Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,363
1,833
143
اچھا۔ لیکن فیس جلدی کیوں مانگی ہے۔ ایسا بھی کیا کام آپڑا ماسٹرجی کو۔ پھپھو نے شکی نگاہوں سے اسکو دیکھا.
مجھے نہیں پتہ یہ انہوں نے بس اتنا کہا تھا دو بچوِ سے کہ فیس جلدی مل سکے تو اچھا ہوگا۔ انکو شدید ضرورت ہے۔
آپ دیدیں اب۔ اچھا۔ چلو یہ لو. پھپھا کو بھیجونگی چھٹی کے بعد۔ تم انکے ساتھ گھر آنا۔ آج رات عمران بھائی صاحب بھی پہنچ جائیں گے۔ پھپھی نے جی کڑا کے اسکو دو نیلے نوٹ پکڑائے اور وہ فوراً مٹھی میں دبا کر باہر نکل آئی۔
سارا راستہ وہ یہی سوچتی رہی کہ اب کیا بنے گا؟؟
مجھے کون سہارا دے گا؟؟
رام لال ہندو ہے تو ہندوؤں میں لے جائے گا۔
لیکن فی الحال ابو کی شکل دیکھنے اور ماسٹرجی کا سہارا لینے سے اچھا تھا رام لال کیساتھ بھاگ جایا جائے۔
یہی سوچتے سوچتے وہ کلاس میں پہنچ گئی۔
رام لال اب تک نہیں آیا تھا۔
وہ پریشان سی ہوگئی۔ ذرا دیر بعد ماسٹرجی بھی آگئے۔
وقت گزرتا جارہا تھا اور وہ بار بار رام لال کی خالی سیٹ دیکھ کر ہول رہی تھی۔
یعنی اب کیا مجھے مرنا ہی پڑے گا۔ اس نے بے بسی سے ایک بار پھردروازے کی طرف نگاہ اٹھائی اور کوئی اہٹ نہ پاکر واپس جھکا لی۔
دو آنسو لڑھک کر اسکے گالوں پہ بہ گئے۔
اب تو آدھی چھٹی کاوقت ہوچکا تھا۔
ماسٹرجی نے گھنٹی بجائی اور بچے باہر بھاگ گئے۔
وہ اپنی جگہ بیٹھی چپ چاپ آنسو بہاتے ہوئے ناک پونچھنے لگی۔
ماسٹرجی نے کلاس میں جھانکا اور پھر اسکے پاس آکر بیٹھ گئے۔
کیا ہوا؟؟؟ کیوں رو رہی ہو؟؟ طبیعت ٹھیک نہیں کیا؟؟ انہوں نے اسکا ماتھا چھونا چاہا تو اسنے سر ہٹالیا۔
ابے یار ایک تو تم یہ بدتمیزی مت کیا کرو۔ پیار سے کررہا ہوں نا ہٹو دکھاؤ ماتھا۔
نہیں بخار تو نہیں ہے۔ پھر کیا ہوگیا گھر سے ڈانٹ پڑگئی کیا؟؟؟
کچھ نہیں ہوا۔ اسنے روتے ہوئے کہا۔
اچھا گھر پہ پوچھا تو نہیں کسی نے؟؟؟ ہسپتال یا کچھ بھی۔۔۔ لیٹ آنے کا... ماسٹرجی نے خدشہ ظاہر کیا۔
شازی آنٹی نے گھر پہ بتادیا ابو کو۔ اور انہوں نے پھپھا کو بولا۔
پھر...پھر کیا ہوا؟؟؟ ماسٹرجی کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگیں۔
پھر میرا نام تو نہیں آیا نا؟؟؟ انہوں نے اسکو اپنی طرف موڑتے ہوئے پوچھا۔
وہ چپ چاپ ناک سڑ سڑ کرنے لگی۔
بول میرا نام تو نہیں لیا؟؟؟ لیا ہوا تو گلا دبا دونگا۔ انہوں نے اسکے گلے پہ ہلکا سا دباؤ ڈال کر چھوڑ دیا۔
گلا دبانے سے مجھے ڈر نہیں لگتا. وہ ایکدم گرج کر بولی۔
ماسٹرجی ایک لمحے کو اسکو تکتے رہ گئے۔
میں بتا چکی انکو آپکا نام۔ اور وہ سب بھی جو آپ نے میرے ساتھ کیا۔
اور آج رات ابو یہاں آنے والے ہیں۔ اس نے جوش سے ماسٹرجی کی طرف دیکھا۔
ماسٹرجی کی شکل دھواں دھواں ہورہی تھی۔
اچھا نہیں کیا تو نے۔ گھٹیا ذلیل نسل۔ وہ اسکی طرف بڑھے ہی تھے کہ کوئی کلاس میں داخل ہوا تو وہ اچانک رک گئے۔
رام لال دروازے سے اندر آیا تھا۔ اس نے ایک شرمندہ سی نظر وردہ پہ ڈالی اور پھر ماسٹرجی کر پرنام کرکے ایک چھوٹی سی مٹی کی ڈھکی ہوئی پیالی انکو پکڑا دی۔
ماسٹرجی ماں نے پرنام بولا ہے اور یہ کھیر بھجوائی ہے۔ اور کہا ہے کہ ہم آج رات سے پہلے میلے سے واپس آجائیں گے۔
ماسٹرجی کی آنکھیں پیالی دیکھ کر چمک اٹھیں۔ انہوں نے مسکرا کر پیالہ لے لیا۔
اپنی ماں کو شکریہ بول دینا۔ انہوں نے لہجے میں شیرینی گھولتے ہوئے کہا۔

میں رام لال کیساتھ گھر جا رہی ہوں. میری طبیعت خراب ہے میری۔ وردہ نے موقعہ دیکھ کر جلدی سے اپنی بات سامنے کردی۔
ہاں ماسٹرجی وہ رو بھی رہی ہے۔ میں اسکو گھر چھوڑ دونگا۔ رام لال نے جلدی سے کہا اور اسکا بستہ اٹھا لیا۔ اس سے پہلے کہ ماسٹرجی کچھ بولتے وہ وردہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گیا۔
جلدی چلو سجن بھی اسکول آیا ہوگا۔ ادھر سے نہیں ادھر سے آؤ۔ وہ اسکول کی پچھلی جانب سے اسکو گھما کر باہر لایا۔
بستہ کہاں جائے گا؟؟؟ اس نے رام لال سے پوچھا تو وہ بے فکری سے مسکرا دیا۔
جاتے وقت اپنے اڈے پہ درخت پہ رکھ دونگا۔ وہ مطمئن ہوکر چلنے لگی۔ رام لال نے اڈے کے پاس پہنچ کر بستہ لیا اور نیم کے ایک درخت پہ چڑھ کر اونچی شاخ پہ رکھ دیا۔ وہ دونوں آگے سڑک کی جانب چل دیے۔
وہی سڑک جس پہ شہر جانے والی بس آتی تھی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
"سترھویں قسط"

چل چل بس آگئی جلدی چڑھ جا۔ رام لال نے اسکو ہلکا سا سہارا دیکر بس میں چڑھایا اور پھر خود بھی چڑھ کر اسکے برابر میں بیٹھ گیا۔
تم آئے کیوں نہیں تھے اسکول؟؟؟ کتنی پریشان تھی میں پتہ ہے نا؟؟ وہ مصنوعی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔
اگر اسکول آجاتا تو ماسٹرجی ہم دونوں کو جانے نہ دیتے۔
اسطرح اچانک آنے سے انہوں نے تمکو جانے دیا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
اور اب ہم جا کدھر رہے ہیں؟؟ وردہ نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے پوچھا۔
میرا ایک دور پار کا کزن رہتا ہے شہر سے قریب کے گاؤں میں۔ اُدھر جا رہے ہیں۔
لیکن رام لال مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ اگر کچھ ہوگیا تو؟؟؟ میرے ابو کی پولیس میں بھی جان پہچان ہے۔
وہ پریشان لہجے میں بولی۔
ارے کچھ نہیں ہوتا۔ میں ہوں نا۔ میرا کزن سب اچھے سے سنبھال لے گا۔ رام لال اسکا ہاتھ تھام کر اطمینان سے بیٹھ گیا۔
نجانے کیا آفت آئے گی جب چھٹی کے وقت پھپھا اسکول پہنچیں گے اور میں گھر جا چکی ہوونگی۔
اسکو سوچ کر جھرجھری آگئی۔ اس نے مڑ کر رام لال کو دیکھا جو اسکا ہاتھ تھامے مطمئن بیٹھا تھا۔
رام لال کیا تمکو لگتا ہے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا؟؟؟ اس نے پھر سے اپنا خدشہ لبوں پہ لاکر واپس نگل لیا۔
ارے کس چیز کا ڈر ہے تمکو... ہیں؟؟؟ بولا نا میرا کزن اچھا خاصا بندہ ہے۔ وہ ہمیں گھر پہ رکھے گا جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوجاتے۔ وہ جاکر ماں کو لے آئے گا میری۔ اور ہم کہیں اور جاکر رہنے لگیں گے۔ تم ڈرو مت۔ رام لال کی بات سن کر وہ پرسکون ہوکر ادھر ادھر بیٹھی سواریوں کو گھورنے لگی۔
چند روز پہلے ہی وہ ماسٹرجی کیساتھ بس میں سوار شہر جارہی تھی۔ آج ایک بار پھر قسمت نے بس پہ سوار کردیا تھا۔
یہ بس چھ گاؤں پیچھے کے اسٹاپ سے شہر تک جاتی تھی۔ نیلے، گیروے، گہرے جامنی، اودے، نیلے اور بہت سے رنگوں کے کپڑے پہنے میلی سی پگڑیاں اور ننھے شیشوں والی ٹوپیاں پہنے دیہاتی شہر جاتے ہوئے آپس میں چارے اور جانور سے لیکر ملکی حالات اور امریکہ و اسرائیل تک کی معلومات کا تبادلہ کررہے تھے۔
عورتیں بھی اپنی طرز کی گفتگو کامل مہارت سے انجام دے رہی تھیں۔
وہ انکے کپڑوں سے لیکر انکے بولنے کے اسٹائل اور ماتھے پہ پڑے بل اور ان پہ لکھے ہوئے درد پڑھنے لگی۔
کوئی نہ کوئی ضرورت ہی انکو شہر کھینچ کر لے جارہی ہے لیکن انمیں سے کوئی گھر سے بھاگا ہوا نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان میں سے کسی کو اپنے ابو اور پولیس کا ڈر ہے۔
اس نے ڈر کے مارے مٹھیاں بھینچ لیں۔ رام لال ایک دم چونک کر اسکو دیکھنے لگا۔
کیا ہوا؟؟؟ اس نے بغور وردہ کا معائنہ کیا۔
کچھ نہیں سوری۔ ایسے ہی خوف سا محسوس ہوا تھا۔ دل ڈر رہا ہے میرا۔ وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
ارے کچھ نہیں ہوگا۔ ہوا بھی تو دیکھ لیں گے پریشان مت ہو تم۔ رام لال اسکو برابر تسلی دینے میں لگا ہوا تھا۔
اسکو ایسا لگ رہا تھا جیسے سڑک کے دونوں طرف لگے سرکنڈوں میں سے بہت سے سانپ نکل کر بس سے چمٹ گئے ہوں اور اسکی طرف ڈسنے کیلئے بڑھ رہے ہوں۔ وہ کھڑکی سے اندر آجائیں گے۔ اس نے جھٹ کھڑکی بند کردی۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
یہ کیا بیوقوفی کردی تم نے؟؟؟ مجھ سے پوچھے بغیر اسکو فیس کے پیسے تھمادیے؟؟؟ تمکو پتہ ہے نا ماسٹر کا کیریکٹر اب قابل بھروسہ نہیں رہا بالکل۔ وہ اسکو کچھ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ پھپھا غصے میں آپے سے باہر ہونے لگے۔
پھپھو چپ چاپ انکا چہرہ دیکھنے لگیں۔
اور کیا کرتی؟؟؟ وہ مانگ رہی تھی اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ماسٹرجی کو شدید ضرورت ہے اسلئے دو تین بچوں سے مانگی ہے انہوں نے۔ تو میں نے یہ کہ کر دیدیے کہ پھپھا لینے آئیں گے اسکول سے تمکو۔ انہوں نے منمناتے ہوئے جواب دیا۔
پاگل ہوگئی ہو تم۔ ابھی جاتا ہوں اسکول۔ اور پوچھتا ہوں اس ماسٹر سے کہ کیسی ارجنٹ فیس۔ انہوں نے جلدی سے کرتا پہنا اور گھر سے نکل گئے۔
خدایا خیر۔ پھپھو کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
پھپھا تیز قدموں سے چلتے ہوئے بھاگم بھاگ اسکول پہنچ گئے۔
انہوں نے مرکزی دروازے سے اندر قدم رکھا تو بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ یعنی اسکول لگا ہوا تھا۔ سکون کا سانس لیکر وہ کلاس کی طرف بڑھ گئے۔
ماسٹرجی نے انکو آتا دیکھ کر کرسی چھوڑ دی۔ ارے نوفل صاحب کیسے آنا ہوا؟؟ سلام دعا کے بعد ماسٹرجی نے پھپھا کو زبردستی کرسی پہ بٹھایا اور ٹیڑھی نگاہ سے اوپر دیکھتے سجن کو چاک مار کر نیچے جھکنے پہ مجبور بھی کردیا۔
ماسٹرجی وردہ نے کہا تھا آپ نے ارجنٹ فیس منگوائی ہے اس مہینے کی؟؟؟ پھپھا نے وردہ کی جگہ خالی دیکھے بغیر ہی سوال کردیا۔
ارے نہیں تو۔ میں کیوں منگواؤنگا؟؟؟ آپ جانتے تو ہیں کہ مہینے کے شروع میں جمع ہوتی ہے فیس۔ ماسٹرجی نے جواب دیتے ہوئے حیرانگی سے انکو دیکھا۔
وردہ تو آج فیس لیکر آئی ہے گھر سے۔ کہ ماسٹرجی نے منگوائی ہے فیس۔اسکو بلائیے ذرا، ہے کہاں وہ؟؟؟ پھپھا نے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔

صاحب وہ تو آج طبیعت خراب کا کہ کر آدھی چھٹی میں ہی گھر چلی گئی تھی۔ ماسٹرجی کے لہجے سے اب پریشانی جھلکنے لگی تھی۔
کک کیا؟؟؟ کس کیساتھ؟؟؟ پھپھا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
ارے وہ بچہ ہے نا اپنا رام لال۔ وہ آیا تھا چھٹی لینے کہیں جانے کیلئے۔ تو وردہ نے بھی چھٹی مانگی گھر جانے کیلئے۔ میں نے اسکے ساتھ بھیج دیا۔ کیا وہ گھر نہیں آئی؟؟؟ ماسٹرجی نے بے یقینی سے سوال کیا۔
سجن بھی بار بار نگاہ اٹھا کر ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھ رہا تھا۔
کچھ نہ کچھ تو چکر ہے۔ آج یہ ہندو کی نسل بھی غائب ہے اور وردہ بھی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ وردہ کو کہیں لے گیا ہو۔ اسکے پھپھا کیا کرنے آئے ہیں ورنہ۔ اس نے پریشانی سے سوچا۔
اور پھر ایسی کسی بھی غیر متوقع حرکت کا انجام سوچ کر ہی ہول کر رہ گیا۔

نہیں ، وہ اب تک گھر نہیں آئی۔ میں تو فیس کا پوچھنے آیا تھا یہاں ایک نئی مصیبت گلے پڑگئی۔ کہاں رہتا ہے یہ رام لال نام کا لڑکا؟؟؟ پھپھا نے اٹھتے ہوئے کہا۔
ایسا ہے کہ میں آپکے ساتھ چلتا ہوں۔ آج اسکول کے بچوں کو جلدی چھٹی دے دیتا ہوں اور میں چلتا ہوں۔ معاملہ اسکول کا ہے بچی یہاں سے گئی ہے آپ گھبرائین مت۔
ماسٹرجی نے پھپھا کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی اور باہر جاکر چھٹی کی بیل بجادی۔
بچوں نے حیران ہوکر پہلے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر گیٹ کی طرف نگاہ اٹھائی۔
ماسٹرجی نے اندر آکر ڈیسک بجائی جو چھٹی کا واضح اور یقینی اشارہ تھا۔
سب بچے بستے بند کرکر کے باہر نکلنے لگے۔
سجن بھی سست قدمو ں چلتا ہوا باہر نکل ہی رہا تھا کہ ماسٹرجی نے اسکو آواز دیکر بلالیا۔
بیٹا سجن۔ یہاں آنا ذرا۔
وہ لپک کر ان کے پاس پہنچا۔ جی ماسٹرجی۔
بیٹا آج رام لال کو کسی میلے میں جانا تھا کیا؟؟؟ انہوں نے تھوک نگلتے ہوئے اس سے پوچھا۔ وردہ کا اسطرح جانا پھپھا کیلئے صدمہ تھا ہی ، ماسٹرجی کی جان بھی ہلکان کرگیا تھا۔
چلیے ماسٹرجی اس رام لال کے گھر لے چلیے مجھکو ذرا۔ پھپھا جلدی سے اٹھے اور باہر نکل گئے۔
ماسٹرجی اور سجن بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہولیے۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
دو ڈھائی گھنٹہ چل کر بس تیسرے اسٹاپ پہ پہنچی۔ رام لال نے اونگھتی وردہ کو خبردار کیا اور فیض نگر کا نام سنتے ہی اسکو لیکر اتر گیا۔
یہ بھی اپنے گاؤں جیسا ہی اجاڑ سا اسٹاپ ہے۔ اور تم کہ رہے تھے شہر ہے کوئی۔ وردہ نے آنکھیں ملتے ہوئے انگڑائی لی۔
بس یہی سمجھ لو شہر جیسا ہی کچھ ہے۔ شہر یہاں سے بہت قریب ہے۔ اب چلو جلدی۔ اس نے وردہ کا ہاتھ پکڑا اور سڑک سے اتر کر کچے پہ چلنے لگا۔ آدھا کلومیٹر چلنے کے بعد وہ دونوں دائیں طرف کو آبادی میں مڑے اور دو تین گلیاں طے کرکے رام لال ایک گھر کے سامنے رکا اور دستک دی۔ وردہ نے گھر پہ ایک نظر ڈالی تو اسکے دل میں کراہت سی محسوس ہوئی۔ دروازے پہ لال اور زرد جھنڈیاں اور چیتھڑے سے بندھے ہوئے تھے۔ کچھ لٹک بھی رہے تھے۔
چوتھی دستک پہ دروازہ کھلا اور رام لال کی ہی عمر کا ایک لڑکا باہر آکر اسکے گلے لگ گیا۔
ارے واہ، بغیر بتائے ٹپک گیا رامو تو۔ لڑکے کے چہرے پہ بے تحاشا خوشی امڈ آئی تھی۔
بس یار کیسے بتاتا۔ سوچا اس بار سرپرائز دونگا۔

اس سے فارغ ہوکر اس لڑکے نے وردہ پہ ایک گہری نظر ڈالی اور اسکی آنکھوں میں الجھن اور کئی سوالات ابھرتے صاف دکھائی دیے۔
رام لال نے اسکو سر کے اشارے سے چپ رہنے کا کہا اور وردہ کا ہاتھ پکرڑ کر اندر گھس گیا۔
اندر گھستے ہی سامنے ایک لال ساڑھی پہنی عورت زمین پہ بیٹھی چاول چن رہی تھی۔
اماں دیکھو ذرا کون آیا ہے۔ دروازہ کھولنے والے لڑکے کی چہکتی آواز سن کر وہ عورت مڑی۔ اسکا چہرہ بھی خوشی سے کھل گیا۔
ارے رامو اچانک کیسے آگیا تو۔ اور اتنا بڑا ہوگیا۔ رام لال دونوں ہاتھ سینے پہ جوڑ کر پرنام کرتا ہوا اس عورت کے پاس جا کھڑا ہوا۔
وہ اسکے سر پہ ہاتھ پھیر کر بلائیں لینے لگی۔ اچانک اس عورت نے گردن گھما کر وردہ کو دیکھا۔ اسکے چہرے پہ حیرت سی پھیل گئی۔
ارے یہ کون چھوری ہے؟؟؟ بے اختیار اسکے منہ سے نکلا۔ یہ کس کو لے آیا رامو؟؟؟
یہ تمہاری بہو ہے خالہ۔ وردہ نام ہے اسکا۔ گاؤں سے لایا ہوں۔
اچھا۔ لیکن خیریت ہے کیسے آگیا اچانک؟؟؟
راجو انکو بٹھا چارپائی پہ اور پانی لیکر آ۔ دروازہ کھولنے والا لڑکا جلدی سے آگے بڑھا اور چارپائی پہ بکھرے اکا دکا کپڑے اٹھا کر چارپائی انکے لئے خالی کردی۔ وہ دونوں چارپائی پہ بیٹھ گئے۔
آج سوچا تھا کہ پلاؤ بنا لونگی۔ سوچا بھی نہیں تھا کہ تو آجائے گا۔
جی بس موسی میں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ آجاؤنگا۔
کیا مطلب؟؟؟ عورت نے چونک کر اسکو دیکھا۔
کچھ نہیں ایسے ہی مذاق کررہا ہوں۔ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
اچھا تم لوگ بیٹھو میں چاول چڑھا کر آتی ہوں۔
یہ سپنا موسی ہیں. اور راجو میرے بچپن کا دوست۔ پہلے یہ لوگ اپن کے گاؤں میں رہتے تھے اور اب یہاں رہتے ہیں۔ رام لال نے اسکو بتایا۔ اتنے میں راجو شربت کا جگ لیکر آگیا۔
تھوڑی دیر بعد سپنا موسی بھی آکر انکے پا سبیٹھ گئی۔
اور سنا بیٹا۔ ماں کیسی ہے تیری؟؟ ہمیشہ اسکے ساتھ آتا تھا اس دفعہ اکیلا ہی آگیا۔
اکیلا تھوڑی موسی۔ اپنی سگائی کیساتھ آیا ہوں۔ اسنے مسکرا کر وردہ کی طرف دیکھا۔ وہ جھینپ سی گئی۔
اچھا۔ بڑا ہوگیا میرا بیٹا. سپنا نے رام لال کو اپنی طرف کھینچا۔
لیکن یہ بتا کہ یہ ہے کون؟؟؟ نام بھی نہیں بتایا تو نے۔ سپنا نے ایک نظر وردہ پہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔
اسکا نام وردہ ہے۔ مسلم ہے یہ۔ لیکن اسکو بہت چاہتا ہوں میں۔ گاؤں میں نئی آئی ہے یہ۔ شادی کرنی ہے مجھے اس سے۔ اور اسی لئے میں ادھر لے آیا ہوں اسکو۔ رام لال نے کئی سانسوں میں اسکو مختصر تعارف دیا۔
دیکھ رامو!! میرے اس گھر کسی مسلی نے قدم بھی نہیں رکھا ہے آج تک۔
لیکن تیرے لئے یہ بھی قبول کرلوں تو بھی صاف صاف بتا کہ یہ چکر کیا ہے؟؟​
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
یہ اسکول یونی فارم میں کیوں آئی ہے؟؟ مجھے بھاگنے والا چکر لگ رہا ہے۔ پوری کہانی سنا مجھے۔
ناچار رام لال نے اسکو ماسٹرجی کا کردار حذف کرکے ایک جھوٹی سچی کہانی جسمیں معاشرے کے ظلم و ستم سے بچنے کیلئے وردہ کو لیکر یہاں آنے کی بپتا موجود تھی اسکو سنادی۔
وہ سن کر سپنا کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
مجھے یقین تھا رامو تجھ پہ کہ میرا بیٹا کسی گندے کام میں نہیں ہوگا۔ تیری دوست اور تو دونوں یہاں رہو جب تک چاہو۔
ٹھیک ہے۔ رام لال کے چہرے پہ ایک اطمینان بخش مسکراہٹ پھیل گئی۔

***

دستک سن کر شنکتلا ایک لمحے کو ٹھٹک گئی۔ اسوقت انجان دستک...
اس نے بے دلی سے دوپٹے کا پلو سر پہ ڈالا اور بغیر چپل پہنے ہی دروازے پہ پہنچ گئی۔
کون ہے رے؟؟؟
رام لال ہے گھر پہ؟؟؟ ہمیں اس سے کام ہے کچھ۔ پھپھا نے ماسٹرجی کیطرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
وہ تو اپنے انکل کے گھر گیا ہوا شہر۔ پر آپ کیوں پوچھ رہے ہو؟؟؟ آپکو کیا کام؟؟ اس نے سخت لہجے میں سوال کیا۔
ارے شنکتلا ہم ہیں ساتھ میں۔ ماسٹرجی اسکے لہجے کو محسوس کرکے بولے۔
ماسٹرجی کی آواز سن کر اس نے دروازہ کھول کر جھانکا۔ اچھا ماسٹرجی آپ بھی ہو۔ تو بولو نا۔ رامو تو اپنے انکل کے گھر گیا ہوا ہے صبح گیارہ بجے سے۔
تین دن کیلئے۔
پھپھا نے گھبرا کر ماسٹرجی کیطرف دیکھا۔ انکے چہرے پہ بھی بارہ بج رہے تھے۔
اسکے انکل کا نام پتہ لکھوا سکتی ہیں آپ؟؟؟ پھپھا نے شنکتلا سے سوال کیا۔
لیکن بابو بتاؤ تو پہلے کیا ہوا ہے؟؟؟ وہ سجن کو انکے ساتھ دیکھ کر گھبرا گئی۔
تسلی رکھوکچھ نہیں ہوا۔ ماسٹرجی نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
لیکن بتاؤ تو بابو؟؟؟ نوفل صاحب آپ ہی بولو کس واسطے در آئے ہو؟؟؟ اسنے سوالیہ نظروں سے پھپھا کو گھورا۔
میرا خیال ہے ماسٹرجی بات صاف صاف ہوجائے۔
پھپھا نے ماسٹرجی کو ایک نظر دیکھا اور پھر شنکتلا کی طرف دیکھ کربولے:
صبح وردہ اسکول کیلئے نکلی تھی گھر سے۔ اور آدھی چھٹی میں آپکا لڑکا اسکول آیا اور وردہ کو اپنے ساتھ لے گیا۔ تب سے اب تک وردہ اور وہ، دونوں غائب ہیں۔
نن نہیں وہ تو اپنے انکل کے گھر گیا ہے۔ میں فون پہ انکے گھر اطلاع بھی دے چکی ہوں کہ رامو آرہا ہے۔
دیکھئے واپس اس گھر میں فون کرکے معلوم کیجئے۔
پھپھا بے چین سے ہوگئے۔
انکو رہ رہ کر عمران صاحب کا خیال آرہا تھا جو مغرب میں وہاں پہنچنے والے تھے۔ اور پھر خدا جانے پولیس کیس بنتا یا کیا ہوتا۔ اور کس کس کے نام ایف آئی آر کٹتی۔
نوفل صاحب ویسے ہی کچہری کا نام سن کر ہی بھاگ جاتے تھے۔ اسی لئے انکی بیوی اپنا آبائی جائیداد کے حصے کا مطالبہ کیے بغیر چپ چاپ اس گاؤں میں ایک مکان لیکر زندگی بسر کررہے تھے۔
اچھا آپ لوگ اندر آکر بیٹھو۔ شنکتلا نے دروازہ پورا کھولا اور انکو صحن میں چارپائیوں پہ بٹھا دیا۔ ماسٹرجی نے ایک نظر اٹھا کر اسکو دیکھا اور مسکرا دیے۔
دیکھیں میڈم۔ بات سیدھی سادی ہے۔ آپ اس کے انکل کو فون کرکے پوچھ لیں۔ کوئی پولیس کا چکر نہیں ہوگا۔
پھپھا نے اطمینان سے کہا لیکن شنکتلا کی جان حلق میں اٹک گئی۔
جج جی میں ابھی کال کرتی ہوں۔ اس نے لرزتے کانپتے ہاتھوں سے فون اٹھایا اور جلدی جلدی نمبر ڈائل کیا۔
بات کرتے ہوئےپھپھا نے محسوس کیا کہ وہ بہت گھبرا گئی ہے۔ جیسے اسکی آواز میں شدید لڑکھڑاہٹ ہو۔
وہ جلدی سے فون رکھ کر انکی طرف مڑی۔ اسکے چہرہ دھواں ہورہا تھا۔​
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
کیا ہوا؟؟؟ ماسٹرجی نے بے تابی سے پوچھا۔
وہ،،، وہ جی رامو ادھر نہیں گیا۔ اس نے اٹکتے اٹکتے جواب دیا۔
نہیں۔۔۔ پھپھا کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔
وہ وردہ کو لیکر فرار نہیں ہوسکتا۔ میں شام مو اسکے باپ کو کیا جواب دونگا. پھپھا رودینے والے انداز میں بولے۔ ادھر رام لال کی ماں کو اپنی پڑگئی تھی۔ اس نے الگ سسکنا شروع کردیا۔ نجانے میرا لال کہاں بھٹک رہا ہوگا۔ اب آئے تو ٹانگیں توڑ کر گھر بٹھا لوں۔
اففف بھئی آپ سب چپ ہوجائیں یہ سوچیں کہ اب کیا کرنا ہے۔ ماسٹرجی نے بڑی تگ و دو کرکے انکو چپ کروایا اور سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔
آخر وردہ کے ابو کو سچ سچ سب بتادینے اور اسی کے بعد لائحہ عمل طے کرنے پہ سب کا اتفاق ہوگیا۔
رام لال کی ماں کے بیان سے لگتا تھا کہ وہ سچ کہ رہی ہے. واقعی اسکو اسکے بیٹے کے ناپاک علم کی بابت علم نہیں تھا۔ پھپھا ماسٹرجی اور سجن کیساتھ وہاں سے نکل آئے۔
سجن کا دل بھی اندر ہی اندر بری طرح پریشان اور تیز رفتاری سے دھڑک رہا تھا۔
اسکی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک یہ کیسا بم پھوٹ گیا۔ کہاں جائے کس سے کہے۔ اسکے واحد سنگی نے ایسی حرکت کردی تھی کہ نہ کوئی ہم نشیں رہا تھا نہ دکھ کا سنگی۔ کس کے کاندھے کا سہارا ڈھونڈے اور کہاں جاکر دکھی بپتا کہے۔
چپ چاپ الجھا ہوا ذہن لیکر وہ گھر لوٹ آیا۔
شام کو وردہ کے ابو کو اسٹیشن سےلیکر پھپھا گھر آئے تو اپنا اسپیشل استقبال دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گئے۔ ماسٹرجی بھی ضد کرکے پھپھا کے گھر رک گئے تھے تاکہ اس کارروائی میں شریک ہوسکیں۔
عمران صاحب انکو موجود پاکر قدرے حیران اور ہلکے سے پریشان بھی ہوئے۔
وردہ کی اس گمشدگی میں تاحال ماسٹرجی کا کردار بھی شفاف نظر آتا تھا اسلئے پھپھا نے انکو بھی شامل کرلیا۔
کھانا وغیرہ کھا کر جب عمران صاحب کو یہ جاں سوز خبر سنائی گئی تو وہ بھی دلی طور پہ بیزار ہونے کے باوجود اچھل پڑے۔
وہ تو وردہ کے ہسپتال یاترا کا کیس حل کرنے پہنچے تھے اور یہاں وردہ ہی سرے سے غائب تھی۔
البتہ اس قصے کے اہم کردار ماسٹرجی موجود تھے جن پہ پھپھا نے مصلحتاً پردہ ڈال کر انکو بچالیا۔
کیونکہ ابھی ماسٹرجی سے وردہ کے ملنے میں معلومات ملنے کا امکان تھا۔
عمران صاحب آرام بھول کر سوچ بچار میں مگن ہوگئے۔
یہ طے ہوا کہ اگلے دن دوپہر تک انتظار کیا جائے۔ اگر وردہ کا پتہ نہ چلے تو جاکر پولیس اسٹیشن میں کمپلین کرائی جائے۔ حاضر حوالدار پھپھا کا جاننے والا تھا اس سے رازدارانہ تفتیش کی امید رکھی جاسکتی تھی۔ اس بات پہ اتفاق کرکے ماسٹرجی کو رخصت کیا گیا اور پھپھا کے سر سے ایک حد تک پشیمانی و دکھ کا اثر کم ہوا۔
البتہ عمران صاحب کیلئے شدید ڈپریشن کا وقت شروع ہوچکا تھا۔ کہاں تو وہ اپنی چہار دانگ میں گن گاتی بیوی کو چپ کروانے کیلئے وردہ سے تفتیش کرنے گاؤں پہنچے تھے اور یہاں ایک الگ ہی ڈرامہ انکا منتظر بنا ہوا تھا۔
اگر شازیہ کو اسکا پتہ چل گیا تو میرے پاس سوائے خودکشی کے کوئی آپشن نہیں بچے گا۔
افف یہ لعنتی کردار وردہ۔ اسکو زمین میں زندہ دفن کیوں نہیں کردیا تھا میں نے۔ انہوں نے دانت پیستے ہوئے سوچا۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
رات کو دروازے پہ ہلی سی دستک ہوئی۔ دستک پہچان کر اسکے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ کئی راتوں سے یہ دستک سننے کیلئے کتنی بے چین تھی۔ آج تو اسکی راہ میں حائل رکاوٹ بھی موجود نہیں تھی۔ اگرچہ وہ ذہنی طور سے شدید پریشان تھی لیکن جسمانی تلذذ چیز ہی الگ ہے۔ یہ عقل پہ حاوی ہوکر پریشانی کو ایک کونے لگا سکتا ہے۔
اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور وارد کو اندر کرلیا۔
ابھی چھوٹا ہوں وہاں سے۔ کچھ کھانا رکھا ہے کیا؟؟؟ سایے نے آہستہ سے سرگوشی کی۔
زور سے بولو نا۔ اب میرا بچہ تھوڑی نا ہے گھر پہ جو سوں سوں کررہے ہو کان میں۔ اس نے ہنس کر کہا تو سایہ بھی ہنس دیا۔
وہ چارپائی کیطرف بڑھی اور لالٹین اٹھا کر روشن کرلیا۔ سایہ اسکے پیچھے چلتا ہوا اندر کمرے میں گھس گیا۔
اسکی خاطر مدارت کرنے کے تھوڑی دیر بعد وہ اسکے پہلو میں چارپائی پہ سمٹی لیٹی تھی۔
آج کھیر بھیجی تھیں تم اپنے لڑکے کے ہاتھ ہم۔سمجھ گئے تھے جبھی کہ بلاوا بھیجا ہے۔ ماسٹرجی نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
ہمم۔ کتنے دن سے نہیں آئے تھے تم۔ رامو بھی جاگا رہتا تھا نجانے کیوں۔
کیا بنا اس منحوس کا باپ آیا تو؟؟ تم نے بتایا نہیں۔ اس نے ماسٹرجی کی چھاتی پہ سر ٹکاتے ہوئے پوچھا۔

وہاں رکا تھا میں۔ اسکے باپ نے کہا ہے کہ پولیس میں بات کرے گا۔ چھورا اور چھوری کو پکڑلائیں بس پولیس والے۔
اور کچھ نہیں کریں گے۔ وہ وعدہ کررہا ہے۔ ماسٹرجی کو خود بھی وردہ کی واپسی کی فکر تھی اسلئے وہ بھی چاہتے تھے کہ کسی طرح شنکتلا اس تلاش میں انکی معاون یا رازدار بن جائے۔ اور ویسے بھی عمران صاحب کے اسٹائل سے لگتا نہیں تھا کہ وہ رام لال کو سزا دیتے۔ وہ بس اپنے نام کیساتھ لگا ٹھپہ جسکا چرچا شازیہ کررہی تھی ، اسکو دھونے آئے تھے۔
اچھا جیسے ہی کوئی بات پتہ چلی تمکو بتاؤنگی۔ ویسے پولیس اسکو کچھ کہے گی تو نہیں نا۔ سنا ہے اس نوفل کے تعلقات ہیں پولیس میں۔ اس نے فضلو لنگڑے کے گھر چوری کا مقدمہ بھی عجیب انداز سے حل کروایا تھا۔
ایسا نہ میرے بیٹے کو کچھ نقصان پہنچا دیا جائے۔ میں تمکو چھوڑونگی نہیں۔
ارے میری جان کیوں ہوگا ایسا؟؟؟ میں ہوں نا یہاں۔ میرے ہوتے نہیں ہوگا ایسا کچھ۔ انکو انکی لڑکی چاہئیے بس۔ لڑکے کو وہ اس سزا سے ہلکی ہی دیں گے جو تو دے گی اسکو۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ انہوں نے پاس پڑی دھوتی اٹھانی چاہی تو اس نے انکا بازو واپس کھینچ لیا۔
افوہ اب کیا ہوگیا بلو رانی؟؟؟ انہوں نے بیزاری سے کہا۔
سنو نا۔ کہاں چل دیے؟؟؟ یہیں رک جاؤ رات بھر۔ صبح چلے جانا۔
ارے نہیں ماں کو میری تلاش ہوگی صبح۔ انہوں نے بہانہ تراشنا چاہ لیکن وہ کہاں سننے والی تھی۔ بالآخر انکو مانتے ہی بنی۔
اب تم اتنی ضد کر ہی رہی ہو تو قیمت بھی تو دو نا۔ انہوں اسکو خود سے لپٹا کر چادر واپس اوڑھ لی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
"اٹھارویں قسط"

اگلے دن سہ پہر پھپھا عمران صاحب کے ساتھ پولیس اسٹیشن میں موجود تھے۔
دیکھو صاحب نوفل صاحب خود آئے ہیں۔ بہت عزت ہے انکی. بس آپ لوگ بے فکر ہوجاؤ۔
انسپکٹر نے ان سے الوداعی مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھا دیا۔
لیکن ہم چاہتے ہیں شور شرابے کے بغیر چپ چاپ لڑکا لڑکی واپس آجائیں اور ہم اسکی جلدی شادی کردیں۔
آپ کچھ دن تک لڑکے کو بند کردینا۔ تاکہ لڑکی کی شادی کردیں ہم۔ اور معاملہ خودبخود...
ارے ہاں بھائی صاحب آپ پریشان نہ ہوں. جو بولو گے وہی ہوگا۔ آپ ساری تفصیلات لکھوا تو چکے ہو نا!! ہاں لکھوا دی ہیں ہم نے۔ بس ٹھیک ہے اب جاؤ آرام کرو۔ ہم تو بندے کا نشان تک مٹادیں آپ بولو تو۔

نن نہیں بس آپ لڑکی کو واپس لادو تاکہ ہم اسکی شادی کرکے قصہ پاک کریں. اور وہ بھی ہمارا ہی بچہ ہے۔ پھپھا کی گھبرائی ہوئی آواز ابھری۔
جو حکم بادشاہو، ایسا ہی ہوگا۔ عمران صاحب نے انسپکٹر کا ہاتھ تھاما اور مصافحہ کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔
انکے نکلتے ہی انسپکٹر سوچ میں گم ہوگیا۔ گاؤں سے بھاگ کر بندہ گاؤں نہیں جاتا، شہر جاتا ہے۔ اور شہر سے بھاگ کر گاؤں آتا ہے!! ایک منٹ، اس کے ذہن میں ایک جھماکہ ہوا اور وہ گاڑی لیکر بس اسٹاپ کی جانب چل پڑا۔
گاڑی سے اترتے ہی وہ دکانوں کی طرف گیا۔
سلام صاحب!! دکاندار اسکو دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
وعلیکم السلام! بیٹھ بیٹھ، کچھ پوچھنا تھا مجھے۔ اس نے شو کیس ذرا سا پرے ہٹایا اور اندر آگیا۔
بولو صاحب!! کیا پوچھنا ہے؟؟؟ دکاندار "پوچھنا ہے" کو سن کر پہلے تو گھبرایا پھر راضی ہوگیا۔
بس یہ پوچھنا ہے دو دن پہلے کسی لڑکا لڑکی کو یہاں اسٹاپ پہ دیکھا تھا کیا؟؟
لڑکا لڑکی... وہ ذہن پہ زور ڈالتے ہوئے بولا۔
لڑکی اسکول کے کپڑے پہنے ہوئے تھی۔ پندرہ سولہ سال کی۔ یاد کر جلدی!!
یہ دیکھو یہ تصویر!! اس نے دو تصویریں اسکے سامنے کردیں۔
دکاندار نے ایک گہری نگاہ ان پہ ڈالی اور پھر سوچ میں پڑگیا۔
نہیں صاحب مجھے یاد نہیں ایسا کوئی چہرہ۔ اس نے مایوسی سے سر ہلادیا۔
ویسے چکر کیا ہے صاحب؟؟ اس نے تجسس سے پوچھا۔
کچھ نہیں چھوٹا موٹا بھاگنے کا چکر ہے۔ چل ٹھیک ہے۔ وہ یہ کہ کر دکان سے نکل آیا۔
کئی دکانداروں سے ملنے کے بعد ایک دکاندار سے پتہ چل ہی گیا۔
جی سر، میں نے دو دن پہلے ایسے لڑکا لڑکی دیکھے تھے۔
اچھا کس طرف جارہے تھے؟؟؟ دوپہر کے شروع میں نکلے تھے یہ لوگ۔ انسپکٹر کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی۔
جی سر، ایسا ہی وقت تھا جو آپ نے بتایا. یہ بس کا انتظار کررہے تھے۔
اچھا ٹھیک ہے۔ یہاں کوئی بھی مشکوک ہل چل ہو یا اس عورت کو دیکھو تو وہ دور سیگریٹ پان کے کیبن والے کو جاکر بول دینا۔
انسپکٹر نے ایک اور تصویری خاکہ اسکو دیا اور باہر نکل آیا۔
یہ کیس اب حل کی جانب چل نکلا ہے۔ وہ لوگ شہر کی ہی جانب گئے ہیں۔
اب یہ معلوم کرتے ہی کہ انکے رشتے دار کدھر کدھر رہتے ہیں، ہم کوئی فیصلہ کرپائیں گے۔
پولیس دوڑ دھوپ میں لگ چکی تھی۔ وردہ کا اسکول بیگ بھی درخت پہ سے مل گیا تھا لیکن اسمیں کچھ سراغ نہیں ملا تھا۔ شنکتلا کو تھانے کے چکر لگوائے گئے، اسکی نگرانی کی گئی۔
اس کے بتائے ہوئے پتے چھان مارے گئے۔ لیکن وہاں وہ لوگ گئے ہی نہیں تھے۔ البتہ ان رشتے داروں کی نگاہیں شنکتلا کی جانب اٹھ چکی تھیں۔ بعید نہ تھا کہ انگلیاں بھی اٹھ جاتیں۔ گاؤں میں تو انگلیاں اٹھ چکی ہی تھیں۔
اسی میں دو دن گزر گئے۔ گاؤں میں آہستہ آہستہ چہ مگوئیاں شروع ہوچکی تھیں۔
کوئی کہتا تھا کہ رام لال نے لڑکی اغوا کرلی اور کچھ لوگ بھاگنے کا کہ رہے تھے۔ ثبوت کسی کے پلے نہیں تھا۔
آج بھی انسپکٹر شنکتلا کے گھر پہ بیٹھا تھا۔
دیکھو بی بی! ہمیں تمکو تنگ کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تمہیں نہیں پتہ۔ لیکن اب جیسے ہی کچھ اتہ پتہ ہوتا ہے تمہیں، پولیس کو بتانا ہوگا۔ تمہاری ہر فون کال سنی جائے گی پتہ تو ہمیں چل جائے گا لیکن تمہیں اطلاع چھپانے کی سزا مل سکتی ہے۔
لیکن صاب میرے لڑکے کو تو کچھ نہیں ہوگا نا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
تمہارے لڑکے نے کام بھی تو بہت اچھا کی ہے نا۔ جو کچھ نہ کہا جائے اسکو۔ انسپکٹر کے لہجے میں طنز تھا۔
نہیں صاب وہ بیوقوف ہے۔ چودہ پندرہ سال کوئی عمر ہوتی ہے کیا؟؟؟
آپ اسکو چھوڑ دینا میں سمجھاؤنگی اسکو۔ مار پیٹ بھی کرلونگی۔وہ دہائی دینے لگی۔
اب بند کرو یہ ڈرامہ۔ اور جیسے ہی کوئی کال یا کچھ بھی پتہ ملتا ہے مجھے بتانا۔ میرا آدمی ہر دوسرے دن آئے گا ادھر۔ انسپکٹر اٹھتے ہوئے بولا۔
وہ چپ چاپ آنکھوں میں ہزار اندیشے لئے اسکو دیکھتی رہ گئی۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
رام لال تم نے کہا تھا کہ تم اپنی ماں کو بھی بلالو گے۔ اب تو چوتھا دن آگیا ہے۔ وردہ نے اسکو یاد دلایا۔
ہاں یار لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے ابھی۔ معاملہ اگر دبا نہیں ہوگا تو مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔
شاید ہمیں ماں کو بھی لیکر آنا چاہئیے تھا۔ لیکن اب ہوگا کیا؟؟؟
ہم آنٹی کو اپنے یہاں ہونے کی خبر کیسے دیں گے؟؟؟
جو بھی ہو، ہم سب کچھ کریں گے۔ وہ والا گرھ طیچ کر فیض نگر میں گھر لیں گے، شادی کریں گے اور ادھر ہی شفٹ ہوجائیں گے۔
لیکن وہ مان جائیں گی اس شادی پہ؟؟؟ وردہ نے پریشانی سے اسکو گھورا۔
انکو ماننا پڑے گا اب۔ ماسٹرجی سے ابھی وہ ادھوری شادی کرچکی ہیں نا۔ میں تو مکمل شادی کررہا ہوں۔ اس نے چھت کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔

نجانے حالات کیسے ہوجائیں آگے جاکر۔ اگر اب ہم پکڑے گئے تو شاید ابو میرے ساتھ تمکو بھی زندہ نہ چھوڑیں۔
اب مجھے پرواہ نہیں ہے۔ مارا بھی گیا تو کیا۔ سبھی کچھ ماسٹرجی اور تیرے باپ کی سائیڈ جارہا ہے۔ ہمیں کیا ملا؟؟؟ بھاگنا اور پکڑے جانے پہ موت۔
رام لال کی آواز بھرا گئی۔
چماٹ یاد ہے نا میرا. ایک اور لگادونگی سب کے سامنے۔
تم پہ بھی مجھ سے جڑنے کے بعد آفتیں آئیں نا۔ مجھ پہ تو امی کے مرتے ہی نازل ہونے لگی تھیں۔ میرا کیا قصور تھا۔
اب جاکر کسی کے پاس سکون ملا ہے مجھے۔ اور تم مرنے کی بات کررہے ہو۔
خیر، باہر جا موسی کھانا دے گی لے آ۔ وہ اٹھ کر باہر نکل گئی۔
تیری ماں کو کیسے بتائے گا تو کہ یہاں چھپا بیٹھا ہے؟؟؟
موسی نے کھانا کھاتے ہوئے اس سے سوال کیا۔
اب تم ہی بتاؤ کہ کیا کروں میں۔ مجھے تو وہاں جاتے ہوئے بھی خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ رام لال نے اسکو صاف صاف اپنے شکوک و شبہات سے آگاہ کردیا۔

جب اتنا خطرہ تھا تو لیکر کیوں آیا جانور؟؟؟ یہاں میرا شوہر کل بھی اس چھوری کے ہونے پہ شور کررہا تھا۔ میں نے اسکو بولا کہ چند دن کی بات ہے۔ یہ لوگ یہاں سے چلے جائیں گے اسکی ماں کے آتے ہی۔ اور اگر تو پولیس لاکر کھڑی کردے گا تو ہماری بھی عزت ہے۔ یہ اچھا نہیں ہوگا۔ موسی نے پولیس اور کیس کا سنتے ہی جیسے آنکھیں ماتھے پہ رکھ لی تھیں۔
رام لال سر جھکا کر کھانا کھانے لگا. اگر پولیس کا چکر ہے تو ہم شاید تمکو نہ رکھ سکیں. موسی نے سرد لہجے میں کہا تو اسکا چلتا ہوا منہ رک گیا۔

میری ماں کے آنے تک تو رک جاؤ۔ وہ آجائے گی تو کچھ فیصلہ کرلیں گے کہ چلے جائیں یہاں سے۔ تم اسکو فون کرکے اس سے بات کرلو اور اسکو سمجھا دو کہ اب یہی حل ہے کہ تو ادھر آجا اور ہم کسی ماموں کے گھر جاکر شادی کرلیں گے اور وہیں رہیں گے پھر۔
چل ٹھیک ہے، لیکن اگر میرا کہیں بھی نام آیا تو تجھے یہاں سے جانا پڑے گا کیسے بھی۔ یہ فون اٹھا کر دے میرا۔
موسی نے فون اٹھایا اور اس سے پوچھ کر شنکتلا کا نمبر ملانے لگی​
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
جلد ہی دوسری طرف سے ہیلو سنائی دیا۔
ہیلو شنکتلا بول رہی ہو نا تم۔ میں سپنا۔ فیض نگر سے بول رہی راجو کی ماں۔
ہاں اچھا بولو بہن کیسے فون کیا۔ شنکتلا کی آنسوؤں میں ڈوبی آواز سنائی دی۔
سنا ہے تیرا....
ہاں ٹھیک سنا ہے۔ نجانے کدھر گیا ہے وہ منحوس انسان۔ بیوہ ماں تک کا خیال نہیں اسکو۔
اچھا سن ابھی۔ وہ جس لڑکی کیساتھ بھاگا ہے اس سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ۔ تو اسکو اجازت دیدے اگر تو وہ تجھے بتادے گا کہ کہاں آنا ہے۔ سپنا اسکو گھماتے ہوئے بولی۔
لیکن تجھے یہ سب کیسے پتہ؟؟؟ شنکتلا نے چونک کر کہا۔
وہ تیرے گھر پہ بیٹھا ہے نا؟؟؟ دیکھ سچ سچ بتا بھگوان کی قسم ہے تجھے۔
ہاں قسمیں نہ کھا۔ وہ آج میرے گھر آیا ہے۔ یہ بات کروانے تجھ سے۔
اس سے بات کروا میری تو۔ جلدی فون دے اسکو۔ شنکتلا بے قراری سے بولی۔
سپنا نے فون رام لال کو پکڑا دیا۔
ہیلو ماں! اس نے ہلکی سی آواز نکالی ہی تھی کہ دوسری طرف سے گالیوں کی ایک لمبی لائن سنائی دی۔
شنکتلا نے اسکو پھپھا اور پولیس کے آنے جانے کا بتایا۔
تو گھبرا مت ماں۔ یہیں آجا فیض نگر تو بھی۔ کسی ماموں کے گھر جاکر باقی کام کرلیں گے۔
پولیس کا پہرہ ہے گاؤں پہ اور بس اسٹاپ پہ۔ میں کہیں نہیں نکل سکتی ابھی۔ تو اپنا خیال رکھیو۔ اور کوئی فضول حرکت کرکے بہادر بننے کی کوشش مت کیجیو۔
کیا مطلب بہادر بننا؟؟ وہ سٹپٹا گیا۔
بس میری یہ بات یاد رکھیو کہ ہیرو گیری مت کریو اگر پھنس جائے تو۔ کوئی تجھے کچھ نہیں کہے گا۔ میں تو کہتی ہوں واپس آجا۔
اب واپس آنا بالکل فضول ہے ماں۔ اب یا تو آر یا پار۔

ٹھیک ہے پھر مجھے کبھی اپنی شکل مت دکھانا آرپار ہوتے رہنا۔
میں گاؤں نہیں آؤنگا۔ لیکن اگر کچھ ہوا تو جب کی تب دیکھونگا۔
ٹھیک ہے اپنا خیال رکھیو بیٹا۔
ہاں ماں، چل خدا حافظ۔ یہ کہ کر اس نے فون کاٹا اور پھر یکدم وہ ، سپنا اور وردہ تک اچھل پڑے۔

یہ کیا کہا تو نے؟؟؟؟ سپنا نے اسکو حیرت سے گھورا۔
کیا کہا میں نے؟؟؟ خدا حافظ؟؟؟
ہاں یہی کہا تو نے۔ پگلا گیا ہے کیا؟؟؟ دھرم سے نکلے گا کیا؟؟؟ سپنا نے اسکو خونخوار لہجے میں جھڑکا۔
نن نہیں بس اس کو سن سن کر کہ دیا یہ۔ اس نے وردہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
بہرحال کیا بات کی تیری ماں نے؟؟
کچھ نہیں بس ایسے ہی کہ رہی ہے گاؤں آجا۔
میں بھی یہی کہونگی کہ اگر گاؤں جاسکتا ہے تو چلا جا۔ لڑکی کے گھر والوں سے بات کرلیو۔ وہ تجھ سے شادی کردیں گے اسکی۔ سپنا نے اسکو لاکھ سمجھانا چاہا لیکن وہ ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔

***
 

Top