہی صبح گھر کے باہر مچے کہرام سے اسکی آنکھ کھلی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی دروازہ توڑ ہی ڈالے گا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ دوپٹہ لیا اور آس پاس دیکھا تو ماسٹرجی موجود نہیں تھے۔
الٰہی خیر۔ یہ کدھر گئے؟؟؟ وردہ ہولتے دل کیساتھ بستر سے اٹھ کر صحن میں آئی۔ ساس بھی اٹھ چکی تھیں۔ وہ بھی ہمت کرکے صحن میں آگئی تھیں۔ وردہ نے کانپتے ہاتھوں سے دوپٹے کا پلو منہ پہ ڈال کر دروازہ کھولا۔
باہر انسپکٹر کھڑا تھا۔ اسکے پیچھے ہجوم تھا۔
بی بی یہ ماسٹرجی کا گھر ہے نا؟؟
جی کیا بات ہے؟؟؟ انکا حادثہ ہوا ہے گزشتہ رات کو۔ انکی حالت کافی بری ہے۔ آپ سے کچھ بات کرنی ہے مجھے۔
لیکن وہ ہیں کہاں؟؟؟ وہ بے قرار سی ہوگئی۔
وہ محفوظ جگہ ہیں۔ آپ سے مجھے دس منٹ لینے ہیں۔ مہربانی کیجئے ذرا۔
اندر آجائیے۔ اسنے آہستگی سے کہا اور دروازہ کھول دیا۔ انسپکٹر اندر آکر صحن میں چارپائی پہ بیٹھ گیا۔
جی کہئیے کیا کہنا ہے آپکو؟؟؟ میرے شوہر کہاں ہیں؟؟؟ وردہ نے ایک ہی سانس میں دو سوال کردیے۔
آپ یہ بتائیں کہ انکی کسی کیساتھ دشمنی تو نہیں ہے؟؟
نن نہیں۔ دشمنی کس کیساتھ۔ اور مجھے انکے کاموں کا نہیں پتہ۔ مجھے انہوں نے کچھ بتایا نہیں۔
ویسے انکو کیا ہوا ہے؟؟؟ اس نے پریشانی سے انسپکٹر کی طرف دیکھا۔
آپ لوگوں کیلئے ایک بری خبر ہے۔ ماسٹرجی کی... کل رات وفات ہوگئی ہے۔ انسپکٹر آہستگی سے بولا۔
کیا؟؟؟ لیکن کیسے ؟؟؟وردہ کو جیسے اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا۔ ہاں، آپکو صبر سے کام لینا ہوگا۔ انکی لاش فجر سے پہلے گاؤں کی مغربی جانب میدان میں..... انسپکٹر نجانے کیا کیا بول کر اسکو مزید کچوکے لگاتا اس سے پہلے وہ ایک طرف کو لڑھک گئی۔ ساس نے روتے پیٹتے ہوئے اسکو بھی سنبھالا اور ایک طرف کو چارپائی پہ لٹادیا۔
باہر ہجوم لگا ہوا تھا۔ پولیس نے خود ہی کارروائی کرتے ہوئے لاش کے قانونی تقاضے پورے کیے۔ پھپھا بھی فوراً پہنچ گئے تھے۔ وہ بھی اس واقعے پہ گنگ رہ گئے تھے۔
ماسٹر رحیم الدین کو اگرچہ کسی سے کوئی رشتہ نہ تھا لیکن استاد ہونے کے ناطے ملنے والی عزت آج دکھائی پڑ رہی تھی۔ کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کس نے لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا اور کون برف کے پانی کی ٹنکیاں لایا۔ گاؤں کے لوگوں نے نو بجے سے پہلے ہی پہلے تمبو اور دریاں بچھا دی تھیں۔ گاؤں کی عورتیں ماسٹرجی کے صحن میں بھرگئی تھیں۔

ماسٹرجی کے وحشیانہ قتل سے کسی کا کیا لینا دینا؟؟ کس بیدردی سے مارا ہے کسی ظالم نے۔ کلو دھوبی تمبو تلے بیٹھا بڑبڑایا۔
مجھے تو یہ اسی ہندوانی کے پوت کا کارنامہ لگتا ہے۔ وہی کنجر مرا جارہا تھا لیکر بھاگنے کو۔
ہاں سہی کہتے ہو کلو بھائی، پولیس کو بھی یہی شک ہوا ہے۔ کمبخت کو چھوڑنا ہی نہیں چاہئیے تھا۔ باپ برابر پہ ہاتھ چلادیا۔ اور رات بھر ماسٹرجی تڑپے ہونگے۔ ارے کہاں میاں ! فوراً ہی ٹھنڈے ہوگئے ہونگے۔
خیر لاش کب آرہی ہے؟؟؟
ماسٹرجی کے سسر گئے تو ہیں کارروائی کرنے۔ اور دس بجے کے قریب میت تھانے سے اٹھا کر گھر لائی گئی۔ ایک کہرام سا برپا تھا۔
سجن بھی خبر ملتے ہی پہنچ گیا تھا۔ اسکا بھی سر چکرا رہا تھا۔ پولیس نے اس خوف سے کہ کہیں لوگ دوست کا غصہ اس پہ نہ اتار دیں اسکو واپس گھر بھیج دیا۔ گاؤں ہی کے دو آدمیوں نے نہلا دھلا کر کفن دیا۔
اسکے بعد لوگ قطار بنا کر چہرہ دیکھنے آنے لگے۔ مری ہوئی صورت پہ پوشیدہ نور بھی دکھائی دیا اور ماسٹرجی کی ان گنت نیکیاں بھی گنوائی گئیں۔ اسکے بعد مقامی قبرستان میں ایک گڑھے کا مزید اضافہ کردیا گیا۔
وردہ کو جب ہوش آیا تو لوگ ہاتھ جھاڑتے واپس ہورہے تھے۔
اسکو اندر ساس کے کمرے میں لٹا دیا گیا تھا۔ اسنے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو پھپھو اسکے سرہانے بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں۔ انہوں نے اسکو آنکھ کھولتا دیکھ کر پاس رکھا پانی کا گلاس اسکو پکڑایا۔ کچھ کھا لو اٹھ کر۔ انہوں نے اسکو کچھ کھلانا چاہا لیکن اس وقت وہ کھانا تو کیا اپنے پیٹ کو بھی سنبھال نہیں پا رہی تھی۔
چپ چاپ بے جان درخت کا تنا بن کر لیٹی رہی. اسکی ساس بھی صحن میں عورتوں میں گھری بیٹھی بین کرکر کے ہلکان ہوئی جارہی تھی۔ اسکو بار بار غش آتا تھا۔ وردہ نے اٹھ کر ایک نظر باہر ڈالی اور جی اکتانے پہ واپس لیٹ گئی۔ اس منظر نامے سے اب اسکو کیا سروکار تھا۔ اسکی تو جیسی بھی سہی، دولت لٹ گئی تھی۔ سہاگ چاہے ناگ بھی بن جائے سہاگ ہی رہتا ہے۔ لٹ جائے تو دنیا اندھیری ہوجاتی ہے۔ پھپھا نے چاول بنوا کر رونے دھونے والیوں اور پرسہ دینے والوں​
 
.
Moderator
2,363
1,827
143
پھپھا نے چاول بنوا کر رونے دھونے والیوں اور پرسہ دینے والوں کے جہنم سیر بجھائے اور سوئم کا اعلان کرکے مجلس ختم کی۔
البتہ پولیس انسپکٹر نے قاتل کو پاتال سے نکال کر لانے کا وعدہ عوام سے کیا اور اسی وقت فائل بنا کر کیس داخل دفتر کرلیا۔
وردہ اگلے دن کچھ بولنے کے قابل ہوئی۔ پھپھا اور پھپھو ہی ناشتہ لائے تھے۔ وہ اسکی ساس کو جتنی تسلیاں دیتے تھے وہ اتنا ہی روتی تھی۔
اور وردہ، اس پہ ایک گہرا سناٹا چھا گیا تھا۔ موت کا سناٹا۔ جیسے موت مجسم صورت کرکے اس سے آلپٹی ہو۔ اچھا ہی تھا جو اسنے ماسٹرجی کی مری ہوئی صورت نہیں دیکھی تھی۔ ورنہ کلیجہ ہی پھاڑ بیٹھتی۔
سوئم کے دن بھی وہ چپ کی چادر اوڑھے زمین کو تک رہی تھی۔ لوگوں کا بین اب ختم ہوگیا تھا اور وردہ کی ابھی شروعات تھیں۔ عورتیں خوش گپیاں کررہی تھیں۔ گاؤں کی روایت کے مطابق اگربتیاں جلا کر مولوی نے نعت کی محفل سجائی اور رسم نعت خوانی ادا کرکے لوگوں کو محظوظ کرتا رہا۔ سات کھانے لائے گئے اور فاتحہ دلوا کر مولوی کے گھر بھیج دیے گئے۔ اسکے بعد ایک لمبی دعا ہوئی۔ لوگ قورمہ ہڑپنے کے انتظار میں آمین کم اور مولوی کو زیادہ کوستے رہے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، مولوی نے آمین کہا اور لوگ قورمے کی طرف جھپٹے۔ آج کا دن محض کھانے پینے کے نام رہا تھا۔ اکا دکا بڈھے اور قریب قریب عدیم البصر لوگوں نے چند سپارے مجہول پڑھ پڑھا کر بخش دیے۔ کچھ لوگوں نے املی کی گٹھلیوں پہ بھی یا حسین پڑھ دیا اور جو اس سے بھی گئے گزرے تھے وہ محض گٹھلیاں اٹھا بٹھا کر چلے گئے۔ تبرک اجتماعی کھانے کی صورت ہوگیا۔ لیکن پھپھا کو یہ موت خاصی مہنگی پڑگئی تھی۔ اب تک کا کھانا پینا الگ اور اب وردہ کیساتھ اسکی کھوسٹ ساس کا خرچہ بھی گلے آگیا تھا۔
جھنجلا کر خلاق دو جہاں کا لکھا قبولا البتہ کبھی کبھی منہ اسمان کی طرف اٹھا کر کچھ بڑبڑا دیتے، جانے کیا کہتے ہونگے۔

***
 

Top