Adultery در بدر (Completed)

.
Moderator
2,376
1,840
143
اسکی تعاقب کی بو پا کر تو جان ہی حلق میں آگئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکے پیچھے کوئی بھوت لگ گیا ہو۔ اور قدم دس دس من کے ہوگئے ہوں۔ اسکو نہ راستہ سجھائی دے رہا تھا نہ دماغ کام کررہا تھا۔ اسی الجھن میں وہ راستے میں ابھرا نوکیلا پتھر نہ دیکھ سکی اور دھڑام سے لڑھکتی ہوئی دور جاگری۔
اجنبی اسکے پاس سائیکل لا کر جلدی سے اترا اور اسکے پاس جاکر اسکو دبوچنے کے انداز میں جکڑلیا۔
اوئی اماں!!! اسکے منہ سے ہچکیوں کے بیچ دبی دبی سی چیخ نکلی تو اجنبی ایکدم گھبرا کر پیچھے ہٹا۔ جیسے اسکو کرنٹ لگا ہو۔
تت تم،،،، وردہ تم ہی ہو نا۔ میں ماسٹر رحیم۔ بھاگ کیوں رہی تھیں تم مجھ سے؟؟؟
وہ ہتھیلیاں زمین پہ رکھ کر پیچھے کو گھسٹ کر رہ گئی۔
ڈرو مت، یہاں آؤ۔ شاید تمکو چوٹ لگی ہے۔ ماسٹر جی نے اسکو چمکار کر ہاتھ تھاما اور جیب سے پینسل ٹارچ نکال کر اسکے چھلے ہوئے گھٹنے کو دیکھنے لگے۔
اٹھو گھر جاکر دوا لگا لینا۔ لیکن تم یہاں کر کیا رہی تھیں؟؟؟
وہ چپ رہی۔ بولو کیا کررہی تھیں ؟؟
آپ مجھے گھر چھوڑ دیں بس۔ اس نے آہستگی سے جواب دیا اور ماسٹرجی کندھے اچکا کر سائیکل سیدھی کرنے لگے۔ وہ لپک کر پیچھے بیٹھی اور ایک ہاتھ سے ماسٹرجی کو پکڑ لیا۔
ہماری جوڑی کتنی پیاری لگ رہی ہے نا۔ ماسٹرجی نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ پھیرا۔
سر میں یہیں اتر رہی ہوں اس نے روکنا چاہا تو سائیکل ڈس بیلنس ہوگئی۔
ہائے افف اچھا اچھا بیٹھی رہو۔ کچھ نہیں بول رہا۔ ماسٹرجی نے مشکل سے سائیکل کو گرنے سے بچایا تھا۔ اگلے ہی لمحے وہ اسکے گھر سے دو قدم دور رکے۔
وہ چپ چاپ اتری اور دبے پاؤں لنگڑا کر چلتی ہوئی دروازے تک پہنچ گئی۔ آہستہ سے جھکر پتھر اٹھا کر دور پھینکا اور اندر داخل ہوگئی۔
ماسٹرجی مسکرا کر مڑے اور اپنے رستے ہولیے۔

گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن چوٹیں... نجانے کہاں کہاں آئی ہیں۔
اس نے کمر پہ ہاتھ پھیرا تو اٹھنے والی ٹیس نے اسکو تڑپا کر رکھ دیا۔
چلو روئی اور دوا لیکر باتھ روم جاتی ہوں۔ اس نے شیلف پہ سے روئی اور دوا لی اور باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔

***
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
دیکھ وہ آگئی تیری ہیروئین۔ کیا مست لگ رہی ہے۔ سجن نے رام لال کو دکھایا۔وہ تو روز ہی مست لگتی ہے۔ رام لال کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔

یہ لنگڑا سی رہی ہے دیکھ۔ گری ہے کیا؟؟ مجھے کیا پتہ کالو کو دیکھ کیسے سہارا دے رہا ہے۔ ماسٹر کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ رام لال نے اتنا جل بھن کر کہا کہ سجن نے کے منہ سے ہنسی نکل گئی۔ اس نے فورا منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہسنی روکی۔
لیکن آواز ماسٹرجی تک پہنچ گئی تھی۔ وہ چونک کر مڑے: کون ہنس رہا ہے؟؟؟ کسی کی تکلیف پہ ہنستے ہیں کیا؟؟ راجو تو ہنسا تھا؟؟ نہیں ماسٹرجی۔ کاشف تو؟؟ بیٹا سنیل تو؟؟ نہیں ماسٹرجی۔
کسی کی تکلیف پہ ہنستے ہو رام لال؟؟ انہوں نے معنی خیز انداز میں رامو کا نام لیا تو وردہ نے بھی سر اٹھا کر رام لال کو دیکھا جیسے اس سے شکوہ کررہی ہو۔
سر میں نہیں ہنسا ماں جی کی قسم۔
تو پھر کون ہنسا تھا سچ سچ بتا۔
یہ ہنسا تھا،اس نے جھٹ سجن کی طرف اشارہ کردیا۔
چل بیٹا سجن ادھر مرغا بن جا شاباش۔ وہ کانپتا رام لال کو کہنی چبھوتا ہوا اٹھا ہی تھا کہ وردہ بول پڑی۔
چھوڑیں سر مجھ پہ ہنسا تھا میں نے معاف کردیا، اسکو مرغا مت بنائیں۔ نہیں مرغا بننے دو آج۔ اسکو پتہ چلے کسی پہ ہنستے نہیں ہیں۔ انہوں نے چھڑی اٹھا کر ٹیبل پہ رکھ لی۔
ٹھیک ہے میں کلاس سے جارہی ہوں آپ جسکو چاہیں مرغا کتا بنائیں۔ یہ کہ کر وہ اٹھنے لگی۔
ارے، ارے اچھا تم تو بیٹھو۔ ماسٹرجی لپک کر اس تک پینچے اور اسکو زبردستی واپس بٹھایا۔ رام لال بھی اسکے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔
معافی مانگ، معافی مانگ۔ سوری بول جلدی۔ ماسٹرجی نے اسکو جھڑکا۔

سوری! ہم تم پہ نہیں ہنسے تھے۔ کسی اور پہ... چل بھاگ یہاں سے! ماسٹرجی کے چلانے پہ وہ دوڑ کر سیٹ پہ جا بیٹھا۔

چھٹی ہوتے ہی واپس وہیں جاکر چھپ جائیں گے۔ دیکھتے ہیں آج یہ کالو کیا کرتا ہے۔ رام لال نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
جیسے ہی چھٹی کی بیل بجائی گئی، وہ دونوں کمانڈو ایکشن میں اٹھے۔ رام لال نے ایک نگاہ کتابیں سمیٹتی وردہ پہ ڈالی۔
وہ کتنی سندر ہے۔ بالکل گلاب کی کلی جیسی۔ وہ نظروں ہی نظروں میں اسکو چوم کر باہر نکل آیا۔

وردہ بھی اپنی کتابیں سمیٹ کر جیسے ہی اسکول کی گیٹ پہ پہنچی تو ماسٹرجی سائیکل تھامے اسی کے منتظر تھے۔
سر میں اکیلی ہی جاؤنگی۔ آپ جائیے پلیز۔

ارے واہ اج سر اور آپ، ناراض ہو کیا؟؟ کل رات گھر کے اندر نہیں آیا اسلئے۔ انہوں نے نچلا ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔
سر آپ جائیں پلیز۔ مجھے جانے دیں۔
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
ناراض ہو کیا؟؟ گرجاؤ گی کسی گڑھے میں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ویسے ہی بادل بہت ہیں بارش ہونے والی ہے۔ وہ آسمان کو تکتے ہوئے بولے۔ دو لمحے کی مصالحتی گفتگو کے بعد بالآخر وہ انکے ساتھ چل دی۔ لیکن سائیکل پہ نہیں بیٹھونگی۔ مجھے نہیں چاہئیے آپکی سائیکل۔ اچھا میں بھی نہیں بیٹھ رہا سائیکل پہ۔ ماسٹرجی بھی سائیکل پیدل لیکر چل دیے۔
بالکل پاگل لگ رہے ہو، ہر وقت لونڈا بننے کی اداکار کرتے ہو۔ وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہنسی۔
ماسٹرجی کے منہ سے بھی قہقہہ نکل گیا۔

دیکھ کیسے ہنس رہے ہیں دونوں۔ اسکو اپنی عمر سے ڈبل انسان کیساتھ پیار کرتے ہوئے کیا مزہ آتا ہے؟؟

ہاں نا اوپر سے کالا بھی ہے۔ رام لال نے دانت پیستے ہوئے جواب دیا۔
کیا مل جاتا ہے اسکو اس کالو سے پیار کرکے؟؟
مجھ میں کیا کمی ہے آخر؟؟ اس نے اکڑ کر اٹھنا چاہا تو سجن نے اسکو پیچھے گرادیا۔
مروائے گا کیا منحوس؟؟؟
رام لال جلدی سے واپس بیٹھ گیا۔

ناراض کیوں ہو اچھا یہ تو بتاؤ... ماسٹرجی نے چلتے چلتے اس سے دوبارہ پوچھا۔
آپ نے تو کہا تھا شنکتلا جی سے آپکا کوئی رشتہ نہیں ہے۔

رشتہ،،، چھوڑو ان باتوں کو۔ تم نہیں سمجھو گی۔ انہوں نے آسمان کو گھورا۔
کیوں؟؟؟ رشتہ ہے نا تبھی جواب نہیں دے پائے۔ جھوٹے انسان ہیں آپ۔ اس نے نفرت بھری نگاہوں سے ماسٹرجی کو دیکھا۔
اچھا تو کل یہ دیکھنے آئی تھیں تم۔

ہاں۔ آپکا اصلی چہرہ۔ یہی ہے نا آپکا اصلی چہرہ؟؟
ماسٹرجی چپ چاپ چلتے رہے۔ دیکھو بارش ہونے لگی ہے فٹا فٹ سائیکل پہ بیٹھ جاؤ ورنہ زبردستی بٹھا کر گھر چھوڑ دونگا۔ چلو بیٹھو۔ انہوں نےاسکو سائیکل پہ بٹھا کر سائیکل دوڑا دی۔ بارش اب پورے زور سے برس رہی تھی۔
ماسٹرجی سائیکل اپنے گھر کی طرف گھما کر لے آئے اور جلدی سے اتر کر وردہ کو سہارا دیے اندر لے آئے۔
کون ہے؟؟؟ ماسٹرجی کی اماں نے لیٹے لیٹے ہی آواز لگائی۔
اماں ہم ہیں۔ بارش ہورہی ہے بہت تیز۔ ماسٹر جی صحن میں سائیکل کھڑی کرکے وردہ کیساتھ پڑھائی والے کمرے میں آگئے۔
گہرے بادلوں کیوجہ سے آسمان پہ اندھیرا چھا گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے مغرب کے آس پاس کاوقت ہو۔ اسکے زخموں میں جلن سے ہونے لگی تھی۔
وہ چپ چاپ کرسی پہ بیٹھ گئی۔
آج ٹیوشن کی بھی چھٹی ہوگی۔ آرام کرلینا. جب تمہارے پھپھا آئیں گے لینے تو چلی جانا بارش رکنے پہ۔
ماسٹرجی نے اسکا بیگ ایک طرف رکھا اور اندر سے ایک چادر لاکر اسکو اوڑھا دی۔
پھر خود لالٹین جلا کر اسکے پاس بیٹھ گئے۔
زخم میں جلن مچ رہی ہوگی۔ انہوں نے اسکا پائنچہ اٹھا کر گھٹنے کا زخم دیکھا۔ پٹی گیلی ہوگئی تھی اور سرخ اور مٹیالی سی دوا پتلی سی لکیر بناتی ٹانگ پہ بہ رہی تھی۔
بارش سے حبس ہوگیا ہے۔ رکو ابھی آیا۔ ماسٹرجی اندر گئے اور گیلے کپڑے اتار کر دھوتی بنیان پہنے واپس لوٹ آئے۔
واپس آکر انہوں نے لالٹین اسکو دیا اور پٹی اتار کر اسکے گھٹنے پہ دوا لگانے لگے۔
آپکی اماں کیوں لیٹی ہیں وہاں؟؟ اس نے سی سی کرتے ہوئے پوچھا۔
نمونیہ ہوگیا انکو۔ اور پھیپڑوں میں پانی آگیا ہے۔
اسلئے لیٹی ہیں۔
وہ افسوس کی شکل بنا کر چپ ہوگئی۔

زور سے پٹی باندھو۔ دم نہیں ہے کیا؟؟ وہ چہکی۔ پاپا تو ایکدم کس کر باندھتے تھے میرے۔

ہم پاپا تو نہیں ہیں۔ ماسٹرجی آہستہ سے اسکی طرف دیکھ کر بولے۔

پھر کیا ہو؟؟ وہ مسکرائی۔

ویسے بھی پٹی بندھوانے آئی ہو کیا؟؟؟

تو پھر کس لئے لائے ہو؟؟ اس نے ویسی ہی مسکراہٹ کیساتھ انکو دیکھا۔
پٹی کی گرہ باندھ کر انہوں نے اسکا پاؤں اپنی گود سے اتار کر ایک طرف رکھا اور اسکو کندھے سے پکڑ کر کھڑا کرلیا۔
ایک ہاتھ سے اسکا کندھا اور دوسرے ہاتھ سے آہستگی سے انہوں نے اسکے بالوں کی پونی کھول دی۔ ہلکے گیلے بال اسکے شانوں پہ بکھر گئے۔ وردہ کا چہرہ تاریک ہوگیا۔ اب کوئی رام لال شاید بچانے نہ آئے۔ وہ چپ چاپ خود کو ماسٹرجی کے حوالے کرچکی تھی۔ انہوں اسکو گود میں لیکر پاس پڑی سنگل چارپائی پہ ڈالا اور کرتہ ایک طرف پھینک کر لالٹین بجھا دیا۔
اسکے ذہن میں آخری چیز ایک منظر تھا۔ چاندنی رات، جب وہ دروازے کی جھری میں سے گھر کے اندرونی کمرے کو تاک رہی تھی۔ اندر لالٹین جل رہا تھا اور دو سایے سے حرکت کررہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد وہ ازار باندھ کر ماسٹرجی کے پہلو میں پڑی تھی۔ سوچیں بے نور ہوچکی تھیں اور ذہن تھک ہار کر کسی کونے میں جا چھپا تھا۔
بس رہ گیا تھا تو اسکا سردی کا احساس جو ماسٹرجی کے بدن سے لپٹنے میں کم ہوگیا تھا۔

***
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
اب بارش رک گئی تھی۔ مطلع صاف ہورہا تھا۔ماسٹرجی چپ چاپ اٹھے اور ایک کونے میں رکھی دودھ کی پتیلی اٹھا کر صحن کے کونے میں چلے گئے۔ سلیب کے نیچے کچے چولہے پہ کافی دیر محنت کرکے آگ جلائی اور پتیلی اس پہ رکھ دی۔ دودھ گرم کرکے انہوں نے اسکو دیا اور ایک پیالے میں خود بھی لیکر بیٹھ گئے۔
وہ ابھی اس سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔
رکو میں دیکھتا ہوں۔ اس نے جلدی سے دوپٹہ اٹھا کر ٹھیک کرکے اوڑھ لیا۔
باہر پھپھا برساتی پہنے چھاتا تان کر کھڑے تھے۔
آئیے نوفل بھائی صاحب۔ آپکی بیٹی گرگئی تھی اسکول کے باہر۔ بارش ہورہی تھی تو میں اپنے گھر لے آیا۔ پٹی کردی اور... انہوں نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا۔ وہ نیچے دیکھنے لگی۔
ٹھیک ہے بہت بہت شکریہ ماسٹرجی۔ آپ نے اتنا کیا۔ میں اسکوٹر پہ ہوں اسکو لے جاؤنگا۔ انہوں نے مسکرا کر کہا اور وردہ کو سہارے سے اٹھایا اسکا بیگ کندھے پہ ٹانگ کر اسکوٹر اسٹارٹ کی اور روانہ ہوگئے۔
ماسٹر جی نے چپ چاپ گیٹ بند کیا اور واپس آکر اسکا بچا ہوا دودھ پی کر پیالیاں سمیٹیں اور اٹھ گئے۔

***

کہاں گرگئی تھیں افف ادھر آؤ۔ یہ کیا کرلیا۔ اور یہ خون کے دھبے۔ ارے رکو تو سہی۔ پھپھو اسکو روکتی رہ گئیں اور وہ جلدی سے باتھ روم چلی گئی۔
اففف جلنن۔ اور یہ کیا خوون۔ اسکی آنکھوں میں ستارے جھلملانے لگے۔ اب کیا ہوگا۔ پتہ نہیں زندہ بھی بچونگی یا نہیں۔ اس نے شاور کھولا اور جلدی جلدی پہلے بدن سے خون صاف کیا اور پھر کپڑوِ سے دھبے مٹائے۔ پھپھو سے کپڑے منگوا کر تبدیل کیے اور لڑھکھڑاتی آکر بستر پہ ڈھیر ہوگئی۔

(جاری ہے۔)​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
بارھویں قسط"

پھپھو چپ چاپ کمرے میں آگئیں۔ لائٹ جلا کر وہ آکر اسکے پاس بیٹھ گئیں۔
کیا ہوا ہے دکھاؤ۔ کدھر چوٹ لگی ہے۔ انہوں نے اسکا بازو آنکھوں پہ سے ہٹا کر دیکھنا چاہا۔ افف تمہیں تو بخار ہورہا ہے۔
اجی سنتے ہو؟؟؟ یہاں آؤ بخار ہورہا ہے گڑیا کو۔ دیکھو چوٹ بھی نہیں دکھا رہی۔ انہوں نے پھپھا کو آواز دی۔ وہ فوراً دوڑے چلے آئے۔ دونوں میاں بیوی اسکا جلتا ہوا ماتھا اور سوجی آنکھیں دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ لیکن وہ لیٹے رہنے پہ ہی بضد تھی۔

کافی دیر سمجھانے بجھانے پہ اس نے انکو گھٹنے اور ہتھیلیاں دکھائیں۔
گھٹنوں پہ پٹیاں لپٹی ہوئی تھیں اور ہتھیلیوں اور کہنیوں پہ دوا کی ہلکی ہلکی زردی لگی ہوئی تھی۔

یہ ماسٹرجی نے پٹی کی ہے؟؟؟ پھپھو کے پوچھنے پہ وہ سر ہلا کر رہ گئی۔ پھپھو نے ایک نظر اٹھا کر شوہر کو دیکھا۔
وہ باہر نکل گئے تو وہ اسکے کندھے اور کمر پہ چوٹ کے بارے میں پوچھنے لگیں۔
چلو ٹھیک ہے ابھی یہ گولی کھاؤ۔ شام تک بارش رکتی ہے تو اپنے پھپھا کیساتھ گاؤں کے حکیم کے پاس چلی جانا۔ انہوں نے اسکو گولی دیکر واپس لٹا دیا۔
اب آرام کرو تم۔ وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں اور پھر اٹھ کر بتی بجھاتی ہوئی باہر نکل گئیں۔
وررہ کا دل چاہا کہ وہ انکو روک لے ، انکو اپنے پاس بٹھالے ، دھاڑیں مار کر روئے۔ لیکن نیا تجربہ کرکے نیا زخم لگانے سے کیا فائدہ۔ اور زخم نہ بھی لگے تو کہنے سننے میں بھی زخم مزید ادھڑ جاتے ہیں۔
چپ چاپ لیٹے لیٹے دو گرم قطرے اسکی آنکھوں سے گالوں پہ بہ گئے۔
تھوڑی دیر بعد بخار اترا تو پھپھا اسکو دوبارہ ڈریسنگ کرانے کیلئے حکیم کے پاس لے گئے۔
پہلے تو انہوں نے اسکی چوٹوں پہ دوا لگا کر پٹی کی۔ کمر اور کندھے پہ لگانے کا مرہم دیا۔
پھر اسکی کلائی تھام کر بیٹھ گئے۔
نبض دیکھتے ہوئے انہوں نے اسکو غور سے دیکھا۔
وہ نظریں نیچے کیے بیٹھی رہی۔

نئی شادی ہوئی ہے؟؟؟ حکیم صاحب نسخے کا پرچہ اٹھاتے ہوئے بڑبڑائے۔
نن نہیں۔ اس نے گھبرا کر پھپھا کو دیکھا جو نجانے کن سوچوں میں گم تھے۔
حکیم صاحب اسکی "نہیں" پہ چونک کر اسکو دیکھنے لگے۔
لیکن بی بی یہ علامات تو....
آپ دوا دیدیں بس۔ نہیں ہوئی شادی میری۔ گر گئی تھی تو بخار ہوگیا تھا۔ اس نے تڑخ کر جواب دیا تو پھپھا کو اچانک ہوش آگیا۔
ارے حکیم جی میری بھتیجی ہے، شہر سے آئی ہے۔ آج اسکول سے آتے ہوئے گرگئی کسی گڑھے میں۔
حکیم صاحب سوچوں میں گم پھپھا کی بات پہ بس سر ہلا کر رہ گئے۔
دوا لیکر وردہ پھپھا کے سہارے گھر تک پہنچی۔ کیا کہ رہے تھے حکیم صاحب؟؟؟
کیوں غصہ کیا تھا تم نے؟؟؟ پھپھا نے چلتے چلتے اس سے پوچھا۔
دو دفعہ پوچھ لیا انہوں نے کہ شادی شدہ ہو کیا۔
اسلئے زور سے کہا تھا میں نے۔ وہ دوبارہ غصے کی شکل بناتے ہوئے بولی۔
اچھا اچھا خیر چھوڑو۔ اونچا سننے لگے ہونگے حکیم صاحب۔ پھپھا نے بات نمٹائی۔
لو، جلدی چلو اندر بارش پھر شروع ہوگئی ہے۔ لگتا ہے اسکول بھی تمہارا بند ہی رہے گا۔ انہوں نے جلدی سے سہارا دیکر اسکو گھر کے اندر کیا اور چھتری اسی کو دیکر خود صحن میں رکھے گملے سیٹ کرنے لگے۔

***
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
رات بھر برستی بارش جب صبح بھی نہ رکی تو رام لال کے گھر کے صحن میں پانی بھرنے لگا۔
شنکتلا نے بالٹی اٹھائی اور رام لال کیساتھ مل کر پانی باہر پھینکنے لگی۔
اس دفعہ نالی ضرور بنوالیں گے۔ شنکتلا نے مگا بھر کر بالٹی میں ڈالتے ہوئے سوچا۔ آسمان اتنا کیوں رو رہا ہے؟؟ نصیب تو میرے خراب ہیں۔ اس نے برستے پانی کو صحن میں جمع ہوتے دیکھ کر کوسا۔
چل بھئی تو باقی پانی پھینک میں ناشتہ بنالوں۔ رام لال نے ہاں میں سر ہلایا اور وہ اندر سے برتن اور آٹا لاکر کونے میں چولہے پہ مصروف ہوگئی۔
ذرا دیر بعد سجن بھی پہنچ گیا۔ آجاؤ ناشتہ کرلو۔ شنکتلا نے اسکو بھی بلالیا۔
ارے نہیں موسی آپ لوگ کھاؤ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ سجن لاکھ بہانے بناتا لیکن وہ بھی شنکتلا کیا جو مان جاتی۔ اس نے سجن کو بٹھا کر ہی دم لیا۔ ناشتہ کرتے ہی سجن نے اسکول بند ہونے کی نوید سنائی اور رام لال کو ساتھ لیکر نکل گیا۔ جلد ہی وہ دونوں "اڈے" پہ بیٹھے بھیگ رہے تھے۔
ہاں اپنے پھپھا کیساتھ کل وہ حکیم کے دواخانے سے نکلی تھی۔ میں نے دیکھا تھا۔ سجن نے اسکو بتایا۔
شاید وہ گرگئی بارش کے پانی میں۔
کیا بک رہا ہے؟؟ کیسے گری وہ؟؟ رام لال ایکدم اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
میرا اندازہ ہے کہ گرگئی۔ تبھی تو اسکے ہاتھ پہ پٹی بندھی تھی۔ اور نوفل انکل کے سہارے جارہی تھی گھر۔
لگتا ہے اسکول نہیں آئے گی کچھ دن۔
کیا سوچنے لگا رے؟؟؟ سجن نے اسکو کھویا ہوا دیکھ کر جھنجوڑا۔
یار سجن، ہمیں اسکو دیکھنے جانا چاہئیے۔ رام لال کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔
اور اگر وہ کالو بھی آیا ہوا تو؟؟؟ سجن نے سوال کیا۔
تو کیا ہوا؟؟؟ طبیعت ہی تو پوچھنی ہے۔ واپس آجائیں گے پوچھ کر۔ چل ابھی چلتے ہیں۔ ماسٹرجی بستر سے بھی نہ اٹھے ہونگے ابھی تو۔ رام لال کپڑے جھاڑ کر اٹھتے ہوئے بولا۔
ارے نہیں میں نے اسکو خود دیکھا ہے۔ بازار میں گھوم رہا تھا اپنا نیلا رومال کندھے پہ ڈال کر۔ سجن نے منہ بنایا۔

نیلا رومال!! رام لال کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا جیسے اسکی نیلے رومال سے کوئی یاد جڑی ہو۔
اب چل بھی ارسطو کے دادا۔ سجن نے اسکو کھینچا اور اسکے کاندھے پہ ہاتھ رکھے وردہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
بیمار کیلئے کچھ لیکر جاتے ہیں۔ اور تو ایسے ہی منہ اٹھائے جارہا ہے۔
تو کیا ہوا؟؟؟ کونسی وہ محبوبہ ہے میری۔ ہر دفعہ ذلے کروادیتی ہے۔ اب نوفل انکل سے مار کھلوائے گی۔ میں کچھ نہیں لیجانے والا۔
چل ٹھیک ہے۔ میں ہی بیاہ کرلونگا سجن نے بیزاری سے کندھے اچکاتے ہوئے پاس سے ایک خود رو پھول توڑ لیا۔
تیری جان نہ لے لوں اگر تو ایسا کچھ سوچے۔ رام لال پھول پہ جھپٹا اور جھٹ چھین کر پاؤں میں مسل دیا۔
ارے ارے۔ کونسا یہی دے رہا تھا۔ میرا پھول، ارے یہ تو ویسے ہی توڑ لیا تھا۔ سجن ہنستے ہوئے دوہرا ہونے لگا۔
یعنی تو پھول توڑ کر مجھ سے مذاق کررہا تھا۔ رام لال کھسیانی ہنسی ہنسا۔
چل چپ کر آگیا تیری سیتا کا گھر۔ رام لال نے یہ سنتے ہی کالر سیدھا کرکے ہیرو اسٹائل میں آگیا۔ روئیں کو ہی تاؤ دیا۔ اور صاف تھوڑی کو خشخشی داڑھی کیطرح رگڑتے ہوئے دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ دوسری دستک پہ ہی نوفل صاحب کا چہرہ نظر آیا۔ رام لال گاؤں میں پڑھاکو بچہ مشہور تھا اسلئے انکا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا. ارے رام لال بیٹا تم!! آؤ آؤ۔ رام لال نے جلدی سے آگے بڑھ کر انکے پاؤں چھوئے اور اندر آگیا۔ سجن کو بھی انہوں نے خوشدلی سے سلام دعا کرکے اندر بلالیا۔
اندر آتے ہی ایک بھیانک منظر سامنے تھا۔ ماسٹرجی صحن میں کرسی پہ بیٹھے تھے۔ وردہ پلنگ پہ گرم چادر میں لپٹی بیٹھی تھی۔ اسکی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ ماسٹرجی آہستہ آہستہ کچھ بول رہے تھے۔
دیکھ دیکھ کیسے چپک رہا ہے۔ سجن نے اسکو کہنی ماری۔ ہاں۔ وہ بھی ایسے بات کررہی ہے جیسے پتنی ہو اسکو۔ دل تو چاہ رہا ہے اٹھا کر گھر لیجاؤں۔ مجھ میں کمی کیا ہے۔ رام لال وہیں کھڑے ہوکر دانت پیسنے لگا۔
بیٹا ہمت کی۔ تجھ میں ہمت کی کمی ہے۔ آیا بڑا سلمان خان. سجن اسکو دوبارہ کہنی مار کر آگے بڑھا تو وردہ کی نگاہ ان پہ پڑ گئی۔​
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
اس نے چونک کر چادر سمیٹی۔ ماسٹر جی بھی چونک کر گھومے۔ ارے سجن رام لال۔ بیٹا تم کب آئے؟؟؟
انہوں نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پہ سجائی۔ ماسٹرجی سنا تھا وردہ کی طبیعت سہی نہیں ہے تو بس آگئے دیکھنے کو۔ رام لال نے قدرے زور سے کہا تو سجن نے حیرت سے اسکو دیکھا۔ اسکول میں تو آواز نہیں نکلتی ماسٹرجی کے سامنے۔ وہ سوچ کر مسکرا دیا۔
اتنے میں پھپھا بھی آگئے۔ ارے بیٹا بیٹھو نا تم لوگ۔ انہوں نے خود ہی کونے میں رکھا دوسرا پلنگ کھینچا اور رام لال اور سجن اس پہ بیٹھ گئے۔
رام لال جان بوجھ کر وردہ کے پلنگ سے ٹک کر بیٹھ گیا۔ اسکو اگرچہ ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکی سانسیں حلق میں اٹک رہی ہوں۔ اور دماغ کہیں گرگیا ہو۔ ایکطرف وردہ سے گھبرا رہا تھا اتو دوسری طرف ماسٹرجی کے سامنے اسکی محبت کھل گئی تھی۔ وردہ نے ہی تو شکایت لگائی تھی۔ وہ چپ چاپ نظریں نیچے کیے وردہ کے دائیں طرف دوسرے پلنگ کے کنارے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھا تھا۔
وردہ نے اسکی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ٹھیک ہے سر۔ آپ جائیے میں دوا لیکر سوجاؤنگی۔ یہ پھل لانے کی کیا ضرورت تھی۔ وردہ کی آواز پہ رام لال نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک چھوٹی سی تھیلی میں چار سیب پڑے تھے۔
ہنہہ فقیر کی نسل... یہ الفاظ ماسٹرجی کیلئے سوچ کر وہ خود ہی ہنس دیا۔
ماسٹرجی کھانا کھا کر جائیے گا۔ بس تیار ہے۔ پھپھا نے آکر اعلان کیا۔
ارے نہیں صاحب بس چائے ہی کافی ہے۔ بس وردہ کی طبیعت پوچھنے آیا تھا۔ آج اسکول ویسے ہی بند تھا اور کل اس نے چھٹی کرلینی ہے۔ تو سوچا دو دن نہیں آئے گی مل کر آجاؤں۔ جلدی آجانا اسکول، سنا تم نے؟؟؟ انہوں نے وردہ کو مخاطب کیا۔
اس نے جواب میں خالی آنکھوں کیساتھ ہاں میں سر ہلا دیا۔ ٹھیک ہے نوفل صاحب، میں چلتا ہوں۔ تم بھی چلو رامو اور سجن۔ پھر ٹیوشن لیٹ آؤ گے تم۔
ماسٹرجی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولے تو رام لال اور سجن کے ساتھ وردہ نے بھی پھپھا کیطرف دیکھا۔ جیسے وہ تینوں ہی وہاں بیٹھنے پہ مصر ہوں۔
ارے ماسٹرجی بچے چائے پی کر آجائیں گے بس۔ وردہ بھی سونے ہی جارہی ہے ویسے۔ پھپھا نے مسکرا کر مسئلہ حل کیا اور ماسٹرجی کو دروازے تک چھوڑنے چلے گئے۔
ماسٹرجی کے جانے کے بعد رام لال آہستہ سے اسکے پلنگ پہ جا بیٹھا۔ وہ بے حس منہ موڑے بیٹھی رہی۔

سنو وردہ!! اس نے اسکو متوجہ کرنا چاہا۔ وہ منہ موڑے بیٹھی رہی۔
سنو میری بات۔ رام لال نے اسکی چادر کو چھوا تو وہ غصے سے اسکو گھورنے لگی۔

کیسی طبیعت ہے تمہاری؟؟ کہاں چوٹ لگی تھی؟؟
وردہ کی سرخ آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ پپڑی جمے نیلے ہونٹ ہلے لیکن آواز نہ نکلی۔ رام لال کو ایسا لگا جیسے وردہ نے کچھ بولنا چاہا لیکن آواز نے ساتھ نہ دیا ہو۔
 
.
Moderator
2,376
1,840
143
سجن بھی کرسی گھسیٹ کر قریب ہی آ بیٹھا۔

رام لال نے وردہ کے ہاتھ پہ نظر ڈالی۔ ہتھیلی پہ چھلنے کا واضح نشان تھا۔ اور کہنی پہ پٹی بندھی ہوئی تھی۔
رام لال نے اسکی ہتھیلی کی پشت پہ ہاتھ رکھ دیا۔ بولو وردہ کیسی ہو تم؟؟؟ اس نے نرمی سے کہا۔

کل تم اسکول کے بعد کہاں تھے؟؟؟ وردہ آہستگی سے بولی۔
کیا؟؟ وہ کیوں؟؟ رام لال اور سجن دونوں نے حیران ہوکر اسکو دیکھا۔

کل کہاں دفع ہوگئے تھے؟؟؟ اس نے قدرے زور سے کہا۔
ہم۔ ہم تو گھر چلے گئے تھے۔ رام لال نے سجن کیطرف دیکھا۔
ہاں تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟؟ سجن بھی اسکی طرف متوجہ ہوگیا۔
اس دن نہیں آئے تو اب کس منہ سے آئے ہو؟؟؟ یہ کہ کر وردہ نے اسکے منہ پہ ایک تھپڑ لگا دیا۔ رام لال سکتے میں رہ گیا۔
وردہ منہ پھیر کر اندر چلی گئی۔ دو لمحے گال سہلانے کے بعد اس نے سجن کی طرف دیکھا۔ اسکی آنکھوں میں بھی حیرت تھی۔
اس نے رام لال کو اٹھنے کا اشارہ کیا اور دونوں چپ چاپ نکلنے لگے۔
ارے بیٹا چائے تو پی کر جاؤ۔ پھپھا نے انکو روکنا چاہا۔
نہیں انکل بس ہم کو جانا ہے۔ اسکی ماں انتظار کررہی ہوگی۔ طبیعت پوچھنے بنا بتائے آگئے ہم۔ سجن نے بہانہ کرکے جان چھڑائی اور رام لال کو لیکر وہاں سے نکل آیا۔
چپ چاپ چلتے ہوئے وہ دونوں ٹیلے پہ پہنچ گئے۔

یہ اچانک اسکو کیا ہوگیا تھا؟؟؟ وہاں پہنچتے ہی سجن کو تھپڑ یاد آگیا۔
رام لال خاموش رہا۔
تھپڑ کھا کر تو بھی وردہ بن گیا کیا؟؟؟ اس نے رام لال کو جھنجوڑا تو وہ سوچوں کے بھنور سے باہر نکلا۔
کیا پوچھ رہا تھا؟؟؟
یہی کہ اس چڑیل کو اچانک کیا ہوگیا تھا جو تھپڑ ماردیا اپنے خصم کو۔
سجن یار ایسا تو نہیں وہ گری نہ ہو کسی نے گرا دیا ہو۔ اور اسکو لگا ہو میں آجاؤنگا بچانے اسکو۔ رام لال خلا میں گھورتے ہوئے بولا۔

اسکول سے باہر تو کالو کیساتھ اچھی طرح نکلی تھی۔ ہنستے مسکراتے۔ ہم دونوں نے ہی دیکھا تھا۔ سجن نے اس خیال کی تردید کی۔

ایسا تو نہیں کہ ماسٹرجی نے کچھ کرنا چاہا ہو لیکن اسکے منع کرنے پہ اسکو دھکا دیدیا ہو کسی جگہ، لیکن پھر وہ آج اسکے پاس ملنے نہ آتے۔ رام لال کا ذہن الجھ کر رہ گیا تھا۔ اگر وردہ کیساتھ برا نہیں ہوا تھا تو اس نے تھپڑ کیوں مارا؟؟
اور یہ بھی کہ اگر وہ رام لال کو کچھ سمجھتی ہے تو اظہار کیوں نہیں کرتی؟؟ کیا اسکو بھی ڈر لگ رہا ہے؟؟
انہی سوچوں میں گم رام لال اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
ایک چماٹ کھا کر دماغ گھوم گیا ہے اسکا تو۔ سجن اسکو دیکھ کر بڑبڑایا اور پھر اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔

***
 

Top