Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,363
1,833
143
"پندرھویں قسط"

یہ رام لال بھی پر پرزے نکالنے لگا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لڑکی اسکے ساتھ ملکر کوئی منصوبہ بندی کررہی ہو۔ ماسٹرجی نے چائے کی چسکی بھرتے ہوئے سوچا۔
دو دفعہ وہ اسکو میرے گھر پہ دیکھ چکا ہے۔ کچھ تو دال میں کالا ہے۔ خیر فی الحال تو اس مصیبت سے جان چھوٹے، بارش رکے تو یسپتال لے جاؤں اس چڑیل کو اور الزام سے بچوں۔ اسکے بعد چاہے رشتہ ختم اسکا اور میرا۔ پھر جدھر مرضی منہ کالا کروائے۔ انہوں نے چائے ختم کرکے چپ چاپ پیالی ایک طرف رکھی اور سر کھجاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
اگلے دن صبح سے بادلوں کا ڈیرہ کم تھا۔ سورج آہستہ آہستہ اپنا زور بڑھا رہا تھا۔ ماسٹرجی عادت کے مطابق اسکول پہنچ گئے۔ موسم موزوں دیکھ کر انکے چہرے پہ سکون کی لہر دوڑ گئی۔
وردہ کی طبیعت بھی آج کچھ بہتر تھی۔ وہ کاپی چیک کرانے آئی تو ماسٹرجی اسکی طرف دیکھے بغیر بڑبڑائے: جلدی چھٹی دونگا۔ اسکے بعد ہسپتال چلنا۔
میں کہیں نہیں جاؤنگی۔ وہ آہستہ سے بولی۔
کیوں ضد کررہی ہے؟؟ جب بول دیا تو جانا پڑے گا نا۔ اب جاکر بیٹھ جگہ پہ۔ انہوں نے کاپی پہ گڑا کے سائن کیا اور پین ایکطرف پٹخ دیا۔
وردہ چپ چاپ آکر اپنی جگہ بیٹھ گئی۔
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
آدھی چھٹی میں رام لال اور سجن میدان میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے۔
اب بتادے کیوں کل سے چپ ہے تو؟؟؟ شام کو کھیلنے بھی نہیں آیا۔ سجن نے رام لال کو چپ دیکھ کر پوچھا۔
وہ گزشتہ دن سے کھویا کھویا تھا۔ گھر جب سے گیا تھا تو باہر اسکول کیلئے ہی نکلا تھا۔ نہ سجن سے ملا تھا نہ ہی باہر گھومتا پایا گیا تھا۔
اور آج بھی چپ چاپ میدان میں جاکر بیٹھ گیا تھا۔

لگتا ہے کل وردہ نے تیرا پیار رد کردیا۔ ارے جانے دے اسکو ماسٹر کے پاس۔ اب نہیں بچانے جائیں گے اسکو ہم۔ سجن نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر ہمدردی جتائی۔
یہ بات نہیں ہے یار۔ کل بہت الٹی سیدھی باتیں پتہ چلی ہیں مجھے۔ اب بہت دیر ہوگئی ہے۔ اب تو بھگوان ہی کچھ کرسکتا ہے. وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے بولا۔ جیسے آنسو پی رہا ہو۔ یا خود کو رونے سے بمشکل روک رہا ہو۔
ایسا کیا ہوگیا میرے یار کو۔ اچھا یہ لے ماں نےمیٹھا پراٹھا بھیجا ہے۔ کہا ہے کہ رامو کو بھی دینا۔ یہ لے۔ سجن نے پراٹھا آدھا کرکے اسکو پکڑا دیا۔
ماسٹرجی کے بارے میں کچھ پتہ چلا ہے کیا؟؟؟ سجن نے پوچھا تو اس نے پراٹھا کھاتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا۔

یار، وہ ماسٹر نے اس سے وہ سب کیا ہے۔ رام لال آہستہ سے بولا۔
کیا وہ سب؟؟ جلدی بتا پڑھائی شروع ہونے والی ہے۔ سجن نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ اسکو خطرہ تھا کہ رام لال نجانے بعد میں بتائے یا نہ بتائے۔
وہ سب جو شادی کے بعد ہوتا ہے۔ رام لال نے آخری نوالہ لیتے ہوئے کہا۔
کک کیا؟؟؟ وہ سب کیسے؟؟؟ سجن تھوک نگلتے ہوئے اسکی شکل دیکھنے لگا۔ رام لال نے نگاہیں جھکالیں۔

افف میرے خدا، اسکا مطلب وہ گندی ہوگئی۔ اب ہمارا اس سے تعلق نہیں رہنا چاہئیے۔ سجن نے نفرت سے ناک سکیڑی۔
کون گندا ہوگیا؟؟؟ چپ کر۔ وہ اب بھی مجھے اتنی ہی پسند ہے۔ رام لال ایکدم تن کر کھڑا ہوگیا۔
اب اسکو ماسٹر کے پاس جانے نہیں دونگا میں۔ وہ جذباتی لرزتی ہوئی آواز میں بولا۔
اچھا چھوڑ اس سب کو۔ اپنا موڈ اچھا کر۔ کچھ نہیں ہوگا۔ ویسے انکا بچہ ہوا تو ماسٹرجی کیا کریں گے؟؟؟ سجن نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

پتہ نہیں۔ رات کو ہوگا بچہ۔ شاید کسی کو دے دیں گے کوئی پال لے گا۔ رام لال نے عقل لڑائی۔
ہاں شاید۔ لیکن پھر بھی وہ بچہ گنہگار ہوگا۔ ماسٹرجی کیطرح۔ سجن کے ذہن پہ نفرت کی پرچھائی منڈلا رہی تھی۔ گناہ سے نفرت یا گنہگار سے۔ ماسٹرجی سے یا وردہ سے۔ وہ فیصلہ نہیں کرپا رہا تھا۔
اور بھی کچھ ہوا تھا کیا؟؟؟ سجن نے اٹکتے لہجے میں پوچھا۔ رام لال نے اسکو اپنے گھر کے علاوہ کی تمام کہانی سنادی۔
سجن بھی افسوس کے مارے سر ہلاتا رہ گیا۔
کتنی مظلوم ہے وہ لڑکی۔ ماسٹرجی کسی بھیڑئیے سے کم نہیں ہیں۔ وہ سوچوں میں گم ہوگیا۔
یہ گھنٹی کیوں نہیں بج رہی آدھی چھٹی ختم ہونے کی۔ رام لال نے مڑ کر اندر کیطرف دیکھا۔ ماسٹرجی کلاس کے دروازے پہ کھڑے تھے۔ اچانک وہ آگے بڑھے اور گھنٹی بجا دی۔
چل رامو کلاس میں۔ سجن نے اسکا ہاتھ پکڑا اور دونوں کلاس میں آکر بیٹھے ہی تھے کہ گھنٹی دوبارہ بجی۔
ارے یہ کیا؟؟؟ چھٹی ہوگئی کیا؟؟؟ سجن نے رام لال کی طرف حیرت سے دیکھا تو اسکو بھی تعجب ہوا۔ ہاں شاید۔
واقعی چھٹی کا اعلان تھا۔ ماسٹرجی نے اندر آکر اسکی توثیق کی تو بچے بستے اٹھا اٹھا کر باہر کی جانب نکلنے لگے۔ رام لال اور سجن بھی چپ چاپ نکل گئے۔
اب وردہ اور ماسٹرجی کلاس میں باقی بچے تھے۔
چل اٹھ۔ شہر کی طرف تین بسیں نکلتی ہیں اور دوسری کا وقت قریب ہے۔ جلدی کر۔ اسنے بستہ اٹھایا اور چپ چاپ ماسٹرجی کے ساتھ چل دی۔
وہ آگئے۔ وہ آگئے۔ رام لال نے گھات میں بیٹھے سجن کو متوجہ کیا۔ دونوں نے نگاہیں ماسٹرجی اور وردہ پہ تان لیں۔
وہ انکے برابر سے گزرتے ہوئے باتیں کرتے آگے نکل گئے۔
نفرت کرتی ہے وہ اس سے تو باتیں کیوں کررہی تھی ایسے دیکھ دیکھ کر۔ رام لال پریشانی سے بولا۔
مجھے نہیں پتہ۔ تو ہی اس پہ مررہا ہے۔ مجھے تو گندی لگ رہی ہے وہ۔ سجن نے آہستہ سے کہا تو رام لال نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ چپ کر۔ اور چل اب میرے ساتھ۔ انکا پیچھا کرناہے۔
سجن منہ بناتا ہوا اسکے ساتھ ہولیا۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
ماسٹرجی نے گھر پہنچ کر سائیکل اندر کمرے میں کھڑی کی اور اسکو باہر صحن میں بٹھا دیا۔ اماں کی طبیعت بھی اب بہتر تھی۔
ماسٹرجی نے الماری سے ایک برقعہ نکالا اور وردہ کو پکڑا دیا۔
یہ پہن لو۔ تاکہ شہر جاتے ہوئے کوئی نہ دیکھے۔
مجھے یہ نہیں پہننا۔ اس نے برقعہ ایکطرف رکھ دیا۔

پہن لو کسی نے دیکھ لیا تو عزت کا مسئلہ بن جائے گا۔ ماسٹرجی نے تھوڑی کھجاتے ہوئے جھنجلاہٹ سے بھرے لہجے میں کہا۔
پھر اسکو کلائی سے پکڑ کر کھڑا کیا اور برقعہ پہنا دیا۔
کیسی لگ رہی ہوں۔ بیوی لگ رہی ہوں تمہاری؟؟؟ ہیں نا؟ وہ انکو دیکھ کر ہنسی۔

وہ چپ چاپ اسکو دیکھتے رہے۔

بولو نا، ایسے تاڑ کیوں رہے ہو؟؟ بولو بھی اب۔ اس نے انکی چھاتی پہ ہاتھ مارا۔

لگنے کا کیا مطلب تم ہو نا بیوی۔ وہ اسکو اپنی طرف کھینچ کر بولے
تو پھر ہسپتال کیوں جارہے ہو؟؟ ماں بننے دو مجھے۔ وہ طنز سے مسکرائی۔
ارے جا نا۔ دماغ مت کھا۔
اس نے نقاب اوڑھا اور انکے ساتھ چل دی۔
ابے سجن یہ، یہ کیا چکر ہے؟؟؟ یہ کون نکلا ہے ماسٹرجی کیساتھ گھر سے؟؟ وردہ کہاں گئی؟؟
ارے ہٹ یہی وردہ ہے۔ وہ چلا اٹھا۔ لیکن یہ لوگ کدھر جا رہے ہیں اسطرح؟؟؟
ہمیں دیکھنا ہوگا۔ ان دونوں نے بھی فاصلہ رکھ کر ماسٹرجی اور وردہ کا تعاقب شروع کردیا۔
پانچ منٹ کا فاصلہ طے کرکے وہ دونوں سڑک کنارے بیٹھے دو تین لوگوں کیساتھ بیٹھ گئے جو بس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
یہ دونوں شہر جارہے ہیں رامو۔ اب ہمکو واپس جانا چاہئیے۔ بھوک بھی لگ رہی ہے اور دیر بھی ہوگئی ہے۔ سجن نے پیٹ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
ہاں ویسے بھی ہمیں تو شہر نہیں جانا انکے ساتھ۔ رام لال چہرے پہ مایوسی سجائے مڑا اور سجن کے ساتھ واپس ہو لیا۔
اٹھ آگئی بس۔ جلدی کر۔ ماسٹرجی نے اسکا ہاتھ پکڑا اور بہت احتیاط سے اسکو اوپر چڑھا کر اپنے برابر میں کھڑکی والی طرف کرکے بٹھا دیا۔
مجھے کوئی پہچان تو نہیں لے گا نا۔ وہ سامنے بیٹھا شخص کیوں گھور رہا ہے مجھے؟؟ اس نے پریشانی سے گاؤں کے ایک باسی کو اپنی جانب گھورتے دیکھ کر کہا۔
ارے کیسے پہچانے گا؟؟ برقعے کے پار جھانکے گا کیا وہ؟؟؟
وہ چپ ہوکر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی۔ ذرا دیر بعد اسکو اونگھ سی آنے لگی۔
افف یہ نحوست نہ پھیلا۔ مجھ پہ نہ گریو کہیں تیرے پیٹ پہ کوئی آفت آئے۔ ماسٹرجی نے اسکو انگلی چبھو کر جگادیا۔
اس نے غصے سے انکو گھورا۔ لیکن برقعے کیوجہ سے انکو کیا سمجھ آتا۔ دل ہی دل میں کوس کر دوبارہ کھڑکی سے ریتیلے مناظر دیکھنے لگی۔
ذرا دیر بعد پھر سے وہ جھومتی ہوئی ماسٹرجی کا کندھا تلاش کررہی تھی۔ انہوں نے پھر وہی طریقہ آزماتے ہوئے اس سے دوری اختیار کی۔
کیا مصیبت ہے سونے دو نا۔ اس نے جھنجلا کر کہا۔
نہیں۔ سونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پکڑ فون اور گیم لگا لے۔ انہوں نے اپنا فون نکال کر اسکو دیا اور وہ اسمیں مگن ہوگئی۔
ذرا دیر بعد بس نے رک کر ہارن دیا اور سب مسافر اترنے لگے۔
ماسٹرجی بھی اسکا ہاتھ تھامے احتیاط سے اسکو لیکر اترے۔
اتنے دھیان سے کیوں اتروا رہے ہو؟؟ میں کوئی ننھی بچی ہوں کیا؟؟ اس نے انکا ہاتھ چھڑانا چاہا۔
پیٹ سے ہے نا منحوس۔ اسلئے کررہا ایسا۔ ورنہ اچھل کود کرکے اترے گی تو۔
اچھا تو اگر میں پیٹ سے ہی رہوں تو سب کتنا خیال رکھنے لگیں گے نا میرا۔
شاید پاپا بھی واپس آجائیں۔ اس نے کرب سے سوچا۔

چل اب دس منٹ کی دوری پہ ہسپتال ہے۔ ماسٹرجی اسکا ہاتھ پکڑ کر پیدل چلاتے ہوئے ہی ہسپتال پہنچ گئے۔ متعلقہ وارڈ میں جاکر پرچی بنوائی اور انتظار گاہ میں جا بیٹھے۔
میری دور کی کزن بن جانا تم۔ کہ دینا کہ شوہر یہاں نہیں ہے اور عورت گھر میں کوئی نہیں۔ اسلئے میرے ساتھ آئی ہو۔
مطلب شوہر مر گئے؟؟ وہ ماسٹرجی کی پسلی میں انگلی مار کر ہنسی۔
پاگل ہے کیا؟؟ بس جتنا بولا اتنا کہنا۔ انہوں نے چڑ کر کہا۔ اتنے میں نمبر آگیا اور وہ ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔
جی بی بی۔ بولو۔ کیا محسوس ہورہا ہے؟؟ پہلے تو یہ اتارو نقاب۔ کوئی مرد نہیں سوائے تمہارے مرد کے۔ ڈاکٹرنی نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
نن نہیں ایسے ہی سہی ہے۔ اس نے نقاب لگائے لگائے ہی بات کرنا چاہا۔​
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
نقاب اتار دو کوئی نہیں ہے یہاں۔ ڈاکٹرنی نے اسکو سمجھانا چاہا لیکن وہ بضد رہی تو اسکو غصہ آگیا۔
دیکھو بی بی ضد نہ کرو ہمیں شک میں ڈالنے سے بہتر ہے نقاب الٹ دو۔
چارو ناچار وہ نقاب الٹ کر بیٹھ گئی۔
ہاں بس اب ٹھیک ہے نا۔ تم اتنی ڈرپوک ہو اور ماں بننے جارہی ہو۔ ڈاکٹرنی نے مسکرا کر اسکے گال پہ ہلکا سا چپت لگایا۔
اس نے مسکرا کر نگاہیں جھکا لیں۔
اچھا بتاؤ الٹی وغیرہ تو نہیں ہورہی؟؟ نہیں۔
اور سر چکرانا یا متلی؟؟ ڈاکٹرنی نے مختلف سوالات کیے۔
پھر انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا۔
ویسے یہ آپکی کون لگتی ہے؟؟ ڈاکٹرنی نے ماسٹرجی سے پوچھا۔
یہ دور کی کزن ہے۔ پڑوس میں رہتی ہے۔ ماسٹرجی اتنا کہ کر چپ ہوگئے۔
تو اسکا شوہر کہاں ہے؟؟
شوہر ملک سے باہر ہے مزدوری کیلئے۔
ڈاکٹرنی وردہ کی طرف مڑی۔ تم پہ کسی قسم کا کوئی دباؤ ہو یا بلیک میلنگ ہو تو بتا دو۔ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں راضی ہوں۔
خیر ابھی تو ٹیسٹ باقی ہے. عمر بتاؤ اپنی۔ ڈاکٹرنی نے پرچی سنبھالتے ہوئے کہا۔

سولہ...
سولہ دن بعد انیس کی ہوجائے گی۔ ماسٹرجی نے اسکا جملہ کاٹ کر مکمل کردیا۔
بی بی جی آپکو اپنا شناختی کارڈ دکھانا ہوگا۔ ڈاکٹرنی کی بات سن کر اسکے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی۔ اس نے گھبرا کر ماسٹرجی کو دیکھا۔ وہاں بھی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
اسی وقت ڈاکٹرنی کے پاس رکھا فون بجا اور اس نے اٹھا کر کچھ بات کی۔ ہاں ٹھیک ہے رپورٹس لے آؤ میں ایک نظر دیکھ لوں۔ یہ کہ کر اس نے ریسیور رکھا اور وردہ کی جانب متوجہ ہوگئی۔
شناختی کارڈ شاید گھر پہ رہ گیا ہے۔ پاس نہیں رکھتے نا۔ غلطی ہوگئی۔ ماسٹرجی نے اکھڑتے لہجے میں جواب دیا۔
اسی لمحے کوئی اندر داخل ہوا۔ وردہ نے مڑ کر اندر آنے والے شخص سے آنکھیں چار کیں تو اسکو اپنا دم نکلتا سا محسوس ہوا۔ دوسری جانب آنے والی عورت بھی ایک لمحے کو اسے دیکھتی رہ گئی۔ پھر آگے بڑھی اور ایک رپورٹ ڈاکٹرنی کو پکڑا دی۔
بی بی یہ مسئلہ شاید حل نہ ہوسکے۔ آپکو کارڈ منگوانا ہوگا کیونکہ یہاں آپکو کوئی جانتا نہیں ہے۔ اگلے ڈاکٹر کو میری پرچی کیساتھ دکھائیے گا۔ ڈاکٹرنی کے لہجے میں قدرے سختی تھی۔
وردہ کے چہرے پہ مایوسی بکھر گئی۔ اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے ماسٹرجی کی جانب نگاہ اٹھائی ہی تھی کہ ایک آواز ابھری: میڈم میں انکو جانتی ہوں۔ انکا اور ہمارا علاقہ ایک تھا۔
ارے تو تم پہلے بول دیتیں۔ میں نے بلاوجہ تنگ کیا۔ تم ساتھ کیوں نہیں آئیں انکے۔ ڈاکٹرنی نے حیرت سے اسکو دیکھا۔
بس یہ مجھے بتائے بغیر آگئی۔ نو وارد نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
بس ٹھیک ہے یہ ٹیسٹ لکھ دیا ہے ، ارجنٹ رپورٹ دو اور کیس کو مزید آگے بڑھا دو. ڈاکٹرنی نے دو چار لکیریں مزید مار کر ایک فارم ماسٹرجی کی جانب بڑھا دیا۔
وہ اسکو لیکر باہر نکلے تو وہ پھر وردہ کی جانب متوجہ ہوگئی۔
دیکھو ایک جان کا مسئلہ ہے۔ کیا تم بغیر کسی دباؤ کے بچہ گرا رہی ہو؟؟
جی مجھے کسی سے خطرہ نہیں ہے۔ وہ پر اعتماد لہجے میں بولی۔
اتنے میں ماسٹرجی نے فارم فل کرکے لا دیا۔
ٹھیک ہے تم انکے ساتھ جاؤ۔ تھوڑی دیر میں رپورٹ آجائے گی ٹیسٹ کی۔ وہ لیکر آنا میرے پاس۔ ڈاکٹرنی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا اور وہ ہاں میں سر ہلا کر اٹھ گئی۔
لیب اسسٹنٹ کیساتھ چلتی ہوئے وہ چپ چاپ ایک کمرے میں گئی۔
یہ لو اور سامنے چلی جاؤ۔ اس نے اسکو ایک شیشی دیتے ہوئے کہا۔
پندرہ منٹ بعد وہ ڈاکٹرنی کے سامنے بیٹھی تھی۔
دیکھئیے بچہ نہیں ہے۔ بس انکا مہینہ تھوڑا ڈسٹرب ہوا ہے، دوا دے رہی ہوں وہ بھی درست ہوجائے گا۔ اسی لیب کے برابر میں چلی جائیں دوا لے لیں۔
وہ پھر سے اٹھ کر وہاں گئی۔ وہی عورت موجود تھی۔
کوئی بھی پرابلم ہو تو یہ میرا کارڈ ہے، اسی ہسپتال میں ہوتی ہوں میں۔ اس نے اپنا کارڈ وردہ کی جانب بڑھا دیا۔ اور یہ دوائیں فری ہیں رکھ لو۔ وردہ نے چپ چاپ دواؤں کا شاپر سنبھالا اور شکریہ کہ کر باہر نکل آئی۔ ماسٹرجی کرسی پہ بیٹھے اسکے منتظر تھے۔
وہ دونوں جلد ہی ایک ڈھابے پہ بیٹھے کھانا کھاتے ہوئے ہسپتال کی باتیں کررہے تھے۔
اچھا وہ فرشتہ عورت کون تھی جس نے یہ سب آسانی کردی۔ ماسٹرجی نے بے تابی سے پوچھا۔
پہلے کھانا کھا لو۔ تم دس فٹ اوپر اچھلو گے ورنہ۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
کیوں؟؟ میں نہیں ڈرتا۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ انہوں نے سینہ چوڑا کیا۔ اب جلدی بتا کون تھی وہ؟؟
اچھا ڈاکٹر کے سامنے بھی تو ڈر گئے تھے تم۔ وہ قہقہہ مار کر ہنسی۔
کوئی نہیں ڈرا تھا۔ تیری ہی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ جیسے واقعی ماں بننے والی ہو۔ ماسٹرجی نے دانت نکالے۔
اب پھوٹ بھی دے کون تھی وہ؟؟ کیوں تنگ کررہی ہے؟؟
وہ۔ وہ شازی آنٹی تھیں۔ اس نے مسکرا کر کہا۔

کک کون؟؟ کیااااا؟؟؟ ماسٹر جی کی آنکھوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ وہ وہاں کیسے پہنچ گئی؟؟ انہوں نے مرے مرے لہجے میں کہا۔

ھھھھ، ڈر گئے نا۔ ڈر گئے نا۔ وہ زور سے ہنستے ہوئے بولی۔
نہیں مطلب تو نے جان نکال دی میری​
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
ھھھھ، ڈر گئے نا۔ ڈر گئے نا۔ وہ زور سے ہنستے ہوئے بولی۔
نہیں مطلب تو نے جان نکال دی میری۔ یہ دیکھ ہاتھ کپکپا رہا ہے میرا۔ اب کیا ہوگا۔ ماسٹرجی کے چہرے پہ ڈر چھا رہا تھا۔
کچھ نہیں ہوگا۔ ڈرو مت۔ وہ نوالہ لیتے ہوئے بولی۔

کیوں کچھ نہیں ہوگا؟؟؟ وہ بتا دے گی سب کو۔

تو بتا دے۔ کونسا بچہ ہوا ہے؟؟؟ بھاڑ میں جائیں اب وہ سب۔ مجھے فکر نہیں ہے۔ اور وہ تمکو تھوڑی جانتی ہے۔ اگر بات آئی تو مجھ پہ آجائے گی۔ تم بچ جانا۔ اس نے پلیٹ ختم کرکے ایک طرف کی اور دونوں پیسے دیکر باہر نکل آئے۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
سولہویں قسط"

ہیلو ، ہیلو عمران۔
ہاں بولو۔ دوسری طرف سے ہلکی سی کھنکار سنائی دی۔

ہیلو میں نے وردہ کو دیکھا۔ میں نے اسکو ہسپتال میں دیکھا۔ اسکی آواز لاشعوری طور پہ بلند ہوگئی تھی۔
کیا؟؟؟ کہاں دیکھا؟؟ کس جگہ؟؟؟ عمران صاحب اپنی سیٹ چھوڑ کر فوراً باہر آگئے۔
ہیلو آرام سے سنیں۔ وہ کسی اجنبی مرد کیساتھ یہاں ہسپتال آئی تھی۔
اوہ۔ کیا اسکی طبیعت خراب تھی؟؟؟ میں نوفل بھائی سے معلوم کرتا ہوں۔ وہ کیوں نہیں آئے اسکے ساتھ۔
جی اور آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ صاحبزادی گائنی وارڈ میں دکھانے آئی تھیں۔ اس نے طنز کا تیر چلایا۔
عمران صاحب چہرے پہ ہاتھ پھیر کر رہ گئے۔ انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ وردہ کو پاتال تک سے تلاش کرکے گولی ماردیں۔
اچھا۔ میں بات کرتا ہوں گاؤں میں۔ انہوں نے مریل سی آواز میں کہا۔
آخر ہے نا اولاد کسی گھٹیا عورت کی۔ یہی گل کھلائے گی۔ خیر اسکو کچھ نہیں تھا۔ میں نے دو چار دوائیاں پکڑا دی ہیں۔
مرے ہوئے لوگوں کو برا نہیں۔۔۔ اس سے پہلے کہ عمران صاحب کچھ کہتے فون کٹ چکا تھا۔ وہ بوجھل قدموں واپس مڑے اور گاؤں میں فون گھما دیا۔

بس واپس گاؤں کی جانب رواں دواں تھی۔ اس نے سر نکال کر آسمان کی جانب دیکھا۔ دھوپ ڈھل رہی تھی۔ یعنی اسکول کی چھٹی کو کافی دیر ہوچکی تھی۔
سنو!! ماسٹرجی نے اسکو پکارا۔
بولو۔ اس نے انکی طرف دیکھے بنا جواب دیا۔
شادی کرلو ہم سے۔ ماسٹرجی نے اسکا کندھا پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔
نہیں کرنا مجھے کچھ بھی۔ اس نے ایک ہلکا سا جھٹکا کھایا اور واپس منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔
شادی تو تمکو کرنی ہی پڑے گی۔ اب چاہو تو نرمی سے مان جاؤ۔ ماسٹرجی نے منہ قریب کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔
اس نے آہستہ سے گردن گھمائی۔ شو مچاؤں بس میں؟؟؟ بولو شور مچاؤں؟؟؟ وہ آہستگی سے بول رہی تھی۔
ماسٹرجی چپ ہوکر سامنے والے شیشے میں جھانکنے لگے۔ جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ وہ بھی چپ ہوکر بیٹھ گئی۔
پانچ منٹ کی خاموشی کے بعد اس نے سکتہ توڑا۔
آخر آپ نے کیسے سوچ لیا کہ شادی ہوسکتی ہے؟؟؟
ماسٹرجی لاتعلق سے بیٹھے رہے۔
تم سے کہ رہی ہوں میں۔ سنتے ہو؟؟؟ اسنے انکا ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔ وہ بت بنے بیٹھے رہے۔
اوئے رحیمو۔ یہ ناٹک بازی بند ادھر دیکھ۔ اس نے ماسٹرجی کی تھوڑی پکڑ کر اپنی طرف گھمالی۔
ماسٹرجی کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا۔
کیا بدتمیزی ہے یہ؟؟؟ وہ دانت پیستے ہوئے بولے۔
اس پاس والی سواریاں بھی ان دونوں کو مسکرا مسکرا کر دیکھنے لگیں۔
سن کیوں نہیں رہے تھے؟؟؟ اور کیسے متوجہ کرتی؟؟
اب سنو گے یا کچھ اور کردوں؟؟؟ وہ شرارت سے ہنسی۔
بکو اب جلدی۔ سن رہا ہوں۔ ماسٹرجی ہتھیلی سے منہ صاف کرتے ہوئے اسکی جانب مڑ گئے۔
تمکو یہ کیسے خیال آگیا کہ شادی کرلو مجھ سے؟؟؟ ایک بار غلطی کردی نا میں نے۔ اب گاؤں جاتے ہی سدھار لونگی۔ اور ویسے بھی شہر جاؤنگی میں اب۔ یہاں نجانے کتنے ماسٹر ملیں گے۔ اس نے جملہ مکمل کرتے ہوئے حقارت سے ماسٹرجی کے سراپے پہ نگاہ ڈالی۔
خود ہی کہ رہی تھی تو کہ میری وہ ہے تو۔ اب کیا ہوگیا؟؟
ہاں پیار تو کیا تھا۔ شادی نہیں کرنی مجھے گاؤں کے کسی ماسٹر سے۔ شہر جاکر پڑھونگی اور کسی ہینڈسم سے شادی کرونگی۔ اس نے فخر سے سر ہلا کر کہا۔
چل ٹھیک ہے۔ میں بھی دیکھ لونگا کیسے نہیں کرتی تو شادی۔ اب تنگ نہ کرنا۔
ماسٹرجی نے سیٹ پہ سر ٹیکتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
کس کا فون ہے نجانے کیوں چلّا رہے ہیں۔ پھپھو اپنے شوہر کی بے ساختہ بلند آواز سن کر کچن سے باہر آگئیں۔
انہوں نے کمرے میں جھانکا۔ نوفل صاحب کسی سے کہ رہے تھے: لیکن وہ تو آج بھی وقت پہ اسکول گئی تھی۔ بس آتی ہی ہوگی۔
ارے کیسی بات کررہے ہو عمران۔ تم نے خود نہیں دیکھا۔ دھوکہ ہوا ہوگا اسکو۔ وردہ کیسے کسی کیساتھ شہر جاسکتی ہے۔ نہیں نہیں تمہاری بیوی کو وہم ہوا ہوگا۔
دوسری طرف سے ایک لمبی تقریر جھاڑی گئی جسکو سنتے ہی نوفل صاحب کی آنکھوں کی پتلیاں بیٹھ سی گئیں۔
ٹھیک ہے وہ آتی ہے تو پوچھونگا۔ نہیں میں سنبھال لونگا۔ یہ کہ کر انہوں نے مردہ سے اسٹائل میں فون رکھ دیا۔
کیا ہوا کون تھا؟؟؟ پھپھو نے بے چینی سے پوچھا۔
ادھر بیٹھو۔ نوفل صاحب نے انکو ہاتھ سے پکڑ کر بٹھایا اور بات سمجھانے لگے۔
بات کے اختتام تک پھپھو کے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑ چکے تھے۔
دونوں میاں بیوی سر پکڑ کر مشورہ کرنے لگے۔ بالآخر جلد ہی وہ ایک نتیجے پہ پہنچ چکے تھے۔
بس اب ایسا ظاہر کرو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
ہمم، پھپھو نے پریشانی نہ ہونے کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور اٹھ کر کمرے سے باہر آگئیں۔ اندیشے اور وسوسے انکے ذہن پہ چھا رہے تھے۔

ذرا سی دیر بعد دروازے پہ دستک ہوئی۔ نوفل صاحب نے دستک پہچان کر لپک کر دروازہ کھولا۔
سامنت وردہ تھکی ماندی پیشانی پہ جہاں بھر کی تھکن اور پسینے کی اوڑھنی سجائے کھڑی تھی۔
وہ ایک لمحے کو ٹھٹکے پھر فوراً ہی اسکو راستہ دیتے ہوئے ایک طرف کو ہوگئے۔
وہ آہستہ سے سلام کرکے اندر آگئی۔ پھپھا نے آگے بڑھ کر اسکا بستہ تھاما اور اندر کیطرف چل دیے۔
کھانا کھاؤ گی؟؟؟ پھپھو نے اس سے پوچھا مگر وہ انکار میں سرہلاتی اپنے بستر کیطرف بڑھ گئی۔
پھپھا نے آنکھوں ہی آنکھوں میں پھپھو کو اشارہ کیا اور انکی پتلیاں خوف سے پھیل گئیں۔ ان دونوں کو ملنے والی خبر سچی لگ رہی تھی۔ یعنی کہ وردہ؟؟؟ پھپھو جھرجھری لیکر سہم سی گئیں۔
ٹیوشن کے وقت پہ بھی وہ نہ اٹھی۔ عصر کے بعد وہ خود ہی اٹھ کر باتھ روم چلی گئی۔
رات کے کھانے پہ پھپھا جلدی کھا کر اٹھ گئے اور پھپھو اسکے نزدیک ہوکر بیٹھ گئیں۔
وردہ نے کھاتے کھاتے نظر اٹھا کر انکو دیکھا پھر واپس نیچے دیکھنے لگی۔
پھپھو کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسکو کیا کہیں۔ پھر انہوں نے ہمت کرکے بات شروع کر ہی دی۔
طبیعت کیسی ہے تمہاری؟؟؟
ٹھیک ہے۔ اس نے کھاتے ہوئے جواب دیا۔
کوئی پریشانی ہو تو بتادیا کرو ، ہم تمہارے لئے جو ہوسکا کریں گے۔ اعتماد کرو ہم پہ۔ انکا گلا رندھ گیا۔
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
وردہ نے چونک کر انکی طرف دیکھا۔ پھر واپس نظریں چرا لیں۔
پھپھو مسلسل اسی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟؟؟ کل اتنی تھکی ہوئی کیوں تھیں تم؟؟
کل کب؟؟ اسکول سے آنے کے بعد؟؟ وہ تو بس ایسے ہی سر میں درد تھا نا۔ تو سوگئی تھی میں۔ اس نے بات گول مول کرنی چاہی۔
دیکھو ابھی نہیں بتاؤ گی تو کل کو نقصان ہمیں بھی پہنچ سکتا ہے اس بات کا۔ پھپھو کا پریشانی میں بھرا لہجہ دیکھ کر اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
کیسی بات کررہی ہیں آپ؟؟ کیا سننا ہے مجھ سے؟؟؟ وہ بتادیں مجھے۔ اس نے الجھتے ہوئے اکھڑ سے لہجے میں کہا۔
یہی کہ ہسپتال کیوں گئی تھیں؟؟؟ اور کس کے ساتھ گئی تھیں۔ پھپھو کی آواز میں پریشانی کی جگہ اب سختی نے لے لی تھی۔
کک کونسا ہسپتال؟؟ کک کب؟؟؟ اسکی لرزتی آواز بمشکل حلق سے نکل سکی۔ خود پہ قابو پانے کی پوری کوشش کے باوجود نوالہ اسکے ہاتھ سے گرپڑا۔
گورنمنٹ ہسپتال شہر والا۔ اسمیں کل تم کیوں گئی تھیں۔
ہمیں پتہ چل گیا۔ لیکن ہم تمکو گھیرنا یا ذلیل کرنا نہیں چاہتے۔ دیکھو غلطی ہوجائے تو واپس آجانا چاہئیے۔
آؤ ادھر میرے پاس. اتنی دور دور رہتی ہو۔ دور کی پھپھو ہوں لیکن رشتہ قربت کا احساس دلاتا ہے دور پاس کچھ نہیں ہوتا۔
انہوں نے اسکی پلیٹ ایکطرف کرتے ہوئے اسکو خود سے لپٹالیا۔
کافی دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہوئی تو اسکے منہ سے ایک ہی لفظ نکلا "ماسٹرجی"۔

اور پھپھو کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
لیکن ماسٹرجی کیسے یہ سب کرسکتے ہیں؟؟؟ وہ تو اچھے خاصے نیک انسان ہیں۔ اس نے انکو اپنی حد تک کی کچھ باتیں بتادیں۔
پھپھو نے اشارہ کیا تو باہر چوکھٹ سے لگے پھپھا بھی اندر آگئے۔
انکا بھی صدمے سے برا حال تھا۔
اور اگر شازیہ وہاں نہ ہوتی تو وہ ہماری بیٹی کو نجانے کب تک استعمال کرتا رہتا۔
بہرحال تمہارے ابو آنے والے ہیں چند دن میں۔ ان سے مل کر بات ہوگی کہ کیا کرنا ہے۔ انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
ابو؟؟؟ ابو کیوں آرہے ہیں یہاں۔ وہ ایکدم سہم کر بولی۔
کچھ نہیں ہوگا چندا. وہ کچھ نہیں کہیں گے تمکو۔ اصل غلطی تو انکی ہے نا۔ وہ ہی اس سب کے ذمے دار ہیں۔ اولاد ذمے داری ہوتی ہے بوجھ سمجھو تو پھر کسی کو مورد الزام نہ ٹھہراؤ۔ پھپھا نے پھپھو کو گھورا بھی لیکن وہ غصے میں بولتی چلی گئیں۔

چلو اب رات ہوگئی سونے جاؤ اب۔ وردہ تم نیچے پھپھو کے پاس سوجاؤ۔ پھپھا یہ کہ کر اٹھے اور کمرے سے باہر نکل گئے۔ وردہ نے کھانے کے برتن اٹھائے اور پھپھو بستر سیدھا کرنے لگیں۔

***
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
آج چوتھی رات ہے لیکن ماسٹر میرے گھر کیطرف نہیں آیا۔ رام لال نے بے چینی سے کروٹ بدلتے ہوئے سوچا۔ کمبخت آجائے تاکہ اسکو موت کے گھاٹ اتار کر چین لے سکوں۔ کہ دونگا گھر میں ڈاکو بن کر گھسا تھا مار دیا۔
اس نے سر اٹھا کر ایک نظر بے سدھ سوئی ماں پہ ڈالی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وردہ نے اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے میری ماں کو بھی گھسیٹ لیا ہو۔ لیکن اس نے میرے سر کی قسم کھائی تھی۔ وہ جھوٹ نہیں بول سکتی۔ لیکن اب کیا ہوگیا ماسٹر کو۔
اسی شش و پنج میں نجانے کتنی دیر وہ چپ چاپ لیٹا رہا۔
اسکے بعد اٹھ کر وہ پانی پینے گھڑے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اسکو ایسا لگا جیسے کوئی اسکو پکار رہا ہو۔ آواز جانی پہچانی سی تھی۔ کوئی نہایت باریک سرگوشی کرتے ہوئے اسکو پکار رہا تھا۔
اس نے آواز کی سمت پہچانی۔ آواز دروازے میں موجود جھری میں سے آرہی تھی۔ وہ فٹا فٹ جھری کی جانب بڑھا اور کان لگاتے ہی آواز دینے والے کو پہچان لیا۔
پھر آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔
تم ادھر کیسے آگئیں؟؟ اس نے وردہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا۔
دیکھو رام لال۔ مجھے بہت ایمرجینسی میں آنا پڑا ہے۔ میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا سب کچھ۔
کیا کہ رہی ہو اب کیا ہوگا؟؟ رام لال کا دماغ بھی سائیں سائیں کرنے لگا۔
اب مجھے نہیں پتہ۔ میں گاؤں سے چلی جانا چاہتی ہوں۔ اسکی آواز بھرا گئی۔
لیکن کہاں؟؟؟ تمہارا تو کوئی ہے بھی نہیں ایسا جہاں جاسکو۔ اچھا یہاں آؤ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ رام لال اسکو لیکر پاس پڑے پتھر پہ بیٹھ گیا۔

رام لال!! اس نے دونوں ہاتھ رام لال کے ہاتھوں پہ رکھ دیے۔ کیا تم مجھے یہاں سے نکال کر کہیں لے جا سکتے ہو؟؟؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میں دور چلی جاؤں کہیں۔ تاکہ میرے ابو واپس چلے جائیں۔ اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔
لیکن میری ماں کا کیا بنے گا؟؟ اچھا مجھے کچھ سوچنے دو۔
وہ وردہ کے چکر میں اپنی پریشانی فراموش کربیٹھا تھا۔
اور اگر میں ایسا نہ کرسکوں؟؟؟ کیونکہ میری ماں مجھے بالکل اجازت نہیں دے گی۔
اتنا نہیں کرسکتے تم میرے لئے؟؟؟ اس نے جزباتی ہوکر رام لال کی کلائی زور سے پکڑلی۔
اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اسکول سے واپسی پہ میں اس گڑھے میں گرجاؤنگی جو سرکار نے کنوئیں کے لئے کھدوایا ہے۔ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
پاگل ہوگئی ہو کیا تم؟؟؟ ایک چماٹ لگاؤں ابھی۔ رام لال غصے سے چلایا۔
چلاؤ مت۔ تمہاری ماں سن لے گی۔ بس کل اسکول تیار ہوکر آنا۔ میں پیسے لے آؤنگی فیس کا کہ کر کہ ماسٹرجی نے فیس پہلے ہی مانگی ہے۔ لیکن تم انکار کا سوچنا بھی مت۔ ورنہ فیس ماسٹرجی کے پاس چلی جائے گی اور میں اوپر۔ یہی بتانے آئی تھی اب اندر جاؤ اور سوجاؤ۔ صبح ملیں گے خدا حافظ۔ یہ کہ کر اس نے رام لال کے بائیں گال پہ ہلکی سی چپت لگائی اور لمبے ڈگ بھرتی واپس اندھیرے میں چلتی چلی گئی۔
وہ دم بخود مٹی کا مادھو بنا کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
بمشکل تمام ہمت کرکے وہ واپس مڑا ہی تھا کہ دور اندھیرے میں اسکو کسی چیز کا سایہ دکھائی دیا۔ جیسے کوئی گدھے پہ آرہا ہو۔ چاند اب باریک ہوچلا تھا اور اسکی دھندلی روشنی میں صاف دکھائی نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ گدھا نما چیز قریب آتی جارہی تھی۔ اگر وہ سوچوں میں گم نہ ہوتا تو ضرور اس تیزی سے قریب آتی چیز پہ توجہ کرتا۔ لیکن وہ ورفہ کی اس اچانک آمد سے اور پھر اسکے خطرناک ارادے سے اتنا بوکھلا گیا تھا کہ اس نئی آفت سے نمٹنے کا سامان نہ کرسکا۔ اتنے میں وہ چیز اسکے سر پہ پہنچ چکی تھی۔ کوئی شخص سائیکل پہ سوار تھا۔ رام لال نے اسکو فوراً پہچان لیا۔
ارے ماسٹرجی آپ؟؟؟ اس نے ایکدم تعظیم سے کہا پھر فوراً ہی ذہن کے گوشے میں وردہ کے الفاظ شور مچا مچا کر اسکو متوجہ کرنے لگے۔ "ماسٹرجی تمہارے گھر اب بھی آتے ہیں."
رام لال!!!! تم سے کچھ کہ رہا ہوں میں... کہاں کھو گئے؟؟ نیند میں ہو کیا؟؟ اسکو پتہ ہی نہ چلا کہ کب ماسٹرجی سائیکل سے اترے اور کب اسکو جھنجوڑا۔
وہ ایک دم واپس اپنی دنیا میں آگیا۔
سوری ماسٹرجی میں کتے کو بھگانے باہر آیا تھا۔ نیند میں تھا اسلئے ایسا ہوا۔ لیکن آپ کیا کررہے ہو ادھر ؟؟؟ اس نے پہلو بچاتے ہوئے جوابی وار کیا۔
میں تو ادھر رات کو ایک چکر لازمی لگاتا ہوں بیٹا رام لال۔ تاکہ کوئی چور وغیرہ ہمت نہ کرپائے۔ یہ دیکھو ایک لاٹھی اور کلہاڑی رکھتا ہوں پاس۔ انہوں نے سائیکل پہ بندھی لاٹھی اور کاندھے سے لٹکی کلہاڑی دکھائی۔
اچھا اب تم جاؤ۔ میں چلتا ہوں۔ ماسٹرجی اس سے رخصت ہونا چاہتے ہی تھے کہ اسکی آواز سن کر رک گئے۔
اب کیا ہوا؟؟؟ انہوں نے منہ بنا کر اسکو دیکھا۔
وہ ماسٹرجی میں کل نہیں آؤنگا اسکول۔ ماں کیساتھ میلے میں جانا ہے. اسنے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ اچھا ٹھیک ہے. لیکن بس ایک چھٹی،،، سمجھ گئے؟؟؟ یہ کہ کر ماسٹرجی جلدی سے سائیکل پہ بیٹھے اور یہ جا وہ جا ہوگئے۔
رام لال کا سر جھنجھنا رہا تھا۔ وردہ کی بات سچ ثابت ہو بھی گئی تھی لیکن ماسٹرجی اسمیں شدید ا​
 
.
Moderator
2,363
1,833
143
لیکن ماسٹرجی اسمیں شدید ابہام بھی پیدا کر گئے تھے۔
اسکا دل چاہا کہ وہ گاؤں سے بھاگ جائے۔ یا خودکشی کرلے۔
بوجھل قدموں سے چلتا ہوا وہ گھر میں داخل ہوا اور چارپائی پہ ڈھے گیا۔
سونے سے پہلے وہ اپنے دماغ میں ایک پلان تیار کرچکا تھا۔

***

ماں!! اس نے صبح صبح چولہا پھونکتی ماں کو پکارا۔
بول۔ شنکتلا اسکی جانب دیکھے بنا بولی۔ ماں میں کچھ دن کیلئے راجو انکل کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ ماسٹرجی سے چھٹی کی بات کرلی ہے۔ اس نے ممکنہ سوال مقدر کا جواب بھی دے ڈالا۔
لیکن تو جا کیوں رہا ہے؟؟؟ شنکتلا تین دن سے اسکی موجودگی رات کو کھلنے لگی تھی تاہم اولاد کو دور کرنا بھی اسکو برا لگ رہا تھا۔
ارے ماں امتحان بھی دور ہیں ابھی اور میری انکل جے بیٹے سے کتنی دوستی ہے تم جانتی ہو نا۔ برسات کا موسم اسکے ساتھ بتانے کا من کررہا ہے اب انکار مت کرنا مجھے جانے دو میں بہت بہت۔۔۔
بس کر بس کر. کب جائے گا یہ بتا۔ شنکتلا نے آگے بڑھ کر اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا تب وہ چپ ہوا۔
ابھی جاؤنگا۔ اسکول نہیں جارہا چھٹی لی ہے۔ وہ جلدی سے اندر جاکر پینٹ بدلنے لگا۔

***
 

Top